دورہ صحیح مسلم شریف (نشست چہارم۔ II)

ڈاکٹر محمد طاہر القادری

عقیدۂ اسلاف احادیثِ صحیحہ اور صحیح البخاری
جامع مسجد گھمگول شریف (برمنگھم UK)

ترتیب و تدوین : محمد یوسف منہاجین  

منہاج القرآن انٹرنیشنل برمنگھم کے زیر اہتمام دورہ صحیح البخاری کی عالمی سطح پر بے حد پذیرائی اور کامیابی کے پیشِ نظر اکتوبر 2007ء میں منہاج القرآن انٹرنیشنل برمنگھم برطانیہ کے زیر اہتمام جامع مسجد گھمگول شریف میں دورہ صحیح مسلم (کتاب الایمان تا کتاب الصلاۃ) کے عنوان سے تین روزہ خصوصی علمی، فکری اور تربیتی پانچ نشستوں کا اہتمام کیا گیا۔ جن میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے سینکڑوں علماء و مشائخ، طلباء اور ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے احباب سے اصول الحدیث، علم الحدیث، امام مسلم کے مقام و مرتبے اور صحیح مسلم کے حوالے سے عقائد، فقہ، تصوف اور دیگر موضوعات پر گفتگو فرمائی۔ دورہ کی پہلی نشست (شائع شدہ مجلہ مئی، جون، جولائی08ء) میں گفتگو کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے علمی کلچر کے احیاء کی ضرورت، تاریخِ اصولِ حدیث، علم الحدیث و اصول الحدیث میں امام اعظم کا مقام و مرتبہ، ائمہ حدیث کے ہاں احادیث کی قبولیت و عدم قبولیت کا معیار، بدعت کیا ہے؟ اہلِ بدعت کون ہیں؟ گستاخانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حقیقی بدعتی، علمی روایات اور ائمہ کا طرزِ عمل، علمی اختلاف کی حقیقت اور ائمہ کرام کا طرزِ عمل، حقیقتِ اجماع، شیوۂ علم اور دیگر موضوعات پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ دورہ صحیح مسلم کی دوسری نشست (شائع شدہ مجلہ اگست، ستمبر08ء) میں اصطلاحاتِ حدیث کا قرآن و حدیث سے استدلال و استنباط، حدیث ضعیف پر اعتراضات کا علمی محاکمہ، ضعیف اور موضوع کے اختلاط اور حدیث غیر صحیح کی وضاحت فرمائی۔ دورہ صحیح مسلم کی تیسری نشست (شائع شدہ مجلہ نومبر، دسمبر08، جنوری، مارچ09) میں صحیح، ضعیف اور موضوع کے مدار، دورِ حاضر میں معیار کا پیمانہ، نام نہاد محققین اور ان کا معیار دین، اکابر کے عقیدہ، ادبِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، علمِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور نسبتِ نعلینِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعلق تحقیقی گفتگو فرمائی۔ چوتھی نشست کے اول حصہ (شائع شدہ مجلہ اپریل09ء) میں اسلاف کے عقیدے اور ہمارے طرزِ عمل کے حوالے سے پُر مغز تحقیقی گفتگو فرمائی۔ اسی چوتھی نشست کا حصہ دوم نذرِ قارئین ہے۔ (مرتب)

عقیدہ سلف بھی حقیقت میں عقیدۂ اہل سنت ہی ہے یعنی کل ائمہ اسلاف بھی اہل سنت ہی کے عقیدہ پر عمل پیرا رہے اور یہ بات میں علی التحقیق کہہ رہا ہوں کہ صدیوں کا تواتر اور عمل اسی عقیدہ پر ہے۔ میں اس سے قبل آپ کے سامنے علامہ مبارکپوری، علامہ ابن تیمیہ، علامہ ابن القیم، حافظ ابن کثیر اور امام ابن الصلاح کے اقوال و اعمال ان ہی کی کتابوں میں سے بیان کر چکا ہوں کہ اگرچہ یہ ائمہ دوسرے مکتب فکر کے اکابرین میں شامل ہیں مگر اس کے باوجود ان کا زیادہ تر رجحان بھی 3 یا 4 پہلوؤں کے علاوہ اہل سنت ہی کی طرف ہے۔

ان تمام حوالہ جات کو بیان کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ جب ہندوستان میں یہ مکاتب فکر و مسالک وضع ہوئے تو اس وقت ان کے بانیان کے عقائد کیا تھے؟ اور انہوں نے اپنی کتابوں میں کن عقائد کا تذکرہ کیا۔ کیا آج ان ائمہ کے عقائد ان کے پیروکاروں میں موجود ہیں؟ آج اگر ان مسالک و مکاتب فکر کو ماننے والے احباب اپنے ائمہ اور اپنے مسالک کے بانیان کے عقائد پر عمل پیرا رہتے تو امت مسلمہ اور برصغیر پاک و ہند میں 97 فیصد تفرقہ نہ ہوتا، بہت قلیل علمی اختلاف رہ جاتا۔ انہیں اکابرین میں سے اب مزید کے اقوال و اعمال کی طرف ایک نظر ڈالتے ہیں :

مولانا نواب صدیق حسن خان بھوپالی کا عقیدہ

علامہ مبارکپوری سے بھی پہلے اس عقیدہ سلفیہ کے ہندوستان میں معروف بانیان میں مولانا نواب صدیق حسن خان بھوپالی بھی شامل ہیں۔ فارسی زبان میں ان کی کتاب ’’بغيدالرائد فی شرح العقائد‘‘ ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ آج کل یہ کتاب شائع ہو رہی ہے یا نہیں، میرے پاس اس کتاب کا ایک نسخہ قبلہ والد گرامی کی ذاتی لائبریری کا موجود ہے اور اس کا سن اشاعت 1301ھ ہے یعنی آج سے تقریباً 128 سال پہلے کا یہ نسخہ ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اگر آج کل یہ کتاب شائع ہو بھی رہی ہے تو اس میں کیا کچھ برقرار ہے اور کیا کچھ حذف کردیا گیا ہے۔ آیئے اسے کتاب کے ذریعے مولانا نواب صدیق حسن خان بھوپالی کے عقائد کی طرف ایک نظر دوڑاتے ہیں۔

٭ مولانا بھوپالی اپنی اس مذکورہ کتاب کے ص 66 پر قیامت کا تذکرہ کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کا ذکر کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام قیامت کے روز ظاہر ہوگا اور قیامت کے دن کا انعقاد ہی شان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دکھانے کے لئے ہے۔ علامہ بھوپالی لکھتے ہیں :

’’آں روز روز اوست وجاہ جاہِ اوست‘‘

یعنی وہ دن تو دن ہی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہوگا اور قیامت کے دن شان ہی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان ہوگی وہی دیکھنے والی ہوگی۔ پھر لکھتے ہیں :

اَللّٰهُمَّ بِحَقِّ جَاهِ مُحَمَّدٍ اِغْفِرْلَنَا.

’’اے اللہ، مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کے صدقے ہماری مغفرت فرما‘‘۔

آج مولانا بھوپالی کے ماننے والے اپنے عقیدے میں ان الفاظ کے ساتھ دعا کرنے کو شرک قرار دیتے ہیں اور ان میں سے بعض یہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے دعا کرنا صرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی تک تھا بعد از وصال جائز نہیں اور یہ احباب حیات النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بھی قائل نہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جسمانی طور پر زندہ نہیں مانتے۔

میں اس امر پر تعجب کر رہا ہوں کہ مولانا بھوپالی کے ماننے والوں میں یہ تبدیلی کس طرح آگئی کہ ان کے امام تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روز قیامت دکھائی جانے والی شان کے وسیلہ سے مغفرت طلب کر رہے ہیں جبکہ ان کے پیروکار اسی عقیدہ کو شرک قرار دے رہے ہیں۔

٭ اسی کتاب کے صفحہ 79 پر حیات انبیاء علیہم السلام کے حوالے سے ذکر کرتے ہیں کہ

’’انبیاء اموات نبود، زندہ بود‘‘

’’انبیاء مردہ نہیں ہوتے، زندہ ہوتے ہیں‘‘۔

پھر لکھتے ہیں کہ ’’ایک بار موت کے وقت ان کی روح جسم سے نکالی جاتی ہے اور اس کے فوری بعد روح، بدن میں لوٹا دی جاتی ہے اور وہ جسم اور روح کے ساتھ قبروں میں زندہ ہوتے ہیں‘‘۔

مولانا بھوپالی کے ذکر کردہ یہ الفاظ ہمارا عقیدہ ہیں جبکہ ان کے ماننے والوں کا عقیدہ یہ ہے کہ (معاذاللہ) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اب حیات نہیں ہیں، جسمانی طور پر زندہ نہیں ہیں، (معاذاللہ) مٹی ہوگئے صرف روح ہی روح ہے۔ الغرض وہ کلیتاً موت کے قائل ہیں جبکہ مولانا بھوپالی اپنے ماننے والوں کے اس عقیدے کو رد کر رہے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح جسم میں لوٹا دی گئی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حیات ہیں۔

٭ مولانا بھوپالی، یزید کے حوالے سے صفحہ 97 پر تذکرہ کرتے ہوئے یزید پلید کو کافر اور مستحق لعنت قرار دیتے ہیں۔ افسوس! آج ان کے پیروکار یزید کا دفاع کرتے پھرتے ہیں اور کچھ احباب تو اس یزید لعین کو امیر المومنین بھی کہتے ہیں، جبکہ مولانا بھوپالی اس کو کافر کہہ رہے ہیں۔

شرح نسفی اور اہل سنت کی عقائد پر موجود دیگر کتب اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے تو یزید کو کافر لکھا ہی ہے۔۔۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے قرآن پاک کی 4 آیات سے یزید کا کافر ہونا ثابت کیا ہی ہے۔۔۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے بارے کفر کا فتویٰ دیا ہی ہے۔۔۔ یہ باتیں تو تھیں مگر مولانا بھوپالی بھی اس کو کافر کہہ رہے ہیں۔

٭ اس سے بھی بڑھ کر عجیب بات یہ کہ علامہ بھوپالی کا اہل بیت کے ساتھ تعلق اور ان کی محبت کا عالم ہی عجب ہے۔ ساقیء کوثر، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ مولانا نواب صدیق حسن خان بھوپالی لکھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو ساقیء کوثر ہیں مگر قیامت کے دن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جام بھر بھر کر آگے پلانے کے لئے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو مقرر کریں گے، پس ساقیء کوثر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور ساقیء آبِ کوثر علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ہیں۔ لکھتے ہیں۔

’’ساقیء آبِ کوثر علی المرتضیٰ باشد‘‘۔

اب ایک اور مکتبہ فکر کے بانیان کے عقائد سے بھی چند نمونے آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔

علامہ اشرف علی تھانوی کا عقیدہ

علامہ اشرف علی تھانوی صاحب نے ’’امداد المشتاق‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات کو جمع کیا اور ان فرمودات کی شرح کی۔

حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، مولانا قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا خلیل احمد انبیٹھوی اور اکابر علمائے دیوبند کے بھی شیخ ہیں اور یہ سب ان کے خلفاء، مریدین اور تلامذہ میں شمار ہوتے ہیں۔ گویا آپ کُل کے شیخ ہیں اسی لئے ان کو شیخ الکل اور شیخ العرب والعجم بھی کہتے ہیں، حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو بھی ان سے خلافت حاصل ہے گویا آپ مرجع ہیں۔

٭ مولانا تھانوی صاحب امداد المشتاق کے صفحہ 44 پر حضرت امداد اللہ مہاجر مکی کا قول بیان کرتے ہیں کہ حضور سیدنا غوث الاعظم کے کچھ مریدین کشتی میں سفر کر رہے تھے، آپ اس وقت کچھ اولیاء کے ہمراہ بغداد میں موجود تھے، کشتی، طوفان میں غرق ہونے لگی تو حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے توجہ باطنی سے اس کشتی کو غرق ہونے سے بچا لیا۔ تھانوی صاحب لکھتے ہیں۔

’’ایک دن حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ سات اولیاء اللہ کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے، ناگاہ نظرِ بصیرت سے ملاحظہ فرمایا کہ ایک جہاز قریب غرق ہونے کے ہے، آپ نے ہمت و توجۂ باطنی سے اس کو غرق ہونے سے بچا لیا‘‘۔

لطف کی بات یہ ہے کہ یہ کتاب، مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کی تالیف ہے اور وہ اپنے قلم سے حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی کو ’’حضرت غوث الاعظم‘‘ لکھ رہے ہیں۔ کیا آج ان کے پیروکار حضور سیدنا غوث الاعظم کو غوث الاعظم کہنے کو تیار ہیں؟

٭ اسی کتاب کے صفحہ 71 پر ایک سوال کا جواب دیتے ہیں کہ کسی نے کہا کہ یہ جو مشہور ہے کہ حضور سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی مردوں کو کہتے ’’قُمْ بِاِذْنِیْ‘‘ ’’میرے حکم سے زندہ ہوجا‘‘، تو آپ کے حکم سے مردے زندہ ہوجاتے، کیا اس بات میں کوئی حقیقت ہے؟

اپنی کتاب میں تھانوی صاحب بحوالہ حضرت امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ اس کا جواب لکھتے ہیں اور پھر اس کو رد نہیں کرتے بلکہ فائدہ میں اس کی تائید کرتے ہیں۔

جواب لکھتے ہیں : ہاں یہ درست ہے اس لئے کہ حضور سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ قربِ نوافل کے درجے میں تھے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام ’’قُمْ بِاِذْنِ اللّٰه‘‘ (اللہ کے حکم سے زندہ ہوجا) کہہ کر مردہ زندہ کرتے اور آپ قربِ فرائض کے درجے میں تھے، آپ کا مرتبہ اونچا تھا۔ قربِ فرائض کے درجے میں قُمْ بِاِذْنِ اللّٰه کہے تومردے زندہ ہوتے ہیں اور قربِ نوافل کے درجے میں ولی قُمْ بِاِذْنِیْ کہے تو مردے زندہ ہوتے ہیں۔ لہذا اس عقیدے کو کفر اور شرک کہنا جہالت ہے۔

٭ اسی طرح صفحہ 110 پر تھانوی صاحب لکھتے ہیں کہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی فرماتے ہیں کہ ’’میں جب مکہ گیا (ان کی قبر مبارک بھی مکہ معظمہ، جنت المعلی میں ہے) تو میرے پاس کھانے پینے کا کوئی سامان نہ تھا، فاقے آتے رہے، میں نے ایک دن کسی سے قرض مانگا، اس نے مجھے انکار کر دیا، پریشان تھا۔ (آپ چونکہ سلسلہ چشتیہ میں بیعت تھے) ایک دن مکہ معظمہ میں حضرت خواجہ معین الدین اجمیری چشتی کی زیارت ہوئی اور فرمایا کہ امداد اللہ اب کسی سے قرض نہ مانگنا، آج کے بعد آپ کا خزانہ بھرا رہے گا۔ اس کے بعد کبھی فاقہ نہ آیا، خزانہ بھرا رہتا ہے، لنگر بھی چلتا ہے اور تقسیم بھی کرتا ہوں‘‘۔

٭ اسی طرح صفحہ 78 پر تھانوی صاحب، حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’حضور غوث الاعظم پر ہمیشہ ایک بادل سایہ کئے رکھتا تھا اور یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزہ کی برکت تھی۔

تھانوی صاحب یہ سب کچھ لکھ کر رد نہیں کرتے بلکہ فائدہ کے عنوان سے ہیڈنگ قائم کرکے اس کی تائید بھی کرتے ہیں۔

٭ اسی طرح صفحہ 92 پر لکھتے ہیں کہ اولیاء اللہ کے ایام اور عرس کے موقع پر نذر و نیاز کا طریقہ قدیم زمانے سے جاری ہے (حیرت ہے) اس زمانے کے لوگ انکار کرنے لگ گئے ہیں۔

٭ میلاد شریف کے حوالے سے حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کا قول تھانوی صاحب لکھتے ہیں کہ میلاد شریف کا انعقاد میں بھی کرتا ہوں، شرکت بھی کرتا ہوں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد شریف میں سلام پر قیام بھی کرتا ہوں اور لذت بھی پاتا ہوں۔ کسی نے اس عمل کی دلیل پوچھی تو فرمایا : مولد شریف تمامی اہل حرمین شریفین کرتے ہیں۔ ہمارے لئے تو حرمین شریفین کا عمل ہی کافی ہے اور حجت ہے۔ (یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کے اہلِ حرمینِ شریفین کی بات کررہے ہیں)

یہ چند نمونے میں نے آپ کو مثا ل کے طور پر بیان کئے کہ ان مسالک و مکاتب فکر کے ائمہ کے اصل عقائد یہ تھے۔ افسوس آج ان ہی کے پیروکار اپنے ائمہ ہی کی عقائد کی تردید کرتے نظر آتے ہیں۔

٭ تھانوی صاحب نے اپنے پیرومرشد حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کے لئے عربی زبان میں استغاثہ لکھا ہے یعنی ان کو مدد کے لئے پکارا اور یہ تھانوی صاحب کی کتاب ’’ارواحِ ثلاثہ‘‘ میں درج ہے لکھتے ہیں :

يَا مُرْشَدِیْ يَا مَوْلَائِیْ يَا مَفْزَئِیْ
يَا مَلْجَیءِ فِی مَبْدَئِیْ وَمَعَادِیْ

اِرْحَمْ عَلَیَّ يَاغَيَاث فَلَيْسَ لِیْ
کَافِیْ سِوَا حُبُّکَ مِنْ ذالِیْ

يَاسَيِّدِی لِلّٰهِ شَيْئًا اِنَّه
اَنْتُمْ لِیْ مَجْدِیْ وَاِنِّیْ جَالِی

تھانوی صاحب اپنے مرشد کے بارے لکھ رہیں ہیں۔ ’’اے میرے مرشد حاجی امداد اللہ شيئا للّٰه‘‘ مگر جب ہم ’’يا شيخ عبدالقادر جيلانی شيئا للّٰه‘‘ کہیں تو تھانوی صاحب کے پیروکار اسے شرک قرار دیتے ہیں۔ یہی جملے تھانوی صاحب اپنے مرشد کے لئے لکھ رہے ہیں تو اس کو شرک قرار نہیں دیا جاتا۔ اگر یہ شرک ہے تو بشمول تھانوی صاحب سارے ہی مشرک ہیں، کوئی مسلمان نہیں بچتا اور اگر ’’يا حاجی امداد الله مهاجر مکی رحمة الله عليه شيئا للّٰه‘‘ کہنا جائز ہے تو دوسرے اکابر اولیاء کے لئے بھی جائز ہے۔

پھر تھانوی صاحب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں استغاثہ پیش کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں :

يَاشَفِيْعَ الْعِبَاد خُذْ بِيَدِیْ
اَنْتَ فِی الْاضْطِرَارِ مُعْتَمَدِیْ

’’اے لوگوں کی شفاعت کرنے والے میرے ہاتھ تھام لیجئے۔ مصائب و مشکلات میں آپ پر ہی میں اعتماد و بھروسہ کرتا ہوں‘‘۔

لَيْسَ لِیْ مَلْجَاءِ سِوَاکَ اَغِثْ
مَسَّنِیَ الضُّرُّ سَيِّدِیْ سَنَدِیْ

’’آپ کے سوا میرا کوئی ملجاء نہیں میری مدد کیجئے۔ میں تکلیف میں مبتلا ہوں میرے سردار میری مدد کو پہنچئے‘‘۔

غَشَّنِیَ الدَّهْر يَابن عَبْدِاللّٰه
قُمْ مُغِيْثًا فَاَنْتَ لِیْ مَدَدِیْ

’’یامحمد بن عبداللہ، میرے سرکار سارے زمانے نے مجھے گھیر لیا ہے میرے غوث بن جایئے، میری مدد کیجئے آپ ہی میری مدد ہیں، کوئی میرا نہیں جسے مدد کے لئے پکاروں‘‘۔

اتحادِ امت کا تیر بہدف نسخہ

سوچیں! اگر کم از کم برصغیر پاک و ہند کے لوگ سب کچھ بھلا کر ہر مسلک و مکتب فکر کے بانیان کے عقائد جن کا اوپر تذکرہ ہوا، ان پر اجماع کر لیں اور سارے اس پر عمل پیرا ہو جائیں تو کیا امت میں کوئی تفرقہ باقی رہے گا۔ اعلیٰ حضرت شاہ احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا کلام یا ان کی کتب سے حوالے اس لئے نہیں دیئے کہ ان کے عقائد ہی یہ ہیں اور ان کے ماننے والے بھی انہی عقائد پر عمل پیرا ہیں۔

پس اگر وہ خیالات جو خود وضع کر لئے گئے اور جن کی بناء پر اختلافات پیدا ہوگئے ہیں اگر تمام علماء ان خیالات کو چھوڑ کر اکابر کی اپنی تحریروں، عبارتوں، عقائد، تصریحات و تائیدات پر مجتمع ہو جائیں تو کم از کم برصغیر پاک و ہند کی حد تک امت مجتمع ہو جاتی ہے اور وحدت کی لڑی میں پروئی جاتی ہے۔

اگر عرب کی بات بھی کریں تو آپ کو بتاتا چلوں کہ گلف کو چھوڑ کر 3 یا 4 فیصد سے زیادہ دوسرا عقیدہ عالم عرب میں ہے ہی نہیں۔ مصر، شام، یمن، ترکی، لبنان، اردن، فلسطین، عراق (اہل سنت علمائ)، الجزائر، مراکش اور مغرب کے 95 فیصد سے زائد علماء کا یہی عقیدہ ہے۔ یہ سارے ممالک 3 یا 4 فیصد کے علاوہ اسی عقیدہ اہل سنت پر ہیں۔

اس بات کے ثبوت کے لئے ایک مثال دینا چاہوں گا کہ میری کتاب ’’المنہاج السوی‘‘ عقیدۂ اہل سنت پر احادیث کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب کی تائید میں اس پر شیخ الازہر الدکتور محمد سید الطنطاوی نے تقریظ لکھی ہے۔ انہوں نے پوری کتاب پڑھ کر اس کی تائید میں تقریظ لکھی۔ اس کتاب کا دسواں ایڈیشن تھا جو طلبہ نے ان احباب کو تحفتاً پیش کیا اور میری طرف سے انہیں زبانی کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ اس کتاب کو پڑھ لیں اور اگر اس سے اتفاق ہو تو اس کی تائید کر دیں اور دل چاہے تو تقریظ لکھ دیں، ہمارے لئے یہ امر خوشی کا باعث ہوگا۔ میری طرف سے نہ تو ان کو اس حوالے سے کوئی خط لکھا گیا اور نہ ہی ٹیلی فون کیا گیا مگر یہ ان کی شفقت، محبت اور عقیدے کے ساتھ ان کا تمسک ہے کہ انہوں نے المنہاج السوی مکمل پڑھی اور کہا کہ ہم نے اس وقت تک کسی کتاب پر تقریظ نہیں لکھی جب تک اس کتاب کو لفظاً لفظاً نہ پڑھ لیں۔ بعد ازاں انہوں نے ’’مجمع البحوث الاسلامی‘‘ کو المنہاج السوی بھیجی، یہ ادارہ مصر کے اکابر ائمہ و علماء شیوخ پر مشتمل ادارہ ہے۔ اس ادارہ سے بھی المنہاج السوی کی تائید منگوائی اور پھر اس کی تقریظ لکھی۔۔۔ اس کتاب پر دوسری تقریظ موجودہ مفتی اعظم مصر شیخ علی جمعہ کی ہے۔۔۔ پھر اس کے بعد محدث مصر شیخ احمد عمر ہاشم سابق رئیس جامعۃ الازہر نے ا س کتاب کی تقریظ لکھی۔۔۔ پھر شام میں احناف کے مفتی اعظم شیخ اسعد محمد الصاغرجی نے تقریظ لکھی۔۔۔ اب یہ احباب اس کتاب کو درساً کئی عرب ممالک میں جامعات میں پڑھاتے اور طلبہ کو اس کی اجازت دیتے ہیں۔ گویا اہل مصر کا عقیدہ بھی اہل سنت والا عقیدہ ہی ہے۔

پس عرب میں تو اختلاف ہی نہیں ہے، اختلاف صرف پاک و ہند کے اندر ہے اور اس اختلاف کو ختم کرنے کا راستہ میں نے بتا دیا ہے کہ تمام مسالک اپنے اکابر اور بانیان کی تحریروں اور عقائد پر متفق ہو جائیں۔۔۔ اصل کی طرف چلے جائیں۔۔۔ وہ اصل اُن کو 14 صدیوں کے ساتھ متصل کر دے گی۔۔۔ گلف کو چھوڑ کر تمام عرب کا عقیدہ یہی ہے۔ زیادہ افتراق برصغیر پاک و ہند میں ہے، یہاں کا افتراق اسی عقیدے کے حامل علماء آگے دنیا میں پھیلاتے ہیں۔ پاک وہند سے جو افتراق نکلتا ہے وہ عالم اسلام کو متاثر کرتا ہے۔

میں نے اس افتراق کو ختم کرنے اور امت کو یکجا کرنے کا ایک فارمولہ دے دیا ہے اور وہ یہ کہ برصغیر پاک وہند میں جتنے مسالک موجود ہیں، وہ تمام موجودہ باتیں چھوڑ دیں، 100 یا 150 سال پہلے ان کے اکابر اور ان مسالک کے بانیان نے جو کچھ لکھا سب اس پر متفق ہو جائیں اللہ کی عزت کی قسم 98 فیصد اختلافات ختم ہو جائیں گے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت ایک وحدت بن جائے گی۔

صحیح بخاری پر اصرار کا جواب

شیخ الاسلام کی اسی گفتگو کے دوران شرکاء درس حدیث میں سے کسی نے سوال بھیجا کہ اگر کوءی شخص اس بات پر اصرار کرے کہ صرف صحیح بخاری میں ہی صحیح احادیث درج ہیں دیگر کتب میں درج احادیث صحیح تو اس کا جواب دینے کیلئے کیا حکمت عملی ہونی چاہئے؟ شیخ اسلام نے اس حوالے سے حوالہ جات کے ساتھ نہایت ہی مدلل اور To the point گفتگو کی جو کہ اہل علم اور عوام الناس ہر دور کے لئے نہایت ہی فائدہ مند ثابت ہو گی۔ شیخ االاسلام نے فرمایا:

میں اس موضوع پر الہدایہ کیمپ 2007ء اور دورہ صحیح بخاری کے دوران تفصیلی گفتگو کر چکا ہوں۔ میرے پاس اس موضوع پر 50 سے زائد حوالہ جات موجود ہیں۔ تاہم اس موقع پر 4 ایسے حوالہ جات بیان کروں گا جو کہ اُن دو مواقع پر دیئے گئے حوالہ جات سے مختلف ہیں اور اُن مواقع پر بیان نہیں کئے گئے تھے۔

اگر کوئی شخص یہ کہے کہ صرف صحیح بخاری ہی صحیح احادیث کا مجموعہ ہے اس کے علاوہ کوئی حدیث صحیح نہیں تو اس کی یہ سوچ غلط ہے۔ اس بات کو درج ذیل حوالہ جات کی روشنی میں جانتے ہیں :

1۔ مقدمہ ابن الصلاح

مقدمہ ابن الصلاح، اصول حدیث پر قابل اعتماد اور متفق علیہ کتاب ہے اور اسے اصول حدیث میں متن (Text) کا درجہ حاصل ہے، جاہل اور ناسمجھ شخص کے علاوہ کوئی شخص اس سے انکار نہیں کر سکتا۔ مقدمہ ابن الصلاح کے صفحہ نمبر15، شق نمبر 4 پر امام ابن الصلاح نے امام بخاری کا اپنا قول درج کیا ہے کہ امام بخاری خود فرماتے ہیں کہ

وَقَدْ رُوِّيْنَا عَنِ الْبُخَارِی لَمْ يُسْتَوْعِبَا اَلصحيحَ فِی صَحِيْحِهَا وَلاَ الْتَزَمَا بِذٰلِکَ.

’’ہمیں امام بخاری سے یہ روایت پہنچی ہے کہ امام بخاری و مسلم دونوں نے تمام صحیح احادیث کو اپنی کتاب میں شامل نہیں کیا‘‘۔

گویا بخاری و مسلم دونوں نے تمام صحیح احادیث کو اپنی کتابوں میں جمع نہیں کیا، ہزاروں کی تعداد میں صحیح احادیث موجود ہیں جو ان دو کتابوں میں شامل نہیں۔ جن صحیح احادیث کو اپنی کتب میں شامل نہیں کیا وہ احادیث اتفاقاً شامل ہونے سے نہیں رہیں بلکہ ان ائمہ کرام کا تمام صحیح احادیث کو جمع کرنے کا ارادہ ہی نہیں تھا۔ امام بخاری نے تقریباً 4 ہزار صحیح احادیث پر مشتمل ایک مجموعہ تیار کیا ہے اور یہ ان کا منتخب کام ہے۔ امام ابن الصلاح کہتے ہیں کہ امام بخاری نے کہا :

اَنَّه قَالَ مَا اَدْخَلْتُ فِی کِتَابِ الْجَامِع اِلَّا مَاصَحَّ وَتَرَکْتُ مِنَ الصِّحَاحِ لِمَلالِ الطُّوْل.

’’میں نے جو صحیح بخاری میں جمع کیا وہ احادیث تو یقینا صحیح ہیں مگر میں نے بہت زیادہ تعداد میں صحیح احادیث کو طوالت کی وجہ سے چھوڑ دیا اور انہیں صحیح بخاری میں شامل نہیں کیا‘‘۔

کیونکہ اس صورت میں صحیح بخاری بہت زیادہ جلدوں پر مشتمل ایک ضخیم مجموعہ کی شکل اختیار کر جاتی۔

درج بالا قول امام بخاری کا ہے اور اسی طرح کا قول صحیح مسلم کے حوالے سے امام مسلم کا ہے اور اس کو امام مسلم نے صحیح مسلم کی کتاب الصلاۃ کے متن میں خود بیان کیا ہے اور اسی بیان کو امام ابن الصلاح نے مقدمہ ابن الصلاح میں درج کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ

رفع یدین کے حوالے سے ایک حدیث مبارکہ کے متعلق امام مسلم سے پوچھا گیا کہ کیا یہ حدیث مبارکہ صحیح ہے؟ آپ نے جواب دیا، ہاں یہ حدیث مبارکہ صحیح ہے۔ اس پر سائل نے کہا کہ اگر حدیث صحیح ہے تو آپ نے اپنی کتاب صحیح مسلم میں اس کو شامل کیوں نہیں کیا؟ انہوں نے جواب دیا :

لَيْسَ کُلُّ شَئٍی عِنْدِیْ صَحِيْح وَضَعْتُ هٰهُنَا يَعْنِیْ فِیْ کِتَابِ الصَّحِيْح.

(صحيح مسلم، کتاب الصلاة، باب الشهد فی الصلاة، ج 1، ص 304، رقم 404)

’’تمام وہ احادیث جو میرے نزدیک صحیح ہیں میں نے اپنی کتاب الجامع الصحیح میں ان ساری احادیث کو جمع نہیں کیا‘‘۔

2۔ امام ابن کثیر

امام ابن کثیر اپنی کتاب ’’اختصار علوم الحديث‘‘ میں صفحہ 24 پر بیان کرتے ہیں کہ

ثُمَّ اِنَّ الْبَخَارِیَّ وَمُسْلِمًا لَمْ يَلْتَزِمَا بِاِخْرَاجِ جَمِيْع صَحِيْح مِنَ الْاَحَادِيْث.

’’بخاری و مسلم نے یہ التزام ہی نہیں کیا کہ وہ تمام صحیح احادیث کو اپنی صحیحین میں جمع کر دیں‘‘۔

فَاِنَّهُمَا قَدْ صَحَّهَا اَحَادِيْثَ لَيْسَتْ فِیْ کِتَابَيْهِمَا.

’’امام بخاری و مسلم نے بے شمار ایسی احادیث کو صحیح قرار دیا ہے جو کہ ان کی اپنی جامع صحیح بخاری و جامع صحیح مسلم میں شامل نہیں تھیں‘‘۔

کسی نے ان سے کسی حدیث کی صحت کے متعلق پوچھا تو انہوں نے ایسی بے شمار احادیث کو صحیح کہا جو انہوں نے اپنی کتب میں جمع نہیں کیں کیونکہ انہوں نے تمام صحیح احادیث کو جمع کرنے کا اہتمام ہی نہیں کیا تھا کیونکہ ایسا کرنے سے بہت ساری جلدوں پر مشتمل ضخیم مجموعہ تیار ہو جاتا جبکہ وہ منتخب صحیح احادیث کا مجموعہ تیار کرنا چاہ رہے تھے۔

امام ترمذی نے امام بخاری سے روایت کیا کہ امام بخاری نے ان احادیث کو بھی صحیح کہا لَيْسَتْ عِنْدَه جو کہ صحیح بخاری کے اندر موجود نہیں تھیں اور امام ترمذی نے جب ایک طالب علم کی حیثیت سے امام بخاری سے ان مختلف احادیث کی صحت کے متعلق پوچھا جو الجامع الصحیح البخاری میں شامل نہیں تھیں کہ یہ صحیح ہیں یا نہیں تو امام بخاری نے ان احادیث کے متعلق کہا کہ ہاں یہ صحیح ہے۔۔۔ ہاں یہ صحیح ہے۔۔۔ اور پھر امام ترمذی نے ان احادیث کو اپنی کتاب سنن ترمذی میں درج کیا۔

جو شخص صرف صحیح بخاری یا صحیح مسلم سے ہی حوالہ مانگے اور ان کتب کے حوالہ جات کے علاوہ کسی دوسرے حوالے کو درست و صحیح تسلیم نہ کرے وہ شخص کلیتاً جاہل اور ان پڑھ ہے اور وہ اصول حدیث کے بنیادی اصولوں سے بھی واقف نہیں ہے۔ بارہ سو سال کی تاریخ حدیث میں اس طرح کی بات کسی بھی امامِ حدیث نے نہیں کی۔

3۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ

امام نووی بھی حدیث اور اصول حدیث پر اتھارٹی ہیں۔ امام نووی نے اپنی کتاب ’’التقريب مع التدريب‘‘ کے صفحہ 54 سے صفحہ 59 تک اس حوالے سے مفصل گفتگو کی۔ آپ لکھتے ہیں کہ

وَلَمْ يَسْتَوْعِبَا اَلصَّحِيْحَ وَلَا الْتَزَمَاه.

’’امام بخاری و امام مسلم دونوں نے نہ تمام صحیح احادیث کو اپنی کتابوں میں جمع کیا اور نہ انہوں نے اس کا التزام یا ارادہ کیا‘‘۔

مقدمہ شرح نووی صفحہ 188 پر امام نووی لکھتے ہیں :

فَاِنَّهُمَا لَمْ يَلْتَزِمَا اِسْتِيْعَابَ الصَّحِيْح بَلْ صَحَّ اَلْهُمَا تَصْرِيْحَهُمَا بِاَنَّهُمَا لَمْ يَسْتَوْعِبَاه.

’’امام بخاری و امام مسلم دونوں نے تمام صحیح احادیث کو اپنی کتابوں میں جمع کرنے کا اہتمام ہی نہیں کیا، بلکہ ان دونوں نے اس بات کی خود تصریح کی ہے کہ ان دونوں کا تمام صحیح احادیث کو جمع کرنے کا ارادہ ہی نہ تھا‘‘۔

4۔ امام ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ

امام عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر ائمہ نے امام بخاری کا یہ قول بھی بیان کیا ہے کہ امام بخاری فرماتے ہیں کہ

’’جو صحیح احادیث میں نے اپنی صحیح بخاری میں درج نہیں کیں اور انہیں چھوڑ دیا، ان کی تعداد صحیح بخاری میں جمع کردہ احادیث سے زیادہ ہے‘‘۔

امام ابن حجر عسقلانی، شرح صحیح بخاری کے مقدمہ ’’هدی الساری‘‘ کے صفحہ نمبر 654 پر امام بخاری کا قول درج کرتے ہیں کہ امام بخاری نے فرمایا :

’’مجھے ایک لاکھ صحیح احادیث یاد ہیں اور 2 لاکھ غیر صحیح احادیث یاد ہیں‘‘۔ جبکہ صحیح بخاری میں درج احادیث کی تعداد تکرار کے ساتھ تقریباً 4 ہزار اور بغیر تکرار کے 2700 ہے۔

امام حجر عسقلانی مقدمہ فتح الباری کے صفحہ 10 پر بیان کرتے ہیں کہ امام بخاری نے فرمایا :

مَاتَرَکْتُ مِنَ الصَّحِيْحِ اَکْثَر وَتَرَکْتُ مِنَ الصَّحِيْحِ حَتّٰی لَا يَطُوْل.

’’ صحیح احادیث میں نے چھوڑ دی ہیں اور ان کو اپنی کتاب میں شامل نہیں کیا، ان کی تعداد ان احادیث سے زیادہ ہیں جو میں نے اپنی کتاب میں شامل کی ہیں اور اس لئے ان احادیث کو ترک کیا تاکہ کتاب بہت طویل نہ ہوجائے‘‘۔

پس کوئی شخص اس مغالطے میں نہ پڑے کہ صحیح احادیث صرف وہ ہیں جو صحیح بخاری و مسلم میں ہیں جو یہ سمجھے گا وہ جھوٹ بولے گا، وہ امام بخاری و امام مسلم پر الزام لگائے گا اور ان کی بات کی نفی کرے گا۔ کیونکہ امام بخاری و امام مسلم کہتے ہیں کہ ہم نے اجمالاً اختصاراً صحیح احادیث کو ان دو کتابوں میں جمع کیا ہے۔

آپ اصول حدیث کی کوئی ایک بھی ایسی کتاب نہیں پائیں گے جس میں اس حوالے سے میرے بیان کردہ موقف کی مخالفت پائی جائے، تمام نے اس کو بیان کیا جو میں نے اوپر بیان کر دیا۔ پس اگر کوئی شخص اس طرح کا سوال کرے کہ صرف صحیح بخاری یا صحیح مسلم ہی میں درج احادیث صحیح ہیں، ان کے علاوہ ہم کسی حدیث کو صحیح تسلیم نہیں کرتے تو اس شخص کو جواب دینے کے لئے یہ حکمت عملی اپنائی جائے کہ اسے کہا جائے کہ اگر یہ اصول حدیث کے کسی بھی امام کا وضع کردہ کوئی اصول ہے تو مجھے ان کا حوالہ دو۔ پس وہ اصول حدیث کی تمام کتب کو کھنگالنے کے باوجود کسی ایک بھی امام کا کوئی قول پیش نہ کرسکے گا۔ (جاری ہے)