بیت اللہ شریف کا نورانی فیضان

علامہ محمد معراج الاسلام

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما راوی ہیں، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

يَنْزِلُ عَلٰی هذَا الْبِيتِ فِی کُلِّ يوْمٍ مِائَةٌ وَعِشْرُوْنَ رَحْمَة سِتُّوْنَ لِلطَّائِفِينَ وَاَرْبَعُوْنَ لِلْمُصَلِّينَ وَ عِشْرُوْنَ للناظرِينَ.

(شعب الايمان، بيهقی)

’’ہر روز بیت اللہ شریف پر ایک سو بیس رحمتیں نازل ہوتی ہیں، ساٹھ طواف کرنے والوں اور چالیس نماز پڑھنے والوں اور بیس زیارت کرنے والوں کے لئے‘‘۔

بیت اللہ شریف کیا ہے؟

مکہ شریف کی مسجد حرام کے وسط میں، کسی نگار دلنشیں کی طرح، بصد انداز محبوبی و زیبائی، سیاہ غلاف میں ملبوس ایک مسقف اور چوکور کوٹھا کھڑا ہے جیسے حریم قدس سے کوئی دلربا پیکر تراش کر یہاں بٹھا دیا گیا ہو اور وہ چاروں طرف دور و نزدیک اپنے نور کے جلوے بکھیر رہا ہو۔ اس کے ملکوتی روپ کی کشش کا یہ عالم ہے کہ ہجوم یاراں، کوچہ جاناں کا طواف کرنے والوں کی طرح، ہمہ وقت اس کے گرد پروانوں کی طرح محو خرام رہتا ہے۔ کیفیت یہ ہوتی ہے کہ کوئی حیرت و محبت سے اسے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا ہے، جیسے چاہت کے سمندر انڈیل کر، انوار سمیٹنا چاہتا ہو۔۔۔ کوئی گریہ و فغاں میں مصروف ہے۔۔۔ کسی کی زباں پہ تسبیح و تقدیس کے ترانے جاری ہیں۔۔۔ کوئی ادھر منہ کئے حالت رکوع میں ہے اور سبحان ربی العظیم کا ورد کر رہا ہے۔۔۔ کوئی زمین پہ سجدہ ریز ہے اور اپنے رب کے علو و کمال کا اعتراف کر رہا ہے اور قدرت و عظمت کے گیت گا رہا ہے۔

عاشقوں کے جھرمٹ میں شمع کی طرح گھرا ہوا یہ دلربا اور مرکزِ نگاہ کوٹھا ہی کعبہ شریف ہے، جسے بیت اللہ کہتے ہیں، پوری زمین پر یہ واحد جگہ ہے جسے اللہ پاک نے ’’بَیْتِیْ‘‘ یعنی ’’میرا گھر‘‘ کہا ہے، اس کی عظمت، قدر و منزلت اور مقام و مرتبے کو پہچاننے کے لئے یہ جلیل و مقدس نسبت ہی کافی ہے۔

اللہ تعالیٰ، مکان میں سمانے سے پاک ہے، کعبہ کو یہ نسبت اظہار عظمت کے لئے عطا کی گئی ہے اور یہ نام اس کے شکوہ و جلال اور خصوصی کمال کے بیان کے لئے ہے، ورنہ حقیقت میں یہ ساری قدر و منزلت اور عزت و عظمت اس جگہ اور فضا کی ہے جہاں یہ کعبہ بنایا گیا ہے۔ یہ جگہ مہبط انوار اور مرکز تجلیات ہے، یہاں ہر وقت انوار کی بارش ہوتی رہتی ہے، اگر یہاں در و دیوار نہ ہوتے تو بھی یہ جگہ کعبہ ہی ہوتی۔ جناب خلیل اللہ علیہ السلام سے پہلے جب یہاں کعبہ کے آثار و نشانات اور در و دیوار نہیں تھے، اس وقت بھی انبیاء کرام اس کا حج کرنے کے لئے آتے تھے اور ان وادیوں اور صحراؤں میں کعبہ کی خوشبو سونگھ لیتے تھے اور نورانی بصیرت سے اس کی سہانی فضاؤں، فردوسی بہاروں اور مقدس نظاروں کو دیکھ لیتے تھے۔ اس لئے راز کی بات یہ ہے کہ یہ جگہ منزلِ حُسن اور مرکزِ نور ہے اور در و دیوار، پتھر کی سلیں، کالا غلاف اور ایستادہ عمارت ایک پردہ ہے۔ اصل کعبہ وہ حسن و نور ہے جو اس میں جلوہ گر ہے اور اہل نظر اس کا مشاہدہ بھی کرتے ہیں، جیسا کہ مشہور ہے، جناب ابراہیم بن ادھم جب قدم قدم پر سجدہ کرتے، سالہا سال کی ریاضت کے بعد یہاں پہنچے تو صرف عمارت کعبہ کو دیکھ کر بے قرار و پریشان ہوگئے، وہ کشتہ عشق تھے، رو پڑے اور بولے : میرے مولی! میں اس محبت وریاضت کے ساتھ چلتا ہوا در و دیوار دیکھنے کے لئے تو نہیں آیا۔ چنانچہ انہیں حقیقت کعبہ اور اصل نور کا مشاہدہ کرا دیا گیا۔

بیت اللہ شریف کا نورانی فیضان

کعبہ شریف جہاں بنایا گیا ہے وہ پوری زمین کا وسط ہے، اس طرح وہ ایک مرکز کی صورت اختیار کرگیا ہے، جس کا تعلق پوری زمین کے ساتھ ہے اور اس کا رابطہ ہر جگہ کے ساتھ یکساں نوعیت کا ہے، جیسے نقطے کا اپنے دائرے کے ہر جز کے ساتھ یکساں تعلق ہوتا ہے۔ اس طرح کعبہ پوری زمین کے لئے فیض رساں ہے اور اپنے انوار ہر جگہ بکھیرتا اور پہنچاتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کو یہ حکم ہے کہ اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں تاکہ ان کی توجہ اس کی طرف ہو اور وہ دل و جاں سے ادھر متوجہ ہو کر اس سے فیض حاصل کر سکیں۔ چونکہ وہ مرکز نور و سعادت اور مصدر رحمت و برکت ہے، اس لئے اس کے ماننے والوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ دنیا کے جس حصے میں بھی ہوں، اس کا احترام کریں، اس کی طرف پشت یا منہ کر کے بول و براز نہ کریں، ادھر پاؤں نہ پھیلائیں، ادھر منہ کر کے نہ تھوکیں اور ہر طرح اس کا احترام ملحوظ رکھیں تاکہ اس کے نور کا باڑا انہیں بھی نصیب ہو اور وہ اس کے ہمیشہ جاری رہنے والے فیض و برکت سے بہرہ یاب ہوں۔

فیضان و نور کی یہ نعمت ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے، جنہیں اس کی طلب اور خواہش ہو، طلب صادق اور خواہش کے اظہار کا طریقہ یہ ہے کہ انسان کعبہ کی طرف منہ کر کے بیٹھے، اہل سعادت فرماتے ہیں کعبہ کی طرف متوجہ ہونے اور ادھر منہ کر کے بیٹھنے سے بگڑے کام سنور جاتے ہیں اور انسان کے کاموں میں برکت پیدا ہو جاتی ہے۔

امت کا دلنشین محبوب

صرف کعبہ ہی ایک ایسا محبوب ہے، جس کی محبوبیت اور دلربائی کا یہ عالم ہے کہ زمین کے ہر خطے پر رہنے والا صالح مسلمان اس کا نادیدہ عاشق ہے، اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی وجہ سے اس کی زیارت کے لئے بے قرار رہتا ہے۔ جو شخص جتنا زیادہ اطاعت گزار، صاحب بصیرت، تقوی شعار اور دین کا پیروکار ہو، وہ اتنا ہی زیادہ اس کا شائق و شیدا ہوتا ہے اور دل و جان سے اس کا احترام کرتا ہے اور اس کے انوار سمیٹنا چاہتا ہے۔

چنانچہ جنہیں اس کی پہچان ہوگئی تھی وہ اس کی دید کے لئے تڑپتے رہتے تھے اور چاہتے تھے اسے ایک نظر دیکھ لیں اور دل کو تسکین دیں۔ آج بھی جنہیں نگاہِ خاص اور نورانی بصیرت حاصل ہے، وہ اس کی زیارت کے لئے بے قرار رہتے ہیں اور جب قرب نصیب ہو جائے تو اسے زیادہ سے زیادہ طول دینا چاہتے ہیں تاکہ فیض کا تسلسل قائم رہے، چنانچہ کوئی حطیم میں اور کوئی کعبے کے سائے میں بیٹھنا پسند کرتا ہے، کوئی دیوار کے ساتھ چمٹ کر روتا رہتا ہے اور کوئی اپنی ہی دنیا میں گم اسے محبت اور پیار سے دیکھتا رہتا ہے۔

دلوں میں کعبہ کی فطری محبت

دور اول سے لے کر آج تک عشق کرنے کا یہ سلسلہ جاری ہے، اس کی چند مثالیں یہ ہیں :

1۔ ابتدائی دور میں اہل مکہ نے مسلمانوں کے لئے جینا دو بھر کر دیا تھا، چنانچہ وہ ان کے مظالم سے تنگ آ کر مدینہ شریف چلے گئے اور مستقل طور پر وہاں سکونت اختیار کر لی مگر وہ سرزمین کعبہ کو نہ بھول سکے۔ جب بھی انہیں مکہ اور کعبہ کی یاد آتی تو وہ اہل مکہ کو دوش دیتے اور دل ہی دل میں کوستے، جنہوں نے ان کو جلاوطن کر کے کعبہ کے قرب و دیدار سے محروم کر دیا تھا۔

حضرت بلال نے کعبہ کی جدائی کو کچھ زیادہ ہی محسوس کیا، وہ مدینہ شریف آ کر بیمار ہوگئے۔ جب بھی ہوش آتا تو یہ شعر پڑھنے لگ جاتے :

الا ليت شعری هل ابيتن ليلة
بواد وحولی اِذْخَرٌ وَجَلِيلٌ
وهل اَرِدن يوْمًا مِياه مَجِنَّة
وهل يبدون شامة وطفيل

’’اے کاش! مجھے پتہ چل جاتا کہ میں کبھی اس مقدس وادی میں بھی اب رات گزار سکوں گا یا نہیں، جس میں میرے اردگرد گھاس ہوتی تھی۔ اور کیا میں کسی روز ’’مجنۃ‘‘ کے چشمے پر بھی جا سکوں گا جو مکہ میں ہے؟ اور کیا میں اب ’’شامہ اور طفیل‘‘ کو بھی دیکھ سکوں گا، جو کہ کے پہاڑ ہیں‘‘۔

پھر مکہ کے سرداروں کو بد دعائیں دیتے۔

اللهم العن شيبه بن ربيعه وعتبه بن ربيعه وامية بن خلف کما اخرجونا من ارضنا.

(بخاری شريف،1 : 253)

’’اے اللہ! شیبہ اور عتبہ اور امیہ پر لعنت فرما کیونکہ انہوں نے ہمیں، ہماری پیاری سرزمین سے نکالا ہے‘‘۔

2۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی جب ہجرت فرمائی تو ایسے ہی جذبات کا اظہار فرمایا تھا اور سرزمین مکہ کو خطاب کر کے کہا تھا :

’’تو میرے لئے محبوب ترین زمین ہے، اگر قوم در پے آزار نہ ہوتی تو ہم تجھے کبھی بھی چھوڑنا گوارا نہ کرتے‘‘۔

3۔ محبت کی یہ دولت بعد والوں کو بھی وراثت میں ملی، چنانچہ مسلمانوں کے خورد و کلاں، بوڑھے جوان، بچیاں، خواتین، گدا و امیر، رعایا و بادشاہ، گناہگار اور اولیاء سب اس کے شائق و شیدا ہیں اور اسی کی دید و حاضری کو زندگی کی سب سے بڑی متاع تصور کرتے ہیں اور جو لمحات اس کی دید و زیارت اور دیدار و قرب میں گزریں، انہیں حاصل زیست سمجھتے ہیں، جیسے یہی لمحات زندگی ہیں، باقی زندگی جو گزری وہ کسی شمار و قطار میں نہیں۔

اولیاء کرام کی معرفت و بصیرت چونکہ غیر معمولی نوعیت کی اور عام لوگوں سے منفرد و فائق ہوتی ہے اور اس سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور اس کی حاضری و زیارت سے کبھی بھی غافل نہیں رہتے بلکہ روحانی قوت صرف کر کے اس تیزی اور کثرت سے وہاں آتے ہیں کہ عوام اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ یہ سب کچھ کعبہ کے ساتھ زبردست وابستگی اور اس کے ساتھ قلبی لگاؤ کا نتیجہ ہے۔

ابدال و اوتاد، اولیاء کرام کا ایک مخصوص گروہ ہے، ان کے بارے میں ہے :

لاتغرب الشمس من يوم الا ويطوف بهذا البيت رجل من الابدال، ولا يطلع الفجر من ليلة الا طاف به واحد من الاوتاد.

(احياء العلوم، 1 : 242)

’’کسی دن کا سورج غروب نہیں ہوتا، جب تک ’’ابدال‘‘ میں سے کوئی فرد اس کا طواف نہ کر لے اور کسی رات کی فجر طلوع نہیں ہوتی جب تک ’’اوتاد‘‘ میں سے کوئی فرد اس کا طواف نہ کرے‘‘۔

ولا شک فی تردد الاولياء اليها فی الاوقات الفاضلة فمن لمح احدهم اولمحه هو نال السعادة العظمی.

’’اس میں کوئی شک نہیں کہ اولیاء کرام مقدس مواقع پر یہاں آتے جاتے ہیں، چنانچہ جو انہیں دیکھ لے یا وہ کسی کو دیکھ لیں، وہ سعادت عظمی پا لیتا ہے‘‘۔

اسی لئے دانا لوگوں کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ دسویں تاریخ کو رمی کر کے فوراً مکہ مکرمہ آ کر کعبہ کے قریب حطیم میں بیٹھ جاتے تھے اور طواف کرنے والوں کو دیکھتے رہتے تھے تاکہ کسی ولی پر ان کی نظر پڑ جائے یا وہ ان کو دیکھ لے، اس طرح سعادت عظمیٰ نصیب ہو جائے۔

وجہ یہ کہ دسویں تاریخ کی رمی و قربانی کے بعد، طواف زیارت فرض ہے جس کے لئے لازمی طور پر مکہ مکرمہ آنا پڑتا ہے۔

و ورد انهم يحضرون الجمعة والاوقات الشريفة و يحجون کل عام.

(قطبی : 28)

’’یہ بھی وارد ہوا ہے کہ اولیاء کرام جمعہ کے روز اور خصوصی اوقات میں ضرور حاضر ہوتے ہیں اور حج تو ہر سال کرتے ہیں‘‘۔

حضرت عبداللہ بن صالح، کبار اولیاء کرام میں سے گزرے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ جو بھی عالی پایہ ولی ہے وہ جمعہ کی رات کو یہاں ضرور حاضری دیتا ہے، ایک دفعہ میں نے مالک بن قاسم کی زیارت کی، ان کے ہاتھ سالن میں لتھڑے ہوئے تھے، میں نے کہا :

کھانا کھاتے ہوئے آ رہے ہیں؟ وہ بولے :

’’میں نے آٹھ دن سے کچھ نہیں کھایا البتہ والدہ کو کھلا رہا تھا کہ کعبہ شریف میں حاضری کا وقت ہوگیا، اس لئے فوراً یہاں پہنچ گیا ہوں۔

میں نے پوچھا : آپ کتنی دور سے آ رہے ہیں؟

انہوں نے بتایا : ستائیس سو میل دور سے۔

4۔ کعبہ کے لئے یہ پیار اور جذبہ شوق صرف انسانوں ہی کے حصے میں نہیں آیا، بلکہ دوسری مخلوق، جنات، حیوان اور پرندے بھی، اس کے ساتھ اسی طرح والہانہ محبت کرتے ہیں۔

پرندوں کی یہ عادت ہے کہ وہ ہر عمارت پر بیٹھ جاتے ہیں۔ مگر کوئی پرندہ اور کبوتر کعبہ کی دیوار اور منڈیر پر نہیں بیٹھتا، مگر اڑتا ہوا آئے تو تیزی سے کعبہ کے گرد اس طرح ایک دو چکر لگاتا ہے، جیسے طواف کر رہا ہو۔ ابابیلیں سرعت رفتار کے ساتھ آتی ہیں اور طواف کے ایک دو یا زیادہ چکر پورے کر کے پھر فضا میں پرواز کر جاتی ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ کعبہ تمام مخلوق کا محبوب ہے اور قدرت نے سب کے دل میں اس کی چاہت اور عقیدت پیدا کر دی ہے۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ وہ ایک یکتا و فرزانہ عالمگیر محبوب ہے، ایک ایسا محبوب جسے ہر کوئی پیار سے دیکھتا اور اس کے گرد گھومتا ہے اور جوش جنوں میں اس کے ساتھ چمٹتا، بلکتا اور جدائی کے خوف و خیال سے گریہ زاری کرتا ہے، جیسے بچہ ماں کی گود میں پناہ لینے کے لئے بلکتا ہے اور جب ماں سینے سے چمٹائے تو اسے سکون آ جاتا ہے۔

نور کا سمندر

سمندر بے کنار ہوتا ہے، اس کی گہرائی کا بھی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، جو چیز اس کے اندر چلی جائے وہ گم ہو جاتی ہے۔ سمندر بڑا حوصلہ مند اور وسیع الظرف بھی ہوتا ہے، اس کے اندر تیرنے والی مخلوق اچھی بھی ہوتی ہے اور بدہئیت بھی اور اسی کے اندر غلاظت بھی بکھیرتی ہے، مگر وہ کسی بات کا برا نہیں مناتا، کوئی حرکت اسے گندا نہیں کرتی، وہ پاک ہی رہتا ہے اور اپنے پانی میں تیرنے اور اترنے والوں کو بھی پاک کر دیتا ہے۔

کعبہ شریف رحمت کا سمندر ہے، نور کے اس سمندر کا کوئی کنارہ نہیں، جب گنہگار اپنے بدہئیت باطن کے ساتھ گناہوں کی غلاظت لئے اس میں داخل ہوتے ہیں تو وہ سب غلاظت دھو دیتا ہے اور انسان اس طرح پاک ہو جاتا ہے جیسے ابھی پیدا ہوا ہے۔ کعبہ پر نازل ہونے والی رحمتیں اور اس کے در و بام پر ٹھاٹھیں مارنے والا نور، انسانوں کے گناہوں کو نیست و نابود کر دیتے ہیں اور آنے والے ناپاک گنہگار کو نہ صرف پاک کر دیتے ہیں بلکہ مقرب و مقبول بھی بنا دیتے ہیں۔