ثناء خوانِ رسول (ص) محترم ضیاء اللہ نیرّ کی رحلت

(صاحبزادہ مسکین فیض الرحمان درانی)

22 ستمبر2011 ء کا ڈوبتا سورج تحریک منہاج القران انٹرنیشنل کے قائدین، رفقاء اور وابستگان کو یہ جانکاہ خبر سنا کر شفق کے تاریک پردے کے پیچھے چھپ گیا کہ ڈاکٹر فرید الدین ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے سینئر ریسرچ سکالر حضرت علامہ ضیا نیّر جہان حقیقی کے لیے رختِ سفر باندھ چکے ہیں۔ مرحوم و مغفور کا شمار تحریک منہاج القران انٹرنیشنل کے دیرینہ رفقاء اور ان صاحبان علم و فضل میں ہوتا ہے جنہوں نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی دعوتِ حق پر تحریک کے ابتدائی ایام سے لبیک کہا اور سانس کی آخری گھڑی تک بہت عزم، حوصلے، ہمت اور جوانمردی سے ہر طرح کے گرم و سرد حالات میں قائد تحریک کا ساتھ نبھایا۔

مرحوم ایک صاحب طرز ادیب، شاعر اور ریسرچ سکالر تھے۔ مدحت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، شاعری میں ان کا خاص میدان تھا۔ انہوں نے اپنے کلام سے عشاق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اذہان و قلوب کو ہمیشہ معطر اور منور رکھا۔ ’’ سفر نور‘‘ اُن کا پہلا نعتیہ مجموعہ تھا۔ کچھ عرصہ پہلے حمد و نعت پر اُن کا دوسر ا مجموعہ ’’ثنائے کریمین‘‘ کے نام سے منصہ شہود پر آیا۔ تحریک کی مرکزی قیادت ’’ثنائے کریمین‘‘ کی تقریب رونمائی شاندار طور پر منانے کا سوچ رہی تھی کہ صاحب کلام حضرت ضیا نیر داغِ مفارقت دے گئے اور تحریک کے لاکھوں ساتھیوں کے دِلوں کوافسردہ کر گئے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور جملہ مرکزی قائدین نے مرحوم کی وفات کو علم و ادب کا عظیم نقصان قرار دیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت و بخشش فرمائے اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

حضرت ضیاء نیئر مرحوم کے مجموعہ حمد و نعت ’’ثنائے کریمین‘‘ پر چند مختصر، ٹوٹے پھوٹے، بے ربط جملے ہدیہ قارئین ہیں۔

ثنائے کریمین۔ ۔ ۔ حمدو نعت کا ایک حسین گلدستہ

حمد باری تعالیٰ کے 15 کلام اور 109 نعتوں پر مشتمل ’’ثنائے کریمین‘‘ ایک ایسا وقیع مجموعہ حمد و نعت ہے جو محبت، اطاعت، توکل، تعلیم، توقیر اور نصرت دین کے پرخلوص جذبوں سے معمور اعلیٰ شعری ادب وہیت کی تمام تر دلکشی لیے، شریعت و طریقت کے مناسب توازن و امتزاج کے ساتھ ایمان کے بنیادی مقاصد کا ابلاغ کرتا نظر آتا ہے۔

ایک حساس ادیب، شاعر یا مصنف باریکی بینی سے زندگی کے مختلف گوشوں کا مشاہدہ اور مطالعہ کرتا ہے۔ شاعری میں بلند خیالات کے اظہار کے لیے متوازن زبان اور صوتی ترنم بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ خوشی، امید، حیرت، مایوسی، خوف اور غم تخلیقی اظہار کے لئے شاعرانہ صداقت کا تلازمہ ہے، ایک اچھے شاعر کی پہچان یہ ہے کہ اس کے جذبات و احساسات قاری کے جذبات کے ساتھ ہم آہنگ ہوں۔

’’ثنائے کریمین‘‘ کے خالق محترم ضیاء نیر مرحوم و مغفور خوبصورت خیالات، پاکیزہ جذبوں اور حسین سوچوں کے حامل ادیب تھے۔ ان کے شاعری میں خلوص اور صداقت کا رنگ واضح ہے۔ ان کا مخصوص انداز بیاں ان کے داخلی کیفیات کا آئینہ دار ہے۔ اسلوب میں فنکاری کے ساتھ حسن کاری بھی ہے اور انتظام کاری بھی۔ شاعری ان کی تکوینی صورت گری ہے۔ کلام ان کا ادب عالیہ ہے کہ حمد و نعت کا بیان ہی در حقیقت ادب عالیہ ہوتاہے کہ جس میں خالق، تخلیق اور مخلوق کا بیان مذکور ہوتا ہے، جو آفاق و انفس کی حقیقت مطلقہ ہے، انہی بلند افکار کا اظہاراسلامی شاعری کا طرہ امتیاز ہے۔ مرحوم کا پہلا نعتیہ مجموعہ ’’ سفر نور‘‘ کے نام سے محسن انسانیت پیغمبر رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں پیش کر چکے ہیں۔ اس طرح ’’ ثنائے کریمین‘‘ ان کا دوسرا مجموعہ ہے جس میں ’’ یارب تو کریمی و رسول تو کریمی‘‘ کے مصداق انہوں نے خالق عزوجل کی حمدو ثناسے حصہ اول کا آغاز کیا اور محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت کو حصہ دوم میں موضوع سخن بنا یا۔

ریا، تصنع اور آورد سے بے نیاز وہ ہمیشہ غیب سے آمد کے منتظر رہے۔ غزل کو متصوف کرتے، منازل سلوک طے کرتے حقیقت نعت کے اعلیٰ منازل کے قریب پہنچ گئے۔

ثنائے کریمین میں محترم ضیا نیر مرحوم تذکیر، تدبیر اور تعمیل کا یہ کام کرتے نظر آتے ہیں کہ مسلمان حقیقت میں یکے از غلامان پیمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور یہی ان کی پہچان ہے۔ محترم ضیا نیر’’ ثنائے کریمین ‘‘ کی ابتداء حمد باری تعالیٰ کے اس مطلع سے کرتے ہیں۔

قرآن کے سیپاروں میں وہ بول رہا ہے
کیا خوب سماعت میں وہ رس گھول رہا ہے

جناب ضیا نیر مر حوم ثنائے کریمین میں ہر جگہ خدا کے اسی پیام سرمدی کا ابلاغ کرتے نظر آتے ہیں، گو وہ کوئی باقاعدہ مبلغ نہیں لیکن ایک انتہائی لطیف پیرائے میں وہ لوگوں کو’’ لا تقنطوا من رحمة الله‘‘ کی نوید جانفزا سنایا کرتے تھے۔

 کرتا ہے کمی پوری وہی اپنے کرم سے
طاعت میں اگر کوئی کہیں جھول رہا ہے

محترم ضیاء نیر اللہ جل مجدہ سے اپنی محبت کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں۔

منبع ہے تو ہی، جو دو کرم، لطف و عطا کا
خالق ہے تو اے مالک ارض و سماء کا

نے قوت اظہار ہے نے طاقت گفتار
حق کیسے ہو نیر سے ادا تیری ثناء کا

اطاعت الٰہی ہی حقیقت میں ایمان با للہ اور ایقان کا مظہر ہے۔ محترم ضیا ء نیر مرحوم یوں رقمطرز ہیں:

جبیں سجدہ جھکتی ہے بس اک معبود کے آگے
وہی معبود جو حقدار ٹھہرا ہے عبادت کا

خدا کی اور پیمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت ہم پہ لازم ہے
یہی ہے حکم قرآن کا، یہی فرمان سنت کا

محترم ضیاء نیر مرحوم ایمان کی پختگی کے لیے توکل علی اللہ کو بہت اہم سمجھتے تھے، وہ ایک متوکل انسان تھے، وہ سمجھتے تھے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر بھر پور توکل سے تمام ابتلائیں، مصیبتیں، مشکلات آسان اور بیماریاں دور ہو جاتی ہیں۔ ان کی نظر ہر وقت اسباب کی بجائے مسبب الاسباب پر رہتی تھی۔ کافی عرصہ بسترِ علالت سے اٹھنے پر انہوں نے کہا:

خستہ جاں بیمار کو دے دی شفا اچھا کیا
نو نے پھر آسان اس پر زیست کا رستہ کیا

ٹال دی تو نے الٰہی، ابتلا کی ساعتیں
تو نے ہی ہر عقدہ مشکل کو مولا وا کیا

محترم ضیا نیر اپنے پورے کلام میں جابجا پوری جوانمردی اور مستقل مزاجی سے ببانگ دہل اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسول بر حق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنے ایمان اور ایقان کا اعلان کرتے نظر آتے ہیں اور بلا شبہ یہی چیز ان کیلئے آخرت میں شفاعت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا باعث بھی ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، مسکین، تحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل کے مرکزی قائدین اور ڈاکٹر فرید الدین ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے جملہ ریسرچ سکالرز اور تحریک کے جملہ رفقاء، اراکین اور وابستگان حضرت علامہ ضیاء نیر مرحوم و مغفور کے لیے دست بدعا ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ بطفیل خواجہ انام سرکارِ ہر دوسراِ آقائے دو جہان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو اپنی جوار رحمت میں مقام اعلیٰ علیین عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین