الحدیث : ماہ انقلاب و رحمت

علامہ محمد معراج الاسلام

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے :

اذا کان اولُ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ نَظَرَ اللّٰهُ عَزَّوَجَلّ اِلَيْهِمْ وَمَنْ نَظَرَ اللّٰهُ اِلَيْهِ لَمْ يُعَذِّبُهُ ابدا.

(بيهقی)

’’جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر نگاہ رحمت فرماتا ہے اور جس پر وہ نگاہِ رحمت فرماتا ہے پھر اسے عذاب نہیں دیتا‘‘۔

نگاہ رحمت

’’نگاہِ رحمت‘‘ میں یہ برکت ہے کہ جدھر اٹھ جائے اسے حیات ابدی عطا کر دیتی ہے اور اس سے زوال و فناء اور خراب و نابود ہونے کے اثرات زائل کر دیتی ہے یعنی وہ جراثیم ہی مٹا ڈالتی ہے جو کسی چیز کو ہلاک اور تباہ و برباد کرتے ہیں مثلاً حضرت عزیر علیہ السلام جس شہر میں داخل ہوئے وہ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا تھا اور اس میں موجود ہر شے سے آثار حیات ناپید ہو گئے تھے، کھانا آپ کے ساتھ تھا اور وہ گدھا بھی جس پر آپ سوار تھے، جب اس شہر میں داخل ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر موت طاری کر دی، یہ موت نما نیند تھی جس میں آپ ڈوب گئے، گدھے پر بھی یہی کیفیت طاری ہوئی اور وہ موت کی نیند سو گیا، اس طرح سو سال بیت گئے۔

جب انہیں طویل ترین مدت کے بعد دوبارہ اٹھایا گیا اور از سرِ نو زندگی یا بیداری عطا کی گئی تو جن اشیاء کے ساتھ آپ شہر میں داخل ہوئے تھے ان پر بھی سوسال کی طویل ترین مدت گزر چکی تھی مگر ہر شے پر اس کے اثرات یکساں طور پر نمایاں نہیں تھے، گدھے کا انجر پنجر بکھر چکا تھا، ہڈیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی تھیں لیکن کھانا بالکل تروتازہ اور اصلی حالت میں تھا، اس کی خوشبو اور ذائقے میں بھی کوئی فرق نہیں آیا تھا، پانی میں بھی کوئی ناگوار تبدیلی رونما نہیں ہوئی تھی۔ مختلف اشیاء پر یہ متضاد کیفیات کیوں رونما ہوئیں؟ اہل روحانیت نے یہ راز کھولا ہے کہ یہ سب نگاہِ رحمت کا اعجاز تھا۔ حضرت عزیر علیہ السلام کے طعام و شراب (پانی) کو اللہ تعالیٰ نے نگاہِ رحمت سے نواز دیا تھا اس میں یہ تاثیر پیدا ہو گئی کہ وہ کھانا سو سال کی مدت میں بھی خراب نہ ہوا، اس کے برعکس گدھا اس نگاہِ خاص سے محروم رہا اور ٹوٹ پھوٹ گیا۔

اسی نکتہ خاص کو قرآن پاک نے اس آیت کریمہ میں بیان فرمایا ہے : جو لوگ اللہ تعالیٰ کے عہدو پیمان کو نظر انداز کرتے ہیں :

أُوْلَـئِكَ لاَ خَلاَقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ وَلاَ يُكَلِّمُهُمُ اللّهُ وَلاَ يَنظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلاَ يُزَكِّيهِمْ.

’’ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہو گا اور نہ ہی اللہ تعالیٰ ان سے کلام فرمائے گا اور نہ ہی قیامت کے دن اللہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا‘‘۔

(آل عمران : 77)

اس کا مطلب یہ ہوا کہ نگاہِ رحمت پاکیزگی و تابندگی اور زندگی عطا کرتی ہے اور یہ نعمت عظمیٰ روزہ دار کو بروز قیامت بڑی فیاضی سے عطا کی جائے گی جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ دوزخ کے ہوش ربا عذاب سے محفوظ رہے گا۔

ماہ انقلاب

ابلیس کی رعونت اور احساس برتری نے اسے حضرت آدم علیہ السلام کے حضور جھکنے نہ دیا۔ وہ بڑے فخر کے ساتھ اکڑ کر کھڑا رہا۔ اس سرکشی اور نافرمانی کا جواب ملا : تم بدبخت اور مردود ہو گئے ہو، وہ ندامت و پشیمانی کے اظہار اور عذر خواہی کی بجائے بڑی ڈھٹائی سے بولا :

میں اس آدم کی پوری اولاد سے اس بے توقیری اور اہانت کا پورا پورا انتقام لوں گا اور

ثُمَّ لَآتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَآئِلِهِمْ.

(الاعراف : 17)

’’سیدھا راستہ روک کر بیٹھ جاؤں گا اور ان لوگوں کو آگے پیچھے اور دائیں بائیں سے گھیر لوں گا‘‘۔

مطلب یہ تھا کہ اکثریت کو راہ ہدایت پر چلنے نہیں دوں گا۔

وہ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اپنے مشن پر آج بھی قائم ہے اور لوگوں کو بھٹکانے، ورغلانے اور گناہوں پر ابھارنے میں پوری سرگرمی سے مصروف ہے۔ اس نے ہمت نہیں ہاری اور نہ ہی اکتایا ہے اور نہ ہی سرکشی پر پشیمان ہوا ہے بلکہ اسی طرح تازہ دم ہے جیسے پہلے دن تھا۔ انسانوں کو گمراہ کرنے کے سلسلے میں اسکے ارادے جواں اور حوصلے ولولہ انگیز ہیں مگر جونہی ماہ رمضان کا چاند طلوع ہوتا ہے تو کائنات کی فضاؤں اور ہواؤں میں زمین و آسمان اور ظاہر و باطن میں بہت ہی نمایاں اور زبردست انقلاب بپا ہو جاتا ہے، جنت کے خازن فرشتے کا نام ’’رضوان‘‘ ہے اس کے نام اللہ تعالیٰ کا فرمان جاری ہوتا ہے :

يا رضوان : اِفْتَحْ ابواب الجنان.

’’اے رضوان! جنتوں کے دروازے کھول دو‘‘۔

دوزخ کے خازن فرشتے کا نام مالک ہے، اس کے نام فرمان عالی شان صادر ہوتا ہے :

يا مالک : اغلق ابواب الجحيم.

’’اے مالک! دوزخ کے دروازے بند کر دو‘‘۔

يا جبريل : اهبط الی الارض، فَصَفِّدْ مَرَدَةَ الشياطين وغُلَّهُمْ بِالْاَغْلَال، ثُم اقْذِفْهُمْ فِيْ الْبَحَارِ حتٰی لايفسدوا علی امة محمد صلی الله عليه وآله وسلم صيامهم.

’’اے جبرائیل! زمین پر جاؤ اور سرکش شرارتی شیطانوں کو زنجیروں میں جکڑ دو اور ان کے گلوں میں طوق آویزاں کر دو پھر ان کو سمندروں میں پھینک دو تاکہ وہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے روزے خراب نہ کر سکیں‘‘۔

فتحت ابواب الجنة وغلقت ابواب النار وصفدت الشياطين.

چنانچہ حکم کے مطابق جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو طوق و سلال اور آتشیں زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے اور انقلاب کا اعلان کر دیا جاتا ہے، فضائیں ان انقلابی نعروں سے گونج اٹھتی ہیں۔

يا باغی الخير اقبل.

’’اے خیر و برکت اور بھلائی کے طالب! نیکی کی طرف آگے بڑھ‘‘۔

ويا باغی الشر اقصر.

اور اے شر پسند! گناہوں، شوخیوں، شرارتوں سے باز آ جا چنانچہ دوزخ کے جو دروازے بند کئے جاتے ہیں وہ کھولے نہیں جاتے اور جنت کے جو دروازے کھولے جاتے ہیں، وہ ماہ رمضان میں بند نہیں کئے جاتے۔

انقلابی اقدامات کی تفصیل

رمضان مقدس میں رونما ہونے والے خصوصی انقلابی اقدامات کا تعلق امت کی اصلاح و فلاح، رحمت و مغفرت، تشکیل سیرت اور تعمیر کردار کے ساتھ ہے تاکہ رمضان کے مہینے میں امت ہر قسم کے ذہنی و بیرونی دباؤ اور خطرات و وساوس سے بے نیاز ہو کر ان تمام اوراد و وظائف اور فرائض منصبی سے عہدہ برآ ہو جو رمضان مقدس کی آمد کے ساتھ اس پر عائد ہوتے ہیں چونکہ ان فرائض و اوراد کی ادائیگی کا تعلق ان ابلیسی قوتوں کے ساتھ ہے جو انسان کو صراط مستقیم کی طرف آتا دیکھ کر طیش میں آ جاتی ہیں اور اس کے راستے میں روڑے اٹکانا شروع کر دیتی ہیں تاکہ وہ اللہ کا بندہ بن کر اپنی عاقبت کو نہ سنوار سکے۔ اس لئے امت کی آسانی کے لئے اس مہینے میں جو انقلابی اقدامات کئے گئے ہیں ان میں سب سے پہلا اور اہم اقدام یہ ہے :

جو شر انگیز ابلیسی قوتیں انسان کو بہکاتی اور ورغلاتی ہیں انہیں پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے اور آہنی آتشیں زنجیروں میں اس طرح جکڑ دیا جاتا ہے کہ وہ آزادی سے چلنے پھرنے اور اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے قابل نہیں رہتیں۔ حدیث میں ان کی اس حالت اور کیفیت کو بیان کرنے کے لئے یہ الفاظ لائے گئے ہیں۔

(وصفدت الشیاطین) اور شیاطین کو ’’اصفاد‘‘ میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ اصفاد ان زنجیروں اور لوہے کے کڑوں کو کہتے ہیں جو مجرموں کو پہنائے جاتے ہیں، اگر گلے میں ڈالے جائیں تو انہیں طوق کہتے ہیں۔ اگر پاؤں میں ڈالے جائیں تو انہیں بیڑیاں کہتے ہیں اور اگر ہاتھوں میں ڈالے جائیں تو انہیں ہتھ کڑیاں کہتے ہیں۔ سورہ ’’ص‘‘ میں اصفاد کو اسی معنی میں لایا گیا ہے :

وَّآخَرِيْنَ مُقَرَّنِيْنَ فِی الْاَصْفَادِ.

(ص : 38)

’’اور دوسرے (جنّات) بھی جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے‘‘۔

ایک حدیث پاک میں صُفِّدَتْ کی جگہ سُلْسِلَتْ آیا ہے مفہوم ایک ہی ہے شیاطین کو طوق و سلاسل اور لوہے کی زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔

جہاں شیاطین کو جکڑنے کا ذکر آیا ہے، وہاں یہ ذکر بھی ہے کہ اس ماہ میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں تاکہ افراد امت شیاطین کی رکاوٹ نہ ہونے کی وجہ سے صرف وہی اعمال کریں جو جنت میں لے جانے والے ہیں اور دوزخ والے اعمال نہ کریں کیونکہ شیاطین مقید ہیں اور انہیں بھٹکانے والا میدان میں کوئی نہیں۔

فرشتوں کا استغفار

اس رمضانی انقلاب کا ایک بڑا ہی حسین اور قابل غور پہلو یہ ہے کہ امت کے روزہ رکھنے والے افراد فرشتوں کے محبوب بن جاتے ہیں اور وہ صبح و شام ان کے لئے استغفار کرتے ہیں۔

واستغفر له کل يوم سبعون الف ملک من صلاة الغداة الی ان تواری بالحجاب.

’’اور ہر روز ان کے لئے ستر ہزار فرشتے نماز فجر سے لے کر غروب آفتاب تک استغفار کرتے ہیں‘‘۔

یہ ہمدردی صرف اس وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ وہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی ہیں اور روزہ رکھ رہے ہیں۔

پھر یہ ہمدردی اور محبت صرف فرشتوں تک ہی محدود نہیں رہتی بلکہ روزہ دار اور عبادت گزار ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ دیگر مخلوق کے دل میں بھی ان کی محبت ڈال دیتا ہے اور وہ بھی اپنی زبان اور انداز میں روزہ داروں اور نمازیوں کے لئے استغفار کرنے لگ جاتی ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے :

وتستغفرلهم الحيتان حتی يفطروا.

’’پانیوں میں مچھلیاں بھی روزہ داروں کے لئے دعا و استغفار کرتی رہتی ہیں یہاں تک کہ عید آ جاتی ہے‘‘۔

یعنی جب تک رمضان رہتا ہے اس بے زبان مخلوق کے استغفار کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے، صرف اس لئے کہ وہ روزہ دار ہے۔

رحمت کا سمندر

احادیث میں مذکور حقائق پر غور کرنے سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ رمضان مقدس میں کئے جانے والے تمام اعمال اور اس میں گزرنے والے سارے لمحات مقبول و منظور اور نور کے سمندر میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں۔ اوراد و وظائف، تلاوت و تراویح اور تسبیحات سے لے کر کھانے پینے کے افعال تک سب عبادت میں شمار ہوتے ہیں۔ افطار اور سحری کا کھانا انسان کی ضرورت اور ذاتی فعل ہے مگر رمضان کے دنوں میں یہ بھی عبادت بن جاتا ہے اور باقاعدہ ان اعمال کا اجر و ثواب ملتا ہے اور تھوک کے حساب سے انسان کے گناہ معاف ہوتے ہیں اور دوزخ سے نجات نصیب ہوتی ہے۔

وللّٰه عزوجل فی کل يوم من شهر رمضان عند الافطار الف الف عتبيق من النار کلهم قد استوجبوا النار.

اور اللہ تعالیٰ رمضان مقدس کے مہینے میں ہر روز افطار کے وقت لکھوکھ ہا افراد کی بخشش فرماتا ہے جس پر آگ واجب ہو چکی ہوتی ہے۔ مغفرت و بخشش کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہتا ہے یہاں تک کہ مہینہ گزرنے کے بعد عید آ جاتی ہے۔

فَاِذَا کَانَ آخِرُ يَوْمٍ مِنْ رَمَضَانَ اَعْتَقَ اللّٰه فِيْ ذالک اليوم بِقَدْرِ مَا اعتق من اول الشهر الٰی آخِرِه.

جب رمضان کا آخری دن آتا ہے تو اس دن تک جتنے افراد جہنم سے آزا د کئے گئے ہوتے ہیں اتنے افراد فقط اس دن آزاد فرماتا ہے۔

ان اعداد و شمار سے انسان بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ رحمت و مغفرت کا سمندر رمضان کے دنوں میں کس شان کے ساتھ ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے اور بندوں کو کس فیاضی سے اپنی آغوش میں لیتا ہے۔ اگر انسان کو پتہ چل جائے کہ رمضان مقدس کے مبارک ایام میں نور و رحمت کا باڑہ اس فیاضی سے بٹتا ہے تو وہ آرزو کرنے لگ جائے کہ کاش! سارا سال رمضان ہی رہے۔

نور کی اس خیرات کی ایک جھلک یہ بھی ہے کہ رمضان کی ہر رات میں تین تین بار کائنات کی کھلی فضاؤں میں یہ اعلان ہوتا ہے :

هَلْ مِنْ سَائِلٍ فَاَعْطَيْةُ سُئْوَلَه.

هَلْ مِنْ تَائِبٍ فَاَتُوْبُ عَلَيْه.

هَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ فَاغفِرَلَه.

’’کوئی سائل ہے، اس کا سوال پورا کریں‘‘۔

’’کوئی توبہ کرنے والا ہے کہ اس کی توبہ قبول کریں‘‘۔

’’کوئی بخشش طلب کرنے والا ہے تاکہ اسے بخش دیں‘‘۔

جبریل امین کی قدر افزائی

حضرت جبرائیل امین علیہ السلام کو امتِ حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جو انس اور عقیدت ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی حقیقت نہیں۔ انہوں نے نازک لمحات میں امت کی دستگیری اور خیر خواہی کی ہے اور جو پل صراط پر دستگیری کریں گے وہ ان ہی کا حصہ اور اعلیٰ منصب ہے۔

سارا مہینہ نور و رحمت اور محبت و مغفرت کی جو خیرات بٹتی ہے حضور روح الامین علیہ السلام اس کا مشاہدہ فرماتے رہتے ہیں یہاں تک کہ شب قدر آ جاتی ہے جو نور و رحمت کی بے کنار کہکشاں ہے چونکہ وہ خود بھی اس امت کے قدر دان و عاشق ہیں اس لئے اس پر نچھاور ہونے والی رحمتوں کا یہ عالم دیکھ کر خود بھی اجتماعی طور پر اس میں حصہ لینے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور اپنے ساتھی ملائکہ سے فرماتے ہیں چلو عابدین و ذاکرین کی ملاقات کے لئے چلتے ہیں ان کو دعائیں دیتے بھی ہیں اور لیتے بھی ہیں :

يحث جبريل عليه السلام الملائکة فی هذه الليلة فَيُسَلِّمُوْنَ عَلَی کُلِّ قَائِمِ وَقَائِمَةٍ وَمُصَلی وَذَاکِرٍ و يُصَافِحُوْنَ وَيُؤَمِّنُوْنَ عَلَی دَعَائِهِمْ حَتّٰی يُطْلُعَ الْفَجْر.

’’چنانچہ ملائک کو تیار کر کے روزہ داروں، نمازیوں عبادت کرنے والوں کے پاس آ جاتے ہیں اور شب قدر کی سہانی ساعتوں میں جو نمازی کھڑے ہوں یا بیٹھے ہوں یا ذکر کر رہے ہوں انہیں سلام کہتے ان سے مصافحہ کرتے ہیں اور ان کی دعاء پر آمین کہتے ہیں، حضرت جبرئیل امین اور ان کے ساتھ ملائک کی یہ پیار بھری شفقتیں طلوع فجر تک جاری رہتی ہیں‘‘۔

رحمت سے محروم لوگ

رحمت و محبت کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے اس سمندر میں ایسے بدقسمت لوگ بھی ہوتے ہیں جو بہتے ہوئے اس نور کے فیضان سے بھی محروم رہ جاتے ہیں اور نور کی ایک بوند بھی انہیں نصیب نہیں ہوتی۔ رحمت برسانے والے آقا نے کرم فرماتے ہوئے ایسے گناہ گاروں کی نشاندہی فرما دی ہے تاکہ انہیں اپنے گناہوں کا پتہ چل جائے اور وہ پہلے ہی توبہ کر لیں اور رحمت کے اس دھارے میں شامل ہو جائیں۔ بڑا بدبخت ہو گا وہ شخص جسے اپنی محرومی کا سبب اور گناہ کا بھی پتہ چل جائے اور وہ پھر بھی تائب نہ ہو اور اپنی اصلاح کر کے نور و رحمت میں سے اپنا حصہ لینے کے لئے تیار نہ ہو۔ آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے بتایا :

نظر الله اليهم فی هذه الليلة فعفا عنهم، الا اربعة فقلنا : يارسول الله! من هم؟

اللہ تعالیٰ اس رات بندوں پر نظر کرم فرما کر سب کو معاف فرما دیتا ہے مگر چار گناہ گاروں کو معاف نہیں فرماتا۔ لوگوں نے پوچھا : یارسول اللہ! وہ کون کون سے گناہ گار ہیں؟

قَالَ : رَجُلٌ مُدْمِنُ خَمْرٍ وَعَاقٌ لِوَالِدَيْهِ وَقَاطِعُ رحمِ وَ مُشَاحِنٌ..

فرمایا : عادی شراب نوش، ماں باپ کا نافرمان، قطع تعلق کرنے والا اور دل میں کینہ رکھنے والا۔

سعادت اسی میں ہے جن لوگوں میں یہ عیوب پائے جاتے ہیں وہ رحمت کا حصہ پانے کے لئے پہلے ہی توبہ کر لیں اور موجزن سمندر کے چھینٹوں سے محروم نہ رہیں۔

اللهم اجعلنا من السعداء المکرمين بحرمة النبی الامين عليه اکرم الصلوات والتسليم.