ترکی میں تحریکِ احیائے اسلام مذہبی کارکنان کیلئے ایک دلچسپ تاریخی مطالعہ

حصہ دوم
ڈاکٹر علی اکبر الازہری

گذشتہ قسط میں ہم نے اسلامی ملک ترکی کی تاریخی اور جغرافیائی اہمیت کے کچھ پہلو آپ کے سامنے رکھے تھے۔ خصوصاً خوش عقیدہ ترک مسلمانوں کا دین کے ساتھ گہرا تعلق ہمارے قارئین کے لئے خاصی دلچسپی کا باعث بنا، کیونکہ عمومی طور پر اہل اسلام ترکی کو ایک عرصے سے سیکولر ملک سمجھتے آئے ہیں اور ترک مسلمانوں کے متعلق بھی ان کا خیال یہی ہے۔ ثانیاً چونکہ ہمیں حکومتی ذرائع سے حکومتی تاریخ کا علم تھا۔ اس لئے ترک انقلاب کا نام نہاد ہیرو جو فی الاصل دین دشمن استعماری طاقتوں کا ایجنٹ تھا، ہمارے ہاں قائد اعظم کی طرح نئے ترکی کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں جن شخصیات نے وہاں جانوں کی قربانیاں دے کر دین کی حرمت اور شناخت قائم رکھی ہم ان کا نام بھی نہیں جانتے۔

ذیل میں ہم اسی بطل جلیل کا ذکر خیر کر رہے ہیں، جس کے دم قدم سے آج وہاں کے چمنستانِ اسلام میں بہاریں لوٹ آئی ہیں۔ جن کے بوئے ہوئے بیج آج تناور درخت بن چکے ہیں اور ان کے ثمرات سے نہ صرف ترکی بلکہ پورا عالم اسلام مستفیض ہو رہا ہے۔ میری مراد بیسویں صدی عیسوی کے عظیم ترین مسلمان مفکر، دانشور، مجاہد، صوفی اور مفسر جناب حضرت بدیع الزماں سعید نورسی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نبوت اور صحابیت کے علاوہ اس مرد وفا شعار کے لئے ہرالقاب اس کے مقام و مرتبے سے کم ہیں۔

ہاں قارئین! آپ اس مردِ حق سے شاید پہلی مرتبہ شناسائی حاصل کر رہے ہوں گے، اس میں تعجب کی بات نہیں۔ میں بھی آج سے چھ ماہ قبل ان کے متعلق کچھ نہیں جانتا تھا۔ یہ تو اللہ بھلا کرے میرے اس ترکی دوست ’’محمد معشوق‘‘ جو حرم کعبہ میں مجھے عمرے کے دوران ملا اور پانچ منٹ میں گہری دوستی ہوگئی۔ انہوں نے پہلی بار مجھے اس عظیم شخصیت سے متعارف کروایا۔ یہ تعارف محبت کی سیڑھی کے ذریعے جب علم و تحقیق کی وادیوں میں اترا تو میرے سامنے ایک لامتناہی سمندر موجزن تھا۔ یہ اسی محبت کا معجزہ تھا کہ میں صرف دو ماہ بعد ہواؤں کے دوش پر اڑتا ہوا زندہ دلوں کے شہر لاہور سے آستانۂ خلافت، شہروں کے سردار اور اسلام کی عظمت کے امین استنبول شہر میں جا اترا۔ وہ استنبول جس کی پیشانی پر پانچ سو سالہ خلافت عثمانیہ کی عظمتوں کے ہزاروں نشان پیوستہ ہیں۔۔۔ جس کے سینے میں حضرت ایوب انصاری سے لے کر سلطان محمد فاتح اور ان کے قابل فخر فرزندانِ اسلام کی عزیمت و بہادری کے ان گنت راز پوشیدہ ہیں۔۔۔ وہ استنبول جس کے چمکتے شفاف پانیوں میں آج بھی مسجد سلطان احمد، مسجد ایا صوفیہ، مسجد سلیمانیہ، مسجد بایزید اور مسجد سیدنا ابو ایوب کے خوبصورت میناروں کا عکس اسلام کی عظمت رفتہ کی تصویر کشی کرتا نظر آتا ہے۔۔۔ وہ استنبول جس کی فضائیں تمام تر قدرتی اور انسانی زیبائش و آرائش کے باوجود آج تک اداس، فراق میں مضطرب اور پریشان ہیں، کیونکہ اس شہر کے نیل گوں شفق میں مسلمانوں کا 12 سو سالہ سیاسی استحکام کا سورج ڈوب گیا تھا۔ جس طرح اسلامی تاریخ نے وہ لمحات فراموش نہیں کیے، جب سپین کے آٹھ سو سالہ شاندار اقتدار کے خاتمے پر خانہ جنگی کے نتیجے میں رخصت ہونے والا معزول بادشاہ عبد اللہ، جبل طارق کے دامن میں کھڑا رو رہا تھا اور بے بسی کی تصویر بن کر مسلمانوں کے ماضی اور اپنے حال پر آنسو بہا رہا تھا۔ اس کی ماں نے بلند آواز میں اسے ایک سبق آموز بات کی تھی جو آج تک جبر الٹر کے ساحلوں سمیت قرطبہ اور غرناطہ کے درو دیوار سے ٹکرا رہی ہے۔ اس نے کہا تھا :

’’اگر تم نے مردوں کی طرح بہادری اور فرض شناسی کے احساس کے ساتھ حکومت کی ہوتی تو آج یہاں تمہیں عورتوں کی طرح رونا نہ پڑتا، کاش! تم لوگوں نے آپس میں جھگڑ جھگڑ کر خود کو کمزور نہ کیا ہوتا اور اپنی اس جنگ میں غیروں کو مداخلت کا موقع نہ دیا ہوتا۔‘‘

قدرت نے سپین کی محرومی کے بدلے میں ایک طرف مسلمانوں پر ہندوستان اور دوسری طرف قسطنطنیہ کے دروازے کھول دئیے۔ بالآخر ہندوستان میں طویل دورِ اقتدار آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی معزولی پر ختم ہوگیا اور استنبول سے عثمانی خلافت کا سنہری دور سلطان وحد الدین کی رخصتی پر منتج ہوا۔ اگرچہ سقوط غرناطہ اور سقوط دھلی کی طرح سقوطِ استنبول بھی انگریزوں کی ریشہ دوانیوں سے عمل میں آ رہا تھا، مگر یہاں خلافت کی قبا کو چاک کرنے میں دین دشمن مغربی طاقتوں سے زیادہ سازشی کردار خود مصطفی کمال اور اس کے ساتھیوں نے ادا کیا۔ یہی وجہ تھی کہ شاعرِ اسلام علامہ اقبال نے اس موقع پر پورے عالم اسلام کی نمائندگی کرتے ہوئے یہ نوحہ رقم کیا :

سازِ عشرت کی صدا مغرب کے ایوانوں میں سن
اور ایراں میں ذرا ماتم کی تیاری بھی دیکھ
چاک کر دی ترکِ ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ، اوروں کی عیاری بھی دیکھ

برصغیر کے مسلمان جب اقبال اور قائد اعظم کی قیادت میں سقوط دہلی کی تلافی قیام پاکستان کی صورت میں کرنا چاہتے تھے تو اسی دور میں انا طولیہ (ترکی کا قدیم نام) کی ہزار سالہ اسلامی ثقافت اور تاریخ کی حفاظت کا بیڑا اکیلے بدیع الزماں سعید نورسی نے اُٹھایا، جو حسنِ اتفاق سے ان کے ہم عمر اور ہم عصر تھے۔

یہ کتنی عجیب بات ہے کہ اسی دور میں اقبال (مرید ھندی) ترکی کے پیرِ روم رحمۃ اللہ علیہ سے فکری اور روحانی رہنمائی لے رہے تھے اور سعید نورسی تاجدارِ ہند امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات سے اکتساب فیض کر رہے تھے، مگر دونوں ہم عمر، ہم فکر اور ہم مشرب شخصیات کے درمیان تقریباً اجنبیت کے پردے حائل رہے۔

یہاں ہم ان دونوں خطوں میں جاری جدوجہد کا ایک اور پہلو بھی آپ کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں، جو سعید نورسی کی کاوشوں کو سمجھنے میں زیادہ مددگار ہوگا۔ اس میں شک نہیں کہ برصغیر میں مسلمانوں کو انگریزوں اور ہندؤں سے بیک وقت مقابلہ کرنا پڑ رہا تھا۔ مگر بوجوہ یہاں نوبت نہیں آئی کہ کلمہ گو مسلمانوں کو اللہ کا نام لینے سے روک دیا جاتا۔۔۔ مسجدوں پر تالے اور شعائر اسلام کی حکماً توہین کی جاتی۔۔۔ اسلامی شریعت کی پاسداری کا اعتراف، پھانسی کے لئے اقبالِ جرم سمجھا جاتا۔۔۔ اور آئین سے لے کر زبان کے رسم الخط تک ہر چیز مغربیت اور سیکولر ازم میں ڈھال دی جاتی۔ وہ حالات یہاں چونکہ پیدا ہی نہیں ہوئے۔ اس لئے ان مسائل سے نبٹنے کے لئے اہل ایمان کا امتحان بھی ہمارے ہاں اس طرح نہیں لیا گیا۔

اس کے برعکس ترکی میں جب ہم پس دیوارِ زنداں دیکھتے ہیں تو ہمیں سقوط خلافت کے بعد نصف صدی تک انتہائی کربناک حالات و واقعات کا تسلسل نظر آتا ہے۔ 1924ء کے بعد بظاہر حکومت مسلمانوں کی تھی اور ترکی نے خوشحالی کا سفر بھی جاری رکھا، مگر درون خانہ احیائے اسلام کی تحریک جن خطرناک ادوار سے گزرتی رہی، اس کا ہم پاکستان کے لوگ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ جدید سیاسی انقلاب کے بعد ترکی میں آنے والی منفی تبدیلیوں کا سرسری تذکرہ ہم نے گذشتہ قسط میں کر دیا ہے۔ اس لئے ان حالات کو یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں۔

اقبال اور قائد اعظم تحریک پاکستان کے دوران بڑے بڑے اجتماعات سے خطاب کرتے رہے، خواص و عوام سے ملتے رہے، نہ ان سے ملنے والوں کو حکومتی غضب کا نشانہ بنایا جاتا تھا اور نہ ہی ان قائدین پر کہیں آنے جانے کی پابندی تھی۔ مگر ترکی میں نورسی صاحب کو قدم قدم پر پابندیوں اور بے پناہ دباؤ کا سامنا تھا۔ زندگی کے آخری 35 سال تو انہوں نے شدید تکلیف میں گزارے۔ جناب سعید نورسی سے تعلقِ عقیدت و محبت سیدھا سزائے موت اور پھانسی کا موجب تھا۔ ان پر بے شمار مرتبہ ’’ آئین اور قانون‘‘ کی مخالفت پر جو مقدمات قائم کئے گئے اور انہیں یکے بعد دیگر جیل خانہ جات کا سامنا رہا، ان میں سے بیشتر مقدمات کا تعلق صرف اس بات سے تھا کہ وہ سیکولر آئین کے ہوتے ہوئے اسلام کے عقیدہ عمل کا تحفظ کر رہے تھے؟ ان پر تین سال تک چلنے والا ایک مقدمہ صرف اس جرم پر قائم کیا گیا تھا کہ انہوں نے کسی رسالے میں اللہ تعالیٰ کے وجود پر عقلی اورعلمی دلائل دیئے تھے۔ اسی طرح ان کے وفا شعار تلامذہ پر ترکی کے ہر علاقے میں جو مقدمات قائم کئے گئے، وہ اسی بنیادی ’’جرم‘‘ کی وجہ سے تھے کہ وہ لوگ اشاعت اور خدمت اسلام کی جدوجہد میں نورسی کا ساتھ کیوں دیتے ہیں؟

یہ تعارفی اور ضمنی تمہید تھوڑی طویل ہوگئی ہے، اس لئے ہم واپس اپنے اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہیں اور وہ ہے سعید نورسی کے مختصر حالاتِ زندگی اور ان کی کاوشوں کا بالترتیب تذکرہ فی نفسہ یہ کئی ضخیم کتب کا موضوع ہے۔ مگر تنگ دامانی صفحات کے پیش نظر یہاں ہم انتہائی اختصار سے کام لیں گے :

خاندانی پس منظر، ولادت اور نام

سعید نورسی کے آباؤ اجداد کو دنیوی پیمانوں پر رکھ کر دیکھا جائے تو وہ نہ تو قابل ذکر ہیں اور نہ قابل فخر۔ مگر ان کی دین داری، خاندانی شرافت اور روحانیت سے گہرا تعلق ایسے معیار ہیں کہ انہیں بجا طور پر غیر معمولی کہا جا سکتا ہے۔ ان کے والد ’’صوفی مرزا‘‘ (جیسا کہ نام سے ظاہر ہے) ایک درویش منش شخص تھے، جو اپنے دور کے معروف بزرگ ’’غوث خزان‘‘ سے روحانی نسبت رکھتے تھے، جبکہ آپ کی والدہ ماجدہ بھی علاقے کے علمی اور روحانی خانوادے سے تعلق رکھتی تھیں۔

مشرقی ترکی کے قصبے تبلس کے نواح میں نورس نامی گاؤں میں اس خاندان کے ہاں 1878ء میں ایک بچہ پیدا ہوا، جس کا نام انہوں نے سعید رکھا، اسی گاؤں کی نسبت سے آگے چل کر یہی بچہ سعید نورسی کہلایا۔ سعید نورسی چونکہ خداداد غیر معمولی ذہانت و فطانت کا مالک تھا، اس لئے اس نے وہ علوم و فنون جو عام لوگ دس بارہ سالوں میں مکمل کرتے ہیں، صرف چند سال میں نہ صرف پڑھ لیے بلکہ ان سے متعلقہ علوم کے بارے میں قدرت کی طرف سے انہیں شرح صدر بھی حاصل ہوگیا۔ وہ 13 سال کی عمر میں متبحر عالم کی حیثیت سے ہر دینی مسئلے پر بحث کر سکتے تھے۔ ان کی اس ذہانت اور فہم علوم کا چرچا علاقے بھر میں پھیل گیا۔ علماء و مشائخ نے حیرت و استعجاب کی حالت میں ان سے امتحانات لئے، ادق مسائل پر گفتگو کی اور کم عمر سعید نے جب ان کی توقع کے برعکس تسلی بخش جوابات دیئے تو انہیں ’’بدیع الزماں‘‘ (یعنی ایسا فرد جو اپنے عہد میں اپنی کوئی مثال نہ رکھتا ہو) کہا جانے لگا۔ بعد میں یہ لقب ان کے نام کا حصہ بن گیا۔ تبحرِ علمی کی وجہ سے انہیں لڑکپن میں ہی’’ملّاسعید نورسی‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ ’’ملّا‘‘ بڑے عالم دین کو کہا جاتا تھا، جو آج کل ہمارے ہاں معنویت کھو کر کلمہ تحقیر بن چکا ہے۔

پیدائش سے پہلے پیشن گوئیاں

قدرت جن لوگوں سے بڑا کام لیتی ہے ان کے مقام و مرتبے کو بھی بلندیوں سے نوازتی ہے۔ یہ مرتبہ دولت و ثروت یا جاہ و منصب سے نہیں، بلکہ علمی و روحانی بلندیوں کے باعث نصیب ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کے چرچے بعد میں تو ہوتے ہی ہیں تاہم بعض اوقات ان کی پیدائش سے قبل بھی کئی اہل بصیرت و روحانیت ان کی خبریں دے دیتے ہیں۔ اس کی کئی ایک مثالیں مستند کتب میں موجود ہیں۔ جناب سعید نورسی کا معاملہ بھی یہی تھا، ان کے تذکرے کی تمام کتب میں کئی بزرگوں کے نام بطور خاص لئے جاتے ہیں، جن کی خود نورسی صاحب نے بھی تصدیق کی ہے۔

٭ اس سلسلے میں پہلے بزرگ تو ان کے والد صوفی مرزا کے شیخ ’’غوث خزان‘‘ ہیں۔ (خزان (Hisan) تبلس کا ضلع ہے، اسی نسبت سے انہیں غوث خزان کہا جاتا تھا)۔ انہوں نے ایک مرتبہ اپنے خاص خلفاء کی مجلس میں فرمایا تھا :

’’حضرات اس فقیر صوفی مرزا کی اولاد میں ایک ایسا بچہ اس دنیا میں آئے گا جس کے روحانی درجات تک سو قطب بھی نہیں پہنچ سکیں گے۔‘‘

٭ اس سلسلے کی دوسری کڑی ان سے بھی معروف بزرگ حضرت عثمان خالدی رحمۃ اللہ علیہ سے منسوب ہے، جو ’’اسپارٹا‘‘ میں نقشبندی خالدی سلسلے کے روح رواں اور پابند شریعت شخص تھے۔ اسپارٹا وہ علاقہ ہے جہاں سعید نورسی اپنی عمر کے 48 ویں سال جلا وطن ہو کر تشریف لائے۔ عثمان خالدی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ نہایت اعلی درجے کے نفیس روحانی شخصیت تھے۔ چالیس روز میں ایک مرتبہ کھانا کھاتے تھے۔ ان کی وفات اُسی سال ہوئی، جس سال نورسی پیدا ہوئے۔ مگر دونوں کے علاقے مختلف تھے۔

ان بزرگوں نے اپنی اولاد سمیت اپنے قریبی حلقوں کو بڑے وثوق کے ساتھ یہ خوشخبری دی تھی کہ ’’ایمان کو بچانے والا ایک مجدد ظہور پذیر ہوگا جو اِسی سال پیدا ہوگا‘‘۔ انہوں نے فرمایا ’’میرے بیٹوں میں سے ایک بیٹا اس مجدد سے ملاقات کرے گا اور ان کی دست بوسی بھی کرے گا۔‘‘

چنانچہ جب سعید نورسی جلا وطن ہو کر اسپارٹا تشریف لائے تو شیخ عثمان خالدی کے سب سے چھوٹے بیٹے احمد آفندی کو ان سے ملنے اور ان سے گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے اپنے والد گرامی کی پیشین گوئی حق ثابت ہونے پر نورسی صاحب کی دست بوسی کی جس کے کئی لوگ گواہ ہیں۔

الغرض بچپن کے آثار اور بعد کے واقعات زبان حال سے ان بزرگوں کی پیشین گوئیوں کی تصدیق کرتے ہیں۔

آپ نے اس دور میں شعور کی آنکھ کھولی، جب مغربی تہذیب سرپٹ گھوڑوں پر سوار شعائر اسلام کو روندتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی۔ عثمانی خلافت کے خلاف استعماری سازشیں کامیاب ہو رہی تھیں اور سلطنت روز بہ روز سمٹ رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مختصر عرصے میں مروجہ دینی کتب پڑھ لینے کے بعد بھی نورسی اسلامی علوم و فنون پر اکابرین کی کتب پڑھتے رہے اور 80 کے قریب کتب انہوں نے زبانی بھی یاد کر لیں، مگر ان کا اضطراب ھل من مزید کیا تقاضا کرتا رہا۔

وہ آغازِ شباب سے ہی ہنگامہ آرا زندگی میں قدم رکھ چکے تھے۔ فطرت انہیں نواء پر مجبور کرتی تھی اور حاسدین انہیں نئے سے نئے چیلنجز سے دو چار رکھتے تھے۔ انہوں نے حصول تعلیم کے لئے زیادہ ادارے اس لئے بھی تبدیل کئے کہ وہ کہیں سے بھی مطمئن نہیں ہو پا رہے تھے۔ عزتِ نفس، تعمیر اخلاق، تزکیہ باطن اور اخلاصِ عمل ان کی اپنی شخصیت کا لازمی حصہ تھے، مگر انہیں مدارس اور خانقاہوں پر یہ چیزیں کما حقہ نظر نہیں آتی تھیں۔

ثانیاً وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی صدی میں زندگی گزار رہے تھے اور جس طوفان کا وہ مقابلہ کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھے، وہ طوفان عقلی دلائل اور سائنسی تحقیقات کی بل بوتے پر آگے بڑھ رہا تھا۔ اس لیے انہوں نے مختلف اوقات میں تمام مروجہ سائنسی علوم بھی یعنی نصابی کتب پڑھ لیں۔ یہ تمام مذہبی اور سائنسی علوم بعد ازاں انہیں فہم قرآن کے لئے سیڑھی کے طور پر کام آئے۔ شہر شہر اور بستی بستی گھوم پھر کر ان علوم سے فراغت کے وقت سعید نورسی صرف 20 سال کے ہوئے تھے۔

خدمتِ قرآن کو مقصدِ حیات بنانے کا عزم

سعید نورسی کی روحانی رہنمائی ساتھ ساتھ ہو رہی تھی۔ وہ اس دوران دعوت، اصلاح اور بیداری شعور کا کام بھی کر رہے تھے۔ مگر ابھی تک کسی واضح مشن اور راستے کا تعین نہیں ہو سکا تھا۔ اس دوران وہ دو واقعات کو قرآن کی طرف متوجہ ہونے اور اپنی تمام تر صلاحیتیں اسکے علوم کو پھیلانے میں صرف کر دینے کا سبب قرار دیتے ہیں۔

ایک واقعہ منامی ہے، جبکہ دوسرا آنکھوں دیکھا۔ جنگ عظیم اول سے قبل کے ایک خواب کے متعلق وہ خود لکھتے ہیں :

’’وہ ایک مشہور پہاڑی کے دامن میں کھڑے ہیں کہ اچانک وہ پہاڑ ایک زور دار دھماکے کے ساتھ پھٹ گیا ہے اور اس کے ٹکڑے پوری دنیا میں پھیل رہے ہیں۔ ایک اہم شخصیت نے مجھے مخاطب کر کے حکم دیا ’’قرآن کے معجزہ ہونے کا بیان کرو‘‘۔ میں سمجھ گیا کہ دنیا ایک بڑے حادثے سے دو چار ہونے والی ہے۔ اس کے بعد قرآن کی حرمت اور صداقت پر حملے ہوں گے اور ان حملوں کا علاج خود قرآنی معجزات کے بیان سے ہی ممکن ہوگا۔ چنانچہ میں سمجھ گیا کہ قدرت اس سلسلے میں مجھ سے خدمت لینا چاہتی ہے، لہذا میں نے خود کو اس محاذ پر مسلح کرنا شروع کر دیا۔‘‘

اسی دوران ان کی ترجیحات میں انقلاب برپا کرنے کا باعث ایک دوسرا واقعہ یہ ہے کہ

برطانوی پارلیمنٹ میں وزیر نو آبادیات ’’ولیم گلیڈ سٹون‘‘ نے اپنی ایک تقریر میں قرآن دکھاتے ہوئے کہا تھا :

’’جب تک یہ قرآن مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے، ہم ان پر حاوی نہیں ہو سکتے۔ ہمیں چاہیے کہ جس طرح بھی ہو قرآن ان کے ہاتھوں سے چھین لیں یا پھر مسلمانوں کو اس قرآن سے لا تعلق بنا دیں۔‘‘

اخبارات میں شائع ہونے والی اس خبر نے سعید نورسی کی حساس طبیعت پر گہرا اثر کیا اور اسی لمحے انہوں نے اللہ تعالی سے عہد کیا کہ میں قرآن کے ان دشمنوں کے ان منصوبوں کو کامیاب نہیں ہونے دوں گا اور جس قرآن کو وہ مسلمانوں سے چھین لینا چاہتے ہیں، اسے ایک لافانی قوت بنا کر مسلمانوں کے امراض کا علاج تلاش کروں گا۔ میں دنیا پر ثابت کر دوں گا کہ قرآن ایک معنوی سورج ہے جو نہ بجھ سکتا ہے اور نہ بجھایا جا سکتا ہے۔ اس عہد کے بعد انہوں نے اپنے سارے افکار، خیالات، قابلیتیں، حافظہ اور ذکاوت قرآن کی خدمت پر نثار کر دی۔ ان کی زندگی کا واحد ہدف اور حصول علم کا مقصد علوم قرآن کی ترویج ٹھہرا۔ ان کی علمی کاوشیں نئی نسل کے ذہنوں میں پائے جانے والے تمام تر اشکالات کو دور کرنے پر منحصر ہوگئیں۔ وہ دروس قرآن دینے لگے اور تصانیف و تالیف کا سلسلہ بھی شروع کر دیا۔

یونیورسٹی کے قیام کا منصوبہ

بدیع الزماں نے جب اپنے مقصد کا تعین کر لیا تو ضروری تھا کہ وہ اس کی ٹھوس منصوبہ بندی کرتے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے قریبی دوستوں سے مشورہ کرنے کے بعد فیصلہ کیا کہ وہ مشرقی ترکی میں ایک عالمی تعلیمی ادارے کا قیام عمل میں لائیں گے، جہاں جامعہ الازھر سے بڑھ کر جدید و قدیم علوم و فنون کی تعلیم ممکن ہو سکے گی۔ اس مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے ان کو مالی وسائل اور وسیع خطۂ اراضی کی ضرورت تھی۔ اس لئے وہ سلطان عبدالحمید ( جو علم دوستی کی اچھی شہرت رکھتے تھے) کو ملنے کے قصد سے استنبول آئے۔

یہ 1907ء کا واقعہ ہے اور اس وقت سعید نورسی 29 سال کے ہو چکے تھے۔ انہوں نے متوقع یونیورسٹی کا نام ’’جامعہ فاطمۃ الزھراء‘‘ رکھا تھا۔ بدیع الزمان اس یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ پورے ترکی اور بالخصوص مشرقی علاقے میں جدید و قدیم تعلیمی اداروں میں نئے نصاب تعلیم کے خواہاں تھے۔ انہوں نے سلطان کے وزیراعظم کے نام لکھے گئے، ایک مراسلے میں مسلمانوں کو لاحق امراض کا واحد علاج علمی برتری اور ترقی کو قرار دیا اور کہا کہ اس وقت ایک طرف مسلمانوں کے ہاں روائتی مذہبی ادارے کا م کر رہے ہیں، دوسری طرف کچھ خانقاہیں ہیں جہاں روحانی تربیت دی جاتی ہے اور اب تیسرا شعبہ جدید تعلیمی اداروں کی صورت میں سامنے آ رہا ہے جہاں جدید علوم کی تدریس ہو رہی ہے۔ حقیقت میں یہ تینوں شعبے تعلیم و تربیت کی الگ الگ ضرورتیں پوری کر رہے ہیں۔ مستقبل قریب میں یہ نظام اچھی خاصی قباحتیں لائے گا۔ ہر شخص دوسرے کو جاہل اور گمراہ کہے گا۔ اسلئے ضروری ہے کہ تینوں اداروں کے درمیان کوئی فعال مرکزیت قائم کی جائے۔ جدید مکاتب میں دینی تعلیم کا بندوبست ہو اور دینی اداروں اور خانقاہوں میں جدید تعلیم کا معقول اہتمام کیا جائے، ورنہ حکومتی کاوشیں الگ ضائع ہوں گی اور قوم کو آنے والے سخت ترین حالات کے لئے تیاری میں کما حقہ مدد بھی نہیں مل سکے گی۔

اگر بغور دیکھا جائے تو یہ نہایت قیمتی تجاویز تھیں، مگر شاہی مشیر اور بدنیت جرنیل، سعید نورسی اور سلطان کے درمیان حائل ہوگئے۔ جو شخص امت میں تعلیمی انقلاب کی امنگ لے کر خلیفہ کے پاس گیا تھا، اسے شاہی دقیانوسوں نے پاگل قرار دے کر استنبول کے پاگل خانے پہنچا دیا۔ یہ ہوتے ہیں پرویزی حیلے اور اقتدار کی اندھی راہداریوں میں پروان چڑھنے والی خطرناک سازشیں جن کی موجودگی میں اگر حکمران خود آگاہ اور ماحول کو اچھی طرح نہ سمجھتا ہو تو درباری کیا سے کیا بنا دیتے ہیں۔ دنیائے اسلام کا یہ بطل جلیل جو تڑپ، ادراک اور فہم و بصیرت رکھتا تھا، اسے محدود مفادات کے پجاریوں نے پاگل پن قرار دے دیا۔ چنانچہ پاگل خانے والے ڈاکٹر نے جب نورسی صاحب سے حقیقت حال پوچھی تو ان کی گفتگو سننے کے بعد اس نے لکھا :

استنبول میں آنے والوں میں یہ شخص نہایت ذہین، وطن دوست اور مسلمانوں کا خیر خواہ ہے۔ اسے اگر پاگل قرار دیا جائے تو دنیا میں کوئی شخص بھی عقلمند نہیں کہلائے گا۔

بوکھلائے ہوئے شاہی مشیروں نے اس سازش کی ناکامی پر ایک اور حربہ کھیلا۔ انہوں نے سلطان کی طرف سے نورسی کے لئے ماہانہ وظیفہ، کچھ انعامات اور ملازمت کا لالچ دے دیا، جس کو سعید نورسی نے پائے حقارت کے ساتھ رد کر دیا۔ انہیں استنبول آ کر شاہی خزانے سے یونیورسٹی کے لئے مالی امداد تو نہ ملی مگر قدرت نے انہیں مرکز خلافت کی صورتِ حال سے مکمل اور قریب سے آگہی کا بندوبست کر دیا۔ وہ استنبول آتے ہوئے کئی مقامات پر رکے تھے اور وہاں کے تعلیمی اداروں میں جا کر صورت حال کا قریب سے جائزہ لیا تھا۔ انہوں نے استنبول کے اہل علم کو متوجہ کرنے کے لئے اپنے قیام گاہ کے باہر یہ لکھ کر لگا دیا :

’’یہاں ہر شخص کے ہر سوال کا ہر وقت جواب دیا جاتا ہے۔‘‘

چنانچہ علماء اور طلباء کا ایک ہجوم امڈ آیا اور سب لوگ اپنا اپنا سوال کر کے مطمئن ہو کر جا رہے تھے۔ شاہ پرستوں کو نورسی کی شہرت اور عزت کا باعث بننے والی یہ چیز بھی گوارہ نہ ہوئی اور انہیں جیل میں بجھوا دیا۔

غالباً نورسی کی زندگی میں یہ پہلی سزائے قید تھی، جو انہیں سرکاری مراعات (جو انہیں رشوت کے طور پر دی جا رہی تھیں) قبول نہ کرنے پر بھگتنا پڑی۔ اسی دوران آزادی کی تحریک نے استنبول سمیت پورے ترکی میں سر اُٹھا لیا۔ نورسی صاحب قید سے رہا ہوگئے، مگر انہوں نے حالات کا بہت سنجیدگی سے جائزہ لینا شروع کر دیا۔ ایک طرف انگریز، سلطان کے گرد گھیرا تنگ کر چکے تھے، دوسری طرف ترک عوام کے اندر بغاوت کے جراثیم دن بہ دن بڑھ رہے تھے اور تیسری طرف نورسی جیسے زیرک لوگوں کو یہ احساس بھی ہو رہا تھا کہ کہیں اس انقلاب میں اسلام کا نقصان نہ ہو جائے اور لوگ اسلامی شعار سے منہ نہ موڑنے لگیں۔ نورسی کا یہ اندازہ آئندہ دنوں میں سو فیصد سچا ثابت ہوگیا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ دو سال تک استنبول میں ہی ٹھہرے رہے۔ وہ ایک دانشور، حریت پسند اور بے مثال عالم کی حیثیت سے خواص و عوام میں مقبول ہو رہے تھے۔ انہوں نے خصوصی اجلاسوں اور عوامی اجتماعات میں لوگوں کے اندر انقلاب کی روح پھونک دی اور انہیں اسلام اور امت مسلمہ سے اخلاص کی راہ پر گامزن رکھنے کی بھر پور کاوش کی۔

دعوت اعتدال و انقلاب

سعید نورسی اس اضطراب کے دوران اپنا نقطہ نظر اخبارات اور مجالس کے ذریعے لوگوں تک پہنچاتے رہے۔ وہ اس بیداری اور اضطراب کو اسلام سے برگذشتہ نہیں ہونے دینا چاہتے تھے۔ اس دوران کی گئی تقاریر میں سے ایک کا خلاصہ ملاحظہ ہو :

’’اے مظلوم اہالیان وطن! آؤ ہم شرعی قوانین کی چھتری کے نیچے آ جائیں، جو ہمیں پکار پکار کر دعوت دے رہے ہیں۔ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے انقلاب کی راہ ہموار کریں۔ اس منزل کی طرف جانے کا پہلا دروازہ دلوں کا اتحاد ہے۔ دوسرا دروازہ قومی غیرت و محبت ہے۔ تیسرا دروازہ تعلیم اور شعور ہے۔ چوتھا دروازہ انتھک محبت اور جدوجہد ہے اور پانچواں دروازہ گناہوں کو خیر آباد کہہ کر اپنے خالق سے رجوع ہے۔
خبردار اے اہلیان وطن! حریت کے غلط معنی نہ نکال لینا، ایسا نہ ہو کہ ہمارے ہاتھوں سے حریت بھی جاتی رہے اور شریعت بھی۔ یاد رکھو آزادی، قوانین کی پاسداری، شریعت پر عمل کرنے اور اعلی اخلاق کے ساتھ کردار کو سنوارنے سے زندہ رہتی ہے اور پھلتی پھولتی ہے۔‘‘

صاف ظاہر ہے عثمانی خلافت کے گرد جس سازشی ماحول نے گھیرے ڈال رکھے تھے، اس میں یہود و نصاری کی سازشیں زوروں پر تھیں۔ ایسے میں ایک شخص کی آواز کا کتنا اثر ہو سکتا تھا، لیکن اس حقیقت کو جانتے ہوئے بھی سعید نورسی نے احقاق حق کے مشن سے ایک دن بھی قدم پیچھے نہیں ہٹایا۔

نورسی صاحب کے ساتھ ایک المیہ یہ بھی ہوتا رہا کہ ان کو اکثر و بیشتر ناکردہ گناہوں کی سزا بھی دی جاتی رہی۔ اسی قیام استنبول کے آخری دنوں میں ان پر باغیوں کو حکومت کے خلاف اکسانے کا مقدمہ قائم کیا گیا اور انہیں پھانسی کی سزا کے لئے قید کر لیا گیا۔ حالانکہ مسلح بغاوت پر آمادہ لوگوں کو نورسی صاحب نے سختی کے ساتھ خون خرابے سے منع کیا اور ایسی تحریک میں شامل ہونے سے صاف انکار کر دیا، جس کے نتیجے میں خلافتِ عثمانیہ کی افواج سے مقابلہ کی نوبت آئے اور دونوں طرف سے مسلمانوں کا جانی اور مالی نقصان ہو۔ مگر کسی سازش کے تحت یہ بغاوت پنپ گئی اور جب جانی نقصان ہوا تو اس کا سب سے بڑا مجرم نورسی صاحب کو ٹھہرایا گیا۔ جب فوجی عدالتی بینچ کے سامنے نورسی دلائل دے رہے تھے تو دوسری طرف باغ میں 15 ایسے علماء کی لاشیں تختہ دار سے لٹکی ہوئی تھیں، جو نفاذِ شریعت کے نعرے کے لئے مسلح جدوجہد منظم کر رہے تھے۔ حالانکہ نورسی ایسی مزاحمتی تحریک کے مخالف تھے، لیکن جب عدالت نے انہیں سوال کیا کہ کیا تم بھی نفاذ شریعت کے علمبردار ہو؟ جواب میں سعید نورسی نے عدالتی بینچ کو مخاطب کر کے فرمایا :

’’جہاں تک شریعت کے نفاذ کی خواہش کا تعلق ہے تو شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ اس کی خاطر ایک جان تو کیا میری ہزار جانیں بھی ہوں تو انہیں قربان کرنے کو تیار ہوں۔ کیونکہ شریعت ہی سعادت ابدی اور حقیقی انصاف کا ذریعہ ہے مگر یہ قربانی اس طرح جائز نہیں جس طرح باغیوں نے دی‘‘۔

نورسی صاحب پر ایک مذہبی تنظیم ’’اتحادِ محمدی‘‘ کو منظم کرنے کا بھی الزام تھا۔ عدالت نے ان سے دوسرا سوال یہ کیا کہ کیا تم ’’اتحادِ محمدی‘‘ میں شامل ہو؟ آپ نے کہا :

’’ہاں یہ میرے لئے فخر کی بات ہے کیونکہ اتحادِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک آفاقی سلسلہ ہے، جس کے افراد کی تعداد 3 سو ملین ہے۔ سلسلہ نور سرمدی کا یہ دائرہ مشرق سے مغرب تک پھیلا ہوا ہے۔ اس اتحاد کا نقطہ ارتباط توحید الہی ہے۔ اس کا عہد و پیمان ایمان ہے۔ اس کے ممبران کی رجسٹریشن لوح محفوظ میں ہو چکی ہے۔ اس اتحاد کا لٹریچر اسلامی ذخیرہ کتب ہیں جن کا منبع و مصدر قرآن ہے، اس اتحاد کے دفاتر مساجد اور دینی ادارے ہیں، اس کے بڑے مراکز مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ ہیں۔ اس قابل فخر جمعیت کے سرپرست اور رئیس ہمارے نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ اس کا منشور یہ ہے کہ ہر شخص اپنے اخلاق کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تابع کر دے اور پوری انسانیت کو سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف مائل کر دے۔‘‘

سعید نورسی نے عدالت میں بے باکانہ طریقے سے حقائق سے نقاب کشائی کی۔ آپ نے کہا :

’’ یہ حکومت دورِ استبداد میں عقل کی دشمن تھی اور اب یہ زندگی کی دشمن ہوگئی ہے۔ اگر یہ حکومت یہی کچھ کرتی رہی تو ہمارے لئے موت زندہ باد اور تمہارے لئے جہنم زندہ باد‘‘۔

بدیع الزماں یہ دلائل دیتے ہوئے خیال کر رہے تھے کہ ابھی مجھے پھانسی کی سزا سنا دی جائے گی، مگر جب انہوں نے دلائل ختم کیے تو عدالتی بینچ نے انہیں حیران کن طریقے سے بری کر دیا۔ صرف یہی موقع نہیں ان کی زندگی میں قدم قدم پر موت ان سے آنکھ مچولی کھیلتی رہی اور وہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر زندگی کا فلسفہ سمجھاتے رہے۔