بے سمت معاشرہ۔ بے حس قوم

محمد عباس

آزادی کے مفہوم، حقیقت اور تقاضوں سے ناآشنا
یوم آزادی کی خوشیاں مناتی ہوئی قوم کیلئے ایک آئینہ

برصغیر میں جب مسلمان حکمرانوں کو اپنی حماقت، غفلت، عیش پرستی اور اپنوں کی غداری کی وجہ سے حکمرانی سے ہاتھ دھونا پڑا تو اس غمزدہ کیفیت کے باوجود درد مند اور دور اندیش مسلمانوں نے پھر سے کھویا ہوا وقار پانے اور غلامی کو آزادی سے بدلنے کے لیے مختلف انداز میں جدوجہد شروع کر دی اور تحریکِ آزادی کو مختلف ادوار میں مختلف طرز پر کئی نامور شخصیات اپنے خون پسینے سے سیراب کرتے رہے۔

بالآخر برصغیرکے مسلمانوں کی اکثریت نے اپنی منزل کو پانے کے لیے ایک ایسے شخص پر اعتماد کیا جو انگریزی میں گفتگو کرتا تھا، عامۃالناس کو اس کی بات بھی سمجھ نہیں آتی تھی مگر اس کے باوجود اس پر اعتماد اتنا تھا کہ جو وہ کہتا اس کو حرفِ آخر سمجھا جاتا۔ وحدت ویک جہتی اور اخلاص پرمبنی جدوجہد بالآخر رنگ لائی اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک ایسا ملک عطا فرمایا جس کی مٹی سے ہر قسم کا پھل، اناج اور پھول اگائے جا سکتے ہیں۔ ۔ ۔ ایسا سمندر کہ جس سے گزرنے کی خواہش ہر ملک رکھتا ہے۔ ۔ ۔ ایسی خوبصورت وادیاں، سر سبز پہاڑ، ندی نالے اور دریا عطا کیے جس کی بدولت بہت کچھ پیدا کیا جا سکتا ہے۔ ۔ ۔ ایسے صحراء اور پہاڑ عطا کیے جن کے نیچے معدنی ذخائر کے خزانے مدفون ہیں۔ گویا جغرافیائی اعتبار سے یہ سرزمین اپنے اندر ہر وہ خوبی سموئے ہوئے ہے جو ہر دور کی ضرورت اور تقاضہ ہے۔

شومئی قسمت آزادی ملنے کے تھوڑے ہی عرصہ بعد اس کے بدخواہ پھر متحرک ہو گئے۔ مکر کی چالوں سے ایسے لوگ اقتدار پر قابض ہو گئے جن کے مزاج میں صرف خود غرضی، لالچ، عیاشی اور ملکی وسائل کی لوٹ مار تھی۔ عوام ہر خوبصورت نعرے کے پیچھے چلتے رہے اور قربانیاں دیتے رہے۔ وہ نعرہ چاہے روٹی، کپڑا اور مکان کا تھا یا اسلام کا۔ ۔ ۔ ہر کوئی عوام کے جذبات سے کھیلتا رہا۔ روپ بدل بدل اس ملک کو لوٹا جاتا رہا اور عوام کو ان کی بنیادی ضرورتوں کے حصول کی ایسی دوڑ میں شریک کر دیا گیا جس کا تاحال کوئی ماحصل نظر نہیں آتا اور یوں انہیں بے وقوف بناتے بناتے آج 64 سال گزر گئے۔

پہلے سیاسی پارٹیوں نے دلفریب نعروں سے عوام کو بہلایا اور اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کسی پارٹی کا کوئی منشور نہیں ہے، صرف عوام کو بے وقوف بنانے کی مہارت ہی سیاسی لیڈر کی اہلیت سمجھی جانے لگی۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مفادات کی پجاری اور مقصدیت سے عاری اس نام نہاد قیادت کے اس مستقل رویہ کے بارے میں درست کہا ہے کہ

’’اس قوم کو قائداعظم اور ان کے قریبی رفقاء کے بعد حقیقی معنوں میں کوئی لیڈر نہیں ملا۔ مجموعی طور پر سیاسی سطح پر وہ لوگ پاکستان کی قیادت کرتے رہے ہیں جو صلاحیت کے اعتبار سے ضلع، تحصیل، ٹاؤن یا یونین کونسل کے ناظم کی سطح کے تھے۔ اس سے بڑھ کر سطح اور صلاحیت کے مالک نہ وہ لوگ تھے اور نہ یہ ہیں۔ ان صاحبان سیاست و اقتدار کے پاس سِرے سے Vision ہی نہیں۔ مستقبل کی سوچ اور لائحہ عمل تو بڑی دور کی بات یہ لوگ حال کے Vision سے بھی محروم ہیں۔ ان کی نہ کوئی منزل ہے اور نہ ہی کوئی Direction (سمت) ہے۔ ان کے پاس مثبت سمت کی طرف اجتماعی طور پر پیش رفت کے لئے کوئی لائحہ عمل ہی نہیں ہے۔ اسی بناء پر پوری قوم قوم ہی نہ بن سکی اور نہ اسے بے مثال کردار مل سکا‘‘۔

(خطاب برموقع اجلاس مجلس شوریٰ، جنوری2011ء، بعنوان پاکستان میں شعوری انقلاب کی ناگزیریت)

پہلے سیاسی لیڈر، قومی شعور سے عاری تھے رفتہ رفتہ عوام بھی اس سے بیگانے ہوگئے۔ اب جو پارٹی جس کے بیٹے کو نوکری دے، جس کے محلے کی گلی یا نالی پختہ کروائے، جس کو تھانے کچہری سے بچائے، وہی اس کی پارٹی ہے اور وہی اس کا لیڈر اور رہنما ہے۔

کیا یہ اصل تصور قیادت ہے؟ کیا ہم نے پاکستان انہی ’’قائدین‘‘ کے لئے لاکھوں قربانیاں دینے کے بعد حاصل کیا؟ کیا یہ موجودہ ’’تصور قیادت‘‘ اسلام نے ہمیں عطا کیا ہے یا ہمارے اپنے مفادات کے حصول کے لئے ہمارا اپنا اختراع کردہ ہے۔ آیئے موجودہ تصور قیادت اور قیادت کی بنیاد کو بھی شیخ الاسلام ہی کی زبانی سنتے ہیں۔

’’لیڈر اپنے علم، عمل، کردار، اخلاق، فہم، حکمت اوردانش کی بنیاد پر ہوتا ہے کہ اس نے سوسائٹی کے لئے کیا Contribute کیا ہے۔ ۔ ۔ اس کی کاوشوں، اس کی علمی، سماجی، فکری، اخلاقی اور عملی Contribution سے سوسائٹی کو کیا فائدہ پہنچا ہے۔ ۔ ۔ کیا کیا تبدیلی آئی۔ ۔ ۔ ؟ کتنے نوجوانوں کے ذہن اور اخلاق بدلے ہیں۔ ۔ ۔ امت مسلمہ اور عامتہ الناس کو کتنا فائدہ پہنچا ہے۔ ۔ ۔ علم کی تشنگی بجھانے کے لئے کتنے Institutions قائم کیے ہیں۔ ۔ ۔ علم کے نورکو کہاں تک پھیلایا ہے۔ ۔ ۔ سوسائٹی کو اندھیرے سے نکالنے میں کیا کردار ادا کیا۔ ۔ ۔؟ کتنے دور رس نتائج مرتب کئے ہیں۔ ۔ ۔ الغرض قیادت اور لیڈر شپ کسی کی Efforts، Abilities اور Contributions کی بنیاد پر متعین ہوتی تھی اور وہ Multidimensional (ہمہ جہتی) ہوتی تھی‘‘۔

(خطاب برموقعMSM پارلیمنٹ بعنوان’’انقلاب کب اور کیسے؟‘‘، جنوری2011ء)

عوام کے ذہن میں راسخ نام نہاد قیادت کے تصور کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں نے ذاتی مفاد کی خاطر قومی مفاد کو فراموش کر دیا۔ معاشرے میں ہر سطح پر جھوٹ اس قدر بولا گیا کہ وہی سب سے بڑا سچ معلوم ہوتا ہے اور اب تو حالت یہ ہو گئی ہے کہ جو سچ بولے وہ جھوٹااور بے وقوف لگتا ہے۔ ہر نئے آنے والے حکمران کو قوم مسیحا سمجھتی ہے جب کہ وہی ان کے گرد دائرہ حیات تنگ کرتا چلا جاتا ہے۔

اس قوم کو ہر طبقہ نے خوب لوٹا، بے وقوف بنایا اور جب چاہا اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا۔ مکار سیاسی لیڈر ہوں یا بے عمل علماء۔ ۔ ۔ عیاش ’’پیر‘‘ ہوں یا انگریزی بول کر رعب جمانے والا بیورو کریٹ۔ ۔ ۔ غریب کا خون چوسنے والا جاگیر دار ہو یا مایوسی پھیلانے والا دانشور۔ ۔ ۔ مزدور کا جسم جلانے والا صنعت کار۔ ۔ ۔ یا سرمایہ دار، ہر ایک نے اپنی طاقت کے بل بوتے پر ہر شعبہ میں ستم ڈھائے۔ معاشرے کا کون سا شعبہ ایسا ہے جس کی بربادی ابھی باقی ہے، ہر روز کرپشن کی اک نئی کہانی عوام کے سامنے آتی ہے۔ گویا سب کچھ لٹ گیا۔ یہاں سیاست، فریب۔ ۔ ۔ تعلیم، کاروبار۔ ۔ ۔ اور مذہب، نفرت کا سبب ہے۔ لسانی اور طبقاتی تقسیم عام ہے۔ اس معاشرے کی کوئی سمت نہیں۔ کسی کوکسی پر اعتبار نہیں۔ ۔ ۔ ہر غلط کام کرنے والے کے پاس خوبصورت جواز ہے۔ ۔ ۔ رشوت کو اپنا حق۔ ۔ ۔ جھوٹ کو چالاکی اور سیاست۔ ۔ ۔ حرام خوری، ذریعہ معاش۔ ۔ ۔ دوسروں کو کافر و مشرک سمجھنا، دینی فریضہ۔ ۔ ۔ کم تولنے و کم ناپنے کا نام کاروبار۔ ۔ ۔ فرض منصبی میں غفلت، کارِ خدمت۔ ۔ ۔ اور قتل و غارت کو جہاد سمجھا اور سمجھایا جا رہا ہے۔ کیا ایسا معاشرہ اسلامی و فلاحی معاشرہ کہلاتا ہے؟

کیا ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ اسلامی و فلاحی وہی معاشرہ ہے جس کے قیام کو ہم نظریاتی اعتبار سے ریاستِ مدینہ کی تشکیل کے ساتھ مناسبت و مطابقت دینے کے دعوے کرتے نظر آتے ہیں؟ کیا اس معاشرہ کے قیام اور اس ’’طرز حکومت‘‘ کے لئے اقبال نے خواب دیکھا اور حضرت قائداعظم نے اُن خوابوں کو تعبیر دی ہم نے تو اس ملک کو حقیقی اسلامی فلاحی مملکت کے طور پر حاصل کیا مگر افسوس کہ ہم نے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین کو ہی فراموش کر دیا۔

پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو ’’راستے سے تکلیف دہ چیز کے ہٹانے کے عمل کو بھی ایمان قرار دیا‘‘۔ ۔ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تویہ بھی فرمایا تھا کہ ’’مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، جسم کے ایک عضو کو تکلیف ہو تو سارا جسم بے چین ہو جاتا ہے‘‘۔ ۔ ۔ ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے‘‘۔ ۔ ۔ ’’رزق حلال کے حصول کو عبادت قرار دیا‘‘۔ ۔ ۔ دوسروں کے لیے جذبہ ایثار کا درس دیا۔ ۔ ۔ جبکہ ہم نے اپنی خواہشات کی پرستش کو مقصد زندگی ٹھہرا لیا۔ ایک نام نہاد سیاسی نظام ہم پر مسلط کر دیا گیا اور ہم عرصہ دراز سے اس کی قباحتوں اور نقائص کے باوجود اُسے اپنائے ہوتے اسی کے ذریعے منزل کے حصول کا ایسا خواب دیکھ رہے ہیں جو کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو گا۔ جن حالات کا آج ہمیں سامنا ہے کیا یہ قومی سطح پر عذاب خداوندی نہیں تو اور کیا ہے۔ کیا اس معاشرے کو صحیح سمت بتانے والا کوئی ’’رجل رشید‘‘ نہیں رہا یا پھر ہم نے ان حالات سے سمجھوتہ کر لیا ہے۔

آج یوم آزادی مناتے ہوئے ہمیں اپنے اس مفلوج سیاسی نظام کی طرف بھی غور کرنا ہو گا جس کے لئے شعوری و لاشعوری طور پر عرصہ دراز سے جاری ہماری حمایت نے ہمیں ذلت اور زوال کی اتھاہ گہرائیوں میں گرا دیا ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اسی سسٹم کی قباحتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ

’’حقیقت میں سارے ادارے اور نام نہاد سیاسی لیڈر اسی سسٹم کا حصہ ہیں جس سسٹم نے اس ملک اور قوم کو ترقی سے روک رکھا ہے۔ ۔ ۔ جس نے تباہی و بربادی اور ہلاکت کے گھڑے میں دھکیل رکھا ہے۔ ۔ ۔ جس نے اس قوم کے نوجوانوں کو مایوس کر رکھا ہے۔ ۔ ۔ جس نے اس قوم کا مقدر تاریک کر رکھا ہے۔ ۔ ۔ اس سسٹم نے روشنیاں چھین لی ہیں۔ ۔ ۔ جس نے کرپٹ لوگوں کو اقتدار میں پہنچانے کی ضمانت دے رکھی ہے۔ ۔ ۔ پہلے جعلی ڈگریوں والے لوگ نکالے جائیں پھر تین ماہ کے بعد پلٹ کے اس پارلیمنٹ میں آ جائیں تو کیا یہ سسٹم ہے؟ جس سسٹم میں کرپٹ لوگ اور پیسہ کردار ادا کرتا ہے، جس ملک میں لیڈر پیسوں سے بنتے ہیں اور یہ پیسہ کرپشن کے ذریعے آتا ہے۔ بیانات کے سوا اس ملک میں کرپشن کے خلاف کوئی جنگ نہیں ہے کیونکہ کرپشن ان کی بقاء کی ضامن ہے اور سب اس سسٹم پر متفق اس لئے ہیں کہ یہ سسٹم ان کی بقاء کی ضامن ہے۔ اگر سسٹم بدل جائے تو ان کی اکثریت لیڈر کہلانے کی اہل ہی نہیں۔ (خطاب برموقع MSM پارلیمنٹ بعنوان انقلاب کب اور کیسے؟)

پاکستانی قوم کی سمت تو 1400 سال پہلے متعین کر لی گئی تھیں مگر اسلام کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دینے والے دانش ور۔ ۔ ۔ مکروفریب کا دھندہ کرنے والے سیاست دان۔ ۔ ۔ بے عملی کا درس دینے والے جاہل صوفی۔ ۔ ۔ جہاد کے نام پر قتل وغارت کرانے والا ملا۔ ۔ ۔ اور غریب کا استحصال کرنے والے سرمایہ دار۔ ۔ ۔ ہمیں مسلسل فریب دیتے اور لوٹتے رہے۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے اندر اس لٹنے کا احساس بھی ختم ہو چکا ہے۔

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

ہماری قوم خوابِ غفلت میں ہے۔ قوم اپنے دینی، معاشرتی، معاشی اوراخلاقی تشخص سے پہچانی جاتی ہے مگر ہماراتوان میں سے ہر ایک کے ساتھ تعلق ٹوٹ چکا ہے کیونکہ جس قوم کا رخ سیدھا نہ ہو۔ ۔ ۔ اخلاقی قدریں پامال ہو جائیں۔ ۔ ۔ غربت سے تنگ لوگ خود کشی پر مجبور ہوں۔ ۔ ۔ پڑھا لکھا طبقہ مایوس اور احساس کمتری کا شکار ہو۔ ۔ ۔ جاہل، راہنما اور حکمران ہوں۔ ۔ ۔ دولت سے محلات کھڑے کر نا اور اپنی زیب و آرائش سے فخر و تکبر کا اظہار کرنے والا معاشرے کا عزت دار طبقہ ہو۔ ۔ ۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہو۔ ۔ ۔ آئے روز ہماری سر زمین خون ناحق سے سرخ ہوتی ہے۔ ۔ ۔ ہر طرف لاشوں کے انبار اور کٹے ہوئے زخمی اعضاء ہوں۔ ۔ ۔ عبادت گاہیں، درسگاہیں اور سڑکیں مقتل کا منظر پیش کر رہی ہوں۔ ۔ ۔ ہر روز مہنگائی میں اضافہ کی ’’خوشخبری‘‘ سنائی جاتی ہو۔ ۔ ۔ ایک طرف تو کوئی اپنے ملک میں دفن ہونے کے لیے قبر کی جگہ بھی خریدنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو اور دوسری طرف اتنی وسیع جاگیریں کہ گھنٹوں ٹرین اس میں چلتی رہے مگر اس کی حدود ملکیت ختم نہ ہو۔ ۔ ۔ جس قوم کے غریب بچے کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے سکول کی چھت، تن پر کپڑا اور پاؤں میں جوتا نہ ہو۔ ۔ ۔ دوسری طرف امیر زادوں کا مغل شہزادوں جیسا طرز زندگی ہو۔ ۔ ۔ اتنے ظلم سہنے کے باوجود اگر اس قوم کو اپنی حالت بدلنے کی خواہش نہیں رہی تو میں اس کو بے حس قوم نہ کہوں تو کیا کہوں۔ اللہ رب العزت نے 1400 سال قبل اعلان فرمایا تھا :

اِنَّ اﷲَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ.

(الرعد : 11)

’’بے شک اﷲ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے آپ میں خود تبدیلی پیدا کر ڈالیں‘‘۔

مختلف طبقات میں بٹی ہوئی یہ قوم مصلح اور مفسد۔ ۔ ۔ ناصح اور مکار۔ ۔ ۔ نیک اور بد۔ ۔ ۔ امین اور خائن۔ ۔ ۔ اہل اور دغا باز۔ ۔ ۔ میں تمیز کرنے سے عاری ہو گئی ہے۔ جنہوں نے زخم دیے انہی کو مسیحا سمجھنے لگی۔ جمہوریت کا نعرہ ہے مگر جمہور کی بجائے چند خاندان کئی نسلوں سے حکمران چلے آ رہے ہیں۔ امیر حکمران غربت ختم کرنے کا نعرہ لگا کر غریب ہی ختم کرنے کی تدبیر کر رہے ہیں۔ نام نہاد دین دارجنت کا لالچ دے کر خود کش حملے کرا رہے ہیں۔ سرمایہ دار عوام کا پیسہ بنکوں سے قرض لے کر کاروبار کرتے اور پھر ٹیکس چوری کر رہے ہیں۔ درسگاہیں صرف ڈگریاں تقسیم کرنے کا ذریعہ ہیں، مہذب معاشرے کی تشکیل کرنے والے ادارے نہیں۔

مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ اس قوم کو بیدارہونے کے لیے مزید کتنا وقت درکار ہے۔ 64 برس بیت گئے، کئی کارواں ہم سے بعد میں اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئے اور اپنی منزل کو پا چکے مگر ہم راہزنوں کے ہاتھوں بار بار لوٹے جا رہے ہیں۔ اس تاریک رات میں ہم اپنی منزل کا راستہ بھول گئے۔ اس صورتِ حال میں ہمیں غور وفکر کرنا ہو گا کہ وہ کون سے عوامل ہیں جنہوں نے ہمارے ان حکمرانوں کو اس ’’مقام اعلیٰ‘‘ تک پہنچایا اور اس قوم کو حقیقی معنوں میں قوم ہی نہ بننے دیا۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اس قوم کو خواب غفلت سے جھنجھوڑتے اور انہیں اصل مرض کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ 9 اپریل 2011ء کو ہونے والے بیداری شعور کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :

’’یہ معاشرہ مردہ ہے اسی لئے آج کی مسلط صورت حال کو برداشت کر رکھا ہے۔ اگر معاشرہ اور قوم زندہ ہوتی تو مر جاتی مگر اس صورت حال کو قبول نہ کرتی۔ ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے۔ دینی شعائر کمزور ہو رہے ہیں، کرپشن کو زندگی کے حصہ کے طور پر قبول کر لیا گیا ہے۔ ظلم و استحصال، جبر و بربریت ہے، ہر طرف لاقانونیت ہے، بدامنی ہے، دہشت گردی کا دور ہے، یہاں مفادات کی جنگ ہے اور جس میں سیاسی اور مذہبی قیادت بھی مبتلا ہے۔ انتہا پسندی کا ماحول ہے اور اعتدال کی سوسائٹی قائم نہیں رہی۔ ایسے حالات میں سفر کرنا اور منزل مقصود تک پہنچنے کا خواب پوری قوم میں شعور کو بیدار کئے بغیر ممکن نہیں ہو گا‘‘۔

موجودہ نظام کی حقیقت سے آگاہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’موجودہ ظالمانہ، استحصالی نظام، ملک، عوام اور جمہوریت کا دشمن ہے۔ یہ 3 فی صد اشرافیہ کے حقوق کو تحفظ دیتا ہے اور 97 فی صد عوام کا کھلا دشمن ہے اس لئے عوام نظام کے خلاف شعور بیدار کرنے کیلئے میدان عمل میں نکل آئیں۔ آج بھی پاکستان کی سیاست پر مخصوص خاندان قابض ہیں اور عوام موروثی سیاست کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے۔ موجودہ انتخابی نظام میں شرفاء، باکردار، ایمان دار اور با صلاحیت لوگوں کیلئے جگہ نہیں ہے اس لئے اس نظام کو سمندر برد کرنا ہو گا اور عوام کے سامنے حقائق لانے پر کارکنوں کو محنت کرنا ہو گی۔ موجودہ نظام میں نا اہل لیڈروں کی بقا ہے اس لئے نام نہاد قیادتیں کہتی ہیں کہ ہم نظام کو بچانے کیلئے اکٹھے ہیں۔ وہ جس نظام کو بچانے کیلئے متفق ہیں وہ ملک اور قوم کا دشمن ہے۔ لہذا قوم کو اس نظام کے خلاف متحد ہونا ہو گا‘‘۔

’’یہاں جمہوریت اور الیکشنز کے نام پر قوم سے فراڈ ہوتا ہے۔ یہاں کا الیکشن پوری قوم کو دھوکا دینا اور جہالت کے اندھیروں میں دھکیلنا ہے اور بڑوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے ساز باز کرنا ہے۔ یہ نظام چند لوگوں کا نظام ہے یہ 17 کروڑ افراد کا نظام نہیں ہے۔ کسی جماعت کا کوئی منشور ہی نہیں اور نہ ہی اس ملک میں کوئی کسی جماعت کا منشور پوچھتا ہے۔ عوام بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہو چکے ہیں اور یہ محروم افراد روز مرتے روز جیتے ہیں۔ یہ ایک ہی دفعہ باہر نکل کر غاصبوں سے اپنے حقوق کیوں نہیں چھین لیتے اور اس نظام سے چھٹکارا کیوں نہیں پا لیتے۔ پس اس شعور کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے، اس کے بغیر کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔ پاکستان میں انقلاب کا راستہ اس سیاسی نظام نے روک رکھا ہے۔ یاد رکھیں کوئی لیڈر انقلاب نہیں لائے گا، انقلاب کے لئے سب سے پہلے خود عوام کو نکلنا ہو گا، اپنے مقدر کا فیصلہ خود کرنا ہو گا‘‘۔

آیئے اس بات کا عہد کریں کہ جہاں ہم رمضان المبارک کے ان بابرکت لمحات میں انفرادی اصلاح کے لئے عبادات، صدقات و خیرات میں مشغول ہیں وہاں یوم آزادی مناتے ہوئے آزادی کے حقیقی معنی و مفہوم سے آشنا بھی ہونا ہو گا تاکہ اجتماعی کاوشوں کے ذریعے غفلت کے پردوں کو چاک کریں اور اپنی تقدیر کو بدلیں اس لئے کہ

عبث ہے شکوہ تقدیر یزداں
تو خود تقدیرِ یزداں کیوں نہیں