الفقہ : آپ کے دینی مسائل

مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

مسائل و آداب قربانی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

مَاعَمِلَ ابْنُ اٰدَمَ يَوْمَ النَّحْرِ عملاً اَحَبَّ اِلَی اللّٰهِ مِنْ هَراقَةِ الدَّمِواِنَّه لَيَاْتِیْ يَوْمَ الْقِيٰمَهِ بِقُرُوْنِهَا وَاشعارِهَا وَاَظْلاَفِهَا وَاِنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَ اللّٰهِ بِمَکَانٍ قَبْلَ اَنْ يَّقَعَ علی الارض فَطِيْبُوْا بِهَا نَفْسًا.

(سنن ابن ماجه، جلد2، باب ثواب الاضحيه، رقم : 1045)

’’ابن آدم نے قربانی کے دن خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ خدا کے حضور پسندیدہ کوئی کام نہیں کیا اور بے شک وہ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور بے شک خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں مقام قبول میں پہنچ جاتا ہے۔ لہذا خوش دلی سے قربانی کیا کرو‘‘۔

آداب قربانی

٭ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، جب عشرہ ذوالحجہ داخل ہو اور تم میں سے کوئی قربانی کا اردہ کرے۔

فلا يمس شعره وبشره شيئا وفی رواية فلا ياخذن شعرا ولا يقلمن ظفرا.

’’وہ ہر گز اپنے چہرے اور سر کے بالوں کو نہ ترشوائے اور ہر گز اپنے ناخن نہ کاٹے‘‘۔ (صحیح مسلم، جلد3، باب نھی من دخل علیہ عشر ذی الحجۃ، رقم : 1977)

٭ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا۔

ان نستشرف العين والاذنين ولا نضحی بعوراء ولا مقابلة ولا مدابرة ولا شرقاء ولا خرقاء.

’’کہ ہم قربانی کے جانوروں کی آنکھ، کان اچھی طرح دیکھیں اور ایسا جانور ذبح نہ کریں، جس کا کان آگے سے یا پیچھے سے کٹا ہو، نہ کان کٹا نہ جس کے کان میں سوراخ ہو‘‘۔(سنن ابی داؤد، جلد3، باب ما یکرہو من الضحایا، رقم : 2804)

جس جانور کا پورا کان یا زیادہ حصہ کٹا ہوا ہے اس کی قربانی جائز نہیں۔

لا تصح بمتطوعة الاذن اوالذنب او الالية اذا ذهب اکثر من ثلثها اما اذا بقی ثلثا فانها تصح.

’’جس جانور کا کان یا دم یا چکی (سرین) کٹے ہوئے ہوں اس کی قربانی درست نہیں۔ جبکہ ایک تہائی سے زیادہ حصہ کٹا ہو، اگر دو تہائی باقی ہے اور صرف تہائی چلا گیا اس کی قربانی جائز ہے‘‘۔

(هدايه مع فتح القدير ص 433 ج 8، شامی ج 2 ص 322)

٭ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ

نها رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم يضحی باعضب القرن والاذن.

(سنن ابن ماجه، جلد2، باب من اشتری اضحية صحيحة، رقم : 3145)

’’سینگ ٹوٹے، کان کٹے کی قربانی نہ کریں‘‘۔

٭ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کن جانوروں کی قربانی نہیں کرنی چاہئے فرمایا کہ چار قسم کے جانور کی قربانی نہ کی جائے :

العرجاء البين طلعها. ایسا کمزور جو چلنے سے معذور ہو۔

العورالبين عورها. کانا، جس کا کانا پن ظاہر ہو۔

والمريضة البين مرضها. بیمار، جس کی بیماری ظاہر ہو۔

العجفاء التی لاتنقی. ایسا کمزور جس کی ہڈیوں میں گورا نہ ہو۔ (ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ )

٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔

من وجد سعة فلم يضح فلا يقربن مصلنا.

’’جو طاقت رکھتا ہو اور قربانی نہ دے وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے‘‘۔ (مسند احمد، ابن ماجہ)

قربانی کا جانور

قربانی کاجانور تین میں سے کسی ایک جنس کا ہونا ضروری ہے۔ 1۔ بکری، 2۔ اونٹ، 3۔گائے۔ ہر جنس میں اس کی نوع داخل ہے۔ مذکر، مونث، خصی، غیر خصی سب کی قربانی جائز ہے۔ بھیڑ اور دنبہ بکری کی جنس میں اور بھینس گائے کی جنس میں شامل ہے۔ کسی وحشی جانور کی قربانی جائز نہیں۔

جانوروں کی عمریں

اونٹ پانچ سال کا۔۔۔ گائے، بھینس دو سال کی۔۔۔ بکری، بھیڑ ایک سال کی۔۔۔ یہ عمر کم از کم حد ہے۔ اس سے کم عمر کے جانور کی قربانی جائز نہیں۔ زیادہ عمر ہو تو بہتر ہے۔ ہاں دنبہ یا بھیڑ کا چھ ماہ کا بچہ اگر اتنا موٹا تازہ ہوکہ دیکھنے میں سال بھر کا نظر آئے تو اس کی قربانی بھی جائز ہے۔ (درمختار، ہدایہ، : 4494۔ عالمگیری، : 2975)

ذبح کرنے سے پہلے جانور کو گھاس ڈالیں اور پانی پلائیں۔ ایک جانور کے سامنے دوسرے کو ذبح نہ کریں۔ جانور کے سامنے چھری کو تیز نہ کریں۔ چھری خوب تیز ہو۔ جانور کو بائیں پہلو پر اس طرح لٹائیں کہ قبلہ کو اس کا منہ ہو اور اپنا داہنا پاؤں اس کے پہلو پر رکھ کر چھری چلائیں۔ اس طرح ذبح کرے کہ چاروں رگیں کٹ جائیں یا کم از کم تین رگیں کٹ جائیں۔ اس سے زیادہ نہ کاٹیں کہ چھری گردن کے مہرہ تک پہنچ جائے۔ جب تک یقین نہ ہوجائے کہ روح نکل گئی اس وقت تک نہ چمڑہ اتاریں نہ اعضاء کاٹے جائیں۔

قربانی کے گوشت کی درست تقسیم

1۔ قربانی کے گوشت کے لئے بہتر ہے کہ تین حصے کٹے جائیں۔ ایک اپنے لئے، دوسرا رشتہ داروں کے لئے، تیسرا عام لوگوں کے لئے ہو خواہ زیادہ۔ یہاں تک کہ ضروریات کے پیش نظر تمام گوشت بھی کسی ایک قسم میں صرف کر سکتا ہے۔ البتہ ایثار کا یہی تو سنہرا موقع و ذریعہ ہے۔ لطف کن لطف، کہ بیگانہ شود حلقہ بگوش۔

2۔ آپ قربانی دیتے وقت جس کی نیت کریں گے اسی کی طرف سے ہو جائے گی۔ اپنی طرف سے، کسی اور کی طرف سے۔ زندہ کی طرف سے۔ مرحوم کی طرف سے۔

اگر آپ صاحب نصاب ہیں تو پہلے اپنی قربانی دیں پھر کسی اور کی طرف سے۔ صاحب نصاب نہیں تو جس کی طرف سے چاہیں دے سکتے ہیں۔ قربانی خواہ زندہ کی طرف سے ہو، خواہ مرحوم کی طرف سے، اس کے گوشت وغیرہ کے وہی احکام ہیں جو مذکور ہوئے۔

حلال جانوروں کے حرام اجزاء

مايحرم اکله من اجزاء الحيوان سبعة. الدم المسفوح، والذکرو، الانثيان، والقبل، والغدة، والمثانة، والمرأدة.

حلال جانور کے حرام اجزاء (اعضاء) سات ہیں۔ بہتا خون، آلہ تناسل، دونوں خصیے (کپورے) مونث کی آگے والی پیشاب گاہ، غدود یعنی گلٹی، مثانہ، پتا۔

( عالمگيری : 2905)

صلائے عام : چٹ پٹے گردے کپورے کھانے والے حضرات حلال و حرام میں تمیز کیا کریں۔

جانوروں کی صفات

قربانی ایک ہدیہ ہے جو بندہ اپنے رب کے حضور پیش کرتا ہے۔ لہذا درج ذیل امور کو پیش نظر رکھے۔

1۔ ادائیگی نہایت خلوص و محبت سے ہو۔ خوشدلی اور جذبات محبت و اطاعت کے ساتھ ہو، جبرو کراہت کا شائبہ تک نہ ہو۔

2۔ جانور صحت مند خوبصورت اور قیمتی ہوں۔

3۔ ہر قسم کے عیوب و نقائص سے پاک ہوں۔ کانے، اندھے، لنگڑے، کمزور کان کٹے اور عیب دار نہ ہوں تاکہ رزق کريم والطيبات من الرزق. باعزت اور عمدہ رزق دینے والے مالک کے نام پر عمدہ جانور قربان ہوں۔ مخلوق خدا کو عمدہ کھانا میسر ہو۔ مال کی قربانی ہو۔ یہی نیکی اور یہی تقوی ہے، جو قربانی کا مقصود اصلی ہے۔

(عالمگيری : 2975، هدايه : 4474)

قربانی کی حکمتیں اور فوائد

1۔ خداداد نعمتوں پر شکر ادا کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کے حکم پر خلق خدا کے لئے بہترین کھانے کا بندوبست کریں۔

2۔ قربانی دینے والے ہی حق کی حمایت اور ظلم کی بیخ کنی کے لئے وقت آنے پر تن من دھن وطن اولاد سب کچھ قربان کر سکتے ہیں اور یہی جذبہ قوموں کی باوقار زندگی کا ضامن ہے۔

3۔ مغرب پرست حکمرانوں نے جو ظالمانہ استحصالی نظام ہم پر مسلط کر رکھا ہے، اس نے غریب کو باعزت زندگی سے محروم کر رکھا ہے۔ اشیاء خورد و نوش اتنی مہنگی کر دی گئیں کہ اللہ کی نعمتوں کے دروازے عوام پر بند ہیں۔ اسلام کا نام لینے والے حکمرانوں نے اپنے عوام کے منہ سے آخری لقمہ بھی چھین لیا ہے۔ رب العالمین کی ربوبیت اور رحمۃ اللعالمین کی رحمت کو امراء نے غصب کر رکھا ہے۔ اس کو رب کائنات کے بجائے رب اغنیاء اور رحمت عالمیاں کے بجائے رحمت سرمایہ داران تک محدود کر چھوڑا ہے حالانکہ قرآن کاحکم ہے۔ ولا تفسدوا فی الارض. اور زمین میں فساد برپا نہ کرو۔

یہ لوگ اللہ کا پیدا کیا ہوا وافر رزق ذخیرہ اندوزی کے ذریعہ سٹاک کرتے اور کھلے بازار میں آنے سے روکتے اور مصنوعی قلت پیدا کر کے آئے دن بھاؤ بڑھاتے رہتے ہیں۔ جس سے عوام بنیادی ضروریات سے محروم ہوتے جاتے ہیں اور بڑے لوگ اپنی تجوریاں بھرتے رہتے ہیں۔ قربانی کا شرعی حکم ان انسان نما درندوں کو مذموم حرکت سے باز رکھنے کا سبق دیتا ہے تاکہ غریب آدمی بھی اللہ کی نعمت (گوشت) کھا سکے۔ پس اسلامی نظام کو جہاں بھی نافذ العمل کرو گے، ظلم کے اندھیروں میں تمہیں روشنی کی کرن وہیں نظر آنے لگے گی۔ ایک قربانی پر عمل درآمد نے کم از کم تین دن کئی کروڑ محروم لوگوں کو اعلٰی کھانا کھلا دیا۔

4۔ قربانی کی کھالوں سے بیشمار رفاہی خیراتی ادارے چلتے ہیں۔ غریبوں یتیموں اور بیواؤں کی مالی پریشانیاں دور ہوتی ہیں۔

5۔ سرمایہ داروں کے دل سے دولت کی محبت کم اور خالق کی محبت اور خلق پر شفقت کے جذبات بڑھتے ہیں اور یہی انسانیت کا اصل جوہر ہے۔

6۔ قربانی کی نیت سے ہزاروں لوگ مال مویشی پالتے اور وقت آنے پر اپنی محنت کا پھل پاتے ہیں۔ اس سے ان کی سال بھر کی روزی کا سامان ہوجاتا اس کی کھال بال اور ہڈیاں قومی آمدنی میں اضافے کا سبب ہیں۔ الغرض جس پہلو سے دیکھا جائے قربانی اپنے اندر دنیا و آخرت کے بیشمار فوائد و فضائل رکھتی ہے۔