سفرِ شوق : زیارتِ حرمینِ شریفین (قسط اول)

پروفیسر محمد نصراللہ معینی

ذوق و شوق، عجز و نیاز، کرم و عطا اور لمحات سکون و اضطراب کی منفرد روداد

طیارے نے جدّہ ائیر پورٹ پر اترنے سے پہلے شہر کا ایک چکر لگایا۔ روزن کے ساتھ بیٹھنے سے فائدہ اٹھا کر ہم شہر کے دلکش منظر سے لطف اندوز ہونے لگے۔ جدہ، حجاز کے بحری و بری راستوں کا صدر دروازہ ہے۔ جدہ کا جدید ائیر پورٹ ایک وسیع وعریض خیمہ بستی لگتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ صحرا میں سفید براق خیمے قطار در قطار بڑی ترتیب سے نصب کے گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ عمارت جدید اسلامی فن تعمیر کی نہایت خوبصورت اور نادر مثال ہے۔ ائیر پورٹ کے حج ٹرمینل میں بیک وقت درجنوں جہاز لینڈ کرسکتے ہیں اور اس کے ہال میں کم و بیش ایک لاکھ حجاج سما سکتے ہیں۔

ہم انہی خوبصورت مناظر میں کھوئے ہوئے تھے کہ جہاز رن وے پر دوڑنے لگا، چند ہی لمحوں بعد ہم سر زمین عرب پر اترنے والے تھے۔ جبین نیاز اللہ کے حضور جھک گئی اور دل سجدہ شکر بجا لایا۔

ائیر پورٹ کے کڑے ضابطے بعض اوقات سخت پریشانی کا باعث بن جاتے ہیں۔ عربی زبان سے ناواقفیت بھی مسائل پیدا کر دیتی ہے۔ اسی صورت حال کا ہمارے ساتھیوں کو بھی سامنا کرنا پڑا۔ ادھر گرمی حبس اور پسینے نے ناک میں دم کر رکھا تھا، ہال میں موجود دکانیں پیاسوں کے نرغے میں تھیں۔ بڑی مشکل سے کوئی مشروب کسی کے ہاتھ لگتا۔ ایجنٹوں کی بے رخی بلکہ ترش کلامی اور تلخ نوائی نے آزردہ کر دیا۔ یا اللہ ہم نے کون سا جرم کر دیا جو ایسا سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔

حیرت کی بات یہ تھی کہ جب امیر قافلہ صاحبزادہ محبوب حسین پر نظر پڑتی تو وہ بڑے اطمینان سے بیٹھے اپنے دوستوں کے ساتھ خوشنوائی میں مصروف نظر آتے۔ شاید وہ سفر عشق کی اس حقیقت سے آگاہ تھے جسے اقبال نے شعر کی زبان میں یوں بیان کیا ہے :

جفا جو عشق میں ہوتی ہے وہ جفا ہی نہیں
ستم نہ ہو تو محبت کا کچھ مزا ہی نہیں

اہل تسلیم و رضا تو جفاؤں میں بھی محبوب کی توجہ اور محبت کے مزے اٹھاتے ہیں اور در محبوب کے گدا کاسہ ٹوٹنے پر بھی وجد میں آ جاتے ہیں اور اُسے محبوب کی ایک ادائے دلبرانہ سمجھتے ہیں۔

ترجمان حقیقت خواجہ محمد عمر بیربلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہور کتاب ’’انقلاب الحقیقت‘‘ میں بعض اھل اللہ کے ہاں سخت اور تند مزاج خادم کی موجودگی کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایسا خادم آنے والے کے لئے نشتر یا کانٹے کا کام دیتا ہے جو زائر کے دل میں شگاف کر دیتا ہے تاکہ تکبر اور خود پسندی وغیرہ کا فاسد مواد خارج ہو جائے اور طبیب روحانی کی خدمت میں پہنچنے سے پہلے غلیظ مادے نکل جائیں اور طبیب مرھم محبت رکھ کر زخموں کو درست کر دے۔

شاید کچھ ایسا ہی معاملہ 22 اپریل 2010ء کو زیارت حرمین شریفین کے دوران جدہ ایئر پورٹ پر ہمارے ساتھ بھی تھا، موسم کی تلخی، ایجنٹوں کی بے رخی بلکہ ترش روئی اور اہلکاروں کی بے مروتی شاید ہمارے گناہوں کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے تھی یامن میں چھپے انانیت کے بت توڑنے اور خود پسندی کے آبلے پھوڑنے کے لئے۔ جو کچھ بھی تھا سیدنا حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی آواز زخموں پر مرہم رکھ رہی تھی۔

اَلاَ لاَ تَحْزَنَنْ اَخَا البَلِيّة
فَلِرَّحْمٰنِ اَلْطاف خَفِيّة

’’اے پریشان حال مت گھبرا۔ اللہ رحمن کے پوشیدہ لطف و کرم تیرے منتظر ہیں۔‘‘

ایئر پورٹ کے معاملات سے فراغت کے بعد خدا خدا کرکے بس پر سامان رکھا گیا اور اللہ کے گھر کی حاضری کے لئے بے تاب قافلہ سوئے حرم روانہ ہوگیا۔ جدہ سے مکہ معظمہ تقریباً 70 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے سارا راستہ آباد اور محفوظ ہے۔ تیل کی دولت ملنے سے پہلے قبائلی رہزن حاجیوں کے قافلے لوٹ لیتے تھے لیکن اب معاشی استحکام اور قانون کی حکمرانی کی بنا پر مکہ جانے والے تمام راستے پرامن اور محفوظ ہوگئے ہیں۔ چوری اور رہزنی تو دور کی بات ہے اب تو مال غیر کی طرف کوئی نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔

1980ء کی بات ہے برادر محترم صاحبزادہ پروفیسر محبوب حسین صاحب اور میرا ریاض یونیورسٹی کی معھد اللغہ العربیہ میں تعلیمی و تربیتی کورس کا پہلا دن تھا۔ کلاس سے فارغ ہو کر لائبریری میں داخل ہوئے تو دس ریال کا ایک نوٹ زمین پر پڑا دیکھا۔ سوچا اسے اٹھا کر لائبریرین کے حوالے کر دیتے ہیں لیکن ابھی نوٹ کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ ایک دوست نے چیخ کر کہا۔ اسے پڑا رہنے دو۔ لائبریری والے خود ہی اٹھائیں گے یہ کہہ کر وہ دوست ہمیں ایک بورڈ کے پاس لے گئے جس پر مختلف مالیت کے کرنسی نوٹ پہلے ہی آویزاں تھے۔ انہوں نے کہا ان کے مالک یہاں سے اپنی چیز خود ہی اٹھا لیتے ہیں۔

کیا دس روپے کا وہ نوٹ اٹھا کر میں لائبریرین کے حوالے نہیں کرسکتا تھا؟ آخر اس میں قباحت ہی کیا تھی کہ ہمارے دوست کو سختی سے منع کرنا پڑا؟ میرے دل میں ابھرنے والا یہ سوال تشنہ جواب ہی رہا تا آنکہ ہمارے دوست پروفیسر عبد الرحمن عبد کی کتاب میں لکھا ایک واقعہ نظر سے گزرا۔

ایک دفعہ سعودی فرمانروا ملک عبد العزیز آلِ سعود کے پاس ایک شخص آیا اس نے بتایا کہ اس نے راستے میں ایک بوری پڑی ہوئی دیکھی ہے جس میں جو تھے۔

کیا بوری کھلی تھی؟ شاہ عبد العزیز نے اطلاع دینے والے سے سوال کیا۔ ۔ ۔ نہیں بوری سلی ہوئی تھی اور بند تھی۔ اس شخص نے جواب دیا۔

پھر تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ اس میں جو ہیں؟ ملک عبد العزیز نے پوچھا۔ ۔ ۔ میں نے اس کے اندر انگوٹھا ڈالا تھا جس سے پتہ چلا کہ اس میں جو ہیں، اس شخص نے کہا۔ ۔ ۔ وہ بوری تمہاری ملکیت نہ تھی۔ پھر تم نے اس میں انگوٹھا کیوں ڈالا تم نے اسے ہاتھ ہی کیوں لگایا؟ شاہ عبد العزیز نے غضبناک ہو کر پوچھا۔

پھر شاہ عبد العزیز نے حکم دیا کہ اس کا انگوٹھا کاٹ دیا جائے جو اس نے غیر کی بوری میں ڈالا تھا تاکہ لوگ اس سزا سے عبرت پکڑیں اور دوسروں کی چیز کو چھونے کا خیال بھی دل میں نہ لائیں۔ اس شخص کا کٹا ہوا انگوٹھا تو مٹی میں مل چکا ہوگا لیکن جدہ کے محلہ بنی مالک کے ایک چوک میں اس واقعہ کی یاد دہانی کے لے سنگ مرمر سے بناہوا سولہ فٹ اونچا انسانی ہاتھ کا انگوٹھا آج بھی نصب ہے جس کا ناخن اوپر کی جانب ہے۔ فرانسیسی فنکار نے اس کی گرہیں، ناخن اور جھریاں اس طرح بنائی ہیں کہ وہ بالکل اصلی انگوٹھے کی مانند دکھائی دیتا ہے۔ اس انگوٹھے کا وزن 25 میٹرک ٹن ہے اور اسے بنانے والے سنگ تراش کو چار سو دن صرف کرنے پڑے۔

جدہ کے اس چوراہے میں نصب یہ انگوٹھا چوروں اور رہزنوں کے لئے عبرت کا نشان ہے اور ان معاشروں کے لئے قانون کی حکمرانی اور اس کی برکات کی روشن مثال ہے جو رہزنی، آبرو ریزی اور قتل و غارت کی وارداتوں کی بنا پر تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ یہ انگوٹھا زبان حال سے پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ امن و سلامتی کے متلاشیو! اسلامی نظام اور قانون کی بے لچک حکمرانی امن و سلامتی کی حقیقی ضامن ہے۔ ہماری بس سوئے حرم روانہ ہو چکی تھی۔

بلدِ امین

جوں جوں مکہ شریف کا مبارک شہر قریب آتا جا رہا تھا آتشِ شوق تیز تر ہوتی جار ہی تھی یہ تصور ہی بڑا نشاط انگیز تھا کہ کچھ ہی دیر بعد ہم اس شہر مقدس کی خنک فضاؤں میں سانس لے رہے ہوں گے جس میں بیت اللہ ہے جس کی تعمیر دو عظیم پیغمبروں سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنے مبارک ہاتھوں سے کی۔ جو دنیا کے بت کدوں میں خدا کا پہلا گھر ہے۔ جس کی خود خالق ارض و سما نے ’’وهذا البلد الامين‘‘ کہہ کر قسم اٹھائی اور فرقانِ حمید میں دوسری جگہ واضح کر دیا کہ اس شہر کی قسم اس لئے نہیں اٹھائی کہ اس میں گھر بلکہ اس لئے کہ وانت حل بهذا البلد. اے محبوب آپ اس شہر میں رہتے ہیں۔

یہی وہ بلد امین ہے جس کی پاک گلیوں میں مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بچپن گذرا یہیں وہ اپنے دادا حضرت عبد المطلب کی گود میں کھیلا کرتے اور ان کی انگلی پکڑ کر محو خرام ہوتے۔ اسی شہر میں جوان ہوئے اور نبوت کا اعلان فرمایا۔ اسی شہر مقدس کے در و دیوار نزول قرآن کے انوار سے چمکتے رہے۔ اسی شہر کے ناسمجھ لوگوں نے آپ پر پتھر برسائے، راستوں میں کانٹے بچھائے اور آپ کو یہاں سے ہجرت پرمجبور کر دیا۔ آٹھ سال بعد آپ اسی شہر میں فاتحانہ داخل ہوئے تو کفر اور ظلم کے علمبردار منہ چھپاتے پھرتے تھے۔ لیکن آپ نے فرمایا۔ لا تثريب عليکم اليوم. آج تم سے کوئی مواخذہ نہ ہوگا۔ اللہ اکبر! ایسا پر شکوہ فاتحانہ داخلہ اور اس قدر تواضع اور عفو و در گذر، چشم فلک یہ نظارہ آج تک نہیں بھولی۔

مکہ شریف کو قرآن مجید میں بکّہ کہا گیا ہے۔

اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّةَ مُبٰرَکًا وَّهُدًی لِّلْعٰلَمِيْنَo

’’بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لیے بنایا گیا وہی ہے جو مکہّ میں ہے برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لیے (مرکزِ) ہدایت ہے۔ ‘‘

لیکن احادیث اور تاریخ کی کتابوں میں بکّہ کی بجائے مکّہ آتا ہے۔ گویا دور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس شہر مقدس کو مکہ ہی بولا اور لکھا جاتا تھا۔ مکہ کیا ہے اور بکہ کا مفہوم کیا ہے؟ مکہ : لغت میں مَکًّا سے ہے۔ اور یہ اس وقت بولا جاتا ہے جب اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے دودھ سے سیراب ہو جائے گویا ارض مکہ اونٹنی کی مانند ہے جو دودھ بھرے تھن لئے کھڑی ہے اور دنیا بھر سے پیاسے لپکے چلے آتے ہیں اور فیوض و برکات کا دودھ پی کر سیراب و شاداب ہو جاتے ہیں۔ جبکہ بکہ کا معنی گردن توڑ دینا ہے۔ شہر مکہ کو قرآن مجید نے بکہ کہہ کر گویا اعلان کر دیا کہ جو بھی مکہ کی طرف بڑی نظر سے دیکھے گا اس کی گردن توڑ دی جائے گی اور اس کا وہی حشر ہوگا جو اس شہر مقدس پر حملہ کرنے والے شاہِ یمن ابرہہ کے لشکر کا ہوا۔

جس کے انجام کی خبر قرآن مجید میں یوں دی گئی۔

’’فَجَعَلَهُمْ کَعَصْفٍ مَّاْکُوْلٍo‘‘

’’پھر (اﷲ نے) ان کو کھائے ہوئے بھوسے کی طرح (پامال) کر دیا۔ ‘‘

حضور سید دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شہر کو مخاطب کرکے فرمایا تھا۔

مَا اَطْيَيْکَ مِنَ بَلَدٍ وَ اَحَبُّکَ اِلَّی. (مشکوة)

یعنی اے سر زمین مکہ تو کس قدر پیارا شہر ہے اور مجھے کس قدر محبوب ہے۔

آج حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسی محبوب شہر میں ہمیں داخل ہونے کا شرف حاصل ہو رہا تھا۔ وہ شہر محبوب جس کے خواب بچپن سے دیکھتے آ رہے تھے آج اسے اپنے سامنے دیکھ کر آنکھیں وضو کرنے لگیں اور زبانوں پر بے ساختہ

لَبَّيْکَ اَللَّهُمَّ لَبَّيْکَ لاَ شَرِيْکَ لَکَ لَبَّيْکَ انّ الحمد والنِّعْمَة لَکَ وَالملک لَا شَرِيْکَ لَکَ.

کے نغمے جاری ہوگئے ہر طرف نوری قمقموں سے ماحول جگمگا رہا تھا۔ کشادہ سڑکوں پر رواں دواں ٹریفک کی لائٹیں نور کے دریا کا منظر پیش کر رہی تھی۔ اچانک ایک موڑ پر حرم شریف کے مینار نظر آئے تو لَبَّيْکَ اَللَّهُمَّ لَبَّيْکَ کا قدسی نغمہ بلند تر ہوگیا۔

کعبۃ اللہ پر پہلی نظر

باب فہد سے حرم شریف میں داخل ہوئے تو میں نے دوستوں سے کہا : نظریں جھکا کر چلو، جب مسجد الحرام کے آخری ستونوں کے پاس پہنچیں گے تو کعبۃ اللہ آنکھوں کے سامنے ہوگا۔ اس وقت پہلی نظر پڑتے ہی جو دعا مانگی جاتی ہے قبول ہوتی ہے۔ کعبہ شریف پر نظر پڑتے ہی عجب حالت ہوگئی، ہونٹ لرزنے لگے، آنکھیں برسنے لگیں۔

دراصل کعبۃ اللہ کا جلال اور رعب انسان کو از خود رفتہ بنا دیتا ہے۔ ان دیکھے خدا کا وہ گھر جس کی طرف انسان عمر بھر سجدہ ریز رہتا ہے اچانک اس معبود کا عظیم گھر سامنے پا کر اس پر شادی مرگ کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ کیا واقعی مجھ سا خطا کار انسان ارحم الراحمین کے پیارے گھر کے سامنے حاضر ہے۔ کہیں یہ خواب تو نہیں! اور جب اسے عالم بیداری کا یقین ہو جاتا ہے تو اس عظیم نعمت پر بارگاہ ربوبیت میں آنسوؤں کا نذرانہ پیش کرنے لگتا ہے۔ اور یہ ایسا نذرانہ ہے جو کبھی رد نہیں ہوتا۔ بقول اقبال

موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لئے
قطرے گرے جو میرے عرق انفعال کے

انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ دنیا بھر کی نعمتیں اپنے دامن میں سمیٹنا اور اپنے اہل و عیال اور عزیز و اقارب کے نصیب میں دیکھنا چاہتا ہے۔ چنانچہ قبولیت کی ان گھڑیوں میں اس کے اپنے مسائل اور سارے رشتے ناطے چشم تصور میں گھوم جاتے ہیں۔ لیکن اس دفعہ عجب معاملہ ہوا کہ ساری نسبتیں اور سارے رشتے چند لمحوں کے لیے پردہ خیال سے محو ہو گئے اور زبان پر رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دکھوں اور مصیبتوں میں گھری اور اپنوں اور اغیار کے ہاتھوں ستائی امت کے لئے دعائیں جاری ہوگئیں۔

اللهم اغفر أمة محمد صلی الله عليه وآله وسلم
اللهم ارحم امة محمد صلی الله عليه وآله وسلم
اللهم تجاوز عن امة محمد صلی الله عليه وآله وسلم

امت کے لئے دعا، سنتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

اور پھر عربی اردو، دونوں زبانوں میں جو دعائیں یاد تھیں حضور کی امت کی نذر کر دیں۔ اب سوچتا ہوں کہ یہ توفیق دعا بھی اسکی بندہ پروری کی ایک ادائے دلنواز تھی کہ امت مسلمہ کے لئے دلگیر اور دعا گو رہنا اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبوب سنت ہے۔ دعا کی وہ کونسی گھڑی ہوتی تھی جس میں آپ اپنی امت کو یاد نہ فرماتے۔

٭ سیدنا حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ مسجد میں بیٹھے دعا مانگ رہے تھے ’’اللهم ارحمنی‘‘ اے اللہ مجھ پر رحم فرما۔ رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قریب سے گذر رہے تھے، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دعائیہ الفاظ گوش مبارک میں پڑے تو اپنے پیارے نواسوں حسن و حسین کے والد گرامی کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا۔ اے علی میری امت کو بھی اپنی دعا میں شامل کر لو۔

٭ وصال سے پہلے حضرت عمر اور حضرت علی کو بلایا اپنا جبہ مبارک عطا فرما کہ فرمایا میرے بعد اویس قرنی سے جب تمہاری ملاقات ہو تو انہیں یہ جبہ دے کر میرا سلام پہنچانا اور کہنا کہ میری امت کے لئے دعا کریں۔

قارئین محترم! ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غار حرا کی خلوتوں، طیبہ کی جلوتوں، حرم کی مناجات، معراج کی رات اور وقت وصال و ملاقات غرضیکہ ہر قرب کے لمحات میں اپنی پیاری امت کے لئے دست بہ دعا ہی رہے۔

اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سيدنا محمدٍ صلاةً تکونُ لَکَ رَضًا وَلِحَقّه اَدَاءً

مسجد الحرام کے بر آمدے سے باہر اترے تو سامنے پورے حرم کا روح پرور منظر دیکھ کر قدم وہیں جم گئے۔

کعبہ کی آنکھ

عالم اسلام کا محبوب۔ کعبہ۔ سیاہ اور سنہری پیرہن زیب تن کئے اپنے عشاق میں گھرا ہوا تھا۔ مسرت سے دمکتے چہروں اور سفید چمکتے لباسوں میں ایک ملکوتی حسن مطاف میں رواں دواں تھا۔ ان گنت برقی قمقموں کی روشنی پورے حرم پر نثار ہو رہی تھی۔ نصف شب کے وقت یہ بڑا ہی مسحور کن نظاہرہ تھا۔ ہم بھی اپنی محبتیں اور عقیدتیں اس محبوب پر نچھاور کرنے کے لیے حجر اسود کی طرف بڑھے کہ یہیں سے پروانوں کا سفر شروع ہوتا ہے۔ بسم اللہ، اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ کے اشارے سے ہجوم عاشقاں میں گھرے حجر اسود کو دور سے سلام کیا اور پروانوں کے ہجوم میں شامل ہوگئے۔

طواف کا ہر چکر پورا ہونے پر حجر اسود کو بوسہ دینے کے لئے دل مچلتا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے یمین اﷲ فی الارض یعنی اللہ تعالیٰ کا دایاں دست قدرت قرار دے کر فرمایا یصافح بھا خلقہ، اس سے وہ اپنی مخلوق سے مصافحہ فرماتا ہے۔ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے سید دو عالم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ’’مَنْ فاوَضَه فانما يفَاوِضُ يَد الرحمٰنِ. (ابن ماجہ، 2/ 985) جو اس سے ملاقات کرتا ہے وہ رحمن کے دستِ قدرت سے ملاقات کرتا ہے، چنانچہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے اس دستِ قدرت کو بوسہ دیا۔ مومن کے لئے یہ کتنا بڑا اعزاز ہے کہ ایک طرف تو وہ رب العزت کے دستِ کرم سے مصافحہ کرتا ہے اور اسے چومتا ہے اور دوسرا یہ کہ حبیب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جہاں لب مبارک لگے وہاں اپنے ہونٹ رکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لمس کے اتحاد کی سعادت پاتا ہے۔ ایک عربی شاعر محمد بن محمد (م 768) نے اس مفہوم کو ان خوبصورت الفاظ میں منظوم کیا ہے۔

أقَبِّلُه لَعَلَّ فِمی يَلاقِی
مَکَانًا فَازَ بِالهادِی البَشِيرِ

محمدٍ الذی سادَا لبَرَايا
وَاَخْجَلَ طَلعَةَ القمرِ المنيرِ

میں حجر اسود کا اس لیے بوسہ لیتا ہوں کہ شاید میرا منہ اس جگہ پر لگ جائے جس جگہ کو دنیا کے سردار اس ھادی و بشیر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بوسے کا شرف ملا جن کے روئے انور نے چاند کو شرمادیا۔

اس لئے سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ حجر اسود کو بوسہ دیا تو کہا ’’اِنَّکَ لا تَضُرُّ وَلَاتَنْفَعُ‘‘ میں جانتا ہوں کہ تو صرف ایک پتھر ہے نہ نفع دے سکتا ہے نہ نقصان۔ اگر میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تجھے چومتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو کبھی نہ چومتا۔ سیدنا حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا ’’يا امير المؤمنين انه يضر و ينفع‘‘ اے امیر المومنین یہ پتھر نفع و نقصان دے سکتا ہے کیونکہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خود سنا کہ آپ نے فرمایا۔ قیامت کے روز حجر اسود کو لایا جائے گا اور وہ بڑی فصیح زبان میں اس شخص کی گواہی دے گا جس نے توحید پر ایمان رکھتے ہوئے اس کا استلام کیا۔

سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کی گواہی کا ذکر فرما کر اس حقیقت کی طرف اشارہ فرما دیا کہ حجر اسود دیکھتا ہے۔ کیا حجر اسود کی بھی دیکھنے والی آنکھ ہے؟ آپ ذرا غور فرمائیں تو حجر اسود کے گرد چاندی کا ہالہ آنکھ کے حلقے کی مانند اور اس کے اندر حجر اسود آنکھ کی پتلی کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ گویا یہ بیت اللہ کی آنکھ ہے جو طواف کرنے، اسکو چھونے اور بوسہ دینے والوں کو مسلسل دیکھ رہی ہے اور لاکھوں کے مجمع میں ان کو بھی دیکھ رہی ہے جو اس تک نہیں پہنچ پاتے اور دور سے ہی ہاتھ اٹھا کر اپنی حاضری لگواتے اور اشارے سے ہی سلام نیاز پیش کر لیتے ہیں۔ کتنی طاقتور اور بیدار ہے بیت اللہ کی یہ آنکھ جو مسلسل لاکھوں شیدائیوں کو بیک وقت دیکھتی رہتی ہے اگر حجر اسود نہ دیکھ سکتا تو قیامت کے دن گواہ کیسے بنتا۔ گواہ وہی ہوتا ہے جس نے موقعہ پر دیکھا ہو۔

اللہ کا شکر ہے کہ ا س نے مجھ جیسے کم ہمتوں، عافیت کوشوں اور کمزوروں کو ہجوم میں گھس کر دھکے کھانے اور پاؤں تلے روندے جانے سے بچانے کا بھی انتظام فرمایا اور اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے اجازت عطا فرما دی کہ وہ اگر بوسہ نہ دے سکیں تو ہاتھ سے چھو لیں اور پھر ہاتھ کو بوسہ دے لیں اور اگر ہاتھ نہ پہنچ سکے تو چھڑی کو لگام کر چوم لیں اور اگر یہ دونوں صورتیں بھی ممکن نہ ہوں تو دور سے ہاتھ یا چھری کا اشارہ کرکے چوم لیں۔ رب العزت نے کسی معاملہ میں مسلمانوں کو تکلیف مالا یطاق نہیں دی۔

لا يکلف اﷲ نفسا الا وسعها
رکن يمانی کی فضيلت

کعبہ کی عمارت کے جس کونے میں حجر اسود نصب ہے طواف کے دوران اس سے پہلے جنوب مغربی کونے کو رکن یمانی کہتے ہیں کیونکہ یہ ملک یمن کی سمت واقع ہے۔ اس کونے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر کردہ بنیاد پر نصب شدہ پتھر پر سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے استلام فرمایا یعنی ہاتھ پھیرا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت ہے کہ

کان رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم اذا استلم الرکن اليمانی قبله.

(رواه البخاری فی تاريخه)

’’جب حضور رکن یمانی پرہاتھ لگاتے تو اسے بوسہ دیتے۔ ‘‘

محمد بن علوی المالکی فرماتے ہیں کہ جمہور کے ہاں ان دونوں مقامات (رکن یمانی اور حجر اسود) کا استلام اور بوسہ دینا ثابت ہے۔

ترمذی شریف اور مسند امام احمد اور حاکم کی روایت میں ہے کہ ان دونوں مقامات کو چھونے سے گناہ جھڑتے ہیں اور بعض روایات میں ہے کہ ان دونوں مقامات پر فرشتے مقرر ہیں جو یہاں دعا کرنے والے کی دعا پر آمین کہتے ہیں۔ رکن یمانی پر فرشتوں کی تعداد دو سے ستر تک مذکور ہے جبکہ حجر اسود پر ستر ہزار سے لا تعداد تک۔

رکن یمانی کی فضیلت پر اکثر کتابیں خاموش ہیں، اس لئے زائرین کی کثرت بے خبری کی وجہ سے اس مقام کو بغیر چھوئے گذر جاتی ہے۔ ان کی ساری توجہ اگلی منزل (حجر اسود) پر ہوتی ہے۔ لہذا وہاں ازدھام کی حالت دھینگا مشتی کا منظر پیش کرتی ہے۔ جس سے نہ صرف کعبۃ اللہ اور حجر اسود کا احترام مجروح ہوتا ہے بلکہ شدید جسمانی مشقت بھی برداشت کرنی پڑتی ہے۔

در اصل بڑے قد کاٹھ اور مضبوط تنو مند جسم والوں کے لئے حجر اسود کا بوسہ کوئی مسئلہ نہیں ہوتا مسئلہ تو ان کی راہ میں آنے والوں کو ہوتا ہے۔ ممتاز مفتی نے لکھا ہے کہ ایسے ہی ایک پہلوان سے پوچھا گیا کہ وہاں تو اتنی بھیڑ تھی تم کیسے کامیاب ہوئے؟ اس نے کہا ’’ساری عمر کسرت کی ہے بھاجی کوئی مخول ہے۔ ایک کو اٹھا کر ادھر پھینکا ایک کو موہڈا مار کر ادھر کیا۔ پانچ دس کو پیچھے گھسیٹا، ایک کو ایڑی ماری بس راستہ صاف ہوگیا۔ پھر جی بھر کر سنگ اسود کو چوما کسی کی مجال نہیں ہوئی کہ ہمیں ادھر سے ہٹائے۔

صفا و مروہ

شادابی و ہریالی اور پہاڑوں کی ظاہری حسن و زیبائش سے خالی یہ پہاڑیاں پھر اتنی دلکش کیوں ہیں کہ دنیا ان دونوں کے درمیان دیوانہ وار بھاگتی پھرتی ہے۔ مرد و خواتین، جوان اور بوڑھے اور وہ بھی جنہوں نے کبھی پارک کی نرم نرم گھاس پر چل کر نہ دیکھا ہو لیکن یہاں آکر وہ مرمریں فرش پر ننگے پاؤں ایک دو نہیں پورے سات چکر لگا کر دم لیتے ہیں۔ جن کا مجموعی فاصلہ ساڑھے تین کلومیٹر بنتا ہے۔ بیمار افراد جن کا چند قدم چلنے سے سانس پھول جاتا، یہاں صفا و مروہ کی سعی میں ان پر تھکن کے نہ کوئی آثار دکھائی دیتے نہ شکایت۔

سیدہ ہاجرہ علیہ السلام کا اپنے فرزند کے لئے پانی کی تلاش میں ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان دوڑنے کے علاوہ صفا پہاڑی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اللہ کے حکم پر رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر کھڑے ہوکر یا صباحاہ یا صباحاہ، جاگو، جاگو کہہ کر قریش مکہ کو پکارا تھا۔ جب سب لوگ اس پہاڑی کے دامن میں جمع ہوگئے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اجتماعی طور پر پہلی مرتبہ خدا کی وحدانیت اور اپنی رسالت پر ایمان لانے کی دعوت دی۔ ابولہب کہنے لگا تَبًّا لک اَلِهٰذا اِجْتَمَعْتَنَا (نعوذ باللہ) تمہارے لئے بربادی ہو، کیا اس بات کے لئے ہمیں اکٹھا کیا ہے۔ رب العزت کو اپنے محبوب کی شان میں یہ گستاخی اور ہرزہ سرائی گوارا نہ ہوئی اور سورہ تبت یدا ابی لھب و تب نازل فرمائی۔

اس واقعہ سے آگاہ زائرین صفا پر کھڑے ہوکر اس واقعہ کا تصور کرتے ہوئے بڑا روحانی کیف و سرور محسوس کرتے ہیں اور جہاں کھڑے ہوکر رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وعظ فرمایا اس جگہ موجودگی کو باعث اعزاز سمجھتے ہیں۔ صفا سے مروہ جاتے ہوئے دائیں ہاتھ پہلے دروازہ کو باب دار ارقم کہتے ہیں۔

دارِ ارقم

صفا سے مروہ کی طرف چلیں تو دائیں ہاتھ پہلا بیرونی دروازہ ’’باب دار ارقم‘‘ کہلاتا ہے۔ اس دروازے سے باہر نکلیں تو صفا کے دامن میں چند قدم پر دار ارقم کی جگہ ہے اس مقام پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانثار صحابی حضرت ارقم رضی اللہ عنہ کا گھر تھا۔ یہی وہ گھر تھا جہاں اعلان نبوت کے بعد کچھ مدت تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسلام قبول کرنے والے مخلصین کے ساتھ خفیہ محفل فرماتے اور انہیں قرآنی احکام پہنچاتے۔ دار ارقم غریب مسلمانوں کی پناہ گاہ، دین اسلام کی تبلیغ گاہ اور تربیت گاہ تھی اور بوقت عبادت سجدہ گاہ بھی تھی کیونکہ انہیں اعلانیہ طور پر حرم شریف میں عبادت کی اجازت نہ تھی۔

دار ارقم میں لوگ داخل ہوتے اور ایمان کی دولت لے کر واپس جاتے۔ اسی گھر میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور سیدنا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ دولت ایمان سے مشرف ہوئے۔ یہی وہ گھر تھا جہاں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تلوار لے کر داخل ہوئے اور ایمان سے سرفراز ہوکر لوٹے۔ دار ارقم کے مقام پر آج کھڑے ہوکر ہر عاشق صادق اپنے آنسوؤں پر ضبط نہیں کرسکتا۔

مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک دلدوز منظر

دوسرے دن نماز عصر کے بعد اس مقدس مکان کی زیارت کا شرف حاصل ہوا جہاں چودہ سو سال قبل سید آمنہ رضی اللہ عنہا کی گود میں آفتاب نبوت طلوع ہوا تھا، جس کے نور سے نہ صرف اس گھر کے در و دیوار چمک اٹھے بلکہ سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کے سامنے مشرق و مغرب کے تمام اطراف روشن ہوگئے۔ ہر چیز تجلیات میں نہا گئی، فضائیں صل علیٰ کے نغموں سے معمور ہوگئیں اور پوری کائنات مسرت و شادمانی سے جھوم اٹھی۔

صفا و مروہ کی طرف حرم سے باہر چند سو قدموں پر واقع یہ مقدس مکان زمانے کے کئی انقلابات دیکھ چکا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ نام نہاد مصلحین کے ہاتھوں سے ابھی تک محفوظ ہے جو دیگر کئی آثار اور متبرک مقامات کو مشق ستم بنا چکے ہیں۔ اگرچہ سعودی حکومت نے اسے لائبریری بنا دیا ہے لیکن اس کا دروازہ اکثر بند رہتا ہے۔ آج بھی دروازہ بند تھا ہم نے بھیگی آنکھوں اور لرزتے ہونٹوں کے ساتھ اس مقدس دروازے کو بوسہ دیا تو ایک عجیب دلنواز خوشبو سے روح سر شار ہوگئی۔ جی چاہتا تھا کہ وقت تھم جائے اور ہم دروازے سے لپٹے رہیں اور دل اور آنکھیں اپنی حسرت پوری کر لیں۔

اچانک دروازے کے پاس کھڑا 15، 16 سال کا ایک سانولے رنگ کا نوجوان عربی میں بڑ بڑانے لگا۔ اس کی شعلہ بار آنکھوں اور تلخ جملوں سے جو میں سمجھ سکا یہ تھا کہ یہ تو فقط ایک دروازہ ہے تم اسے کیوں چوم رہے ہو، یہ شرک ہے۔ پھر وہ حرم کعبہ کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگا۔ ادھر جاؤ تعظیم و محبت کے اظہار کی جگہ وہ ہے۔

اتنے میں ترک زائرین کی ایک جماعت وہاں آگئی اور ہم چند قدم پیچھے ہٹ کر ایک دیوار کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ وہ مقدس مقام ہے جہاں آفتاب نبوت طلوع ہوا اور ’’اشرقت الارض بنور ربها‘‘ اور زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھی۔ اس لئے آئیں اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کا بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں لکھا ہوا سلام۔

مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام

مل کر پیش کریں۔ دونوں ساتھی خوش الحانی اور درد و سوز کی نعمت سے بہرہ ور ہیں۔ مولد النبی کے ماحول اور ان کی آواز نے عجب سماں بنا دیا آنکھیں برسنے لگیں اور روح جھوم اٹھی اور جب انہوں نے

جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام

بار بار دہرایا و ایسی روحانی لذت اور کیف نصیب ہوا جس کا بیان حرف و قلم کی طاقت سے باہر ہے۔ ادھر ترک زائرین چبوترے سے اتر کر کھڑے ہوگئے تھے اور اپنے قائد کی باتیں بڑے انہماک اور عقیدت سے سن رہے تھے۔ ہم بارگاہِ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ھدیہ درود و سلام اور آنسوؤں کا نذرانہ پیش کررہے تھے کہ نظر دروازے کی طرف اٹھی وہی نوجوان کسی اور زائر سے الجھ رہا تھا اور قریب ہی ایک بوڑھا سعودی اسے سمجھا رہا تھا اور زائرین کے ساتھ الجھنے سے منع کر رہا تھا۔ اچانک ہماری آنکھوں نے وہ دل دوز اور روح سوز منظر دیکھا جس کی تلخی آج بھی قلب و جاں میں پیوست ہے۔

وہ نوجوان جو خود ساختہ مطوع کی ڈیوٹی انجام دے رہا تھا۔ اسے مقدس مقام کے لئے زائرین کی نیاز مندی اور محبت و احترام کا اظہار ناقابل برداشت ہو چکا تھا۔ اچانک وہ دو قدم دروازے سے پیچھے ہٹا اور انتہائی گستاخی سے درِ پاک پر تھوک دیا اور پھر مغلوب الغضب ہو کر اپنے جہنمی پاؤں سے باب مولد النبی کو ٹھڈے مارنے لگا۔ یہ دیکھ کر ہم تیزی سے اس کی طرف بڑھے۔ بوڑھا سعودی بھی اٹھ کھڑا ہوا اور اسے یہودی، ملعون، ملعون کے خطاب سے نوازنے لگا میں نے جاتے ہی نوجوان سے پوچھا۔ کیا تم جانتے ہو یہ دروازہ کس مبارک ہستی کے گھر کا ہے۔ بُرا سا منہ بنا کر بولا اَنَا اَعْرِف۔ میں جانتا ہوں۔ اس کے منہ سے اتنا سننا تھا کہ بوڑھے سعودی نے پوری قوت سے اُس گستاخ رسول کے منہ پر تھپڑ رسید کر دیا۔ تھپڑ کھاتے ہی نوجوان تیزی سے مڑا اور بھاگ گیا۔

رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ بے کس پناہ میں اس لڑکے کی انتہائی بے ادبی، گستاخی اور ذلیل ترین جسارت کو دیکھ کر دل کٹ گیا۔ مجھے تو رہ رہ کر خود پر افسوس ہو رہا تھا کہ اس بدبخت پر ہاتھ سیدھا کرنے میں ہم سے سستی اور کوتاہی کیوں ہوئی۔ کاش سوال جواب کرنے کی بجائے آتے ہی اسے دوچار ہاتھ رسید کردیتے، پھر ہرچہ بادا باد۔

نوجوان کی یہ انتہائی گھناؤنی اور شیطانی حرکت کسی وقتی اشتعال کی بنا پر نہیں تھی۔ اس کے پیچھے تو پوری سو سالہ دہابیہ کی تاریخ کار فرما ہے۔ یہ گستاخانہ رویہ اسے اپنے ماحول اور باپ دادا سے ورثے میں ملا۔ اسے جو کچھ پڑہایا اور سکھایا گیا تھا، آج کا افسوسناک واقعہ اسی کا نتیجہ تھا۔

اس نوجوان نے ایسا کیوں کیا؟ یقینا اس کے والدین اور اساتذہ نے اسے بتایا ہوگا کہ کسی دیوار، دروازے یا چیز کی تعظیم و احترام کرنا اور انہیں بوسہ دینا شرک ہے اور ان الشرک لظلم عظيم شرک بہت بڑا ظلم اور گناہ ہے۔ لہٰذا وہ خدائی فوجدار بن کر لوگوں کو اس مزعومہ ’’شرک‘‘ سے روکنے لگا اور جب اس نے دیکھا کہ اس کی کوشش کارگر نہیں ہورہی تو وہ جگہ جو اس کی دانست میں ’’شرک‘‘ کا باعث بن رہی تھی اس کے خلاف بغض و عناد اور نفرت کا مظاہرہ کر ڈالا۔ اس کے بس میں ہوتا تو شاید وہ پوری عمارت کو منہدم کرنے سے بھی دریغ نہ کرتا کہ تقریباً ایک صدی سے اس کے آباؤ اجداد یہی کچھ کرتے چلے آئے تھے۔ حضور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کے کیسے کیسے مبارک آثار تھے جو ان کی ضرب ستم کا نشانہ بن گئے۔

بیت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مھبط وحی سے سلوک

مکہ معظمہ میں ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہ کا چار کمروں پر مشتمل وہ مکان جس کی دہلیز نے 28 سال تک سرورِ دو عالم رحمت مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک چومے۔ وہ دیواریں جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تبسم کے انوار سے چمکتی رہیں، وہ صحن جس کی فضائیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سانسوں سے مہکتی رہیں جس مقدس مکان میں خاتون جنت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا نے آنکھ کھولی، حضور کی یہ پیاری لخت جگر جس گھر میں کھیلتی اور اپنے ماں باپ کا پیار سمیٹتی رہیں۔ جس گھر کا ایک کمرہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خلوتوں، عبادتوں اور مناجاتوں سے آشنا تھا۔ جس کے فرش میں حضور کے آنسو جذب ہوتے رہے۔ جہاں جبریل علیہ السلام کثرت سے وحی لاتے رہے اور جس مکان سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مثالی رفیقہ حیات اور ہمدرد و غمگسار زوجہ سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اﷲ عنہا کا جنازہ اٹھا، افسو س ان نجدی دہابیوں نے کسی نسبت کو دیکھا نہ اس کا حیا کیا۔

امت مسلمہ تیرہ صدیوں تک اس مقدس مکان کی حفاظت اور احترام کرتی چلی آئی تھی کیا ان تمام صدیوں کے مسلمان مشرک اور بدعتی تھے؟ ہجرت کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ مکان حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے بھائی حضرت عقیل رضی اللہ عنہ کے سپرد کردیا تھا ان سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے خرید کر مسجد بنا دیا اور پھر ہر آنے والے مسلمان حکمران نے اس کی تجدید و تزئین کی تآنکہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امت مرحومہ کی یہ امانت آل سعود کے بے درد حکمرانوں اور آل شیخ کے تنگ نظرہ انتہا پسند اور متشدد علماء تک پہنچی انہوں نے اس بیت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مھبط وحی کے ساتھ جو سلوک کیا ہر محب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دل فگار اور روح بے چین و سوگوار ہے۔

بیت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ ۔ ۔ مشاہدات کی روشنی میں

٭ اس مقدس مکان کے بارے میں اپنے مشاہدات بیان کرتے ہوئے جناب محمد صدیق تنہا اپنی کتاب ’’زیارات مقامات مقدسہ‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ذرا دل تھام کر پڑھئیے۔

’’ 1985ء میں دیکھا اس مقدس مکان کو جڑ سے اکھاڑ کر گڑھا بنا دیا گیا اور آس پاس جستی دیواریں لگا کر عوام کی نظروں سے اوجھل کردیا گیا۔ 1989ء میں چادریں ہٹا کر گڑھے کے گرد پختہ دیواریں چن دی گئیں اور دیوار کے ساتھ بلدیہ کے گندگی جمع کرنے والے ٹرک کھڑے کردیئے گئے۔ شہر کی گندگی جب ان ٹرکوں میں ڈال کر بذریعہ مشین دبائی جاتی تھی تو گندہ پانی آس پاس کے ماحول میں بدبو پیدا کردیتا۔ ایسے میں زیارت کی غرض سے آنے والا ہر درد مند دل تڑپ تڑپ جاتا۔ 1990ء کے موسم حج کے بعد اس مقدس مکان کی جگہ کے متصل زیر زمین لیٹرینیں بنا دی گئیں اور مکان والی جگہ کو ان لیٹرینوں کا راستہ بنا دیا گیا۔ ترک حکمرانوں نے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی محبت اور وفا کا ثبوت دشمنان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکانوں کو لیٹرینوں میں تبدیل کرکے پیش کیا تھاجبکہ موجودہ سعودی حکمرانوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے بغض اور دشمنی کا اظہار کرتے ہوئے نہ صرف ان کو ختم کردیا بلکہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے مکان مقدس کو ختم کر کے اس کے پاس لیٹرینیں قائم کردیں۔ ‘‘

٭ کویت میں عالم اسلام کے عظیم مفکر، جید عالم دین اور محقق الشیخ یوسف السید ہاشم الرفاعی نے کچھ عرصہ پہلے علمائے نجد کے نام ایک خط میں باون سوالات اٹھائے تھے جن میں ان کی گستاخیوں، تشدد اور انتہا پسندی سے پردہ اٹھا کر انہیں شرم اور خوف خدا دلانے کی کوشش کی گئی تھی۔ 32 ویں نمبر پر وہ نجدی علماء سے کہتے ہیں۔

’’جب ام المومنین اور رسول رب العالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہلی زوجہ مطہرہ (سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا) کا وہ مکان گرایا گیا جو وحی الٰہی کا اولین مرکز تھا تو تم اس کے گرانے پر نہ صرف خاموش رہے بلکہ اس پر خوش ہو کہ مکان گرانے کے بعد وہاں بیت الخلاء اور وضوء خانے بنا دیئے گئے اللہ تعالیٰ کا خوف کہاں گیا؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حیا کہاں گئی‘‘؟

حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا وہ مقدس مکان جہاں شادی کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منتقل ہوگئے تھے، کہاں گیا اور انتہا پسند سعودیوں نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا، گذشتہ سطور میں آپ پڑھ چکے۔ مکہ معظمہ کے قبرستان جنت المعلی میں پاکباز خاتون المومنین کا پروقار مزار شریف جس پر ایک خوبصورت سفید گنبد بھی تھا ان ظالموں کا مشق ستم بننے سے محفوظ نہ رہ سکا۔ گنبد گرا دیا گیا مزار اقدس کی اینٹیں اور الواح اکھاڑ دی گئیں اور قبر انور کو ایک بے نام مختصر ڈھیری میں تبدیل کردیا گیا۔

٭ آغا عبدالکریم شورش کاشمیری اپنے مشاہدات و تاثرات پر مبنی کتاب ’’شب جائے کہ من بودم‘‘ میں حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے مزار اقدس پر حاضری کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

’’حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کی قبر پر نگاہ کی، ام المومنین کا مزار؟۔ ۔ ۔ میں کانپ اٹھا۔ میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔ مسلمانوں نے اپنی بیویوں کے تاج محل بنا ڈالے لیکن جس خاتون کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہلی شریک حیات ہونے کا شرف حاصل ہوا جو فاطمۃ الزہرا رضی اﷲ عنہا کی ماں تھیں، وہ ایک ویران قبر میں پڑی ہیں۔ میں اپنے تئیں ضبط نہ کرسکا، آنکھوں میں بدلیاں آگئیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بعثت کے گیارہ سال ستایا گیا ام المومنین کو اب ستایا جارہا ہے۔

اپنی جسارت پر مجھے حیرت ہوئی کہ میں نے اس ڈھیری (شکستہ مزار اقدس) کے سامنے کھڑا ہونے کا حوصلہ کیا۔ میں ہل گیا، ایک کپکپی طاری ہوگئی۔

مرا اے کا ش کہ مادر نہ زادے

’’اے کاش مجھے میری ماں نے جنم نہ دیا ہوتا۔ ‘‘

سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا

ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبری وہ عظیم اور باوفا خاتون تھیں جنہوں نے تا دم وصال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ نبھایا۔ اپنا مال وزر دین کیلئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں پر نچھاور کردیا۔ اور ہر مشکل گھڑی میں آپ کی دلجوئی کی اور حوصلہ بڑھایا حضور ہمیشہ ان کی خدمات کو اچھے لفظوں میں یاد فرماتے رہتے تھے اور ان کے رشتوں اور نسبتوں کی قدر فرماتے۔

اہل محبت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان والہانہ لمحات کو کبھی نہیں بھول سکتے جب غزوہ بدر کے قیدیوں کی رہائی کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا وہ ہار دیکھا جو انہوں نے شادی کے موقع پر اپنی بیٹی حضرت زینب کو تحفہ میں دیا تھا۔ یہ ہار آپ کی بیٹی نے اپنے شوہر کی رہائی کے لئے بطور فدیہ بھیجا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمان مبارک سے آنسو بہ نکلے، حضرت خدیجہ کی یاد نے آپ کو بے قرار کردیا تھا۔ آپ نے صحابہ سے فرمایا اگر تم کہو تو یہ ہار واپس کردیا جائے اور انہوں نے بخوشی اس کی اجازت دے دی۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنہیں ان کی غمگسار رفیقہ حیات کے ہار نے غمناک کردیا۔ ذرا اندازہ کیجئے ان کے مزار اور مکان کی بے حرمتی پر رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کتنے دل گرفتہ ہوئے ہوں گے۔

رب العزت نے اپنے پیارے رسول کو دکھ دینے والوں کے متعلق ارشاد فرمایا :

انّ الذين يؤذون اﷲ ورسوله لعنهم اﷲ فی الدنيا والآخرة واعدلهم عذابا مهينا

’’بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں، اور اللہ نے ان کے لیے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ ‘‘

آثارِ مقدسہ و تبرکات کو مٹانے کی روش

شعائر اللہ یعنی آثار مقدسہ و تبرکات انبیاء و صلحاء کی تاریخی و شرعی حیثیت کیا ہے اور دور صحابہ سے در حاضر تک امت مسلمہ کا اس سلسلہ میں طرز عمل کیا رہا ہے۔ یہ ایک تفصیل طلب بحث ہے۔ ان شاء اللہ سفر نامہ کے دوسرے حصہ میں اس پر تفصیلی گفتگو ہوگی۔ تاہم یہاں اس مسئلہ کے دو پہلوؤں پر اختصار کے ساتھ بات ضروری ہے۔

آثار مقدسہ و تبرکات انبیاء و صلحاء کو مٹانے اور تباہ و برباد کرنے والوں کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ لوگ ان کی تعظیم کرتے ہیں اور ان پر مسح کرتے اور انہیں بوسہ دیتے ہیں۔ جو کہ بدعت اور شرک ہے۔ لہذا ہر وہ چیز جس سے شرک و بدعت کو فروغ ملنے کا خدشہ ہو اُسے مٹا دینا چاہیے۔

سوال یہ ہے کہ کیا کسی چیز کی تعظیم کرنا اسے چھونا یا بوسہ دینا واقعی شرک ہے اور کیا دور نبوی اور دور صحابہ کرام میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ اسے بدعت بھی قرار دے دیا جائے۔ ان سوالات کا جائزہ لینے کے لئے جب ہم دورِ صحابہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام تعظیم و احترام اور بوسہ دینے کو ہرگز شرک نہیں سمجھتے تھے۔ اگر سمجھتے تو خود ان افعال کے کبھی مرتکب نہ ہوتے یہی وجہ ہے کہ

آثارِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عملِ صحابہ رضی اللہ عنہم

صحابہ کرام اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت رکھنے والی ہر چیز کا احترام اور تعظیم کرتے تھے حضور کے پسینہ مبارک، موئے مبارک، لعاب دہن اور آپ کے وضو کے استعمال شدہ پانی کی تعظیم کے جو مناظر صحابہ کرام کی زندگی میں ہمیں نظر آتے ہیں وہ ایمان افروز بھی ہیں اور سبق آموز بھی۔ زیر نظر مضمون کے آغاز میں صلح حدیبیہ کے موقع پر قریش مکہ کے نمائندے عروہ نے اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو تعظیم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان کے ساتھی کرتے ہیں میں نے کہیں نہیں دیکھی۔ میں نے دیکھا کہ جب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا لعاب دین پھینکتے تو آپ کا کوئی نہ کوئی صحابی اسے ہاتھ پر لے لیتا اور اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا۔ وضو کرتے تو آپ کا استعمال شدہ پانی حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے۔

صحابہ کرام محبت اور تعظیم کی خاطر اپنے کریم آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک اور قدمین شریفین کو بوسہ دیتے اور اسے ہرگز شرک نہ سمجھتے۔

امام بخاری نے حضرت ورزع بن عامر کی روایت بیان کرتے ہوئے ان کے الفاظ بیان کیے ہیں کہ جب ہم مدینہ منورہ حاضر ہوئے تو ہمیں بتایا گیا کہ وہ رسول اللہ ہیں۔

فاخذنا بيديه و رجليه نقَبّلُها.

(الادب المفرد، 1 : 339، رقم : 975)

’’تو ہم آپ کے مبارک ہاتھوں اور قدموں سے لپٹ گئے اور انہیں بوسہ دینے لگے۔ ‘‘

صحابہ کرام کے بعد تابعین آئے۔ ان کی حضور سے محبت کا یہ عالم تھا کہ وہ صحابہ کرام کے ان ہاتھوں کو چومنا سعادت سمجھتے تھے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مس ہوئے۔

امام بخاری روایت بیان کرتے ہیں کہ حضرت ثابت النبانی رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ حضرت انس بن مالک سے پوچھا۔

أَمَسَتْ النبیَّ بِيَدِکَ؟ قَالَ نَعَمْ، فَقَبَّلَهَا.

’’کیا آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ہاتھ سے مس کیا تھا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں۔ چنانچہ حضرت ثابت نے ان (انس بن مالک) کے ہاتھ کو چوم لیا۔‘‘

اب رہا یہ سوال کہ کیا وہ متبرک جس کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہو اسے چھو کر چہرے پر لگانا کیسا ہے اور کیا صحابہ کرام سے ایسا کرنے کا کوئی ثبوت ملتا ہے؟

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس منبر شریف پر جلوہ افروز ہو کر خطبہ ارشاد فرماتے صحابہ کرام کے نزدیک وہ بھی دیگر آثار کی طرح حصول برکت کا ذریعہ تھا۔ حضرت ابراہیم بن عبد الرحمان بیان کرتے ہیں :

رأيت ابن عمر وَضَعَ يَدَه عَلی مَقْعَدِ النبی صلی الله عليه وآله وسلم من المنبر ثم وَضَعَها علی وَجْهِه.

’’میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر کو دیکھا کہ انہوں نے منبر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ جگہ جہاں آپ تشریف فرما ہوتے تھے، اسے اپنے ہاتھ سے چھوا اور پھر وہ ہاتھ اپنے چہرے پر مل لیا۔‘‘

حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا۔ عن تقبیل منبر النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و عن تقبیل قبرہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقال فلم یر باسابہ کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منبر شریف اور قبر انور کو چومنا کیسا ہے؟ راوی کہتے ہیں آپ نے فرمایا اسمیں کوئی حرج نہیں (یعنی نہ تو گناہ ہے اور نہ شرک) ایک منبر شریف سے تبرک حاصل کرنے کی بات ہی نہیں صحابہ کرام حضور سے تعلق رکھنے والی ہر چیز سے محبت کرتے، اس کی تعظیم کرتے اور اس سے برکت حاصل کرتے۔ معجزات کے باب میں ایسے بے شمار واقعات ملتے ہیں۔ جن سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ یہ نفوس قدسیہ حضور کے آثار کی دل و جان سے حفاظت کرتے تھے۔

حضرت ابو محذورہ کے سر کے سامنے حصے میں بالوں کا ایک جوڑا تھا جب وہ زمین پر بیٹھ کر اسے کھولتے تو بال زمین سے لگ جائے کسی نے ان سے کہا کہ آپ ان بالوں کو کٹوا کیوں نہیں دیتے۔ انہوں نے کہا میں انہیں کٹوا نہیں سکتا کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دست مبارک ان بالوں کو لگا تھا۔

حضرت عبد اللہ بن انیس کو حضور نے ایک عصا عطا فرمایا۔ انہوں نے پوچھا حضور آپ نے مجھے کیوں عطا فرمایا ہے۔ آپ نے فرمایا : آية بينی و بيتک يوم القيامة.

قیامت کے روز میرے اور تیسرے درمیان یہ نشانی ہوگی۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے اسے اپنی تلوار کے ساتھ باندھ لیا اور اسے ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے۔ پھر ان کی وصیت کے مطابق اس عصا کو قبر میں ان کے ساتھ رکھ دیا گیا۔ (مسند احمد بن حنبل، 3 : 496)

ایک صحابیہ کے ہاں حضور تشریف لائے ان کے گھر میں ایک مشکیزہ لٹکا ہوا تھا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشکیزہ سے منہ مبارک لگا پانی نوش فرمایا۔ صحابیہ نے اس مشکیزہ کا وہ حصہ جہاں حضور کے لب مبارک لگے تھے حصول برکت کے لئے کاٹ کر سنبھال لیا۔ حدیث شریف کے الفاظ ہیں :

فقطعت فم القربة تبتغی برکة موضع فی رسول اﷲ.

(ابن ماجه، 2 : 1132، رقم حديث نمبر : 3423)

قارئین محترم! آثار رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے یہ ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا مبارک عمل۔ اس کے باوجود اگر آثار سے محبت اور تعظیم کو ایک تنگ نظر و انتہا پسند فرقہ شرک اور بدعت قرار دیتا ہے اور ان مقدس آثار کو مٹانا اور ان کی توہین کرنا توحید پرستی قرار دیتا ہے تو انہیں کیا نام دیا جائے اس کا فیصلہ آپ خود فرما لیں۔ (جاری ہے)