منہاج القرآن انٹرنیشنل برطانیہ کے زیراہتمام عالمی امن کانفرنس 2011ء

رپورٹ :  آفتاب بیگ۔ لندن

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی قیادت میں منہاج القرآن انٹرنیشنل برطانیہ کے زیر اہتمام ویمبلے ایرینا لندن میں عالمی امن کانفرنس "امن برائے انسانیت" 24 ستمبر 2011ء کو منعقد ہوئی۔ جس میں شمالی امریکہ سے لے کر جنوبی افریقہ، یورپ اور دنیا کے تمام خطوں سے مسلم، عیسائی، یہودی، ہندو، بدھ مت، سکھ اسکالرز، موثر شخصیات اور دیگر مذاہب عالم کے پیروکاروں سمیت گیارہ ہزار سے زائد شرکاء نے شرکت کی۔

مہمانان گرامی

اس عالمی امن کانفرنس میں نامور علماء و مشائخ سمیت درج ذیل مہمانان گرامی نے خصوصی شرکت کی۔

٭الازھر یونیورسٹی مصر کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اسامہ العبد

٭ڈاکٹر عبد الدیام النصیر

٭صدر منہاج القرآن سپریم کونسل صاحبزادہ حسن محی الدین القادری

٭صاحبزادہ پیر سید عبدالقادر جمال الدین الگیلانی

٭ڈاکٹر محمد النناوی

٭سوڈان کے ممتاز سکالر شیخ احمد بابکر

٭جماعت اہل سنت برطانیہ کے سربراہ پیر عبد القادر شاہ جیلانی

٭برطانیہ سے پیر فیاض الحسن سروری درگاہ عالیہ سلطان باہو

٭پاکستان سے صاحبزادہ پیر محمد امین الحسنات شاہ سجادہ نشین بھیرہ شریف

٭مقدونیہ سے نور محمد جرال میسوط کرٹس

٭ڈاکٹر جوئل ہیورڈ (یوکے )

٭محترمہ ثوابا

٭ کمیونٹی منسٹر ائیرک

٭مسز نعیمہ جلیل

٭قاری سید صداقت علی

٭محترمہ غزالہ حسن قادری

٭محترمہ خدیجہ ایٹکنسن

٭مسلم ہینڈ چیئرٹی کے چیئرمین صاحبزادہ سید لخت حسنین

٭تحریک منہاج القرآن کے ناظم اعلیٰ ڈاکٹر رحیق احمد عباسی

٭نائب ناظم اعلیٰ جی ایم ملک

٭مرکزی ناظم اجتماعات جواد حامد

استقبالیہ کلمات شیخ الاسلام

امن کانفرنس کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔ جس کے بعد قصیدہ بردہ شریف اور مختلف زبانوں میں نعت خوانی بھی ہوئی۔ پروگرام کے آغاز میں تمام مذاہب کے معزز مہمانوں اور مشائخ نے شیخ الاسلام کی قیادت میں امن عالم کے فروغ اور محبت و رواداری کے جذبات کی تریج کے لیے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اجتماعی دعا کی۔ بعد ازاں کانفرنس میں تمام مذاہب کے نمائندوں نے انفرادی طور پر بھی اپنے اپنے مذہب کی تعلیمات کے مطابق دنیا میں امن و امان کے لیے دعائیں کیں۔

کانفرنس کے آغاز میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مہمانان گرامی اور جملہ مذاہب کے رہنماوں کو خوش آمدید کہا اور عالمی امن کانفرنس کی غرض و غایت سے شرکاء کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ

دنیا میں عالمی قیام امن کی جتنی آج ضرورت ہے، اس سے پہلے نہ تھی۔ اسلام کے پیرو کار مسلمان امن عالم کے قیام پر بلا مشروط یقین اور ایمان رکھتے ہیں۔ اسلام کی تعلیمات میں کہیں بھی دہشت گردی، شدت پسندی اور انتہاء پسندی و بنیاد پرستی کی حمایت نہیں کی گئی۔ اسلام امن کا دین اور مسلمان قیام امن کے پیامبر ہیں۔ پوری دنیا میں اسلام کی جو تصویر پیش کی جا رہی ہے اسلام کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ 99 فیصد سے زیادہ مسلمان امن پسند اور انسانیت سے پیار کرنے والے ہیں۔

موجودہ دور میں انتہاء پسندی اور دہشت گردی نے ساری دنیا اور بالخصوص مسلمانوں کو بہت زیادہ متاثر کیا۔ انتہاپسندی نے دنیا کے لاکھوں انسانوں کے چہروں سے مسکراہٹ چھین لی اور انہیں دکھوں، زخموں اور ناامیدی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ انتہاء پسندی نے ہم سب کو تقسیم کر دیا۔ میں آپ سب کو دعوت دیتا ہوں کہ آئیں ہم سب مل کر دنیا کے امن کے لیے ایک ہو جائیں۔ اسی عالمی امن اور بھائی چارے کا درس حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پوری انسانیت کو آزادی کا درس دیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے سلام، محبت اور بھائی چار ے کی تعلیمات کو فروغ دیا۔ اسی طرح بدھا، کرشنا، گرونانک اور مذاہب عالم کی دیگر عظیم ہستیوں نے دنیا کو انسانی فلاح اور امن کی راہ دکھلائی۔

آج انسانیت کے درمیان پیدا ہونے والی دراڑوں اور زخموں کو بھرنے کا مرحلہ آگیا ہے۔ آج کی کانفرنس ایک دفعہ پھر انتہا پسندی اور دہشت گردی کی ہر شکل کی غیر مشروط مذمت کرتی ہے۔ ہمیں مل کر رحم، یکجہتی اور عزت کی بنیاد پر دنیا سے خوف، نفرت اور انتہا پسندی کا خاتمہ کر کے انسانیت کو نئی آزاد سمت فراہم کرنا ہے جہاں امیر، غریب کو خوراک فراہم کرے، جہاں دردوں کا مداوا ہوتا ہو، جہاں نفرت کی بجائے محبت کا ماحول ہو، جہاں فاصلوں کی جگہ قربتیں لے لیں، جہاں رجائیت کا دور دورہ ہو، جہاں حسد کی بجائے تعریف کی جاتی ہو، جہاں صبر اور روشن خیالی ہو۔ آج ہم تمام شرکاء یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام مذاہب اپنے اپنے عقیدوں پر قائم رہتے ہوئے متحد ہو جائیں تاکہ عالمی امن قائم ہو سکے۔

خطابات و پیغامات مہمانان گرامی

شیخ الاسلام کے استقبالیہ کلمات کے بعد مہمانان گرامی کے خطابات کا سلسلہ شروع ہوا۔ جملہ مقررین نے اپنے خطابات میں اس عالمی امن کانفرنس کے انعقاد کو وقت کی ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا کہ بین المذاہب رواداری کے فروغ اور امن عالم کے قیام کے لئے یہ ایک ایسا تاریخی قدم ہے کہ تاریخ اسکی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ منہاج القرآن نے ہمیشہ امن عالم کے قیام اور انسانیت کی بھلائی کیلئے بروقت اور درست اقدامات کئے۔ ہم شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو اس عظیم کانفرنس کے انعقاد پر مبارکباد پیش کرتے ہیں اور دعا گو ہیں کہ منہاج القرآن کا یہ قافلہ اسی طرح دنیا میں امن و محبت کی شمعیں روشن کرتا رہے۔

مہمانان گرامی کے اظہار خیال کے بعد دنیا بھر سے درج ذیل نامور شخصیات اور سکالرز کی جانب سے اس کانفرنس کے لئے بھیجے گئے خصوصی ویڈیو پیغامات دکھائے اور تحریری پیغامات سنائے گئے۔ (ان تمام پیغامات اور امن کانفرنس کی عالمی میڈیا پر خصوصی کوریج www.minhaj.org پر ملاحظہ فرمائیں)

٭ وزیر اعظم برطانیہ ڈیوڈ کیمرون

٭ڈپٹی وزیر اعظم نک کلیگ

٭اپوزیشن لیڈر ایڈ ملی بینڈ

٭سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ بانکی مون

٭OIC سیکرٹری جنرل ڈاکٹر اکمل الدین احسان اوگلو

٭آرچ بشپ آف کینٹر بری ڈاکٹر رووان ولیمز

٭لیبر پارٹی کے MP سٹیفن ٹمز

٭وائس چیئرمین کنزرویٹو پارٹی ایم پی مارگوٹ جیمز

٭شیخ الازھر پروفیسر ڈاکٹر محمد احمد الطیب

٭ایرک پکلز (سیکرٹری آف سٹیٹ فار کمیونیٹیز)

٭بورس جوہنسن (میئر آف لندن)

٭سجاد کریم (MP کنزرویٹو پارٹی برطانیہ)

٭انس سرور (لیبرپارٹی MP گلاسگو)

خصوصی خطاب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

مہمانان گرامی کے خطابات اور دنیا بھر سے ارسال کردہ پیغامات کے بعد شیخ الاسلام نے ’’اسلام اور عالمی قیام امن‘‘ کے موضوع پر خصوصی خطابات کرتے ہوئے فرمایا کہ

اے امت مسلمہ کے نوجوانوں دنیا میں انسانیت کی فلاح و بہبود، عزت و احترام اور امن و امان کے لیے اکٹھے ہو جاو اور اسلام کے سچے پیروکار بنتے ہوئے تعلیمات اسلام کو اپنی زندگیوں کا اوڑھنا بچھونا بنا لو۔ منہاج القرآن انٹرنیشنل نے مسلم نوجوانوں کی تربیت اور رہنمائی کیلئے پوری دنیا میں سیمینارز، کانفرنسز اور لیکچرز کے پروگرام ترتیب دئیے ہیں، اس کے علاوہ عالمی قیام امن کے لیے منہاج القرآن انٹرنیشنل کے پلیٹ فارم سے تھنک ٹینکس بھی بنائے گئے ہیں، جو قیام امن کی عالمی کوششوں میں مصروف ہیں۔ نائن الیون کے دل خراش واقعہ کی وجہ سے گذشتہ دس سالوں میں دنیا بھر میں ہزاروں بے گناہوں کا خون بہہ چکا ہے۔ خاندان برباد ہو گئے ہیں۔ انسانی زندگی اور قدریں اس کے اثرات سے مفلوج ہو کر رہ گئیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس سلسلے کو فوری طور پر ختم کر دیا جائے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں جس طرح ہجرت مدینہ کے ساتھ اسلام کے نئے دور کا آغاز ہوا تھا۔ اس طرح آج ایک دفعہ پھر لندن کی ویمبلے کانفرنس کے بعد محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین اسلام کی عزت و عظمت کی بحالی کے دور کا آغاز کر دیا جائے۔ امت مسلمہ کے نوجوان آج سے محبت و امن پر مبنی اسلام کا پیغام برطانیہ و یورپ سمیت دنیا بھر میں تحریک کی صورت میں شروع کر دیں۔ نوجوان آستینوں میں چھپے دشمنان اسلام کی سازشوں اور ارادوں کو بے نقاب کر کے تباہ کر دیں۔

مغربی میڈیا میں 99 فیصد اکثریت امن کے حامی ہیں جبکہ صرف ایک فیصد نے بد امنی اور انتہا پسند اقلیت کو ترجیح دے رکھی ہے۔ میڈیا کے ایک فیصد گروہ کو بھی اب اپنی اس پالیسی کو تبدیل کرنا ہوگا۔ انتہاء پسندی اور دہشت گردانہ سوچ کا زمانہ بیت چکا۔ اب دنیا بھر میں آمریت کا خاتمہ کر کے جمہوریت کو متعارت کروایا جانا چاہیے جو کہ اسلام کی تعلیمات کا حصہ ہے۔ میں دنیا کو ایسے امن بھرے باغ کی مانند دیکھنا چاہتا ہوں جہاں محبت کے فوارے چلتے ہوں ان فواروں سے آزادی، رحم، سخاوت اور ایک دوسرے کو سمجھنے اور برداشت کرنے والی نہریں بہتی ہوں۔ ان نہروں سے انسانیت کی عظمت و اخلاقیات سیراب ہوتی ہوں، اس باغ کی زمین کو انسانی قدروں سے زرخیز کر کے اچھی نیت کے خالص بیج بوئے جائیں، اس باغ کے ہم سب مالی ہوں جبکہ اس کے پھلوں سے پوری عالم انسانیت لطف اندوز ہو۔ مجھے امید ہے کہ یہ عالمی کانفرنس مسلم اور غیر مسلم کے درمیان امن اور بھائی چارے کی شروعات کا باعث بنے گی۔

لندن ڈیکلریشن

تحریک منہاج القرآن یوکے، کے تحت ویمبلے ایرینا لندن میں ہونیوالی امن برائے انسانیت کانفرنس میں مسلم، مسیحی، یہودی، ہندو، سکھ اور بدھ مت کے رہنماوں نے شرکت کی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صدارت میں ہونے والی اس کانفرنس میں شریک چھ مذاہب کے رہنماوں نے دنیا میں امن کے قیام اور دہشت گردی و انتہاء پسندی کے خلاف درج ذیل قراداد منظور کی۔ اس قرار داد کو ’’لندن ڈیکلریشن‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس دستاویز پر دستمبر 2011ء تک 10 لاکھ افراد دستخط کریں گے۔

  1. ہم تمام جو اس کانفرنس کے دستخط کنندگان ہیں، وہ تمام انسانیت، معاشروں اور اقوام کو امن اور بھائی چارے کا پیغام دیتے ہیں اور تمام لوگوں کوآپس میں محبت، اخوت، عظمت، تحریم و تکریم اور باہم عدل و انصاف کی دعوت دیتے ہیں۔
  2. ہم اپنی آواز امن، برداشت اور تمام لوگوں کے احترام کے لیے بلند کرتے ہیں، خاص طور پر سیاسی اور مذہبی قائدین، علماء، اساتذہ اور صحافی حضرات کے لیے۔
  3. اگرچہ ہم مختلف مذاہب، عقائد، ثقافت اور معاشروں میں اختلافات پاتے ہیں، تاہم، ہم اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ تمام لوگوں کو بے شمار حقوق اور اقدار حاصل ہیں اور ان سب سے بڑھ کر سیاسی حدیں اور فلسفے جو فطری طور پر موجود ہوتے ہیں اور جنہیں تمام مذاہب اور عقائد میں بہت اہمیت حاصل ہے۔
  4. یہودی، مسلمان، عیسائی، ہندو، بدھ مت اور تمام دوسرے مذاہب اور بلاشبہ وہ لوگ بھی جن کے مذہب کی کوئی نشاندہی نہیں ہے، ان تمام کو لازمی طور پر مساوی حقوق حاصل ہونے چاہئیں اور وہ اپنی طرح کے لوگوں کے ساتھ امن اور باہمی ہم آہنگی کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔
  5. ہم دہشت گردی کو کھلم کھلا طور پر مسترد کرتے ہیں (مذمت کرتے ہیں)، کیونکہ ہر مذہب کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ معصوم لوگوں کے تقدس کا احترام کیا جائے۔ دہشت گردی کی غیر معینہ قسم میں عام شہریوں کا جنگجووں کی نسبت زیادہ قتل ہوا ہے، یہ غیر اسلامی ہے۔ ناانصافی، عیسائیت اور یقیناً تمام مذاہب کے تمام عقائد کے خلاف ہے۔ ہم ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں۔
  6. ہم واضح طور پر اسلام کے نام پر کی جانے والی ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف ہیں، نہ صرف یہ بلکہ ہم اسلام اور دیگر تمام مذاہب کے نام پر کی جانے والی دہشت گردی کی نہ صرف مخالفت کرتے ہیں، بلکہ کھلم کھلا طور پر مذمت کرتے ہیں۔
  7. ہم ان تمام بین الاقوامی ایجنسیوں، حکومتوں اور ان معاشروں کے ساتھ ہیں، جو دنیا کے معصوم لوگوں کی جانیں بچانے کے لیے کوشاں ہیں۔
  8. ہم ظلم اور جبر کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ خاص طور پر The Arab Spring کو، جو ہمیں یقین ہے کہ انسانی حقوق کی بنیاد پر بنی ہوئی ہے اور بالا مذکورہ تمام انسانی حقوق سے لیس ہے۔ ہم ان تمام نظریات اور افکار کو رد کرتے ہیں کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان کسی قسم کی کوئی جنگ موجود ہے۔ ہم غیر یقینی صورتحال جو مختلف ریاستوں، قوموں اور معاشروں میں موجود ہے اس کا مقابلہ باہمی بات چیت سے کر سکتے ہیں۔
  9. جہاں تک پر تشدد کاروائیوں کا سوال ہے اور لوگوں کی شکایات کا سوال ہے، تمام ممالک کی حکومتوں کو ان کا ازالہ کرنا چاہیے۔ ہم آج اکٹھے اس لیے کھڑے ہیں کہ تمام مسائل کا پر امن حل تعلیم اور مذاکرات کے ذریعے ممکن بنائیں۔
  10. ہم تمام بین الاقوامی ایجنسیوں اور حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کھلے دل اور مصمم ارادے سے مسلمانوں اور آزادی کے لیے متحرک عربوں کی حمایت کریں اور ہم ان سے یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ وہ یہ کام غیر عسکری، غیر جانبداری پر مبنی انصاف اور موثر ابلاغ کے ذریعے سر انجام دیں، جس سے خیر سگالی کے تعلق اور باہمی اعتماد کو فروغ ملے گا۔
  11. اس قرارداد پر دستخط کرنے والے سارے ارکان یہ یقین کر لیں کہ ایک طویل عرصے سے اسرائیل اور فلسطین کے مابین تنازعے کو کامل انصاف اور ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا انتہائی ضروری ہے۔
  12. ہم اس ضرورت پر بھی مستحکم طریقے سے زور دیتے ہیں کہ یہ تنازعہ اس طرح حل کر لیا جائے کہ فلسطینیوں کو مکمل آزادی حاصل ہو جائے اور فلسطینیوں کو ایک الگ ریاست مل جائے۔ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدے کو پائیدار اور حتمی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ بین الاقوامی برادری متحدہ طور پر اس کی پر زور حمایت کرے اور اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ معاہدے کی شرائط دونوں ریاستوں کے شہریوں کے لیے یکساں مفید ہوں، جن کے مابین ایک عرصے سے خوف اور عدم اعتماد کی فضاء قائم ہے۔
  13. ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ انسانی حقوق، بنیادی آزادیوں، مرد اور عورت کے درمیان مساوات، صلح، عفو درگزر، کشادہ دلی اور یکجہتی جیسی اعلیٰ انسانی قدروں کو فروغ دیا جائے۔
  14. ہم مشترکہ طور پر یہ اعلان کرتے ہیں کہ تمام انسان برابر ہیں اور سب کے ساتھ یکساں عزت و احترام، حلیمی برد باری، انصاف اور یکجہتی کے ساتھ پیش آ یا جائے، کسی گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں سوائے تقویٰ کے۔
  15. ہم نسل پرستی کی ہر شکل کی واشگاف الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔
  16. ہم مغربی ممالک میں بسنے والے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ اپنے اپنے ملک کے قوانین کا احترام کریں۔ خواہ انہیں شہری حقوق حاصل ہوئے ہوں یا نہیں۔
  17. ہم تمام مغربی حکومتوں اور مسلمانوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ معاشرتی وحدت اور شہریت کو فروغ دیں، کیونکہ وحدت اور پر امن بقائے باہمی کے حصول کا یہی ایک راستہ ہے۔
  18. ہم دنیا کی تمام حکومتوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ نفرت، تشدد، مذہبی عدم رواداری اور قومیت پرستی کے خلاف اپنی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کریں۔
  19. ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ افریقہ اور دنیا کے دیگر غربت اور افلاس زدہ اقوام کی امداد میں اضافہ کیا جائے۔ تا کہ ان کا معیار زندگی بہتر کیا جا سکے، انہیں معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی استحکام فراہم کیا جا سکے اور صحیح جمہوریت کے مقاصد کے شعور کو عام کیا جا سکے۔
  20. ہم دنیا کی اقتصادی قوتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مالی ترجیحات میں انسان دوستی کو بھی شامل کریں، عالمی جنگوں کے بعد یورپی ریاستوں کا استحکام ایک لازمی امر ہے۔
  21. ہم دنیا کی جملہ حکومتوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ غربت و افلاس کے انسداد، جہالت کے خلاف جنگ، ہتھیاروں کی دوڑ اور قدرتی ماحول کو لاحق خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی جدوجہد تیز تر کر یں۔
  22. لندن میں آج Peace for Humanity کے گیارہ ہزار شرکاء عالمی امن اور انتہا پسندی کے خلاف مزاحمت کے اس Declaration کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔

اس عالمی کانفرنس کو اے آر وائی کیو ٹی وی اور منہاج ٹی وی کے ذریعے دنیا بھر میں براہ راست نشر کیا گیا۔ تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ لاہور، پاکستان کے مختلف اضلاع اور دنیا بھر میں اجتماعات ہوئے جہاں یہ کانفرنس براہ راست ملاحظہ کی گئی۔