الحدیث : فرشتوں کی تکوینی ذمہ داریاں اور مہربانیاں

علامہ محمد معراج الاسلام

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اَلْمَلَائِکَةُ تُصَلِّیْ عَلٰی اَحَدِکُمْ مَادَامَ فِیْ مُصَلَّاهُ مَالَمْ يُحْدِثْ اَللّٰهُمَّ اغْفِرْلَه اَللَّهُمَّ ارْحَمْهُ.

(بخاری، 1 : 90)

’’تم میں سے جب تک کوئی اپنے مصلی پر بیٹھا ہوتا ہے، فرشتے اس کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں : اے اللہ! اسے بخش دے، اے اللہ! اس پر رحم فرما۔ یہاں تک کہ اس کا وضو ٹوٹ جائے‘‘۔

شرح و تفصیل

اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں فرشتے ایک اہم ترین مخلوق ہیں جو اپنی اطاعت و فرمانبرداری، پاکیزگی و طہارت اور ذکر و تسبیح کی وجہ سے بڑا ممتاز مقام رکھتے ہیں اور اپنے وجود کے سبب سب میں نمایاں ہیں۔ اس مخلوق کے خاص افراد اللہ تعالٰی کی طرف سے بڑے بڑے اہم کاموں پر مامور ہیں اور بڑی بڑی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں نظام کائنات ان ہی کے سپرد ہے۔ جنہیں یہ احساس ذمہ داری کے ساتھ نباہ رہے ہیں اور کوئی ایسا کام نہیں کرتے جو منشائے الہٰی کے خلاف ہو۔

لَايَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَااَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَايُوْمَرُوْنَ.

’’اللہ تعالٰی جو حکم دے اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم دیا جائے وہ بجا لاتے ہیں‘‘۔

چنانچہ افلاک کے سیاروں اور ان کی طلوع و غروب کا نظام، دن اور رات کا اختلاف، ہواؤں کی گردش، سمندروں کا مدوجزر، موسموں کا تغیر و تبدل، آندھی طوفان، سیلاب اور بارش اور ہر قسم کے دیگر امور کی تدبیر اور نگرانی ان ہی کے سپرد ہے اور وہ بڑی ذمہ داری سے یہ ساری خدمات انجام دے رہے ہیں۔ زمین پر جب اللہ کے نیک بندے، اللہ کے دین کے احیاء و قیام کے لئے کفار کے ساتھ مصروف جہاد ہوں تو یہی فرشتے ان کی مدد بھی کرتے ہیں۔ ماؤں کو بچے عطا کرتے اور پیدائش کی بشارت دیتے ہیں، پیٹوں ہی میں ان کی تقدیریں لکھتے ہیں۔ ہوائیں چلاتے اور بارش نازل کرتے ہیں، نیک بندوں کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں اور ان کے دلوں میں اطاعت و بندگی اور نیکی کا شوق ڈالتے ہیں اور جب تک کوئی شخص گناہوں کی گندگی سے بچتا رہے، اسے نورانی پروں کے سائے میں رکھتے ہیں اور ان کے لئے دعائے خیر اور استغفار کرتے ہیں۔

اس کائنات کا نظم و نسق اور نظر نہ آنے والا نظام جن فرشتوں کے سپرد ہے اور وہ اس نظام کو چلانے میں تیزی سے سرگرم عمل ہیں اور بڑی تندہی اور فرمانبرداری سے ساری خدمات سرانجام دے رہے ہیں، انہیں ’’مُدَبِّرَاتِ اَمْر‘‘ کہتے ہیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں ان کی خدمات کی تفصیلات یہ ہیں :

فرشتوں کے سپرد خدمات و فرائض کی تفصیلات

قرآن و حدیث میں بیان کئے گئے اسرار و حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ زمین سے لے کر آسمان تک اور انسان اور اس کے افعال و اعمال سے لے کر کائنات کے تکوینی امور تک ہر چیز فرشتوں کے سپرد ہے۔ وہ اللہ تعالٰی کے حکم سے ایک خاص نظام کے تحت سب کچھ انجام دیتے اور ہر قسم کے احکام بجا لاتے ہیں۔ ان خدمات و فرائض کا ایک مجمل خاکہ یہ ہے :

1۔ نظام تولید

ہر چیز کا خالق اللہ تعالٰی ہے، اولاد دینا اسی کا کام ہے، وہ جس طرح چاہتا ہے، مادہ کے پیٹ میں بیٹا یا بیٹی پیدا کرتا اور اسے مخصوص شکل و شباہت عطا کرتا ہے قرآن پاک میں ہے :

1. يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشَاءُ الذُّكُورَO أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَن يَشَاءُ عَقِيمًا إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌO

(الشوریٰ : 49، 50)

’’جسے چاہتا ہے لڑکیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے لڑکے بخشتا ہےo یا انہیں بیٹے اور بیٹیاں (دونوں) جمع فرماتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ ہی بنا دیتا ہے، بیشک وہ خوب جاننے والا بڑی قدرت والا ہےo‘‘۔

2. هُوَ الَّذِي يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحَامِ كَيْفَ يَشَاءُ

(آل عمران : 6)

’’وہی ہے جو (ماؤں کے) رحموں میں تمہاری صورتیں جس طرح چاہتا ہے بناتا ہے، ‘‘۔

لیکن یہ سارے کام فرشتوں کے سپرد ہیں۔ وہی پیٹ میں انسان کی صورت گری کرتے، بیٹا یا بیٹی بناتے اور بانجھ ہو تو اسے اولاد کی بشارت دیتے یا پھر خاص حالات میں اولاد عطا کرتے ہیں۔ چنانچہ جب یہ فیصلہ کر دیا گیا کہ کنواری مریم علیہا السلام کو بیٹا عطا کرنا ہے تو فرشتے ہی کو مامور کیا گیا حضرت جبریل علیہ السلام ان کے پاس پہنچے اور بتایا :

إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاَمًا زَكِيًّاO

(مريم : 19)

’’میں تو فقط تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں، (اس لئے آیا ہوں) کہ میں تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروںo‘‘۔

حدیث پاک میں ہے جب پیٹ میں بچے کے اندر روح پھونک دی جاتی ہے تو فرشتہ پوچھتا ہے یااللہ لڑکا بناؤں یا لڑکی، نیک لکھوں یا شقی؟ عمر کتنی لکھوں؟ رزق کتنا لکھوں؟

2۔ نظام موت و حیات

زندہ کرنا اور موت دینا سب اللہ کے دست قدرت میں ہے۔

وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌO الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ

(الملک : 1، 2)

’’وہ ہر چیز پر قادر ہے جس نے موت و حیات کو پیدا کیا ہے‘‘۔

فَاَحْيَاکُمْ ثُمَّ يُمِيْتُکُمْ.

(البقرة : 28)

’’اس نے تم کو زندگی دی ہے پھر وہی تمہیں موت دے گا‘‘۔

لیکن موت کا یہ نظام بھی فرشتوں کے سپرد ہے وہی وقت آنے پر موت دیتے اور روح قبض کرتے ہیں۔

قُلْ يَتَوَفَّاکُمْ مَلَکُ الْمَوْتِ.

(السجده : 11)

’’آپ فرمادیں، تمہیں ملک الموت وفات دیتا ہے‘‘۔

3۔ قومِ لوط پر عذاب کے لئے نزول

قوم لوط اپنی گندی حرکات اور مکروہ کلچر کی وجہ سے ایک بدچلن اور ناپاک قوم تھی۔ جس کے خبیث اعمال کی بدولت اسے صفحہ ہستی سے مٹا دینے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ چنانچہ اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے فرشتے ہی مقرر کئے گئے انہیں یہ فرض سونپا گیا کہ وہ ان کی ہنستی کھیلتی بستی الٹ دیں چنانچہ جب وہ یہ فریضہ انجام دینے کے لئے آئے تو سب سے پہلے جناب خلیل اللہ ابراہیم علیہ السلام کے پاس قیام پذیر ہوئے اور انہیں بتایا :

اِنَّا مُهْلِکُوْا اَهْلَ هٰذِهِ الْقَرْيَةِ.

(العنکبوت : 31)

’’ہم اس بستی کو تباہ کرنے آئے ہیں‘‘۔

ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا : اس بستی میں اللہ کے نبی حضرت لوط علیہ السلام اور دیگر اہل ایمان بھی ہیں۔

انہوں نے بتایا :

نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَن فِيهَا لَنُنَجِّيَنَّهُ وَأَهْلَهُ.

(العنکبوت : 32)

’’اس میں بسنے والے اہل ایمان کو ہم خوب جانتے ہیں ہم انہیں صاف بچالیں گے‘‘۔

پھر ان فرشتوں نے جناب ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اہلیہ حضرت سارہ علیہا السلام کو بیٹے کی بشارت دی۔

وَبَشَّرُوْهُ بِغُلَامٍ عَلِيْمٍ.

(الذاريات : 28)

یعنی انہوں نے اسے ایک دانا بچے کے تولد کی خوشخبری سنائی۔

4۔ دیگر تکوینی ذمہ داریاں

فرشتے جو دیگر تکوینی امور انجام دیتے ہیں ان کی ایک جھلک یہ ہے۔

  1. شب قدر میں حضرت جبریل امین علیہ السلام دیگر فرشتوں کے ہمراہ زمین پر تشریف لاتے ہیں اور عبادت گزاروں سے ملتے ہیں۔
  2. جو لوگ نماز کے انتظار میں بیٹھے ہوں، فرشتے ان کے لئے استغفار کرتے ہیں۔
  3. فرشتے انسان کے اعمال لکھنے پر مقرر ہیں، مساجد میں لوگوں کی حاضری لگاتے ہیں اور صبح و شام ان کی حاضری کے نتائج اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں۔
  4. آندھی، طوفان، بارش، سیلاب اور دیگر آفاتِ سماوی و ارضی لانے پر مامور ہیں، قدرت کی طرف سے جو حکم ملتا ہے، وہ اسی وقت بجا لاتے ہیں۔
  5. کراماً کاتبین انسان کی روزمرہ ڈائری اور منکر نکیر قبر کے حساب کتاب پر مامور ہیں۔

5۔ میدان بدر میں فرشتوں کی مدد

جنگ بدر مسلمانوں کے لئے فیصلہ کن حیثیت رکھتی تھی، ان کی بقاء کا انحصار اسی میں کامیابی پر تھا، اس لئے اللہ پاک نے ان سے وعدہ فرمایا :

إِذْ تَقُولُ لِلْمُؤْمِنِينَ أَلَن يَكْفِيَكُمْ أَن يُمِدَّكُمْ رَبُّكُم بِثَلاَثَةِ آلاَفٍ مِّنَ الْمَلآئِكَةِ مُـنْـزَلِينَO بَلَى إِن تَصْبِرُواْ وَتَتَّقُواْ وَيَأْتُوكُم مِّن فَوْرِهِمْ هَـذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُم بِخَمْسَةِ آلاَفٍ مِّنَ الْمَلآئِكَةِ مُسَوِّمِينَO

(آل عمران : 124، 125)

’’جب آپ مسلمانوں سے فرما رہے تھے کہ کیا تمہارے لئے یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تین ہزار اتارے ہوئے فرشتوں کے ذریعے تمہاری مدد فرمائےo ہاں اگر تم صبر کرتے رہو اور پرہیزگاری قائم رکھو اور وہ (کفّار) تم پر اسی وقت (پورے) جوش سے حملہ آور ہو جائیں تو تمہارا رب پانچ ہزار نشان والے فرشتوں کے ذریعے تمہاری مدد فرمائے گاo‘‘۔

اسی جنگ میں اہل مکہ میدان بدر پر پہلے ہی آکر قابض ہوگئے تھے اور پانی کے علاوہ سخت زمین پر بھی قبضہ کر لیا تھا جہاں وہ آسانی کے ساتھ چلتے پھرتے تھے۔ جب مسلمان بدر میں پہنچے تو ان کے حصے میں ریتلی زمین آئی جس میں پاؤں دھنس جاتے تھے۔ چلتے وقت بہت دشواری پیش آتی تھی پھر پانی کی قلت نے انہیں اور پریشان کردیا، اس موقعہ پر شیطان نے ان کے دلوں میں وسوسہ ڈالا کہ تم خود کو حق پر سمجھتے ہو حالانکہ صورت حال یہ ہے کہ پینے کے لئے پانی اور چلنے کے لئے جگہ بھی تمہارے پاس نہیں؟

اس نظام سے وابستہ کارکن فرشتوں کو اسی وقت حکم ہوا اور وحی کی گئی کہ ایمان داروں کی مدد کو پہنچو اور ان کی ڈھارس بندھانے اور انہیں ثابت قدم رکھنے کے لئے حرکت میں آجاؤ۔

اس مدد کا ظہور اس طرح ہوا کہ تلواروں کے سائے میں مسلمانوں کو نیند آگئی اور اس نیند کا اتنا غلبہ ہوا کہ آگے پیچھے کا ہوش نہ رہا، اس گہری اور پرسکون نیند کے اثر سے وہ تازہ دم ہوگئے۔ پھر بارش ہوئی تو ان کی طرف کی ریتلی زمین سخت ہوگئی اور کافروں کی جگہ دلدل بن گئی۔ لوگوں نے کھلی آنکھوں سے فرشتوں کی مدد کے مظاہرے دیکھے، اس طرح فرشتوں کی عملی مدد سے شیطان کے پھیلائے ہوئے جال اور وسوسے کے سب تار و پود بکھر گئے۔ قرآن پاک میں اس کا ذکر اس آیت میں ہے :

إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعَاسَ أَمَنَةً مِّنْهُ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُم مِّن السَّمَاءِ مَاءً لِّيُطَهِّرَكُم بِهِ وَيُذْهِبَ عَنكُمْ رِجْزَ الشَّيْطَانِ وَلِيَرْبِطَ عَلَى قُلُوبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدَامَO إِذْ يُوحِي رَبُّكَ إِلَى الْمَلآئِكَةِ أَنِّي مَعَكُمْ فَثَبِّتُواْ الَّذِينَ آمَنُواْ.

(الانفال : 11، 12)

’’جب اس نے اپنی طرف سے (تمہیں) راحت و سکون (فراہم کرنے) کے لئے تم پر غنودگی طاری فرما دی اور تم پر آسمان سے پانی اتارا تاکہ اس کے ذریعے تمہیں (ظاہری و باطنی) طہارت عطا فرما دے اور تم سے شیطان (کے باطل وسوسوں) کی نجاست کو دور کردے اور تمہارے دلوں کو (قوتِ یقین) سے مضبوط کر دے اور اس سے تمہارے قدم (خوب) جما دےo (اے حبیبِ مکرم! اپنے اعزاز کا وہ منظر بھی یاد کیجئے) جب آپ کے رب نے فرشتوں کو پیغام بھیجا کہ (اَصحابِ رسول کی مدد کے لئے) میں (بھی) تمہارے ساتھ ہوں، سو تم (بشارت و نصرت کے ذریعے) ایمان والوں کو ثابت قدم رکھو‘‘۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما راوی ہیں :

بَيْنَمَا رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ يَوْمَئِذٍ يَشْتَدُّ فِی اِثْرِ رَجُلٍ مِنَ الْمُشْرِکِيْنَ اَمَامَه اذْ سَمِعَ ضَرْبَةً بِالسَّوْطِ فَوْقَه وَصَوْتَ الْفَارِسِ فَوْقَه يَقُوْلُ اَقْدِمْ حَيْزُوْم فَنَظَرَ اِلَی الْمُشْرِکِ اَمَامَه فَخَرَّ مُسْتَلْقِيًا فَنَظَرَ اِلَيْهِ فَاِذَا هُوَ قَدْ خُطِمَ وَشُقِّ وَجْهُه کَضَرْبَةِ السَّوْطِ فَاخْضَرَّ ذَالِکَ اَجْمَعَ فَجَاءَ الْاَنْصَارِیُّ فَحَدَّثَ ذَالِکَ رَسُوْلَ اللّٰهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ صَدَقْتَ ذَالِکَ مِنْ مَدَدِ السَّمَاءِ الثَّالِثَهِ.

(مسلم2 : 93)

’’اس روز ایک مسلمان ایک مشرک کا تعاقب کر رہا تھا تو اس نے اچانک ایک غیبی آواز سنی جیسے کوئی زبردست سوار اپنے گھوڑے کو آگے بڑھنے کا حکم دے رہا ہو کہ اے حیزوم آگے بڑھ! پھر کوڑے کی آواز سنی۔ اسی لمحے مجاہد کے وار سے پہلے ہی وہ کافر بری طرح گرگیا، اس کا چہرہ لہو لہان ہوگیا، ناک پچک گئی، کوڑے کی ضرب سے سر پھٹ گیا۔ وہ انصاری حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور سارا واقعہ بیان کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے سچ کہا یہ تیسرے آسمان کے فرشتوں کی مدد تھی‘‘۔

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ

رَايْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمَ اُحُدٍ وَمَعَه رَجُلَانِ يُقَاتِلَانِ عَنْهُ عَلَيْهِمَا ثِيَابٌ بِيْضٌ کَاَشَدِّ الْقِتَالِ مَا رَاَيْتُهُمَا قَبْلُ وَلَا بَعْدُ.

(بخاری، کتاب المغازی)

’’میں نے احد کے دن دو شخصوں کو سفید لباس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ دیکھا میں نے انہیں اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا اور نہ اس کے بعد دیکھا وہ بڑی بہادری سے لڑ رہے تھے‘‘۔

غرضیکہ یہ فرشتے نظام کائنات کے کارکن ہیں اور اللہ تعالٰی کے حکم کے مطابق اسے چلا رہے ہیں۔ رب تعالیٰ نے انہیں مختلف خدمات انجام دینے پر مامور فرمایا ہوا ہے اور طرح طرح کی ذمہ داریاں سونپی ہوئی ہیں۔ زندگی، پیدائش، موت و حیات، راحت و مصیبت، تندرستی و بیماری، خوشی و غم، عزت و ذلت، اقتدار و افلاس اور جو تغیر بھی وقوع پذیر ہوتا ہے وہ اللہ کے حکم سے ان کارکن فرشتوں کے ہاتھوں وقوع میں آتا ہے اور جو اللہ چاہتا ہے وہ ہو جاتا ہے۔ مذکورہ آیات و احادیث میں ان ہی کارکن فرشتوں کی ذمہ داریوں کا ذکر کیا گیا ہے۔