دورہ مسلم : معیار دین کیا ہے۔۔۔؟

ڈاکٹر محمد طاہر القادری

بزرگوں اور شیوخ کے ہاتھ چومنا سنت ہے
دورہ صحیح مسلم برمنگھم UK (نشت سوم۔ III)

منہاج القرآن انٹرنیشنل برمنگھم کے زیر اہتمام دورہ صحیح البخاری کی عالمی سطح پر بے حد پذیرائی اور کامیابی کو مدنظر رکھتے ہوئے اکتوبر 2007ء میں منہاج القرآن انٹرنیشنل برمنگھم برطانیہ کے زیر اہتمام جامع مسجد گھمگول شریف میں دورہ صحیح مسلم (کتاب الایمان تا کتاب الصلاۃ) کے عنوان سے تین روزہ خصوصی علمی، فکری اور تربیتی پانچ نشستوں کا اہتمام کیا گیا۔ جن میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے سینکڑوں علماء و مشائخ، طلباء اور ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے احباب سے اصول الحدیث، علم الحدیث، امام مسلم کے مقام و مرتبے اور صحیح مسلم کے حوالے سے عقائد، فقہ، تصوف اور دیگر موضوعات پر گفتگو فرمائی۔ دورہ کی پہلی نشست (شائع شدہ ماہنامہ منہاج القرآن مئی، جون، جولائی08ء) میں گفتگو کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے علمی کلچر کے احیاء کی ضرورت، تاریخِ اصولِ حدیث، علم الحدیث و اصول الحدیث میں امام اعظم کا مقام و مرتبہ، ائمہ حدیث کے ہاں احادیث کی قبولیت و عدم قبولیت کا معیار، بدعت کیا ہے؟ اہلِ بدعت کون ہیں؟ گستاخانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حقیقی بدعتی، علمی روایات اور ائمہ کا طرزِ عمل، علمی اختلاف کی حقیقت اور ائمہ کرام کا طرزِ عمل، حقیقتِ اجماع، شیوۂ علم اور دیگر موضوعات پر تفصیلی روشنی ڈالی۔
دورہ صحیح مسلم کی دوسری نشست (شائع شدہ ماہنامہ منہاج القرآن اگست، ستمبر08ء) میں اصطلاحاتِ حدیث کا قرآن و حدیث سے استدلال و استنباط، حدیث ضعیف کے حوالے سے اعتراضات کا علمی محاکمہ، ضعیف اور موضوع کے اختلاط اور حدیث غیر صحیح کی وضاحت فرمائی، دورہ صحیح مسلم کی تیسری نشست کے اول و دوم حصہ میں صحتِ حدیث کے مدار اور حدیث کے ضعیف و موضوع ہونے کے مدار کے حوالہ سے تحقیقی گفتگو فرمائی۔ اس تیسری نشست کا حصہ سوم نذرِ قارئین ہے۔ (مرتب)

آج معیار، فن نہیں بلکہ عقیدہ ہے

افسوس اس امر کا ہے کہ آج صحیح یا غلط کی بنیاد یہ نہیں رہی کہ فن کیا کہتا ہے بلکہ بنیاد سوچنے، لکھنے اور بولنے والے کا اپنا عقیدہ ہے۔ جو احادیث اپنے عقائد کی مطابقت میں ہوں وہ صحیح ہیں اور جو اپنے عقائد کے خلاف ہیں وہ غلط ہیں، ہوائے نفس چل پڑی ہے۔

پہلے لوگ علم و فن کے ماہر تھے، پھر ایک زمانہ ہم نے دیکھا کہ اردو کتب اور اردو تراجم کے ذریعے امام، عالم اور پیشوا و رہنما بن گئے اور لوگ ان کی تقلید بھی کرنے لگے۔ آج وہ زمانہ ہے کہ اردو تراجم کو چھوڑ کر انگریزی کتب و تراجم کے ذریعے مفتی و مجتہد بن گئے ہیں۔

آج فن معیار نہیں رہا بلکہ عقیدہ معیار بن گیا ہے، اس پر امام بخاری کی کتاب ’’الادب المفرد‘‘ سے ایک حوالہ دے رہا ہوں کہ نام نہاد محققین اپنے عقیدے ہی کو درست ثابت کرنے کے لئے کبار ائمہ حدیث کی کتب کی قطع و برید کرنے میں بھی ہچکچاہٹ کا مظاھرہ نہیں کرتے۔ آئندہ آنے والے وقتوں میں اور کیا کیا ہوگا۔۔۔ ؟ آپ لوگ اہل السنہ ہیں، سواد اعظم ہیں، وارثین علم نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سنت کے محافظ ہیں، آپ لوگوں کواس علمی بددیانتی اور خیانت کے سدباب کے لئے جاگنا ہوگا۔ جاگنے سے میری مراد کوئی لٹھ اٹھانا نہیں ہے، غصے میں تو سبھی جاگے ہوئے ہیں۔۔۔ فتوے لگانے میں بھی سبھی جاگے ہوئے ہیں۔۔۔ مگر آپ کو علم و فن اور تحقیق کے حوالے سے جاگنا ہوگا۔ افسوس! آج تحقیق کرنے والوں کا شیوہ یہ ہے کہ جو بات اپنے عقیدے کے موافق ہے وہ حدیث صحیح ہے اور جو اپنے عقیدے کے خلاف ہے وہ ضعیف و موضوع ہے۔ ان لوگوں کو کسی حدیث کو موضوع قرار دینے میں کوئی جھجک اور کوئی خوف نہیں اور نہ ہی ضعیف کہنے، رد کرنے اور مردود کہنے میں کوئی عار۔ یہاں تک ان کے ہاں اپنے عقیدے کے مقابلے میں امام بخاری و امام مسلم بھی معیار نہیں رہتے۔

امام بخاری کی کتاب ’’الادب المفرد‘‘، باب نمبر 444 ’’باب تقبیل الید‘‘ میں حدیث نمبر 972 تا 974، امام بخاری نے ’’ہاتھ چومنے‘‘ کے حوالے سے احادیث بیان کی ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ اس سے مراد یہی ہے کہ صحابہ کرام، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارکہ کو چوما کرتے تھے۔ ان احادیث کو ذکر کر کے امام بخاری آدابِ زندگی بتا رہے ہیں کہ بزرگوں کی سنت یہ تھی کہ شیوخ اور اکابر کا ہاتھ چوما کرتے تھے۔ یہاں تک کہ امام بخاری نے دین میں اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کا الگ باب قائم کیا۔ اس باب کے تحت آپ نے 3 احادیث کا ذکر کیا۔

ان میں سے پہلی حدیث (972) میں ہے کہ

’’حضرت ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ ہم ایک غزوہ سے دشمن کی تعداد کے زیادہ ہونے اور اپنی کم تعداد کو دیکھتے ہوئے اپنی موجودہ قوت کے خاتمہ کے ڈر سے میدان جنگ سے الٹے قدم واپس پلٹے اور یہ خیال کیا کہ ہم سے یہ گناہ سرزد ہوا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے راہ فرار نہیں اختیار کی بلکہ کامیابی کی طرف لوٹے ہو۔ پس ہم آگے بڑھے اور ’’فقبلنا يده‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں کو بوسہ دیا۔ ‘‘

امام بخاری کے علاوہ یہ حدیث سنن ابی داؤد، جامع ترمذی، مسند اور امام احمد بن حنبل میں بھی روایت کی گئی ہے۔ اس کے بعد اگلی حدیث (973) میں ہے کہ

عبدالرحمن بن رزین سے روایت ہے کہ ہمیں بتایا گیا کہ یہ حضرت سلمہ بن الاکوع ہیں، ہم ان کے پاس آئے اور سلام کہا، انھوں نے اپنے ہاتھ نکالے اور کہا کہ ان ہاتھوں سے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کی ’’فقمنا اليها فقبلناها ‘‘ ’’ہم نے کی طرف بڑھے اور ان کے ہاتھوں کو چوما۔‘‘

اس سے اگلی حدیث 974 میں ہے کہ

قال ثابت لانس امسست النبی صلی الله عليه وآله وسلم بيدک قال نعم فقبلها

’’حضرت ثابت البنانی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ نے اپنے ہاتھوں سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھوا تھا۔ انہوں نے جواب دیا : ہاں، یہ سنتے ہی حضرت ثابت، حضرت انس کے ہاتھ چومنے لگے۔ ‘‘

پہلی حدیث میں ہے کہ صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ چومے۔۔۔ کئی لوگ اس کو نہیں مانتے اور اگر مان لیں تو کہتے ہیں کہ وہ تو صحابہ کرام نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ چومے تھے۔۔۔ اس کا آگے اطلاق نہیں ہوتا۔ اگلی حدیث امام بخاری اسی لئے لے آئے کہ جس طرح صحابہ کرام، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ چومتے تو اسی طرح تابعین، صحابہ کرام کے ہاتھ چومتے۔ پس اس سے اکابر کے ہاتھ چومنا سنت ثابت ہوا۔

یہ احادیث لانے کے بعد امام بخاری نے اگلا باب 445 ’’بَابُ تَقْبِيْلِ الرِّجْل‘‘ ’’پاؤں چومنے کا باب‘‘ قائم کیا۔ ان تراجم الابواب سے امام بخاری کا عقیدہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ اکابر کے ہاتھ اور پاؤں چومنا سنت ہے۔ یہی امام مسلم کا عقیدہ ہے۔ امام بخاری جب نیشا پور میں تشریف لائے اور امام مسلم ان کے پاس حاضر ہوئے تو ائمہ کے احوال پر مبنی تمام کتب میں درج ہے کہ امام مسلم نے امام بخاری سے اجازت مانگی کہ

يَا سَيّدُ الْمُحَدِّثِيْنَ يَا اُسْتَاذَ الاسْتَاذِيْن.

’’اے محدثین کے سردار اور اساتذہ کے استاد مجھے اجازت دیں کہ میں آپ کے قدم چوموں۔‘‘

اسی طرح امام بخاری نے بھی ایک موقع پر اپنے استاد کے قدم چومنے کی اجازت مانگی۔ پس اب یہ واضح ہے کہ آج ان عقائد کے حوالے سے کون امام بخاری و امام مسلم کے عقیدہ کے مطابق ہے اور کون ان کے عقیدہ کے خلاف ہے۔ ہاتھ اور پاؤں چومنا کس کے عقیدہ اور مسلک میں جائز اور کہاں ناجائز ہے یہ بھی ہر کوئی جانتا ہے۔

’’پاؤں چومنے کے باب‘‘ میں امام بخاری حدیث لائے ہیں کہ

قال قدمنا فقيل ذاک رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فاخذنا بيديه و رجليه نقبلها

حضرت وازع بن عامر بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، ہمیں بتایا گیا کہ یہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں تو ہم گر پڑے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ مبارک پکڑ لئے اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین شریفین پکڑ لئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ اور پاؤں چومنے لگے‘‘۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ صحابہ کرام نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین مبارک چومے کیا یہ سنت آگے امت میں بھی چل سکتی ہے؟ امام بخاری کی نظر دیکھ رہی تھی کہ یہ سوال بھی کبھی ہوگا لہذا آپ اگلی حدیث اسی سوال کے جواب میں لائے۔

الادب المفرد ’’بَابُ تَقْبِيْلِ الرِّجْل‘‘ حدیث نمبر 976 میں فرمایا :

عن صهيب قال رَاَيْتُ عَلِيًا يُقَبِّلُ يَدَالْعَبَّاس وَرِجْلَيْهِ.

’’حضرت صھیب بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ہاتھ اور قدم چومتے دیکھا‘‘۔

اس کے بعد امام بخاری باب نمبر 446 ’’قِيَامُ الرَّجُلِ لِلرَّجُّلِ تَعْظِيْمًا.‘‘ ’’ایک آدمی کا دوسرے آدمی کے لئے تعظیماً قیام کرنا‘‘۔

امام بخاری تعظیماً قیام کا باقاعدہ باب قائم کر رہے ہیں جبکہ صحیح بخاری پر اصرار کرنے والے آج تعظیماً قیام پر بحث کرتے پھرتے ہیں۔

اب میں جس جانب آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ امام بخاری نے جو ہاتھ، پاؤں چومنے کی احادیث کا ذکر کیا ہے، یہ احادیث میں نے آج سے تقریباً 30 سال قبل ’’الادب المفرد‘‘ کے مطالعہ کے دوران اپنے والد گرامی سے پڑھی تھیں۔ اس کتاب کے کئی نسخے آج مارکیٹ سے بآسانی مل جاتے ہیں۔ میں ایک عرب ملک میں گیا اور وہاں ایک مکتبہ سے کتابیں خرید رہا تھا تو میں نے وہاں سے ’’الادب المفرد‘‘ خرید لی۔ میں سمجھا کہ یہ نئی تحقیق و تخریج کے ساتھ امام بخاری کی کتاب ’’الادب المفرد‘‘ ہے جو 3 جلدوں پر مشتمل ہے۔ خریدنے کے بعد مجھے اس کتاب کے پڑھنے کا اتفاق نہ ہوا۔ ایک دن مجھے ’’الادب المفرد‘‘ سے ہاتھ، پاؤں چومنے کی احادیث کے حوالہ جات درکار تھے لہذا میں نے اس نئی کتاب کو پکڑا اور جب متعلقہ باب نمبر 444 کھولا تو اس میں حدیث نمبر 972 موجود ہی نہ تھی۔ میں حیران رہ گیا کہ وہ احادیث کہاں ہیں۔ اس کتاب کی تحقیق و تخریج محمد ناصرالدین البانی نے کی ہے۔ عرب دنیا میں حدیث کی تقریباً ہر کتاب پر ان کی تحقیق و تخریج موجود ہے۔

میں نے حیرانی کے عالم میں مزید صفحات پلٹے تو معلوم ہوا کہ اگلی حدیث جس میں تابعی نے صحابی کے ہاتھ چومے تھے، وہ حدیث بھی نکال دی گئی تھی۔۔۔ اگلی حدیث کے لئے باب تقبیل الرجل ’’پاؤں چومنے کا باب‘‘ کھولا تو مکمل باب ہی اس کتاب میں موجود نہ تھا، وہ عنوان ہی کتاب سے نکال دیا اور اس باب میں درج احادیث 975، 976 موجود ہی نہ تھیں۔ میں نے دوسرے نسخے سے اس نئے نسخے کا موازنہ کیا۔ پرانے نسخے میں ہاتھ چومنے کے باب کا نمبر 444 ہے جبکہ اس سے قبل باب ’’الرَجُل يُقبل اِبْنَتَه‘‘ ’’بیٹی کو چومنے کا باب‘‘ کا نمبر 443 ہے۔ نئی کتاب میں البانی صاحب اپنے عقیدے کے خلاف احادیث اور مکمل ابواب ہی نکالتے رہے اور اس تیسری جلد میں جب ’’بیٹی کو چومنے‘‘ کے باب پر پہنچے تو اس باب کا نیا نمبر 389 لکھا۔ گویا اس باب تک انہوں نے اپنے عقیدے کے برخلاف آنے والے 54 ابواب ہی نکال دیئے۔ پھر میں نے احادیث کے نمبر دیکھے تو اصل نسخہ میں باب تقبيل اليد کے ذیل میں درج حدیث کا نمبر 973 ہے جبکہ اس نئی کتاب میں بیٹی کو چومنے کے باب میں ذکر حدیث کا نمبر747 ہے۔ گویا اس مقام تک پہنچتے پہنچتے امام بخاری کی ’’الادب المفرد‘‘ میں سے 226 احادیث نکال چکے ہیں۔

یہ البانی صاحب کی تحقیق و تخریج کا حال ہے جو کہ عالم عرب میں سب سے بڑے محدث گردانے جاتے ہیں۔ اب اس نئی کتاب کا اختتام بھی اجمالاً دیکھ لیں کہ امام بخاری کی اصل ’’الادب المفرد‘‘ کے 644 ابواب ہیں جبکہ البانی صاحب کی تحقیق و تخریج شدہ ’’الادب المفرد‘‘ کے ابواب 561 ہیں۔ گویا امام بخاری کی الادب المفرد سے تخریج کے نام پر 83 ابواب نکال دیئے۔ تخریج (حوالہ جات) کی بجائے اخراج (نکال دینا) ہی کردیا۔ مُخَرِّجْ تو حوالہ جات تلاش کرکے نکالتا ہے مگر یہ مُخَرِّجْ ہوگئے کہ انہوں نے ابواب و احادیث ہی نکال دیں۔

امام بخاری کی اصل ’’الادب المفرد‘‘ میں کل احادیث 1322 ہیں جبکہ اس نئی کتاب میں 993 احادیث مذکورہ ہیں۔ گویا امام بخاری کی روایت کردہ 329 احادیث کو کتاب سے نکال دیا گیا۔ اگر امام بخاری کی کتاب کے ساتھ ان کا یہ سلوک ہے تو دیگر ائمہ کہاں ان سے بچے ہوں گے۔

میں نے حیران ہوکر اس بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی کہ انہوں نے امام بخاری کی کتاب ’’الادب المفرد‘‘ کی احادیث کو کتاب سے نکال کر امام بخاری کے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا؟ تو معلوم ہوا کہ امام بخاری نے تو اپنی کتاب کا نام ’’الادب المفرد‘‘ رکھا تھا، نئی کتاب لکھنے والے البانی صاحب نے ڈنڈی مارنے کے لئے، قطع و برید کرنے کے لئے، احادیث و ابواب نکالنے کے لئے، اپنے عقیدے کے خلاف وہ تمام مواد جو امام بخاری نے روایت کیا اس کو خارج کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ جواز تو پیش کرنا ہی تھا کیونکہ ’’الادب المفرد‘‘ کوئی غیر معروف کتاب تو نہ تھی کہ کسی کو معلوم نہ ہوتا۔ لہذا البانی صاحب نے نئی کتاب میں ’’الادب المفرد‘‘ سے پہلے لفظ ’’صحیح‘‘ کا اضافہ کر دیا۔ جس سے کتاب کا نام ’’صحیح الادب المفرد‘‘ ہوگیا یعنی البانی صاحب کے نزدیک امام بخاری کی جو ’’الادب المفرد‘‘ تھی اس میں صحیح، غیر صحیح، ضعیف اور موضوع احادیث بھی تھیں، اب لہذا انہوں نے اس میں سے صحیح احادیث کو اپنی اس کتاب میں جمع کردیا گویا امام بخاری کو بھی یہ صاحب ’’صحیح‘‘ کر رہے ہیں۔ یہ اگر ’’صحیح‘‘ کرنے پر آئیں تو ان کے صحیح کا معنی تو یہ ہے کہ امام بخاری بھی غلط ہیں۔ گویا البانی صاحب ’’الادب المفرد‘‘ سے غیر صحیح، ضعیف و موضوع احادیث نکالنے سے امام بخاری کے بھی استاد بن گئے۔ ہائے افسوس! اگر آج امام بخاری حیات ہوتے تو خدا جانے ان پر کیا بیتتی۔ صحیح کا لفظ لگایا، مطلب یہ ہوا کہ جو احادیث صحیح نہ تھیں سب نکال دیں اور ان کے مطابق صرف ہی احادیث صحیح نہ تھیں جو ان کے عقیدے کے خلاف تھیں۔

اگر ان سے سوال کیا جائے کہ کیا آپ امام بخاری سے بڑھ کر جرح و تعدیل کے امام ہوگئے، امام بخاری نے تو ابواب قائم کئے تھے اور محدث جب باب قائم کرتا ہے تو اس باب میں اپنا عقیدہ، مسلک اور رجحان بیان کرتا ہے اور اس باب کی تائید میں احادیث لاتا ہے تم نے تو امام بخاری کی سندوں کو ضعیف قرار دے کر ’’الادب المفرد‘‘ سے خارج کر ہی دیا مگر انہوں نے جو ابواب بنائے تھے کہ یہ عقیدہ صحیح ہے تم نے تو وہ 83 ابواب ہی نکال دیئے۔ گویا امام بخاری نے جو عقائد بیان کئے تھے اس کی 83 شاخیں کاٹ ڈالیں۔

امام بخاری نے جب ’’تقبيل الرجل‘‘ ’’پاؤں چومنے کا باب‘‘ بنایا تو اس کا مطلب ہے کہ امام بخاری کا عقیدہ ہے کہ اکابر کے پاؤں چومنا سنت ہے۔ ان کے ابواب نکالنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی احادیث بھی غیر صحیح کردیں اور ان کا عقیدہ بھی غیر صحیح کر دیا۔

خرد کا نام جنوں رکھ دیا، جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے

اس ساری گفتگو اور دلائل کے بعد کیا کسی کے پاس اس بات کا جواز رہ گیا ہے کہ ہمیں صرف صحیح بخاری سے حوالہ دو، ہم صرف صحیح بخاری کے حوالے ہی کو مانیں گے۔ یہ لوگ تو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو تب مانیں گے جب امام بخاری ان کے عقیدے کے مطابق لکھیں اگر امام بخاری کی روایت کردہ کوئی حدیث ان کے عقیدے کے خلاف ہوگی تو اس کو نہیں مانیں گے بلکہ الٹا اسے نئی تحقیق و تخریج کے نام پر کتابوں سے ہی غائب کر دیں گے۔ ابھی تو خدا کا شکر ہے کہ ان کا ہاتھ صحیح بخاری پر نہیں پڑا۔ یہ تمام معاملہ بددیانتی کی انتہا ہے۔ اگر یہ کام کتبِ احادیث کے ساتھ ہونا شروع ہوگیا تو الامان الحفیظ، سو، دو سو سال بعد احادیث کا کیا بنے گا۔۔۔ ؟

نام نہاد محققین اور ان کا معیارِ دین

میں 1972ء، 73ء میں جب M.A کر رہا تھا تو لاہور کی علمی و فکری شخصیات سے علمی استفادے کے لئے میل ملاقات رکھتا تھا اور ان کے دروس و خطبات بھی سن لیا کرتا تھا۔ یونیورسٹی کے کچھ طلبہ ایک صاحب کا درس قرآن سننے جایا کرتے تھے، وہ صاحب اب دنیا میں نہیں رہے، ان کا نام نہیں لینا چاہتا کیونکہ بات سمجھانا مقصود ہے کسی کی ذات پر طعن نہیں۔ میری طبیعت یہ ہے کہ اگر میں کسی کے بارے میں رائے قائم کرتا ہوں تو اس کو براہ راست پڑھ کر قائم کرتا ہوں یا براہ راست سن کر قائم کرتا ہوں۔ لہذا میں بھی ان صاحب کے عقیدے کو براہ راست سننے کے لئے اپنے دوستوں کے ہمراہ درس قرآن سننے ان کی رہائش گاہ گلبرگ کئی ہفتے جاتا رہا۔ میں نے ان کے گِنے چُنے سامعین کے ہاتھ میں قرآن پاک کا انگلش ترجمہ دیکھا۔ ان میں سے بیشتر لوگ قرآن پاک کی تلاوت کرنا بھی نہ جانتے تھے اور ان کا دعویٰ تھا کہ ہم صرف قرآن کو مانتے ہیں، حدیث کو نہیں مانتے۔ وہ لوگ حدیث و سنت کی حجیت کے منکر تھے۔ نیز محقق اور intelectual ہونے کا دعویٰ کرتے اور جس قرآن کو ماننے کا دعویٰ کرتے اس کا عالم یہ تھا کہ سامنے بیٹھنے والے براہ راست تلامذہ انگلش ترجمہ کو ہاتھ میں لئے بیٹھے ہوتے تھے۔ وہ صاحب آیت نمبر بیان کرتے اور سامعین اس کے مطابق انگلش ترجمہ پر نشان لگاتے اور وہاں سے پڑھتے۔ ایک دن میں بھی ان کے درس قرآن میں شریک تھا کہ دوران خطاب ان صاحب نے بیان کیا کہ

’’ایک بزرگ ہوگزرے ہیں جن کا نام شیخ عبدالقادر جیلانی ہے اور کچھ لوگ ان کو غوث الاعظم کہتے ہیں اور پیران پیر دستگیر کہتے ہیں۔ ان کے ماننے والوں کی کتابوں میں یہ سب کچھ لکھا ہوا ہے کہ شیخ عبدالقادر جیلانی دستگیر اس طرح بنے کہ ایک روز شیخ عبدالقادر جیلانی اور اللہ تعالیٰ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر دوستوں کی طرح عرش معلی پر ٹہل رہے تھے کہ بے دھیانی میں عرش کے کنارے سے اللہ تعالیٰ کاپاؤں پھسل گیا اور اللہ تعالیٰ (نعوذ باللہ) نیچے گر گئے۔ چونکہ شیخ عبدالقادر جیلانی نے اللہ تعالیٰ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اس لئے انہوں نے مضبوطی سے اللہ تعالیٰ کو کھینچ کر دوبارہ عرش پر کھڑا کر دیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اے عبدالقادر! ہے تو تو میرا بندہ مگر آج سے تو بھی میرا دستگیر ہوگیا، یعنی میرا ہاتھ پکڑنے والا، مجھے سنبھالنے والا۔

(استغفراللہ العظیم، لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم)‘‘۔

اندازہ کریں کہ علم و تحقیق کے دعویداروں کی گراوٹ کا عالم کیا ہے۔ جب وہ صاحب یہ واقعہ بیان کر چکے اور کہا کہ یہ واقعہ شیخ عبدالقادر جیلانی کے ماننے والوں کی کتابوں میں بھی موجود ہے تو میں نے ایک رقعہ لکھا کہ ’’یہ واقعہ اور یہ عقیدہ کس کس کتاب میں لکھا ہے اس کا حوالہ بھی بیان کر دیں‘‘۔ اور ایک دوست کے ذریعے وہ رقعہ ان کی میز پر پہنچا دیا۔ میرے سامنے انہوں نے وہ چٹ پڑھی اور پڑھ کر ایک طرف رکھ دی اور اپنا درس جاری رکھا، جواب نہ دیا۔۔۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے ایک اور رقعہ لکھ دیا کہ آپ نے اتنی بڑی بات کر دی ہے اور یہ عقیدہ رکھنے والوں کو یکسر کافر و بے ایمان بنا دیا ہے، خارج از اسلام کر دیا ہے۔ یہ بتایئے کہ انہوں نے کس کس کتاب میں یہ لکھا ہے، کوئی ایک ہی کتاب کوڈ کر دیں‘‘۔ ان صاحب نے وہ چٹ پڑھی اور پھر ایک طرف رکھ دی اور اپنا درس جاری رکھا۔ میں نے تیسری چٹ پھر بھیجی، انہوں نے اسے بھی پڑھا اور پھر ایک طرف رکھ دیا اور اپنی بات جاری رکھی۔ حتی کہ درس ختم ہوگیا اور انہوں نے جواب نہ دیا۔

درس کے ختم ہونے کے بعد میں نے اپنے دوستوں کے ہمراہ ان کو گھیر لیا اور کہا کہ آپ اس واقعہ کا حوالہ بتائیں۔ انہوں نے مجھے بھی اپنے پیروکاروں میں سمجھا کہ میرے درس قرآن کو سننے آیا ہے تو میرے ماننے والوں میں سے ہوگا۔ مجھے میرے سوال کے جواب میں کہنے لگے کہ ’’آپ کو حوالہ سے کیا غرض، میں نے جو بتا دیا ہے، یہ ہی حوالہ آپ کو کافی ہے‘‘۔ میں نے اسی وقت ان کو جواب دیا کہ میں 4/3 ہفتوں سے آپ کو سن رہا ہوں، آپ کی ساری تعلیمات کا مغز، نچوڑ اور زور اسی بات پر ہے کہ آپ بغیر دلیل کے اللہ کے رسول کی بات بھی نہیں مانتے، آپ صرف قرآن کو مانتے ہیں، باقی کسی کی بات کو حجت نہیں مانتے۔ آپ کا سبق یہ ہے کہ رسول کی بات بھی حجت نہیں ہے، امت کو گمراہ کر رہے ہیں اور مجھے یہ کہتے ہیں کہ میری بات حجت ہے، بغیر دلیل کے میری بات مان لیں، یہ کتنا بڑا تضاد ہے؟

میری بات سن کر اس نے اپنا ہاتھ چھڑایا اور تیزی سے آگے چلتے ہوئے کہنے لگا کہ ہمارا طریقہ کسی موضوع پر بحث کا یہ نہیں ہے، میرا ایڈریس آپ کے پاس ہے، آپ نے جو چیز بھی پوچھنی ہے، آپ میرے سیکرٹری کے نام ایک خط لکھیں، اس میں اپنا پورا سوال لکھ دیں، اس کے بعد اگر آپ کو جواب دینا ہوا توجواب دے دیا جائے گا اور اگر ملاقات کا وقت دینا ہوا تو میرا سیکرٹری آپ کو ٹائم دے گا، اس کے مطابق آپ آیئے گا، اس موقع پر آپ سے بات ہوگی۔ یہ کہہ کر وہ ’’محقق عصر‘‘ فوراً وہاں سے اپنے کمرے میں چلا گیا۔

میں نے یہ مثال اس لئے کوڈ کی کہ یہ میری زندگی کا ایک ذاتی واقعہ ہے۔ لوگوں کا عالم یہ ہے جو اپنا عقیدہ ہے، صرف وہی صحیح اور سقیم کا معیار ہے، کوئی فن و علم معیار نہیں ہے، باقی سب باتیں ہیں۔ اگر آپ نے علم و فن پر بات کرنی ہے تو پھر ائمہ علم و فن کے وضع کردہ اصولوں پر چلیں اور اگر بے اصولی کرنی ہے تو یہ دین کے ساتھ ظلم ہے۔

ہمارا افسوسناک رویہ

افسوس اس بات کا بھی ہے اہل سنت کا تو علم کے ساتھ کوئی خاص شغف ہی نہیں، کتب حدیث کے لئے تو ہمارے مکتبے بھی گنے چنے ہیں۔ پورے برطانیہ میں اہل سنت کا کوئی مکتبہ نہیں جن کے پاس صحیح مسلم یا صحیح بخاری کی عربی شروح موجود ہوں۔

یہ ایک المیہ ہے جو نہایت تلخ ہے، میں یہ دکھ بیان کر رہا ہوں۔ ہمارے ہاں تو زیادہ سے زیادہ اگر کوئی چیزیں موجود ہیں تو وہ نعتوں اور قوالیوں کی کیسٹیں ہیں۔۔۔ چند ایک اردو کی کتابیں ہوں گی۔۔۔ حجاب، عبائے، تسبیح، پتھر وغیرہ ہوں گے۔۔۔ کہ یہ پتھر پہن لیں تو شادی ہوجائے گی۔۔۔ یہ پتھر پہن لیں تو اولاد ہوجائے گی۔۔۔ یہ پتھر پہن لیں تو قسمت کا میل بن جائے گا۔۔۔ گویا لغویات موجود ہوں گی جن کا دین سے دور کا تعلق نہیں۔۔۔ اردو کی چند سادہ کتب ہوں گی یا چند معروف کتابیں ہوں گی۔

سوال یہ ہے کہ اگر ہماری علم سے دوستی نہ ہونے کے برابر رہی، لاتعلقی رہی تو آئندہ ہمارے عقائد کی بقاء کس طرح ممکن ہوگی۔۔۔ ؟ ہماری ساری دلچسپی اللہ تعالیٰ معاف فرمائے صرف ان امور میں رہ گئی ہے جس سے دین کی خدمت نہیں ہو رہی۔ ہمیں لوگ آکر نذرانے دے دیں تو ہم خوش ہیں۔۔۔ عرس پر آجائیں، ہاتھ پاؤں چوم لیں۔۔۔ جیبیں بھر دیں، خدمت کردیں۔۔۔ تعویذ لے جائیں، دم کروا جائیں۔۔۔ پیسے دے جائیں، نذر نیاز دے دیں تو ہم خوش ہیں۔ میلاد شریف اور گیارہویں شریف کر لیں۔۔۔ ختم پڑھ لیں۔۔۔ سلسلہ کا ختم پڑھ لیں تو سمجھتے ہیں کہ سارا کام ہوگیا۔ آنے والے وقتوں میں یہ رسوم، علوم کے بغیر کس طرح بچیں گی۔ آنے والی نسلیں تو ان پر دلائل مانگیں گی۔ طرق اور سلاسل کس طرح بچیں گے جو حق ہیں۔۔۔ حق ہیں۔۔۔ حق ہیں۔ دین کا سارا مغز تو اہل معرفت و تصوف کے پاس ہے، اولیاء و صوفیاء کے پاس ہے۔ کوئی امام و محدث سلوک و ولایت کے بغیر نہیں ہے۔ کل ائمہ و محدثین، تصوف و ولایت کے بھی امام تھے۔ حضرت معروف کرخی، حضرت بشر الحافی، حضرت سری السقطی فقہ و حدیث کے امام تھے۔ حضرت امام ابوالقاسم القشیری، امام بیہقی کے شیخ تھے، امام ابو عبدالرحمن السلمی، امام بیہقی اور امام قشیری کے شیخ تھے۔ امام حاکم اور امام ابو عبدالرحمن السلمی دونوں نے ایک دوسرے سے احادیث روایت کیں۔

اگر درج بالا صورت حال جاری رہی اور اپنے عقائد کی مخالفت میں موجود احادیث کو کتب حدیث سے نکالنے کا سلسلہ جاری رہا تو یہ ائمہ کس طرح بچیں گے۔

صحیحین کے رواۃ صوفیاء ہیں

امام بخاری نے جن رواۃ سے صحیح بخاری روایت کی وہ بھی تمام کے تمام صوفی ہیں۔ امام عبدالاول ابن الوقت السجزی بخاری شریف کے سب سے معتمد راوی ہیں اور آپ صاحبِ منازل السائرین، امام ابواسماعیل عبداللہ انصاری الحروی کے مرید اور خاص ذاتی خادم ہیں۔ امام سجزی بھی محدث الآفاق ہیں۔ پوری دنیا میں صحیح بخاری کی روایت امام سجزی کے ذریعے چلی ہے۔ امام بخاری کے شاگرد امام یوسف فربری ہیں اور ان کے شاگرد امام سجزی ہیں۔ ساری دنیا میں بخاری شریف کی سند عن طریق الفربری ہے۔

امام سیوطی، امام نووی، امام قرطبی، امام عسقلانی، امام قسطلانی، امام زمخشری، قاضی عیاض اور کل ائمہ تک یہی سند گئی۔ ایک طرف امام سجزی، امام ابواسماعیل عبداللہ الانصاری الحروی کے ذاتی خادم اور دوسری طرف پوری دنیا میں صحیح بخاری انہی کے ذریعے پھیلی۔

اسی طرح امام داؤدی الحروی بھی بخاری شریف کے رواۃ میں سے ہیں اور آپ امام ابوالقاسم القشیری کے شاگرد ہیں۔

امام نووی جو امام الآفاق اور مستند العالم ہیں، علم حدیث میں عالم عرب کے مرجع ہیں اور صحیح مسلم کے سب سے بڑے معتمد شارح ہیں۔ اگر امام نووی کی امام مسلم تک کی سند کو دیکھیں تو اس سند میں موجود ہر راوی اہل تصوف و سلوک میں سے ہے اور صوفی ہے۔ اگر تصوف کا انکار کر دیا تو پورے عالم میں صحیح مسلم کی سند نہیں بچتی۔

امام نووی شرح صحیح مسلم میں امام مسلم تک اپنی سند کو بیان کرتے ہوئے اپنے سے اوپر ہر راوی کے ساتھ صوفی لکھتے ہیں۔ اور اپنی یہ سند شرح النووی صحیح مسلم ص 169 تا 172 پر لکھتے ہیں۔

صحیح مسلم کے ساری دنیا میں سب سے زیادہ معتبر و معتمد راوی امام ابراہیم بن محمد بن سفیان ہیں اور ان کی روایت امام ابو احمد جلودی کے ذریعے آگے پہنچی اور یہ بھی صوفی ہیں اور امام نووی کی سند میں شامل ہیں۔ امام نووی امام جلودی کے بارے لکھتے ہیں کہ شيخاً صالِحاً زاهِداً وَکَان مِنْ کِبَارِ عِبادِ الصُّوْفِيَه.

کہ وہ عظیم عبادالصوفیہ میں سے تھے، لفظ ’’الصوفیہ‘‘ استعمال کر رہے ہیں۔ اب عالم یہ ہے کہ صوفی کا نام امام نووی کے ماننے والوں کے ہاں گالی تصور ہوتا ہے اور یہ صوفیہ کا لفظ کوئی شارح نہیں لکھ رہا بلکہ امام نووی خود اپنی سند میں موجود راویوں کا تعارف ان الفاظ سے کروا رہے ہیں۔

امام جلودی جنہوں نے کئی صوفیاء کی صحبتوں کا پایا جب ان کی وفات ہوئی تو امام حاکم (صاحب مستدرک) نے کہا کہ

وَخَتَمَ لِوَفَاتِهِ سَمَاعُ صَحِيْح مُسْلِم وَکُلُّ مَنْ حَدَّثَ بِه بَعْده عَنْ ابراهيم بن محمد بن سفيان فَلَيْسَ بِثِقَةٍ.

’’امام جلودی کی وفات کے بعد ابن سفیان سے امام مسلم کی روایت ختم ہوگئی، ان کے بعد اگر کسی نے ان کا نام لے کر روایت کیا تو وہ ثقہ نہیں ہے۔ سو وہی روایت ثقہ ہے جو امام جلودی کے ذریعے چلی اور یہ امام جلودی کبار صوفیاء میں سے ہیں۔

صحیح مسلم کے صحیح مسلم ہونے کا ثبوت اور صحیح بخاری کے صحیح بخاری ہونے کا ثبوت بیان کر رہا ہوں کہ ان کتب کو جنہوں نے روایت کیا اور ہم تک بخاری و مسلم پہنچی ان میں سے آدھے سے زیادہ راویان عالم صوفیاء تھے۔ اگر تصوف عین بدعت بن جائے اور اس کا انکار کر دیا جائے تو صحیح بخاری کے صحیح بخاری ہونے کا اعتبار دنیا میں برقرار نہیں رہتا اور اسی طرح صحیح مسلم کے صحیح مسلم ہونے کا اعتبار نہیں رہتا، ثبوت ختم ہو جاتا ہے۔

امام نووی اور امام مسلم کے درمیان صحیح مسلم کی سند میں 6 واسطے ہیں اور ان میں سے 4 شیوخ اکابر صوفیاء میں سے تھے۔ اب تصوف کو اصلاً بدعت اور خلاف دین تصور کر کے صرف حدیث پر اعتبار کرنے والوں کے پاس صحیح مسلم کا کیا ثبوت ہے کہ یہ صحیح مسلم ہے کیونکہ یہ تو صوفیاء نے آگے روایت کی ہے۔ ان کے علم میں تھا کہ یہ صرف محدث ہیں جبکہ میں نے آپ کو امام نووی کی کتاب کا حوالہ دے دیا کہ انہوں نے خود لکھا کہ یہ صرف محدث نہیں بلکہ اکابر صوفیاء بھی ہیں۔ پس صوفیاء کو نکالنے سے صحیح مسلم کی سند ختم ہوجاتی ہے۔

یہی حال صحیح بخاری کا ہے۔ صحیح بخاری کے راوی امام سجزی الحروی بھی صوفی تھے اور امام داؤدی بھی صوفی تھے۔ اگر ان صوفیاء کا انکار کردیں تو صحیح بخاری کی سند بھی ختم ہوجاتی ہے۔ اگر تصوف کو نکال دیں تو اس بات کا ثبوت نہیں رہتا کہ یہ صحیح بخاری ہے کہ نہیں؟

اس طرح امام قشیری، امام سلمی، فضیل ابن عیاض، داؤد الطائی، حبیب عجمی، امام غزالی، امام حارث محاسبی، امام مکی (صاحب قوت القلوب)، جنید بغدادی، معروف کرخی، سری سقطی، امام بشر الحافی، ابراہیم بن ادہم رحمہم اللہ محدث بھی تھے اور صوفی بھی تھے۔ اسماء الرجال کی ہر کتاب میں یہ موجود ہے۔ لیکن افسوس کہ کسی نے اس لحاظ سے پرکھا نہیں، وہ محدثین کو صرف محدثین اور صوفیاء کو صرف صوفیاء سمجھتے رہے، حالانکہ ائمہ حدیث خود صوفی تھے، ان صوفیاء نے امام ابن عیینہ، امام مالک جیسے عظیم محدثین سے روایت کیا۔۔۔ یہ سب ایک مرتبہ کے لوگ تھے۔ صرف فرق یہ تھا کہ جن پر حال غالب آجاتا تو وہ ’’قال‘‘ کم کر دیتے چونکہ ’’قال‘‘ کم کر دیتے اور ’’حال‘‘ میں رہتے اس لئے روایت زیادہ نہ کرتے تھے اور چونکہ روایت کثرت سے نہیں کی، لہذا کتابیں بھی زیادہ مدون نہ کر سکے۔ نتیجتاً لوگوں نے انہیں بطور محدث نہ جانا ورنہ وہ علم حدیث و فقہ کے بہت بڑے امام تھے۔ ان کی شخصیت کے یہ گوشے عوام الناس سے مخفی رہ گئے، لیکن ائمہ فن سے مخفی نہ تھے، اسماء الرجال کی کتب میں ان کے احوال درج ہیں۔ وہ کثیرالاطلاع اور کثیرالعلم تھے مگر کثیرالروایت نہ تھے، روایت زیادہ نہ کرتے تھے۔ یہی حال فقہاء کا تھا کہ وہ احکام لے لیتے تھے اور صرف انہی کو بیان کرتے، جن احادیث سے یہ احکام اخذ کرتے ان کو محدثین کے طریق پر آگے روایت نہ کرتے۔

اب آپ کے سامنے ایک اور موازنہ پیش کر رہا ہوں کہ سند میں محدثین کی نسبت صوفیاء کے واسطے صاحب کتاب (بخاری و مسلم) تک کم ہیں۔

  • امام نووی اور امام مسلم کے درمیان 6 واسطے ہیں جبکہ امام قشیری اور امام مسلم کے درمیان 3 واسطے ہیں۔
  • شیخ اکبر محی الدین ابن عربی اور امام مسلم کے درمیان 5 واسطے ہیں۔
  • امام نووی کے امام بخاری تک بھی 6 واسطے ہیں جبکہ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کے امام بخاری تک 5 واسطے ہیں۔
  • اسی طرح امام ترمذی تک شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کے 4 واسطے ہیں۔

آج لوگ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کو شیخ اکبر کہہ کر رد کر دیتے ہیں۔ حالانکہ آپ حدیث میں شیخ الاسلام امام ابو طاہر احمد بن محمد السلفی الاصبہانی کے شاگرد ہیں۔ ابن صلاح، امام نووی، امام قسطلانی، امام عسقلانی کو پڑھیں تو یہ احباب امام سِلفی کو حدیث کی بحثیں کرتے ہوئے بطور حجت جگہ جگہ کوڈ کرتے ہیں۔ امام سِلفی کا نام اصول حدیث کی سب کتابوں میں بطور حجت کوڈ ہوتا ہے۔

اس طرح امام قشیری رحمۃ اللہ علیہ، امام سلمی رحمۃ اللہ علیہ اور ابو طالب مکی رحمۃ اللہ علیہ کا نام اصول حدیث، علم، تفسیر، فقہ، علم العقیدہ میں ائمہ حدیث بطور حجت کوڈ کرتے ہیں اور یہ اکابر صوفیاء ہیں مگر علم حدیث میں حجت ہیں۔ امام سِلفی، امام ابو عبداللہ حسین بن علی الطبری کے شاگرد ہیں اور یہ امام عبدالغافر کے شاگرد ہیں اور امام عبدالغافر امام جلودی کے شاگرد ہیں۔ گویا امام نووی کی سند اور شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کی سند صحیح مسلم میں امام جلودی پر ایک ہو جاتی ہے۔

امام ابن قدامہ المقدسی الحنبلی، سند صحیح بخاری میں امام نووی کے شیخ ہیں اور امام ابن قدامہ المقدسی، حضور غوث الاعظم کے تلامذہ اور مریدین میں سے ہیں۔ اسی طرح امام سِلفی، حضور غوث الاعظم کے تلامذہ میں سے ہیں۔

سمجھانا مقصود یہ ہے کہ کل محدثین جن کو پڑھنے والوں نے بطور محدث دیکھا، ان کی زندگی کو تفصیل سے پڑھئے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا دوسرا رخ یہ ہے کہ وہ صوفیاء ہیں۔ کل اکابر صوفیاء جن کو دنیا نے بطور صوفیاء جانا ان کے احوال کا تفصیل سے مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ محدثین ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ اصل عقیدہ یہ ہے کہ جہاں علم شریعت اور علم طریقت و تصوف ایک ہو۔ اگر تصوف کو دین میں فتنہ، بدعت بنا دیا جائے تو معاذاللہ بخاری و مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی کل حدیث کی اسناد دنیا میں ختم ہو جاتیں ہیں اور ان کتب پر اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔ اہلسنت نے اگر محنت نہ کی تو آنے والے وقت میں اس اصل عقیدہ کی حفاظت کس طرح ہوگی۔

اکابر کا عقیدہ

امام بخاری و امام مسلم دونوں کے شیخ امام ابن شیبہ (وفات 235 ہجری) نے بھی حدیث میں ایک کتاب ’’کتاب الادب‘‘ لکھی۔ دین کا ادب سکھانے کے لئے ائمہ نے کتب لکھیں۔ ہر حدیث کی کتاب میں ’’کتاب الادب‘‘ موجود ہے الگ مستقل کتابیں بھی لکھی گئیں جیسے امام بخاری نے اور امام ابن شیبہ نے لکھیں۔ عقیدہ کے اعتبار سے اہمیت بتانا چاہتا ہوں کہ امام ابن شیبہ نے اپنی کتاب ’’کتاب الادب‘‘ میں دین کا ادب سکھانے کے لئے پہلا باب ’’بَابُ مَاجآءَ فی الرَّجُلِ يُقَبِّلُ يَدَالرَّجُلْ‘‘ (بزرگوں کے ہاتھ چومنے کا باب) قائم کیا۔ ائمہ کے نزدیک ادب کی اس قدر اہمیت تھی کہ اپنی کتاب کا پہلا باب ہی بزرگوں کے ہاتھ چومنے کے حوالے سے قائم کیا۔ افسوس آج ہاتھ پاؤں چومنے کو بدعت و شرک قرار دیا جارہا ہے۔ جبکہ ائمہ حدیث جو امام بخاری و امام مسلم کے شیخ ہیں وہ اپنی ’’کتاب الادب‘‘ کا آغاز ہی اس امر سے کر رہے ہیں۔

اس باب میں انہوں نے 5 احادیث کا ذکر کیا ہے۔ ان احادیث کو امام بخاری، امام ابوداؤد، ابن ماجہ، امام احمد بن حنبل، امام ترمذی نے بھی اپنی کتب میں کوڈ کیا۔ امام ابن شیبہ نے اس باب میں تیسری حدیث ہاتھ اور پاؤں چومنے کے حوالے سے لائے ہیں کہ

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ یہود کا ایک قبیلہ پہلی مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کون ہیں؟ بتایا گیا کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں تو قَبَّلُوْا يَدَالنَّبِیِّ وَرِجْلَيه ان یہودیوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ اور پاؤں چومے۔

گویا یہودی بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پاؤں چومتے تھے، اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے انہیں منع نہ کیا کہ تم ہاتھ پاؤں چوم رہے ہو۔ آج توکوئی اگر بزرگوں کے پاؤں چوم لے تو کہا جاتا ہے (معاذاللہ) سجدہ ہو رہا ہے حالانکہ اعتراض کرنے والے کو سجدہ کی تعریف کا پتہ نہیں ہوتا کہ سجدہ کس طرح بنتا ہے، کیا تھوڑا سا سر جھکانا سجدہ کہلائے گا؟ نہیں، ہر گز نہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم چومتے تھے اور وہ سجدہ نہ بنتا تھا۔ ہم سر جھکا کر حجر اسود کو چومتے ہیں تو کیا یہ سجدہ بن جاتا ہے؟ نہیں، ہر گز نہیں۔

اس حدیث کو امام ترمذی، امام نسائی، امام ابن ماجہ، امام بغوی، امام طبرانی نے بھی روایت کیا۔ اس حدیث پر بعض لوگ جن کے پاس علم قلیل ہے اور غصہ زیادہ ہے اور صرف یہ بات جانتے ہیں کہ اگر اپنے عقیدے کے خلاف کوئی حدیث آئے تو رد کر دیا جائے اور اس پر شرک، بدعت اور ضعیف و موضوع ہونے کا فتویٰ لگا دو، سوچے سمجھے بغیر یہ کہتے ہیں کہ جنہوں نے ہاتھ پاؤں چومے وہ تو یہودی تھے، لہذا ان کا عمل سنت نہیں بن سکتا۔ نادانو! اس قدر عناد اور بغض میں یہ بات کہنے والو! جو پاؤں چوم رہے ہیں تمہیں وہ تو نظر آرہے ہیں مگر جن کے پاؤں چومے جا رہے ہیں اور جو اجازت دے رہے ہیں وہ نظر نہیں آرہے۔ اگر چومنے والے یہودی تھے تو جن کے قدم چومے جا رہے ہیں وہ تو مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اگر یہ عمل درست نہ ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منع فرما دیتے کہ قدم مت چومو، اس کی اسلام میں اجازت نہیں ہے۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے قدم چومنے سے منع نہیں فرمایا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی یہودیوں کو اس فعل سے منع نہیں کیا پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منع نہ فرمانا اس بات کے سنت ہونے کو ثابت کررہا ہے۔ اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد امام ابن شیبہ روایت کرتے ہیں کہ اَنَّ اَبَا عُبَيْدَةَ قَبَّلَ يَداعُمَرَ.

’’حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ چومتے‘‘

گویا یہ سنت ان کے ہاں معروف تھی۔ اس کے بعد امام ابن شیبہ لکھتے ہیں کہ القبلۃ سنۃ ’’ہاتھ اور پاؤں چومنا سنت ہے‘‘۔

ہر امام نے ایسی احادیث کو ذکر کرتے ہوئے یہ التزام کیا کہ پہلے ان احادیث ذکر کرتے جن میں یہ ذکر ہوتا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ و پاؤں چومے، ان ائمہ کو معلوم تھا کہ بعد میں یہ بھی سوال کوئی کر سکتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ و قدم چومے گئے ہیں، کسی اور کے لئے یہ نہیں ہو سکتا۔ اس لئے ان ائمہ نے بعد ازاں ان روایات کو بھی ذکر کیا ہے جن میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایک دوسرے کے ہاتھ چومے اور اسی طرح تابعین، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاتھ چومتے۔ پس اساتذہ، مشائخ، بزرگ، والدین کے ہاتھ پاؤں چونا سنت ہے۔

تصویر کا دوسرا رُخ

یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہرگز نہیں ہے کہ چونکہ ہاتھ پاؤں چومنا سنت ہوگیا اس لئے ہاتھ پاؤں آگے کر کے بیٹھے ہوئے ہوں کہ ’’چومتے رہو‘‘۔ اس طرز عمل پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے، یہ ظلم کی انتہا ہے۔ پس جس کے ہاتھ پاؤں جا رہے ہیں اس کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے، اس کے اندر تواضع و انکساری ہونی چاہئے، وہ اپنے آپ کو بچائے، اس کے لئے اگر قیام بھی کیا جائے تو اس کو اپنی طبیعت پر بوجھ محسوس ہو اور وہ انہیں بٹھا دے۔ لہذا بڑے کے لئے یہ ادب ہے کہ وہ اپنے آپ کو بچائے اور چھوٹے کے لئے یہ ادب ہے کہ وہ اکابر کے ہاتھ پاؤں چومے۔

امام ابن شیبہ مزید روایت کرتے ہیں کہ خیثمہ بن عبدالرحمن (امام حدیث) نے امام طلحہ کے ہاتھ چومے اور امام طلحہ نے امام مالک بن مغول (اہل کوفہ کے صوفیاء میں سے تھے) کے ہاتھ چومے، صرف یہاں تک نہیں بلکہ جس طرح امام مسلم نے امام بخاری کے پاؤں چومنے کی اجازت مانگی تھی اسی طرح امام بخاری نے اپنے استاد امام اسحاق بھی راہویہ سے کہا اَتَاذَنُ لِیْ اَنْ اُقُبِّل رِجْلَکْ

’’کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ آپ کے پاؤں چوم لوں‘‘۔ (مجمع الزوائد، امام ہیشمی)

اس سے امام بخاری کا عقیدہ واضح ہو رہا ہے۔

نام نہاد محققین نے امام بخاری کی روایت کردہ احادیث اور ان کے قائم کردہ ابواب تک تحقیق و تخریج کے نام پر کتابوں سے غائب کر دیئے۔ مگر زندگی بھر امام بخاری کے اس عمل کو کس طرح خارج کریں گے کہ وہ اپنے شیخ سے ان کے پاؤں چومنے کی اجازت مانگ رہے ہیں۔

پس ہاتھ پاؤں چومنا کل ائمہ کا عقیدہ ہے مگر چونکہ یہ عمل بعض لوگوں کے عقیدے کے خلاف تھا لہذا انہوں نے اسے کتابوں ہی سے نکال دیا۔ پس آج کے دور میں صحیح و غیر صحیح کا معیار، درست و غلط کا پیمانہ نہ قرآن ہے نہ حدیث ہے، نہ اصول ہے نہ فن ہے اور نہ علم ہے، جس عقیدے پر قائم ہیں وہی اصول ٹھہرا۔ اگر عقیدے کے مطابق چیز ہوئی تو قبول کر لی، اگر عقیدے کے مطابق نہ ہوئی تو اس کو رد کر دیا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ آج ہم علمی و تحقیقی طور پر اس طرز عمل کا سدِ باب کریں اور نصوص اصلیہ کے ذریعے صحیح عقیدے کو دلائل کے ساتھ نسلِ نو کے سامنے رکھیں۔

عقیدے کے باب میں اس ادب کی وضاحت صحیح مسلم سے کتاب الایمان میں درج حدیث مبارکہ سے کرتے ہیں۔ (جاری ہے)