الحدیث : اسلامی ثقافتی مرکز، مسجد کے آداب

علامہ محمد معراج الاسلام

حضرت جابررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ اَکَلَ ثَوْمًا اَوْ بَصَلاً فَلْيَعْتَزِلْنَا اَوْ فَلْيَعْتَزِلْ مَسْجِدَنَا وَلْيَقْعُدْ فِيْ بَيْتِهِ

جس نے پیاز یا لہسن کھایا وہ ہم سے علیحدہ رہے یا ہماری مسجد کے قریب نہ آئے اور اپنے گھر میں بیٹھا رہے۔‘‘

شرح و تفصیل

نفیس طبیعت کے مالک لوگ‘ بلبل ہزار داستان کی طرح پھول کے شیدا اور عطر و خوشبو کے شائق و عاشق ہوتے ہیں۔ خوشبو اور خوشبو دار چیز پاکر ان کی خوشی کی انتہا نہیں رہتی اور وہ فرحت و انبساط محسوس کرنے لگ جاتے ہیں۔ حضورکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ خوشبو اور نماز کی محبت ہماری طبیعت میں ڈال دی گئی ہے‘ اگر کوئی شخص ہمیں خو شبو کا تحفہ دے تو ہم اسے واپس نہیں کریں گے۔ جس طرح لطیف مزاج کے انسان خوشبو سے محبت اور بدبو سے نفرت کرتے ہیں ‘ بدبو اور بدبودار چیز سونگھ کر انہیں ابکائیاں آنے لگ جاتی ہیں اور وہ اس سے سخت اذیت اور کراہت محسوس کرتے ہیں اسی طرح فرشتے بھی خوشبو کو پسند اور بدبو کو انتہائی طور پر ناپسند کرتے ہیں اور انہیں اس سے سخت اذیت اور تکلیف پہنچتی ہے۔ چنانچہ جو لوگ بد بو کے باعث ان کو اذیت دینے کا باعث بنتے ہیں ‘ وہ ان کے لئے کلمہ خیر منہ سے نہیں نکالتے اور جو چیز بدبو دار ہو اسے بھی پسند نہیں کرتے۔ اس لئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرشتوں کے ان جذبات و احساسات کا بہت خیال رکھا کرتے تھے‘ خصوصاً مسجد میں بدبو دار حالت میں آنے سے آپ نے سختی کے ساتھ روکا ہوا تھا۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت ِاقدس میں کچھ کھانا پیش کیا گیا‘ جب سرپوش ہٹایا تو دیکھا سبزی پکی ہوئی ہے اور اس میں سے لہسن اور پیاز وغیرہ کی بو آ رہی ہے توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھانے سے ہاتھ روک لیا اور جو آدمی پاس بیٹھا ہوا تھا اس سے کہا کہ تم کھا لو۔ اس شخص نے سمجھا کہ سرکار خود نہیں کھا ر ہے‘ شاید یہ حرام ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا! تم بے تکلف کھا لو‘ ہمارا معاملہ کچھ اور ہے۔ حضرت جبریل امین علیہ السلام کے ساتھ گفتگو کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ دیگر فرشتے بھی آتے جاتے رہتے ہیں اس لئے ہم نہیں چاہتے کہ اس بو سے انہیں اذیت پہنچے ‘ چونکہ تمہاری یہ شان نہیں ہے اس واسطے تم بلا تکلف کھا لو۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آقا علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا :

ان الملئکة تصلی علیٰ احد کم مادام فی مصلاه الذی صلی فيه مالم يحدث تقول اللهم اغفرله اللهم ارحمه.

’’جب تک نماز ی اپنے مصلے پر بیٹھا رہے تو فرشتے اس کیلئے دعا کرتے رہتے ہیں کہ اے اللہ ! اسے بخش دے ‘ اے اللہ ! اس پر رحم فرما‘‘۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا راوی ہیں :

کان الناسُ مَهَنَئَةَ اَنْفُسِهِمْ وکانُوْا اِذَارَاحُوا الی الْجُمُعَةِ رَاحُوا فِيْ هَيْئَتِهِمْ فَقِيْلَ لَهُمْ لَوْ اِغْتَسَلْتُمْ.

مزدور پیشہ لوگوں کو دوسروں کی نسبت زیادہ پسینہ آتا ہے جو کپڑوں میں جذب ہو کر بدبو کا باعث بنتا ہے۔ یہ لوگ جمعۃ المبارک کے دن غسل کئے بغیر ہی آ جاتے تھے ‘ انہیں یہ سمجھایا گیا کہ اگر تم غسل کر کے آیا کرو تو کتنا اچھا ہو! انسان اور فرشتے اذیت سے بچ جائیں اور مسجد میں حاضری راحت و فرحت کا باعث بن جائے۔

مسجد کے آداب

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم مسجد میں اپنے محبو ب کریم‘ جانِ ایمان‘ روحِ کائنات‘ راحتِ جسم وجان‘ سرورِاعظم حضور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک بدوی شخص آیا جس کے چہرے مہرے اور انداز او اطوار سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ پکا دیہاتی ہے اور شہری آداب و اطوار اور تہذیب و تمدن کے تقاضوں سے قطعی ناواقف ہے ‘ اسے مسجد اور کسی دوسری جگہ کا فرق معلوم نہیں۔ شاید اسے رفع حاجت کی سخت ضرورت تھی‘ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ آتے ہی مسجد کے ایک خالی کونے میں پیشاب کرنا شروع کر دیا۔ حاضرین کو سخت طیش آیا‘ انہوں نے اسے باز رکھنے کیلئے چلانا شروع کر دیا مگر رحمتِ مجسم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں روکا اور فرمایا : ’’اب اسے اپنا کام کر لینے دو بعد میں سمجھا لیں گے۔‘‘چنانچہ جب وہ فارغ ہوا تو اسے پاس بلایا اور ارشاد فرمایا :

ان هذه المساجد لا تصلح لشیء من هذا البول ولا القذر انما هی لذکر الله والصلوٰة وقرآءة القران او کما قال رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم.

’’یہ مساجد بول و براز اور گندگی کرنے کیلئے نہیں ہوتیں ‘یہ تو ذکرِ الہیٰ ‘ نماز اور تلاوتِ قرآن کیلئے ہوتی ہیں‘‘۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو حکم دیا اور اس نے پانی کا ڈول بھر کر پیشاب پہ بہا دیا۔

ثواب و برکات

نماز کیلئے مسجد کی طرف اٹھنے والے قدم بڑے ہی قابلِ قدر اور محترم ہوتے ہیں‘ جب نمازی مسجد کی طرف روانہ ہوتا ہے تو قدرتِ کریم کی طرف سے ان کی یہ قیمت پڑتی ہے کہ ہر قدم پر ایک گناہ معاف اور ایک درجہ بلند ہوتا ہے۔

٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جو نمازی صبح و شام مسجد میں حاضری دیتا ہے‘ وہ گویا جنت میں ضیافت کھانے کیلئے آتا ہے۔ جتنی بار وہ مسجد میں آتا ہے ہر آنے کے بدلے اللہ تعالیٰ جنت میں اس کی ضیافت فرمائیں گے۔

٭ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک شخص کا گھر مسجدِ نبوی سے بہت دو ر تھا کسی نے اسے مشورہ دیا کہ ایک گدھا خرید لو ‘ بعض اوقات سخت گرمی یا تاریکی ہوتی ہے وہ تمہیں فائدہ دے گا اور پیدل چلنے کی مشقت سے بچا لے گا۔ اس آدمی نے جواب دیا : میں مسجد سے دور رہنا پسند کرتا ہوں تا کہ چل کر آؤں تو اس کا زیادہ ثواب ملے اور جب واپس جاؤں تو اس کا بھی ثواب ملے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پتہ چلا تو فرمایا : قَد جَمَعَ اﷲُ لَکَ ذٰلِکَ کُلَّه. خدا نے تیرے لئے دونوں ثواب جمع کر دیئے ہیں۔

٭ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مسجدِ نبوی کے قریب زمین کے کچھ پلاٹ خالی ہو گئے۔ بنی سلمہ مدینہ منورہ کے نواحی علاقوں میں رہتے تھے جو مسجدِ نبوی سے کافی فاصلے پر تھے ‘ اس لئے انہوں نے اس موقعہ کو غنیمت جانا اور مسجد کے قریب جگہ خریدنے کا ارادہ کر لیا تاکہ انہیں آنے جانے میں دقت نہ ہو اور وہ آسانی سے مسجد میں آ جا سکیں۔ جب حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے اس ارادے کا علم ہوا تو فرمایا : يٰبَنِيْ سَلمة! دِيَارُکُمْ تُکْتَب اٰثَارُکُمْ ’’اے بنو سلمہ! اپنے علاقوں میں مقیم رہو‘ جتنے قدم چل کر آؤ گے اتنی نیکیاں لکھی جائیں گی‘‘۔

اس لئے پیدل آنے کی اس مشقت کو بے فائدہ اور بے قیمت نہ سمجھو بلکہ یہ کارآمد اور قیمتی قدم ہیں جو گناہ مٹاتے اور درجات بلند کرتے ہیں۔

اسلامی تعلیمی مرکز

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ ہم سب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور اس نے جلدی جلدی نماز پڑھی اور تعدیلِ ارکان کا خیال نہ رکھا۔ پھر ہماری طرف آیا تا کہ دوسرے حاضرین کی طرح مجلس میں بیٹھے اور قریب آ کر سلام کیا۔ حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بڑی ملائمت کے ساتھ سلام کا جواب دیا اور ارشاد فرمایا کہ جاؤ ! دوبارہ نماز پڑھو ‘ تمہاری نماز نہیں ہوئی۔ وہ شخص گیا اور ارکانِ نماز میں تعدیل کا لحاظ کئے بغیر پھر پہلے کی طرح جلدی جلدی نماز پڑھ کر آ گیا اور سلام کر کے بیٹھنے کی کوشش کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ اسے ارشاد فرمایا کہ جا کر نماز لوٹاؤ ‘ تمہاری یہ نماز بھی نہیں ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے دیکھتے رہے، وہ تیسری بار بھی اسی طرح تیزی سے نماز پڑھ کے آ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ! تمہاری یہ نماز بھی نہیں ہوئی۔ اس نے عرض کی میرے آقا ! مجھے صحیح نماز پڑھنے کا طریقہ سکھا دیجئے پھر میں اس کے مطابق ہی پڑھا کروں گا۔ کہنے لگا! والذی بعثک بالحق ما احسن غيره فعلمنی ’’اللہ پاک کی قسم! جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے ‘ مجھے اچھی طرح نماز ادا کرنے کا کوئی اور طریقہ نہیں آتا‘ آپ سکھا دیجئے‘‘۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا! جب نماز پڑھنے کا ارادہ ہو تو سب سے پہلے اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ کے کھڑے ہو جاؤ اور قرآنِ پاک کی تلاوت کرو۔۔۔ پھر رکوع میں چلے جاؤ اور بڑے اطمینان کے ساتھ رکوع کرو‘ یہ نہیں کہ جسم کا اگلا حصہ اوپر اٹھا ہوا ہو‘ اس طرح اعتدال پیدا نہیں ہوتا۔ پشت بالکل ہموار ہونی چاہئے یہاں تک کہ اگر اس کے اوپر پانی سے بھرا ہوا برتن بھی رکھ دیں تو وہ نہ چھلکے۔۔۔ اس کے بعد سیدھے کھڑے ہو جاؤ۔ اس طرح رکوع کے بعد کھڑا ہونے کو قومہ کہتے ہیں۔ اچھی طرح قومہ کرو۔۔۔ پھر جھکتے ہوئے سجدے میں چلے جاؤ اور آرام سے سجدہ کرو۔۔۔ اس کے بعد سجدے سے سر اٹھا کر دو زانو ہو کر بیٹھ جاؤ ‘ سجد ے کے بعد اس طرح بیٹھنے کو جلسہ کہتے ہیں۔ اچھی طرح جلسہ کرو۔۔۔ پھر سجدے میں جاؤ اور اطمینان سے سجدہ کر کے اٹھو اور دوسری رکعت کیلئے کھڑے ہو جاؤ۔۔۔ اسی طرح آرام و اطمینان سے ‘ ٹھہر ٹھہر کر ‘ آہستہ آہستہ باقی رکعتیں بھی ادا کرو۔

نماز میں شمولیت کا طریقہ

باجماعت نماز ہو رہی ہو تو اس میں شمولیت کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ نمازی پہلے جماعت میں شریک نمازیوں کے ساتھ صف میں کھڑا ہو اور پھر نماز کی نیت کر کے جماعت میں شامل ہو۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں جب مسجدِ نبوی میں آیا تو جماعت ہو رہی تھی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت رکوع میں تھے میں صف سے کافی دور تھا۔ اس خیال سے کہ رکعت مل جائے میں نے وہیں تکبیر پڑھ کر نیت باندھ لی اور رکوع میں چلا گیا پھر رکوع ہی کی حالت میں چلتا ہوا صف تک پہنچ گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پتہ چلا تو فرمایا ! خدا تیری حرص کو اور زیادہ کرے آئندہ ایسا نہ کرنا۔