الفقہ : آپ کے دینی مسائل

مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

جواب : میت کو دفن کرنے کے بعد صرف درج ذیل صورتوں میں دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے۔

  1. جب اسے مغضوبہ (غصب شدہ) زمین میں دفن کیا گیا ہو۔
  2. کفن مغضوب ہو۔
  3. حق آدمی سے متعلق ہو مثلا کسی کی قیمتی چیز اندر رہ گئی یا کسی زندہ شخص کا مال اس کے ہمراہ دفن ہو گیا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابو رغال کی قبر اکھاڑنے کی اجازت دی کہ اس کے ساتھ سونے کی لاٹھی قبر میں دفن تھی۔

درج ذیل صورتوں میں قبر اکھاڑنے کی ممانعت ہے :

  1. اگر میت کو قبلہ رخ دفن نہ کیا گیا۔
  2. بائیں پہلو پر رکھا گیا۔
  3. میت کا سر پاؤں کی طرف کر دیا گیا۔
  4. غسل دیئے بغیر دفن کر دیا گیا اور قبر پر مٹی ڈال دی گئی۔

٭ اگر میت کو قبر میں قبلہ رخ نہیں رکھا گیا یا پیٹھ کے بل رکھا گیا یا بائیں پہلو لٹایا گیا۔ اگر اس پر مٹی ڈالدی گئی تو قبر نہ اکھاڑی جائے‘‘ مٹی ڈالنے سے پہلے غلطی کا ازالہ کرنا چاہئے۔ اگرچہ اینٹ وغیرہ اٹھانی پڑے۔ اس میں حنفیہ و مالکیہ متفق ہیں۔

(علامه عبدالرحمن الجزيری، الفقه علی المذاهب الاربعة ج ا، ص 535 طبع بيرات)

البدائع میں فرمایا : لان النبش حرام، اس لئے کہ قبر اکھاڑنا حرام ہے اور یہ اللہ کا حق ہے۔

فتح القدیر میں مصنف (ابن ھمام) نے فرمایا : مشائخ کا اس پر اتفاق ہے کہ جس عورت کا بیٹا اس کی غیر موجودگی میں کسی دوسرے شہر میں دفن کیا گیا، اس سے صبر نہ ہو اور بیٹے کی میت منتقل کرنے کا ارادہ کر لیا، یہ جائز نہیں۔

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بھائی عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ شام میں فوت ہوئے تھے اور ان کی میت وہاں سے اٹھا کر لائی گئی تھی، آپ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھائی کی قبر کی زیارت کی اور فرمایا : بھائی اگر تیرا معاملہ میرے اختیار میں ہوتا تو تیری میت میں یہاں (مدینہ منورہ) منتقل نہ کرتی اور جہاں فوت ہوا وہیں دفن کرتی۔

اس کے باوجود میت کو ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کرنا گناہ نہیں۔

روایت ہے کہ یعقوب علیہ السلام مصر میں فوت ہوئے اور ان کی میت شام منتقل کی گئی۔ موسیٰ علیہ السلام ان کی میت طویل مدت کے بعد مصر سے شام لے گئے تاکہ ان کے جسم کی ہڈیاں ان کے آباء کرام کی ہڈیوں کے ساتھ ہوں۔۔۔ یونہی حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ سے چار فرسخ باہر فوت ہوئے اور لوگوں نے ان کی میت مدینہ منورہ منتقل کی۔

(علامہ ابن نجیم حنفی، البحرالرائق، ج 2 ص 195 طبع مصر)

(علامہ نظام الدین فتاویٰ عالمگیری ج 1 ص 167 طبع کوئٹہ)

عموماً لوگوں نے دانستہ یا غیر دانستہ بعض قبریں اور مزارات راستوں پر تعمیر کر لئے ہیں۔ آبادی کے بڑھنے سے نئی ڈویلپمنٹ ضروری ہے۔ ان قبروں اور مزاروں کو بے حرمتی سے بچانے کے لئے ضرورت و مجبوری ہے کہ کسی دوسری جگہ پر منتقل کیا جائے تاکہ عوامی مسئلہ بھی حل ہو اور حتی الامکان میت اور مقابر کا احترام و تقدس بھی پامال نہ ہو۔ متعدد مقامات پر بھاری مشینوں سے یہ کام کر دیا گیا ہے اس کے علاوہ چارہ بھی نہیں۔ آبادی بڑھنے سے سڑکوں کی توسیع ضروری ہو گئی ہے۔ جہاں یہ ضرورت و حاجت نہ ہو وہاں اس کی اجازت نہیں مگر جہاں مجبوری کی صورت ہے وہاں اس کی شرعاً اجازت ہے۔ دین میں تنگی نہیں۔

جواب : ٭حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میت کو قبر میں اتارتے تو پڑھتے :

بِسْمِ اللّٰهِ وَ بِاللّٰهِ وَعَلٰی مِلّة رسول اللّٰه.

’’اللہ کے نام کے ساتھ، اللہ کی مدد کے ساتھ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین پر‘‘۔

اور دوسری روایت میں ہے :

وعَلٰی سُنَّةِ رَسُول اللّٰه.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر۔

(احمد، ابن ماجہ، ترمذی، ابوداؤد)

٭ امام زین العابدین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میت (کی قبر) پر دونوں ہاتھوں سے تین بار مٹی ڈالی۔

وانه رش علی قبر ابنه ابراهيم ووضع عليه حصباء.

سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے فرزند ارجمند سیدنا ابراہیم کی قبر مبارک پر پانی کا چھڑکاؤ فرمایا اور کنکر رکھے۔

(شرح السنہ، امام شافعی)

٭ مدینہ منورہ میں دو گورکن تھے، وکان احدهما يلحد والآخر يشق۔۔۔ ایک لحد (بغلی) قبر کھودتا تھا اور دوسرا سیدھی (شق)۔۔۔ فجاء الذی يلحد فلحد النبی صلی الله عليه وآله وسلم... لحد کھودنے والے نے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے لحد کھودی۔

(ابن کثير، البدايه والنهايه، ج 3 : 233 طبع بيروت)

٭ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :

فلما ارادوا ان يقبروه عليه السلام نحوا السرير قبل رجليه فادخل من هناک.

’’جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قبر مبارک میں اتارنا چاہا تو چارپائی سے پاؤں کی طرف سے جسم اقدس کو داخل قبر کیا‘‘۔

(البدايه ج 3 : 235)

٭سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :

جعل فی قبر النبی صلی الله عليه وآله وسلم قطيفة حمراء.

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر اقدس میں سرخ رنگ کی مخملی چادر رکھی گئی تھی‘‘۔

(احمد، مسلم، ترمذی، نسائی، ايضاً)

٭ حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ نے فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر اقدس میں سرخ رنگ کی چادر بچھائی گئی، جسے حضور پہنا کرتے تھے۔ یہ چادر یوم حنین کو ملی تھی کیونکہ زمین نمدار تھی۔

(البدايه والنهايه لابن کثير ج 3 ص 235 طبع بيروت)

فقہاء کرام کے اقوال کی روشنی میں

٭ قبر لحد (بغلی) مسنون ہے، نہ کہ شق (سیدھی)۔ ہاں زمین یا جگہ کا تقاضا ہو تو ضرورتاً جو ممکن ہے کرے۔

(عالمگیری)

ويدخل الميت مما يلی القبلة وذلک ان يوضع فی جانب القبلة من القبر ويحمل الميت و يوضع فی اللحد، فيکون الآخذ له مستقبل القبلة حالة الاخذ ويقول واضعه بسم الله وعلی ملة رسول الله ويوضع فی القبر علی جنبه الايمن مستقبل القبلة.

’’میت کو قبر میں قبلہ کی طرف سے داخل کیا جائے۔ یوں کہ قبر کی قبلہ کی طرف (چارپائی یا تابوت وغیرہ) رکھا جائے اور میت کو اٹھا کر لحد میں رکھ دیا جائے۔ اس طرح میت کو پکڑنے والا، میت اٹھاتے وقت قبلہ رخ ہو گا اور لحد میں اتارتے وقت اٹھانے والا کہے : بِسْمِ اللّٰهِ وَعَلٰی مِلّة رسول اللّٰه. ’’اللہ کے نام سے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین پر‘‘ قبر میں میت کو دائیں طرف قبلہ رخ رکھا جائے‘‘۔

(هدايه مع فتح القدير ج 2 ص 98 طبع سکهر)

وضعوه لجنبه ولا تکبوه لوجهه ولاتلقوه لظهره.

’’میت کو قبر میں پہلو کے بل رکھیں نہ چہرہ کے بل اوندھا کریں، نہ پیٹھ کے بل لٹائیں‘‘۔

(علامه کاسانی، بدائع الصنائع ج 1 ص 319 طبع کراچی)

ويسن ان يوضع الميت فی قبره علی جنبه الايمن.

’’میت کو قبر میں دائیں پہلو لٹانا سنت ہے‘‘۔

فالسنه عندنا ان يدخل الميت من قبل القبلة وهو ان توضع الجنازة فی جانب القبلة من القبر ويحمل منه الميت فيوضع فی اللحد.

’’ہمارے (احناف) کے نزدیک سنت یہ ہے کہ میت کو قبلہ کی طرف سے قبر میں داخل کیا جائے، یوں کہ جنازہ قبر سے قبلہ کی جانب رکھا جائے اور (چارپائی) سے میت کو اٹھا کر لحد میں رکھ دیا جائے‘‘۔

(امام علاؤ الدين ابوبکر بن مسعود الکاسانی الحنفی، بدائع الصنائع فی ترتيب الشرائع ج 1 ص 318 طبع کراچی)