القرآن : خواب غفلت سے بیداری کے تقاضے (گذشتہ سے پیوستہ)

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری (خطاب)

مرتّب : محمد یوسف منہاجین معاون : اظہر الطاف عباسی

اصلاحِ احوال و اعمال اور خوابِ غفلت سے بیداری کے تقاضوں پر مشتمل شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا یہ خطاب (CD#1087) دور رس نتائج کا حامل ہے۔ اس خطاب کے اول حصہ (شائع شدہ مجلہ ماہ جولائی2011ء) میں آپ نے ہجرت الی اللہ کے مراحل اور تزکیہ نفس پر گفتگو فرماتے ہوئے حضرت حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ کے بیان کردہ اُن 8 اسباق و فوائد میں سے 6 کا تذکرہ فرمایا جو انہوں نے حضرت شقیق بلخی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس 33 سال کی صحبت و ہم نشینی کے دوران حاصل کئے۔ گفتگو کا بقیہ حصہ نذرِ قارئین ہے :

7۔ حرص، لالچ سے احتراز

حضرت حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت شقیق بلخی رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنے کے دوران ساتواں درس یہ ملا کہ جب میں نے دیکھا ہر ایک شخص کے اندر کوئی نہ کوئی طمع، کوئی نہ کوئی حرص، کوئی نہ کوئی لالچ اور کوئی نہ کوئی خواہش ہے اور یہ لالچ، طمع اور خواہشات بندے کو حرام کی طرف اور ناجائز کی طرف بھی لے جانے کا باعث بنتی ہیں، انہی کی وجہ سے بندہ گناہ اور فسق کی طرف جاتا ہے۔ اس طمع و لالچ کے باعث کثرتِ رزق کے لئے بندہ حرام ذرائع بھی اپناتا ہے۔ رزق حلال سے محروم رہتا ہے۔ میں نے چاہا کہ اللہ رب العزت کی رہنمائی لی جائے کہ اس صورت حال میں کیا کیا جائے؟ اللہ پاک کے اس فرمان نے میری رہنمائی فرمائی :

وَمَا مِن دَآبَّةٍ فِي الأَرْضِ إِلاَّ عَلَى اللّهِ رِزْقُهَا.

(هود : 6)

’’اور زمین میں کوئی چلنے پھرنے والا (جاندار) نہیں ہے مگر (یہ کہ) اس کا رزق اﷲ (کے ذمہ کرم) پر ہے‘‘۔

پس میں جان گیا کہ میرے رزق کی ذمہ داری اللہ پر ہے۔ تب سے میں نے طمع اور حرص و لالچ کی جڑ کاٹ دی اور توکل میں مشغول ہو گیا، اللہ پر اعتماد اور یقین قائم کر لیا اور ہر ذمہ سے اپنے آپ کو منقطع کر دیا۔

8۔ توکل علی اللہ

آٹھواں سبق مجھے آپ کی ہم نشینی کے فیض سے یہ ملا میں کہ جب نے دیکھا کہ ہر شخص دنیا میں کسی نہ کسی شے پر بھروسہ کرتا ہے، کسی کو اپنی جسمانی طاقت پر بھروسہ، کسی کو اپنے علم پر بھروسہ، کسی کو اپنے عہد و منصب (اتھارٹی) پر بھروسہ، کسی کو اپنے مال و دولت پر بھروسہ، کسی کو علم و فن پر بھروسہ، کسی کو اولاد اور رشتہ داروں پر بھروسہ ہے۔ الغرض ہر شخص کو دنیا کی کسی نہ کسی شے پر بھروسہ ہے۔ میں نے غور کیا کہ اللہ رب العزت اس حوالے سے ہمیں کیا حکم دیتا ہے کہ کس پر بھروسا کیا جائے۔ اللہ پاک کے اس فرمان نے میری اس الجھن کو حل کر دیا :

وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ .

(هود : 3)

’’اور جو شخص اللہ پر توکل کرتا ہے تو وہ (اللہ) اسے کافی ہے‘‘۔

میں نے دیکھا کہ جس نے دنیا کی جس شے پر بھروسہ کیا وہ اوندھے منہ جاگرا، اس چیز نے اس کو دھوکہ دیا۔ میں جان گیا کہ کوئی چیز حقیقی بھروسہ کے قابل نہیں، جس پر تکیہ کیا اسی نے دھوکہ دیا، جس پر اعتماد کیا اسی نے دھوکہ دیا۔ اللہ پاک نے فرمایا : بندے تو ناپائیدار چیزوں پر اور ناقابل اعتبار چیزوں پر بھروسہ کیوں کرتا ہے، آ، مجھ پر بھروسہ کر، جو مجھ پر بھروسہ کرتا ہے میں اس کو کافی ہوتا ہوں۔ پس میں نے اللہ رب العزت پر بھروسہ کیا۔

حسبنا الله و نعم الوکيل.

سو اللہ میرے لئے کافی ہو گیا اور وہی میرا دنیا میں وکیل بن گیا۔

زندگی کا لائحہ عمل اور حضور غوث الاعظم کی چند نصیحتیں

اس موقع پر میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے کلمات جو خطبات الفتح الربانی کی شکل میں ہیں، ان سے چند کلمات و نصیحتیں بھی آپ کے گوش گزار کرتا چلوں تاکہ ہمیں ان اولیاء اللہ کی حیات وسیرت سے زندگی گزارنے کا مکمل ڈھنگ مل سکے اور ہم ان بابرکات لمحات میں ان پر عمل کرنے کا عہد کریں۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ

٭ تقویٰ اختیار کرو اور شریعت کی حدود، احکام اور عوامل اپنے اوپر لازم کر لو۔
٭ ترک شریعت اور مخالفت شریعت سے توبہ کر لو۔ اتباع شہوات سے توبہ کر لو۔

٭ انسان کے چار دشمن ہیں۔

  1. نفس
  2. خواہش
  3. شیطان
  4. برے ہم نشین و بری صحبتیں

کچھ لوگ نفس کے ہاتھوں تباہ ہو گئے۔۔۔ کچھ لوگ اپنی خواہشات اور ترجیحات کے پیچھے تباہ ہو گئے۔۔۔ کچھ لوگ شیطانی وسوسوں اور کاموں میں تباہ ہو گئے۔۔۔ اور کچھ لوگ اپنے برے دوست احباب کی سنگتوں میں بیٹھتے تھے، وہ بری صحبتیں، سنگتیں، دوستیاں اور یاریاں انہیں تباہ کر گئیں۔۔۔ ان تمام کو ترک کر دو۔

٭ ہر وقت اپنے ایمان کی محافظت کرو۔ ایمان کی حفاظت سے ایک لمحہ کے لئے غافل نہ بنو۔
٭ اپنی محنت کی تلوار نیام میں مت داخل کرو اور ریاضت اور مجاہدے کے گھوڑے کی پیٹھ پر رہو، اس سے نہ اترو۔

ان تمام مقاصد کے حصول کا طریقہ کیا ہے؟

اس سمت بھی آپ رحمۃ اللہ علیہ نے درج ذیل رہنمائی فرمائی :

٭ سونا اس وقت اختیار کرو جب نیند کا غلبہ ہو۔
٭ کھانا اس وقت کھاؤ جب بھوک کا غلبہ ہو، اتنا کھاؤ کہ کچھ بھوک رہ جائے۔
٭ کلام اس وقت کرو جب ضرورت ہو۔ خاموش رہنا اچھے اور نیک لوگوں کی عادت ہوتی ہے۔
٭ تقویٰ کی بہترین اکیڈمی یا بہترین سکول جہاں تقویٰ کی ٹریننگ اور تربیت ہوتی ہے، وہ خلوت ہے۔ بندہ جب خلوت و تنہائی میں ہوتا ہے تو یہ وقت اس کے لئے بہترین موقع ہے کہ اس وقت جائزہ لے کہ تنہائی میں اس کا معاملہ اللہ کے ساتھ کیا ہے۔

اس لئے اولیاء اور صوفیاء نے کہا ہے کہ اے اللہ کے بندے! اس طرح کا ہو جا جس طرح کا تو اپنا آپ لوگوں کو دکھاتا ہے۔ جو کچھ اپنا عمل لوگوں پر ظاہر کرتا ہے اسی طرح ہو جا۔ اگر اس طرح نہیں ہو سکتا تو پھر وہ کچھ ہو جا اور وہی دکھا جو تو اندر سے ہے اور حقیقت میں ہے۔

اے انسان! خلوت کو اپنی روحانی تربیت کی ٹریننگ اور اکیڈمی بنا، خلوت میں تربیت والے جلوت میں اچھے ہو جاتے ہیں۔

٭ اپنے نفس کا ساتھ نہ دو، نفس تجھے ہلاکت کی وادی میں گرا دے گا۔ دنیا کا ساتھ نہ دو وہ تجھے راستے سے متزلزل کر کے ہٹا دے گی۔ آخرت کی طرف سفر کرو اور دل کا چہرہ مولا کی طرف رکھو۔ ان پر عمل سے اللہ پاک ایسا خزانہ دے گا جو کبھی ختم نہ ہو گا۔

قلب و باطن کی فکر

ہم اپنی پوری زندگی میں ہر وقت صرف دنیا ہی کی فکر میں رہتے ہیں۔ رمضان کی راتوں میں دعائیں کرتے ہیں۔۔۔ شب قدر میں دعائیں کریں گے۔۔۔ نیک مجالس میں آتے ہیں وہاں بھی دعائیں کرتے ہیں۔۔۔ اولیاء صلحاء سے جب ملتے ہیں تو دعاؤں کا کہتے ہیں۔۔۔ مجلس ختم الصلوۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔۔۔ جمعہ کے دن، اعتکاف۔۔۔ الغرض ہر ایک روحانی موقع پر ہم دعائیں کرتے ہیں اور ان دعاؤں میں ہر شخص دنیاوی فکر اور مشکلات کے ازالہ کے لئے دعائیں کرتا ہے۔ یہ سارے فکر جن میں ہم سب ڈوبے ہوئے ہیں یہ نفس اور طبیعت کے فکر ہیں۔

ذرا سوچیں! قلب و باطن کے فکر کہاں گئے۔۔۔؟ روحوں کے فکر کہاں گئے۔۔۔؟ باطن اور روح کا فکر فقط ایک ہے کہ اللہ رب العزت کی رضا طلب کی جائے کہ اللہ مجھ سے راضی ہوا یا نہیں۔۔۔ میں اللہ کے قریب ہوں یا دور ہوتا جا رہا ہوں۔۔۔ اللہ کی رضا مل رہی ہے یا نہیں مل رہی۔۔۔ اللہ کی بارگاہ میں مقرب، برگزیدہ اور مقبول ہو رہا ہوں یا نہیں۔۔۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہونے کے قابل بنوں گا یا نہیں۔۔۔ اللہ پاک کی رحمت مجھے قبول کرے گی یا دھتکار دے گی۔۔۔ آخرت میں کیا ہو گا۔۔۔؟

فرمایا : اے بندے! اس دنیا میں تیرا فکر آخرت کے حوالے سے ہونا چاہئے۔

لوگو! اس فکر میں مشغول ہو جاؤ۔ غم ہونا چاہئے مگر غمِ دنیا نہیں بلکہ آخرت کا غم ہو۔ غم لوگوں کو ہوتے ہیں مگر اس دنیا کا نہ ہو بلکہ مولا کا غم ہو۔ اللہ کی محبت، رضا اور اس کی قربت کا غم ہو کہ کہیں میرا مولا مجھ سے ناراض تو نہیں ہو گیا۔ جس بندے کو اللہ کا فکر ہو گیا، جس کا غم اللہ کا ہو گیا، اس کی دنیا اور آخرت بدل گئی۔ یاد رکھ لیں کہ جتنے غم ہم دنیا کے کرتے ہیں ان سارے غموں کا نعم البدل آخرت کا غم ہے۔ مخلوق اور ہر شے کا بدل ہے مگر ایک ہستی جس کا کوئی بدل نہیں وہ ذات باری تعالیٰ ہے۔ اس کا نہ کوئی عوض اور نہ اس کا کوئی بدل ہے۔ اس لئے بندے تو اللہ کی بندگی میں اپنی زندگی صرف کر اور ہر روز اس طرح بسر کر کہ یہ زندگی کا آخری دن ہے۔

دنیا کی حقیقت

حضور سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : لوگو! یہ دنیا ایک بازار ہے اور عنقریب تھوڑی دیر کے بعد یہ بازار بند ہو جائے گا۔ دکانیں کھلی ہیں، خریداری ہو رہی ہے، آخر کار خرید و فروخت کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ انسان کی زندگی کا خاتمہ قریب ہے۔ طرح طرح کی دکانیں لگی ہوئی ہیں اس (دنیا) بازار کے بند ہونے کے بعد اے بندو! ایک اور بازار، بازار آخرت کھلنے والا ہے۔

دنیا کے بازار ’’سوق الدنیا‘‘ اور آخرت کے بازار ’’سوق الاخرہ‘‘ میں فرق یہ ہے کہ دنیا کے بازار میں صرف خرید ہی خرید ہے جبکہ آخرت کے بازار میں خرید نہیں فقط فروخت ہی فروخت ہو گی۔ یہاں سودا خریدا جا رہا ہے، کوئی حرص کے بازار میں چلا جائے تو وہاں سے حرص خرید رہا ہے۔۔۔ کوئی لالچ، تکبر، مال و دولت، رعونت، زندگی کے آسائش و آرام، سکھ چین کے سودے اور جاہ و منصب کے سودے خرید رہا ہے۔۔۔ طلب دنیا کی ہزارہا دکانیں بازار میں لگی ہیں اور ہم سودے خرید رہے ہیں۔ بندو! یاد رکھو یہ بازار بند ہونے والا ہے سو جس نے جو سودا خرید لیا وہی مال اس کے پاس رہ جائے گا اور پھر آخرت کے بازار میں کوئی نئی خرید نہیں ہو گی۔ جو مال اس دنیا سے خرید کر لے کر گئے ہو گے وہ مال وہاں بیچا جائے گا۔ یہاں خریدار ہم اور آپ ہیں، وہاں خریدار اللہ ہو گا۔

لہذا اس دنیا کا مال خریدتے وقت وہ مال خریدو جس کا خریدار اللہ بنے۔ جس کی طلب آخرت کے بازار میں ہو اسی کو یہاں سے خرید کر لے جاؤ۔ حرص، لالچ، تکبر، عناد، عداوت، مال و دولت، جاہ ومنصب، دنیا کے سارے مال، گناہ، غفلت اور نافرمانی کے جو سودے ہم خریدتے پھرتے ہیں ان کا خریدار اللہ نہیں ہے، یہ سارا مال یہیں رہ جائے گا۔ جب آخرت کے بازار میں پہنچو گے تو اللہ تعالیٰ خریدار بن کر صدا دے گا کہ اے سوداگر! کیا مال تمہارے پاس ہیں تاکہ میں خریدار بنوں؟ تم کہو گے کہ میں اولاد کا مال لایا ہوں، آواز آئے گی میں اسکا خریدار نہیں ہوں۔۔۔ تم کہو گے کہ جاہ و منصب کا مال لایا ہوں، کہا جائے گا میں ان کا خریدار نہیں ہوں۔۔۔ میں دنیا کے زیب و زینت کا مال لایا ہوں، فرمائے گا میں اس کا بھی خریدار نہیں ہوں۔۔۔ الغرض جو مال خرید کر لے گئے ہوں گے وہ وہاں دھرے کے دھرے رہ جائیں گے اور مولا اس کا خریدار نہ ہو گا۔

وہ پوچھے گا کہ اگر تم تقویٰ کا مال لائے ہو تو میں تقویٰ کا خریدار ہوں۔۔۔ اگر رات کی کچھ عبادت اور سجدوں کا مال لائے ہو تو میں اس کا خریدار ہوں۔۔۔ پرہیزگاری اور زہد و ورع کا مال لائے ہو تو میں اس کا خریدار ہوں۔۔۔ عبادت، نماز، روزہ کا مال لائے ہو تو اسکا خریدار ہوں۔۔۔ شرم و حیاء کا مال لائے ہو تو اس کا خریدار ہوں۔۔۔ اللہ کی اطاعت گزاری اور تابعداری کا مال لائے ہو تو میں اس کا خریدار ہوں۔۔۔ صدقات و خیرات کا مال لائے ہو تو میں اسکا خریدار ہوں۔ ۔ ۔ لوگوں کے ساتھ بھلائی، اللہ اور اس کے دین کی نوکری کا مال لائے ہو تو میں اس کا خریدار ہوں۔ پس اس دنیا کے بازار میں مال خریدتے ہوئے وہ مال خریدو جو آخرت کے بازار میں فروخت ہو سکے اور جس مال کو فروخت نہیں ہونا، رب نے نہیں خریدنا، اس مال کو یہیں چھوڑ دو ورنہ خسارا کا سودا ہو گا۔ ارشاد فرمایا :

وَالْعَصْر اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ.

(العصر : 1. 2)

’’زمانہ کی قَسم (جس کی گردش انسانی حالات پر گواہ ہے) بے شک انسان خسارے میں ہے (کہ وہ عمرِ عزیز گنوا رہا ہے)‘‘۔

ٍ انسان خسارے میں اسی وجہ سے ہے کہ اسے یہ خبر نہیں کہ کون سا مال خریدنا ہے اور کون سا نہیں؟ کس مال میں نفع ہے اور کون سا فروخت ہو گا؟ کس میں نقصان ہے اور آخرت میں فروخت نہیں ہو سکے گا؟ انسان خسارے میں ہے۔ ہائے افسوس! ہم اللہ سے الگ ہو گئے، اپنے اصلی وطن کو چھوڑتے ہوئے اور اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے ہمیں زمانہ گزر گیا۔ طویل غیر حاضری اور دوری ہو گئی۔ اس طویل غیر حاضری نے ہمیں دھوکہ میں مبتلا کر دیا، اس دنیا کے جال میں پھنسا دیا۔ چاہئے یہ کہ بندے اس دھوکہ کے جال سے باہر آ جائیں اور لوٹ کر اللہ کی طرف پلٹ جائیں۔

پس اللہ رب العزت کو ذہنوں میں یاد کریں۔۔۔ اس کی اطاعت اور بندگی کو اپنا زیور اور اوڑھنا بچھونا بنائیں۔۔۔ اس کے تقویٰ و پرہیزگاری کو اپنا لباس بنائیں۔۔۔ اس کی محبت اور اس کی معرفت کو زینہ بنائیں۔۔۔ اس کے توکل کو اپنی سواری بنائیں۔۔۔ اس کی رضا کو اپنی منزل بنائیں۔۔۔ تاکہ اللہ کا قرب نصیب ہو سکے۔

٭ غفلت سے بیداری کی ناگزیریت

ہمارے دل، شعور اور روحیں بھی مردہ ہو چکی ہیں، حق و باطل کی تمیز مٹ چکی ہے اور دنیا کلیتاً آخرت پر غالب آ چکی ہے۔ ہم غفلت کی نیند سوئے ہوئے ہیں۔ غفلت کی نیند اصل میں روحانی موت ہے۔ اسی غفلت کی وجہ سے اصل زندگی جو دائمی، Endless اور Everlasting ہے وہ ہماری نظر سے اوجھل ہے۔ حقیقت میں جب موت آئے گی تو بیداری کی آنکھ کھلے گی اور موت بندوں کو بیدار کر دے گی۔ اس دنیا میں اصل نفع و نقصان جس کی ہمیں سمجھ نہیں آ رہی، ترجیحات دگرگوں ہو گئی ہیں اور ہم انجام سے بے خبر ہیں، یہ سب غفلت کے نتائج ہیں۔ موت، غفلت کے ان سارے پردوں کو اٹھا دے گی اور جو آج نظر نہیں آ رہا وہ نظر آ جائے گا۔

کفار کا بھی یہ عالم ہے کہ جو وہ آج نہیں مانتے قیامت کے دن مان جائیں گے۔ ہر وہ حقیقت جس کا وہ انکار کرتے رہے، کرتے ہیں قیامت کے دن جب وہ حقیقت سامنے آئے گی تو اس وقت وہ اس پر ایمان لائیں گے مگر مشاہدہ کی بنیاد پر اور اپنے انجام کو دیکھ کر لایا گیا وہ ایمان ان کے کام نہ آئے گا۔ جیسے فرعون نے آخر وقت میں جب وہ ڈوب رہا تھا، موت نظر آ رہی تھی اور موسیٰ علیہ السلام کی کامیابی کو دیکھ لیا تھا تو ایمان کا اعلان کر دیا مگر موت کے سمندر میں ڈوبتے ہوئے ایمان لانا اس کو نفع نہ دے سکا۔ پس موت کے بعد، سب کچھ نظر آنے کے بعد ماننا نفع نہ دے گا، وہ بیداری فائدہ مند نہ ہو گی۔ فائدہ مند اور نفع بخش وہی بیداری ہے جو مرنے سے پہلے نصیب ہو جائے۔ آج کی بیداری نفع بخش و فائدہ مند ہے۔

اس لئے اولیاء اللہ کا ایک نعرہ، ایک سلوگن اور ایک Menifesto ہے کہ وہ تعلیم دیتے ہیں کہ مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا ’’مرنے سے پہلے مر جاؤ‘‘۔

مراد یہ ہے یہ کہ مرنے کے بعد جو بیداری تمہیں نصیب ہونی ہے وہ بیداری مرنے سے پہلے اختیار کر لو۔ آج بیدار ہو جاؤ۔ آج کا بیدار ہونا نفع بخش ہے، مرنے کے بعد کی بیداری کوئی نفع نہ دے گی۔

بیداری شعور کی علامت

بیداری کی علامت اور پہچان کیا ہے؟ جس سے بیداری کا پتہ چلے کہ کون بیدار ہے اور کون خواب غفلت میں ہے؟ بیداری کا سادہ سا اصول اور معیار و پیمانہ یہ ہے کہ اپنی زندگی میں دنیا اور آخرت دونوں کو دیکھو۔ ہم انفرادی و اجتماعی حیثیت سے آخرت بھولے ہوئے ہیں اور ہماری آخرت، دنیا کے تابع تو بڑی دور کی بات آخرت سرے سے بھولے ہوئے ہیں۔ دنیا ہماری حکمران ہے، نفس حکمران ہے، شیطان، خواہش دنیا، بری مجلس و صحبت، شہوتیں حکمران ہیں۔ الغرض جو جو ہمارے دشمن تھے وہ اس وقت ہمارے دوست ہیں۔ سب سے بڑا دشمن ’’عدومبین‘‘ شیطان تھا، وہ ہمارا دوست ہے، نفس ہمارا دشمن تھا۔

إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ.

(يوسف : 53)

’’بے شک نفس تو برائی کا بہت ہی حکم دینے والا ہے‘‘۔

یہ سب ہماری دشمن ہیں مگر ہماری پوری زندگی کی لگام انہی چیزوں کے ہاتھ میں ہے۔ آخرت کا کردار اور اثر ہماری اس دنیاوی زندگی میں دور دور تک نہیں ہے۔

ایام حیات، اللہ کی طرف سے مقرر ہیں، یہ امر الہٰی ہے ان تمام آزمائشوں اور امتحان کا دور بھی یہی دنیا ہے۔ دنیا کو چھوڑنا اور ترک کرنا مقصود نہیں بلکہ دنیا کو آخرت کے تابع کرنا ہے۔ یہ وہ اصول ہے جو بیداری کی علامت اور معیار و پیمانہ ہے۔ دنیا کے معاملے میں جو فیصلہ کرنے لگیں آخرت کو دیکھیں کہ آخرت Yes کہتی ہے یا No۔۔۔ آخرت یہ کام کرنے کی اجازت دیتی ہے یا منع کرتی ہے۔۔۔ پس دنیا کے ہر کام سے پہلے آخرت کے فیصلے کو دیکھیں کہ اگر اس عمل کے نتیجے میں آخرت بہتر ہوگی تو وہ عمل کر ڈالیں اور اگر اس کے نتیجے میں آخرت کا نقصان ہو گا تو باز رہیں۔

دنیا۔۔۔ تابع آخرت

بیداری کی پہچان اور علامت یہ ہے کہ دنیا میں رہیں، دنیا کو اپنائیں، دنیا کو نبھائیں مگر دنیا کے تمام معاملات تابعِ آخرت کر کے چلیں۔ دنیا کا فیصلہ آخرت سے لیں۔ بس تھوڑی سی سمت تبدیل کرنی پڑے گی، کام سارے ہوتے رہیں گے۔ تمام اولیاء کرام اس بات پر متفق ہیں کہ کھانے پینے کا نام دنیا نہیں ہے، آخرت اس سے منع نہیں کرتی۔ اچھا پہننے، اچھی سواری، اچھے گھر، اچھے رہن سہن، آرام دہ زندگی کا نام دنیا نہیں ہے۔ الحمد سے لے کر والناس تک پورے قرآن میں ان چیزوں میں سے کسی ایک چیز کو بھی اللہ تعالیٰ نے منع نہیں فرمایا۔ حتی کہ اللہ پاک نے فرمایا کہ اللہ نے جو دنیا کی زینتیں مقرر کی ہیں ان زینتوں کو کس نے حرام کیا ہے۔ یہ زینتیں بھی منع نہیں ہیں۔ منع صرف وہ امور ہیں جو منافی آخرت ہیں یعنی اوامر و نواہی، حلال و حرام اور جائز و ناجائز کا جو ضابطہ اللہ نے بنا رکھا ہے اور جس پر مدار آخرت ہے بس ان احکامات کی مخالفت دنیا ہے۔ ہم نے اس زاویہ سے کبھی اس کا جائزہ نہیں لیا۔

سیدنا حسن بصری اپنے مریدین و تلامذہ کو ہمیشہ یہ نصیحت کرتے کہ دنیا میں اگر کوئی دوست بنانے لگو تو سوچو کہ یہ دوستی آخرت میں کام آئے گی یا نہیں۔ اگر اس کی دوستی آخرت میں کام آنی ہے تو دوست بنا لو، اگر اس کی دوستی نے آخرت میں تمہیں کوئی نفع نہیں دینا تو اس سے دوستی نہ کرو، یہ بے کار کام ہے۔ کوئی اور تلاش کرو جس کی دوستی یہاں بھی اور آخرت میں بھی کام آئے۔ پس اپنے بنیادی طرز عمل کو اس طرح درست کرنا ہے کہ دنیا کو آخرت کے تابع کرنا ہے۔ دنیا اور آخرت کو رکھنا اکٹھا ہے مگر اس طرح کہ آخرت متبوع ہو، دنیا تابع ہو۔۔۔ آخرت کی پوزیشن لیڈنگ کی ہو۔ لیڈنگ رول آخرت کے پاس ہو اور دل اللہ کی طرف راغب و سافر رہے۔

دنیا کو استعمال کرنے کے 2 طریقے ہیں :

  1. دنیا ہم پر سوار ہوجائے، جس طرح آج ہم اس طریق پر گامزن ہیں۔
  2. دنیا، ہماری سواری بن جائے اور ہم اس پر سوار ہو جائیں۔

اصل طریق دوسرا ہے کہ دنیا کو اپنے اوپر سوار نہ کرو بلکہ دنیا کی پیٹھ پر سوار ہو جاؤ اور سواری ہمیشہ سوار کے نیچے ہوتی ہے نہ کہ اوپر۔ پس دنیا کو اپنے نیچے رکھو۔ اللہ نے دنیا انسان کے لئے پیدا کی ہے، انسان کو دنیا کے لئے پیدا نہیں کیا۔۔۔ دنیا ہماری خدمت کے لئے ہے۔۔۔ ہماری ضرورت کو پورا کرنے کے لئے پیدا کی گئی ہے۔۔۔ ہم دنیا کے لئے نہیں پیدا ہوئے۔۔۔ دنیا آپ کی نوکری کے لئے ہے آپ کی سواری ہے۔۔۔ اس کی لگام آپ کے ہاتھ میں ہو، نہ کہ آپ کی لگام دنیا کے ہاتھ میں ہو۔۔۔ پس اس طرح اپنی زندگی کو تبدیل کر لیں۔ اس وقت ہماری لگام دنیا، نفس، شیطان اور دیگر دنیوی آسائشوں کے ہاتھ میں ہے۔

حقیقت زہد و فقر

حضور سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اپنے واعظوں میں فرمایا کرتے تھے کہ

’’کھردرا اور موٹا لباس پہننے اور روکھا سوکھا کھانے میں کوئی شان نہیں ہے۔ اس میں نہ کوئی فقر ہے، نہ زہد ہے، نہ تقویٰ ہے، نہ روحانیت ہے اور نہ ولایت ہے۔ یہ کوئی شان کی چیز نہیں ہے۔ شان اس میں ہے کہ تمہارا قلب، زہد اختیار کر لے‘‘۔

ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں کہ

’’اگر دل کو زہد نصیب ہو جائے، دل، رغبت دنیا سے پاک ہو جائے۔ دنیا کے حرص و لالچ سے پاک ہو جائے، دل، دنیا کے تابع نہ رہے اور دنیا کے پیچھے ذلیل و خوار ہو کر مارا مارا نہ پھرے، دل دنیا سے بے نیاز ہو جائے تو پھر بے نیازی اور زہد کے ہاتھ سے طرح طرح کی غذائیں کھاؤ تو یہ دنیا داری نہ ہو گی۔ پس رغبت و چاہت کے ہاتھ کے بجائے زہد اور بے نیازی کے ہاتھ سے جو چاہو کھاؤ وہ سب حلال ہو گا اور یہ فقر ہے۔ آپ فرماتے :

دنیا میں رہو، انواع و اقسام کے کھانے کھاؤ، حلال ذرائع سے آسائش کی زندگی میں رہو، اللہ نے دنیا کی جو حسنات آپ کے نصیب میں لکھی ہیں ان کو استعمال کرو۔

رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً .

(البقره : 201)

’’اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں (بھی) بھلائی عطا فرما‘‘۔

ان دنیاوی حسنات کو استعمال کرتے رہو مگر دل کی ان میں رغبت نہ ہو بلکہ دل اللہ کے ساتھ جڑا رہے۔ آپ کے دل میں ان کا حرص، لالچ، طلب، رغبت نہ ہو، دل ان کے لئے ذلیل و خوار نہ ہو۔ آخرت نگاہ کے سامنے رہے تو دنیا آپ کے پیچھے پیچھے چلے گی۔ جس کا چہرہ آخرت کی طرف ہو جائے دنیا سائے کی مانند اس کے پیچھے ہوتی ہے۔

فرمایا : اگر انسان زہد کے ہاتھوں سے کھائے تو بندہ کھانوں کے شر سے محفوظ ہو جاتا ہے۔۔۔ اچھے لباس، اچھی رہائش، کے شر سے محفوظ ہوجاتا ہے۔۔۔ دنیا اور اس کے ماحول کے شر سے محفوظ ہو جاتا ہے۔۔۔ لوگوں کے ساتھ تعلقات کے شر سے محفوظ ہو جاتا ہے۔۔۔ اور یہ اس لئے ہے کہ شریعت کے احکام، اوامر و نواہی جن کی وہ پاسداری کر رہا ہے یہ تمام اس کے محافظ و نگہبان بن جاتے ہیں اور اللہ بھی حفاظت کرتا ہے۔

کارکنان کے لئے زہد، بے نیازی، غفلت کی نیند سے بیداری اور اعمال صالحہ پر عمل کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ آپ انقلاب کے داعی ہیں۔ سوسائٹی کو بدلنے کا جذبہ لئے منزل کی طرف گامزن ہیں۔ آپ کی زندگی چشمہ انقلاب ہو تاکہ اس کے اندر سے روحانیت کا سیل رواں نکلے۔ آپ کی فکر صاف اور خالص ہو۔ آپ کی نیتیں، عمل، اخلاص، عبادات و معاملات، لوگوں کے ساتھ برتاؤ صاف اور خالص ہو، اس میں شرِ نفس نہ رہے، شرِ شیطان نہ رہے۔ حسد، بغض اور عناد نہ رہے۔

اس تحریک سے وابستگی کو غنیمت جانیں۔ یہ تحریک اس صدی کی تجدید کی تحریک ہے۔ شرق تا غرب عالم اسلام سے عالم کفر تک جہاں جہاں امت اور انسانیت آباد ہے اس کی تجدید کا دائرہ سائبان کی طرح شرق تا غرب اللہ پاک نے وسیع فرما دیا ہے۔ اس عظیم تحریک کے ساتھ آپ وابستہ ہیں۔ اتنی بڑی خیر کا دروازہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر کھولا ہے۔ اللہ نے آپ کو اتنی بڑی نعمت سے نوازا ہے پس اس نسبت کو غنیمت جانو۔ یہ کسی بندے کے بس کی بات نہیں صرف اللہ کا انعام ہے۔ ہمیشہ ڈرتے رہا کریں، معلوم نہیں کس وقت وہ انعام و توفیق کا یہ دروازہ بند کر دے۔ غرور و تکبر نہ کریں، اسے اپنا حق نہ سمجھیں۔ جسے اللہ کے دین کی نوکری ملی ہے، جسے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درِ اقدس کی چاکری ملی ہے، جو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، آل و اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دین کا نوکر ہے، وہ اللہ کی اس نعمت کو غنیمت جانے کہ یہ اس کا احسان ہے۔

خدا کا شکر ادا کریں کہ ہم اس راستے پر ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زہد و فقر کا راستہ تھا۔۔۔ ہم اس راستے پر ہیں جو اہل بیت نبوی، مولا علی رضی اللہ عنہ، سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا، سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ، سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ، امام زین العابدین رضی اللہ عنہ، امام محمد باقر رضی اللہ عنہ، امام جعفر الصادق رضی اللہ عنہ اور ائمہ اطہار اہل بیت، اولیائے امت، مجتہدین، صلحاء، فقراء اور اللہ والوں کا راستہ ہے۔۔۔ یہ تحریک اسی فکر اور راستے کا تسلسل ہے۔۔۔ ہم امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ، حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ، حضور خواجہ اجمیر رحمۃ اللہ علیہ، شیخ بہاؤالدین نقشبند رحمۃ اللہ علیہ، بابا فرید گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ اور ان اکابر ہستیوں کی راہ پر ہیں۔ ہر دور میں مختلف ہستیوں کو دین کی تجدید سونپی گئی، تحریک منہاج القرآن اسی تسلسل کا حصہ ہے جو اس سے منسلک ہے، اس پر اللہ کی بڑی نعمت ہے۔ یہ نوکری و خدمت کا دم غنیمت ہے، اس نعمت اور نوکری میں کبھی غرور و تکبر اور ’’میں‘‘ نہ آئے۔ عاجزی و انکساری رکھیں اور جب تک آپ کی زندگی ہے کوشش کریں کہ بساط بھر آپ یہ نوکری کر جائیں۔ آپ کی یہ کاوشیں گناہوں کے لئے توبہ بھی ہیں۔۔۔ اگر کاوشیں صدق و اخلاص پر مبنی ہیں، ان میں کاہلی، غفلت، نفس پرستی نہ آئے تو یہ طہارت بھی ہے۔۔۔ یہ اعمال صالحہ اور حسنات بھی ہیں۔۔۔ اور آخرت کو اچھا کرنے والی بھی ہیں۔

ان بابرکت و روحانی لمحات میں ہمیں چاہئے کہ ان نصیحتی کلمات پر عمل کریں اور عزم کریں کہ ان لمحات سے شروع ہونے والی زندگی پورے سال کے لئے ان ہی خطوط پر استوار ہو گی اور پچھلی گزری ہوئی زندگی سے ہم تائب ہو جائیں گے۔۔۔ اس زندگی اور وطن سے ہجرت کر لیں گے جو گناہوں اور غفلتوں کا وطن تھا۔۔۔ اور ہجرت کر کے اللہ کے وطن اور بندگی کے وطن کی طرف روانہ ہو جائیں گے۔۔۔ اللہ تعالیٰ آپ کے وجود کو سراپا دعا بنا دے۔ جو بندہ سرتا پا اللہ کا مطیع ہو جاتا ہے، اللہ پاک اسکے معاملات کا خود کفیل اور نگران ہو جاتا ہے اور مانگے بغیر جو اس کے لئے بہتر ہے اللہ پاک خود اس کو عطا کرتا رہتا ہے۔

اللہ رب العزت ہمارے حال پر کرم فرمائے۔ آپ کو اس عظیم مشن کے ساتھ وابستہ رکھے۔ یہاں کے تعلیم و تربیت کے چشمے سے فیض پاتے رہیں اور عمل کرتے رہیں۔ آپ کے گھروں میں دین اور تقویٰ کا اجالا ہو اور دنیا و آخرت دونوں کے معاملات اللہ کے امر اور آقا علیہ الصلاۃ والسلام کی غلامی کے ساتھ زینت پا جائیں۔

آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔