اداریہ : اے ظہورِ تو شبابِ زندگی

تاریخ مہم جو لوگوں کی ایسی ہلاکت خیز سرگرمیوں سے بھری پڑی ہے جو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، مغلوب کرنے اور تسلط قائم کر کے محکوم بنانے سے عبارت ہیں۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے حالانکہ اب تو انسان نے مہذب ہونے کا دعوی بھی کردیا ہے۔ ترقی یافتہ اقوام نے انسانی حقوق کی تنظیمیں اور قیام امن کے عالمی ادارے بھی بنا لئے ہیں لیکن دوسروں پر حکومت کرنے کی پرانی انسانی فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ گزشتہ دو صدیاں اقوامِ عالم کی باہمی جنگوں میں لتھڑی ہوئی ہیں جن میں جنگ عظیم اوّل اور جنگ عظیم دوم سر فہرست ہیں۔ ان بدترین انسانی معرکوں میں پوری انسانی تاریخ کی ہلاکتوں کے ریکارڈ ٹوٹے ہیں۔ بعد ازاں دو عالمی قوتوں(امریکہ و روس) کے درمیان رسہ کشی شروع ہوئی۔ دونوں نے پوری دنیا کو اپنے اپنے دھڑوں میں تقسیم کیے رکھا اور سرد جنگ کے دوران ہلاکت خیز ہتھیاروں کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے ریکارڈ قائم کیے۔ فاتح قوت نے نیو ورلڈ آرڈر جاری کیا اور پھر یہ انسانی فطرت آج کے دور جدید میں داخل ہوگئی اور اگلی جنگ کا آغاز کردیا گیا۔ اس دفعہ میدان جنگ اسلامی ممالک قرار پائے۔ انتہا پسندی و دہشت گردی کے خلاف اور ’’قیام امن‘‘ کے لئے لڑی جانے والی اس جنگ میں ہزاروں بستیاں ویران اور عمارتیں کھنڈرات بن چکی ہیں اور لاکھوں لوگوں کو آتش و آھن کی بارش میں تہہ خاک کردیا گیا ہے۔

یہ تصویر ہے آج کے اس ’’مہذب‘‘ انسانی معاشرے کے حکمرانوں کی۔ ان کے ’’امن پسند‘‘ عزائم کی اور ان کی انسان دوستی کے معیاروں کی۔۔۔ اسی معاشرے کے دانشور، محقق اور مذہبی پیشوا اپنے تبصروں، تجزیوں اور کتب و رسائل کی تحریروں میں پیغمبر انسانیت حضور ختمی مرتبت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اعتراضات کرتے نظر آتے ہیں۔ کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مقدسہ پر دہشت گردی کا الزام لگاتا ہے۔۔۔ کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انسانیت کا دشمن۔ ۔۔اور کوئی محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کو انسانیت کے خلاف سازش گردانتا ہے۔۔۔ کسی نے قرآن کو خونی کتاب قرار دیا ہے۔۔۔ تو کسی کی متعصبانہ تحقیق نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلوار کو خونریزی کا سب سے بڑا ذمہ دار ٹھہرایا۔ حقیقت کو خرافات کے پردوں میں لپیٹنے والے یہ نام نہاد دانشور، محقق اور سکالر محض اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف باطنی تعصب، عداوت اور بددیانتی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ حق پر الزامات کا یہ سلسلہ نیا نہیں بلکہ اتنا ہی پرانا ہے جتنی پرانی انسانی تاریخ ہے۔ اس میں شک نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگیں لڑی ہیں۔ معرکوں میں حصہ لیا ہے اور حق و باطل کے ان معرکوں کی سپہ سالاری بھی فرمائی ہے مگر اس کا مطلب کیا یہ نکالا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ساری زندگی جنگ کے میدان میں گزری؟ نہیں، ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ حیاتِ طیبہ کے 10 سالہ مدنی دور میں معرکوں کا یہ دورانیہ صرف آٹھ سالوں پر منحصر ہے۔ پھر ان آٹھ سالہ معرکوں کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ جنگ دفاعی جنگ تھی، کوئی ایک بھی جارحانہ اقدام نہیں تھا۔ آپ نے جنگوں کے قوانین اور ضوابط متعین فرمائے اور کم سے کم جانی نقصان کا اصول اختیار فرمایا۔ یہ ساری جنگیں کیوں لڑی گئیں؟ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے ان معرکوں میں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے متعین کردہ اہداف کو حاصل کیا۔ چونکہ جہاد فی سبیل اللہ تھا اس لیے ان کا بڑا مقصد اللہ کے دین کو اللہ تعالیٰ کی دھرتی پر قائم کرنا تھا اور بس۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان رکھنے والا شخص کبھی بھی اپنے جیسے انسان پر اس لئے ہتھیار نہیں اٹھاتا کہ وہ توسیع ملک چاہتا ہے، ذاتی تسلط چاہتا ہے، ہوس جاہ و منصب چاہتا ہے یا تجارتی اور معاشی مفادات چاہتا ہے۔ اس کے جہاد کا مقصد تو قرآن نے متعین کردیا ہے کہ وہ دنیا کو فتنہ گر قوتوں سے محفوظ و مامون کرنا چاہتا ہے۔ خواہ یہ فتنہ و فساد کسی بھی قومیت یا فرد کی طرف سے پھیل رہا ہو۔

اسلام کی تاریخ نے بالعموم اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مقدسہ نے بالخصوص ثابت کیا ہے کہ اسلام نے کسی محدود نظریے، قومیت، نسب، لسانی شناخت یا جغرافیائی خطے کے لیے معرکہ آرائی نہیں کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جملہ بانیان مذاہب اور فاتحین عالم کے برعکس اپنی کاوشوںکا مرکز فلاح انسانیت ہی رکھا۔ کبھی سروں کو فتح کرنے کی تعلیم نہیں دی، ہمیشہ دلوں کو فتح کرنے پر زور دیا اور صاف ظاہر ہے کہ دل تیغ سے نہیں تبلیغ سے فتح ہوتے ہیں۔ اسلام نے جس قدر فتوحات حاصل کیں، جتنی تیزی سے دنیا کے اطراف و اکناف میں پھیلتا چلا گیا اور آج بھی اس کی نورانی کرنیں ظلمت شب کے پردوں سے جھانک رہی ہیں تو اس کے پیچھے لشکر و سپاہ کا عمل دخل نہیں رہا بلکہ دل و نگاہ کی جلوہ ریزیاں کارفرما رہی ہیں۔ ہاں وہاں وہاں لشکر و سپاہ کی ضرورت بھی پڑتی رہی جہاں جہاں عقل و شعور پر اندھے اقتدار کے پہرے مسلط تھے۔

رحمت عالم کی مصائب سے بھری مکی زندگی ہو یا معرکہ آرائیوں سے بھرپور مدنی دور، نبوت سے مستنیر 23 سالہ دورانیہ ہو یا بعثت سے قبل کی چالیس سالہ حیاتِ طیبہ۔۔۔ ایک ایک دن اور ایک ایک لمحہ انسانیت کو امن، محبت، مروت، عدل، احسان اور ایثار و قربانی تقسیم کرتے گزرا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انقلاب تاریخ کا سب سے منفرد انقلاب ہے جس نے، دنیا کی سیاست، معاشرت اور معیشت کو بدل کر رکھ دیا۔ سیاست کو استبداد سے پاک کیا، معاشرت کو اخلاقی گراوٹ سے پاک کیا اور معیشت کو سودی استحصال سے نجات دلائی۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حیات آفریں انقلاب کو خونی قبا پہنانے والے متعصب مخالفین کو کیا معلوم نہیں؟ کہ اسلام کے نام پر بننے والی پہلی ریاست مدینہ دنیا کا واحد تاریخی واقعہ ہے جس میں ایک انسان کا خون بھی نہیں ہوا۔ حالانکہ یہ ریاست ایک ایسے خطہ زمین پر ابھر رہی تھی جہاں مختلف مذاہب اور نظریات کے حامل قبائل صدیوں سے آباد تھے اور اوس و خزرج جیسے قبائل کی باہمی جنگوں نے تو یہاں کے دیگر افراد کا جینا بھی محال کر رکھا تھا۔ سرورِ کائنات جب مکہ سے ہجرت فرما کر یہاں جلوہ افروز ہوئے تو آپ کا سحابِ کرم ان دشمنیوں اور عداوتوں پر بھی برسا۔ وہی دشمنیاں، دوستیوں میں بدل گئیں۔۔۔ عداوتیں محبتوں میں گھل گئیں۔ ۔۔اور تعصبات کی ہر شکل مواخات (بھائی چارے) میں مدغم ہوگئی۔

یہ انقلاب انسانی رویوں اور احساسات میں بھی حیران کن تبدیلیاں لایا تھا، غلامی کا داغ لیکر پیدا ہونے والوں کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریشی سرداروں پر فوقیت دی۔ بلادِ شام کے عیسائیوں سے معرکہ آرائی کی نوبت آئی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غلام زادہ اسامہ کو سپہ سالاری کا منصب دیکر جہاد کے ساتھ یہ پیغام بھی دیا کہ اسلام میں قیادت کا معیار نام و نسب نہیں اور نہ قبیلائی شناخت۔ فتح مکہ کے روز جہاں جان کے دشمنوں کو امان دی اور چادر رحمت میں سب کو سمیٹ لیا وہاں بلال کو حکم دیا کہ وہ کعبہ کی چھت پر کھڑے ہوکر آذان کی صورت میں کلمہ توحید و رسالت بلند کرے۔ اس عمل سے گویا اس نسلی اور قبیلائی تعصب کا خاتمہ فرما دیا جو عرب کا طرہ امتیاز تھا۔ یہ وہی مکہ تھا جس کے سرداروں نے بلال و یاسر کو منڈیوں سے خرید کر حیوانوں کی طرح اپنی خدمت پر مامور کر رکھا تھا۔ جہاں غلاموں اور سیاہ فام انسانوں کو کوئی با عزت انسان کا درجہ دینے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ آج یہاں تمام قریشی سردار، جنگجو قیادتیں، سیاسی عمائدین اور سماجی تفاخر کے نمائندے موجود تھے مگر کلمہ توحید کی نغمگی اس زبان سے فضاؤں میں بلند ہو رہی تھی جو عربی تلفظ سے بھی مانوس نہیں تھی۔ ہاں یہ وہی قدسی انقلاب تھا جس نے شاہ روم جیسے حاکم مطلق کو فنائیت کے گھاٹ اتارا اور بلال حبشی کو حیاتِ دوام سے ہمکنار کیا۔

اب آجائیں انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروںکے اس شور شرابے کی طرف جس کے ذریعے وہ مسلمانوں کو خوں آشام قوم قرار دیتے ہیں اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس خونی تحریک کا بانی کہتے ہیں۔ تاریخ میں اس سے بڑا جھوٹ، اس سے بڑا دجل اور اس سے بڑا فریب شاید ہی کوئی ہو۔ عقل کے ان اندھوں کو اپنے سیاہ کارنامے اور خون کے دریا نظر نہیں آتے اور ہرزہ سرائی کرتے ہیں اس ذاتِ اقدس پر جن کے پاکیزہ دامن پر خون کا ایک دھبہ بھی نہیں۔ ہم تاریخ عالم کے دامن میں محفوظ حقائق کو گواہ بنا کر فخر کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ انقلابات کی تاریخ میں مصطفوی انقلاب ہی ایسا ہے جو غیر خونی (Blood less) انقلاب ہے۔ 18, 17 سالوں میں تین براعظموں میں پھیل جانے والی اسلامی تحریک صرف اور صرف تعلیمات کی موثریت اور روحانی کشش کی وجہ سے پھیلی۔ آئیں تاریخ کی دہلیز پر کھڑے ہوکر ان جنگوں کا جائزہ بھی لیتے ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی نگرانی میں اہل کفر کے ساتھ لڑیں اور ان جنگوں پر بھی ایک نظر دوڑاتے ہیں جو دور جدید کی ’’مہذب‘‘ اقوام نے بپا کیں۔ ہلاک ہونے والوں کی تعداد خود بول اُٹھے گی کہ خونی تحریک کون سی تھی اور انسانیت نواز تحریک کون سی۔

تاریخ جانب دار نہیں ہوتی، اس کے صفحات پر نظر دوڑائیں اور ابتدائی اسلامی معرکوں میں جانی نقصان کے اعداد و شمار دیکھیں، آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ جن نبوی غزوات کو عالم کفر انسانی امن کے خلاف جنگ کا آغاز قرار دے رہا ہے، ان کی کل تعداد 7ہے۔۔۔ غزوہ بدر میں 22 مسلمان شہید ہوئے جبکہ 70 کفار لقمہ اجل بنے۔ ۔۔اسی طرح غزوہ احد میں 70 صحابہ عروسِ شہادت سے ہمکنار ہوئے اور 30 کافر کام آئے۔۔۔غزوہ احزاب میں صرف 6 مسلمان شہید ہوئے اور 10 کفار رزق خاک ہوئے۔۔۔ یہود مدینہ کی سازشوں کی سرکوبی کیلئے غزوہ خیبر بپا ہوا تو اس میں 18 صحابہ نے مرتبہ شہادت حاصل کیا جبکہ 93 یہود و منافقین واصل جہنم ہوئے۔۔۔ فتح مکہ کے وقت اہل مکہ نے ابتداًمزاحمت کی جس میں صرف 2 مسلمان جان بحق ہوئے اور 12 کفار کا خاتمہ ہوا۔۔۔پھر غزوہ حنین وطائف ہوا تواس میں 6 مسلمان اور 71 دشمن کام آئے۔۔۔ اسی طرح موتہ کے معرکے میں بھی 12 صحابہ نے جام شہادت نوش کیا اور مخالفین کے جانی نقصان کی کوئی تاریخی گواہی موجود نہیں۔ آپ اب ساتوں معرکوں میں جانی نقصان کا چارٹ بنائیں تو صرف 136 مسلمان اور 286 کافر نظر آئیں گے، ان دونوں طبقات کو جمع کرلیں تو یہ تعداد 422 بنتی ہے۔ یہ ہیں وہ ہلاکتیں جو سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں دونوں اطراف کی جنگوں میں ہوئیں۔ اس کے مقابلے میں ہم صرف ان چیدہ چیدہ جنگوں کا تذکرہ کرتے ہیں جو موجودہ اور گزشتہ صدی کے ’’مہذب‘‘ اقوام نے بپا کیں۔

٭ سترویں صدی میں 1618ء سے 1648ء تک جرمنی، فرانس، آسٹریا اور سویڈن کی باہمی جنگ 30 سال جاری رہی اس میں صرف جرمنی کے ایک کروڑ بیس لاکھ لوگ مارے گئے۔

٭ 1857ء کی جنگ آزادی میں ہندوستان میں 27 ہزار مسلمانوں کو تاج برطانیہ کے قانون کے تحت پھانسی ہوئی، دیگر قتل و غارت گری کا کوئی حساب ہی نہیں۔

٭ 1861ء سے 1865ء تک امریکہ کی خانہ جنگی میں 18 لاکھ افراد مارے گئے اور بے پناہ مالی نقصان ہوا۔

٭ بیسویں صدی عیسوی کے آغاز میں جنگ عظیم اوّل سے قبل بلقان اور سلطنت عثمانیہ کے درمیان معرکہ آرائی جاری رہی جس میں اڑھائی لاکھ مسلمان مارے گئے۔

٭ جنگ عظیم اول جو 1914ء سے 1918ء تک جاری رہی، فریقین کی جو تعداد تہہ تیغ ہوئی، ان کی محتاط تعداد 75 لاکھ تھی جبکہ مالی نقصان کا تخمینہ ایک کھرب اور 86 ارب ڈالر لگایا گیا۔

٭ 1918ء میں سویت یونین نے عثمانی خلافت کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سنٹرل ایشیائی مسلمان ریاستوں پر قبضہ کرلیا، ہزاروں مساجد اور مدارس کو بلڈوز کردیا گیا جبکہ دینی اساتذہ اور طلباء کو قطاروں میں کھڑے کر کے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ ان ظالمانہ کارروائیوں میں 10 لاکھ سے زائد مسلمان شہید ہوئے۔

٭ جنگ عظیم دوم 1939ء سے 1945ء تک جاری رہی۔ یہ جنگ بھی یورپی اقوام، امریکہ، سوویت یونین اور جاپان وغیرہ کے درمیان ہوئی اور اب تک کی تاریخ کی سب سے بڑی انسانی ہلاکت کا موجب بنی، اس میں 5 کروڑ انسانی جانیں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ سٹالن گراڈ کے ایک شہر میں ایک ہی روز دس لاکھ لوگوں کو زندگی سے ہاتھ دھونے پڑے جو اپنی جگہ ایک ریکارڈ ہے۔

٭ الغرض ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرانے کا واقعہ ہو یا یوگو سلاویہ میں کمیونسٹوں کے دور میں مسلمانوں کا قتل عام، روس اور امریکہ کی جنگ میں 15 لاکھ افغان مسلمانوں کا قتل ہو یا سربیائی انتہاء پسندوں کے ہاتھوں ڈھائی لاکھ بوسنیائی مسلمانوں کی ہلاکت کا المیہ۔۔۔ قیام اسرائیل کے بعد اب تک فلسطینی اور عرب مسلمانوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ ہو یا کشمیر میں 7 لاکھ بھارتی غنڈوں کے ہاتھوں لاکھوں کشمیری مسلمانوں کی ہلاکت۔۔۔ ایک سے بڑھ کر ایک انسانی ہلاکت کے واقعات ہیں جن کا تسلسل ابھی تک جاری ہے۔ انسانی حقوق کے ان علمبرداروں کو اپنے بریدہ دامن کے یہ داغ تو نظر نہیں آتے البتہ اسلام کی تعلیمات اور شخصیات پر کیچڑ اچھالنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔

علاوہ ازیں گذشتہ دو تین صدیوں سے دنیا مختلف قسم کے سیاسی معاشی اور معاشرتی انقلابات سے ہمکنار ہوئی ہے۔ ہر انقلاب پہلے کا ردعمل تھا اور ایک انتہاء سے دوسری انتہاء تک کا غیر فطری سفر۔ دنیا نے سرمایہ دارانہ نظام کا انجام بھی دیکھ لیا ہے اور کمیونزم کے معاشی انقلاب سے بھی اپنا دامن تار تار کرچکی ہے۔ آج امریکہ سے لیکر یورپ اور آسٹریلیا کی سڑکوں پر ہر قوم ہر مذہب اور ہر رنگ کے انسانوں نے پلاسٹک منی نظام کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا ہے اور اس کے ساتھ انہوں نے اسلامی معیشت اور نظام بنکاری کو انسانیت کے دکھوں کا علاج قرار دیا ہے۔ اس مہذب دور کے ان کروڑوں تباہ حال لوگوں کو سودی نظام معیشت میں موجود نقصانات کا علم آج ہو رہا ہے اور ادھر حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطبہ حجۃ الوداع کو پڑھیں آپ نے آج سے 15,14 صدیاں پہلے سودی نظام کو انسانیت کا دشمن قرار دیا تھا قرآن نے سود خوری کو اللہ کے خلاف اعلان جنگ قرار دیا تھا۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غلاموں، مزدوروں، عورتوں اور بچوں کے جن حقوق کی تاکید اس خطبہ میں فرمائی تھی مغرب صدیوں کا سفر طے کر کے جنیوا کنونشن تک پہنچا لیکن اس کے باوجود یہ قانون فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاثیر کے مقابلے میں فی الحقیقت بے روح اور کھوکھلا ہے۔

شاعر مشرق نے پیغمبر انسانیت کے حضور نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئے کیا خوب ترجمانی کی ہے۔

اے ظہورِ تو شباب زندگی
در جہاں شمع حیات افروختی

جلوہ ات تعبیر خوابِ زندگی
بندگاں را خواجگی آموختی!٭

ڈاکٹر علی اکبر قادری

٭ ’’پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری انسانی زندگی میں رعنائیوں کی ضمانت ہے۔ آپ سے ان جلوؤں کی نمود ہوتی ہے جو اب تک سینہ کائنات میں ایک راز کی مانند مستور تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا میں نور و ہدایت کی ایسی شمعیں روشن کی ہیں کہ انسان کو گمراہی کے پست مقام سے اٹھا کر دنیا کا مقتداء بنا دیا ہے۔‘‘