مراکز امن و محبت دہشت گردی کی زد میں

حافظ محمد نسیم نقشبندی

اسلام کی جملہ تعلیمات میں محبت، امن اور آسانی کارفرما ہے۔ اسی محبت اور امن کے فروغ کے لئے جملہ انبیاء کرام کار بند رہے۔ انہوں نے احکامات الہٰیہ کے ذریعے اپنی انتھک محنت سے معاشرے سے نفرت و کدورت اور فتنہ و فساد کا خاتمہ کیا اور اسکی جگہ محبت کا پیغام عام کرتے ہوئے امن و سلامتی کا نظام عطا کیا۔ قرآن مجید کا مطالعہ کریں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا مشن بھی زمین سے فساد مٹانا اور امن قائم کرنا، نفرت مٹانا اور محبت بڑھانا تھا۔ حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا۔

فَاذْكُرُواْ آلاَءَ اللّهِ وَلاَ تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَO

(الاعراف : 74)

’’سو تم اسے (آزاد) چھوڑے رکھنا کہ اﷲ کی زمین میں چرتی رہے اور اسے برائی (کے ارادے) سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ تمہیں دردناک عذاب آپکڑے گا‘‘۔

قوم ثمود میں منظم گروہ تھے جو فتنہ و فساد پھیلاتے اور ناحق کشت و خون کرتے تھے حتی کہ انہوں نے حضرت صالح علیہ السلام پر بھی حملے سے گریز نہ کیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَ کَانَ فِیْ الْمَدِيْنَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ يُّفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَلَا يُصْلِحُوْنَ.

(النمل : 48)

’’اور (قومِ ثمود کے) شہر میں نو سرکردہ لیڈر (جو اپنی اپنی جماعتوں کے سربراہ) تھے ملک میں فساد پھیلاتے تھے اور اصلاح نہیں کرتے تھے‘‘۔

اسی طرح حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم معاشی کرپشن کے ذریعے معاشرے میں فساد انگیزی میں مبتلا تھی، معاشرتی سطح پر بھی لوگوں کو قبول حق سے روکتے اور راہ حق پر چلنے والوں کو خوفزدہ کرتے۔ حضرت شعیب نے انہیں اس روش کو ترک کرنے اور پیغام امن و محبت کا درس دیا۔ ارشاد فرمایا :

وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْيَآءَ هُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِيْنَ.

(هود : 85)

’’اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دیا کرو اور فساد کرنے والے بن کر ملک میں تباہی مت مچاتے پھرو‘‘۔

اسی طرح حضرت لوط علیہ السلام کی قوم اخلاقی گراوٹ، جنسی بے راہ روی کا شکار ہوکر معاشرے میں فساد فی الارض کا باعث بن رہی تھی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السلام کو ان کی طرف مبعوث فرمایا۔ آپ علیہ السلام نے زندگی بھر اس فتنہ و فساد کے خلاف جہاد کیا اور قیام امن کی کوشش فرماتے رہے۔ اسی عظیم نعمت امن و محبت کو معاشرے میں بپا کرنے کے لئے اپنے رب سے یوں دعا فرماتے ہیں :

رَبِّ انْصُرْنِیْ عَلَی الْقَوْمِ الْمُفْسِدِيْنَ.

(العنکبوت : 30)

’’اے رب! تو فساد انگیزی کرنے والی قوم کے خلاف میری مدد فرما‘‘۔

اسی طرح حضرت موسی علیہ السلام کی قوم بھی معاشرے میں فتنہ و فساد بپا کرنے میں پیش پیش تھی۔ فرعون اور اس کے حواریوں نے پوری قوم بنی اسرائیل کو غلام بنا دیا تھا اور ان کی ہر طرح کی آزادی سلب کر رکھی تھی۔ حضرت موسی علیہ السلام نے بھی فتنہ و فساد کے خلاف علم امن بلند کیا حتی کہ فرعون کو اللہ تعالیٰ نے غرق کیا جو معاشرے میں فساد کی جڑ تھا۔ حضرت موسی علیہ السلام اپنی قوم کو فتنہ و فساد سے روکنے اور امن قائم کرنے کی یوں تعلیم دیتے ہیں :

کُلُوْا وَاشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اﷲِ وَلاَ تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِيْنَ.

(البقرة : 60)

’’اﷲ کے (عطا کردہ) رزق میں سے کھاؤ اور پیو لیکن زمین میں فساد انگیزی نہ کرتے پھرو‘‘۔

الغرض جملہ انبیاء کرام اللہ کی زمین پر قیام امن اور فروغ محبت کے مشن کو بپا کرنے میں شریک کار رہے حتی کہ بعض انبیاء کرام نے اس سعی میں جان کا نذرانہ پیش کیا۔ ۔ ۔ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ ۔ ۔ اہل و عیال اور جان نثار ساتھیوں کی جان اور مال و دولت کو نثار کیا مگر اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کرام کو امن و محبت پھیلانے اور فساد فی الارض کے مرتکب کو راہ راست پر لانے کے لئے مبعوث کیا۔ انبیاء کرام علیہم السلام نے کماحقہ اللہ تعالیٰ کے احکامات اور تعلیمات کو ان تک پہنچایا لیکن جب انہوں نے تعلیمات الہٰیہ سے روگردانی کی اور حد سے تجاوز کیا تو اس وقت ان کے لئے ہلاکت و عذاب کی دعا کی۔ کیونکہ جب معاشرے سے امن و امان اور پیارو محبت مفقود ہوجائے تو اس وقت مثالی معاشرہ کا قیام ناممکن ہوتا ہے۔

اسی طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعثت سے پہلے مکہ مکرمہ میں قتل و غارت اور خون خرابہ اپنے عروج پر تھا۔ صدیوں سے مختلف قبائل کے درمیان چھوٹی چھوٹی باتوں پر لاحاصل جنگیں جاری تھیں۔ ان سماجی برائیوں کی بیخ کنی کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام کی آفاقی تعلیمات کا درس دیا لیکن دشمنان اسلام نے نہ صرف اسلامی تعلیمات سے انحراف کیا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نعوذ باللہ شہید کرنے کی ناپاک جسارت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے پر مجبور کردیا۔ باوجود اس کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امن و محبت اور بھائی چارے کو فروغ دیتے ہوئے فتح مکہ کے دن دشمنان اسلام کو معاف کردیا۔

دین اسلام جو اللہ کے بندوں پر رحمت و شفقت کی نہ صرف ایک صورت بلکہ فضل الہٰی ہے جس نے ہر سطح پر ظلم و بربریت، انتہاء پسندی اور دہشت گردی کی نہ صرف مذمت کی بلکہ اس کو ہر سطح پر روکنے کا حکم دیا۔ افسوس! اس دین مبین کو جہاں اغیار نے سمجھنے میں غلطی کی وہیں بعض اپنے بھی ایسے ہیں جو دین کی تعلیمات کو حقیقی معنوں میں سمجھنے سے کماحقہ قاصر رہے۔ اس کی بنیادی وجہ تعلق بالرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ناپختگی، مقام نبوت و رسالت سے ناآشنائی، محبت و ادب رسول، محبت و ادب اولیاء و صالحین کا نہ ہونا اور قرآن و سنت کی من مانی تاویلات و تشریحات ہیں۔

اسلام تو ہر جگہ محبت، امن اور سلامتی کا گہوارہ ہے۔ اسلام نے ہی انما المومنون اخوة اور المسلم اخوالمسلم کا حسین تصور دیا اور مسلمان کی یہ پہچان بتائی کہ

المسلم من سلم السلمون من لسانه ويده.

’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘۔

اسلام نے ہمیں بتایا کہ اللہ کے ساتھ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اور اللہ کے بندوں کے ساتھ تعلق بھی محبت والا ہونا چاہئے۔ فرمایا :

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ.

(البقرة : 165)

’’اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ (ہر ایک سے بڑھ کر) اﷲ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں‘‘۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق کی بنیاد کائنات کی تمام اشیاء حتی کہ اپنے والدین سے بڑھ کر محبت ہے۔ ارشاد فرمایا :

لايومن احدکم حتی اکون احب اليه من والده وولده والناس اجمعين.

’’تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے والدین سے، اپنی اولاد سے حتی کہ تمام لوگوں سے بڑھ کر مجھ سے محبت نہ کرے‘‘۔

سلام، پیار و محبت کا ذریعہ

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل ایمان کی آپس میں محبت کو بھی ایمان قرار دیا۔ فرمایا :

والذی نفسی بيده لا تدخلوا الجنه حتی تومنوا ولا تومنوا حتی تحابوا الا ادلکم علی شئی اذا فعلتموه تحاببتم افشو السلام بينکم. (مسلم)

’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ جب تک ایمان نہیں لاؤ گے جنت میں داخل نہیں ہوسکتے اور جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرو مومن نہیں ہوسکتے۔ کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جب تم وہ کرو تو تمہارے درمیان باہمی محبت پیدا ہو۔ فرمایا : آپس میں سلام کو پھیلاؤ‘‘۔

اسلام کی اتنی واضح تعلیمات کے باوجود اگر کوئی مسلمان محبت کی بجائے نفرت اور امن کی بجائے فتنہ و فساد اور دہشت گردی کو فروغ دے تو اسے اپنے ایمان پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد فروغ امن و محبت کی یہ ذمہ داری صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم، تابعین اور تبع تابعین نے بطریق احسن پوری کی۔

اولیاء۔ ۔ ۔ محبت و امن کے پیکر

قرون ثلاثہ کے بعد جس طبقے نے صحیح معنوں میں فروغ امن و محبت میں کردار ادا کیا وہ یہی طبقہ ہے جسے قرآن و سنت میں اولیاء و صالحین اور اہل تصوف کی اصطلاح میں صوفیاء کہتے ہیں۔ یہی لوگ درحقیقت محبت اور امن کا چلتا پھرتا نمونہ ہیں۔

انہوں نے نہ صرف اپنی عملی زندگیوں کو اسوئہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ڈھالا بلکہ قیامت تک طالبان ہدایت کے لئے نظریہ حیات منظم اور مرتب بھی کردیا۔ اولیاء اللہ کے مزارات انوار و تجلیات کا ایسے مرکز ہیں جہاں رات دن عقیدت مندوں کا ہجوم رہتا ہے۔ ہزاروں لوگ قرآن خوانی، نوافل اور عبادت و اذکار میں مصروف رہتے ہیں۔ اس مصروف مادی دور میں ان ہزارہا لوگوں کو جو قوت اور رغبت یہاں لاتی ہے وہ ان اہل اللہ کی اس محبت کی وجہ سے ہے جو زندگی بھر انہیں اللہ تعالیٰ سے قائم رہی۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ذیشان ’’فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرکُمْ‘‘ کی عملی تفسیر ہے۔

بڑے سے بڑے وحشی، سنگدل ان کی صحبت میں آکر اسیر محبت ہوجاتے ہیں اور ان کے دلوں سے نفرت و کدورت کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ آج برصغیر پاک و ہند میں اسلام کے جو عملی مظاہر ہیں وہ اولیاء اللہ کے اخلاق، کردار، افکار اور افعال کی بدولت ہیں۔ ان اولیاء و صوفیاء نے نہ صرف یہ کہ اپنی تصانیف میں محبت کے موضوع پر خوبصورت گفتگو کی بلکہ یہ محبت کا عملی نمونہ اور پیکر رہے۔

محبت، امن کا بنیادی پہلو

حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کشف المحجوب میں فرماتے ہیں کہ

’’محبت ایک معروف نقطہ ہے جو سب اقوام اور سب زبانوں میں موجود ہے۔ دانشوروں کی کوئی بھی جماعت اسے چھپا نہیں سکتی۔ حضرت سمنون المحب محبت حق کے بارے میں فرماتے ہیں : کہ محبت راہ حق کی اصل اور بنیاد ہے۔ احوال و مقامات کی حیثیت منازل کی ہے۔ ہر منزل زوال پذیر ہوتی ہے سوائے محبت حق کے، اس لئے کہ محبت پر کوئی زوال نہیں آتا‘‘۔

محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو ساری دنیا کی دولت خرچ کرکے بھی خریدا نہیں جاسکتا اور جس دل میں اللہ تعالیٰ محبت ڈال دیتا ہے پھر ساری دنیا مل کر بھی اس کو نکال نہیں سکتی۔

وطن عزیز ان دنوں جس دہشت گردی کا شکار ہے اس کی بدترین شکل اولیاء اللہ کے مزارات پر انوار پر خودکش دھماکوں کی صورت میں سامنے آرہی ہے جس کی مثال گذشتہ ایک ہزار سال میں بھی نہیں ملتی۔ ان اولیاء اللہ نے اسوہ حسنہ کی اتباع میں اپنے کردار و عمل کو اس قدر خوبصورتی کے ساتھ پیش فرمایا کہ صدیوں سے قائم مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے معاشرے میں اسلامی تعلیمات کے چراغ روشن کردیئے۔ یہ مراکز اہل محبت کے لئے وجہ سکون و اطمینان ہیں جہاں اپنے تو اپنے اغیار بھی حاضر ہوکر سکون قلب پاتے ہیں۔ ان مراکز کو دہشت گردی کی زد میں دیکھتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔

حالیہ دہشت گردی کا اصل محرک تو بلاشبہ دشمنان دین اور مخالفین پاکستان ہیں لیکن جیسا کہ اب تک کے شواہد بتارہے ہیں کہ اس دین و وطن دشمنی کا آلہ کار بننے والے لوگ وہی ہیں جو عام حالات میں اولیاء اللہ سے عداوت رکھتے ہیں۔ مزارات پر حاضری کے عمل کو قبر پرستی اور زائرین کو مشرک و بدعتی بلکہ کافر و مرتد خیال کرتے ہیں۔ یہ دراصل وہی فکر، وہی سوچ اور نظریہ ہے جو صدیوں سے چلا آرہا ہے جس کے تحت مزارات صحابہ کو شہید کیا گیا۔ اولیاء و صالحین کے مزارات کو شرک کے اڈے قرار دیا جاتا ہے اور یہاں حاضر ہوکر سکون قلب پانے والوں کو مشرک گردانا جاتا ہے حالانکہ ان پاکیزہ سیرت برگزیدہ ہستیوں کی وفات کے بعد ان کی قبور پر حاضری دینا، فاتحہ خوانی کرنا، وہاں جاکر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا یا تلاوت قرآن کرنا بلاشبہ ایک مشروع اور مبارک عمل ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی محبوب ترین ہستی ہوکر جنت البقیع میں زیارت قبور کے لئے باقاعدہ تشریف لے جاتے اور فرماتے قبروں کی زیارت ’’زهد فی الدنيا‘‘ اور ’’تذکير الآخرة‘‘ کا باعث ہے۔ یہی عمل بعد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین اور صدیوں تک ائمہ دین متین کا معمول رہا اور آج تک جاری ہے۔

بعد از وفات انسان کی عظمت

اس معاملہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اسلام میں بعد از وفات بھی انسان کو معظم و معزز بنایا گیا ہے۔ مسلمان تو کیا غیر مسلم کا جنازہ دیکھ کر بھی کھڑے ہونے کا حکم ہے۔ صحیح بخاری شریف میں حدیث ہے کہ ایک بار ایک جنازہ گزرا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوگئے۔ صحابہ نے عرض کی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ تو یہودی کا جنازہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا یہ انسان نہیں؟

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے توقبر پر بیٹھنے سے بھی منع فرمایا چہ جائے کہ اسے دھماکے سے اڑادیا جائے۔ ارشاد فرمایا :

لا تجلسوا علی القبور ولا تصلوا اليها. (مسلم)

’’تم قبروں پر نہ بیٹھو نہ ان کی طرف منہ کرکے نماز پڑھو‘‘۔

دوسرے مقام پر یوں فرمایا :

لان تجلس احدکم علی جمرة فتحرق ثيابه فتخلص الی جلده خيرله من ان يجلس علی قبر.

’’اگر تم میں سے کوئی ایک انگارے پر بیٹھ جائے تو وہ اس کے کپڑے کو جلاکر اس کے جسم تک پہنچ جائے، یہ اس کے لئے قبر پہ بیٹھنے سے بہتر ہے‘‘۔ (مسلم)

زیارتِ قبور کا مقصد

زیارت قبور کا مقصد صرف اور صرف اجر و ثواب اور تذکیر آخرت کا حصول ہے نہ کہ (نعوذباللہ) اولیاء کرام رضی اللہ عنہم کو اللہ تعالیٰ کی عبادات و صفات میں شریک ٹھہرانا اور معبود تصور کرنا ہے لیکن بعض لوگ عام مسلمانوں کو زیارت قبور سے منع کرتے ہیں اور وہاں فاتحہ خوانی کرنے والوں پر شرک اور قبر پرستی کا الزام لگاکر انہیں دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتے ہیں۔ قرآن و حدیث میں اس قسم کی شدت پسندی کا کوئی ثبوت نہیں بلکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا زیارت قبور کا معمول تھا۔ ابتداء ً اس کی ممانعت تھی لیکن اسلام کے دلوں میں راسخ ہونے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اس کی اجازت مرحمت فرمائی۔ ارشاد فرمایا :

کنت نهيتکم عن زيارة القبور فزوروها فانها تذکرکم الموت.

(حاکم، المستدرک، 1 : 531)

’’میں نے تمہیں قبروں کی زیارت کرنے سے منع کیا تھا، اب تم ان کی زیارت کیا کرو کیونکہ وہ تمہیں موت یاد دلاتی ہیں‘‘۔

بلکہ یہاں تک ارشاد فرمایا :

من زارا قبر ابويه او احدهما فی کل جمعة غفرله وکتب برا.

(بيهقی، شعب الايمان، 6 : 201)

’’جس نے اپنے والدین یا ان میں سے ایک کی قبر کی ہر جمعہ زیارت کی اسے بخش دیا جائے گا اور اسے نیکی کرنے والا لکھ دیا جائے گا‘‘۔

ان احادیث کریمہ میں زیارت قبور کو بالخصوص والدین کی قبر کی زیارت کو بخشش کا ایک سبب بنایا گیا۔ اگر والدین کی قبر کی حاضری کا یہ اجر ہے تو وہ صالحین جو زندگی بھر اللہ کی اطاعت و بندگی میں رہے ان کے مزارات پر حاضری وجہ سکون کیوں نہ ہوگی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اغیار کی سازشوں کو بھی سمجھیں اور ان کے آلہ کار بن کر اللہ کے دوستوں سے دشمنی مول نہ لیں کیونکہ پھر یہ درحقیقت خدا سے لڑائی کے مترادف ہوگا اور کوئی مسلمان خدا سے لڑائی کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔

اس صورت حال میں ہمیں خود بھی اپنے اطوار کو بدلنا ہوگا کہ زیارت قبور پر جانے والوں نے زیارت کے مقاصد بدل لئے اور عبرت کی بجائے سیر و تفریح کا ذریعہ بنا لیا تو مخالفین بھی اپنی حد سے ایک قدم آگے بڑھے اور انہوں نے جواز کو بوجوہ عدم جواز میں بدلا اور بعد ازاں اس عمل کو حرام اور شرک تک پہنچا دیا۔

پس اگر قرآن و سنت کی روشنی میں اعتدال و توازن کی راہ کو اپنائیں اور اولیاء و صالحین کے درس محبت و امن کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے کردار میں تبدیلی لائیں تو معاشرہ ایک مرتبہ پھر امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔