حمد باری تعالیٰ و نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

یا حاکم الحاکمین!

قریہ عشقِ پیمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مجھے سلطان کر
یعنی، فقرِ شاہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادنیٰ سا اک دربان کر

ہر گھڑی مصروف رکھ، مدحت نگاری میں مجھے
نعت کی تخلیق کا ہر مرحلہ آسان کر

خوشبوؤں نے آج بھی باندھا ہے سامانِ سفر
شہرِ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مجھے مہمان کر

ہر قدم پر عظمتِ رفتہ کی چمکے روشنی
میرے پاکستان کو سچ مچ کا پاکستان کر

داخلی ہر راستہ مسدود ہے، میرے خدا
آج بھی جاری زمیں پر آج کا فرمان کر

ہو مری پہچان سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل
اپنے اک ادنیٰ سے بندے پر تُو یہ احسان کر

یا خدا! جھوٹے خداؤں کا ہے یہ حکمِ جدید
اپنی قبریں کھودنے کا آپ ہی اعلان کر

اپنے بچوں کو وراثت میں مـَیں دوں گا آفتاب
مجھ کو بھی یارب! غلامِ صاحبِ قرآن کر

یہ یقیں رکھ، شاعرِ خیرالبشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! محشر کے دن
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قدموں میں بلائیں گے تجھے پہچان کر

نا سمجھ، سورج ہتھیلی پر غلامی کے سجا
نعت لکھ کر اہلِ فن کو آج بھی حیران کر

آسمانی ہر صحیفے میں محاسن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
تُو کتابِ زندگی کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عنوان کر

دامنِ دل میں سجا نقشِ قدم سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
اپنی بخشش کا ریاض خوشنوا سامان کر

(ریاض حسین چودھری)

نعت بحضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

جہاں میں جس قدر شان رسالت کی دہائی ہے
فلک پر اس سے بھی برتر جمال مصطفائی ہے

میں قرباں، آپ کی آمد ہوئی اُس رات جس جا پر
کہ اُس جا پر فرشتوں نے پروں سے کی صفائی ہے

یہی وہ وہ نور، ضو افشاں ہے اب سارے زمانے پر
کہ اسی اک نور سے عالم میں فیضِ روشنائی ہے

منور ہو گئی ہر شے انہی انوار کے صدقے
نجوم و مہر و مہ نے بھی جلا انہی سے پائی ہے

خوشا جب وہ خرام ناز تھے عرش معلی پر
فرشتوں نے سلامی دی کہ اُن کی رونمائی ہے

عطا فاروق مضطر کو بھی ہو نعلین کا صدقہ
کہ اس بے مایہ خاکِ پا نے نعت اُن کی بنائی ہے

(فاروق احمد محمود)