معاشرہ و افراد پر دور رس اثرات کی حامل شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ہمہ جہتی خدمات

منہاج القرآن انٹرنیشنل شارجہ کے رفقاء محترم محمد شفیق قادری، محترم خالد محمود صابری، محترم سعادت حسین اور محترم فہیم احمد کی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کی ہمہ جہتی خدمات اور ان کے معاشرہ و افراد پر مترتب ہونے والے دور رس اثرات و نتائج کے اعتراف میں ایک خوبصورت اور منفرد تحریر۔۔۔۔ اس تحریر کو شیخ الاسلام کی فکر اور تعلیمات سے مستفید و مستنیر ہونے والے ہر شخص کے جذبات کا اظہار کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

قبلہ شیخ الا سلام! ہم کیا تھے؟ گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھٹکتے راہی، نہ اپنی خبر نہ منزل کا سراغ، عمل سے عاری، علم چند نہایت سطحی کتابوں تک محدود، زبانوں پر محض کرامات اور قصے کہانیاں، چند بے بنیاد فتوے اور اس جمع پونجی پر بھی تذبذب کا شکار۔

شاطر حریف کے دلائل کے جھٹکوں سے ہمارے ایمان کی یہ بوسیدہ عمارت زمین بوس ہو چکی تھی، ذہنوں میں تذبذب، دلوں میں شکوک و شبہات اور روح و جسم کفر و شرک اور بدعت کے فتوئوں سے لرزاں تھے۔

دامانِ مصطفی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے گریز کی پالیسی فروغ پارہی تھی، اُمت نعلینِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سائے سے محروم ہورہی تھی، ذات مصطفی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے رشتہ محبت کو غیر ضروری بتایا جا رہا تھا بلکہ عقیدہ رسالت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت ایک ایسے غیر منطقی فکر و فلسفہ کو فرغ دیا جارہا تھا جس کو نہ دل تسلیم کرتا تھا نہ عقل تسلیم کرتی تھی کہ رب کائنات سے بلاواسطہ تعلق جوڑو، کسی واسطے وسیلے کی ضرورت نہیں ہے حالانکہ جس راہبر و راہنما محمد  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے توسل سے اللہ سبحانہ تعالیٰ کی بارگاہ تک رسائی حاصل ہوئی اور پھر اس کے ایک ہونے کا شعور حاصل ہوا وہ ذاتِ کریمہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی ہی ہے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے بتانے سے قبل سینکڑوں بتوں کی پوجا کی جاتی تھی، اب آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے اتنی بے وفائی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے اس احسان کا یہ بدلہ، اس لاریب حقیقت پر یوں اعتراض کہ نام سننا بھی گوارہ نہیں، بیشک ظلم اور جہالت کا یہ امتزاج خوارج کے خواص میں سے ہے۔

اولیاء سے نسبت اور بیعت کو بدعت گردانا جا رہا تھا، شرک و بدعات کے یہ امام بڑے جنونی تھے۔ انسانوں کی وضع قطع سے لے کر لباس، خوراک، تعلقات اور دیگر بے شمار امور کے اندر شرک اور بدعت کو ثابت کرنا انکے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا اور یہی نصب العین، اور شاید اسی جہالت کا اثر تھا کہ بغضِ اولیاء نہ صرف ان کی باتوں سے بلکہ عمل سے بھی عیاں تھا۔

ائمہ کی تقلید تنقید کا نشانہ بن چکی تھی، اور یہ سب کچھ قرآن کی رو سے ثابت کیا جا رہا تھا، غیر مقلد ہونے کا ایک احمقانہ درس الاپاجا رہا تھا، جبکہ واقعہ یہ ہے کہ قانونِ تقلید ہی انسانی معاشرے کا دستور اول ہے کہ انسان ازل سے تقلید ہی کرتا چلا آ رہا ہے کبھی حق کبھی ناحق۔

الغرض سینکڑوں سالوں پہ محیط عقید ہ حق رکھنے والے اپنی لا علمی، بے عملی اور غیر معتبر قیادت کی وجہ سے دفاع کی آ خری جنگ لڑ رہے تھے جس میں ان کی شکست حتمی نظر آرہی تھی۔

لیکن کیونکہ اللہ رب العزت نے اس مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  چراغ کو روشن رکھنے کا وعدہ کر رکھا ہے، اس لیے اس نے اِس ظلمت شب میں آپ کو روشن مصطفوی ستارہ بنا کر اُمتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی خدمت پر مامور کیا اور آہستہ آہستہ اس ظلمت ِشب میں اِس روشنی کی کرنیں اجالا کرنے لگیں، اندھیرے چھٹنے لگے، ظلمت دور ہوئی اور نور پھیلنے لگا۔

مصطفوی فیض سے معمور آپ کے سینہ سے نغموں کا چشمہ رواں ہوا، ایک درد بھری آواز سنائی دینے لگی، توحید و شرک پہ آپ کے پرُ مغز و مدلل دروس شروع ہوئے۔

آپ فرما رہے تھے کہ لوگو! جو آیات پڑھ پڑھ کر بدعت اور کفر و شرک کے فتوے لگائے جارہے ہیں، ان آیات کا تو یہ مفہوم ہی نہیں جو یہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ قرآنی آیات مقدسہ کو دانستہ یا نادانستہ ایسے گڈمڈ کرنے اور کلامِ الٰہی کو اپنی سوچ کے مطابق ڈھال کر اکابرینِ اُمت اور عوام کو گمراہ قرار دینا علم و شعور کے ساتھ ظلم کی انتہا ہے۔

نزول ِآیات کے سیاق و سباق اور اسباب و واقعات کی روشنی میں قرآن پاک کی اِسطرح تفسیر و تعبیر توہمارے خواب و خیال میں بھی نہ تھی، ہمارا مطالعہ تو رٹا لگانے سے زیادہ کچھ بھی نہ تھا۔

قبلہ! جب آپ نے ہمیں قرآن کریم کے یہ دروس اِرشاد فرمائے تو آپ ہمارے لیے ایسا چشمہ صافی ثابت ہوئے جو کہ کسی جاں بہ لب پیاسے کو صحرا میں ملتا ہے۔ آپ کے دلائل و براہین پر مبنی خطابات ہمارے متزلزل ایمان کو تقویت دینے لگے، جیسے نحیف و لاغر مریض کو کوئی دوا راس آ جائے تو وہ تندرست ہونے لگتا ہے، جیسے کسی ملزم کو قاضی یہ بتا دے کہ تم بے گناہ ہو اور آزاد کر دے۔

آپ نے توحید و شرک کے باب میں ناعاقبت اندیش علماء کی ڈالی ہوئی اُلجھنیں اور گنجلکیںکھول دیں اور ہمیں یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ جس ذات کے معاملات میں شِرکت غیر کا خدشہ ہر وقت ان ملاّئوں کو لاحق رہتا تھا وہ تو بذات خود اپنے بہت سے معاملات میں اپنے بندوں کوبحیثیت بندہ خود شریک کیے ہوئے ہے۔

قبلہ! جب آپ کی زبان سے بیان کردہ یہ حدیث مبارکہ فضا میں گونجتی ہے تو اس سے عقیدہ و ایمان کو پختگی ملتی ہے کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  شہداء احد کے مزارات پر تشریف لے گئے اور فرمایا : کہ مجھے تمہارے تئیں شِرک کی طرف پلٹ جانے کا خطرہ نہیں ہے لیکن دنیا کے فتنے میں مبتلا ہو جانے کا ڈر ہے، اس سے نہ صرف شِرک کی بیخ کنی ثابت ہے، بلکہ بقول آپ کے شرک کی تو جڑ کٹ گئی۔

اب یہ بات بڑی عجیب ہے کہ جس فتنے کے نہ پلٹنے پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  مطمئن ہوں اُسی فتنے کو اُمت پر مسلط جائے بلکہ جگہ جگہ ثابت کیا جائے۔ نعوذباللہ کیا یہ جاہل اپنے آپ کو نبی محترم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے زیادہ فہیم سمجھتے ہیں، اِس سے بڑی گمراہی اور کیا ہو سکتی ہے۔

بہرحال آپ نے ہمارے قلوب کو ہر شک و شُبہ سے پاک کیا اور توحید کے نور سے مالا مال کر کے سیرت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے اوراق پلٹنا شروع کئے تو اُن کی خُوشبو سے لوگ ہجوم در ہجوم منہاج القران میں داخل ہونے لگے، تو ہمیں علامہ کا یہ شعر یاد آگیا کہ

ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں
فقط یہ بات کہ پیرمُغاں ہے مردِ خلیق

قبلہ! آپ کی صدائیں گُونجنا شروع ہوئیں، اِدھر آپ کی مبارک زبان کلام پاک بیان کرتی، اُدھر عظمت ِرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا ایک پہلو اجاگر ہوتا۔ ہم مسرّت کے آنسو انکھوں میں دبائے کبھی اللہ کا شکر ادا کرتے تو کبھی ’’مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی ہے کلی، طاہر القادری‘‘ کا نعرہ بلند کرتے۔ قبلہ! ہم جب اس رات اُٹھے تو شان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  بزُبانِ غلامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہمارے قلوب میں نہ صرف اُتر چکی تھی بلکہ جاں گزیں ہو چکی تھی۔

قبلہ! پھر آپ نے عظیم الشاں جلسے کیے، لوگ کشاں کشاں منہاج القرآن کی طرف بڑھنے لگے، جو گمراہ ہوگئے تھے وہ راہ راست پر آ گئے، بے سہاروں کو سہارا ملا، بے علموں کو علم ملا، بے عملوں کو عمل ملا، بے زبانوں کو زباں ملی اور ہمیں بھی بات کرنے کا سلیقہ ملا۔ قبلہ! ہمیں نہیں معلوم کہ یہ آپکا فیضان نظر تھا کہ مکتب منہاج القرآن کی کرامت تھی کہ ہم جیسے گنوار بھی ادب، امن ، علم اور محبت جیسے عظیم تصورات کے علمبردار بن گئے۔

قبلہ! یہ آپ ہی تھے جنھوں نے ہمیں بتایا کہ قرآن کریم کی رو سے ادب و محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا درس کیا ہے۔ قبلہ! آپ نے ’ْہم جیسا ہونے کا‘ گمراہ کن فلسفہ یہ بتا کر، کہ قرآن تو آواز اور پکارنے میں برابری کی اجازت نہیں دیتا تو ذات پاک مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  میں برابری کا کیا سوال ہے۔

پھرخاص حکمت کے تحت رب ِکائنات کا نماز کے اندر قبلہ بدل دینا، امامِ کائنات کا اپنا رُخ ِانور پھیر لینا، اس موقع پر رازداران ِمحبت کا بلا تاخیر یہ فیصلہ کرلینا کہ ان کا اپنا تعلق کسی قبلہ سے ہے ہی کیا۔۔۔ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے بیت المقدس کی طرف رُخ کیا تھا تو وہ اُنکا قبلہ تھا، جب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے مکھ دوسری طرف کر لیا تو انہوں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ رُخ ِیار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی طرف اپنے چہرے موڑ لو، اُس لمحے اُنکا قبلہ نہ بیت المقدس تھا، نہ خانہ کعبہ بلکہ چہرہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  تھا۔ کیوں کھڑے ہوتے صفوں میں دا ہنی طرف۔۔۔ کیسے جھپٹتے لُعابِ مبارک پر۔۔۔ کیسے وضو کے پانی کا ایک ایک قطرہ چہروں پر ملتے۔۔۔ حجام جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے بال مبارک کاٹتا تو کیسے پروانے ان موہائے مبارکہ پر جھپٹتے اور انکو دستاروں میں رکھ کر جنگیں لڑتے۔۔۔ دست مبارک اور قدمین شریفین کے بوسے لیتے۔۔۔ جہاں صاحب ِجمال صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  لیٹتے وہاں صحابہ لوٹتے۔۔ اپنی انگلیوں کے اشارے سے ان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی بات کرتے۔۔۔ لیکن فورا اپنی انگلیوں کے بارے یہ وضاحت کر دیتے کہ یہ اُن صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی انگلیوں جیسی نہیں ہیں، بلحاظِ عُمر اُن صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے بڑے ہوتے لیکن اس بڑے ہونے کا ذکر ایسے کرتے کہ بڑے تو وہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہی ہیں ہم تو بس پہلے پیدا ہوگئے تھے۔۔۔ ان پیار بھری باتوں کو سناتے ہم نے کئی بار آپ کو دیکھا کہ آپ کی محبت کا جام چھلک جاتا، جدائی اور فراق میں ہائے ہائے کی آوازیں نکلتیں اور آپ بے اختیار محبت اور درد بھری آواز میں اقبال کا یہ شعر الاپتے :

اذان ازل سے تیرے عشق کا ترانہ بنی
نماز تیرے نظارے کا اِک بہانہ بنی
ادائے دید سراپا نیاز تھی تیری
کسی کو دیکھتے رہنا نماز تھی تیری

قبلہ! پھر آپ نے سَلُونِی عَمَّا شِئْتُمْ کا درس دیا، اورعلم ِمصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی عظمت یوں بیان کی کہ علم ِمصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر اٹھنے والے ہر ناپاک اعتراض کو چکنا چُور کر دیا، اُن صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی نسبت ’’یہ پتا نہیں وہ پتا نہیں‘‘ کی تکرار کرنے والے کتنے جاہل ہیں کہ جو ہستی اس کائنات کے خالق کا پتہ بتا رہی ہے اب ان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے کون سی ایسی غیب اور ظاہر چیز چھپی ہوئی ہے جو انہیں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پتا نہ ہو، سب سے بڑا راز تو وہ خود تھا، جب اس نے اپنے آپ کو ہی ان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر عیاں کر دیا تو اب ’’دیوار کے پیچھے کیا ہے‘ ‘ کیا یہی بات اس خالقِ کائنات نے صیغہ راز میں رکھنی تھی؟

قبلہ! کچھ عرصہ قبل آپ نے ایک دیرینہ گتھی بھی سلجھا دی، ہمیں ایک نوید صبح سنائی، اس سے گنہگاروں کو سہاراملا، مُلاّ لوگوں کی خلط ملط کی ہوئی بات کو دُرست کیا۔ وہ یہ کہ انسان کے دل میں جہاں حسد، بُغض، عناد اور کینہ جیسے قبیح جذبات پلتے ہیں وہاں اسکے اندر محبت جیسا عظیم جذبہ بھی کار فرما ہوتا ہے، اسی جذبے کی ایک خفیف سی کسک محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی شکل میں ہمارے اندر بھی تھی جو ہمارے مرُدہ ایمان کو جلاِ بخشتی تھی۔

قبلہ شیخ الاسلام! کیونکہ آپ کو بھیجنے والے نے ’’حکیم‘‘ بنا کر بھیجا ہے تو حکیم ہے ہی وہ جو مریض کو دیکھے اور سمجھ جائے کہ اسکا مرض کیا ہے؟ آپ نے ہم جیسے گناہگاروں کا مرض جان لیا۔

ہم نے تو کبھی آپ سے نہ پوچھاکہ عمل اور محبت کیا چیز ہے؟

یکایک آپ کے علم و حکمت کے خزانوں میں سے محبت کی شرائط اور علامات کے ترانے گُونجنے لگے ۔ہم نے ڈرتے ڈرتے اس درس کو سنا، کیونکہ محبت کے حوالے سے عمل کی ناگزیریّت کا فتوی اور فلسفہ ہم سن چکے تھے، ہم نے یہ خیال کیا کہ کیونکہ اب شیخ الاسلام بات کرنے جارہے ہیں تو بالضرور محبت کے ضمن میں اعمال کی شرط بہت کڑی ہوگی لیکن ہمیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ یہ درس ِدین ہے کہ عمل جراحی ہے۔۔۔ نشترِتحقیق سے محبت کے بیج کو چیرا جانے لگاکہ اسکی اصل جانی جائے۔۔۔ عمل سے پردے اٹھائے جانے لگے کہ اس کا باطن ظاہر ہو۔۔۔ قلب کو ایک طرف اور جسم کو ایک طرف کر دیا گیا۔ ان سب کے مابین بُعدکے ہونے پر عقلی خزانے کھولے گئے۔۔۔ قرآن اور کتابوں سے دلائل پہ دلائل اُمڈنے لگے۔۔۔ رونگھٹوں کے کھڑے ہو جانے، سجدوں میں گر جانے اور آنکھوں کے بہہ جانے کے قصّے بیان ہوئے۔۔۔ اور جسم کے کارخانے کے اندر ان دو کو الگ الگ جدا جدا فریق کے طور منوایا گیا۔

قبلہ حضور! آپ اور آپ کا خانوادہ سدا شاد و آباد رہے۔۔۔۔۔۔۔آپ نے ہمیں لُٹنے سے بچا لیا، اب یہ محبت ہمارا سرمایہ ہے، اعمال کی تگ و دو سے ہم اس سرمائے کو مضبوط بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

قبلہ! آپ نے اِنس، حیوانات، نباتات اور جمادات کی محبت کے قصے سنائے۔۔۔ کیسے حیوان اپنا حصہ مقرر کرنے کی درخواست کرتے۔۔۔ شیر اپنے شکار کو مصطفوی غلام جان کر بحفاظت منزل تک چھوڑنے کے لیے آتا۔۔۔ کیسے ٹہنیاں اپنے تنوں سے جدا ہوتیں، رقص کرتیں، جھومتیں، رکوع و سجود کرتیں، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت دیتیں اور اپنے تنوں سے واپس جا ملتیں۔۔۔ کیسے حجر درود و سلام کے نذرانے پیش کرتے۔۔۔

قبلہ محبت کرنے والوں کے قصے تو آپ نے بہت بیان کیے پر یہ واقعہ اپنی مثال آپ تھا، کہ ایک صحابی پر شراب پینے کی وجہ سے کئی بار حد لگی مگر صحابہ کرام کو اُس صحابی پر لعن طعن سے محض اس لئے منع فرمادیا کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی محبت اس کے دل میں موجود ہے۔

سبحان اللہ! بندہ گناہ کبیرہ کا مُرتکِب ہے، لیکن محبت ہے، اس لیے عمل بد کی سزا تو ملی مگر محبتِ رسول کو ردّ نہیں کیا۔ اسکے برعکس اگر اعمال کا انبار ہو، لیکن محبت ثابت نہیں تو بس سب کچھ مردود ہے یعنی عمل علی الدین اور محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  دونوںلازم و ملزوم ہیں۔ مذکورہ واقعہ سے ثابت ہوا کہ جب عمل کے بغیر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے محبت کرنے والا صحابی دنیا میں سزا سے نہیں بچ سکا تو محبت کے بغیر خالی عمل کرنے والے آخرت میں نجات کیسے پائیں گے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ آپ نے بتایا کہ امام بخاری نے یہ حدیث ایمان کے باب میں درج کرکے اپنے ایمان کی بنیاد دنیا والوں کو دکھادی۔

قبلہ! آپ کی طرف سے دیئے جانے والے بخاری شریف کے دروس کی کیا بات ہے۔ اس دور میں اس دورہ بخاری شریف سے بہت سوں کے روحانی امراض و تکالیف کا ازالہ ہوا۔ آپ نے کُتبِ حدیث کے باب کھولے، مصنفین کے طبعِ ذوق کو افشاں کیا، اور سننے والوں پہ یہ نکتہ عیاں کیا کہ ’’ترجمۃ الباب‘‘ اصل میں مصنف کے اپنی طبیعت کے رجحان کے مطابق ہے نہ کہ یہ متن ِحدیث کا جزوہے۔ اسی طرح اسنادِ حدیث کا جاننا اصلِ علم اور دین ہے۔

قبلہ! امام بخاری اور ان کی صحیح کے متعلق مکمل تفہیم کا دعویٰ کرنے والے بھی شاید اس بات سے بے خبر ہوں کہ صحیح بخاری لکھنے کیلئے اِمام بخاری کو کتنی شدید محنت کرنا پڑی۔۔۔ سمرقند و بخارا کی سرد ہوائوں میں پلنے والا جوان کیسے عربستان کے صحرائوں میں مارا مارا پھرتا رہا۔۔۔ ان کے تلامذہ میں کون کون تھا؟ وہ کتنی بار مکہ گئے اور کتنی بار بغداد۔۔۔؟ ان کا مقصد حیات کیا تھا۔۔۔؟ احادیث کو جمع کرنے کی اس ساری کاوش میں ان کا پیمانہ کیا تھا۔۔۔؟ وہ کتنی احادیث جمع کر پائے اور کتنی یاد کر پائے۔۔۔؟ تین لاکھ احادیث یاد کر کے بھی کیونکر صرف 2513 صحیح کے طے کردہ پیمانے پر پوری اتریں۔۔۔ اور اپنے شیخ کی حدیث سے صحیح بخاری کا افتتاح کیونکر کیا۔۔۔؟

قبلہ! صحیح بخاری کے ان سارے اسرارورموز کو جاننے پر بے شک آپ کی بھی بہت عرق ریزی ہوئی، لیکن ہمارا وجدان کہتا ہے کہ سینکڑوں سالوں کے بعد صحیح بخاری کے اس طرز پر دروس دینے پر امام بخاری کی روح ضرور خوشی سے نہال ہوئی ہوگی اور امام بخاری عالم رئویا میں آپ کو اپنی ملاقات کا شرف بخش چکے ہونگے۔ یہ بات اس لئے کررہے ہیں کہ قبلہ اب ہم بھی آپ کے شناساہیں، اور سمجھتے ہیں کہ خالی کتابیں پڑھنے سے بندہ رموز آشنا نہیں ہو سکتا، یہ شناسائی بغیر ملاقات کے ممکن نہیں۔

قبلہ! آپ نے ہمیں ایک عظیم مبارک باد بھی دی وہ یہ کہ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ہمارے ایمان کو عجیب تر گردانا، یہ عجیب خبر ہم میں سے بعضوں کے قلب پر بجلی بن کر گری اور فرط ِجذبات سے ان کی چیخیں نکل گئیں، وہ محبت و جذبات کے آنسوئوں میں ڈوب گئے اور پکار اٹھے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہمارے ماں باپ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر قربان، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہمارے اس ادنی سے دعوی محبت کو عجیب تر ایمان کا درجہ دے رہے ہیں۔

قبلہ! ہمیں کون بتاتا کہ اگر دمِ عیسی سے مُردہ انسانوں کو زندگی ملتی ہے تو مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اپنے مبارک لمس سے لکڑی کے سُوکھے ہوئے خُشک تنے کو احساسِ قُرب دیتے۔۔۔ پھر احساسِ محبت دیتے۔۔۔ پھر احساس ِدوری دیتے۔۔۔ پھر رُلاتے۔۔۔ پھر دِلاسہ دیتے۔۔۔ پھر اطمینان دیتے۔۔۔ پھر مطمئن کرتے۔۔۔ پھر احساسِ سماعت دیتے۔۔۔ پھر قوت گویائی دیتے۔۔۔ پھر احساسِ خواہش دیتے۔۔۔ پھر احساس ِ فیصلہ دیتے۔۔۔ پھر اپنے تئیں بہتر مستقبل کا احساس دیتیـ۔۔۔

الغرض یہ بحر بیکراں ہے بتانے والے بتاتے جا رہے ہیں اور سننے والے سنتے جا رہے ہیں۔ یہ چند سطور اس کی بھی متحمل نہیں کہ ہم یہاں صرف آپ ہی کے بتائے ہوئے علم کا احاطہ کر سکیں۔ یہ تو آپ کے احسان ِعظیم کا ایک ادنیٰ سا اعتراف ہے۔

آپ نے شریک ِحیات مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اَجزائے وجودِ مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اوراصحابِ مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے مابین محبت، ادب، مر وت، لحاظِ مرتبہ و نسبت کو آشکار کیا۔ جن کے قلوب کو صاف و ستھرا کر دینے پر قرآن بھی گواہی دے رہا ہے، مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے انہیں ایسا طاہر و مطہر کیا کہ میل کے ہونے کا شک بھی محال ہے۔ کچھ نادان شدت پسندوں کی وجہ سے مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے اس سرمایہ کو ٹھیس پہنچ رہی تھی۔ یہ نادان اپنے اندر کی منافرتوں اور منافقتوں کو عیاں کرنے کے لئے کبھی اہل بیت ِرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو اور کبھی صحابہ کو نشانہ بناتے۔ نادان بھول گئے کہ یہ زبان درازی اہل بیت اور اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی شان میں ہی نہیں بلکہ بلا واسطہ دامان مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر ہے، اور اس بغض و عناد کی آگ انہی کے خرمن ایمان کو جلا کر راکھ کر رہی ہے۔

قبلہ! آپ نے چہار یار کے قصے تو بہت بیان کئے، اُن کی باہمی الفتیں اور مروتیں، اُنکے اخلاص اور پیار، اُنکی حیا اور پاسداریاں، انکی نسبتیں اور قربتیں اور انکے مقام و مراتب۔۔۔ لیکن دفاعِ شان علی بزبانِ غُلامِ علی ایک منفرد خطاب ہے۔ یہ جہاں حُب علی کا درس ہے وہاں علمِ حدیث کا سبق بھی۔ اس لئے کہ آئندہ کوئی ڈاکٹر یا سرجن حدیث کا درس دینے سے پہلے علم حدیث کا سبق اچھی طرح سن لے اور یاد کر لے، کیونکہ جیسے نیم طبیب ہونے سے کوئی مریض ٹھکانے لگ سکتا ہے اسی طرح نیم مُلاّ ہونے سے کسی کا ایمان ہی ضائع ہو سکتا ہے اور بے تُکی زبان درازی امّت میں مزید انتشار کا باعث بن سکتی ہے۔

قبلہ! شہادتِ امام حسین کا ذکر تو بہت سنا، واعظوں کے وعظ سنے، ذاکروں کے ذکر سنے اور محبت حسین میں غم زدہ ہونے والوں کو دیکھا، لیکن وجہ قتل ہم نے کسی سے نہ سنی۔ تاریخ کے اس سرخ ورق کے سیاق و سباق بھی آپ نے ہی آشکار کئے۔ دین ِجد امجد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سر بلندی کے لیئے تن، من، دھن کی بے دریغ قربانی اور استقامت علی الحق امام عالی مقام کے خصائلِ عظمی میں سے تھے۔ اس لئے انہوں نے سر کٹوانے کو سر بچانے پر ترجیح دی۔ سور ۃ رحمن کے اندر ’’مرج البحرین‘‘ کو دو عظمتوں کا ملاپ گرداننا اور ان میں پڑے ہوئے ’’لوْء لوْء ‘‘کی ہریالی کو شہادت امام ِحسن اور ’’مرجان‘‘ کی سرخی کو شہادتِ امام حسین کی نشانی قرار دینا۔۔۔ یہ نظر، اللہ اللہ، بے شک فیض ِنظر ہے۔

بہرحال قاتل بد بخت بے ایمان تن کا میلا ، من کا غلام اور دھن کا پجاری نکلا، اپنی غیر شرعی حکومت کو قائم کرنے کے لئے دین ِمصطفے اور عترت ِمصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  دونوں کو زخمی کر گیا۔ خود مردود و مغضوب ٹھہرا اور خلافت کے قلعے کوگرا گیا۔ امّت خلافت کے اس قلعے کو کبھی دوبارہ استوار نہ کر سکی، پارہ پارہ ہو گئی اور ہو رہی ہے۔

قبلہ! ہماری روحوں کے تار بھی آپ نے چھیڑے، وہ جو اپنی بے چین روحوں کو اولیاء اللہ کے مزاروں کی حاضری سے راحت دیتے۔۔۔ اپنی مرادیں اور منتیں مانگتے اور اللہ کے دوست کو وسیلہ بنا کر اس سے توسل کرتے۔۔۔ وہ بے چارے مشرک و کافر ٹھہرائے جا چکے تھے۔ فتوئوں کی بوچھاڑ سے انکی توحید میں کوئی زلزلہ نہ آیا، لیکن پریشانی تھی کہ کوئی تو ان فتوئوں کا جواب دے۔

قبلہ! آپ نے قرآن اور حدیث کی نورانی بارش سے اس گرد و غبار کو بٹھا دیا۔۔۔ رشتہ ء شیخ و مرید کو مضبوط کیا۔۔۔ نسبت اور بیعت کی اہمیت کو اجاگر کیا۔۔۔ قبلہ! یوں تو نسبت تئیں آپ نے اتنے رنگ گنِوائے کہ ہم سب تو یاد نہ کر سکے، لیکن نسبت کا ایک رنگ جو اصحابِ کہف کے کتے بارے آپ نے بیان کیا ہم آج تک بھول ہی نہ پائے۔

قبلہ شیخ الا سلام! انکسار ی عاجزی جہاں آپ کی شخصیت کے اہم پہلو ہیں وہاں جرات و بہادری بھی آپ کا طرئہ امتیاز ہے۔ سینکڑوں سالوں سے عقابوں کے آشیانوں پہ قابض زاغوں کو بتا دیا کہ انکی اصلیت کیا ہے۔ صاحبِ نظر مرشد اور مرید کی پہچان کا پیمانہ بھی مقرر کر دیا۔

قبلہ! آپکی تعلیم و تربیت کے اثر سے نسبتوں کی عقیدتیں ہمارے قلوب میں جڑ پکڑ چکی ہیں، اس لئے ہم میں جو کوئی حج پہ جاتا تو نقوشِ پائے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  تلاش کرتا پھرتا۔۔۔ کبھی بدرو حنین کی مٹی کو چومتا۔۔۔ کبھی حر ا کے پتھروں پہ سجدہ کرتا۔۔۔ اس لئے کہ آپ نے قرآن کی یہ بات ہمارے دلوں میں راسخ کردی ہے کہ شعائر اللہ کی تعظیم کرنا تقویٰ ہی نہیں بلکہ دلوں کا تقویٰ ہے۔

قبلہ! بہت سارے تاریخ ساز کام بھی آپ کے دست اقدس سے انجام پائے، جن میں سے چند ایک مثلاً قصاص و دیت کا مسئلہ۔۔۔ تحفظ ناموسِ رسالت کے لئے قانون سازی۔۔۔ مسئلہ رجم پر شریعت کونسل کو رہنمائی۔۔۔ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پہ بدبخت قادیانی کوکھلا اعلان مباہلہ۔۔۔ ولادتِ مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پہ توپوں کی سلامی کے لیے سرکار سے منظوری۔۔۔ مخلوق خدا کی روحانی و فکری تربیت کیلئے اجتماعی اعتکاف کا آغاز۔۔۔ عالم گیر میلادِ مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کانفرنسز کا انعقاد۔۔۔ عرفان القرآن کی صورت میں دور ِحاضر کے تقاضوں کے مطابق ایک منفرد اور عام فہم ترجمہ۔۔۔ المنہاج السوی، جامع السنہ۔۔۔ دہشت گردی اور فتنہ خوارج کے خلاف مبسوط تاریخی فتویٰ۔۔۔ دفاعِ شیخین اور ہزاروں احادیث پر مشتمل کتبِ احادیث۔۔۔ بصورت ِگوشہ، درود و حلقہ درود محافل کا قیام۔۔۔ روز محشر ساقی کوثر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  آپ کو اِن گوشوں کے قائم کرنے پر حسنِ کارگردگی کی سند عطا فرمائیں گے۔ ان شااللہ

حقوق انسان اور حقوق نسواں کی آڑ میں پلنے والے عالمی فتنے کی سرکوبی اور ان حقوق کی اسلامی تعلیمات کے آئینے میں صحیح تصویر کشی کر کے یہ ثابت کر نا کہ دنیا کا کوئی معاشرہ کسی کو بھی اسلام سے بڑھ کر حقوق نہیں دے سکتا۔ نسواں کو آزادی کا جھانسا دے کر اسکی عصمت کو تار تار کرنے والے اور کھیل تماشا بنانے والے اور انسانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے بد بخت نہ حق پہچانتے ہیں نہ حقوق جانتے ہیں۔

زندہ رود کی مانند سلاسلِ طریقت، جن کا ربط حضرت خواجہ حسن بصری سے آگے اپنے منبع و سر چشمہ حضرت مولا علی شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم سے تاریخ کے اوراق میں گم ہو چکا تھا، قبلہ! آپ نے تاریخ کی ان گم شدہ کڑیوں کو جوڑ کر اس زندہ رود کو بحر بیکراں میں ضم کر دیا کہ آئندہ نہ کوئی تاریخ دان پریشان ہو اور نہ ہی کوئی طالب علم۔

مبارک ہو بالآخر آپکی آواز سے یہ حصار بھی ٹوٹا، مادی ترقی اور اپنی ایجادات پر نازاں قوموں کے سامنے صدیوں سے اسلام پہ پڑے غلاف کو اٹھا دیا، اور انہیں خبر دار کیا کہ اسلام کو رسومات کا مذہب سمجھنے والو! سنو، اسلام، قرآن و سنت کی شکل میں یہ ایک ایسا چشمہ ہے جس میں ایمبریالوجی، بیالوجی، فزکس، کیمسٹری، اناٹومی، سرجری، میڈیسن، اسٹرانومی، میتھ میٹکس، جیومیٹری، جیوگرافکس، سوشیالوجی، ہسٹری، پولیٹیکل سائنس، سائیکالوجی، اکنامکس، برقیات، میکانیات، موسمیات الغرض وراء افلاک کی بلندیوں سے لے کر زمین پر چلنے والی چیونٹیوں کے باتیں کرنے تک کا علم ہے۔

اسکے علاوہ ہم نے آپ سے سیاسیات، قوموں کی نفسیات، مزاج، جماعت کے درس بھی سنے۔۔۔ اوریہ کہ عملِ سیاست بھی عظمتِ مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی ایک کرن ہے۔۔۔ جمہوریت ایک طرزِ زندگی ہے جو کہ بتدریج قوموں کے اندر پنپتا ہے اور باقاعدہ ایک عمل سے گزر کر کوئی قوم جمہوری طرز فکر اختیار کرتی ہے نہ کہ یہ کوئی کذب و افترا پر مبنی بے بنیاد سیاسی نعرہ ہے جو کہ ہم پچھلے 64 سالوں سے سنتے آ رہے ہیں۔

قوموں کی روایات سے مزاج تخلیق پاتے ہیں، مزاج سے طرز فکر جنم لیتاہے، اور اسی فکر سے عمل اور قوم کے مجموعی عمل سے معاشرے کے حالات کا مد و جزر وجود پاتا ہے۔ انسانی معاشرے ، مزاج، نفسیات اور سیاسیات کا یہ فہم آپ سے وابستہ ہر کارکن کو حاصل ہے اور یہ آپ کے دروس کا فیض ہے، ورنہ اتنی باریکیاں کتابیں پڑھنے سے بھی حاصل نہیں ہوتیں۔

ہم جماعت اورقائد کی حیثیت اور کارکن کی ذمہ داریوں سے نابلد، اور اس بے علمی کی وجہ سے کئی سوالات و اعتراضات سر اٹھاتے، اس صورت حال میں قائد محترم، ہمیں ایک منظم تنظیم کا کارکن بنانے کی ذمہ داری بھی آپ نے نبھائی، اور نماز کی جماعت سے لے کر غزوہ احد کی مشکلات تک بے شمار دقیق نکات کو تربیتاً آشکار کر کے جماعت کی کامیابی کو قائد اور کارکن کی ہم آہنگی پر منحصر، اور اس میں بے قاعدگی کو جماعت کی ناکامی کا سدباب قرار دیا۔

قبلہ شیخ الا سلام! یہ آپ کے دروس کی ایک ہلکی سی جھلک ہے۔ یہ تحریر اس بحر کو سمیٹنے کی متحمل نہیں اور نہ یہ مقصد ہے۔ یہ ایک ادنیٰ سا اظہار تشکر ہے اور بحیثیت شاگردوں کے استادکے حضوراظہار خود اعتمادی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے فضل سے اور آپ کے فیض سے یہ عقائد میں پہاڑ کی طرح پکے ہیں، مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  انقلاب کے دیوانے ہیں اور آپ کے دست و بازو ہیں۔

’’پیر سائیں آخر تے ہتھ بھد تے عرض کریندیں آں، اگر کڈھائیں امتحان پو گیا تے انشااللہ اے سر چا ڈیسن پر کنڈ نہ ڈیسن‘‘۔۔۔ جن کے اندر جو کمی ہے وہ بھی ان شاء اللہ ختم ہو جائیگی۔

قبلہ ہمیں یقیں ہے کہ اقبال جس مرد ِمومن کی تلاش میں رہے، وہ آپ ہی کی شخصیت ہے۔ آخر میں دعا گو ہیں کہ یا اللہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کو دنیا و آخرت کی بھلائیاں اور خوشیاں عطا فرما اور منہاج القرآن کی صورت میں لگائے گئے ان کے شجر سایہ دار کو محفوظ و مامون فرما۔ ان کی عمر، علم، فکر اور صحت میں برکتیں عطا فرما۔