اداریہ : غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں

عرفِ عام میں عزتِ نفس، خود داری اور وقار کو غیرت کے معنوں میں لیا جاتا ہے۔ وقار ذاتی بھی ہوتا ہے اور قومی بھی۔ اسی طرح عزت نفس اور خود داری جہاں انفرادی خصوصیت ہوتی ہے وہاں قومی اور ملی سطح پر اس کی ضرورت و اہمیت کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ دین اسلام بنیادی طور پر فرد سے لے کر معاشرے اور معاشرے سے لے کر قوم اور ملت کی ہر سطح پر وقار، عزت، آبرو اور غیرت و حمیت کی تعلیم دیتا ہے۔ اس کے ثقافتی، سماجی، سیاسی اور مذہبی پہلوؤں میں جس پر بھی نظر دوڑائیں آپ کو ہر کہیں وقار اور حسن معنوی کی تہہ در تہہ گہرائیاں ملیں گی۔ شرک کو اللہ تعالیٰ نے اسی لئے ظلم عظیم کہا ہے کہ اس میں بندہ خالق کی جگہ حقیر اشیاء کے سامنے سجدہ ریز ہو کر اعلیٰ انسانی وقار کو خاک میں ملاتا ہے۔

قومی زندگی کا وقار بھی خود داری اور غیرت و حمیت پر مبنی کارکردگی سے مشروط ہے۔ جن قوموں کو اجتماعی عزت اور وقار عزیز ہوتا ہے وہ ذاتی زندگی میں بے شمار ضرورتوں کی قربانیاں دینے کی عادی ہوتی ہیں کیونکہ وہ اسی قومی وقار اور عزت کے اندر اپنی انفرادی غیرت و حمیت دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ شہید کو اسلام میں اسی لئے نہایت قدر و منزلت حاصل ہے کہ وہ وسیع تر دینی اور قومی وقار کے پیش نظر اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیتا ہے۔ اسلام کی فاتحانہ شان و شوکت کو دس بارہ صدیاں اسی جذبہ غیرت و حمیت نے سربلند رکھا۔ پھر جب انفرادی مفادات قومی مفادات پر غالب آنے لگے تو قومی اور ملی تشخص اور شان و شوکت کے بلند و بالا مینار بھی زمین بوس ہو گئے۔

جنگ عظیم اول کی تاریخی فتح کا جشن منانے والے برطانوی حکمران چرچل نے اسی اسلامی اجتماعی وقار کا مذاق اڑاتے ہوئے سلطنت عثمانیہ کے نقشے پر اپنے ہاتھ سے الٹی سیدھی لکیریں کھینچی تھیں جو بعد میں ٹکڑے ٹکڑے اسلامی دنیا کی سرحدوں میں تبدل ہو گئیں۔ وہ دن اور آج کا دن ایک صدی گزر چکی ہے مسلمان اجتماعی وقار اور سیاسی استحکام کو ترس گئے ہیں۔ ان کی غیرت و حمیت بھی اب اسی طرح ٹکڑوں میں بٹ گئی ہے۔ اس دور بے عزتی سے نکلنے کے لئے مسلمانوں نے پوری دنیا میں اگرچہ مزاحمتی تحریکیں شروع کر رکھی ہیں لیکن مخالفین نے انہیں اس زوال میں بھی فکری، مذہبی، سیاسی اور ثقافتی انتشار کا شکار بنا رکھا ہے۔ مکار، چالاک اور دور اندیش دشمن نے مسلمانوں کے اجتماعی وقار اور غیرت ملی کو خاک میں ملانے کے لئے بے شمار ہمفرے، میر جعفر اور لارنس آف عربیہ متحرک کر رکھے ہیں۔

عالم اسلام کی موجودہ صورت حال کو دیکھ کر دکھ اور افسوس ہوتا ہے کہ نبی آخرالزمان رسول کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس امت پر کس طرح کے حکمرانوں نے تسلط جما لیا ہے؟ انہیں ذاتی گروہی اور علاقائی سیاست میں الجھا کر ان کی اجتماعی وقار کی منزل کو کتنا دور کر دیا ہے۔ پاکستان کا وجود بھی گذشتہ صدی میں اسی اسلامی اساس پر ابھرا تھا کہ یہاں کے کلمہ گو مسلمانوں کو شخصی عزت و وقار کی بحالی کے ساتھ قومی اور ملی غیرت و حمیت کا موقع بھی ملے گا۔ اقبال اور قائد کے ہمراہ جن ہزاروں عمائدین اسلام نے قربانیاں دیں اور تحریک کی بنیادوں میں لاکھوں مسلمانوں نے اپنا خون بہایا وہ بھی دین کے نام پر بننے والی اسی مملکت خداداد کے لئے تھا۔ کسے معلوم تھا کہ دنیا کی سب سے بڑی اور خونی ہجرت کے نتیجے میں بننے والا یہ مسلم ملک بددیانت حکمرانوں کے ہاتھوں کھلونا بن جائے گا۔ آج کا پاکستان وہ بدنصیب مسلمان ملک ہے جہاں کوئی طبقہ، کسی دور میں بھی خوش نہیں رہا یہاں کے اساتذہ، طلباء، وکلاء، مزدور، صنعتکار، کاشتکار اور عوام الناس گذشتہ 60 سالوں سے ملکی خوشحالی اور قومی وقار کے خواب دیکھ رہے ہیں، انہیں ہر حکمران دھوکا دیتا اور لوٹتا رہا ہے۔ انہی ہوس پرست حکمرانوں کی غلطیوں سے آج ہم سر سے پاؤں تک دشمن قوتوں کے مقروض ہو چکے ہیں۔

ہماری قومی اسمبلی ملک و قوم کی سلامتی پر مبنی قرار دادیں منظور کرتی ہے مگر استعماری طاقتیں اس طرح کی کسی بھی ’’قرار داد‘‘ کو نہ صرف خاطر میں ہی نہیں لاتیں بلکہ معذرت کی بجائے مزید غصہ کا اظہار کرتے ہوئے اس سے بھی بڑھ کر اپنے اہداف کے تعاقب میں کاروائیاں جاری رکھتی ہیں۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ ہمیں فرنٹ لائن اتحادی بنا کر ہمارے ہی ہاتھوں ہمیں اپنا خون بہانے پر لگایا ہوا ہے۔ ایسا کیوں ہے۔ ۔ ۔ ؟

اس لئے کہ ہم بطور قوم اپنے پاؤں پر کھڑے ہی نہیں ہو رہے، وہی استعماری طاقتیں جو ہماری قومی آزادی اور وقار کو آئے روز اپنے پاؤں تلے روندتی ہیں ہم انہی کے مالیاتی اداروں سے اپنے اخراجات وصول کرنے کی عادتِ بد کا شکار ہیں۔ بقول شاعر

میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

سوال یہ ہے کہ حالیہ بجٹ میں ہماری وفاقی حکومت نے عوام کو جو لالی پوپ دینے کی کوشش کی ہے، اس قدر خسارے اور قرضوں کی معیشت میں اس پر کیسے عمل ہو گا؟ موجودہ حکومت نے عوامی خدمت کے نام پر عالمی مالیاتی اداروں سے چار سال میں اتنے قرضے حاصل کر لئے ہیں جتنے گذشتہ ساٹھ سالوں میں مختلف حکومتوں نے وصول کئے تھے۔

پاکستان اس وقت تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ اسے ایک طرف مشرقی سرحدوں پر خطرات درپیش ہیں اور دوسری طرف ہمسایہ ملک افغانستان میں اسلام مخالف قوتیں پاکستان میں بے جا مداخلت کا کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہماری مرکزی اور صوبائی حکومتیں ان تمام بیرونی خطرات سے آنکھیں بند کر کے آئندہ الیکشن میں عوام کو بے وقوف بنانے کے حربے سوچ رہی ہیں۔ ہمارے ملک میں شریک اقتدار اور نمائشی اپوزیشن میں بیٹھی سیاسی جماعتیں روائتی سیاست کر رہی ہیں۔ توانائی کے بحران نے ملک کو بے روزگاری کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ سکول کے بچوں سے لے کر اساتذہ اور مزدور سے لے کر کارخانہ دار تک ہر شخص لوڈ شیڈنگ کا عذاب جھیل رہا ہے۔ وزیراعظم پاکستان توہین عدالت کے جرم میں سزا یافتہ ہیں۔ اصولی طور پر انہیں باعزت استعفیٰ دے کر گھر چلے جانا چاہئے تھا لیکن انہوں نے عدلیہ کو مذاق بنانے میں قومی خدمت جاری رکھی ہوئی ہے۔ ہر روز جیالے وزراء اور مشیروں کے نئے سے نئے سکینڈل سامنے آ رہے ہیں مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔ قوم پر مسلط حکمران تمام تر عوامی مسائل اور مشکلات کے باوجود ’’سب اچھا‘‘ کی گردانیں الاپ رہے ہیں۔ پاکستانی قوم بار بار لٹتی اور پٹتی ہے۔ اس کا احساس و شعور مفلوج ہو رہا ہے۔ الغرض قومی معاملات ہوں یا بین الاقوامی ہر جگہ عزت سے جینے کے اصول اور تقاضے ہوتے ہیں مگر ہم اور ہماری سیاسی قیادتیں قومی غیرت و حمیت کی نعمت سے محروم ہو رہی ہیں۔ کاش ہمیں احساس ہوتا کہ

غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو یہ تاجِ سردارا

ڈاکٹر علی اکبر قادری