الحدیث : ایمانی اور نسبی رشتوں کا جداگانہ شرعی حکم

علامہ محمد معراج الاسلام

حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ روای ہیں :

لَمَّا يَدْخُلُ الْمُوْمِنُ الْجَنَّةَ يَسْاَلُ : اَيْنَ اَبِیْ وَاُمِّیْ وَ وَلَدِیْ و َزَوْجَتِیْ يُقَالُ : لَيْسُوْاهِنَا لِاَنَّهُمْ مَا فَعَلُوْا الصَّالِحَاتِ مِثْلَکَ فَيَقُوْلُ اِنِّیْ کُنْتُ اَعْمَلُ لِیْ وَلَهُمْ فَيُقَالُ اُدْخُلُوْهُمُ الْجَنَّةَ.

(قرطبی، 15 : 296)

’’اللہ کا ایک بندۂ مومن جنت میں پہنچ کر پوچھے گا : میرے ماں باپ اور اہل و عیال کہاں ہیں؟ یہاں نظر نہیں آرہے، بتایا جائے گا : وہ یہاں نہیں ہیں، کیونکہ ان کے اعمال تیرے جیسے نہیں تھے۔ وہ کہے گا : میں نیک اعمال کرتا تھا، اپنے لئے اور ان کے لئے بھی۔ فرشتوں کو حکم دیا جائے گا، اس کے ساتھ ان کو بھی جنت میں داخل کردو‘‘۔

شرح و تفصیل

ان رشتہ داروں کو یہ اعزاز صرف اس وجہ سے حاصل ہوگا کہ وہ اس جنتی شخص کے رشتہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب ایمان بھی ہوں گے، اس لئے گنہگار ہونے کے باوجود انہیں اس بہشتی شخص کی شفاعت کے باعث جنت میں داخل کردیا جائے گا۔

اگر وہ ایمان دار نہ ہوتے تو محض قرابت داری اور نسبی تعلق کی وجہ سے یہ جنتی مراعات حاصل نہ کر سکتے، ایمان ہی ایک ایسا محبوب عمل ہے جس کے ساتھ نسبی رشتہ کار آمد بن جاتا ہے اور ایمان کے بغیر کوئی فائدہ نہیں دیتا۔ اس کی تفصیل یہ ہے :

اللہ کے دین میں سب سے زیادہ اہمیت ’’ایمان‘‘ کو حاصل ہے۔ ایمان ہے تو نسبی رشتے کا بھی اعتبار ہے اور وہ انسان کے لئے فائدہ مند ہے۔ اگر ایمان نہیں تو صرف نسبی رشتہ، خونی اور خاندانی تعلق اور برادری کی قرابت بے کار ہے۔ یعنی اگر ایمان ہے تو پرائے بھی اپنے ہیں اور اگر ایمان نہیں تو اپنے بھی پرائے ہیں۔

مثال کے طور پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ حبشہ کے باشندے تھے۔ جناب صہیب رضی اللہ عنہ روم کے رہنے والے تھے، حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کا تعلق ملک فارس کے ساتھ تھا، ان میں سے کوئی بھی مکی، مدنی، عربی یا ہاشمی نہیں تھا۔ غیر عربی قوموں سے تعلق رکھتے تھے، جب ایمان لائے تو حضور عربی ہاشمی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف ان کو سینے سے لگا لیا اور اپنا کہا بلکہ ان میں سے ایک سعید روح، نیک بخت انسان حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو یہ اعزاز بھی بخشا کہ سلمان تو میرے اہل بیت کا ایک فرد ہے۔ ’’سَلْمَانُ مِنَّا اَهْلَ الْبَيْتِ‘‘ اور ابولہب جو عربی، ہاشمی اور ہم قوم تھا اس کے بارے میں فرمایا کہ یہ ہمارا نہیں بلکہ دوزخ کا ایندھن ہے۔ اپنی بیوی سمیت آگ میں جائے گا کیونکہ ایمان نہیں لایا۔

جب میدان بدر میں کفر و اسلام کی پہلی جنگ لڑی گئی تو اس میں قریبی رشتہ دار ایک دوسرے کے سامنے صف آراء تھے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نوجوان بیٹے عبدالرحمن اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ بعد میں جب مسلمان ہوگئے تو انہوں نے ایک دفعہ اپنے ابا جان جناب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے کہا : آپ تین بار میری تلوار کی زد میں آئے تھے لیکن میں نے ہر بار آپ کو باپ سمجھ کر چھوڑ دیا۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بیٹے! اگر تم میری تلوار کی زد میں آجاتے تو پہلی ہی بار میں تمہارے پرخچے اڑا دیتا کیونکہ تم اس وقت ایمان دار نہ تھے۔ اسلام میں ایمان کے بغیر نسبی رشتے کی کوئی حیثیت نہیں۔

ایمانی رشتے کی اہمیت اور برکات

اگر کسی بے دین اور بے ایمان کافر شخص کا نسبی تعلق، کسی بڑے ہی عظیم و مقبول انسان کے ساتھ ہو اور وہ اس کا بیٹا، چچا، بیوی ہو یا کوئی اور قریبی رشتہ دار ہو تو اس کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ بے دینی کی وجہ سے اس کے لئے نسبی رشتے کی کوئی حیثیت و اہمیت نہیں رہتی۔ اللہ کے ہاں وہ بے کار اور بے وقعت ہوتا ہے لیکن اسی نسبی تعلق اور رشتہ داری کو بے حد و حساب اہمیت حاصل ہو جاتی ہے جب وہ رشتہ دار ایمان دار بھی ہو۔ اس کی تفصیل یوں ہے :

دنیا میں انسان بستے ہیں۔ ان میں اچھے، برے، عبادت گزار اور گناہ گار ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ کوئی کسی کا باپ، بیٹا یا شوہر ہوتا ہے اور کوئی عورت کسی کی ماں، بیٹی یا بیوی ہوتی ہے۔ یہ ایسے رشتے ہیں جو اخلاص و محبت پر قائم ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر جیتے اور خوشی محسوس کرتے ہیں۔ اگر کوئی جدا ہو جائے تو دوسرے کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔

محبت و شفقت اور پرخلوص پیار کی یہ کیفیت جنت کے اندر بھی برقرار رہے گی۔ نیک پاک لوگ جب مسرت و شادمانی کی سرزمین، بہار آفرین، بہشت بریں میں پہنچ جائیں گے تو وہاں مسرور و شادماں ہونے کی بجائے خالی خالی نظروں سے نورانی فضاؤں کو گھوریں گے اور ہر طرف بکھری نعمتوں کو دیکھ کر خوش ہونے کی بجائے مغموم و بے قرار ہوجائیں گے۔

پوچھا جائے گا : لالہ و گل، بہار و سرور اور رنگ و نور کی اس زرفشان سرزمین میں پہنچ کر وجہ اضطراب کیا ہے؟ کیوں بے قرار ہو؟ جبکہ نعمتیں آس پاس بکھری پڑی ہیں اور آسائشیں پاؤں میں بچھی ہوئی ہیں؟

اہل بہشت عرض کریں گے : اے رب کریم! ہم کیسے خوش ہوں جبکہ ہمیں سکون و قرار بخشنے والے افراد ہمارے سامنے نہیں، پتہ نہیں وہ کس عالم میں ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد، ہمارے ماں باپ، ہمارے شوہر، ہماری بیویاں اور بیٹیاں سب یہاں ہمارے ساتھ اور ہماری نظروں کے سامنے ہوں۔ ان کے بغیر تو سدا بہار جنت خزاں زدہ اور سونی لگ رہی ہے۔ ارشاد ہوگا :

اے بندو! تم نے دنیا میں اطاعت و بندگی اور فرمانبرداری کا مظاہرہ کیا اور پرہیزگار و تقویٰ شعار بن کر رہے۔ اس لئے تمہیں جنت کے یہ اونچے درجات اور اعلیٰ مقامات عطا کئے گئے ہیں۔ تمہارے ان رشتہ داروں نے فسق و فجور سے لبریز، نافرمانی کی زندگی گزاری اور بھٹکے ہوئے لوگوں کی طرح غلط راہوں پر چلے اور ہدایت و پاکیزگی سے دوری اختیار کی۔ اس لئے وہ تمہارے ہم مرتبہ نہیں اور نہ ہی ان اعلیٰ درجات کے مستحق ہیں۔

اہل جنت عرض کریں گے کہ مولی کریم! وہ نیک پاک اور پرہیزگار نہ سہی، ایماندار تو ہیں۔ یہ مانا کہ سرکش و بے راہ اور بھٹکے ہوئے تھے۔ کسی خصوصی اجر و ثواب اور حسن سلوک کے مستحق نہیں، مگر رب کریم! ہم اپنے دلوں کو کیسے سمجھائیں؟ ان کے بغیر نہیں رہ سکتے، ہماری خاطر اور اس جنت میں خوشی کے ساتھ رہنے کے لئے اپنی رحمت کے ساتھ انہیں بھی بخش دے اور وہی درجہ عطا فرما جو ہمیں عطا فرمایا ہے۔

چنانچہ ان بخشے ہوئے لوگوں کی درخواست پر ان ایماندار گناہ گاروں کو بھی وہ درجہ عطا کر دیا جائے گا۔ نافرمان اولاد، نیک ماں باپ کے پاس پہنچ جائے گی۔ نافرمان ماں باپ، اولاد کے پاس پہنچ جائیں گے۔ نیک بیویاں، نافرمان شوہروں کو اپنے پاس بلالیں گی اور نیک شوہر گنہگار بیویوں کو بخشوالیں گے اور جنت کے اونچے درجات میں بلالیں گے۔ قرآن میں ہے :

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم بِإِيْمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ

(الطُّوْر، 52 : 21)

’’جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور ان کی اولاد نے بھی ایمان لانے میں ان کی پیروی کی، (تو اگر وہ اولاد گناہوں کی وجہ سے جنت میں اعلیٰ درجات کی مستحق نہ ہوئی تو بھی) ہم انہیں (جنت میں) ان کے ماں باپ کے پاس پہنچا دیں گے‘‘۔

نیک، پرہیزگار اور وفادار لوگ، اچھے اعمال اور تقویٰ و طہارت کی وجہ سے بہشتوں میں داخل ہوں گے اور ان کی خوشی کے لئے ان کے گناہگار آباء واجداد، اولاد اور میاں بیوی کو بھی ان کی درخواست پر جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔ جہاں انہیں فرشتے ہر وقت آتے جاتے سلام کریں گے۔ درج ذیل آیت مبارکہ میں یہی مژدہ سنایا گیا ہے :

جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَالْمَلاَئِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِم

(الرعد : 23 : 24)

’’اہل ایمان اور ان کے آباء و اجداد، آل اولاد اور ازواج جو ایمان دار ہیں سب سدا بہار جنتوں میں داخل ہوں گے اور فرشتے ہر دروازے سے داخل ہو کر انہیں سلام کہیں گے‘‘۔

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما راوی ہیں :

اِنَّ اللّٰهَ عَزَّوَجَلَّ لَيَرْفَعُ ذُرَّيَّةَ الْمُوْمِنِ مَعَه فِیْ دَرَجَتِه فِیْ الْجَنَّةِ وَاِنْ کَانَ لَمْ يَبْلُغْهَا بِعَملِه لِتَقَرَّبِه عَيْنُه.

(مجمع الزوائد، 7 : 114)

’’بے شک اللہ تعالیٰ، مومن شخص کی اولاد کو بھی جنت میں اس کے ساتھ اس جیسا درجہ عطا کر دے گا، جس کا وہ اپنے عمل کے ساتھ مستحق نہیں ہوگا۔ یہ سب کچھ اس لئے ہوگا تاکہ مومن کی آنکھ ٹھنڈی ہو‘‘۔

دو وضاحتیں

1۔ اس پوری تفصیل سے یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ ایمان ہو تو نسبی رشتہ فائدہ دیتا ہے اور نجات و کامیابی اور درجات میں بلندی کا سبب بنتا ہے وگرنہ کافر اور ایمان سے بے بہرہ شخص کو نسبی رشتہ کوئی فائدہ نہیں دیتا۔

نوح علیہ السلام کا بیٹا پانی میں غرق ہوا اور نوح علیہ السلام کی شان و عظمت نے اسے کوئی فائدہ نہ دیا تو اس میں بیٹے کا قصور تھا، وہ کافر تھا اور نوح علیہ السلام کی شان پیغمبری اور مقبولیت سے فائدہ اٹھانے کا اہل نہیں تھا۔ اگر ایمان دار ہوتا تو اسے بھی فائدہ پہنچتا اور نجات پاتا۔ جیسے کشتی میں سوار دیگر اہل ایمان کو فائدہ پہنچا۔ انہوں نے طوفان سے نجات پائی اور کامیاب ہوئے۔

2۔ دوسری یہ حقیقت بھی واضح ہوگئی کہ رشتوں کی دو قسمیں ہیں۔

1۔ ایمانی رشتہ 2۔ جسمانی رشتہ

اگر ایمانی رشتہ نہ ہو تو اللہ کے ہاں صرف جسمانی اور نسبی رشتے کی کوئی اہمیت نہیں، وہ ایسے ہوتا ہے گویا اس سے کوئی تعلق اور رشتہ ہے ہی نہیں۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے نسبی اور جسمانی رشتہ ہونے کی وجہ سے اپنے بیٹے کو آواز دی کہ يَابُنَیَّ ارْکَبْ مَعَنَا. اے بیٹے میرے ساتھ کشتی پر سوار ہوجاؤ۔ مگر اللہ پاک نے حضرت نوح علیہ السلام کو بتایا اَنَّه لَيْسَ مِنْ اَهْلِکْ یعنی ایمانی رشتہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ تمہاری ’’آل‘‘ ہے ہی نہیں۔ یعنی نسبی لحاظ سے اس کے بیٹا ہونے کا کوئی اعتبار ہی نہیں۔ اس لئے آپ اس ربانی قانون سے آگاہ ہوجائیں اور بیٹے کو بھول جائیں۔

اللہ پاک نے فرمایا چونکہ آپ کو علم نہیں کہ صرف نسبی بیٹا، ایمان کے بغیر بیٹا شمار نہیں ہوتا، اس لئے آپ اسے بیٹا مت کہیں۔ وہ آپ کی آل نہیں ہے۔ اس سے بعض نادان لوگ پیغمبر عظیم کی اتنی سی بات کو لے کر یہ غوغا آرائی شروع کردیتے ہیں کہ نبی کے پاس علم نہیں ہوتا، دیکھو قرآن نے بتایا کہ ان کے پاس علم نہیں تھا۔

حالانکہ اللہ کا رسول رسالت کے منصب پر فائز ہی اس وقت ہوتا ہے جب علوم و معارف کے سمندر اس کے سینے میں انڈیل دیئے جاتے ہیں اور وہ اپنے وقت کا سب سے بڑا عالم ہوتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے کوئی شخص علوم دین و دنیا فزکس، کیمسٹری وغیرہ اور دینیات میں ماہر، علامہ اور ڈاکٹر ہو اور اسے یہ پتہ نہ ہو کہ شاہراہ سے گزرتے ہوئے سرخ سگنل پر رکتے ہیں۔ اتنی سے بات کو لے کر کوئی نادان یہ پراپیگنڈہ شروع کر دے کہ یہ تو بالکل بے علم اور جاہل ہے اسے تو یہ بھی پتہ نہیں کہ سرخ سگنل پر رکتے ہیں۔

یہ وضاحت اس لئے ہے تاکہ کسی ایماندار کے دل میں کسی نادان کے بہکاوے میں آکر کوئی وسوسہ پیدا نہ ہو اور وہ اللہ کے نبی کے علم کے بارے میں کسی قسم کا غلط تصور قائم کر کے ان کی محبت سے محروم نہ ہو اور ایمان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے۔

مبارک باد

گذشتہ ماہ مارچ 09ء میں تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام خانقاہی نظام کے احیاء کے لئے آل پاکستان مشائخ کانفرنس منعقد ہوئی جس میں 300 سے زائد مشائخ عظام نے خصوصی شرکت کی۔ انہی معزز و محترم مشائخ میں سے تصوف و روحانیت کے فروغ کے لئے حقیقی معنوں میں کوشاں ایک نام محترم پیر حبیب الرحمن شاہ رحمانی (سجادہ نشین آستانہ عالیہ رحمانیہ کرم آباد شریف مسّہ کسووال ضلع راولپنڈی) ہیں۔ مشائخ کانفرنس کے موقع پر آپ نے اپنے گیارہ سو مریدین کو باقاعدہ تحریک منہاج القرآن کا ر فیق بنوایا اور شیخ الاسلام کو اپنے 1100 مریدین کے رفاقت فارم پیش کرتے ہوئے تحریک کے عالمی مشن کے ساتھ قدم بقدم چلنے کا عہد کیا۔ محترم پیر رحمانی صاحب کے یہ تمام مریدین جنہوں نے تحریک کی رفاقت اختیار کی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ملکی سطح پر اعلیٰ عہدوں پر خدمات سرانجام دہے رہے ہیں۔

ہم محترم پیر حبیب الرحمن شاہ رحمانی اور ان کے جملہ مریدین کو اس مصطفوی مشن میں شمولیت پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ دعا گو ہیں کہ ان کا آستانہ روحانیت و تصوف کے حقیقی معنوں میں احیاء کے لئے ممدو معاون ثابت ہو اور تحریک منہاج القرآن کے عظیم مصطفوی مشن کے فروغ میں اہم کردار ادا کرے۔