الحدیث : نبوی تعلیم و تربیت اور فکری انقلاب کا مرکزی نقطہ

علامہ محمد معراج الاسلام

رحمت عالم نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

مَنْ عَالَ جَارِيَتَيْنِ حَتّٰی تَبْلُغَا جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ اَنَا وَهُوَ هٰکَذَا وَضَمَّ اَصَابِعَهُ.

(صحيح مسلم، باب فضل الاحسان علی البنات 4 : 2۰27)

’’جس نے دو بیٹیوں کو پالا یہاں تک کہ وہ بالغ ہوگئیں، میں اور وہ قیامت کے دن اس طرح اکٹھے آئیں گے (واضح کرنے کے لئے آپ نے اپنی دونوں انگلیوں کو ملایا)‘‘۔

شرح و تفصیل

عالم عرب دور جہالت میں جس فکری پس ماندگی ذہنی و اخلاقی پستی اور درندگی کا شکار تھا وہ تاریخ عالم سے مخفی نہیں لیکن رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے مختصر ترین مدت میں جن انسانی قدروں سے آشنا کیا اس نے انہیں اخلاقیات کے عرشِ عُلیٰ تک پہنچادیا، وہ ’’کیا تھے اور کیا بن گئے‘‘ اس تصویر کے دونوں رخ دیکھ کر آپ بآسانی اس فکری انقلاب کی عظمت کا اندازہ لگانے کے قابل ہوجائیں گے۔

جاہلی عرب کا غیر انسانی خونخوار کلچر

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت اور قوانین اسلام کی تعلیم و ترویج سے پہلے، عرب کے طول و عرض میں جو تمدن اور رہن سہن عام تھا اسے عرب کا ’’جاہلی کلچر‘‘ کہتے ہیں۔ جاہلیت کے اس دور میں جو ’’اقدار و روایات‘‘ رواج پاگئی تھیں ان کا انسانیت اور تہذیب و شرافت سے کوئی تعلق نہ تھا، رسم و رواج کے نام پر ایسی حرکتیں تمدن کا حصہ بن گئی تھیں جن کے تصور ہی سے انسانیت کانپ جاتی اور شرافت شرم و حیا کی وجہ سے منہ چھپالیتی تھی چونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، مکارمِ اخلاق کی تکمیل اور ’’اقدارِ انسانی‘‘ کے احیاء کے لئے انسانوں کی اس دنیا میں تشریف لائے تھے۔ اس لئے جب ان کے غیر انسانی، خونخوار کلچر کی تفصیلات سنتے تو آپ کی آنکھیں اشکبار ہوجاتیں اور ان کے ظلم و ستم کی تفصیلات سے بے حد کرب محسوس کرتے۔ ’’جاہلیتِ اولیٰ‘‘ کی تاریخ، بے رحمی اور بیباکی کی ان داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ صرف اس دور کی بربریت کا اندازہ لگانے کے لئے چند نمائندہ مثالیں پیش کرتے ہیں تاکہ اس عظیم و جلیل اور بے مثل انقلاب کا پتہ چل سکے جو اللہ کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختصر مدت میں عرب کی سرزمین پر برپا کردیا اور افکار و اذہان اور انسانوں کو بالکل بدل کر رکھ دیا تھا۔

پہلی مثال : ننھی منی بیٹی کا سفاکانہ قتل

دارمی کی جامع الصحیح میں یہ ہوش ربا واقعہ مذکور ہے جسے خود راوی نے آپ بیتی کے انداز میں بیان کیا ہے کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں زندگی گزار رہے تھے جو بتوں کا پجاری اور خالص جہالت کی پیداوار تھا، بیٹیوں کو بڑی بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتار دیتے تھے اور یہ ستم ڈھاتے ہوئے دل میں یہ خیال تک نہیں لاتے تھے کہ یہ ایک شیطانی اور مکروہ فعل ہے۔

میرے ہاں بیٹی پیدا ہوئی تو میں نے شعارِ عرب کے مطابق دل میں فیصلہ کرلیا کہ وقت آنے پر صفحہ ہستی سے اس کا نام و نشان مٹادوں گا تاکہ آئندہ زندگی میں کسی کو داماد بنانے کی نوبت ہی نہ آئے اور میں ’’سسر‘‘ کہلانے کی ذلت سے بچ جاوں۔ وہ بیٹی زندگی کی منزلیں طے کرنے لگی اور اپنی پیاری من موہنی صورت اور معصوم حرکتوں کی وجہ سے مرکزِ نگاہ بن گئی جو بھی دیکھتا دیکھتا ہی رہ جاتا۔ چھوٹے بچے اگر بھولی بھالی باتیں کریں اور ماں باپ سے والہانہ پیار کا اظہار کریں تو ویسے ہی پیارے لگنے لگ جاتے ہیں، وہ شخص بتاتا ہے، اسے ننھی بیٹی کے ساتھ انس ہوگیا، جب بھی اسے پکارتا وہ بھاگتی ہوئی اس کی طرف آتی اور گود میں بیٹھ کر خوشی محسوس کرتی۔

ایک دن بدبختی اس پر سوار ہوئی، اس نے بچی کو بلایا تو وہ بھاگتی ہوئی اس کی طرف آئی، باپ نے آہستہ آگے آگے چلنا شروع کردیا، وہ محبت کی ماری بھی پیچھے پیچھے آتی رہی، وہ بتاتا ہے۔

فَمَرَرْتُ حتی اتينا بِئرًا مِنْ اهْلِيْ غيْرَ بَعِيدٍ.

ہمارے گھر کے قریب ہی ایک کنواں تھا ہم وہاں پہنچ گئے :

فَاَخَذْتُ بِيَدِهَا فرديت بِها فی البِئْرِ وکان عَهْدِيْ بِهَا اَنْ تَقُوْلَ : يَا اَبَتَاه يَا اَبَتَاه.

میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کنویں میں دھکا دے دیا وہ آخری وقت تک ابا، ابا ہی پکارتی رہ گئی اور پانی میں ڈوب گئی۔

دوسری مثال : جوان بیٹی کا قتل

بیٹیوں کو زندہ ڈبونے یا زمین میں گاڑنے کی یہ رسم، عرب کے کسی ایک حصے تک محدود نہ تھی، سارا معاشرہ ہی اس ابلیسی حرکت کا دلدادہ تھا اور موقعہ کی تلاش میں رہتا تھا، جونہی دیکھتا کہ موقعہ ہاتھ آ گیا ہے تووہ اپنے کام میں کوتاہی نہیں کرتا تھا۔ ایک ایسا ہی سنگدل شخص تھا جسے انتظار میں کئی سال لگ گئے یہاں تک کہ بیٹی جوان ہوگئی نکاح کے پیغام آنا شروع ہوگئے، یہی ان لوگوں کی دکھتی رگ تھی۔ اس کی جھوٹی اور غیر انسانی غیرت بھی بیدار ہوگئی، اس نے دل میں فیصلہ کرلیا کہ اب وہ جلد ہی اس مصیبت سے نجات حاصل کرلے گا۔

اپنی بیوی سے کہا : میں چاہتا ہوں کہ اپنی بیٹی کو اپنے رشتہ داروں سے ملوا لاؤں، بیوی بادلِ نخواستہ تیار ہوگئی اور اسے بنا سنوار کر تیار کردیا اور باپ اسے لے کر روانہ ہوگیا یہاں تک کہ ویرانے میں ایک ویران کنویں تک پہنچ گیا اور بیٹی کو معنی خیز نظروں سے دیکھنے لگا۔ بیٹی سمجھ گئی کہ باپ کی نیت بدل گئی ہے اور وہ اسے ڈبونے پہ تل گیا ہے، وہ کانپ گئی اور موت کے خوف سے باپ کے ساتھ چمٹ گئی اور زار و قطار رونے لگی کہ مجھے قتل نہ کر مگر باپ مصمم ارادہ کرچکا تھا، ایک لمحہ کے لئے ہچکچایا مگر دوسرے ہی لمحے اسے دھکا دے کر پانی میں گرادیا، یہاں تک کہ چیختی چلاتی جوان بیٹی پانی میں ڈوب گئی اور ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگئی۔

وہ عمر کے کسی حصے میں بھی مارنے، ڈبونے، زمین میں گاڑنے اور قتل کرنے کے لئے تیار ہوجاتے تھے اور یہ حرکت کرتے ہوئے ایک ہی بات ذہن میں رکھتے تھے کہ اگر یہ زندہ رہی تو اس کا نکاح کرنا اور کوئی شوہر تلاش کرنا پڑے گا۔ جو ان کا داماد کہلائے گا۔ وہ اس رشتے کو اپنی گالی کے مترادف سمجھتے تھے اور یہ نہیں سوچتے تھے کہ یہ ایک ربانی نظام ہے جو بقائے نسل کے لئے اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہوا ہے اور مرد و عورت کے جوڑے بنائے ہیں اور خاص حکمت کے تحت ان کے درمیان ’’رشتہ مودت‘‘ قائم کیا ہے جس کی وجہ سے اجنبی مرد و عورت کے مابین ’’موانست‘‘ قائم ہو جاتی ہے اور وہ جلد ہی ایک دوسرے کے ساتھ مانوس ہوکر بقائے نسل کا سبب بنتے ہیں۔ قرآن پاک میں ہے :

وَمِنْ اٰيٰـتِهِ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْا اِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَکُمْ مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةً.

’’اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہی میں سے جوڑے بنائے ہیں تاکہ تم تسکین محسوس کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور پیار کا جذبہ پیدا کردیا ہے‘‘۔

(سورة الروم : 21)

فکری انقلاب کا آغاز

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خونخوار اور پٹڑی سے اترے ہوئے بے ڈھب معاشرے کی ایسی حکمت عملی اور تدبر سے تربیت فرمائی کہ وہ فیضِ صحبت اور انقلابی تعلیم کی بدولت جلد ہی راہِ راست پہ آ گیا اور ہدایات و ارشادات نبوت کو دل و جان سے قبول کرلیا اور ان تمام غیر انسانی رسوم و روایات کو ترک کردیا جو مہذب اقدار کو گھن کی طرح کھا گئی تھیں اور ایک ایسا معاشرہ وجود میں آ گیا جو چشمِ فلک نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس معاشرے نے تہذیب و شرافت، انسانی ہمدردی اور اخلاق و مروت کی ایسی شاندار مثالیں قائم کیں جنہیں تاریخ انسانی حیرت سے دیکھتی ہے۔ اور مانتی ہے کہ واقعی ایسے افراد پیدا ہوگئے تھے جن کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ انہوں نے تعلیمات نبوت کی برکت سے خود کو بالکل بدل لیا تھا اور پردہ غیب سے بالکل نئے انسان بن کر ابھرے تھے۔

وہ کون سی انقلابی تعلیم تھی جس نے ان کے فکر و نظر کے رخ موڑ دیئے اور انہیں بالکل نیا اور پہلے سے مختلف انسان بنادیا۔ پہلے ہم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انقلابی تعلیم اور موثر ترین تربیت کا مرکزی نقطہ بیان کرتے ہیں پھر ان کے مثبت نتائج و ثمرات کی شاندار اور کردار ساز مثالیں بیان کریں گے، تاریخ جن کا توڑ نہیں کرسکی اور وہ آج بھی ’’اخلاقیات‘‘ کے آسمان پر مہرو ماہ بن کر چمک رہی ہیں۔

نبوی تعلیمات اور فکری انقلاب کا مرکزی نقطہ

سب سے بڑی حقیقت جس نے صحابہ کرام کو غیر معمولی انسان بنادیا اور وہ دل و جاں سے سب کچھ قبول کرنے اور اپنی رسوم کو بدلنے کے لئے تیار ہوگئے، وہ سرکارنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور ان کے ساتھ والہانہ عقیدت تھی جس نے انہیں دنیا کا منفرد اور مختلف انسان بنادیا وہ زمین پر چلتے پھرتے فرشتے اور جذبہ فدا کاری اور خلوص و ایثار اور نیاز مندی و محبت کی تصویر بن گئے اور عشقِ رسالت میں ایسے مدہوش ہوگئے کہ محبوب کے سوا انہیں کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا فرمودہ نبوت پر سر جھکا کر عمل کرنا اور ہر کام پر اس کو اولیت دینا ان کی زندگی کی ترجیح بن گیا تھا۔

خصوصاً نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ ارشادات جن میں انہیں یہ خوش خبری دی گئی تھی کہ ان پر عمل کرنے سے آخرت میں انہیں ان کے محبوب نبی کی سنگت نصیب ہوگی اور وہ جنت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہیں گے، اس نے انہیں اعمال خیر کا شائق بنادیا اور بالکل بدل کر رکھ دیا مثلاً

1. مَنْ عَالَ جَارِيَتَيْنِ دَخَلْتُ اَنَا وَهُوَ الْجَنَّةَ کَهَاتَيْنِ وَاَشَارِيَا صَبْعَيْهِ.

(ترمذی، 2 : 14)

’’جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی، وہ اور میں جنت میں ان دو انگلیوں کی طرح اکٹھے رہیں گے‘‘۔

2. اَنَا وَکافِلُ الْيَتِمْ فِی الْجَنّةِ کَهَاتَيْنِ.

(ايضاً)

’’میں اور یتیم کو پالنے والا، ہم دونوں جنت میں ہاتھ کی ان دو انگلیوں کی طرح اکٹھے رہیں گے‘‘۔

3۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا راوی ہیں :

ایک دفعہ میرے گھر میں ایک نادار عورت آئی جس کے ساتھ دو بیٹیاں بھی تھیں، میں نے اسے ایک کھجور دی، میرا خیال تھا وہ اس کے تین حصے کرکے دو اپنی دونوں بیٹیوں کو دے دی گی اور ایک خود کھالے گی مگر میری حیرت کی انتہاء نہ رہی جب اس نے کمال ایثار سے کام لیتے ہوئے اس کھجور کے صرف دو حصے کئے اور ایک ایک ٹکڑا دونوں بیٹیوں کو دے دیا اور بھوکی ہونے کے باوجود خود کچھ نہ لیا، میں اس ایثار و محبت پر ابھی مجسمہ حیرت بنی بیٹھی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے اور مجھے غرقِ حیرت دیکھ کر وجہ پوچھی : میں نے ساری صورت حال بیان کردی، سرکار نے اس ایثار کا اجر بیان کرتے ہوئے فرمایا :

مَنِ ابْتُلِيَ بِشَئٍی مِنَ الْبَنَاتِ فَصَبَرَ عَلَيْهِنَّ کُنَّ لَهُ حِجَابًا مِنَ النار.

(ترمذی، 2 : 13)

’’بیٹیوں کی ذمہ داری سونپ کر، جس کا امتحان لیا گیا وہ اس کو دوزخ کی آگ سے بچالیں گی‘‘۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایسی ہی خوشخبریاں تھیں جنہوں نے صحابہ میں جوشِ عمل کی بجلیاں بھردیں اور وہ دوزخ سے بچنے اور سرکار کی معیت اور سنگت حاصل کرنے کے لئے اپنی سابقہ زندگی کو بدلنے اور ساری خونخوار رسمیں چھوڑنے کے لئے تیار ہوگئے۔ یہ صرف رحمتِ عالم کی محبت تھی جس کی خاطر وہ رسمِ کہن چھوڑنے اور رسمِ محبت نبھانے پر آمادہ ہوگئے اور شفقت و محبت کا آسمان بن گئے اور صرف انسانوں ہی کو نہیں بلکہ دوسری مخلوق کو بھی اس سائباں تلے لے لیا، ایک عجیب و غریب اور حیرت انگیز مثال یہ ہے :

جرنیل صحابی کی کبوتری پر شفقت

شوق شہادت سے سرشار عربی شہسوار صرف اللہ کی رضا کے لئے جنگ کرنے والے پر اسرار بندے ایک جنگی سر زمین پر فروکش ہوئے، کچھ عرصہ کے لئے اس جگہ فوجی کیمپ قائم کرلیا اور عارضی رہائش کے لئے خیمے گاڑ دیئے۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اسلامی لشکر کے سپہ سالار تھے۔ کچھ عرصہ بعد جب کوچ کرنے کا وقت آیا تو آپ نے حکم دیا، خیمے اکھاڑ کر روانگی کی تیاری کی جائے۔ پتہ چلا ان کے خیمہ میں کبوتری نے انڈے دیئے ہوئے ہیں اگر خیمہ اکھاڑا گیا تو کبوتری بے گھر ہوجائے گی اور اپنے بچوں کی حفاظت نہیں کرسکے گی۔

آپ نے حکم جاری کیا کہ کبوتری اور اس کے بچوں کو بے گھر ہونے سے بچانے کے لئے خیمہ اسی طرح نصب رہنے دیا جائے اور لشکر روانہ ہوجائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، لشکر روانہ ہوگیا اور خیمہ اسی طرح قائم رہا۔ وہ ہاتھ جو بڑی بے رحمی سے بیٹیوں کو زندہ دفن کردیا کرتے تھے، خیمے کو اکھاڑنے کے لئے حرکت میں نہ آئے، صرف ایک کبوتری کی دل آزاری سے بچنے کے لئے، جو نہ ان کی بیٹی تھی اور نہ انسان تھی۔ یہ حیرت انگیز شفقت اس محبت کا نتیجہ تھی جو انہیں اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھی اور انہوں نے حکم دیا تھا کہ انسان ہی نہیں جو بھی جاں دار مخلوق ہے اس پر شفقت کرو۔ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے صدقے ایسا انقلاب آیا کہ بیٹیوں پر ترس نہ کھانے والے، کبوتریوں اور چڑیوں پر بھی شفقت کرنے لگ گئے۔