الحدیث : قرآن و رمضان کی شفاعت

علامہ محمد معراج الاسلام

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

الصيام والقرآن يشفعان لعبد. يقول ائ رب منعته الطعام والشهوات بالنهار فشفعنی فيه. ويقول القرآن. منعته النوم بالليل فشفعنی فيه فيشفعان. (مشکوة 173)

’’روزے اور قرآن قیامت کے دن بندے کی شفاعت فرمائیں گے۔ روزے کہیں گے : اے رب کریم! میں نے اس بندے کو رمضان کے دنوں میں، کھانے پینے اور خواہشات کی تسکین سے روکا، اس لئے اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔ قرآن پاک کہے گا : میں نے اسے رات کو سونے سے روکا، اس لئے اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔ چنانچہ ان دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی‘‘۔

شرح و تفصیل

قبر و حشر میں نماز، روزہ، حج، زکوۃ، صدقات و خیرات، ذکر و تلاوت، صبر و شکر، تبلیغ دین، روحانی رہنمائی، فلاحی کام اور دوسرے ’’اعمال خیر‘‘ سب اپنی اپنی نوعیت کے مطابق، حسن و جمال، روشنی، خوشبو اور ایسی نعمتوں اور دلکش آسائشوں کا روپ دھار لیں گے جن کا انسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔ یہ ان کے اجر و ثواب کی معنوی صورت ہوگی۔ قبر میں اور قیامت کے دن یہی اعمال، طاقت ور نورانی پیکروں میں ڈھل جائیں گے اور اس بندے کی بھرپور مدد فرمائیں گے، جو ان کا عامل و پابند رہا ہوگا اور اس نے حقوق و آداب کے ساتھ یہ فرائض ادا کئے ہوں گے، یہ مددگار اعمال اپنی قوت و سطوت، محبوبیت و مقبولیت اور بے پناہ اہمیت کی وجہ سے ہر مشکل اور نازک مرحلے پر بندے کی شفاعت و حمایت اور مکمل دفاع کریں گے تاآنکہ اسے نجات دلا دیں گے، خصوصاً قرآن اور رمضان کی شفاعت بڑی ہی زبردست اور حیرت انگیز ہوگی۔

اقرء وا القرآن فانه ياتی يوم القيامة شفيعا لِا صحابه.

’’قرآن پاک پڑھا کرو، کیونکہ وہ قیامت کے دن اہل قرآن کا شفیع بن کر آئے گا‘‘۔

قرآن اور رمضان کی شفاعت کا انداز کتنا پیار بھرا اور زور دار ہوگا، احادیث میں اس کی ایمان افروز تفصیلات اس طرح ہیں :

سورہ السجدہ کی شفاعت

اکیسویں پارے کی سورہ ’’الم تنزيل السجده‘‘ کی ابتدائی چودہ آیات کے بعد پندرہویں آیت ’’آیت سجدہ‘‘ ہے، اس کے بعد پھر چودہ آیات ہیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی خصوصیت و فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا :

انما تجادل عن صاحبها فی القبر تقول : اللهم ان کنت من کتابک فشفعنی فيه وان لم اکن من کتابک فامحنی عنه.

’’بے شک یہ سورہ قبر میں، اپنے ساتھی کے لئے باقاعدہ جھگڑتی ہے اور اس کی حمایت کرتے ہوئے کہتی ہے : اے اللہ! اگر میں تیری کتاب میں سے ہوں تو اس بندے کے بارے میں میری شفاعت ضرور منظور فرما اور اگر میں تیری کتاب میں سے نہیں ہوں، تو مجھے اس میں سے نکال دے‘‘۔

ظاہر ہے یہ سورت قرآن پاک ہی کا ایک حصہ ہے، اسے اس میں سے خارج کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اس لئے مطلب یہ ہے کہ چونکہ میں قطعی طور پر قرآن پاک کا ایک حصہ ہوں اور یہ بندہ میری تلاوت کرتا رہا ہے، اس لئے اسے اجر عظیم عطا فرما اور اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔ چنانچہ اس کی شفاعت قبول کی جائے گی۔

حضرت مورق عجلی رحمۃ اللہ علیہ اس سورت پاک کے عامل تھے اور اسے ہر روز بطور وظیفہ پڑھا کرتے تھے۔ جب ان کا آخری وقت آیا تو ان پر غنودگی سی طاری ہوگئی، اسی عالم میں حاضرین نے دیکھا کہ ان کے سر کی طرف سے ایک نور نمودار ہوا اور آسمان کی طرف پرواز کرگیا، پھر پاؤں کی طرف سے نور نکلا اور اوپر چلا گیا، پھر درمیان سے نور نکلا اور وہ بھی اوپر جاکر نگاہوں سے غائب ہوگیا۔ یہ ایک حیرت انگیز اور سمجھ میں نہ آنے والا مشاہدہ تھا، ابھی لوگ اس پر غور ہی کر رہے تھے کہ حضرت مورق ہوش میں آگئے اور حاضرین سے پوچھا : تم نے کچھ دیکھا ہے؟

انہوں نے بتا دیا کہ ہم نے آپ کے سر، پاؤں اور درمیان سے نور نکلتے دیکھا ہے، آپ نے راز کھولا کہ یہ سورہ ’’الم تنزيل السجده‘‘ کا نور تھا۔ ابتدائی چودہ آیات کا نور سر کی طرف سے، درمیانی آیتِ سجدہ کا نور درمیان سے اور آخری چودہ آیات کا نور پاؤں کی طرف سے نمودار ہوا اور بارگاہ خداوندی میں پہنچا اور میری شفاعت کی، اس دوران انتیسویں پارے کی پہلی سورہ ’’الملک‘‘ میری حفاظت کرتی رہی۔ حضرت خالد بن معدان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

اقرء وا المنجيه وهی ’’الم تنزيل‘‘ فانه بلغنی ان رجلا کان يقرء ها ما يقرء شيئا غيرها وکان کثير الخطايا فنشرت جناحها عليه. قالت : رب اغفرله فانه کان يکثر قرأتی فشفعا الرب تعالی فيه. وقال : اکتبوا له بکل خطيئة حسنة، وارفعوا له درجة.

’’نجات دینے والی سورت پڑھا کرو اور وہ ’’الم تنزیل‘‘ ہے۔ مجھے یہ خبر ملی ہے کہ ایک شخص اس کی تلاوت کیا کرتا تھا اس کے سوا اور کچھ نہیں پڑھتا تھا۔ حد سے زیادہ گناہگار بھی تھا مگر اس سورت نے اسے اپنی حفاظت وپناہ میں لے لیا اور اللہ کی بارگاہ میں دعا کی : اے میرے رب : اسے بخش دے، کیونکہ یہ کثرت سے میری تلاوت کیا کرتا تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کی شفاعت قبول فرمائی اور فرشتوں کو حکم دیا : ’’اس کے ہر گناہ کی جگہ نیکی لکھ دو اور درجات بلند کر دو‘‘۔

’’سورہ الملک‘‘ کی اہمیت و شفاعت

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ’’سورہ الملک‘‘ کی اہمیت اس طرح واضح فرمائی ہے۔

وددت ان تبارک الذی بيده الملک فی قلب کل مومن.

’’مجھے یہ پسند ہے کہ سورہ الملک ہر مومن کے دل میں ہو‘‘۔

یعنی ہر کوئی اسے زبانی یاد کرے اور کثرت سے پڑھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں :

ان سورة فی القرآن ثلاثين آية شفعت لرجل حتی غفرله وهی تبارک الذی بيده الملک.

’’بے شک قرآن میں ایک سورت ہے، جس کی تیس آیات ہیں اس نے ایک شخص کی شفاعت کی (تو اس کی شفاعت قبول کی گئی) اور اس شخص کو بخش دیا گیا۔ وہ سورہ الملک ہے‘‘۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

ایک شخص نے اپنا خیمہ نصب کیا، اسے علم نہیں تھا کہ نیچے قبر ہے، جب رات ہوئی تو اس نے بڑی صاف اور سریلی آواز سنی۔ کسی شخص نے بڑی ترتیل کے ساتھ سورہ الملک کی تلاوت شروع کی، بڑے پیار بھرے لہجے میں اسے پڑھتا رہا یہاں تک کہ اسے ختم کر دیا۔

یہ آواز زمین کے نیچے سے آ رہی تھی، اس واقعہ نے اسے حیران کر دیا، صبح کے وقت وہ بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوا اور اپنا واقعہ بیان کیا :

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

یہ سورت ’’منجیۃ اور مانعۃ‘‘ ہے یعنی عذاب کو روکنے اور اس سے نجات دلانے والی ہے۔

قبر میں اعمالِ صالحہ کی مدد

حضرت کعب رضی اللہ عنہ کی روایت ہے :

تمام ارکان اسلام نماز، روزہ، حج، جہاد، زکوۃ و صدقات قبر میں آنے والے کو چاروں طرف سے گھیر لیتے ہیں اور اپنی حفاظت میں لے کر اس کا مکمل دفاع کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ عذاب کے فرشتوں کو اس کے قریب نہیں آنے دیتے۔

اگر سر کی طرف سے آئیں، تو رمضان اس کا دفاع کرتا ہے اور فرشتوں سے کہتا ہے : اس شخص نے اللہ کی رضا کے لئے بہت بھوک پیاس برداشت کی ہے، اس لئے تم اس سے کوئی تعرض نہ کرو۔

اگر پاؤں کی طرف سے آئیں تو نماز اس کا دفاع کرتی ہے اور کہتی ہے یہ نماز کے لئے چل کر آتا اور قیام کرتا تھا، اس لئے تم اسے کچھ نہ کہو۔

اگر ہاتھوں کی طرف سے آئیں تو صدقات اس کا دفاع کرتے ہیں اور کہتے ہیں :

یہ شخص غرباء و مساکین پر دونوں ہاتھوں سے دولت نچھاور کیا کرتا تھا اور اللہ کی رضا کے لئے ان کی ضروریات کا خیال رکھتا تھا اس لئے تم اس سے درگزر کرو۔ اگر وہ جسم کے کسی اور حصے کی طرف سے آئیں تو حج اور جہاد ان کا راستہ روکتے ہیں اور کہتے ہیں۔ اس نے راہ خدا میں بہت مشقتیں اٹھائیں، اللہ کی رضا کے لئے اپنے جسم کی توانائیوں کو خرچ کیا۔ اس لئے تم اس کا خیال چھوڑ دو، ہم تمہیں اس کے قریب نہیں جانے دیں گے۔

فرشتے خوش ہوکر، کہتے ہیں، تو کتنا خوش نصیب ہے۔

هَنِيْئًا طِبْتَ حَيًّا وَطِبْتَ مَيِّتًا.

’’تجھے مبارک ہو، تو زندگی میں بھی کامیاب تھا اور اب مرنے کے بعد بھی کامیاب ہے‘‘۔

بارک الله لک فی مضجعک فنعم الاخلاء اخلاء ک.

’’اللہ تیری اس آخری آرامگاہ کو بابرکت بنائے، یہاں تجھے کتنے اچھے اور مہربان ساتھی نصیب ہوئے ہیں، جو بہترین مددگار ہیں‘‘۔

سورہ البقرہ اور آل عمران

میدان قیامت میں سورہ السجدہ کی طرح، سورہ البقرہ شریف اور آل عمران بھی ان خوش نصیبوں کے آرام و سکون کا خیال رکھیں گی جنہوں نے دنیا میں ان کی تلاوت کی ہوگی، سب جانتے ہیں میدان حشر کی گرمی برداشت سے باہر ہوگی، جس میں سائے کے لئے لوگ ترسیں گے، مگر شدت کی گرمی اور تیز دھوپ سے بچاؤ کے لئے کوئی سائبان اور کوئی گھنا بادل میسر نہیں ہوگا۔ اس عالم میں یہ دونوں سورتیں، گہرے اور گھنے بادل کا روپ دھار لیں گی، یا پرندوں کے غول میں تبدیل ہو جائیں گی اور اپنے ساتھیوں پر سایہ کریں گی۔

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اقرء وا الزهرا وين البقرة وآل عمران فانهما ياتيان کانهما غما متان او ظلتان سودا و ان يينهما شرق او کانهما فرقان من طير صواف تحاجان عن صاحبهما.

’’سورہ البقرہ اور آل عمران دو پرنور سورتیں ہیں، انہیں پڑھو، کیونکہ یہ میدان میں اس طرح آئیں گی، گویا دو بادل ہیں، یا دو گھنے سائے ہیں جس میں روشنی موجود ہے، یا پرندوں کی دو ڈاریں ہیں، جو فضا میں صف بستہ ہیں اور ہوا میں تیر رہی ہیں۔ یہ اپنے ساتھی کی شفاعت اور دفاع کریں گے اور بخشوانے کے لئے فرشتوں سے باقاعدہ جھگڑیں گی اور عذاب سے بچائیں گی۔ بچانے اور دفاع کرنے کا انداز اتنا زبردست اور جارحانہ ہوگا کہ اس پر جھگڑنے کا گمان ہوگا‘‘۔

روزے کی دفاعی طاقت

لڑائی جھگڑا اور دفاع و مقابلہ وہی کر سکتا ہے جس کے صحت مند جسم میں جان اور بازوؤں میں تاب و تواں ہو اور وہ جم کر اپنے طاقت ور حریف کا سامنا کر سکتا ہو، جس کے بازوؤں میں طاقت اور جسم میں جان نہ ہو، وہ کسی کا دفاع نہیں کر سکتا، پہلے واضح کر دیا گیا ہے کہ روزہ، قبر میں اور آخرت کے ہر مرحلے پر روزہ دار کی بھرپور مدد اور اس کا زبردست دفاع کرتا ہے، چونکہ دفاع وہی کر سکتا ہے جو خود طاقت ور ہو، اس لئے روزے کا طاقت ور ہونا ضروری ہے۔

اس کی طاقت مادی خوراک نہیں ہے، بلکہ اس کی طاقت یہ ہے کہ اسے روحانی آداب کے مطابق رکھا جائے اور اس کے جتنے حقوق ہیں، وہ خوش دلی سے ادا کئے جائیں، ایسا روزہ جب بارگاہ خداوندی میں پیش ہوتا ہے تو نہ صرف روزہ دار کی تعریف کرتا ہے، بلکہ اس کے لئے بخشش کا بھی طالب ہوتا ہے اور اس کے راستے میں حائل ہونے والی تمام شیطانی قوتوں کو شکست فاش دے دیتا ہے۔

جب روزہ بارگاہ خداوندی میں پیش کیا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے۔ کیا میرے بندے نے تیرا احترام کیا؟ اور تیرے حقوق ادا کئے؟ اگر روزہ دار نے صحیح روزہ رکھا ہو تو وہ ہاں میں جواب دیتا ہے اور عرض کرتا ہے، یا اللہ! اس نے میرا احترام کیا، نماز پڑھی، قرآن پاک کی تلاوت کی اور اپنے آپ کو گناہوں سے بچایا، میں اس سے خوش ہوں تو بھی اسے خوشی عطا کر۔

اللہ تعالیٰ ایسے بندے کو جنت کی صورت میں دائمی خوشی عطا کرتا ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ ایسا روزہ، خوبصورت اور طاقت ور جوان رعنا کے روپ میں روزے دار کے پاس آتا ہے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر عرش الہٰی کے قریب لے جاتا ہے اور سجدہ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ پوچھتے ہیں، تو کیا چاہتا ہے؟

روزہ کہتا ہے، تیرے اس بندے نے گناہوں سے پرہیز کر کے مجھے قوت و توانائی بخشی اور عزت دی تو بھی اسے عزت عطا فرما اور اسے تاج وقار پہنا، چنانچہ اسے تاج وقار پہنادیا جاتا ہے۔