کامیاب لوگوں کی خصوصی عادات، قسط : 6

شفاقت علی شیخ

دوسری عادت__’’ انجام پر نظر رکھنا ‘‘
آئین زندگی کو کیسے مرتب کیا جائے؟

قارئین کے پسندیدہ اس سلسلہ وار مضمون میں امریکن رائٹر ’’سٹیفن آرکووے‘‘ کی تحریر Seven Habits of highly efective people کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بیان کیا جا رہا ہے۔ کامیاب لوگوں کی خصوصی عادات میں سے پہلی عادت ’’ذمہ داری قبول کرنا‘‘ کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ماہنامہ منہاج القرآن ماہ جنوری، فروری، اپریل اور جون 2011ء کے شماروں میں شائع کیا گیا۔ کامیاب لوگوں کی دوسری عادت ’’انجام پر نظر رکھنا‘‘ کا پہلا حصہ جولائی کے شمارہ میں ملاحظہ کر چکے ہیں جس میں معمولات زندگی میں اعتدال و توازن، درست سمت اور ترجیحات کا تعین، اعمال و نتائج، بے مقصدیت کے نقصانات اور ذہنی منصوبہ بندی کی اہمیت کو بیان کیا گیا۔ اسی مضمون کا اگلا حصہ نذرِ قارئین ہے :

اپنے نصب العین پر مشتمل تحریر لکھنے یا بالفاظِ دیگر اپنے آئین زندگی کو مرتب کرنے کے لیے ہمیں اپنی شخصیت کے اندرونی حصے میں جھانکنا ہو گا اور اپنے من میں ڈوب کر زندگی کے سراغ کو پانا ہو گا۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں ہمارے اصل عقائد، نظریات اور نکتہ ہائے نظر ہوتے ہیں جو ہماری جملہ حرکات و سکنات اور اعمال و افعال کی جہتوں کو متعین کرتے ہیں۔ زندگی کے ہر ہر مرحلے ہر جو کچھ بھی ہم سے سرزد ہوتا ہے اُس کی تہہ میں ہمارے یہی افکار و نظریات اور زاویہ ہائے نگاہ کار فرما ہوتے ہیں۔ ارشاد فرمایا :

قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَى شَاكِلَتِهِ فَرَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ أَهْدَى سَبِيلاً.

(بنی اسرائيل : 84)

’’فرما دیجیے : ہر کوئی (اپنے) اپنے طریقہ و فطرت پر عمل پیرا ہے، اور آپ کا رب خوب جانتا ہے کہ سب سے زیادہ سیدھی راہ پر کون ہے‘‘۔

یہاں طریقہ (شاکلہ) سے مراد وہ خاص ذہنی سانچہ ہے جس کے تحت ہر آدمی سوچتا اور پھر اُس کے مطابق عمل کرتا ہے۔ شریعت کی اصطلاح میں اسی جگہ کو قلب کہتے ہیں جس کی اصلاح و فساد پر پوری شخصیت کے سنورنے اور بگڑنے کا دار و مدار ہے۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

الا ان فی الجسد لمضغة اذا صلحت صلح الجسد کله واذا فسدت فسد الجسد کله الا وهی القلب.

’’آگاہ ہو جاؤ، انسانی جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے۔ جب یہ سنور جائے تو پورا جسم سنور جاتا ہے اور جب یہ بگڑ جائے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے۔ جان لو کہ یہ دل ہے۔‘‘

دوسری حدیثِ مبارکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے سینہ مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :

التقوی هٰهُنا

’’تقویٰ یہاں ہوتاہے‘‘

مطلب یہ کہ نیکی اور بدی کے رجحانات کا منبع و سرچشمہ انسان کا دل ہے جس طرح کے عقائد اور خیالات دل میں ہوں گے اُسی طرح کے اعمال انسان سے جنم لیں گے۔ انسانی شخصیت میں دل کی حیثیت بادشاہ کی ہے، باقی تمام اعضاء اُس کے تابع ہیں۔ مثلاً جب ہمارے دل میں کسی کے لیے محبت ہوتی ہے تو زبان اُس سے ہم کلام ہونا چاہتی ہے، کان اُس کی بات سننا چاہتے ہیں، آنکھیں اُسے دیکھنا چاہتی ہیں اور جسم اُس کے پاس بیٹھنا چاہتا ہے لیکن اگر کسی وجہ سے وہ محبت نفرت میں بدل جائے تو تمام اعضاء کا طرز عمل یکسر بدل جاتا ہے۔ لہٰذا اگر ہم اپنی شخصیت میں کوئی مثبت اور پائیدار تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو اُس کے لیے ہمیں اپنی شخصیت کے باطنی حصہ پر محنت کرنا ہو گی اور پہلے اپنے من کو تبدیل کرنا ہو گا۔ وہی تبدیلی حقیقی اور دیر پا ہوتی ہے جس کا آغاز اندر سے ہوتا ہے۔ باطن کا بدلا ہوا حال انسان کے ظاہری اعمال کو خود بخود تبدیل کرنا شروع کر دیتا ہے۔

انسانی شخصیت کی تشکیل

ہم بچپن سے جس طرح کے ماحول اور معاشرے میں پروان چڑھتے ہیں، گھر اور مدرسے سے جس طرح کی تعلیم و تربیت ہمیں میسر آتی ہے نیز جس طرح کی صحبت ہمیں میسر آتی ہے اُن سب کے اثرات ہماری شخصیت کے اندرونی حصے میں جمع ہوتے چلے جاتے ہیں اور ہمارے اندر عقائد و نظریات کا ایک خاص نمونہ (Patteren) بناتے چلے جاتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں شخصیت ایک خاص سانچے میں ڈھلتی چلی جاتی ہے۔ یہ باطنی تحریریں جو ہمیں گھر، مدرسے، ماحول، معاشرے اور دوست احباب وغیرہ کی طرف سے بچپن ہی سے ملتی ہیں ہم جوان ہونے تک ان کو من و عن قبول کر چکے ہوتے ہیں اور ان کی صداقت و حقانیت پر ایمان لا چکے ہوتے ہیں۔ ہم یہ دیکھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے کہ آیا ہمارے باطن میں لکھی جانے والی یہ تحریریں حقیقتِ واقعی سے مطابقت بھی رکھتی ہیں یا نہیں۔ چنانچہ بلا سوچے سمجھے انہی کے تحت اپنی زندگی گزارتے چلے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو بندہ جس ماحول، مذہب یا عقیدے کے تحت پرورش پاتا ہے وہ ساری عمر اس کے دائرے سے نکل ہی نہیں پاتا خواہ وہ سو فی صد غلط ہی کیوں نہ ہو۔

عروج کا منہاج۔ حق و باطل کی پہچان

اسلام انسان کو اس طرح کی اندھی تقلید سے منع کرتا ہے اور اُسے اپنی زندگی درست اصولوں اور قوانین فطرت پر استوار کرنے کی تلقین کرتا ہے تاکہ زندگی ٹھوس اور حقیقی بنیادوں پر پروان چڑھ سکے اور عروج سے ہمکنار ہو سکے۔ ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جانے والی سورۃ فاتحہ کے اندر جو واحد دعا انسان اللہ سے مانگتا ہے وہ یہی ہے :

اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ.

(الفاتحه : 5)

’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا‘‘۔

مطلب یہ کہ زندگی گزارنے کی جو درست روش ہے ہمیں اُس روش کو سمجھنے اور اُس پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔ حضورعلیہ السلام کی دعاؤں میں سے ایک دعا یہ ہے :

اللهم ارنا الا شياء کما هی

’’اے اللہ ہمیں چیزوں کو اسی طرح دیکھنے کی توفیق عطا فرما جیسی وہ ہیں۔‘‘

کسی بھی چیز کی حقیقت کو پانے کے لیے اُسے درست رخ سے دیکھنا ضروری ہے۔ اگر انسان اُسے غلط رخ سے دیکھ رہا ہو تو وہ اُس کی اصلیت کو پانے میں ناکام رہے گا۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک اور دعا یوں منقول ہے :

اللهم ارنا الحق حقا وار زقنا اتباعه وارنا الباطل باطلا وار زقنا اجتنابه

’’اے اللہ ! ہمیں حق کو حق کی صورت میں دیکھنے اور پھر اُس کے مطابق چلنے کی توفیق عطا فرما اور باطل کو باطل کے روپ میں دیکھنے اور پھر اُس سے بچنے کی توفیق عطا فرما۔‘‘

حق کو حق کی صورت میں دریا فت کر لینا ایک چیز ہے اور پھر اُس پر عمل پیرا ہو جانا دوسری بات ہے۔ کئی مرتبہ تو انسان کسی معاملے میں حقیقت کو پانے میں ہی ناکام رہتا ہے لیکن بہت مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان حقیقت سے آشنا ہو جانے کے باوجود کسی وقتی مفاد، دنیوی مصلحت یا اپنی جھوٹی شان و شوکت اور پندار کو قائم رکھنے کے لیے اُس سچائی کو تسلیم کرنے اور اپنا نے سے انکار کر دیتا ہے اور جانتے بوجھتے ہوئے اپنے آپ کو تباہی و بربادی کے راستے پر ڈال دیتا ہے۔ جیسا کہ کفار مکہ کے متعلق قرآن فرماتا ہے :

يَعْرِفُوْنَهُ کَمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَآئَهُمْ.

(البقره : 146)

’’یہ کفار میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس طرح پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔‘‘

اتنی واضح پہچان کے باوجود کس چیز نے اُنہیں تسلیم کرنے سے باز رکھا؟ محض اُن کے تکبر اور حسد نے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تکبر کی تعریف ان الفاظ میں بیان فرمائی :

الکبر بطر الحق وغمط الناس

’’تکبر یہ ہے کہ انسان حق کا انکار کرے اور لوگوں کو حقیر سمجھے‘‘

اسی طرح باطل کو باطل کے روپ میں دیکھ لینا پہلا مرحلہ ہے اور پھر اُس سے اجتناب کرنا اگلا مرحلہ ہے۔ یہاں بھی بہت مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک انسان پر کسی کام کا غلط ہونا واضح ہو جاتا ہے لیکن وہ محض اپنی انا کی تسکین یا کسی اور جھوٹی مصلحت کی خاطر اُسے ترک کرنے پر تیار نہیں ہوتا۔

باطنی افکار و خیالات کا تجزیہ

ہمیں اس حقیقت کو ذہن نشین کرنا ہو گا کہ اگر ہم اپنی زندگی کو درست اصولوں اور ٹھوس حقائق پر استوار کرنا چاہتے ہیں اور دنیا و آخرت کی کامیابیاں حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ زندگی کے دامن کو حقیقی خوشیوں اور مسرتوں سے بھرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں جرات مندانہ انداز سے کام لیتے ہوئے اپنے باطنی افکار و خیالات اور عقائد و نظریات کا تجزیہ کرنا ہو گا اور اُن کی چھانٹی کرنا ہو گی کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط؟ ہمیں اپنے باطن میں لکھی ہوئی تحریروں کا جائزہ لینا ہو گا اور دیکھنا ہو گا کہ اُن میں سے کون کون سی باتیں حقائق سے مطابقت رکھتی ہیں اور کون سی خلافِ حقیقت اور بے بنیاد ہیں؟ ایک مرتبہ ہمت کر کے یہ کام کر لیا جائے اور زندگی کو درست اصولوں پر استوار کر لیا جائے تو پھر عمل کے زاویے خود بخود درست ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور شاہراہِ حیات پر ترقی و ارتقاء کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ بصورتِ دیگر زندگی انتشار، پراگندگی اور آوارگیوں کا شکار رہتی ہے۔

ہمارے اندرونی زاویہ ہائے نگاہ جہاں سے ہمارے تمام رحجانات، رویہ جات اور ظاہری اعمال جنم لیتے ہیں‘ اُن کی مثال عینک کے شیشوں کی ہے۔ اگر ہم کسی مخصوص رنگ کے شیشوں کی عینک لگا لیتے ہیں تو پھر ہمیں ہر چیز اُسی رنگ کی دکھائی دے گی۔ اور ہم ہر چیز کی تشریح اپنے مشاہدے کے مطابق ہی کریں گے۔ خواہ ہماری رائے حقیقت کے کتنی ہی برعکس ہو مگر ہمیں اپنی غلطی کا احساس نہیں ہو گا۔ لہٰذا چیزوں کو صحیح روپ میں دیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہماری عینک کے شیشوں کا رنگ قدرتی ہو۔ اسی طرح حالات و واقعات کا صحیح جائزہ لینے اور چیزوں کی درست حقیقت کو جاننے کے لیے ہمارے نقطہ ہائے نگاہ کا قوانینِ فطرت کے مطابق ہونا ضروری ہے۔

یا پھریوں سمجھ لیں کہ ہمارے زاویہ ہائے نگاہ کی مثال منزل کے نقشہ کی ہے۔ اگر ہمارے ہاتھ میں پکڑا ہو ا نقشہ ہی غلط ہو تو ہم کبھی منزل پر نہیں پہنچ سکیں گے‘ خواہ ہم کتنی ہی کوشش کرتے رہیں۔ منزل پر پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہمارے ہاتھ میں مطلوبہ جگہ کا درست نقشہ موجود ہو۔

اسی طرح عملی زندگی میں ہماری کوششوں اور کاوشوں کے ثمرآور ہونے کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ہمارے عقائد و نظریات کے نقشے درست اور حقیقتِ واقعہ سے مطابقت رکھتے ہوں۔ جب تک ہماری سوچ اور فکر کے زاویے درست نہیں ہو جاتے اور زندگی کو ایک واضح جہت نہیں مل جاتی تب تک ہماری تمام تر محنتوں اور مشقتوں کے باوجود زندگی اپنے حقیقی کمال کو پانے سے محروم رہے گی۔

ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ ہمارے لیے محض چلنا اور حرکت کرنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ سمت کا درست ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص بیس قدم مشرق کی طرف چلتاہے اور پھر پلٹ کر بیس قد م مغرب کی طرف چلتا ہے بعدازاں اپنا رخ شمال کی طرف کرتے ہوئے بیس قدم اُس سمت میں چل کر پھر اپنا رخ جنوب کی طرف کر کے بیس قدم چل لیتاہے تو 80 قدم چلنے کے باوجود یہ شخص حقیقت میں ایک قدم بھی نہیں چلا ہے اور جہاں پہلے کھڑا تھا اب بھی وہیں ہے۔ لہٰذا اس شخص کے لیے ضروری تھا کہ چلنے سے پہلے درست سمت کا تعین کر لیتا اور پھر مستقل مزاجی سے اُس سمت میں چلتا۔ یہی کچھ ہماری اکثریت کے ساتھ ہو رہا ہے کہ زندگی ساری بیت جاتی ہے مگر حقیقی عروج اور ارتقاء نصیب نہیں ہوتا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

من استویٰ يوماه فهو مغبون

’’جس شخص کے دو دن برابر ہوں وہ خسارے میں ہے۔‘‘

مطلب یہ ہے کہ ایک بندہ مومن کے پاس دنیا میں سب سے قیمتی متاع وقت ہے لہٰذا ہر گزرتے ہوئے لمحے کے ساتھ اُس کے ایمان، تعلق باللہ اور معرفتِ الٰہی کی کیفیات میں بھی اضافہ ہونا چاہیے۔ یوں نہیں ہونا چاہیے کہ اُس کی زندگی کا ایک مزید دن گزر چکا ہو لیکن وہ ایمان و عرفان کی اُسی سطح پر ہو جس پر گذشتہ دن میں تھا۔

اسی طرح ایک اور حدیث کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ

’’مومن جوں جوں بوڑھا ہوتا جاتا ہے اُس کا ایمان جوان ہوتا چلا جاتا ہے۔‘‘

اس کا معنٰی بھی یہی ہے کہ ہرگزرتے دن کے ہر لمحے کے ساتھ ایک بندہ مومن کے ایمان، عرفان اور اُس کی سیرت و کردار میں پختگی اور نکھار آتا چاہیے۔

زندگی کے عناصرِ اربعہ

ہماری شخصیت کو مضبوط اور مستحکم بنانے نیز ہمارے ہر لمحہ کیے جانے والے فیصلوں پر اثر انداز ہونے والے چار انتہائی اہم عوامل درج ذیل ہیں :

1۔ تحفظ

اس سے مراد اپنی قدر وقیمت کا احساس ہے۔ یعنی بحیثیت انسان اپنے مقام و مرتبے کو جاننا نیز اپنی انفرادیت کا شعور رکھتے ہوئے اپنی اہمیت و حیثیت سے آگاہ ہونا۔ اس سے خود اعتمادی (Self Confidence) اور عزتِ نفس (Self esteem) جنم لیتے ہیں۔ علامہ اقبال نے غالباً اسی کو لفظِ ’’ خودی‘‘ سے تعبیر کیا ہے جو کہ علامہ کے کلام کا مرکزی نکتہ ہے۔

2۔ رہنمائی

اس سے مراد ہے زندگی میں واضح سمت کا موجود ہونا۔ نصب العین کا تعین، منزل کا شعور، اس کی حیثیت قطب نما (Compass) کی سی ہے جو ہمارے لیے سمت کا تعین کرتی ہے اور ہمیں لمحہ بہ لمحہ کیے جانے والے فیصلوں کے لیے ایک معیار فراہم کرتی ہے نیز خارج میں ہونے والے واقعات کی تشریح بھی ہم اسی کے ذریعے کرتے ہیں۔

3۔ بصیرت

یہ ہمیں زندگی میں توازن کا احساس دیتی ہے۔ جس کے ذریعے ہم زندگی کی مختلف جہتوں اور پہلوؤں میں ہم آہنگی پیدا کرتے ہیں۔ زندگی کو ایک کل کے طور پر دیکھتے ہوئے اُس کے مختلف اجزاء میں ربط اور تناسب بیدار کرتے ہیں۔ زندگی کی مختلف سرگرمیوں میں مشغول ہوتے ہوئے ہم ہر چیز کے صحیح مقام اور مرتبے سے آگاہ ہوتے ہیں اور اُسے اُ س کے مطابق ہی اہمیت دیتے ہیں۔

4۔ طاقت

یہ ہماری کچھ کر گزرنے کی صلاحیت اور اہلیت ہے۔ وہ قوت کہ جس کے بل بوتے پر ہم زندگی میں مختلف کام سرانجام دیتے ہیں اور مختلف مقاصد کو حاصل کرتے ہیں۔ اسی کے ذریعے ہم اپنی پرانی اور پختہ عادات پر حاوی ہو سکتے ہیں۔ اور نئی، اعلیٰ اور موثر عادات اپنا سکتے ہیں۔ یہ ہمارا اپنے بارے میں وہ احساس ہے جو مطلوبہ مقاصد کے لیے آگے بڑھ کر ہمیں عملی جدوجہد کا حوصلہ فراہم کرتا ہے۔ اسی کا دوسرا نام قوتِ ارادی (Will Power) ہے۔

ان چاروں عناصر۔ ۔ ۔ تحفظ، رہنمائی، بصیرت اور طاقت۔ ۔ ۔ کا ایک دوسرے پر انحصار ہوتا ہے۔ تحفظ اور صحیح رہنمائی سچی بصیرت عطا کرتے ہیں۔ اور بصیرت ہماری طاقت کا پیش خیمہ بھی ہوتی ہے اور اسے جلا بھی بخشتی ہے۔ جب یہ چاروں عناصر ہم آہنگی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ بیک وقت موجود ہوں تو پھر یہ ایک متوازن کردار اور مکمل شخصیت کی عظیم طاقت میں ڈھل جاتے ہیں اور ایک انتہائی خوبصورت انداز میں مربوط شخصیت جنم لیتی ہے۔

عناصرِ اربعہ کے درجات اور اثرات

یہ زندگی کے قوت بخش عناصر زندگی کی تمام دوسری جہتوں کو بھی تقویت بخشتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی نہ تو اپنے آپ میں سو فی صد مکمل ہے اور نہ ہی غیر اہم ہے۔ ان میں سے جس کسی کو بھی جتنا ہم نے اپنے اندر پیدا کر لیا وہ زندگی میں پختگی اور مضبوطی کے سفر میں اُسی درجے میں ہمارے کام آتا رہے گا۔ نچلی سطح پر اور ابتدائی درجے میں یہ چاروں عناصر بہت کمزور ہیں اور ایسی صورت میں ہمارا انحصار بنیادی طور پر دوسرے لوگوں کے رویہ جات اور خارجی حالات کے رحم و کرم پر ہو گا۔ بالفاظ دیگر ہماری زندگی کی لگامیں ہمارے اپنے ہاتھ میں ہونے کی بجائے اُن لوگوں یا چیزوں کے ہاتھوں میں ہوں گی جن پر ہمارا کوئی کنٹرول نہیں ہو گا لیکن جب ہم ان عناصر اربعہ کو پروان چڑھا کر اور نشو و نما دے کر اعلیٰ درجے میں اور اونچی سطح پر لے آتے ہیں تو ہماری شخصیت مضبوط و مستحکم ہو جاتی ہے اور اُس وقت ہمارے پاس ایک اپنی طاقت اور ایک ایسی ٹھوس بنیاد موجود ہوتی ہے کہ جس پرانحصار کرتے ہوئے ہم اپنے منفرد اور جدا گانہ تشخص کو بر قرار رکھتے ہوئے دوسرے لوگوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کر سکتے ہیں۔

ہمارے ’’احساسِ تحفظ‘‘ کا اعلیٰ درجہ وہ ہے جہاں اپنے بارے میں گہری قدردانی اور ذاتی تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔ جب کہ پست ترین درجہ وہ ہے جہاں شدید عدمِ تحفظ ہوتا ہے اور زندگی، غیر مستحکم کرنے والی معمولی خارجی قوتوں سے بھی منتشر ہوتی رہتی ہے۔

اسی طرح ہماری رہنمائی کی بھی دو سطحیں ہیں۔ اوپر والی سطح پر ہمارے اندر اپنی متعینہ اقدار اور واضح سمت کا مضبوط اور بھرپور احساس موجود ہوتا ہے جب کہ نچلی سطح پر ہماری رہنمائی کا انحصار مکمل طور پر معاشرتی آئینے اور دوسرے کمزور کردینے والے عنا صر پر ہوتا ہے۔

یونہی ہماری بصیرت جب انتہائی اوپر والی سطح پر ہوتی ہے تو وہاں زندگی کا ایک مکمل اور درست نقشہ موجود ہوتاہے۔ جہاں ہر چیز اور اصول کا آپس میں تعلق بڑا واضح ہوتا ہے لیکن بصیرت کی انتہائی نچلی سطح پر ایک بالکل ہی غلط نقشہ ہوتا ہے جہاں ہر چیز بدنما اور بے جواز معلوم ہوتی ہے۔

یہی حال ہماری ’’ طاقت‘‘ کا ہے۔ ’’ طاقت‘‘ جب اعلیٰ درجے میں ہوتی ہے تو ہمیں اپنے آپ پر مکمل اور بھرپور اعتماد ہوتا ہے۔ اور ہم اپنی زندگی کی گاڑی کو خارجی حالات اور دوسرے لوگوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے کی بجائے اپنی پسندیدہ اور طے شدہ اقدارکے مطابق خود چلاتے ہیں۔ لیکن’’ طاقت‘‘ کے پست ترین درجے میں ہم مکمل طور پر جمود کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اور ہماری حیثیت ایک کٹھ پتلی کی سی ہو جاتی ہے جو دوسروں کے اشاروں پر چل رہی ہو۔

مندرجہ بالا چاروں عناصر انتہائی اعلیٰ درجے میں بہت کم لوگوں میں موجود ہوتے ہیں۔ تاہم ایسے ہی لوگ تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہوتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو حالات اور واقعات کا رخ موڑ دیا کرتے ہیں اور سیلاب کی طرح اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو خس و خاشاک کی مانند بہا کر لے جایا کرتے ہیں۔ یہ لوگ حالات کی ناہمواریوں اور نشیب و فراز کو کسی بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنی ڈگر پر چلتے رہتے ہیں اور منزل مقصود پر پہنچ کر ہی دم لیتے ہیں۔ تاریخ کے اندر جتنے بھی نمایاں نام ہمیں دکھائی دیتے ہیں۔ یہ سارے کے سارے وہی لوگ تھے جن کے اندر مذکورہ بالا چاروں عناصر اعلیٰ درجے میں موجود تھے۔ اس کے برعکس جن لوگوں میں یہ چاروں عناصر انتہائی نچلی سطح پر ہوتے ہیں وہ کیڑوں مکوڑوں کی طرح حقیر سی زندگی گزار کر گمنامی کے قبرستان میں دفن ہو جاتے ہیں۔ تاہم عام لوگوں میں یہ چاروں عناصر دونوں انتہاؤں کے درمیان کہیں پائے جاتے ہیں۔ کسی بھی شخصیت کی مضبوطی اور استحکام کا دارومدار اس بات پر ہے کہ اُس میں یہ چاروں عناصر کس درجے میں موجود ہیں۔ جس شخص میں یہ عناصر جتنے اونچے درجے میں موجود ہوں گے۔ وہ اندرونی و بیرونی طور پر اُتنا ہی مضبوط و مستحکم ہو گا اور جس میں یہ جتنے کم تر درجے میں ہوں گے اُس میں اُتنی ہی کمزوری اور عدمِ استحکام ہو گا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زندگی کی تمام جہتوں اور جملہ پہلوؤں پر زبردست طریقے سے اثر انداز ہونے والے اور شخصیت کے استحکام یا عدمِ استحکام میں اہم کردار ادا کرنے والے ان چاروں عناصر کا اپنا انحصار کس چیز پر ہے۔ وہ کون سی چیز ہے جو ان پر اثر انداز ہوتی ہے اور ان کو عروج یا زوال سے ہم کنار کرتی ہے۔ ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان چاروں عناصر کا دار ومدار اُس مرکز پر ہے جس کے گرد زندگی گھوم رہی ہو گی۔ مرکز سے مراد وہ بنیادی زاویہ نظر ہے جو ہماری شخصیت کے اندورنی حصے میں رچ بس گیا ہو اور ہماری پہلی ترجیح بن چکا ہو۔ جو کچھ بھی ہم اپنی زندگی کے دائرے کا مرکز و محور بنا لیں گے وہی کچھ ان چاروں عناصر پر بھی اثر انداز ہو گا اور ان کی ترقی و تنزلی میں اہم کردار ادا کرے گا۔ گو یا یہ صورتِ حال کچھ یوں بنتی ہے۔

(جاری ہے)