دم درود اور تعویذات کی شرعی حیثیت (گزشتہ سے پیوستہ)

مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

دنیا میں موت و حیات اور صحت و بیماری کا سلسلہ ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ بیماری بھی اﷲ ہی پیدا کرتا ہے اور صحت و شفاء بھی اُسی کے ہاتھ میں ہے۔ اُسی نے ہمیں دواء و علاج کا حکم دیا ہے اور اُسی نے دواؤں میں اثر رکھا ہے۔ جس طرح دواؤں میں شفاء کا اثر رکھا ہے اسی طرح دُعاء اور دم درود میں بھی شفاء کا اثر رکھا ہے۔ دواؤں اور دعاؤں میں وہ چاہے تو شفاء ہے نہ چاہے تو کچھ نہیں۔ جیسے صحیح تشخیص کے بعد معیاری دواؤں کے استعمال سے امید کی جا سکتی ہے کہ مریض شفایاب ہو اسی طرح اﷲ تعالیٰ کے نام و کلام سے کسی بیمار کو کسی بھی بیماری سے شفایاب ہونے کے لیے قرآن و حدیث میں موجود پاک کلام سے جھاڑ پھونک یعنی دم کرنے سے مریض کے شفایاب ہونے کی قوی امید کی جا سکتی ہے۔ اچھے بُرے کلمات میں اثر کا کون انکار کر سکتا ہے؟ اچھے کلمات کے سننے والے اور کہنے والے پر خوشگوار اثرات پڑتے ہیں، برے کلمات کے سننے اور کہنے والے پر بُرے اثراث مرتب ہوتے ہیں۔ یونہی کسی بیمار پر کلماتِ طیّبات جن کا معنٰی و مفہوم بھی معلوم ہے اور جن میں کفر و شرک کا مفہوم بھی نہیں پایا جاتا اگر پڑھ کر کسی بیمار کو جھاڑا جائے، پانی یا دودھ وغیرہ پر دم کر کے اُسے استعمال کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس مضمون کے گذشتہ حصہ میں لغوی بحث اور چند احادیث مبارکہ پیش کی گئی تھیں۔ مزید تشریح و توضیح نذرِ قارئین ہے۔

12۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲعنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعض اہل خانہ کیلیے اس طرح دم کرتے تھے۔ دایاں ہاتھ مبارک درد کی جگہ رکھ کریہ دعا پڑھتے :

اللَّهُمَّ رَبَّ النَّاسِ اذْهَبِ الْباَسَ وَاشْفِه وَاَنْتَ الشَّافِيْ لَا شَفآءَ اِلَّا شِفَاؤُک شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقْمًا.

’’اے اﷲ! لوگوں کے پروردگار، بیماری ختم فرما اور اسے شفاء عطا فرما اور تو ہی شفاء بخشنے والاہے۔ شفاء تو بس تیری شفاء ہے، ایسی شفاء جو بیماری کا نام ونشاں نہ چھوڑے۔‘‘

(بخاری، الصحيح 5 : 2168، رقم؛5411)

13۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲعنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طرح دم فرماتے :

اَمْسَحِ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ بِيَدِکَ الشِّفَآءُ لَا کَاشِفَ لَه اِلَّآ اَنْتَ.

’’تکلیف دُور فرما پروردگار عالم! تیرے ہی ہاتھ شفاء ہے، اس تکلیف کو تیرے سوا کوئی دور کرنے والا نہیں۔‘‘

(ابن حبان، الصحيح، 13 : 463، رقم : 6096)

14۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲعنہا سے روایت ہے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مریض سے فرماتے تھے :

بِسْم اﷲ تُرْبَة اَرْضِنا برِيْقَة ُبَعْضِنَا يَشْفِيْ سَقِيْمَنَا بَاِذْنِ ربِّنَا.

’’اﷲ کے نام سے یہ ہماری زمین کی مٹی ہے اور ہمارے بعض بزرگوں کا لعاب (تھوک)، یہ شفاء بخشے گا ہمارے بیمار کو، ہمارے رب کے حکم سے‘‘ (متفق علیہ)

(بخاری، الصحيح، 5 : 2168، رقم : 5413)

15۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲعنہا سے روایت ہے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اپنے بستر پر تشریف لاتے :

نَفَثَ فِيْ کَفَّيهِ بقُلْ هُوَاﷲُ اَحَدٌ وبالمعوّذتَيْنِ جَمِيْعًا ثمّ يَمْسَحُ بِهِما وَجْهَه وَمَا بَلَغَتْ يَدَاهُ مِنْ جَسَدِهِ قالَت عائشةُ : فلَمَّا اشْتَکٰی کانَ يامرُنِيْ اَنْ اَفْعَلَ ذٰلکَ بِه.

’’تو قُلْ هُوَاﷲ اَحَدٌ (سورہ اخلاص) اور مُعوّذتَيْن (آخری دو سورتیں) پڑھ کر دونوں ہاتھوں پر دم کرتے پھر دونوں ہاتھوں سے چہرہ اقدس اور جسم اقدس پر جہاں تک ہاتھ مبارک پہنچتے ملتے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲعنہا فرماتی ہیں : جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیمار ہوتے مجھے ویسے ہی دم کرنے کا فرماتے۔‘‘

(بخاری، الصحيح، 5 : 2169، رقم : 5416)

٭ امام۔ حاکم نے دم درود کے بارے میں جو احادیث صحیح نقل کی ہیں، آیئے اُن پر بھی ایک نظر ڈالتے ہیں۔

16۔ حضرت ابی بن کعب رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر تھا، ایک اعرابی نے حاضر خدمت ہو کر عرض کی یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میرے بھائی کو درد ہے، فرمایا کیا درد ہے ؟ عرض کی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ ہے، فرمایا میرے پاس لاؤ، وہ اسے لائے اور سرکار کے سامنے رکھ دیا، سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورہ فاتحہ، سورہ بقرہ کی آخری چار آیتیں اور یہ دو آیتیں :

وَاِلٰهُکُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ.، لَآ اِلٰهَ اِلَّا هو الرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ،

 آیۃ الکرسی۔ ۔ سورہ اٰل عمران کی یہ آیت :

شَهِدَ اﷲُ اَنَّهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ...

سورہ الاعراف سے یہ آیت

اِنَّ رَبَّکُمُ اﷲُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰت وَالْاَرْضَ...

سورہ المؤمنون کے آخر سے :

فَتَعالَی اﷲُ الْمَلِکُ الْحَقُّ...

سورہ جن کی آیت :

وَاِنَّه تَعَالٰی جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَةً وَّ لَا وَلَدًا...

سورۃ الاخلاص اور مُعوّذتین پڑھ کر دم کیا تو وہ شخص ایسے اُٹھ کھڑا ہوا جیسے کوئی تکلیف تھی ہی نہیں۔

(حاکم، المستدرک، 4 : 458، رقم : 8269)

17۔ حضرت سہل بن حنیف فرماتے ہیں کہ ہم سیلاب سے گزرے، میں نے سیلابی پانی میں غسل کر لیا، باہر نکلا تو بخار ہو گیا۔ یہ بات رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کی گئی، فرمایا : مُروا ابا ثابت یتعوّذ۔ ’’ابو ثابت سے کہو جھاڑے‘‘میں نے عرض کی میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! دم جھاڑ ٹھیک کر دے گا ؟ فرمایا :

لا رقية الّا فی نَفْسٍ اَوْ حُمّةٍ او لَدْغَةٍ.

’’جھاڑ تو خون، نکسیر، بخار میں مبتلا پر ہی ہوتی ہے۔

(حاکم، المستدرک، 4 : 458، رقم : 8270)، (ابوداؤد، السنن، 4 : 11، رقم : 3888)

18۔ حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں :

انّ رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم کان اذا اصابه رمد او احد من اهله و اصحابه دَعَا بهٰؤلَآءِ الکلمات : اللَّهُمَّ مَتِّعْنِيْ بِبَصْريْ واجَعْلَهُ الورث منیّ وارنی فی العدّو ثاری وانصُرنی علٰی مَن ظَلَمنِيْ.

’’جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا آپ کے کسی گھر والے اور صحابہ کرام میں سے کسی کی آنکھوں میں آشوب ہو جاتا تو ان کلمات سے دم دعا فرماتے : اے اﷲ میری آنکھ سے مجھے فائدہ دے اور اس کو میرا وارث بنا اور دشمن میں مجھے بدلہ دکھا اور جو مجھ پر ظلم کرے اس کے مقابلہ میں میری مدد فرما۔‘‘

19۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں : جو کوئی چھینک کی آواز سن کر یہ پڑھے : الحمد لِلّٰهِ علٰی کُلِّ حَالٍ. ’’ہر حال میں اﷲ کا شکر ہے۔‘‘ اسے داڑھ اور کان کا درد نہ ہو گا۔

(حاکم، المستدرک، 4 : 459، رقم : 8272)

20۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں دردوں اور بخار کیلئے یہ دم سکھایا کرتے تھے :

بِسْمِ اﷲِ الْکَبِيْرِ نَعُوْذُ بِاﷲِ الْعَظِيْمِ مِنْ شَرِّ عَرَقِ نَعَارِ و مِنْ شَرِّ حَرِّ النَّارِ.

’’خدائے بزرگ و برتر کے نام سے ہم خدائے بزرگ سے پناہ مانگتے ہیں، رگ سے بہتے خون کے شر سے اور آگ کی تپش کے شر سے‘‘

جبریل علیہ السلام کا دم کرنا

21۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا :

کان اِذَا اشتکیٰ رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم رقاه جبرئيل عليه السلام قال : بِسْمِ اﷲِ يُبْرِيْکَ وَ مِنْ کُلِّ دَائٍ يَشْفِيْکَ و منْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ وَ شَرِّ کُلِّ ذِيْ عَيْنٍ.

’’جبرئیل علیہ السلام آپ کو دم کرتے ہوئے یوں کہتے : اﷲ کے نام سے وہ آپ کو ٹھیک کرے گا، ہر بیماری سے آپ کو شفاء دے گا اور حسد کرنے والے کے حسد سے جب حسد کرے اور ہر نظر والے کی نظر بد سے۔‘‘

(مسلم، الصحيح، 4 : 1718، رقم : 2185)

22۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ جبرئیل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کی :

يا مُحَمّد اُشتکيتَ، قال نعم.

 ’’اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ بیمار ہیں ؟ فرمایا ہاں‘‘انہوں نے یہ دم پڑھا :

بِسْمِ اﷲ اَرْقِيْکَ مِنْ کلّ شی يُؤْذِيْکَ مِنْ شرّ کُلِّ نَفْسٍ اَوْ عَيْنٍ حاسدٍ اﷲ يَشْفِيْکَ بِسْم اﷲ ِاَرْقِيْکَ.

’’اﷲ کے نام سے آپ کو دم کرتا ہوں ہر اس چیز سے جو آپ کو تکلیف دے، ہر نفس یا نظر ِحاسد کے شر سے اﷲ آپ کو شفاء دے، اﷲ کے نام سے آپ کو دم (جھاڑ) کرتا ہوں۔‘‘

(مسلم، الصحيح، 4 : 1718، رقم : 2186)

23۔ حضرت عبادہ بن صامت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ جبریل علیہ السلام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں احاضر ہوئے، اس وقت حضور کو سخت بخار تھا، انہوں نے یہ دم پڑھا :

بِسْمِ اﷲ أرْقِيْکَ مِنْ کُلِّ شَیٍ يُؤْذِيْکَ من کُلِّ حَسَدٍ وَّ حَاسِدٍ وَ کُلِّ غَمٍّ وَ اِسْمُ اﷲِ يَشْفِيْکَ.

’’میں اﷲ کے نام سے آپ کو جھاڑتا ہوں، ہر ایسی چیز سے جو آپ کو تکلیف دے ہر حسد اور حسد کرنے والے سے اور ہر غم سے اور اﷲ کا نام آپ کو شفا دے۔‘‘

یہ حدیث شرط شیخین پر صحیح ہے مگر انہوں نے اسے بیان نہیں کیا۔

(حاکم، المستدرک، 4 : 457، رقم : 8268)

کون سے دم سے منع فرمایا ؟

24۔’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہ لوگ جھاڑ پھونک کرتے جس میں شرک کی آمیزش تھی تو سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دم کرنے سے منع فرما دیا۔ ایک صحابی کو سانپ نے ڈس لیا حضور علیہ السلام نے فرمایا : کوئی دم کرنے والا ہے جو اس شخص کو جھاڑے ؟ ایک صاحب نے عرض کی : سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں دم جھاڑ کرتا تھا پھر اسے آپ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا تو میں نے اسے چھوڑ دیا۔ فرمایا : لاؤ میرے سامنے، میں نے سرکار کی خدمت میں پیش کر دیا، فلم ير بها بأساً فأمره فرقاها اس میں کوئی غلط بات نہ پا کر فرمایا : اسے جھاڑو، پس اس نے سانپ ڈسے کو جھاڑا‘‘۔

(امام عبدالرزاق الصنعانی، المصنف، 11 : 16، رقم : 19767)

کیا یہ تقدیر و توکل کے خلاف ہے؟

25۔ صحابہ کرام نے عرض کی یارسول اﷲ !

 أرَأيْتَ اتّقاءً نتّقِيه و دواءً نتداوی به و رقیً نسترقی بها أتُغْنِنِيْ منَ الْقَدْر؟ فقال النبی صلی الله عليه وآله وسلم : هِيَ من القدر.

’’آپ کے خیال مبارک میں ہم کسی چیز سے بچاؤ کی تدبیر کرتے ہیں یا کسی تکلیف میں دواء استعمال کرتے ہیں یا کسی دم سے جھاڑ کرتے ہیں تو کیا یہ چیزیں ہمیں تقدیر سے بچا لیں گی ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ سب کچھ تقدیر ہے‘‘

(عبدالرزاق، المصنف، 11 : 18، رقم : 19777)، (احمد بن حنبل، المسند، 3 : 421، رقم : 15510)

شارحین کا تبصرہ

علامه عينی : انما قال صلی الله عليه وآله وسلم اضربوا لی معکم بسهم ای بنصيب تطييبًا لقلوبهم و مبالغة فی تعريفهم انه حلال.

’’اپنے ساتھ میرا حصہ نکالو، یہ صرف اس لیے فرمایا کہ ان کے دل خوش ہو جائیں اور ان کی تعریف میں مبالغہ کر کے یہ واضح کرنا تھا کہ یہ جھاڑ پھونک بھی جائز ہے اور اس پر اجرت لینا بھی حلال ہے۔‘‘

(عمدة القاری شرح بخاری، 21 : 271. 272)

٭امام نووی : امام نووی شرح مسلم میں فرماتے ہیں :

’’حدیثوں میں کوئی اختلاف نہیں بلکہ جن احادیث میں جھاڑ پھونک ترک کرنے کی تعریف ہے اس سے مراد وہ دم ہے جو کافروں کے کلام سے کیا جائے یا مجہول کلمات سے ہو یا غیر عربی ہو یا جن کا معنی کچھ نہ ہو۔ یہ جھاڑ پھونک (گنڈے تعویذ) مذموم ہیں۔ کیونکہ کفر یا اس کے قریب یا مکروہ ہونے کا احتمال ہے۔ رہ گیا قرآنی آیتوں یا مشہور و معروف اذکار سے دم کرنا تو یہ منع نہیں بلکہ یہ تو سنّت ہے‘‘۔ ۔ ۔

و قد نقلوا الاجماع علٰی جواز الرقیٰ بالاٰيات و اذکار اﷲ تعالٰی.

’’ائمہ دین نے آیتوں اور اﷲ کے اذکار سے دم کرنے کے جواز پر اجماع نقل کیا ہے۔‘‘

(شرح مسلم، 2 : 227، باب الطب والمرض ولرقیٰ)

علامه ابن حجر عسقلانی : اذا ثبت ان لبعض الکلام خواص و منافع فما الظّنّ بکلام رب العٰلمين ثم بالفاتحه التی لم ينزل فی لقرآن ولا غيره من الکتب مثلها لتضمنّها جميع معانی القرآن.

’’جب یہ حقیقت ثابت ہے کہ بعض کلام کے خواص اور فائدے ہوتے ہیں، تو رب العالمین کے کلام کے بارے میں کیا خیال ہے، پھر فاتحہ کے بارے میں اور جس کی مثال نہ قرآن میں نہ باقی کتابوں میں۔ کیا خیال ہے جو قرآن کے تمام معانی پر مشتمل ہے۔‘‘

(فتح الباری شرح صحيح بخاری، 10 : 198)

فقہائے اسلام کے نزدیک

٭ فتاویٰ عالمگیری :

’’قرآن کریم سے دم (جھاڑ پھونک) کرنا یوں کہ مریض اور (سانپ، بچھو وغیرہ سے) ڈسے پر قرآن پڑھے یا کاغذ پر لکھ کر گلے وغیرہ میں لٹکائے یا پلیٹ پر لکھ کر اور اس تحریر کو دھو کر بیمار کو پلائے، اسے عطاء، مجاہد اور ابو قلابہ نے جائز قرار دیا ہے۔ ، مشہور ائمہ میں یہ عمل بغیر انکار ثابت ہے۔ اور جس کی نکسیر نہ رُکتی ہو اور وہ اپنے اُسی خون سے اپنی پیشانی پر قرآن کریم کی کوئی آیت لکھنا چاہے تو یہ جائز ہے۔ یونہی مردار کے (رنگے ہوئے) چمڑہ پر لکھنا جب اس میں شفاء (کی امید) ہو جائز ہے۔ اور گلے میں تعویذ لٹکانے میں حرج نہیں، ہاں بیت الخلاء یا بیوی سے قربت کے وقت اتار دے۔‘‘

(فتاویٰ عالمگيری، 5 : 356)

ردالمختار : التميمة المکروهة ما کان بغير القرآن... ولا باس بالمعاذات اذا کتب فيها القرآن او هو و اﷲ تعالٰی... انما تکره العوذة اذا کانت بغير لسان العرب و لا يدری اوشی من الدعوات فلا باس به.

’’مکروہ تعویذ وہ ہے جو قرآن کے علاوہ ہو، ان گنڈے تعویذوں سے شفاء حاصل کرنے میں حرج نہیں جن میں قرآن یا اﷲ کے نام لکھے ہوں۔ اور وہ تعویذات جو عربی زبان کے علاوہ ہوں اور پتہ نہ چلے یہ کیا ہے، ممکن ہے اس میں جادو، کفر وغیرہ شامل ہو جائے۔ مگروہ گنڈہ تعویذ جو قرآن سے ہو یا کوئی دعا ہو، اس میں حرج نہیں۔‘‘

(علامه ابن عابدين، ردالمحتار (شامی)، 6 : 363)

٭ ’’قرآن کے ذریعہ شفاء حاصل کرنے میں اختلاف ہے۔ مثلاً بیمار یا (سانپ، بچھو وغیرہ سے) ڈسے پر فاتحہ پڑھنا یا کسی کاغذ میں لکھ کر اس کے گلے وغیرہ پر لٹکا دیا جائے یا پلیٹ پر لکھ کر اور اس لکھے کو دھو کر پلایا جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ اپنے اوپر دم کیا کرتے تھے۔ و علی الجواز عمل الناس اليوم وبه و ردا لاثار اور آج لوگوں کا جواز پر ہی عمل ہے اور روایات و احادیث اسی کی تائید میں وارد ہیں۔ جُنبی اور حیض والی لفافے میں بند (جیسے چاندی یا چمڑے میں ہوتا ہے) تعویذ بازُو پر باندھیں، اس میں حرج نہیں۔‘‘

(ایضاً)

٭علمائے اہل حدیث : اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ صرف شرک والی صورتیں منع ہیں باقی جائز ہیں۔

(علامہ شوکانی، نیل الاوطار، 1 : 345، فصل ردشرک، الرقیٰ والتمائم)

٭علمائے دیوبند : امروہہ میں ایک ہندو تھا، وہ حضرت عبدالباری رحمۃ اللہ علیہ سے کمال اعتقاد رکھتا تھا۔ اس نے آپ سے عرض کیا کہ میرے کوئی اولاد نہیں ہے تعویذ دیجیے۔ حضرت نے تعویذ دے کر فرمایا کہ ابھی تو اپنی بیوی کے بازو پر باندھ دو اور بعد تولّدِ فرزند، اس کے بازو پر باندھ دینا۔ تعویذ کی برکت سے اس کے لڑکا پیدا ہوا۔ جب وہ لڑکا سنِ تمیز کو پہنچا تو اس نے بغض کی بناء پر اس تعویذ کو کھول ڈالا۔ اس میں لکھا تھا ’’اُڑری بھنبیری ساون آیا‘‘ یہ پڑھ کر اس نے تعویذ پھینک دیا۔ پھینک کر وہ نہانے کو گیا اور دریا میں ڈوب کر مر گیا۔

(مولانا اشرف علی تهانوی، امداد المشتاق الیٰ اشرف الاخلاق، ص : 118)

٭ ’’بعض احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جھاڑ پھونک سے بالکل منع فرما دیا تھا لیکن بعد میں اس شرط کے ساتھ اس کی اجازت دے دی کہ اس میں شرک نہ ہو، اﷲ کے پاک ناموں یا اس کے کلام سے جھاڑا جائے، کلام ایسا ہو جو سمجھ میں آئے اور یہ معلوم کیا جا سکے کہ اس میں کوئی گناہ کی چیز نہیں ہے، اور بھروسہ جھاڑ پھونک پر نہ کیا جائے کہ وہ بجائے خود شفاء دینے والی ہے، بلکہ اﷲ پر اعتماد کیا جائے کہ وہ چاہے گا تو اسے نافع بنا دے گا۔ یہ مسئلہ شرعی واضح ہو جانے کے بعد اب دیکھیے کہ احادیث اس بارے میں کیا کہتی ہیں۔‘‘

(مولانا مودودی، تفهيم القرآن، 6 : 558)

اس کے بعد مولانا مودودی نے وہ تمام احادیث نقل کر دیں جو ہم گذشتہ صفحات پر نقل کر آئے ہیں۔

٭ ’’اب اگر دوا اور علاج کرنے کے ساتھ اﷲ کے کلام اور اس کے اسمائے حُسنٰی سے بھی استفادہ کیا جائے، یا ایسی جگہ جہاں کوئی طبی امداد میسر نہ ہو، اﷲ ہی کی طرف رجوع کر کے اس کے کلام اور اسمائے و صفات سے استعانت کی جائے تو مادہ پرستوں کے سوا کسی کی عقل کے بھی خلاف نہیں ہے۔‘‘

(ایضاً)

خلاصہ کلام

آج کل بعض لوگ جہاں دیگر بہت سے اسلامی معمولات کو ’’شرک و بدعت‘‘ کہہ کر لوگوں کے دلوں میں نفرت و نفاق کے بیج ڈالتے ہیں اُن میں ایک گنڈا، تعویذ اور دم درود بھی ہے۔ اسلام میں جہاں بیماریوں کے مادی علاج ہیں یعنی جڑی بوٹیوں اور دوائیوں سے وہاں اﷲ تعالی کے کلام اور اسمائے حسنی اور مسنون و متبرک دعاؤں سے بھی اﷲ پاک شفاء دیتا ہے، ان میں بھی اُسی نے تاثیر رکھی ہے مگر تمام تر تاثیر اس کے مشیت و ارادہ پر موقوف ہے۔ جب چاہے دواء یا دعا سے شفاء دے، نہ چاہے تو نہ دے، اس پر کوئی جبر نہیں۔ دواء میں لازمی شفاء ہوتی تو ہسپتالوں سے ہر مریض شفایاب ہو کر نکلتا، بیرون ملک لاکھوں کروڑوں کے مہنگے علاج کرانے والوں کے تابوت نہ آتے۔ وہ چاہے تو معمولی دیسی پڑیا سے شفاء مل جائے، کسی بندہ خدا بھلے وہ کیسا ہی گناہگار ہو اس کی پھونک سے شفاء ہو جائے، چاہے تو دعا کار گر نہ دواء میں اثر۔

تعویذ اور دم پر اعتراض کرنے والے احباب ڈاکٹروں اور حکیموں کے پاس جانے سے تو منع نہیں کرتے، ان کے خلاف نفرت آمیز پروپیگنڈا نہیں کرتے مگر کوئی بندہ خدا اگر کسی بیمار کو اﷲ کے نام و کلام سے دم کرے، تعویذ بنا کر دے، پانی وغیرہ دم کر کے دے اور شفاء دینے والے خدا سے مصیبت زدہ مریض کے لئے شفاء طلب کرے تو فوراً فتویٰ کفر و شرک لگا دیتے ہیں۔

ہم نے اس موضوع پر قرآن و سنت، عمل صحابہ کرام و ائمہ امت بلکہ خود معاندین کے اکابر کے فتاویٰ و اقوال سے مزین اس مضمون میں ثابت کیا ہے کہ قرآن و سنت کی رُو سے کلمات طیبات، آیات و آثار سے دم کرنا، جھاڑنا نہ صرف جائز و مستحسن ہے بلکہ قرآن و سنت، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، صحابہ کرام، آل اطہار اور علماء اولیاء امت میں سے آج تک کسی نے اس کے خلاف ایک لفظ نہیں بولا۔ اس کی تائید میں ہم نے ہر مسلک و مذہب کے اکابر کی تصریحات بھی پیش کر دیں۔ اﷲ تعالیٰ مسلمانوں کو شیطانی وسوسوں کے شر سے محفوظ رکھے۔ ان شاء اﷲ اس کے پڑھنے سے بہت سے ذہنی عقدے کشا ہونگے۔