کامیاب لوگوں کی خصوصی عادات زندگی کا حقیقی نصب العین (قسط : 8)

شفاقت علی شیخ

قارئین کے پسندیدہ اس سلسلہ وار مضمون میں امریکن رائٹر ’’سٹیفن آرکووے‘‘ کی تحریر Seven Habits of highly efective people کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بیان کیا جا رہا ہے۔ کامیاب لوگوں کی خصوصی عادات میں سے پہلی عادت ’’ذمہ داری قبول کرنا‘‘ کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ماہنامہ منہاج القرآن ماہ جنوری، فروری، اپریل اور جون 2011ء کے شماروں میں شائع کیا گیا۔ کامیاب لوگوں کی دوسری عادت ’’انجام پر نظر رکھنا‘‘ کا پہلا اور دوسرا حصہ جولائی تا ستمبر کے شمارہ میں ملاحظہ کر چکے ہیں، جس میں معمولات زندگی میں اعتدال و توازن، درست سمت اور ترجیحات کا تعین، اعمال و نتائج، بے مقصدیت کے نقصانات، ذہنی منصوبہ بندی کی اہمیت، انسانی شخصیت کی تشکیل، عروج کا منہاج، باطنی افکار و خیالات کا تجزیہ، زندگی کے عناصر اربعہ (تحفظ، رہنمائی، بصیرت، طاقت)، ان عناصر اربعہ کے درجات و اثرات اور زندگی کے عمومی مراکز کے انسانی شخصیات پر اثرات کو بیان کیا گیا۔ اسی مضمون کا اگلا حصہ نذرِ قارئین ہے :

انسانی زندگی کو اپنے استحکام اور مضبوطی کے لیے کسی ایسے مرکز کی ضرورت ہے، جو ایک طرف اتنا جامع اور ہمہ گیر ہو کہ زندگی کی جملہ جہتوں پر بھرپور انداز میں اثر انداز ہو سکتا ہو اور اُن میں توازن و ہم آہنگی کی ضمانت فراہم کرتا ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اتنا ٹھوس، پائیدار اور ناقابلِ تغیر ہو کہ زندگی کے نشیب و فراز میں انسان کو قائم اور برقرار رکھ سکتا ہو اور زندگی کے ہر مرحلے میں انسان کو ایک مضبوط سہارا فراہم کر سکتا ہو۔ ایسا مرکز اس پوری کائنات میں صرف اور صرف ایک ہے اور اُس کا نام ہے!

اللّٰہ جل جلالہ

حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور علیہ السلام تک جتنے بھی انبیائے کرام آئے، اُن پر جو بھی کتابیں اور صحیفے نازل ہوئے، نیز اُن انبیائے کرام کی اپنی تعلیمات کا مرکزی نکتہ یہی رہا ہے کہ اللہ رب العزت کو زندگی کا مرکز اور نصب العین بنا لیاجائے۔ یہی وہ مرکز ہے جس کو پا کر زندگی سود و زیاں کے اندیشوں سے بہت بلند ہوجاتی ہے اور حوادثاتِ زمانہ کے تھپیڑوں میں پہاڑوں اور چٹانوں کی مانند ثابت قدمی اور استقامت کا پیکر بن جاتی ہے۔

وہ کلمہ طیبہ جسے پڑھ کر ایک شخص دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے اُس کا پہلا حصہ لا الہ الا اللہ ہے۔ جس کا ترجمہ عام طور پر ان الفاظ سے کیا جاتا ہے ’’ کوئی معبود نہیں ہے سوائے اللہ کے‘‘ لیکن مولانا جعفر شاہ پھلواری کے بقول لفظ ’’الٰہ‘‘ کا ترجمہ ’’معبود‘‘ سے کرنا، اس لفظ کو محدود کرنے کے مترادف ہے۔ اُنہوں نے دلائل و براہین کی روشنی میں بڑی وضاحت اور صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ اس لفظ کا حقیقی ترجمہ ’’نصب العین‘‘ بنتا ہے۔ چناچہ لا الٰہ الا اللہ کا معنیٰ ہوگا۔ ’’نہیں ہے کوئی نصب العین مگر اللہ‘‘۔ یہی وہ معنٰی ہے جو زندگی کی جملہ جہتوں کا احاطہ کرتا ہے۔ ویسے بھی اہلِ تصوف کے بقول عوام کے نزدیک لا الٰہ الا اللہ کا ترجمہ ہے’’نہیں ہے کوئی معبود مگر اللہ‘‘۔ لیکن خواص جب یہی کلمہ پڑھتے ہیں تو وہ اس کا مفہوم لیتے ہیں، لا مطلوب الا اللہ ’’نہیں ہے کوئی مطلوب سوائے اللہ کے‘‘ اور اخص الخواص جب یہی کلمہ پڑھتے ہیں تو اُن کے ذہن میں یہ مفہوم ہوتا ہے، لا موجود الا اللہ ’’نہیں ہے کوئی موجود سوائے اللہ کے‘‘۔

گویا عوام اس کلمہ کے ذریعے اللہ کے علاوہ کسی اور کے معبود ہونے کی نفی کرتے ہیں، مگر خواص (اولیائے کرام) اسی کلمہ کے ذریعے اللہ کے علاوہ کسی اور ہستی کے مطلوب و مقصود ہونے کی نفی کرتے ہیں، جب کہ اخص الخواص (کاملین و مقربین) اسی کلمہ کے ذریعے اللہ کے علاوہ ساری کائنات میں ہر وجود کی نفی کر دیتے ہیں۔

قرآن کریم کی روشنی میں

آئیے اب قرآنِ مجید سے پوچھتے ہیں کہ وہ اس سلسلے میں کیا کہتا ہے؟

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللّهِ أَندَاداً يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللّهِ وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَشَدُّ حُبًّا لِّلّهِ،

(البقرة، 2 : 165)

اور لوگوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو اﷲ کے غیروں کو اﷲ کا شریک ٹھہراتے ہیں اور ان سے”اﷲ سے محبت“ جیسی محبت کرتے ہیں، اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ (ہر ایک سے بڑھ کر) اﷲ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں،

یہاں افراد کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں :

1۔ وہ لوگ جو زندگی کا مرکز اللہ کے علاوہ اوروں کو بنا لیتے ہیں۔

2۔ وہ لوگ جن کی پہچان ہی یہ ہے کہ وہ اللہ سے ٹوٹ ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں۔ بالفاظِ دیگر اُن کی زندگی کا مرکز و محور اللہ ہوا کرتا ہے۔

قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَآؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّى يَأْتِيَ اللّهُ بِأَمْرِهِ وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَo

(التوبة : 24)

(اے نبی مکرم!) آپ فرما دیں: اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتاo

اس آیت میں اہلِ ایمان کو تنبیہ (warning) کی گئی ہے کہ اگر اُنہوں نے اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، نیز اللہ کی راہ میں جدوجہد کرنے کے مقابلے میں کسی بھی اور رشتے ناطے یا دنیوی متاع کو اپنا مطلوب و محبوب بنا لیا تو اُنہیں اللہ کے عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا اور اُن کا شمار نافرمانوں میں کیا جائے گا۔

زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاللّهُ عِندَهُ حُسْنُ الْمَآبِo

(آل عمران، 3 : 14)

لوگوں کے لئے ان خواہشات کی محبت (خوب) آراستہ کر دی گئی ہے (جن میں) عورتیں اور اولاد اور سونے اور چاندی کے جمع کئے ہوئے خزانے اور نشان کئے ہوئے خوبصورت گھوڑے اور مویشی اور کھیتی (شامل ہیں)، یہ (سب) دنیوی زندگی کا سامان ہے، اور اﷲ کے پاس بہتر ٹھکانا ہےo

یہاں بھی اللہ کے علاوہ چند اور مراکزِ حیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ بلا شبہ ان کی طرف رغبت و میلان انسانی فطرت کا حصہ ہے، لیکن یہ چیزیں مرکزِ حیات بنائے جانے کے قابل نہیں ہیں، کیونکہ یہ بہرحال دنیوی زندگی کا ساز و سامان ہی ہے اور دنیا خود دھوکے کا سامان ہے۔ اس کے مقابلے میں جو کچھ اللہ کے پاس ہے، وہ ان سب سے بہت بہتر ہے۔ مطلب یہی ہے کہ ان میں سے کسی بھی چیز، تعلق یا رشتے ناطے کو زندگی کا مرکز و محور نہیں بنانا چاہیے۔ ان سب کے مقابلے میں اللہ کی ذات ہی اس قابل ہے کہ اُسے اپنی تمام محبتوں، رغبتوں، چاہتوں اور ارمانوں کا مرکز بنایا جائے۔ قرآنِ مجید نے اُمتِ مسلمہ کو ملتِ ابراھیمی قرار دیتے ہوئے حضرت ابراھیم علیہ السلام کی زندگی کو بھی ہمارے لیے ایک نمونہ قرار دیا ہے۔ دوسری طرف قرآنِ مجید نے حضرت ابراھیم علیہ السلام کے عقیدے کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے :

إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِكِينَo

(الانعام : 79)

بیشک میں نے اپنا رُخ (ہر سمت سے ہٹا کر) یکسوئی سے اس (ذات) کی طرف پھیر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو بے مثال پیدا فرمایا ہے اور (جان لو کہ) میں مشرکوں میں سے نہیں ہوںo

مندرجہ بالا آیت میں حضرت ابراھیم علیہ السلام کتنے خوبصورت الفاظ میں اللہ کے سوا ہر غیر کی نفی کرتے ہوئے اپنے تمام تر خلوص اور وفاداریوں کا مرکز و محور فقط اللہ کی ذات کو بنا رہے ہیں۔ اس کو خدا رُخی زندگی کہتے ہیں کہ ہر غیر کی طرف سے توجہ ہٹا کر اللہ کو اپنی توجہات کا مرکز بنا لینا۔ اسی کی تعلیم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :

قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

(الانعام : 162)

’’فرما دیجیے کہ بے شک میری نماز اور میرا حج اور قربانی (سمیت سب بندگی) اور میری زندگی اور میری موت اﷲ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے‘‘۔

مندرجہ بالا آیت میں لفظ ’’صلوٰۃ‘‘ تمام بدنی عبادات کی نمائندگی کرتا ہے جب کہ لفظ ’’نسک‘‘ سے تمام مالی عبادات مراد ہیں اور ’’حیات اور ممات‘‘ کے دو الفاظ سے زندگی کی جملہ حرکات و سکنات مراد ہیں۔ یہ آیتِ کریمہ بندۂ مومن کو زندگی کا جو نصب العین دے رہی ہے وہ یہی ہے کہ اُس کی زندگی کی تمام چھوٹی بڑی سرگرمیوں (خواہ وہ کسی بھی دائرہ میں ہوں اور کسی بھی نوعیت کی ہوں) کا مرکز و محور صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات اور اُس کی رضا اور خوشنودی کی طلب ہونی چاہیے۔ زندگی کے اسی نمونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ اَحَبَّ لِلّٰه وَاَبْغَضَ لِلّٰه وَاَعْطٰی لِلّٰه وَمَنَعَ لِلّٰه فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِيْمَان.

’’ جس نے اللہ کی خاطر ہی کسی سے محبت کی اور اللہ کی خاطر ہی کسی سے نفرت کی اور اللہ کی خاطر ہی کسی کو دیا اور اللہ کی خاطر ہی کسی کو نہ دیا، تو اُس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا۔‘‘

گویاجب محبت و نفرت اور دیگر معاملات کا پیمانہ فقط اللہ کی ذات بن جاتی ہے اور اس کے علاوہ ہر غرض، طلب، تمنا اور چاہت کی نفی ہو جاتی ہے تو ایمان اپنے نکتۂ کمال کو پہنچ جاتا ہے اور انسان ایمان کی حقیقی لذتوں اور کیف و سرور سے آشنا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے بقول زندگی کی دو قسمیں ہیں :

  1. ’’لوجہ اللہ‘‘
  2. ’’لوجہ النفس‘‘

اول الذکر زندگی وہ ہے جس کا کھانا پینا، سونا جاگنا، چلنا پھرنا، ہنسنا رونا حتیٰ کہ جینا مرنا فقط اللہ کے لیے ہو جاتا ہے، جب کہ مؤخر الذکر زندگی میں ان ساری چیزوں کا مرکز و محور نفس کی خواہشات ہوتی ہیں۔

اول الذکر زندگی ہی حقیقی معنوں میں مومنانہ زندگی ہے، جب کہ مؤخر الذکر زندگی کافرانہ یا کافرانہ روش کے قریب ہے۔ گویا شیخ الاسلام کے نزدیک بندۂ مومن کی زندگی کو فقط ’’لوجہ اللہ‘‘ہونا چاہیے۔

ہمارے عہد کے ایک اور دانشور پروفیسر احمد رفیق اختر (گوجر خاں والے) اس مقصد کے لیے جو اصطلاح استعمال کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ’’ اللہ کو اپنی ترجیح اول بنا لینا‘‘۔ اُن کے مطابق جب تک انسان اپنی ترجیحات کی فہرست میں سب سے پہلے درجے میں اللہ کو نہیں رکھتا، تب تک وہ جو مرضی کرتا رہے اللہ کو نہیں پا سکتا۔ اللہ کو پانے کی بنیادی شرط ہی یہ ہے کہ اللہ انسان کی پہلی ترجیح بن جائے اور باقی ہر چیز اُس کے نیچے ہو۔ اس کا بھی دوسرے لفظوں میں مطلب یہی ہے کہ زندگی کا مرکز و محور اور نصب العین اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہونا چاہیے۔

مولانا روم نے اسی بات کو اپنے شعر میں یوں بیان فرمایا :

چیست دنیا؟ از خدا غافل بدن
نے قماش و نقرہ و فرزند وزن

’’دنیا کیا ہے؟ ہر وہ چیز جو بندے کو خدا سے غافل کردے۔ ذریعہ معاش، سونا چاندی اور بیوی بچوں میں سے کوئی چیز بھی دنیا نہیں ہے‘‘۔

قرآن و حدیث میں جا بجا دنیا کی محبت کی مذمت کی گئی ہے۔ مولانا روم نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ پہلے سوال اُٹھایا کہ جس دنیا کی مذمت کی جاتی ہے وہ ہے کیا؟ پھر خود ہی اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ہر وہ چیز جو انسان کو خدا کی یاد سے غافل کر دے اور اُس کی محبت و طلب انسان پر اتنی چھا جائے کہ اللہ کی طلب و تمنا پسِ پشت چلی جائے تو وہ دنیا ہے۔ دنیا کا مال و دولت اور بیوی بچوں میں سے کوئی چیز بھی بذاتِ خود دنیا نہیں ہے، مگر ان میں جس چیز کو بھی انسان اپنی زندگی کا مرکز و محور بنا لے گا اور اللہ کی یاد اور اُس کی چاہت کو پسِ پشت کرنے کا ذریعہ بن جائے تو وہی دنیا ہے اور قابلِ مذمت ہے۔ اسی نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن نے کہا :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ

(التغابن : 14)

’’اے ایمان والو! بے شک تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں پس اُن سے ہوشیار رہو‘‘۔

عارفِ رومی کے مریدِ ہندی علامہ اقبال نے مندرجہ بالا مفہوم کو اپنے الفاظ میں یوں بیان فرمایا :

یہ مال و دولتِ دنیا یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں لا الہ الا اللہ

دنیا کا مال و دولت اور رشتے ناطے سب وہم و گماں کے بت ہیں۔ کائنات کے اندر اگر کوئی حقیقت ہے اور دل لگائے جانے کے قابل ہے تو وہ فقط اللہ کی ذات ہے اور اس مفہوم کی تائید بھی خود قرآنِ مجید سے ہوتی ہے :

كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ o وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ o

(الرحمن : 26-27)

’’ہر کوئی جو بھی زمین پر ہے فنا ہو جانے والا ہے اور آپ کے رب ہی کی ذات باقی رہے گی جو صاحبِ عظمت و جلال اور صاحبِ انعام و اکرام ہے‘‘۔

مندرجہ بالا ساری گفتگو کا خلاصہ یہی ہے کہ اس کائنات میں فقط ایک ہی ہستی ہے جو انسانی زندگی کا مرکز و محور بن سکتی ہے، اس کے علاوہ انسان جس بھی رشتے ناطے یا چیز کو زندگی کا مرکز و محور بنائے گا، وہ سوائے سرابوں اور فریبوں میں بھٹکنے کے اور کچھ بھی نہیں ہوگا۔

تعلق باللہ کے فوائد و ثمرات

اللہ رب العزت کی ذات کو زندگی کا نصب العین اور مطلوب و مقصود بنا لینے کے جو بے شمار فوائد حاصل ہوئے ہیں، اُن میں سے تین نمایاں ترین فوائد درج ذیل ہیں :

1۔ ثبات و استحکام : (Stability)

اللہ رب العزت کو زندگی کا مرکز بنا لینے کی صورت میں زندگی کو ثبات اور استحکام میسر آ جاتا ہے جو کہ کسی بھی اور طرح نہیں آ سکتا۔ جب یہ یقین انسان کے قلب و باطن میں اُتر جاتا ہے کہ اُس نے اُس ہستی کو تھام رکھا ہے، جو ساری کائنات کی خالق و مالک ہونے کے ساتھ ہر قسم کی قدرتوں، عظمتوں اور رفعتوں کی مالک ہے۔ نیز وہ اپنے بندوں کے ساتھ حد درجہ مہربان بھی ہے، تو یہ یقین انسان کو سراپا اطمینان و سکون بنا دیتا ہے۔ اُس کے دل و دماغ سے ہر قسم کے ڈر، خوف، وہم، وسوسے، منفی اور تخریبی خیالات اس طرح غائب ہو جاتے ہیں۔ جیسے سورج کے نکلنے پر رات کی تاریکی ختم ہو جایا کرتی ہے۔ نتیجۃ زندگی انتشار و پراگندگی سے نجات پا جاتی ہے اور اُس میں یکسوئی، ثبات، استحکام اور قرار آ جاتا ہے، جو زندگی کی ترقی، ارتقاء اور عروج کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

2۔ لامحدودیت : (Unlimitedness)

اللہ رب العزت کی ذات لا محدود ہے اور ہر قسم کی حد بندیوں اور حدود و قیود سے ماوراء ہے۔ اُس نے انسان کے اندر اپنی روح پھونک کر اور اُس کے سر پر اپنی خلافت و نیابت کا تاج سجا کر اُس کے اندر بھی لامحدود امکانات کی ایک دنیا رکھ دی ہے۔ مگر ان امکانات کے عملی طور پر معرضِ وجود میں آنے کی شرط یہ ہے کہ انسان کا اپنے بنانے والے سے مضبوط رابطہ قائم ہوجائے۔ چناچہ جب انسان اللہ رب العزت کی ذات کو اپنا منتہائے مقصود بنا لیتا ہے تو پھر اس کے پھیلنے اور ترقی کرنے کے امکانات بھی لا محدود ہو جاتے ہیں اور اُ س کی صلاحیتوں اور طاقتوں کا عالم یہ ہو جاتا ہے کہ حدیثِ قدسی کے مطابق اللہ تعالیٰ اُس بندے کی سماعت، بصارت اور ہاتھ پاؤں بن جاتے ہیں۔ یعنی اُس کے اعضاء میں خدائی طاقتیں جلوہ گر ہوجاتی ہیں، جن سے وہ زمان و مکاں کی حدود سے آزاد ہو جاتا ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے کلام میں جابجا بندۂ مومن کی ان طاقتوں اور قدرتوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ مثلاً ایک مقام پر فرماتے ہیں :

ہفت کشور جس سے ہوں تسخیر بے تیغ و تفنگ
تو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے

اسی طرح ایک اور مقام پر انسانی عظمتوں اور رفعتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

در دشتِ جنوں من جبریل زبوں صیدے
یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ

’’میرے عشق و جنوں کے جنگل میں جبرئیل علیہ السلام جیسے عظیم الشان فرشتے کی حیثیت بھی ایک شکار کی ہے۔ اے ہمتِ مردانہ! ایک قدم اور بڑھا، تو خدا بھی کمند میں آ سکتا ہے‘‘۔

یہاں دوسرے مصرعے میں جو بات کہی گئی وہ تقریباً وہی ہے جو مندرجہ ذیل حدیث میں بیان ہوئی :

مَنْ کَانَ لِلّٰه کَانَ اللّٰه لَه.

’’جو اللہ کا ہو جاتا ہے تو اللہ اُس کا ہو جاتا ہے۔‘‘

الغرض جب زندگی کا مرکز و محور اللہ رب العزت کو بنا لیا جاتا ہے تو پھر انسانی زندگی کے عروج اور ارتقا کے لامحدود امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔

3۔ توازن و ہم آہنگی (Balanceness)

اللہ رب العزت کو مقصودِ حیات بنا لینے سے جو تیسری عظیم الشان نعمت انسان کو میسر آ جاتی ہے، وہ ہے زندگی کی تمام جہتوں میں توازن اور ہم آہنگی کا پیدا ہو جانا۔ زندگی کا سارا حسن اور خوبصورتی اُس کے متوازن ہونے میں ہی ہے اور زندگی کے اندر مکمل توازن اللہ کو مرکز بنائے بغیر کسی بھی قیمت پر نہیں آ سکتا، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ایک خوبصورت قول کا مفہوم یہ ہے :

’’عقل مند وہ ہے جو چیزوں کو اُن کے مقام پر رکھے۔‘‘

چنانچہ کامیاب زندگی بھی وہی ہوتی ہے جس میں ہر چیز اپنے مقام پر ہو اور اُسے اُتنی ہی اہمیت دی جا رہی ہو جتنی فی الواقع ہے۔ نہ اُس سے کم نہ زیادہ۔ لیکن ایک عام انسان کا حال یہ ہوتا ہے کہ کسی مرحلے میں وہ کسی ایک چیز کو زیادہ اہم سمجھ کر اُس کی طرف جھک جاتا ہے اور کبھی کسی دوسری چیز کو زیادہ اہمیت دیتے ہوئے اپنی توجہ کا رُخ اُس طرف موڑ لیتا ہے۔ کبھی ایک مسئلے کو سر پر سوارکر لیتا ہے اور کبھی دوسرے کو۔ اس طرح زندگی عدمِ توازن اور افراط و تفریط کا شکار ہو کر اپنے حقیقی کمال کو پانے سے محروم رہ جاتی ہے۔ جو زندگی بے چاری خود ہی ڈانواں ڈول ہوگی وہ انسان کو کس منزل پر پہنچا سکے گی؟ لیکن جب زندگی کا مرکز و محور اللہ کو بنا لیا جاتا ہے اور باقی تمام سرگرمیاں اُس مرکز کے گرد گھوم رہی ہوتی ہیں تو پھر زندگی کو صحیح معنوں میں توازن میسر آ جاتا ہے اور ہر چیز عین اُسی مقام پر ہوتی ہے، جس پر اُسے ہونا چاہیے۔ نہ تو کسی بھی چیز کو اُس کی حیثیت سے زیادہ اہمیت دے کر سر پر سوار کر لیا جاتا ہے اور نہ ہی کسی چیز کو خواہ مخواہ کم اہم سمجھتے ہوئے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح زندگی کا نقشہ کچھ یوں بنتا ہے۔

مندرجہ بالا نقشے میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ جب زندگی کا مرکز و محور اللہ بن جاتا ہے تو پھر باقی ہر چیز کی قدر و قیمت اُسی کی نسبت سے متعین ہوگی۔ اللہ کو اپنا مقصود بنا لینے والا کوئی بھی شخص دوسری کسی بھی چیز کو وہی مقام دے گا جو اللہ تعالی نے اُس کے لیے متعین کیا ہوگا۔ وہ کسی بھی چیز کو اُس کے حقیقی مقام و مرتبے سے زیادہ یا کم اہمیت دینے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ دونوں صورتوں میں اُسے یہ اندیشہ ہو گا کہ اُس کے نصب العین (اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی اور اُس کے قرب کا حصول) کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ نیز دنیا کے تمام رشتوں، ناطوں، تعلقات اور تمام سرگرمیوں کی بنیاد میں اُس کی خواہش صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی محبت و معرفت اور اُس کی خوشنودی ہی ہوگی۔ اس کے علاوہ کوئی اور غرض و غایت نہیں ہو گی۔ یہی ایمان کا کمال، بندگی کی روح اور اخلاص کی جان ہے۔ یہیں سے دین، دنیا اور آخرت کی جملہ کامیابیوں، کامرانیوں اور سعادتوں کے حصول کا آغاز ہوتا ہے اور یہی تحریکِ منہاج القرآن کا پیغام بھی ہے۔

تحریک منہاج القرآن اور حقیقی نصب العین

تحریکِ منہاج القرآن ’’بیداری شعور‘‘ کی جس عظیم الشان کام کو تحریک کے طور پر جاری رکھے ہوئے ہے، اُس کا پہلا نکتہ ہی یہ ہے۔ ’’ اللہ کی بندگی اور عبادت کو اخلاص اور للّٰھِیَّت تک لے کر جانا‘‘۔

مطلب یہ کہ زندگی سر سے لے کر پاؤں تک بندگی کی چلتی پھرتی عملی تصویر بن جائے۔ اس طرح کہ انسان کے جملہ اعمال و افعال اور حرکات و سکنات میں سے ذاتی اغراض و مقاصد، نفس کی خواہشات و داعیات اور لوگوں کی رضا و خوشنودی جیسی تمام چیزیں نکل جائیں اور ہر کام کا منتہائے مقصود فقط اللہ کی ذات بن جائے۔ یہ وہی بات ہے جو قرآنِ مجید میں ان الفاظ میں کہی گئی۔

وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ

(البينة : 5)

’’حالانکہ انہیں فقط یہی حکم دیا گیا تھا کہ صرف اسی کے لیے اپنے دین کو خالص کرتے ہوئے اﷲ کی عبادت کریں، (ہر باطل سے جدا ہو کر) حق کی طرف یکسوئی پیدا کریں‘‘۔

کسی بھی معاشرے میں اصلاحِ احوال کا جو بہترین نکتۂ آغاز ہو سکتا ہے وہ یہی ہے کہ سب سے پہلے افرادِ معاشرہ کے اللہ کی ذات کے ساتھ تعلق بندگی کو رسمی دائرہ سے نکال کر ایک حقیقی، پائیدار، مضبوط و مؤثر اور زندہ و جاوید تعلق میں تبدیل کیا جائے کہ اللہ انسان کے دل کی دھڑکنوں میں شامل ہو جائے۔۔۔ اُس کی سانسوں میں سما جائے۔۔۔ اور اُس کی اُمیدوں و اندیشوں کا مرکز و محور بن جائے ۔۔۔ یہی پیغمبرانہ منہاج بھی ہے۔

اس حوالے سے قائدِ تحریک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی فراست یقیناً خراجِ تحسین کی مستحق ہے کہ اُنہوں نے اس حوالے سے بہترین نکتۂ آغاز کو اپنایا ہے۔ اس نکتے کو نظر انداز کرتے ہوئے بیداری شعور اور اصلاحِ معاشرہ کی جو کوششیں بھی ہوں گی، اُن سے حوصلہ افزاء نتائج کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔

( بیداری شعور تحریک کل چار نکات پر مشتمل ہے جن میں دینِ اسلام کی روح کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ سمو دیا گیا ہے۔ ان نکات کی مختصر تشریح ’’القرآن‘‘ کے عنوان کے تحت ماہ ستمبر کے شمارہ میں گزر چکی ہے)

(جاری ہے)