وراثت پیغمبرانہ کے امین کے نام

پروفیسر محمد نصر اللہ معینی

سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے دور خلافت میں ایک دن مسجد نبوی میں حلقہ احباب میں بیٹھے تھے۔ اور یہ وہ دور تھا جب خلافت اسلامیہ کی سرحدیں ہزاروں میلوں تک پھیل چکی تھیں اور قیصر وکسریٰ آپ کے نام سے لرزہ براندام رہتے تھے۔ کسی نے کہا امیر المومنین آپ کے دنیاوی مقام ومرتبہ کاحال سب کے سامنے ہے۔ آخرت کاحال یہ ہے کہ آپ کو زندگی میں ہی جنت کی خوشخبری دے دی گئی ہے۔ بلکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ابوبکر وعمر سیدا کھول اہل الجنۃ ابوبکر وعمر جنت کے ادھیڑ عمر لوگوں کے سردار ہیں۔ یوں جنت کے ایک طبقہ کی سرداری عطا ہونے کی بھی نوید دے دی گئی۔

امیرالمومنین! آپ سے میرا سوال یہ ہے کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود کیا کوئی ارمان ابھی دل میں باقی ہے؟

فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ہاں میری ایک حسرت ہے کہ کاش میں معلم ہوتا۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا فرمان ان اساتذہ کے لئے مشعل راہ ہے جو دیگر پیشوں اور حکومتی مناصب کے ٹھاٹھ باٹھ، سہولتیں اور تنخواہیں دیکھ کر ٹھنڈی آہیں بھرتے اور حسرت وپچھتاوے سے دو چار رہتے ہیں۔ یہ درد وغم کی کیفیت اس لئے ہے کہ بدقسمتی سے معلمین کی اکثریت پیشہ تدریس کو صرف روزی اور حصول زر کا ذریعہ سمجھتی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ معلمی صرف ایک پیشہ نہیں ایک بہت بڑی نعمت اور اعزاز ہے، اس لئے کہ تمام پیغمبر انسانیت کے معلم تھے۔ خود سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

’’انما بعثت معلما‘‘

’’میں معلم ہی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ ‘‘

یہ ارشاد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مسلمان استاد کو عزت وسرفرازی کے آسمان پر پہنچا دیتا ہے، کیونکہ اس فرمان مبارک کی روشنی میں وہ

٭ وراثتِ پیغمبری کا امین ٹھہرتا ہے۔

٭ اور مسند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وارث قرار پاتا ہے۔

پیغمبرانہ وراثت کا امین بننے اور مسند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وارث قرار پانے سے بڑا منصب اور مقام و مرتبہ بھلا کسی مسلمان استاد کے لئے کوئی متصور ہو سکتا ہے؟ہرصاحب شعور کے پاس یقیناً اس کا جواب نفی میں ہی ہو گا۔

اب رہا یہ سوال کہ کیا ہمارے دور کے معلم کواس مقام و مرتبے کی عظمت اور تقاضوں کا ادراک بھی ہے یا نہیں؟

مجھے افسو س سے کہنا پڑتا ہے کہ میں نے مختلف کالجوں میں اپنی چونتیس سالہ سروس کے دوران اس مقدس پیشے سے وابستہ افراد کی اکثریت کو اس منصب کی عظمت اور اس کے تقاضوں سے بے بہرہ یا غافل اور لاپرواہ پایا۔ کیسے پایا؟ فرائض منصبی سے غفلت اور کوتاہی برتنا، وقت کی پابندی نہ کرنا اپنے علم کواپ ٹو ڈیٹ نہ کرنا۔ ابلاغ علم میں بخل کرنا، تعصبات یا مفادات کے تحت امتحان خصوصاً سمسٹر سسٹم کے امتحانات میں اپنے منظور نظر طلباء وطالبات کو نوازنا اور دیگر کو نظر انداز کر دینا۔ شکوہ وشکایت پر طلباء سے تھانیدارانہ رویہ اپنانا۔ ان کے مستقبل کے برباد ہونے کی پرواہ نہ کرنا۔ طلباء کی تربیت اور کردار سازی سے لاپرواہی برتنا۔ علاوہ ازیں کئی اور پہلو بھی ہیں جن پر مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں تفصیل سے بات کی جا سکتی ہے لیکن ان صفحات میں اس کی گنجائش نہیں۔

طالبان علم کی تعلیم وتربیت کے لئے ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کتنے فکر مند تھے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت ملاحظہ فرمائیے۔

قال صلی الله عليه سياتيکم اقوام يطلبون العلم فاذا رأيتموهم فقولوا لهم مرحبا مرحبابوصية رسول اللّٰه واقنوهمo

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا عنقریب لوگ علم کی طلب میں تمہارے پاس آئیں گے انہیں دیکھو تو انہیں خوش آمدید کہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وصیت کے ساتھ خوش آمدید اور (پھر) انہیں تعلیم سے مالا مال کر دو۔

دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں :

اذاجاء کم فاستو صوابهم خيراًo

جب وہ تمہارے پاس آئیں تو انہیں بھلائی کی تلقین کرو۔ ابن ماجہ کی روایت میں ہے۔

جب علم کی تلاش میں تمہارے پاس آئیں۔

 فَرَحبّوْهُمْ وَحَيُّوْهُمْ وَعَلِّمُوْهُمْ.

تم انہیں مرحبا کہو ان کی زندگی سنورانے کا سامان کرو اور انہیں تعلیم دو۔

اس فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الفاظ پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مسلمان استاد کو صرف تعلیم دینے والے کے روپ میں ہی نہیں دیکھنا چاہتے بلکہ آپ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے طلباء کے لئے خیر خواہ اور سراپا شفقت ومہربانی بن جائے اور اس کی شفقت وحسن اخلاق طلباء کے پاؤں کی زنجیر بن جائے تاکہ وہ بڑی نیاز مندی اور شکر گزاری کے ساتھ علم کی پیاس بجھا سکے۔ اگر معلم کو اس کے تلامذہ کی حالت بے چین نہیں کرتی، ان کی فکر میں اس کی آنکھیں نہیں بھیگتیں‘ ان کی خیر وفلاح کے لئے بارگاہ ایزدی میں ہاتھ نہیں اٹھتے تو سمجھ لے کہ وہ ابھی مسند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وارث کہلانے کا حق دار نہیں بنا، کیونکہ وہ اس مکرم ہستی کی مسند کا وارث ہے جس کی درد مندی اور دلسوزی اور خیر خواہی کو قرآن مجید ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔

لَعَلَّکَ بَاخِعُ نَفْسکَ اَلَّايَکُوْنُوْا مُوْمِنِيْنَo

ایسا لگتا ہے کہ آپ اپنے آپ کو اس فکرمیں گھلا کر جان کھو دیں گے کہ وہ (قریش مکہ) دولتِ ایمان سے سرفراز کیوں نہیں ہوتے۔

آج کے استاد کی توجہ صرف نصابی کتب پڑھانے اور نصاب ختم کرانے پر مرکوز رہتی ہے۔ اسے اس سے کوئی غرض نہیں کہ طالب علم کیسا انسان بن رہا ہے، اس کے اندر کس قسم کی عادات پروان چڑھ رہی ہیں اور اس کے اندر پیدا ہونے والے رویوں میں خاندانی نظام یا اسلامی سوسائٹی کے لئے کیا خطرات پوشیدہ ہیں۔

حکیم الامت علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ اپنا ایک واقعہ اسرار خودی و رموز بے خودی میں بیان کرتے ہیں کہ میں نوعمر تھا۔ برا بھلا سوچنے کی طرف توجہ کم تھی ایک دن دروازے پر ایک سائل آیا جس نے کرخت آواز میں صدا لگائی۔ مجھے اس پر غصہ آ گیا۔ ایک ڈنڈا میرے ہاتھ میں تھا جسے میں نے اس کے سر پر دے مارا۔ فقیر زخمی ہو گیا بھیک اس کے ہاتھ سے گر گئی اور سر سے خون بہنے لگا۔ جب کوئی چارہ نہ دیکھا تو وہ میرے والد گرامی کے پاس جا کر شکوہ کناں ہوا۔

والدگرامی نے فقیر کاحال سنا اور دیکھا تو آنکھیں برس پڑیں۔ مجھے بلایا اور کہا بیٹا میری بات توجہ سے سنو :

گفت فردا امتِ خیر الرسل
جمع گردد پیش آں مولائے کُل

درمیانِ انجمن گردد بلند
نالہ ھائے ایں گدائے درد مند

اے صراطت مشکل از بے مرکبی
من چہ گویم چوں مرا پرسد نبی

حق جوانے مسلم با توسپرد
کو نصیبے از دبستانم نبرد

کہا کل قیامت کے دن ساری دنیا موجود ہو گی پیغمبروں، صدیقوں، شہیدوں کا مجمع ہو گا۔ خیر الرسل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت بھی آپ کے گرد جمع ہو گی۔ اس مجلس میں اس گدا کی درد بھری آواز بلند ہو گی۔ ایسے میں تیرا باپ اپنی سفید داڑھی لے کر اپنے پیغمبر کے سامنے بحیثیت ملزم پیش ہو اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے پوچھیں کہ اے اقبال کے والد میں نے تیرے سپرد ایک امانت کی تھی اور ایک مسلمان بیٹا تیرے حوالے کیا تھا کہ اس کی تعلیم و تربیت اس طرح کرنا کہ یہ ایک اچھا انسان بن کر میرے پاس آئے لیکن اس نے میرے دبستان سے کـچھ حاصل نہیں کیا۔ تو نے اسے یہ تعلیم دی کہ یہ غریبوں کو ستائے اور بلا وجہ مارے پیٹے۔ اے بیٹا بتا! میں اس پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیا جواب دوں گا۔ پھر فرمایا :

باز ایں ریش سفید من نگر
لرزہ امید و بیم من نگر

بر پدر ایں جور نازیبا مکن
پیش مولا بندہ را رسوا مکن

میری سفید داڑھی کو دیکھومیری امیدوبیم کی کیفیت میں لرزش کو ملاحظہ کرو۔ اپنے باپ پر ظلم نہ کرو اسے اپنے آقا کے سامنے رسوا ہونے سے بچالو پھر فرمایا :

غنچہ از شاخسارِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
گل شو از بادِ بہار مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

از بہارش رنگ و بو باید گرفت
بہرہ، از خُلق او باید گرفت

اے بیٹے تو مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شاخ کا غنچہ ہے تو مصطفوی باد بہاری سے فیضیاب ہو کر پھول بن جا۔ ان کی بہار سے رنگ و بوحاصل کر لے اور ان کے اخلاق عالیہ سے بہرہ یاب ہو جا۔

اقبال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اپنے والد گرامی کی باتیں سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے مجھے اپنے فعل پر بڑی ندامت ہوئی، عاجزی سے معافی مانگ کر عہد کیا کہ آئندہ ایسی کوئی حرکت نہیں کروں گا۔

وہ لوگ جو اس شعبہ تعلیم وتربیت سے وابستہ ہیں، خواہ والدین ہیں یا اساتذہ‘حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے بیٹے اور بیٹیاں ان کے پاس اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امانت ہیں اگر یہ امانتیں ان کی غفلت شعاری، لا پرواہی، بے عملی، غیر منصفانہ اور غلط رویوں کی وجہ سے علم نافع اورعمل صالح سے محروم ہو کر راہ حق سے برگشتہ ہو گئیں، تو اس کی جوابدہی دربار الٰہی اور دربار رسالت میں کرنا پڑے گی اور اس میں اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے والد گرامی جیسے حساس، درد مند اور با کردار معلم ہی سرخرو ہوں گے۔