حضرت خواجہ احمد میروی رحمۃ اللہ علیہ

تاجدار اقلیم فقرو ولایت حضرت خواجہ احمد میروی رحمۃ اللہ علیہ کی حیات و خدمات

پروفیسر محمد نصراللہ معینی

برصغیر پاک و ہند بالعموم اور شمالی ہند جو موجودہ پاکستان پر مشتمل علاقہ ہے یہاں اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا سہرا جن صوفیائے کرام کے سر ہے ان میں چشتی سلسلے کی شخصیات بہت نمایاں ہیں۔ ان قدسی صفت اکابرین میں حضرت خواجہ احمد میروی رحمۃ اللہ علیہ بھی شامل ہیں۔ خواجہ احمد میروی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت اور خدمات سے ایک جہاں فیض یاب ہوا اور ان فیوضات کا تسلسل اب بھی جاری ہے۔ تاہم ان کا تذکرہ بوجوہ اتنا عام نہیں ہو سکا۔ 5 محرم الحرام کو حضرت میروی رحمۃ اللہ علیہ کے عرس کی سو سالہ تقریبات ہو رہی ہیں اس لئے ماہنامہ منہاج القرآن پہلی مرتبہ ان کے تذکارِ جمیل کو اپنے قارئین تک پہچانے کی سعادت حاصل کررہا ہے۔ (ادارہ)

حضرت سیدنا پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں راولپنڈی کا انگریزڈپٹی کمشنر کسی تحقیقات کے سلسلے میں حاضر ہوا۔ حضرت کے روئے انورکو دیکھ کر اور آپ کی پر تاثیر گفتگو سن کر وہ بڑا متاثر ہوا۔ اسے یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ ایسی نادر روزگار اور فاضل شخصیت نے شہر سے دور جنگل میں بسیرا کر رکھا ہے۔ اسے شہر کی رنگا رنگ تقریبات اور علمی و ادبی محفلوں میں شرکت کا کوئی شوق نہیں۔ ایسا شخص تو جنگل نہیں، حکومت کے ایوانوں کی زینت ہونا چاہئے تاکہ یہ شہر کی رنگینیوں اور اہل شہر اس کے علم و فضل سے مستفید ہو سکیں۔ آخر وہ دل کی بات زباں پر لائے بغیر نہ رہ سکا۔

حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے ڈپٹی کمشنر کی پیشکش اور ترغیبات کو سن کر جواب میں فارسی کا ایک شعر سنا دیا فرمایا :

ہمہ شہر پر زِ خوباں منم و خیال ماہے

چہ کنم کہ چشمِ بدخو نہ کند بہ کس نگاہے

’’یہ درست ہے کہ سارا شہر اہل حسن سے بھرا پڑا ہے لیکن میں تو اپنے ہی محبوب کے خیال میں مست ہوں (اسے خواہ تم برا ہی کہو لیکن) میں کیا کروں یہ بدخو آنکھ اپنے محبوب کے سوا کسی اور کی طرف اٹھتی ہی نہیں‘‘۔

حضرت سیدنا پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے شعر کی زبان میں صوفیاء کے فقر غیور اور ان کے فکر و عمل کا پورا فلسفہ بیان کر دیا۔ انہوں نے ڈپٹی کمشنر کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ہمیں ذکر و فکر اور دکھی اور محروم انسانوں کی خدمت کے ذریعے اپنے محبوب کو منانے اور اس کے بے نقاب جلوے دیکھنے کے جو مواقع ان ویرانوں میں نصیب ہوتے ہیں وہ شہروں کی رنگینیوں اور حکومت کے ایوانوں میں کہاں مل سکتے ہیں۔ شاعر فطرت علامہ اقبال نے اسی بات کو یوں شعر کے قالب میں ڈھالا۔

حُسنِ بے پرواہ کو اپنی بے نقابی کے لئے

ہوں اگر شہروں سے بَن پیارے تو شہر اچھے کہ بَن

تاریخ اسلام کا مطالعہ ہمیں ایسے بے شمار نفوس قدسیہ سے روشناس کراتا ہے۔ جنہوں نے زندگی کی آسائشوں اور سہولتوں سے محروم خطوں کو اپنی تبلیغی سرگرمیوں اور انسانی خدمت کے لئے چنا۔ ان ویرانوں کو انہوں نے اپنے اخلاص اور جدوجہد سے رشک جنت بنا دیا۔ دین کے ان بے لوث سفیروں نے شاہی ایوانوں کی حاضری اور رنگا رنگ کھانوں سے سجے دستر خوانوں پر شکم پروری کی بجائے لقمہ نان کو ترسنے والی مخلوق کے لئے اپنی کٹیا میں لنگر جاری کرنے کو ترجیح دی۔ یہ مردان خدا صرف ذکر و فکر اور آہ نیم شبی کی لذتوں میں ہی مست نہ رہتے تھے بلکہ علم کے پیاسے غریب بچوں کو زیور علم سے آراستہ کرتے اور پھر ان کی سیرت سازی میں اپنی عمریں صرف کر دیتے۔

ایسے ہی رشک بریں خطوں میں ضلع اٹک کے دور دراز پہاڑی سلسلوں میں گھرے ’’میرا‘‘ نامی ٹیلے پر بارھویں صدی ہجری میں ایک مرد خدا نے کٹیا قائم کی جس نے اس علاقے کی قسمت ہی بدل دی۔ بے آب و گیاہ ٹیلہ اس عظیم سفیر اسلام کی دینی خدمت اور روحانی برکت سے علم و عرفاں کا مرکز بن کر ’’میرا شریف‘‘ کہلایا اور پھر پورے خطے کے لئے مینارہ نور بن گیا۔

یہ مرد باکمال غوث زماں حضرت شاہ محمد سلیمان تونسوی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید باصفا حضرت خواجہ احمد میروی تھے جنہوں نے تونسہ شریف اور دیگر مقامات پہ علوم کی تکمیل کرنے اور روحانی کمال حاصل کرنے کے بعد پنڈی گھیپ ضلع اٹک سے 18 میل دور واقع اس ویراں خطے اور بے آب و گیاہ ٹیلے پر ڈیرہ لگا کر اسے اپنی دینی اور تبلیغی سرگرمیوں کا مرکز بنایا۔ محبت الہٰی کا جو سودا پیر پٹھان حضرت خواجہ محمد سلیمان رحمۃ اللہ علیہ کی دکان عشق سے خرید کر لائے تھے اسے ’’میرا‘‘ کے اس سنگلاخ ٹیلے پر بیٹھ کر لٹانے میں پوری زندگی صرف کر دی۔

حضرت خواجہ احمد رحمۃ اللہ علیہ اس ٹیلے کے قریب چند گھروں پر مشتمل ایک چھوٹی سی ڈھوک میں پہنچے اور اس کی مسجد میں قیام کا ارادہ کیا تو پھٹا پرانا تن کا لباس اور چند وظائف پر مشتمل ایک مجموعہ۔۔۔ یہ تھی اس نو وارد کی کل کائنات۔۔۔ کوئی شخص بھی گدڑی میں چھپے اس لعل کو نہ پہچان سکا بلکہ جب آپ نے بستی والوں سے یہاں اپنی مستقل اقامت کا ارادہ ظاہر کیا تو وہ حیران رہ گئے۔ بھلا شہروں کی آسائشوں کو چھوڑ کر یہ صاحبِ علم درویش جنگل میں اس غریب سی بستی میں کیا لینے آگیا ہے۔ وہ کیا جانیں کہ اس فقیر کو اس ویرانے میں رہنے پر کیا چیز مجبور کر رہی تھی جہاں اس کی نہ جان نہ پہچان نہ ضروریات زندگی کی کفالت کا سامان۔

لوگ کہتے ہیں یہ صوفیاء کیسے انسان تھے؟ کیا یہ فراریت پسند لوگ تھے جو سماجی اور معاشرتی بندھنوں سے آزاد ہو کر اور کار زار حیات سے منہ موڑ کر کسی گوشہ عافیت کی تلاش میں رہتے تھے؟ اس سوال کا جواب پانے سے پہلے آپ ایک امریکی نو مسلم خاتون (Becky Hopkins) کے اس خط کے چند جملے ملاحظہ فرمائیں جو امریکی میگزین اسلامک ہورائزن (دسمبر1987) میں شائع ہوا۔

یہ نومسلم خاتون بیکی ہاپکن اسلام کی دولت سے سرفراز ہونے پر لکھتی ہیں :

’’جن سوالوں کا جواب میں اپنی پوری زندگی میں تلاش کرتی رہی ان کا جواب پانا میرے لئے کتنا تسکین کا باعث ہے، لفظوں میں بیان نہیں کر سکتی۔ میں اس خوشی کو کیونکر بیان کروں جو سچائی کو پالینے سے حاصل ہوئی۔ میں چاہتی ہوں کہ میں نے جو چیز پائی ہے اسے میں ساری دنیا کے سامنے گاؤں۔۔۔ اگر میں سب سے اونچے پہاڑ پر چڑھ سکتی اور میری آواز ہر اس آدمی تک پہنچ سکتی جو اسلام سے بے خبر ہے تو میں چلا کر ان کو بتاتی جو سچائی میرے مشاہدہ میں آئی ہے‘‘۔

اس نو مسلم خاتون کے ان جملوں سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ جب کسی انسان کو سچائی اور حقیقت تک رسائی نصیب ہو جاتی ہے تو اس کا خاموش بیٹھ رہنا ناممکن ہوتا ہے وہ بے تاب ہو کر چاہنے لگتا ہے کہ جس نور سے اس نے اپنے من کی دنیا روشن کی ہے اس سے دوسروں کی راہوں کو بھی منور کر دے اور جو سعادت اسے میسر آئی ہے اس میں دوسروں کو بھی حصہ دار بنادے۔

صوفیا ایسے ہی لوگ تھے جو صداقتوں کو دریافت کرنے اور اپنے من کو اجالنے کے بعد بیٹھ نہیں گئے بلکہ بھٹکی انسانیت کو راہ دکھانے اور دکھی مخلوق کی خدمت اور دلجوئی کے لئے نکل کھڑے ہوئے اور اس کے لئے وہ حکومت کے ایوانوں اور شہروں کی آسائشوں کی طرف رخ کرنے کی بجائے ان مقامات کو اپنا مرکز بناتے جہاں غریبوں کے لئے نہ کوئی سکول ہوتا نہ مدرسہ، نہ کوئی شفاخانہ اور نہ کوئی ڈاکٹر اور حکیم حتی کہ دیگر ضروریات زندگی کے لئے بھی میلوں دور جانا پڑتا۔

حضرت خواجہ احمد رحمۃ اللہ علیہ نے جس جگہ اپنی کٹیا بنائی وہاں تو پانی بھی نہ تھا۔ دو تالاب تھے جہاں لوگ بارشوں کا پانی روک لیتے اور اگلی بارش تک وہی پانی انسانوں اور حیوانات کی پیاس بجھاتا۔ وہی جسم اور کپڑے دھونے کے کام آتا۔ خواجہ احمد رحمۃ اللہ علیہ سے لوگوں کی یہ حالت زار دیکھی نہ گئی۔ اپنے پاک پروردگار سے دعا کی اور رہنمائی پاکر ایک جگہ کنواں کھودنے لگے۔ لوگوں نے بتایا کہ یہاں کئی مرتبہ کوشش کی گئی لیکن گہرائی میں بھی پانی نہیں ملا۔ فرمایا اب ان شاء اللہ مل جائے گا اور لوگ واقعی حیران رہ گئے جب چند فٹ بعد میٹھا پانی ان کے سامنے چمک رہا تھا۔ خوشبو کی مہک کی طرح ولایت کی شہرت بھی دیر نہیں کرتی۔ علاقے بھر میں دھوم مچ گئی کہ ایک اللہ والے کی برکت سے اس جگہ پانی نکل آیا جہاں پہلے تجربے ناکام ہو چکے تھے۔ حضرت کو اس چرچے کا علم ہوا تو رنجیدہ ہوگئے، اظہار کرامت اور اس کی تشہیر اہل اللہ کے ہاں کبھی بھی پسندیدہ نہیں رہی۔

اولیاء اللہ سے کرامت کا ظہور برحق ہے اس کے ذریعہ اللہ اپنے محبوب بندے کی عزت افزائی فرماتا ہے۔ لیکن اہل تصوف کشف و کرامت کو کمال کی نشانی ہرگز نہیں سمجھتے۔ بلکہ اسے سلوک کی ابتدائی مدارج میں شمار کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک کمال کے حصول سے پہلے کشف و کرامت کا اظہار کرنے والا آئندہ مدارج سے محروم رہ جاتا ہے۔

حضرت خواجہ علی الخواص رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

الکمل يخافون من وقوع الکرامة علی ايديهم يزدادون وجلا وخوفا لا حتمال ان تکون استدراجا. (صوفیاء وحسن اخلاق مؤلفہ حافظ محمد سعداللہ)

’’باکمال لوگ اپنے ہاتھوں کرامت کے وقوع سے خوفزدہ رہتے ہیں کہ کہیں یہ استدراج ہی نہ ہو‘‘۔

کرامت کی تشہیر سے حضرت خواجہ احمد کے رنجیدہ ہونے کا نتیجہ یہ نکلا کہ کنواں جلد ہی خشک ہوگیا۔ چنانچہ کرامت کا شہرہ بھی ماند پڑ گیا۔ کچھ عرصہ بعد لوگوں کے کہنے پر آپ نے پھر ایک جگہ کھدائی کرائی جہاں پانی تو نکل آیا مگر بہت گہرائی میں جا کر اور یہ پانی بھی پہلے کنویں کی طرح شیریں نہیں تھا۔ یوں پانی کا مسئلہ حل ہوگیا لیکن کرامت بن کر شہرت پانے سے بچ گیا۔

حضرت میروی رحمۃ اللہ علیہ اور خدمتِ دین

برصغیر میں اکثر مسلمان حکمرانوں نے ہندؤں سے رواداری کا اصول اپناتے ہوئے اشاعت دین کے فریضہ سے عملاً دستبرداری اختیار کر رکھی تھی چنانچہ قدرتی طور پر اس کی ذمہ داری مذہبی طبقہ یعنی صوفیا اور علماء کے کندھوں پر آپڑی۔ ان دونوں طبقوں نے اپنے اپنے دائرہ کار میں اس ذمہ داری کو خوب نبھایا۔ علماء علوم ظاہری یعنی معقول و منقول کی ترویج و اشاعت میں لگے رہے جبکہ صوفیاء تزکیہ نفس، اصلاح احوال اور تعمیر سیرت میں مصروف رہے لیکن یہ بات کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ اہل تصوف کردار سازی کی ساری عمارت شریعت یعنی قرآن و سنت پر ہی استوار کرتے تھے کیونکہ ان کے نزدیک

بے علم نتواں خدارا شناخت

اور حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ میں

علموں باہجھ جو کرے فقیری کافر مرے دیوانہ ہو

یہی وجہ ہے کہ خانقاہیں بیک وقت علوم شریعت کی درسگاہیں بھی ہوتیں اور سیرت سازی کی تربیت گاہیں بھی کیونکہ جتنے بھی نامور صوفیاء سے تاریخ ہمیں متعارف کراتی ہے۔ وہ سب علوم شریعت میں کامل مرتبہ کے حامل تھے۔

حضرت خواجہ احمد رحمۃ اللہ علیہ نے ’’میرا‘‘ کے ٹیلے پر ڈیرہ لگا کر سب سے پہلا قدم ہی اشاعتِ علم اور خدمتِ خلق کے لئے اٹھایا۔ گرد و نواح میں آپ کی صالحیت کے ساتھ علم کی خوشبو پھیلنے لگی تو اس چشمۂ فیض کی طرف علم کے پیاسے رجوع کرنے لگے۔ غربت کی وجہ سے وسائل کی عدم دستیابی کا یہ عالم تھا کہ جب طلبا نے کریما سعدی پڑھنا چاہی تو کتاب ہی سرے سے دستیاب نہ تھی۔ اردگرد کے دیہات میں تلاش ہوئی آخر کسی جگہ سے ایک کتاب عاریۃً ملی جس پر آٹھ دس طلباء سبق پڑھتے۔

ابتداء میں بستی کے مکین ان طلباء کو کھانا مہیا کرتے رہے جب علم و عرفاں کے پیاسوں کا ایک ہجوم ہوگیا تو غریب مکینوں کے وسائل ان کے متحمل نہ ہو سکے لیکن یہ صرف طالب علم ہی نہ تھے بلکہ طالب مولا بھی تھے فاقوں سے ڈر کر بھاگنے والے نہ تھے۔

حضرت خواجہ احمد رحمۃ اللہ علیہ کا معمول تھا کہ کچھ بچا کر نہ رکھتے جو آتا خرچ کر دیتے جس دن کچھ نہ ہوتا لنگر خانے پر سفید جھنڈی لہرا دی جاتی۔ جسے دیکھ کر طلباء اور درویشوں کی جماعت مسکراتی ہوئی واپس درسگاہوں اور عبادت گاہوں میں چلی جاتی۔ فاقہ کے روز کو انہوں نے عید کا نام دے رکھا تھا۔ علم و عرفاں کے سچے طالبوں کا یہ مقدس گروہ صبر توکل اور استغنا کی نعمت سے سرفراز تھا۔ روکھی سوکھی کھانے کو مل جاتی تو خوشی خوشی کھالی جاتی ورنہ اللہ اللہ۔ نہ ملال نہ شکوہ نہ شکایت، آپ کے تربیت یافتہ بزرگ بعد میں لوگوں کو بتایا کرتے تھے کہ جب ہماری نگاہیں حضرت خواجہ غریب نواز کے چہرہ انور پر پڑتی تھیں تو ہماری بھوک پیاس سب کافور ہوجاتی۔ ان کا یہ عمل عین ان صحابہ کی مانند تھا جو بھوک پیاس کی شدت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارات کو کافی و شافی سمجھا کرتے تھے۔

آخر ان پاکباز لوگوں کا صدق و اخلاص اور استقامت رنگ لے آئی۔ فتوحات کا دور شروع ہوا اور وہ وقت بھی آپہنچا کہ میرا شریف کے لنگر میں ایک وقت بیسیوں من آٹا پکتا۔ میرا شریف کے برلب سڑک ہونے کی وجہ سے مسافر بھی بلا تردد لنگر سے روٹی کھاتے۔ خانقاہ میں گائیں اور بھینسیں اتنی تعداد میں آگئیں کہ طلبا اور مہمانوں کے لئے دودھ لسی وافر مہیا ہونے لگی۔ غلہ بھوسہ اور لنگر کی اشیاء منڈیوں سے لانے کے لئے درجنوں اونٹ مصروف کار رہتے۔ چھپ سٹیشن یہاں سے 10 میل کے فاصلہ پر تھا زائرین علماء و مشائخ کو لانے لے جانے کے لئے ایک درجن سے زائد گھوڑے تیار رہتے۔

صنعت پیشہ لوگ (لوہار، موچی، ترکھان وغیرہ) لاکر وہاں آباد کئے گئے۔ ان سب کی رہائش، خوراک، لباس، بچوں کی تعلیم، علاج اور دیگر ضروریات لنگر کی ذمہ داری تھی یہ سینکڑوں محنت کار خانقاہ کے سارے کام عبادت سمجھ کر کرتے ان لوگوں کے چہروں سے نور ٹپکتا تھا۔ حضرت خواجہ احمد میروی کی صحبت اور تربیت نے انہیں ’’ہتھ کار ولے۔ دل یار ولے‘‘ کا سبق از بر کرا دیا تھا۔ نو وارد ان کے نورانی چہرے دیکھ کر انہیں حضرت خواجہ کے خلفاء سمجھتے۔

میرے شیخ طریقت حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے والد گرامی حضرت خواجہ محمد فخرالدین بیربلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب فیضان میروی (ص 208) میں لکھتے ہیں :

ایک دفعہ بندہ حاضر خدمت تھا سفید باف (کپڑا بننے والا) ایک تھان کھدر کا، جو اس نے تیار کیا تھا، خدمت اقدس میں لایا۔ اس کی نورانی صورت دیکھنے سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ بھی حضرت کے کوئی خلیفہ ہیں۔ آپ نے فرمایا اس تھان کی پیمائش کرو۔ اس نے اس طور آپ کی خدمت میں با ادب کھڑے ہو کر ناپنا شروع کیا کہ ناپتے ہوئے ہر ایک گز پر یوں کہتا۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم ایک

بسم اللہ الرحمن الرحیم دو

بسم اللہ الرحمن الرحیم تین

بسم اللہ الرحمن الرحیم چار

واللہ اعلم چالیس یا کچھ کم گزوں تک اسی طور پر گنتا چلا گیا۔

اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خواجہ کی صحبت کی تاثیرات نے ان محنت کشوں کے باطن کو روشن کر دیا تھا۔ چہرہ دل کا آئینہ ہوتا ہے چنانچہ ان کے من کی روشنی ان کے افعال و گفتار سے جھلکتی تھی۔

خدمت خلق اور اشاعت دین کا یہ سلسلہ صرف میرا شریف تک محدود نہ تھا بلکہ حضرت خواجہ احمد میروی رحمۃ اللہ علیہ نے علاقہ بھر میں مساجد اور درس گاہیں قائم کیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ گردو نواح میں جو علماء خدمت دین اور تدریس علوم میں مصروف ہوتے دودھ کی محتاجی دور کرنے کے لئے انہیں اکثر شیر دار گائے یا بھینس پہنچاتے۔ ہر ذوق اور ہر سلسلہ طریقت کے علماء حاضر ہوتے رہتے۔ جس عالم دین کے کپڑے یا جوتے پرانے دیکھتے نئے تیار کروا دیتے۔

حضرت خواجہ احمد میروی رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں اشاعت دین کا بے پناہ جذبہ موجزن تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ علمائے حق کی عزت افزائی اور خدمت و تعاون میں ہمیشہ کوشاں رہتے چنانچہ سینکڑوں علماء آپ کے حلقہ ارادت میں داخل ہونے کے بعد دین کا درد اور تبلیغ کا جذبہ لے کر دنیا میں پھیل گئے اللہ تعالیٰ نے آپ کی برکت سے ان علمائے ربانیین کی تقریر و تحریر میں بڑی تاثیر پیدا فرما دی ان کی مجالس وعظ میں کئی کئی میل کا سفر پیدل طے کرکے ہزاروں لوگ شریک ہوتے۔

حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کے اخلاق و اوصاف عالیہ

حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کشف المحجوب میں فرماتے ہیں :

ليس التصوف رسوماً ولا علوماً ولکنه اخلاق.

’’یعنی تصوف چند رسمیں ادا کرنے کا نام نہیں اور نہ ہی بعض علوم حاصل کرنے کا نام ہے بلکہ تصوف تو سراسر اخلاق حسنہ کا نام ہے‘‘۔

اللہ کا ولی تجلیات الہٰی کا مظہر ہوتا ہے اور ہر تجلی اس کے کسی عمل (خلق یا گفتار) کی خالق ہوتی ہے چنانچہ جس طرح تجلیات الہٰی کا شمار ممکن نہیں اس طرح ولی اللہ کے اخلاق و اوصاف اور خیالات و گفتار کی رنگا رنگی کا احاطہ بھی بہت مشکل ہے۔ ترجمان فطرت حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اسی حقیقت کو یوں بیان کرتے ہیں۔

ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن

گفتار میں، کردار میں، اللہ کی برہان

حضرت خواجہ احمد میروی قدس سرہ العزیز کے حالات و سیرت کا مطالعہ کرتے ہوئے ہر سطر اور ہر صفحہ سے آپ کے اخلاق کریمانہ کا ایک نیا رنگ اور نیا انداز نظر آتا ہے۔

ایک دفعہ مسجد سے آپ کا جوتا چوری ہوگیا۔ کسی نے بتایا کہ ایک شخص تیزی سے پنڈی گھیب کی طرف جا رہا تھا۔ لوگ اس کے پیچھے دوڑے۔ حضور نے فرمایا چور پکڑا جائے تو تم سزا نہ دینا میرے پاس لے آنا میں خود سزا دوں گا۔ چور پکڑا گیا آپ کی خدمت میں لائے تو تبسم فرماتے ہوئے کہا بھئی تجھے جوتے کی ضرورت تھی تو میرے درویشوں کو آتے ہوئے دیکھ کر جوتے کسی گھاٹی میں چھپا دیتا اور بچ جاتا۔ اب تو چور ثابت ہوگیا ہے۔ ہم تجھے ایسی سزا دیں گے جو اس سے پہلے کسی چور کو نہیں دی۔ اس نے عرض کیا جیسے حضور کی مرضی۔ حضرت قبلہ نے حافظ بدر دین صاحب کو فرمایا کہ اسے جوتوں کی خریداری کے لئے رقم دی جائے۔ حضرت خواجہ فخرالدین رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :

غریب الوطن دکھیارے غم کے مارے بے کس آتے تو اس پیار محبت سے ملتے کہ ان کے دل سے تمام غبار دردو الم دور ہو جاتا۔ ایک نحیف ولاغر عالم دین جو کہ نامساعد حالات کا ستایا ہوا تھا حاضر ہوا۔ خواجہ کے لطف و کرم سے اپنے زخموں کا مرہم پایا تو خادم سے کہا میں یہاں اقامت کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت کی خدمت میں عرض کیا گیا تو فرمایا غریب الطبع و مسکین شخص ہمیں بہت عزیز ہوتا ہے۔ اسے کہو یہیں قیام کرے۔ پھر کئی دفعہ جب وہ حاضر ہوتا بڑی محبت سے اس کا سر اپنے سینہ اقدس سے لگا لیتے اور فرماتے میری روح تیری روح کے ساتھ ملی ہوئی ہے اس شخص نے غریب الوطنی کے دکھوں اور تکلیفوں سے راحت پا کر باقی عمر کے دن دلجمعی سے وہیں گزار دیئے۔

ایک خادم قدیم کفش دوز (موچی) بوڑھا اور نابینا ہوگیا۔ آپ نے سرائے میں ایک علیحدہ مکان میں اس کی رہائش مقرر کی، وضو وغیرہ اور کھانا کھلانے کے لئے اس کی خدمت ایک شخص کے ذمے لگائی۔ بندہ (فخرالدین رحمۃ اللہ علیہ ) اس کے قریب مکان میں رہا کرتا تھا۔ وہ اس بڑھاپے اور ضعف میں بھی ہر وقت ذکر میں رہا کرتے۔ چہرے اور پیشانی سے نورانیت ٹپکتی تھی۔

بارگاہ ربوبیت کے مقربین اللہ کی مخلوق کی خدمت اور ان کے احوال کی اصلاح کے لئے ہمیشہ فکر مند رہتے ہیں۔ وہ زخمی دلوں پر مرہم رکھتے ہیں اور مایوس دلوں کی ڈھارس بندھاتے ہیں۔ وہ رب العالمین کی ربوبیت عامہ کے مظہر ہوتے ہیں۔ اس لئے ان کی خدمت و محبت کا دائرہ صرف انسانوں تک محدود نہیں رہتا بلکہ حیوانات اور چرند پرند بھی ان کے دائرہ الفت میں شامل ہوتے ہیں۔

ایک دفعہ لنگر کے شتر بانوں نے عرض کیا کہ بڑا اونٹ بیمار ہے۔ کھاتا پیتا کچھ نہیں اسے آپ ذبح کرا دیں۔ فرمایا اس کو میرے پاس لاؤ۔ اسے صحن بنگلہ میں لائے۔ آپ نے اس کی مہار ہاتھ میں لے لی۔ اونٹ بڑا قد آور اور بوڑھا تھا۔ آپ نے مہار کھینچ کر اس کا سر نیچے کیا۔ اس نے مجذوب سالک کی طرح رضا بقضا سر آگے کر دیا۔ آپ نے اسے گلے سے لگا کر بوسہ دیا اور فرمایا اس نے ہماری بہت خدمت کی ہے۔ پھر اس کی مہار پکڑے ایک درخت پر لے گئے اور وہ پتے کھانے لگا پھر دوسرے درخت پر لے گئے وہاں بھی چرنے لگا۔

آپ نے فرمایا اس کو کوئی بیماری نہیں صرف ضعیف ہے۔ اس نے ہماری بہت خدمت کی اب اس کی خدمت کا وقت آگیا ہے۔ پھر ایک آدمی کو فرمایا یہ تمہارے ذمے ہے کہ اسے دن میں چرا کر تھان پر لا کر بٹھا دیا کرو۔

(ملفوظات مولفہ حضرت خواجہ محمد فخرالدین)

ایک دن موضع کوٹیرا کا ایک شخص گائے لے کر حاضر خدمت ہوا۔ عرض کی کہ یہ گائے اپنے بچے کو دودھ نہیں پلاتی۔ فرمایا اس کے بچے کو میرے پاس لاؤ۔ بچہ پیش کیا گیا آپ نے بچھڑے کو گلے لگایا اور بوسہ دیا پھر بغل میں لے لیا اور فرمایا گائے کہتی ہے کہ مجھ پر بہتان ہے۔ میں تو بچے کو دودھ پلاتی ہوں۔ چنانچہ بچھڑے کو چھوڑ دیا گیا۔ وہ گائے کے پاس پہنچا تو وہ انتہائی محبت سے اسے چاٹنے اور دودھ پلانے لگی۔

فقر و استغنا

حضرت میروی رحمۃ اللہ علیہ کی طبیعت میں اللہ تعالیٰ نے بچپن ہی سے فقر و استغنا کا وصف و دیعت کر دیا تھا۔ آپ کے استغنا کا پہلا منظر اس وقت سامنے آتا ہے جب اپنے والد گرامی کے وصال کے بعد اللہ تعالیٰ کی محبت اور تحصیل علم کے لئے گھر بار چھوڑ کر عازم تونسہ شریف ہوئے تو اپنا مال و متاع اور مویشی وغیرہ سب رشتہ داروں میں تقسیم کردیئے۔

تونسہ شریف میں آپ کی طالب علمی کا دور بھی فقر اختیاری اور توکل و استغنا میں گزرا، نہ مال جمع کرنے کی کبھی خواہش کی اور نہ کسی کے سامنے دست سوال دراز کیا۔

نواب بہاولپور کے وزیر احمد خان نے طلباء کے وظائف مقرر کئے تو استاد گرامی نے آپ کا نام بھی فہرست میں درج کر دیا۔ آپ کو معلوم ہوا تو عرض کی ’’وطن اور گھر بار اللہ تعالیٰ کی خاطر ترک کرکے خواجہ کے دربار پر مقیم ہوا ہوں۔ تنگی اور آسانی قبول ہے۔ میں اس دروازے کو چھوڑ کر کسی اور کی توقع نہیں رکھنا چاہتا‘‘ چنانچہ دیگر طلباء کے وظائف مقرر ہوگئے اور وہ خوشحالی میں زندگی بسر کرنے لگے۔ جبکہ آپ پرانے کپڑوں اور روکھی سوکھی پر قانع رہے لیکن ایسے موقعہ پر قدرت بھی اپنی دستگیری کا رنگ دکھائے بغیر نہیں رہتی اور من یتوکل علی اللہ فہو حسبہ کے مصداق ربوبیت الہٰی اس کی ضروریات کی کفالت کا بہتر انتظام کر دیتی ہے۔ حضرت خواجہ کے توکل سے نہ صرف لوگوں کے دلوں میں آپ کی عزت بڑھ گئی بلکہ فتوحات کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔

کچھ عرصہ بعد وزیر موصوف کے وصال پاجانے پر طلباء کے وظائف بند ہوگئے۔ اس پر انہیں اتنا دکھ اور رنج ہوا جتنا کسی کو اپنے والد کے انتقال پر ہوتا ہے۔ ادھر آپ کا دل مطمئن اور پرسکون تھا کہ جس ذات پر آپ نے تکیہ اور بھروسہ کیا تھا وہ ذات حی و قیوم ہے۔ جو اس کا دامن تھامے رکھتا ہے وہ کبھی مایوس نہیں ہوتا۔

نواب مظفر خان رئیس آف کالا باغ حضرت سید محمد فاضل شاہ رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت خواجہ احمد میروی رحمۃ اللہ علیہ سے حسن عقیدت رکھتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت میروی رحمۃ اللہ علیہ تونسہ شریف جانے لگے تو حضرت محمد فاضل شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ایک رقعہ نواب موصوف کے نام لکھ دیا جس میں حضرت میروی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق تعریفی کلمات درج تھے۔ آپ کو مندرجات کا علم ہوا تو ملاقات کا ارادہ ملتوی کردیا اور منہ چھپا کر کالا باغ سے گزر گئے۔ آپ کی غیرتِ فقر نے یہ سفارشی رقعہ لے کر کسی دنیا دار کے دروازے پر جانا گوارا نہ کیا۔

حقیقت یہ ہے کہ محبت الہٰی سے سرشار لوگوں کے فکر و عمل میں جب توحید اپنا رنگ جمانا شروع کر دیتی ہے اور وہ موحد کامل بن جاتے ہیں تو اپنے رازق کو پہچان لینے کے بعد ان کی نگاہ کسی دارا و سکندر کی طرف نہیں اٹھتی بلکہ شاہان وقت ان بوریہ نشینوں کے سامنے دست بستہ کھڑا ہونے اور ان کی کفش برداری کو اپنی عزت خیال کرتے ہیں اقبال نے کیا خوب کہا ہے :

اپنے رازق کو نہ پہچانے تو محتاجِ ملوک

اور پہچانے تو ہیں تیرے گدا دارا وجم

صوفیاء کرام ہمیشہ معاشی تنگی اور ناسازگار حالات میں تبلیغ دین اور پیغام ہدایت کا صبر آزما فریضہ انجام دیتے رہے ہیں لیکن اپنا دامن کبھی لالچ اور حرص سے آلودہ نہ ہونے دیا۔ عظیم دینی سکالر جناب صاحبزادہ سید خورشید احمد گیلانی مرحوم کے بقول ’’انہوں نے جو خدمت انجام دی بلا مزدوری و معاوضہ سرانجام دی۔ تبلیغ کو پیشہ نہیں بلکہ فریضہ سمجھ کر ادا کیا۔ لوگوں کو ایمان و ایقان کی لازوال دولت سے نوازنے کے باوجود ان کی دولت میں کبھی خود کو حصہ دار نہ جانا۔ بادشاہ ان کے جھونپڑوں کا طواف کرتے رہے مگر انہوں نے کبھی شاہ کے در دولت پر دستک دے کر غیرت فقر کو مجروح نہیں کیا‘‘۔

حضرت خواجہ احمد میروی رحمۃ اللہ علیہ اسی گروہ عشاق میں شامل تھے بلکہ اس پاکباز اور قدسی صفات قافلہ کے ممتاز فرد تھے، وہ نہ صرف ان اعلیٰ اوصاف کے حامل تھے بلکہ اپنے تلامذہ اور درویشوں کو بھی ان سے متصف دیکھنا چاہتے تھے چنانچہ وصال سے پہلے جو وصیت لکھوائی اس کا آخری کلمہ یہ تھا :

’’فقیراں راباید کہ دریں جا آرام کردہ خدارا یاد کنند و بردروازہ ہیچ دنیا دار نروند‘‘

یعنی اہل فقر درویشوں کو چاہئے کہ یہاں آرام سے خدا کی یاد میں مصروف رہیں اور کسی دنیا دار کے دروازہ پر ہر گز نہ جائیں۔

(جاری ہے)