اداریہ : افسوسناک سیاسی رویے

ہمارے ہاں ایک افسوسناک رجحان یہ ہے کہ سیاسی عہدیدار اور کارکن قومی، عوامی اور آئینی پاسداری اور وفاداری کا خیال رکھے بغیر پارٹی اور قیادت سے وفاداری کی روش پر گامزن رہتے ہیں حالانکہ ہر پارٹی اگر وہ پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق کام کر رہی ہے تو اسے پاکستان کے قومی مفادات کا تحفظ عزیز ہونا چاہئے مگر یہاں انصاف کی بات کو غیر آئینی اور بلا جواز کہا جاتا ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ چوری کا تحفظ آئینی تقاضا بن گیا ہے اور لوٹ مار کے مال کی بازیابی کے لئے کئے جانے والے عدالتی اقدامات حکومتی عہدیداروں کی زبان میں ’’سیاہ تاریخ‘‘ کہلانے لگے ہیں۔ ہمارے ہاں نہ صرف موجودہ حکومتی پارٹی بلکہ اقتدار میں آنے والی ہر جماعت کا یہی وطیرہ رہا ہے کہ ہر قیمت پر اپنے اقتدار کو نہ صرف طول دیا جائے بلکہ اس دوران جس قدر ہو سکے اپنوں کو اتنا نوازا جائے کہ وہ آئندہ الیکشن میں ان کے لئے بہترین سرمایہ کاری ثابت ہو۔ اسی سوچ کے عملی اظہار کے طور پر کرپشن کے گذشتہ تمام ریکارڈ ٹوٹتے نظر آتے ہیں اور اداروں کے مابین تصادم کی کیفیت بھی برقرار رہتی ہے۔

اقتدار میں آنے کے بعد آئندہ اقتدار میں آنے کے لئے صدر، وزیراعظم مع خاندان، وزراء اور ممبران اسمبلی ’’زادِ راہ‘‘ اکٹھا کرنے کی فکر میں اصل قومی مسائل سے ہی چشم پوشی اختیار کر لیتے ہیں۔ ہمسایہ ممالک اور اقوام عالم کے ساتھ دور اندیشی و حکمت پر مبنی خارجہ پالیسی کی تیاری تو بڑی دور کی بات داخلہ معاملات پر ہی کوئی واضح پالیسی ہمارے سیاستدان دینے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ بلوچستان کامعاملہ ہو یا کراچی میں ٹارگٹ کلنگ، خیبر پختونخواہ میں ہر آئے دن ہونے والے دھماکے ہوں یا بجلی کا بحران کسی جانب بھی کوئی مخلص کاوش نظر نہیں آتی۔

اندریں حالات اگر کوئی ادارہ اس مایوس کن ماحول میں امید کی کرن بنتا ہے اور آئینی و قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے حکومتی وزراء اور کارندوں کی کروڑوں روپے کی کرپشن کو منظر عام پر لاکر برائی کی بیخ کنی کرنا چاہتا ہے تو حکومت کے نزدیک یہ بھی ’’سیاہ تاریخ‘‘ کا حصہ ہے۔ وطن عزیز میں موجودہ حکومتی پارٹی اور اتحادی جماعتوں کی ناک کے نیچے اتنا کچھ ہوتا رہا، جمہوریت اور عوام کے نام پر عوام پر بدانتظامی، بدامنی، قتل و غارت گری، مہنگائی، بے روزگاری، اقرباء پروری اور قانونی خلاف ورزیوں کا عذاب مسلط کیا گیا، عدالتی فیصلہ جات کا تمسخر اڑایا گیا اور حکومت نے عوامی ہو کر عوام کے خلاف اقدامات اٹھائے مگر شومئی قسمت کہ قانون اور آئین کا حلف اٹھانے والے اعلیٰ عہدیدار عملاً قانون کے مخالف اور آئین سے مذاق کو جمہوریت کا نام دے رہے ہیں۔ عوامی نمائندگان اور حکمران ذاتی تسکین کے لئے عوام پر ظلم کر رہے ہیں۔

محترم قارئین! ملک و قوم کا ہر طبقہ اخلاقی زوال کا شکار ہو چکا ہے۔ اسلامی افکار اور اقدار کا ہر آئے روز جنازہ نکل رہا ہے۔ قومی خودمختاری، غلامی میں ڈھل چکی ہے۔ غربت کے ہاتھوں ہر آئے روز خود کشیوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور اب قوم کو دیانت امانت اور حب الوطنی کا درس دینے والے اور اپنے آپ کو ریاست کے چوتھے ستون کے طور پر متعارف کروانے والے ’’میڈیا‘‘ کے بھی کئی چہرے بھی بے نقاب ہو چکے ہیں، مفادات اور پیسے کے کھیل نے قوم کے اس ’’چہرہ‘‘ کو بھی داغدار کر دیا ہے۔

یہ اجتماعی زوال اس لئے ہے کہ عوام کی اجتماعی سوچ، انفرادی سوچ میں ڈھل چکی ہے۔ مہنگائی نے عوام کی سوچ کو قومی مسائل کی طرف دیکھنے سے محروم کر دیا ہے۔ عوام کی بے حسی، بے غرضی، چشم پوشی، مفاد پرستی اور اپنے حقوق سے لاعلمی اس کرپٹ اور فرسودہ نظام کی بقاء کا باعث بن رہی ہے۔ کیا ہم اس کرپٹ اور فرسودہ سیاسی نظام اور نظام انتخابات کے ذریعے ہی نجات کو تلاش کرنے کی کوشش کریں گے یا نظام کو بدلنے کے لئے اپنا کلیدی کردار ادا کریں گے۔ اگر ہم نے ملک و قوم کی تقدیر اسی نام نہاد جمہوری نظام کے ساتھ وابستہ کر دی تو ہمیں اس پہلو پر ضرور سوچنا چاہئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری آنے والی نسلیں ہمارے خلاف تاریخ کی عدالت میں ہماری نااہلی کی گواہی دیں۔

عوامی احتجاج کے مثبت اور منفی رویے

حالیہ لوڈ شیڈنگ کے ہاتھوں تنگ آئے ہوئے عوام دھیرے دھیرے ملک گیر اور خطرناک احتجاج کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ کرپٹ بددیانت اور غیر سنجیدہ حکومت کے خلاف عوامی جذبات کا اظہار اپنی جگہ نہ صرف بجا بلکہ فرض کی بجا آوری ہے کیونکہ توانائی کا جو بحران اب ہماری معیشت کو ہڑپ کر رہا ہے اور ملک میں بے روزگاری، ذہنی دباؤ، مہنگائی اور ان گنت مسائل کی فصل اگا رہا ہے، یہ ایک دم نہیں پیدا ہوا۔ سابق حکومتوں سے لے کر موجودہ زرداری حکومت تک ہر حکومتی شخص اس قومی بحران کا قصور وار ہے۔ آپ کالا باغ ڈیم کے مسئلے کو ہی لے لیں آج سے نصف صدی قبل اس قومی اہمیت کے حامل ڈیم کی تعمیر کے منصوبے کو آخری شکل دے دی گئی تھی اور ہر حکومت نے اس کے لئے بجٹ بھی مختص رکھا مگر سیاسی مصلحتیں آڑے آتی رہیں اور غیر ملکی ایجنٹوں کی کارستانیوں کے طفیل یہ ڈیم متنازعہ بنا دیا گیا تاآنکہ موجودہ حکومت نے اس منصوبے پر قلم ہی پھیر دیا۔ ہم لمحہ بہ لمحہ تاریکی میں ڈوبتے جا رہے ہیں۔ یہ صورت حال انتہائی تشویشناک ہو رہی ہے، اسی وجہ سے ملک سے سرمایہ باہر منتقل ہو رہا ہے اور بے روزگاری کا سیلاب امڈ رہا ہے۔ اس تمام کی ذمہ دار ہوس پرست سیاستدان اور کرپٹ انتظامیہ ہے۔

لوگ تنگ آ کر آمادہ جنگ ہو رہے ہیں، کئی جگہوں پر احتجاج کرنے والے قومی املاک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ یہ نقصان بھی اسی طرح کا قومی جرم ہے جس میں حکمران ملوث ہیں۔ لہذا احتجاج کرنے والوں کو جوش کے ساتھ ہوش سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ حقوق مانگتے ہوئے کوئی شخص اگر اپنے ہاتھ پاؤں کاٹنا شروع کر دے تو یہ اس کا مجنونانہ اور احمقانہ پن ہو گا۔ ہم اس نقصان دہ جنون کو پاگل پن سمجھتے ہیں اور اس کی بھرپور مخالفت کرتے ہیں۔ احتجاج کرنے کے درجنوں طریقے ہیں جو ہر مہذب ملک میں اپنائے جاتے ہیں۔

ڈاکٹر علی اکبر قادری