دورہ صحیح مسلم شریف (نشست سوم۔II)

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

حدیث کے ضعیف و موضوع ہونے کا مدار
جامع مسجد گھمگول شریف (برمنگھم UK)

ترتیب و تدوین : محمد یوسف منہاجین

منہاج القرآن انٹرنیشنل برمنگھم کے زیر اہتمام دورہ صحیح البخاری کی عالمی سطح پر بے حد پذیرائی اور کامیابی کو مدنظر رکھتے ہوئے اکتوبر 2007ء میں منہاج القرآن انٹرنیشنل برمنگھم برطانیہ کے زیر اہتمام جامع مسجد گھمگول شریف میں دورہ صحیح مسلم (کتاب الایمان تا کتاب الصلاۃ) کے عنوان سے تین روزہ خصوصی علمی، فکری اور تربیتی پانچ نشستوں کا اہتمام کیا گیا۔ جن میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے سینکڑوں علماء و مشائخ، طلبہ اور ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے احباب سے اصول الحدیث، علم الحدیث، امام مسلم کے مقام و مرتبے اور صحیح مسلم کے حوالے سے عقائد، فقہ، تصوف اور دیگر موضوعات پر گفتگو فرمائی۔ دورہ کی پہلی نشست (شائع شدہ ماہنامہ منہاج القرآن مئی، جون، جولائی08ء) میں گفتگو کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے علمی کلچر کے احیاء کی ضرورت، تاریخِ اصولِ حدیث، علم الحدیث و اصول الحدیث میں امام اعظم کا مقام و مرتبہ، ائمہ حدیث کے ہاں احادیث کی قبولیت و عدم قبولیت کا معیار، بدعت کیا ہے؟ اہلِ بدعت کون ہیں؟ علمی روایات اور ائمہ کا طرزِ عمل، علمی اختلاف کی حقیقت اور ائمہ کرام کا طرزِ عمل، حقیقتِ اجماع، شیوۂ علم اور دیگر موضوعات پر تفصیلی روشنی ڈالی۔
دورہ صحیح مسلم کی دوسری نشست (شائع شدہ ماہنامہ منہاج القرآن اگست، ستمبر08ء) میں اصطلاحاتِ حدیث کا قرآن و حدیث سے استدلال و استنباط، حدیث ضعیف کے حوالے سے اعتراضات کا علمی محاکمہ، ضعیف اور موضوع کے اختلاط اور حدیث غیر صحیح کی وضاحت فرمائی، دورہ صحیح مسلم کی تیسری نشست کے اول حصہ میں صحتِ حدیث کے مدار کے حوالہ سے تحقیقی گفتگو فرمائی۔ اس تیسری نشست کا حصہ دوم نذرِ قارئین ہے۔ (مرتب)

مطالعہ حدیث کے دوران ہذا حدیث ضعیف کے الفاظ پڑھ کر اس حدیث کے مضمون کو رد کر دینا اور قبول کرنے سے انکار کرنا اصول حدیث میں سب سے بڑی جہالت ہے۔ اس لئے کہ حدیث ضعیف کا یہ مطلب ہی نہیں کہ اٹھا کر رد کر دیا جائے۔ ضعیف کا مطلب یہ ہے کہ اس کی سند میں کوئی کمزوری ہے۔ تحقیق کریں کہ کس درجہ کی کمزوری ہے، یہ کمزوری خفیف بھی ہو سکتی ہے اور شدید بھی ہو سکتی ہے۔ کسی سند کو ضعیف بنانے کے 15 اسباب ہیں اور ان میں سے صرف 2 آخری اسباب (متروک اور موضوع) ایسے ہیں جو حدیث کو مردود کرتے ہیں۔ 13 اسباب ایسے ہیں جو قابل علاج ہیں اور اس علاج کے ذریعے حدیث مقبول کے درجے میں چلی جاتی ہے۔

’’ضعیف‘‘ یا ’’موضوع‘ کے حکم کا اطلاق

مصابیح السنہ پر امام ابن حجر عسقلانی کے زمانے میں ایک عالم دین نے ان کی روایت کردہ مصابیح کی بعض احادیث کو امام ابن جوزی اور دیگر ائمہ کا حوالہ دے کر رد کیا کہ یہ احادیث موضوع ہیں لہذا ہم انہیں تسلیم نہیں کرتے۔ انہوں نے امام ابن حجر عسقلانی کو ایک خط لکھا آپ نے اس کے جواب میں ایک رسالہ (خط) لکھا جو مشکوۃ المصابیح نسخہ ہندیہ جلد5، مطبوعہ دار ابن حزم (بیروت)، مکتبہ التوبہ (الریاض، سعودی عرب) کے آخر پر موجود ہے چونکہ یہ مشکوۃ المصابیح کا حصہ نہیں اس لئے مشکوۃ کے ہر نسخہ میں موجود نہیں ہے۔ اس رسالہ (خط) کا نام ’’اَجْوِبَه اَلْحَافِظْ اِبْنُ الْحَجر العَسْقَلانِیْ عَنْ اَحَادِيْثِ الْمَصَابِيْح‘‘ ہے۔ اس رسالہ میں امام ابن حجر عسقلانی نے مصابیح السنہ پر وارد ہونے والے سوالات کے جوابات ہیں۔ مصابیح السنہ کی بعض احادیث کو موضوع قرار دیتے ہوئے اعتراض کرنے والے صاحب نے مختلف ائمہ کرام کے اقوال درج کئے ہیں کہ فلاں فلاں ائمہ نے ان احادیث کو موضوع قرار دیا ہے۔ جن احادیث کو موضوع قرار دیا گیا ان میں مناقب حضرت علی رضی اللہ عنہ، باب الحب فی الله والبغض فی الله اور مختلف احادیث شامل ہیں۔ امام عسقلانی نے ان سوالات کے جوابات اپنے اس رسالے میں دیئے۔

جو مضمون میں نے آپ کے سامنے ضعیف، حسن، صحیح، موضوع کے حوالے سے بیان کیا اگر اس کو امام ابن حجر عسقلانی کی زبان میں پڑھنا ہو تو یہ مکمل رسالہ علمی اعتبار سے بڑی عجیب و مفید اور عظیم الشان تحریر کا حامل ہے، جس میں امام ابن حجر عسقلانی نے ان تمام احادیث کے حوالے سے مکمل حوالہ جات کے ساتھ گفتگو کی۔

اگر کسی محدث نے کسی حدیث کے حوالے سے لکھا کہ یہ حدیث ضعیف ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس حدیث کا متن ضعیف ہے یا متن قبول نہ ہوگا۔ محدث کا کسی حدیث کو ضعیف لکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی سند میں ضعف ہے اور اس سے بھی مراد صرف وہ ایک سند ہے جس کو آپ اس وقت اس حدیث کے متن کے حوالے سے پڑھ رہے ہیں۔ اس حدیث کو ضعیف لکھنے والا اپنا کوئی حکم اور فیصلہ باقی اسانید کی نسبت نہیں دے رہا۔ ہو سکتا ہے کہ ان کی سند کے مطابق وہ حدیث دیگر کتب حدیث میں ائمہ حدیث نے اپنی اپنی اسانید اور طرق کے ساتھ بااختلاف الفاظ بھی روایت کی ہو اور وہ حدیث صحیح یا حسن ہو۔ وہ ضعیف ہونے کا حکم صرف اس ایک سند پر دے رہا ہے، اعتراض کرنے والوں نے باقی احادیث کی کتنی کتب کھنگال کر دیکھ لی ہیں کہ کیا یہ احادیث دیگر طرق و اسانید سے بھی کتابوں میں آئی ہیں؟ اور اگر آئی ہیں تو ان اسانید کا درجہ کیا ہے؟ یہ فن امام ابن حجر عسقلانی نے اپنے اس رسالہ میں بتایا ہے کہ جب آپ تمام احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے بحث کرتے ہیں تو کسی حدیث کو کلیتاً ضعیف یا موضوع قرار دیتے ہوئے اجتناب کریں گے۔

امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ اگر اس سند کی بنیاد پر تم اس حدیث کو ضعیف قرار دے رہے ہو تو یہ قوی سند کے ساتھ فلاں کتاب میں بھی آئی ہے۔۔۔ یہ سند ضعیف ہے تو یہ زیادہ احسن، جید سند کے ساتھ فلاں کتاب میں آئی ہے۔۔۔ اگر یہ سند موضوع بن گئی ہے، اس میں کوئی راوی کذاب آگیا ہے تو یہی مضمونِ حدیث دیگر طرق اور حسن و صحیح اسانید کے ساتھ بھی آیا ہے۔

حتی کہ اگر کسی حدیث کے آگے موضوع کا لفظ بھی لکھ دیا جائے تو محدثین نے کہا ہے کہ وہ موضوع بھی سند کے اعتبار سے ہے، متن کے اعتبار سے نہیں۔ جب تک کہ یہ ثابت نہ ہو کہ یہ متناً بھی موضوع ہے۔ وہ مضمون بااختلاف الفاظ دوسرے قوی اور مقبول طریق کے ساتھ آگیا تو ایک کا موضوع لکھنا کوئی معنی نہیں رکھے گا۔

امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں :

قَدِاتَّفَقُوْا عَلٰی اَنَّه لَا يُعْمَلُ بِالْمَوْضُوْع.

’’اس پر اتفاق ہے کہ اگر حدیث موضوع ہو تو اس پر عمل نہیں کیا جائے گا‘‘۔

وَاِنَّمَا يُعْمَلُ بِالضَّعِيِفِ فِی الْفَضَائِلِ وَفِی التَّرْغِيْبِ وَالتَّرْهِيْب.

’’حدیث ضعیف ہو تو فضائل، ترغیب اور ترہیب میں اس حدیث پر عمل کیا جائے گا‘‘۔

سائل کو مخاطب کرتے ہوئے امام ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ تم نے فلاں حدیث کو موضوع لکھ دیا ہے، تم نے تو صرف ایک سند دیکھی ہے، یہ حدیث ائمۃ الاسلام اور حفاظ نے اپنے اپنے طریق سے الگ روایت کی ہے وہ تو تم نے دیکھی نہیں۔ آپ مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ فلاں حدیث جس کو تم نے موضوع قرار دیا، اس کو ابو داؤد نے سنن میں، ترمذی نے جامع میں، ابن خزیمہ نے صحیح میں اور حاکم نے مستدرک میں الگ سند سے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ صحیح الاسناد ہے۔

امام ابن حجر نے اس طرح تمام احادیث پر بحث کی ہے اور ہر جگہ یہ نکتہ سمجھایا ہے کہ صرف ایک سند پر جو حکم ہے اس کا اطلاق تمام اسانید پر کرتے ہوئے فیصلہ نہیں کرتے۔

ابن جوزی رحمۃ اللہ اور امام حاکم رحمۃ اللہ کے احکاماتِ حدیث

علامہ ابن جوزی کا احادیث کو ’’موضوع‘‘ بنانے میں بہت فراخدلی سے کام لیتے ہیں۔ اسی طرح امام حاکم پر اعتراض ہے کہ احادیث کو صحیح قرار دینے میں ان کا ہاتھ بڑا کھلا ہے، ہر حدیث بڑی آسانی کے ساتھ کو صحیح قرار دے دیتے ہیں۔

کل اصول حدیث کے متن میں یہ بات درج ہے اور امام سیوطی نے بھی اسے بیان کیا کہ اگر کسی حدیث کو امام حاکم، صاحب مستدرک صحیح الاسناد لکھ دیں اور اسی حدیث کو امام ابن الجوزی جرح کر کے موضوع یا مردود لکھ دیں تو اس کا مطلب ہے کہ اس حدیث کا اصل درجہ ’’حسن‘‘ ہے اور وہ مقبول ہوگی۔ ایک نے ایک انتہا لکھ دی اور دوسرے نے دوسری انتہا لکھ دی مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ اوسط درجے میں ’’حسن‘‘ کہلائے گی۔

امام ابن حجر عسقلانی ایک اور حدیث پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ائمہ ستہ میں سے ہر ایک کی اپنی تحقیق ہے اور ہر ایک کے رواۃ الگ ہیں۔ کسی نے اگر حکم دیا کہ فلاں حدیث ضعیف ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کے رواۃ اور اس کے رجال پر مبنی سند کا حکم دیا ہے۔ دوسرے امام نے اپنے طریق و سند سے وہی حدیث لی ہے، وہ ضعیف نہ ہوگی بلکہ صحیح یا حسن بھی ہو سکتی ہے۔ اس کی وضاحت امام حجر عسقلانی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی منقبت و شان میں ذیل میں بیان کردہ احادیث کو موضوع قرار دینے پر اس کی جرح کرتے ہوئے کی۔

’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد نبوی میں کھلنے والے سب دروازے بند کروادیئے سوائے سیدنا علی شیر خدا کے گھر کے دروازے کے، حتی کہ اگر انہیں غسل کی بھی حاجت ہوتی تو اس صورت میں بھی انہیں مسجد نبوی سے گزرنے کی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دی تھی‘‘۔

(جامع ترمذی، ابواب المناقب، ج 5، ص641، رقم : 3732)

اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اَنَا دَارُالْحِکْمَتِ وَعَلِیُّ بَابُهَا.

’’میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے‘‘۔

ان دو احادیث کو بیان کرنے کے بعد امام عسقلانی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ترمذی اور ابن ماجہ نے جب اپنے طریق سے روایت کی تو کہا کہ یہ ’’ضعیف‘‘ ہے۔۔۔ ابوداؤد، ترمذی اور ابن ماجہ نے دوسرے طریق سے روایت کی تو اس کو ’’حسن‘‘ کہا۔۔۔ پھر اس کے بعد ایک اور طریق سے امام ابوداؤد، امام ترمذی، امام ابن ماجہ نے روایت کی تو کہا یہ ’’صحیح‘‘ ہے۔

شور مچانے والے نے تو صرف ضعیف کا لفظ دیکھا اور اُچھل کود شروع کر دی، ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا، لوگوں کو بہکا دیا، اسے نہ آگے کا پتہ اور نہ پیچھے کا، اسے معلوم ہی نہیں کہ یہ حدیث کتنے طرق سے آئی ہے۔۔۔ کس کس امام نے روایت کی ہے۔۔۔ کتنی اسانید سے آئی ہے۔۔۔ اور ہر سند کا درجہ کیا ہے؟۔۔۔ کسی حدیث کے آخر میں اگر ضعیف لکھا ہے تو یہ صرف اس ایک سند کا حکم ہے ممکن ہے کہ یہ 15 مختلف اسانید سے الگ الگ کتب میں آئی ہو۔

آپ غور کریں کہ درج بالا حدیث کو ائمہ حدیث ایک سند کے ساتھ ضعیف، دوسری سند کے ساتھ حسن اور تیسری سند کے ساتھ صحیح قرار دے رہے ہیں۔ یہ ان ائمہ کرام کا امت پر احسان ہے کہ ایک ایک حدیث کی چھان بین کرنے کے بعد اس کا حکم لکھ دیا ہے۔ پس محدث اور محقق عالم کا کام یہ ہے کہ وہ کسی ایک قول یا سند پر فیصلہ کرکے ہنگامہ کھڑا نہ کرے بلکہ وسعت نظر کے ساتھ کتابوں کو کھنگالے۔

المختصر یہ کہ امام عسقلانی اوپر بیان کردہ حدیث کی 18 اسانید اور ان کا حکم (جو مختلف کتب میں ائمہ حدیث نے بیان کیا) ذکر کرنے کے بعد سائل کو فرماتے ہیں کہ میں نے صحاح ستہ آپ کے سامنے رکھ دی ہے اور ان سب میں ائمہ صحاح ستہ نے اس حدیث کے مضامین کے کچھ حصے مختلف جگہوں پر مختلف طرق سے روایت کئے ہیں اور ان میں سے 14 طرق امام ترمذی کے ہاں ہیں۔۔۔ 2 طرق امام نسائی کے ہاں ہیں۔۔۔ اور 6 ابن ماجہ کے ہیں۔ علاوہ ازیں امام احمد بن حنبل، امام خزیمہ اور ابن حبان نے اس پر کلام کیا اور امام حاکم نے اس کو اپنی صحیح میں بیان کیا اور پھر امام عسقلانی کہتے ہیں :

وَلَمْ يَتَبَيَّنْ اَنَّ فِيْهَا حَدِيْثًا وَاحِدًا اَلْحُکْمُ عَلَيْهِ بِالْوَضْعِ

’’کسی ایک امام نے بھی ان حادیث پر موضوع ہونے کا حکم نہیں لگایا‘‘۔

امام ابن جوزی کتب حدیث کے مصنف نہیں ہیں بلکہ جرح و تعدیل کے ایک امام ہیں، انہوں نے موضوع لکھ دیا جبکہ ان سے پہلے جو ائمہ تھے کسی ایک نے بھی اس پر موضوع کا حکم نہیں لگایا۔ کیا ایک امامِ جرح و تعدیل کی بات کو صحیح تسلیم کریں گے یا ان سے پہلے والے بیسیوں ائمہ حدیث کی بات کو مانیں گے جن کی 18 اسانید کو میں نے آپ کے سامنے بیان کردیا۔

اس ساری گفتگو کا مقصد آپ کے سامنے ایک نمونہ رکھنا تھا کہ کس طرح حدیث ضعیف حتی کہ کہیں موضوع لکھے جانے کے باوجود اس کا حکم کیا ہوتا ہے کہ اگر موضوع بھی لکھا گیا تو اس کا مطلب ہے کہ اس سند کے ساتھ موضوع ہے۔ ممکن ہے دوسری سند کے ساتھ وہ مقبول ہو۔

ضعیف کی اقسام

ضعیف کی 15 اقسام ہیں چونکہ ان کی تعریفات و احکام اصولِ حدیث کی کتب میں تفصیلاً موجود ہیں اس لئے یہاں پر مختصراً تعریف کرتے ہوئے باب کو آگے بڑھائیں گے۔

ان میں سے درج ذیل 5 اقسام ایسی ہیں جن کا تعلق سند کے اندر اسقاط کے ساتھ ہے۔ کبھی سقط جلی (واضح) ہوگا اور کبھی سقط خفی (پوشیدہ)۔

1. مُعَلَّقْ : سند کی ابتداء میں انقطاع آجائے تو حدیث معلق کہلائے گی۔

2. مُرْسَلْ : اگر آخر سند میں انقطاع آجائے تو حدیث مرسل کہلائے گی۔

3، 4. مَعْدَل و مُنْقَطِعْ : اگر درمیان میں انقطاع آجائے تو معدل یا منقطع کہلائے گی۔

5. مَدَلَّسْ : اگر سقط خفی ہو، واضح پتہ نہ چلے تو مدلس کہلائے گی۔

ان 5 اسباب کو محدثین، حدیث ضعیف کی بحث کرتے ہوئے زیر بحث نہیں لائے بلکہ ان پر الگ بحث کرتے ہیں۔

حدیثِ مُدَلَّسْ اور صحیح بخاری

مُدَلَّسْ حدیث کو روایت کرنے والا مُدَلَّسْ کہلاتا ہے، وہ احباب جو ہر بات پر صحیح بخاری سے حوالہ طلب کرتے ہیں اور اس کے سوا کسی کو نہیں مانتے ان کے لئے عرض کرتا چلوں کہ صحیح بخاری کے 80 راوی ایسے ہیں جو محدثین کے معروف معیار کے مطابق مُدَلِّسِيْن ہیں یعنی جن کے اندر سقط خفی ہے۔ مراد یہ کہ کوئی ایسا انقطاع ہے کہ جس کو آسانی کے ساتھ کوئی عام آدمی پڑھ کر جائزہ نہیں لے سکتا۔ ایک ماہر اور متخصص فی الفن کو ہی پتہ چل سکتا ہے کہ انقطاع کی نوعیت کیا ہے؟۔۔۔ کیا روایت کرنے والا اس کا شاگرد تھا یا نہیں۔۔۔ لقاء و سماع کا ثبوت ہے یا نہیں؟۔۔۔ تدلیس کا لفظ اندھیرے سے ہے۔ مراد آسانی سے انقطاع معلوم نہیں ہوتا۔ اس طرح صحیح مسلم کے رواۃ میں بھی مُدَلِّسِيْن ہیں مگر اس کے باوجود صحیح بخاری و صحیح مسلم کی وہ تمام احادیث جو مُدَلِّسِیْن رواۃ سے روایت ہیں، احادیث صحیح کہلاتی ہیں۔۔۔۔ کیوں؟ اس لئے کہ وہ راوی معتبر، ثقہ احفظ اور صاحب اتقان ہیں۔ نیز امام بخاری کا ان پر اعتماد ہے اور ہمارا امام بخاری پر اعتماد ہے۔ مُدَلِّسِيْن کے درجات مقرر کئے گئے ہیں کہ کس کس درجہ کے لوگ مُدَلِّسِیْن ہیں۔ بخاری شریف میں 39 مُدَلِّسِیْن مرتبہ اولیٰ و ثانیہ کے ہیں۔۔۔ 29 مُدَلِّسِيْن مرتبہ ثالثہ اور رابعہ کے ہیں اور بخاری شریف کی ان کل احادیث کی تعداد جن میں رواۃ مُدَلِّسِيْن ہیں 6272 ہے۔ گویا ساری بخاری شریف میں تدلیس آجاتی ہے یعنی یہ احادیث ایسے رواۃ سے روایت ہیں جن کے ہاں کسی نہ کسی طرف سے تدلیس ہے۔ مدعائے کلام یہ ہے کہ تدلیس ایک ضعف اور کمزوری ہے مگر امام بخاری اس کو خاطر میں نہیں لائے، چونکہ امام بخاری کی تحقیق میں وہ سارے معتبر و معتمد ہیں اور تابعین و تبع تابعین ہیں اس تدلیس کے ضعف کے باوجود وہ تمام احادیث صحاح ہیں۔ سمجھانا مقصود یہ تھا کہ ضعیف ہونے کا کہیں ایک سبب یا ضعیف پڑھ لیا کہ ’’یہ راوی مُدَلَّسْ ہے اور روایت مُدَلَّسْ ہے لہذا حدیث ضعیف ہے ہم نہیں مانتے‘‘ یہ اتنی جاہلانہ، ظالمانہ اور فتنہ پرور بات ہے کہ پورے دین کی بنیاد کو ہلادینے کے مترادف ہے۔ اس طرح تو صحیح بخاری و مسلم شریف بھی نہیں بچ پاتی اور یہ صرف صحیح بخاری و مسلم کی بات نہیں بلکہ مُدَلِّسِيْن وہ جلیل القدر تابعین و تبع تابعین ہیں کہ اگر آپ ان کے نام سنیں تو دنگ رہ جائیں۔

پس ضعف یا اسباب ضعف اتنی ہنگامہ خیز شے نہیں جو بسبب جہالت بنادیا گیا ہے۔ ان چیزوں کے ازالے ہوتے ہیں، ان کے توابع و شواہد لائے گئے ہیں، اگر ایک سند میں تدلیس تھی تو دوسری اسانید جو توابع و شواہد کے طور پر آئی اس میں تدلیس نہ تھی جس کی وجہ سے اسے قبول کرلیا اور وہ صحیح ہوگئی۔ لہذا کسی ایک روایت کے حکم کے اوپر فیصلہ نہیں کرتے۔ ممکن ہے دوسری سند سے اس کا حکم کچھ اور ہو۔

ضعیف کی بقیہ 10 اقسام کا تعلق صرف حدیث کے راویوں کی ذات سے متعلق ہیں۔ ضعیف ہونے کے پانچ اسباب کا تعلق راویوں کی عدالت سے ہے اور پانچ اسباب کا تعلق راویوں کے ضبط سے ہے۔

ضعیف کی پہلی پانچ اقسام کا تعلق سند کے ساتھ ہے۔

دوسری پانچ اقسام کا تعلق راویوں کی عدالت میں کسی کمی کے ساتھ ہے۔

تیسری پانچ اقسام کا تعلق راویوں کے ضبط کے ساتھ ہے۔

ان دس اقسام میں راویوں کی عدالت اور ضبط کے متعلق جو چیزیں ہیں ان میں سے 8 یہ ہیں :

1۔راوی فحش غلطی کرنے والا ہو

2۔ زیادہ غفلت کا مرتکب ہو

3۔ فسق ہو 4۔ وہم ہو

5۔ ثقات کی مخالفت ہو 6۔ حافظہ میں کمزوری ہو

7۔ جہالت ہو (مراد راوی کا حال معلوم نہ ہو)

8۔ اہل بدعت میں سے ہو۔

بدعتی سے روایت کی قبولیت اور اسکی شرائط

راوی کا بدعتی ہونا بھی اسبابِ ضعیف میں سے ہے لیکن اس کے باوجود امام بخاری کا مذہب بھی یہ ہے کہ اگر کوئی اہل بدعت میں سے بھی راوی ہو تو اس کی روایت کو بھی قبول کرتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ وہ اہل بدعت کا قائد، امام، مبلغ نہ ہو، فتنہ پرور نہ ہو۔ صرف اس راوی کا رجحان اس عقیدے کی طرف ہو۔ دوسری شرط یہ کہ اس کے اندر صداقت انتہا درجے کی ہو، عقیدہ دوسرا ہونے کے باوجود وہ جھوٹ کو کفر سمجھتا ہو جیسے بعض خارجی کفر سمجھتے تھے۔ اگر یہ دو شرطیں پائی جائیں تو ایسے راوی سے جس کے عقیدے کا تعلق مرجئہ، شیعہ اور خوارج سے ہے ان سے بھی روایت کی جاسکتی ہے۔

امام بخاری و امام مسلم نے بھی ایسے راوی سے روایات لیں۔ امام بخاری اور امام مسلم کے بعض راوی صحیح بخاری و صحیح مسلم میں شیعہ بھی ہیں۔ امام بخاری کے دادا شیوخ اور اپنے شیوخ کے اندر بھی ایسے موجود ہیں جن پر تشیع کا الزام لگا۔ بخاری کے شیوخ و رواۃ کے اندر بعض راویوں پر شیعہ، خارجی، مرجئہ ہونے کا الزام بھی ہے۔ صرف صحیح بخاری کا شور مچانے والے سمجھیں کہ جو شور وہ دوسرے کا عقیدہ رد کرنے کے لئے مچا رہے ہیں خدانخواستہ کہیں وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ساری احادیث کا نظام تو رد نہیں کر رہے۔ سوچیں! اس جہالت سے توبہ کر لیں، اگر بخاری و مسلم پر اعتماد اٹھ جائے، اور صحاح ستہ پر اعتماد اٹھ جائے تو باقی کیا بچتا ہے؟

امام دار قطنی نے امام بخاری کے 80 سے زائد راویوں پر ان کے مسلک کی بنیاد پر تنقید کی۔ صدیوں بعد امام ابن حجر عسقلانی نے امام بخاری کا دفاع کرتے ہوئے ان اعتراضات کا رد کیا۔ چنانچہ فتح الباری کے مقدمہ ’’ہدیۃ الساری‘‘ میں امام ابن حجر عسقلانی نے 150 سے زائد صفحات پر امام دار قطنی کی طرف سے کئے گئے اعتراضات کے جوابات دیتے ہوئے امام بخاری کا دفاع کیا۔

اصول حدیث کی تمام کتب میں یہ درج ہے کہ اگر ائمہ نے شیعہ، رافضی، مرجئہ یا خوارج میں سے کسی راوی کی روایت کو لیا ہے تو دو شرائط کی وجہ سے لیا ہے کہ وہ راوی عدول تھے، خواہ کچھ بھی ہوجائے وہ جھوٹ نہ بولتے تھے، دوسرے عقیدے کے آدمی کا رجحان عقیدے میں غلط تو ہو سکتا ہے مگر اپنے عمل میں متقی بھی ہو سکتا ہے کہ وہ جھوٹ نہیں بولے گا۔ ائمہ نے ان راویوں سے روایت لیتے ہوئے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ یہ اپنے عقیدے کی تائید میں وضع کرنے والا نہیں ہے۔ جھوٹ نہیں بول سکتا۔۔۔ یا ائمہ نے اِن راویوں سے وہ احادیث لی ہیں جن کا تعلق ان راویوں کے عقیدے کے ساتھ نہ تھا۔ چونکہ اس راوی کو ان احادیث میں غلط بیانی کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ احادیث اس کے عقیدے کے نہ موافقت میں ہیں اور نہ مخالفت میں۔ پس اگر اہل بدعت سے تعلق رکھنے والا کوئی راوی صادق بھی ہو اور عادل بھی اور روایت کردہ احادیث اس کے عقیدے کے متعلق بھی نہ ہو اور نہ روایت کرنے والا اہل بدعت کے اماموں یا قائدین میں سے ہو تو امام بخاری و امام مسلم جیسے ائمہ نے ان راویوں سے روایت لینے میں کوئی حرج نہیں سمجھا۔

ہمارا طرز عمل اور ائمہ کرام پر الزامات کی تاریخ

آج کے دور میں جہالت کا عالم یہ ہے کہ اگر کسی راوی کی نسبت یہ پڑھ لیں کہ اس پر شیعہ یا خارجی ہونے کا الزام ہے تو اس کو قبول ہی نہیں کرتے۔ عامۃ الناس کو چونکہ خبر نہیں ہوتی اس لئے فوراً کہا جاتا ہے کہ یہ شیعہ راوی کی روایات کو بیان کر رہا ہے، لہذا قبول نہ کیا جائے۔ خارجی راوی پر اعتراض کم ہی دیکھنے میں آیا ہے اس لئے کہ کہنے والے خود نئے دور کے خارجی ہیں۔ ایسی باتیں کرنے والے خوارج کا ایک نیا روپ ہیں۔ اگر یہ احباب زیادہ اعتراض کریں گے تو مرجئہ اور شیعہ پر کریں گے۔

تشیع کا الزام کس کس پر نہیں لگا۔۔۔ امام بخاری پر خلقِ قرآن کا الزام لگا اور ان کے استاد امام یحییٰ ذھلی نے ان سے قطع تعلق کر لیا اور فتویٰ دے دیا کہ جو بخاری کی مجلس میں بیٹھے وہ ہماری مجلس میں نہ آئے حتی کہ امام بخاری کو نیشا پور چھوڑ کر واپس جانا پڑا۔ اسی طرح بہت سے اور لوگوں نے امام بخاری سے قطع تعلق کر لیا۔ ایک غلط فہمی امام بخاری کی نسبت پیدا ہوگئی اور وہ لوگ امام بخاری کے کلام کو سمجھ نہ سکے، معنی غلط پہنچا۔

الزامات کی حقیقت کیا ہوتی ہے، ہم سے بڑھ کر کون جانتا ہے اس لئے کہ ہماری پوری زندگی الزامات سننے اور برداشت کرنے میں گزری ہے۔ سنے سنائے بغیر الزامات لگا دیئے جاتے ہیں۔ اگر الزامات لگانے والوں سے پوچھا جائے کہ آپ پوری زندگی میں کبھی اس شخص سے ملے ہیں۔۔۔ یا یہ بات ان کے منہ سے سنی ہے جس پر آپ الزام لگا رہے ہیں کہ ان کا عقیدہ یہ ہے۔۔۔ یا انہوں نے یہ کہا ہے۔۔۔ ان کا جواب ’’نہیں‘‘ میں ہوگا۔۔۔ صرف یہ کہیں گے کہ ہم نے سنا ہے۔۔۔ شریعت میں اوروں سے کسی اور کے متعلق سن کر بات کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ کس قدر افسوسناک رجحان ہے کہ صاحبانِ شریعت علمائے کرام خود اس سلسلے میں سب سے آگے ہیں۔ عام آدمی تو ایک دو کے سامنے سنی سنائی بات کرتا ہے مگر یہ حضرات ہزاروں کے اجتماع میں جوش و خروش کے ساتھ ایک دوسرے پر بے بنیاد الزامات بھی لگاتے ہیں اور زبانِ طعن دراز کرتے ہوئے ذرا بھی نہیں ہچکچاتے بلکہ اسے اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں۔ حالانکہ وہ یہ سب کچھ کرتے ہوئے اللہ تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واضح فرامین کی حکم عدولی کر رہے ہوتے ہیں۔ علماء اور واعظین کی ایسی روش نے ان سے عزت احترام اور وقار چھین لیا ہے اور وہ معاشرے میں غیر معتبر ترین طبقہ سمجھا جانے لگا ہے۔

بعض اولیاء اللہ نے کہا ہے کہ ’’عالم کی گواہی اگر عالم کے خلاف ہو تو کبھی قبول نہ کی جائے اور اگر عالم کسی دوسرے عالم کے حق میں گواہی دے تو یہ شاید سب سے اونچی شہادت ہے‘‘۔

خلاف گواہی اس لئے قابل قبول نہیں کہ اس میں حسد کا عنصر غالب ہو سکتا ہے اور تاریخ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ امام اعظم کے زمانے سے حسد کا عنصر چلا آ رہا ہے۔ ہزاروں علماء امام اعظم کے خلاف گواہی دیتے تھے، آپ پر شیعہ، مرجئہ ہونے کا الزام لگا۔۔۔ امام شافعی پر مرجئہ کا الزام لگا۔۔۔ امام مالک پر الزامات لگے اور انتہا درجہ کی بدسلوکی کی گئی۔۔۔ وہ امام مالک جنہیں ہر رات تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوتی اور جو اپنی 86 سالہ زندگی میں ایک مرتبہ صرف فرض حج کی ادائیگی کے لئے مکہ مکرمہ گئے، اس لئے کہ مدینے سے نکلنا گوارہ نہ تھا اور خواہش تھی کہ یہیں موت آئے، یہ نہ ہو کہ مدینہ سے نکلوں اور موت آپہنچے اور مدینہ میں دفن ہونے کی سعادت سے محروم رہ جاؤں۔۔۔ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب کے لحاظ سے امام مالک کا یہ مقام تھا کہ اگر کوئی سائل آپ کے پاس آتا تو خادمہ بھیج کر اسے پوچھتے کہ اس نے فقہ کا مسئلہ پوچھنا ہے یا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا، اگر اس نے فقہ کا مسئلہ پوچھنا ہوتا تو وضو تازہ کر کے آتے اور اگر اس نے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پوچھنی ہوتی تو اس کو مسجد میں انتظار کرواتے اور خود غسل کر کے، نئے کپڑے پہن کر، خوشبو لگا کر جاتے کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بتانی ہے۔۔۔ تنقیدیں کرنے والے نجانے خود وضو میں بھی رہتے ہیں یا نہیں مگر ائمہ کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں۔ انہیں سوچنا چاہئے کہ علم کا تقدس کیا ہے۔۔۔؟ علم کا مرتبہ کیا ہے۔۔۔؟

امام اعظم، امام شافعی، امام مالک، امام احمد بن حنبل اور امام بخاری رحمہم اللہ اور دیگر ائمہ کی مثالیں دینے کا مقصد یہ ہے کہ تاکہ لوگ سمجھیں کہ ہمارے ہاں کسی امام کے لئے تعصب نہیں ہے۔ ہم سب اکابر ائمہ کے جوتوں کے جوڑے اپنے سر پر تاج بنا کر رکھتے ہیں۔ میں امام اعظم کا مقلد ہوں، حنفی ہوں مگر سارے امام ہمارے سر کا تاج ہیں، سب حق پر ہیں۔

دنیا میں جتنے حاسدین، معاندین، الزام لگانے والے امام اعظم ابوحنیفہ کے ہیں، تاریخ اسلام میں اتنے کسی کے خلاف نہیں ہوئے۔ اگر صرف الزامات لگنے پر ہی چیزوں کو رد کر دیا جائے اور ہر الزام کو درست سمجھا جانے لگے تو 14 سو سال گزرنے کے باوجود امت کا اتنا بڑا حصہ امام اعظم کا مقلد نہ ہوتا۔۔۔ امام احمد بن حنبل پر الزامات لگے، آپ کو کوڑے لگائے گئے۔

بتانے کا مقصد یہ ہے جس کو جو بات پہنچی، اس نے اس پر رائے قائم کر دی، رائے قائم کرنے میں بھی احتیاط کی ضرورت تھی، اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کو غیر معمولی احتیاط کے ساتھ محفوظ کرنا تھا۔ اہل علم کا شیوہ یہ ہے کہ وہ مکمل تحقیق کے بغیر بات نہیں کرتے۔

پس امام بخاری و مسلم اہل بدعت راوی کی روایت کو بھی صادق و عادل ہونے کی بناء پر قبول کر لیتے۔۔۔ ضعیف کی آخری دو اقسام / اسباب درج ذیل ہیں :

1۔کذب کی تہمت کا لگنا 2۔جھوٹا ہونا

پس یہ ضعیف کی دس اقسام عدالت و ضبط کے حوالے سے ہیں۔ اگر پوری سند میں ایک راوی کذاب ہوا تو وہ سند موضوع کہلائے گی۔ ممکن ہے وہ مضمون / متن دوسری کتب میں دیگر اسانید کے ساتھ بھی آیا ہو۔ اس لئے حدیث کا مضمون موضوع نہیں ہوا بلکہ سند موضوع ہوئی ہے۔ اسی طرح اگر اتہام کذب ہوا، کذب کی تہمت لگی تو وہ حدیث متروک کہلائی۔ پس 15 اقسام ضعف میں سے 2 اسباب صرف ایسے ہیں جو حدیث کو بالکل مردود کر دیتے ہیں باقی 13 اسباب ایسے ہیں جن کو علاج کے ذریعے مقبول کر کے اوپر لے جایا جاتا ہے اور وہ ضعیف ہو کر بھی بذریعہ علاج شواہد و توابع مقبول ہو جاتی ہے۔

اس بحث سے ضعیف کی حقیقت واضح ہو کر سامنے آجاتی ہے۔۔۔ ائمہ نے ضعیف کی 49 اور 72 اقسام بھی بیان کی ہیں، تھوڑے تھوڑے فرق سے قسمیں بنتی چلی گئیں۔ کسی نے بہت زیادہ احتیاط کی تو منکر کو بھی مردود میں شامل کیا، جس طرح علامہ ذہبی نے ’’مطروح‘‘ کی ایک قسم متعارف کروائی۔ پس کسی نے 2 اسباب کی وجہ سے مردود کر دی اور کسی نے بہت زیادہ وسعت سے کام لیا تو تیسری قسم منکر کو بھی شامل کر لیا۔ وگرنہ اکثر تیسری قسم کو بھی شمار نہیں کرتے۔

موضوع فقط سند کے ذریعے نہیں بلکہ اگر اس حدیث کا متن احکام شریعت و اصول شریعت کے خلاف نہیں ہے تب بھی ائمہ موضوع کا حکم لگانے میں توقف کرتے ہیں اور دوسری اسانید کو دیکھنے کے بعد فیصلہ کرتے ہیں کہ شاید دوسری اسانید کے ذریعے اس کو تقویت مل جائے اور یہ ضعیف یا موضوع سے نکل جائے۔

جرح و تعدیل کا پیمانہ

جرح کا مطلب ہے Negetive Coments (منفی تاثرات) اور تعدیل کا مطلب ہے Positive Coments (مثبت تاثرات) یہ مجروح ہے یعنی اس پر اعتراض کیا گیا ہے، اس کی تعدیل کی گئی ہے یعنی اس کی توثیق کی گئی ہے کہ یہ ثقہ ہے، اس کو Ok کہا گیا ہے۔ محدثین کہتے ہیں کہ اگر کسی راوی کو Ok کرنا ہو تو صرف Ok کہنا ہی کافی ہے کہ یہ قابل اعتماد ہے، سچا ہے، قابل بھروسہ ہے۔ صرف ’’اچھا‘‘ لکھ دینا ہی کافی ہے، اس کی تفصیل نہیں پوچھی جائے گی۔

راوی پر جرح تعدیل کرنے میں محدثین اتنے محتاط ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ اگر تعدیل کرنی ہو یعنی کسی راوی کو قابل قبول لکھنا ہو تو اس کے لئے یہ بھی ضروری نہیں کہ اس کو مفسَّر بیان کیا جائے، یعنی تعدیل کا سبب لکھنے یا تفصیل بیان کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ صرف ثقہ لکھ دینا کافی ہے کیونکہ حدیث قبول کی جا رہی ہے۔

لیکن اگر یہ معاملہ ہو کہ اس کی جرح کی جا رہی ہے یعنی اس کو قابل قبول نہیں مانا جا رہا تو محدثین کہتے ہیں کہ جرح اس وقت تک قبول نہیں کی جائے گی جب تک اس جرح کا سبب یا تفصیل بیان نہ کی جائے۔

اس کو صرف ایک لفظ سے قبول نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کی تفصیل طلب کی جائے گی کہ ثابت کرو۔ پس جرح پر ثبوت و تفصیل مانگی جاتی ہے، تعدیل پر ثبوت و تفصیل نہیں مانگی جاتی۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ محدثین قبولیت کی طرف کسی طرح واضح اور زیادہ رجحان رکھتے ہیں۔

یہ اصول، اصولِ حدیث کی ہر کتاب میں موجود ہے۔ بغیر کسی اختلاف کے یہ اصول ہر ایک کے ہاں متفق علیہ ہے۔ امام نووی التقریب مع التدریب کے ص 201 پر فرماتے ہیں کہ

يُقْبَلُ التَّعْدِيْلُ مِنْ غَيْرِ ذِکْرِ سَبَبِهِ عَلَی الصَّحِيْحِ الْمَشْهُوْر.

’’صحیح اور مشہور رائے یہ ہے کہ اگر تعدیل ہو تو اس کا سبب بیان کرنے کی بھی ضرورت نہیں‘‘۔

وَلاَ يُقْبَلُ الْجَرْحُ اِلاَّ مُبَيَّنَ السَّبَبْ.

’’اگر جرح ہو تو وہ اس وقت تک نہیں مانی جائے گی جب تک اس کا سبب تفصیل سے بیان نہ کیا جائے‘‘۔

جرح و تعدیل کے الفاظ

یہاں اس بات کا تذکرہ بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ وہ کون کون سے الفاظ ہیں جو اگر راوی کے بارے میں لکھے جائیں تو تب بھی حدیث قبول کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

٭ اگر کوئی راوی کے بارے میں لکھ دے کہ ’’صَالِحُ الْحَدِيْث‘‘ تو اس راوی کی روایت کو قبول کیا جائے گا۔

٭ اگر کوئی کسی راوی کے بارے لکھے کہ وہ ’’لَيِّنُ الْحَدِيْث‘‘ ہے یعنی حدیث میں نرم / کمزور ہے تو اس کی حدیث بھی لی جائے گی کیونکہ اس سے مراد یہ ہے کہ کسی چیز کے ساتھ اس پر جرح کی گئی ہے مگر وہ راوی عدالت کے مقام سے گرا نہیں۔ گویا یہ کوئی زیادہ Negative Coment نہیں ہے، لوگ صرف ’’لَيِّنُ الْحَدِيْث‘‘ کے الفاظ پڑھ کر اس کی حدیث کو لینے سے انکار کردیتے ہیں۔

٭ اگر کوئی محدث کسی راوی کے بارے میں یہی لکھ دے کہ ’’لَيْسَ بِقَوِّی‘‘ یہ ’’حدیث میں قوی نہیں ہے‘‘ تو اس کی حدیث بھی لی جائے گی حالانکہ وہ لَيِّنْ سے نچلے درجے میں ہے۔

٭ امام نووی فرماتے ہیں کہ اگر کسی راوی کے بارے میں یہ لکھا جائے کہ وہ ’’ضَعِيْفُ الْحَدِيْث‘‘ ہے یعنی حدیث کی روایت میں ضعیف ہے اور یہ ’’لَيْسَ بِقَوِّیْ‘‘ سے بھی نچلا درجہ ہے تو اس کی حدیث بھی رد نہیں کی جائے گی بلکہ اس پر اعتبار کیا جائے گا۔

راوی کی روایت کو صرف اس وقت رد کیا جائے گا جب جرح کرنے والے 3 الفاظ کا استعمال کریں۔

٭ جب محدثین اس راوی کو ’’متروک الحدیث‘‘ کہیں۔

٭ یا جب محدثین اس راوی کو ’’واحی‘‘ کہیں کہ بیہودہ گوئی کرتا ہے، سچ نہیں بولتا۔

٭ یا محدثین اس راوی کو ’’کذاب‘‘ کہیں کہ جھوٹا ہے۔

اگر درج بالا ان تین الفاظ میں سے کوئی لفظ ہو تو اس کی روایت کو قبول نہ کیا جائے گا اور نہ اس کی حدیث لکھی جائے گی۔

ان تینوں الفاظ کے علاوہ اوپر بیان کردہ تمام الفاظ صدوق، ثقۃ، حجۃ، متقن، عدل، حافظ، ضابط، لابحث بہ سے مراد یہ ہے کہ راوی کی روایت کو قبول کیا جائے گا۔ حتی کہ اگر کسی راوی کے بارے میں ’’شیخ‘‘ کا لفظ لکھا جائے تو اس کی حدیث بھی لی جائے گی، حتی کہ ’’ضعیف الحدیث‘‘ کے الفاظ بھی لکھے جائیں تو اس کی حدیث کو بھی لیا جائے گا۔