الحدیث : روزہ۔ روح کی غذا اور باطن کا نور

علامہ محمد معراج الاسلام

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِيْمَاناً وَ اِحْتِسَاباً غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.

’’جو شخص ایمان دار ہونے کی حالت میں اور خلوصِ نیت کے ساتھ رمضان المبارک کے روزے رکھے ‘ اس کے تمام سابقہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔‘‘

شرح وتفصیل

روزہ کیا ہے؟

اس حدیثِ پاک میں یہ بتایا گیا ہے کہ روزہ رکھنے سے گناہ مٹتے ہیں اور گنہگار انسان گناہوں کی گندگی سے پاک ہو جاتا ہے۔ روزہ جہاں انسان کیلئے ایک عزاز ہے وہاں روزے کی بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ اپنی فضیلت و اہمیت کے ساتھ ساتھ ایک گنہگار انسان کی ضرورت بھی ہے۔ مذکورہ حدیث میں روزہ کے متعلق اطلاع ووضاحت کے ساتھ ہی بہت سے سوالات بھی ذہن میں ابھر آتے ہیں کہ اگر روزہ رکھنے سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں تو وہ کونسے گناہ ہوتے ہیں؟ آیا صغیرہ گناہ ہی معاف ہوتے ہیں یا کبیرہ بھی معاف ہو جاتے ہیں؟ اور کیا انسان کو ہر قسم کے گناہوں سے پاک کر دیا جاتا ہے؟

اس دنیا میں ایسے خوش خصال ‘ نیک نہاد‘ صاف باطن اور پاکباز لوگ بھی بستے ہیں جو طبعی طور پر گناہوں سے نفرت کرتے اور نیکی پسند کرتے ہیں۔ گناہوں کی غلاظت سے لتھڑنا تو کجا رہا اس کے تصور ہی سے بدکتے اور کراہت کرتے ہیں۔ وہ اگر روزہ رکھیں تو ان کے گناہوں کے معاف ہونے کا کیا مطلب ہے؟ روزے سے گناہ کیوں اور کیسے مٹتے ہیں؟ آخر اس میں گناہوں کو جلانے والی کونسی خاصیت ہے اور جس روزے سے گناہ مٹتے‘ جلتے اور معاف ہوتے ہیں کیا وہ یہی روائتی روزہ ہے یا اس کی حقیقت واصلیت کچھ اور ہے؟

یہ اور اسی قسم کے کچھ اور بھی اہم سوالات ہیں جن کا کسی حد تک جواب ضروری ہے تاکہ اصلی اور حقیقی روزے کا ایک تصور ذہن میں آ جائے اور پتہ چل جائے کہ محض بھوک اور پیاس برداشت کرنے کا نام ہی روزہ نہیں ہے بلکہ اس کی اصلیت کچھ اور ہے اور جب روزہ ان آداب و شرائط کے ساتھ رکھا جائے اور اس کے تمام تقاضے پورے کئے جائیں تو وہ نہ صرف گناہوں کو مٹاتا ہے بلکہ انسانی روح کی غذا بھی بنتا ہے۔ یہ بات اگرچہ ایک سطحی ذہن کے آدمی کے لئے بڑی عجیب سی ہے لیکن کائنات اور مخلوقات میں تھوڑا تفکر‘ اس بدیہی حقیقت کو سمجھنے کیلئے کافی ہے۔ اس لئے ہم اس خصوصی مضمون میں اسی نکتے سے آغاز کرتے ہیں۔

مخلوقات کا تنوع اور اس کی مختلف غذائیں

اگر ہم پانیوں میں تیرنے‘ ہواؤں میں اڑنے اور میدانی و پہاڑی علاقوں اور جنگلوں بیابانوں میں رہنے والی مخلوق کے بارے میں سوچیں تو پتہ چلتا ہے کہ جہاں ان کے اجسام‘ قدو قامت‘ ہیئت و ترکیب اور ڈیل ڈول میں نمایاں فرق ہے‘ وہاں ان کے طبائع اور مزاج میں بھی واضح اختلاف موجود ہے مثلاً

1۔ شیر گوشت خور درندہ ہے‘ شکار کرنا‘ خون پینا اور گوشت کھانا اس کی فطرت میں داخل ہے۔ وہ چارہ‘ گھاس اور اناج کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔ اگر بھوک سے نڈھال ہو اور خالی پیٹ ہونے کی وجہ سے اس کی جان نکل رہی ہو اور ایسے موقعہ پر اس کے سامنے رسیلے پھلوں کا ڈھیر لگا دیا جائے اور سیب‘ آم‘ تربوز اور خربوزے وغیرہ اس کے ارد گرد چن دیئے جائیں تو وہ پھر بھی انہیں کھانا گوارا نہیں کرتا کیونکہ انہیں کھانا اس کی فطرت ہی میں داخل نہیں۔

2۔ اس کے برعکس گائے‘ بھینس‘ بکری چارہ کھانے والے جانور ہیں۔ گوشت ان کی خوراک نہیں۔ اگر انہیں مرغ‘ بٹیر‘ تیتر اور ہرن کا گوشت پیش کر دیا جائے تو وہ اسے نہیں کھا سکیں گے خواہ بھوک سے ان کی جان نکل جائے۔ وجہ یہی ہے کہ فطرتاً گوشت ان کی خوراک نہیں۔

3۔ اسی طرح ہاتھی گنا بڑی رغبت سے کھاتا ہے‘ شہد کی مکھی پھولوں کا رس پسند کرتی ہے اور ریشم کا کیڑا شہتوت کھاتا ہے کیونکہ یہ ان کی مرغوب غذائیں ہیں۔ جس مخلوق کی جو غذا ہو اگر اسے وہ نہ دی جائی تو وہ مر جاتی ہے۔ مچھلی پانی میں جیتی ہے‘ خشکی میں مر جاتی ہے۔ سرکہ میں پیدا ہونے والا کیڑا سرکہ ہی میں زندہ رہتا ہے باہر نکالا جائے تو مر جاتا ہے اور باہر کا کیڑا سرکہ میں ڈال دیا جائے تو مر جاتا ہے کیونکہ وہ اپنی فطری اور اصلی خوراک سے محروم ہو جاتا ہے۔

4۔ اسی طرح انسان بھی اس عظیم کائنات کی ایک ممتاز اور باشعور مخلوق ہے جس کے دو حصے ہیں :

1۔ ’’جسم‘‘۔۔ جو نظر آتا ہے۔

2۔ ’’روح‘‘۔۔ جو نظر نہیں آتی۔

(الف) جسم کی اپنی خوراک ہے جو مختلف غذائی اجزاء سے مرکب ہوتی ہے۔ اس میں وٹامن‘ لحمیات‘ فولاد اور کیلشیم وغیرہ پائے جاتے ہیں۔ اگر کسی چیز کی کمی بیشی ہو جائے تو جسم خراب او ر بیمار پڑ جاتا ہے اور اگر یہ خوراک ملنی بند ہو جائے تو ختم ہو جاتا ہے یعنی مر جاتا ہے۔

(ب)اسی طرح روح کی بھی اپنی مخصوص خوراک ہے۔ اگر وہ کم ملے تو روح بھی بیمار اور معذور و کمزور ہو جاتی ہے اور مضمحل ہو کر جسم کے پنجرے میں بند ہو جاتی ہے جیسے کسی مریل پرندے کے ’’پر‘‘ نوچ کر اسے پنجرے کے ایک کونے میں پھینک دیا گیا ہو۔

روح کی خوراک‘ جسم کی خوراک سے بالکل مختلف ہے۔ جس خوراک سے جسم کی تعمیر ہوتی ہے اور وہ بڑھتا‘ پھولتا اور پلتا ہے ‘ اسی سے روح کی تخریب اور شکست و ریخت ہوتی ہے یعنی وہ گھٹتی‘ گرتی اور کمزور ہوتی ہے۔ جس طرح ایک ذہین ترین طالب ِعلم‘حصولِ علم کی طرف توجہ دیتا ہے اور دنیا جہان کے علوم اپنے دما غ میں سمیٹ لیتا ہے اور عملی میدان میں اتنی ترقی کرتا ہے کہ اس کی فکر رسا افلاک کی پہنائیوں کو ماپنے لگ جاتی ہے اور عقل گرہ کشا اور پیچیدہ و لاینحل مسائل کی گتھیاں سلجھانے لگ جاتی ہے مگر اس کا جسم دبلا‘ پتلا ہی رہتا ہے۔ دوسری طرف ایک پہلوان‘ علم و عقل کی طرف نہیں بلکہ تن پروری (Body Building) کی طرف توجہ دیتا ہے۔ طاقتور اور روغنی غذائیں کھاتا ہے اور جسم کو پالتا ہے وہ پل کر جوان ہو جاتا ہے‘ قد آور نکلتا ہے‘ چیتے کی طرح لپکتا اور شیر کی طرح جھپٹتا ہے مگر فکر و شعور کے اعتبار سے وہ ایک ننھے بچے کی طرح ہوتا ہے۔ اس کی عقل نہیں بڑھتی اور علم میں وسعت و بلندی پیدا نہیں ہوتی۔

گویا پہلوان کا صرف جسم پرورش پاتا ہے۔ اسی تناسب سے علم میں وسعت پیدا نہیں ہوتی اور طالبِ علم کی عقل ترقی کرتی ہے لیکن اسی تناسب سے جسم نہیں بڑھتا۔ اسی طرح جب جسم بڑھتا‘ پھولتا‘ پلتا اور بڑھتا ہے تو روح کمزور و ناتواں ہوتی ہے اور جب روح طاقتور ہوتی اور پھلتی پھولتی ہے تو جسم کمزور و ناتواں ہو جاتا ہے کیونکہ جسم اور روح کی غذا ایک دوسرے کی غذا سے قطعی مختلف ہے۔ جو غذا جسم کو پالتی ہے‘ وہ روح کو کمزور کرتی ہے ا ور جو غذا روح کو پالتی اور قوت دیتی ہے وہ جسم کو گھلاتی اور کمزور کرتی ہے۔

روح کی غذا کیا ہے؟

یہ ایک دلچسپ صورتحال ہے جسے مادہ پرست ذہن نہیں سمجھ سکتا۔ جسم کی غذا لحمیات‘ روغنیات‘ حیاتین‘ نشاستہ‘ شکر‘ وغیرہ پر مشتمل گوشت‘ مچھلی‘ انڈہ‘ روٹی، چاول‘ دودھ اور سبزی و پھل وغیرہ کی شکل میں ہوتی ہے جس سے وہ اپنی ضرورت کے مطابق اور بعض اوقات زیادہ کھا کر زائد از ضرورت توانائی (ENERGY) حاصل کرتا ہے اور پرورش پاتا ہے۔

گویا جسم کی خوراک‘ یہ سب کچھ کھانا اور خوب ٹھونس ٹھونس کر کھانا ہے لیکن اس کے برعکس روح کی خوراک نہ کھانا بلکہ بالکل نہ کھانا ہے۔ دوسرے لفظوں میں روزہ رکھنا یا بھوکا رہنا ہے۔ گویا ’’بھوک یا روزہ‘‘ روح کی خوراک ہے۔ بھوک کی مدت جتنی لمبی ہوتی ہے روح کے لئے وہ خوراک اتنی ہی زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔

بظاہر یہ بڑی عجیب سی بات ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ بھوک روحانی اور نورانی خوراک ہے کیونکہ مادی خوراک سے مادی قوت پیدا ہوتی ہے جو شہوانی نشے اور خمار کی شکل میں رگ رگ میں دوڑ جاتی ہے اور انسان کو بندہ ہوس بنا دیتی ہے۔ وہ تسکینِ ہوس کیلئے ایسی بے ہودہ تدبیریں سوچنے اور وحشیانہ حرکتیں کرنے لگ جاتا ہے جو واہیات‘ مکروہ اور اخلاق سوز ہی نہیں بلکہ خلافِ انسانیت بھی ہوتی ہیں۔

اس کے برعکس بھوک سے جسم نڈھال ہو جاتا ہے‘ کوئی شہوت انگیز قوت جنم نہیں لیتی اور نہ ہی طبیعت پر کوئی خمار طاری ہوتا ہے۔ جسم ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے اور اس پر کسل مندی اور تھکاوٹ طاری ہو جاتی ہے۔ وہ نقاہت ‘ ناتوانی اور انتہائی کمزوری محسوس کرتا ہے اور گناہ کیلئے دل میں کوئی امنگ اور جذبہ نہیں پاتا۔ یہی کیفیت وہ خوراک ہے‘ جو روح کو تازگی اور توانائی بخشتی ہے اور اسے قوت و طاقت کا پہاڑ اور عظمت کا آسمان بنا دیتی ہے۔ اس بھوک کا دورانیہ جتنا لمبا ہو اسی قدریہ خوراک بھی زیادہ اعجازی اثر کی حامل (HIGH POTENCY) اور قوی ہو جاتی ہے۔

ہمیشہ کھانے کا عادی اور مسلسل کھانے پینے اور چرنے میں مصروف رہنے والا شخص ‘ فاقہ کشی اور بھوک برداشت نہیں کر سکتا اور نہ اس حقیقت پر ایمان لا سکتا ہے کہ ایک انسان مسلسل کئی کئی روز تک بھوکا بھی رہ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری روحیں جسموں کے پنجرے میں کمزور و ناتواں پڑی ہوتی ہیں کیونکہ بھوک کی لذت سے ارادی طور پر کبھی آشنا ہونے کی کوشش ہی نہیں کی اور نہ ہی یہ پتہ ہے کہ بھوک ایک روحانی خوراک ہے۔ اس کی روحانیت‘ نورانیت اور غذائیت سے ہم قطعی ناواقف ہیں۔

حضور سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رضی اللہ عنہ نے کشف المحجوب شریف میں ایک حدیث ذکر فرمائی ہے جس میں بھوک کے غذا ہونے کی صراحت ہے۔ ارشاد ہے :

الجوع طعام الله فی الارض.

’’ بھوک‘ زمین پر اللہ تعالیٰ کا کھانا ہے۔‘‘

چنانچہ یہ کھانا کھانے والے بے شمار اولیاء کرام گذرے ہیں جو مسلسل بھوکے رہ کر روح کو یہ نورانی خوراک مہیا کیا کرتے تھے۔ چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔

٭ حضرت سہل بن عبداللہ تستری رضی اللہ عنہ پندرہ دن بعد معمولی سی خوراک تناول فرماتے تھے اور رمضان المبارک میں پورا مہینہ کچھ نہیں کھاتے تھے لیکن اس طویل فاقہ کشی سے ان کے جسم پر کسی قسم کی کمزوری کا اثر نمایاں نہیں ہوتا تھا۔ اسی حالت میں ہر روز چار سو رکعات نوافل ادا فرمایا کرتے تھے۔

٭ حضرت ابراہیم بن ادھم رضی اللہ عنہ کا بھی یہی معمول تھا کہ رمضان المبارک کے پورے مہینے میں کچھ نہیں کھاتے تھے۔ سخت گرمی کے موسم میں روزہ رکھ کر گندم کی کٹائی کرتے تھے۔ اجرت میں جو کچھ ملتا‘ وہ غرباء و مساکین میں تقسیم فرما دیتے اور اتنی محنت و مشقت کے باوجود ساری ساری رات عبادت میں مشغول رہتے تھے۔

٭ بغداد شریف کی مسجد شو نینریہ اہلِ دل کے حوالے سے مشہور تھی۔ وہاں تقویٰ پسند‘ پاک باطن اور صفا پیشہ اولیاء کی خاصی تعداد ہمیشہ معتکف رہتی تھی۔ کسی معمولی مقام و مرتبے والے شخص کے لئے وہاں قیام کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔ ایک موقعہ پر رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی وہاں حضرت ابو نصر سراج رضی اللہ عنہ آ گئے۔ ان کی علمیت و بزرگی اور روحانی فضل و شرف کے اعتراف کے طور پر اہلِ دل کی جماعت نے یہ درخواست کی کہ وہ امامت کے فرائض سنبھالیں اور رمضان المبارک کی راتوں میں نماز ِتراویح پڑھائیں۔ آپ نے یہ درخواست قبول کی اور تراویح پڑھانے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ پورے رمضان المبارک میں آپ نے پانچ قرآنِ پاک ختم کئے۔ خادم روزانہ ایک روٹی کمرے میں رکھ جاتا تھا۔ ماہِ مبارک ختم ہونے کے بعد جب آپ تشریف لے گئے تو خادم نے جا کر دیکھا تو تیس روٹیاں اسی طرح کمرے میں پڑی ہوئی تھیں۔

٭ بعض اولیاء کرام چالیس روز بعد ایک مرتبہ کھانا کھاتے تھے۔ ان کا موقف یہ تھا کہ اصل بھوک چالیس دن بعد ہی لگتی ہے۔ جان بچانے کیلئے چالیس روز بعد کھا لینا کافی ہے۔ اس سے پہلے کھانا محض تکلف‘ فضول خرچی اور عیاشی ہے۔ یہ حیران کن فرمودات‘ ان لوگوں کے ہیں جو میدان معرفت کے شہسوار ہیں اور ان کا کوئی ثانی نہیں اور نہ ہی ہر انسان یہ مقام حاصل کر سکتا ہے۔ تاہم اس سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ

اتنی ’’ لمبی بھوک‘‘ برداشت کر لینا ممکن ہے۔

اور یہ کہ بھوک واقعی ایک قسم کی خوراک ہے جس کی نوعیت ہم نہیں سمجھ سکتے۔

اور اس سے مطلوبہ نتائج حاصل ہوتے ہیں اور یہ کائنات کی ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔

بھوک نور ہے

بھوک سے جسم کو جس ناتوانی اور کمزوری کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ کوئی سربستہ راز نہیں اس کا تجربہ ہر شخص کو ہے اور اگر نہیں تو وہ کچھ دیر بھوکا رہ کر تجربہ کر سکتا ہے۔ ایسی بھوک اضطراری نوعیت کی ہوتی ہے جو غیر ارادی طور پر انسان پہ طاری ہوتی ہے اور وہ بے قرار ہو کر اس کے ازالے کی فکر میں لگ جاتا ہے اور ایسی تدبیریں کرنے لگ جاتا ہے جن کی بدولت اسے چھٹکارا نصیب ہو۔ جب تک بھوک لگی رہے وہ بے قرار‘ پریشان اور انتہائی مضطرب رہتا ہے‘ اسے چین تب نصیب ہوتا ہے جب کچھ کھا کر تسکین حاصل کر لیتا ہے۔

ایسی غیر اختیاری بھوک کوئی حیثیت نہیں رکھتی اور نہ ہی یہ کسی پوشیدہ خزانے کی کلید ہے۔ اس قسم کی بے قرار کرنے والی بھوک تو جانوروں کو بھی لگتی ہے چنانچہ ایسی حالت میں وہ کچھ کھانے کیلئے بے قرار ہو جاتے ہیں‘ بولتے اور فریاد کرتے ہیں۔ چین سے تب کھڑے ہوتے ہیں جب سامنے چارے اور گھاس کا ڈھیر لگ جاتا ہے۔ ایسی بھوک میں انسان کیلئے کوئی روحانی افادیت نہیں۔ نہ ہی اس سے دل کی کشادگی حاصل ہوتی ہے۔ اس مقصد کیلئے مفید اور نور عطا کرنے والی وہ بھوک ہے جو از خود اپنے اوپر طاری کی جائے اور نفس کی اصلاح اور شہوات کا زور توڑنے کیلئے تمام آداب اور ضوابط سمیت برداشت کی جائے جس میں صرف پیٹ ہی بھوکا پیاسا اور روزے دار نہ ہو بلکہ حواسِ خمسہ اور باقی اعضاء بھی روزے دار ہوں اور ان پر احتساب و نگرانی کے پہرے بیٹھے ہوئے ہوں۔ اسی قسم کی بھوک کی طرف اشارہ کرنے کیلئے حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے کشف المحجوب شریف میں ایک حدیث ِپاک ذکر فرمائی ہے۔

اجيعوا بطونکم واظمؤوا اکبادکم واعروا اجسادکم لعل قلوبکم تری الله عيانا فی الدنيا.

’’اپنے شکموں کو بھوکا رکھو‘ اپنے جگر وں کو پیاسا رکھو‘ اپنے جسموں کو ننگا رکھو ( بناؤ سنگھار سے خالی رکھو) تاکہ (تمہارے دل اتنے منور ہو جائیں) دنیا ہی میں اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات کوا علانیہ دیکھ سکیں۔‘‘

کسی ظلمت زدہ ذہن میں یہ سوال جنم لے سکتا ہے کہ انسان خوراک کا محتاج ہے‘ عرصہ دراز تک کیسے بھوکا رہ سکتا ہے اور اگر ایسا کرے تو اس کی توانائیاں کیسے قائم رہ سکتی ہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ انسان خاک کا پتلا ہے اس کا جسمانی نظام اس نوعیت کا ہے کہ جو کچھ بھی کھائے‘ اس سے قوت حاصل کر کے چند گھنٹوں بعد اسے فضلہ کی شکل میں خارج کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے ایسے نظام میں نور پیدا ہونے کے امکانات ومواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس لئے کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ اس قسم کا نور انسان میں پیدا ہو جاتا ہے۔

بھوکا رہنا توانائیوں کو زائل نہیں کرتا

پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ : بھوکا رہنے سے توانائیاں زائل نہیں ہوتیں کیونکہ بھوک بذاتِ خود ایک نورانی خوراک ہے اور خوراک کی موجودگی میں ناتوانی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس صورت میں ذکرِ الہٰی انسان کی خوراک بن جاتا ہے۔ چنانچہ جس طرح فرشتے اس سے خوراک حاصل کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ پاکیزہ انسان بھی اس سے قوت حاصل کرنے لگ جاتا ہے اور کسی قسم کی کمزوری محسوس نہیں کرتا۔ نیچے دوسرے سوال کے جواب کے ضمن میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔

خاکی، نوری کیسے بن سکتا ہے؟

دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ انسان کے جسمانی نظام میں تغیر ممکن ہے۔ قدرت خداوندی‘ انعام کے طور پر اس کے جسمانی نظام کو نورانی نظام میں بدل دیتی ہے۔ جس طرح بھینس اور بکری چارہ کھاتی ہے مگر قدرت اسے شفاف دودھ میں بدل دیتی ہے‘ مکھی کے چوسے ہوئے رس کو شہد میں بدل دیتی ہے‘ ہرن کی کھائی ہوئی گھاس کو مشک میں بدل دیتی ہے اور ریشم کا کیڑا شہتوت کھاتا ہے قدرت ربانی اسے تار ریشم میں بدل دیتی ہے۔ اسی طرح انسان مرتضیٰ جب غذا کھاتا ہے تو وہ اس کے لئے بوجھ نہیں بنتی۔ اس سے حاصل شدہ قوت نور میں بدل جاتی ہے اور بشری تقاضے کے مطابق معمولی سا فضلہ خارج ہو جاتا ہے۔ اس کی مثالیں خارج میں موجود ہیں۔

جناب عیسیٰ علیہ السلام جسدِ عنصری کے ساتھ آسمان پر موجود ہیں۔ انسان ہونے کے باوجود‘ نورانی پیکر میں ہیں‘ آپ پر نورانیت اور روحانیت کا غلبہ ہے‘ ذکر ِالہٰی ہی ان کی غذا ہے۔ ادھر وہ اعجازی شان کے ساتھ‘ بڑے باکمال انداز میں بہشت بریں کے شاداب باغوں میں رہ رہے ہیں اور بشری تقاضے آپ کو بالکل پریشان نہیں کرتے۔

یہی شان جنت میں پہنچنے کے بعد‘ عام مسلمانوں کو بھی حاصل ہو جائے گی۔ وہ جنت کی نعمتیں کھائیں گے۔ دودھ‘ شہد‘ شراب کے جام پئیں گے مگر غلبہ نورانیت کی وجہ سے انہیں کوئی پریشانی لاحق نہیں ہو گی‘ بول و براز کیلئے بیت الخلاء وغیر ہ میں نہیں جانا پڑے گا بلکہ ایک ڈکار آئے گا اور سب کچھ ہضم ہو جائے گا اور خوشبودار پسینے کے ذریعے سب کچھ تحلیل ہو جائے گا۔

مسلمانوں کو جو مقام جنت میں عطا ہونا ہے وہ اہل اللہ کو انعام کے طور پر دنیا ہی میں عطا کر دیا جاتا ہے جب وہ رضائے الٰہی کیلئے اور لقائے ربانی کے شوق میں اپنی خواہشات سے دست کش ہوتے ہیں۔ وہ جب اصلاحِ احوال کی طرف توجہ دیتے ہیں تو قدرت ان کی اخلاص پر مبنی یہ قربانی قبول فرماتی ہے اور انہیں رذائل نفس اور دیگر خبائث سے نجات عطا کر دیتی ہے۔ چنانچہ وہ بھوک سے روحانی توانائیاں اسی طرح حاصل کرتے ہیں جس طرح دوسرے لوگ دیگر غذاؤں سے حاصل کرتے ہیں۔ اس حقیقت کی ایک نمائندہ مثال وہ واقعہ ہے جو کشف المحجوب شریف میں ذکر کیا گیا ہے کہ

’’علاقہ مرو‘‘ میں دوآفتاب و ماہتابِ درخشاں تھے۔ لوگ ان کی نورانی صحبت سے بے پناہ فیوضات حاصل کیا کرتے تھے۔ ایک کا اسمِ گرامی شیخ مسعود اور دوسرے کا بو علی تھا۔ حضرت شیخ مسعود نے ایک روز پیغام بھیجا کہ آیئے ! اپنی اپنی روحانی طاقت آزماتے ہیں۔ صورت یہ ہو گی کہ ایک متعین جگہ پر بیٹھ جائیں گے اور چالیس روز تک کچھ نہیں کھائیں گے۔ حضرت شیخ بو علی نے جواب دیا : یہ کوئی کمال نہیں۔ مقابلے کی صورت یہ متعین کرتے ہیں کہ ہر روز کھانا کھائیں گے اور چالیس روز تک ایک ہی وضو سے نماز پڑھیں گے۔ اس واقعہ کے پہلے حصہ سے پتہ چلتا ہے کہ انسان بھوکا رہ سکتا ہے اور بھو ک بھی ایک قسم کی خوراک ہے جو روحانی مقام و مرتبہ کے مطابق عطا ہوتی ہے۔ دوسرے حصے سے پتہ چلتا ہے کہ اہل اللہ کے نظام ِجسمانی میں نورانیت پیدا ہو جاتی ہے چنانچہ وہ کھاتے بھی ہیں تو ان کے جسم میں ثقل پیدا نہیں ہوتا اور عرصہ دراز تک باوضو اور پاک رہتے ہیں۔ پوری بحث کا حاصل یہ نکلا کہ بھوک کچھ نہ کھانے کو کہتے ہیں‘ اسی کا نام روزہ ہے اور روزہ حصول نور کا ذریعہ ہے مگر اس سے نور اس وقت حاصل ہوتا ہے جب اسے حصولِ نور ہی کے جذبے اور ارادے سے باقاعدہ آداب وضوابط کے ساتھ رکھا جائے۔

روزے کے روحانی حقوق و آداب

اولیاء کرام فرماتے ہیں کہ کھانے پینے سے رک جانا کوئی کمال نہیں۔ یہ تو بچوں کا کھیل ہے اور یہ مقصود بھی نہیں ہے۔ اصل مقصود تقویٰ ہے۔ جس طرح قربانی سے مقصود بھی تقویٰ ہی ہے یہ نہیں کہ انسان خون بہائے اور گوشت کھا کر فارغ ہو جائے یا یہ سمجھے کہ بارگاہ ِ خدا وندی میں بعینہ یہ گوشت پہنچتا ہے۔ وہاں تو صرف دلوں کو دیکھا جاتا ہے کہ اس نے حکم ِ خداوندی کی بجا آوری میں یہ جانور ذبح کیا ہے یا محض دکھاوا اورشہرہ مقصود ہے۔

لَنْ يَّنَالَ اللّٰهُ لُحُوْمُهَا وَلِا دِمَائُهَا وَلٰٰکِنْ يَّنَالُهُ التَّقْویٰ مِنْکُمْ.

’’ اللہ تعالیٰ تک گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘

اس کے علاوہ سوچنے کی یہ چیز ہے کہ کھانا پینا انسان کے لئے حلال ہوتا ہے‘ روزے کے دوران چند گھنٹوں کے لئے حرام ہو جاتا ہے۔ غروبِ آفتاب کے بعد پھر حلال ہو جاتا ہے تو ایسی چیز جو روزہ رکھنے سے پہلے بھی انسان کیلئے حلال تھی اور بعد میں بھی حلال ہو گئی اسے اتنی اہمیت کیسے حاصل ہو سکتی ہے کہ وہ مقصود بالذات بن جائے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ مقصود کچھ اور ہی ہے اور اسے محض ذریعہ اور علامت بنایا گیا ہے۔ وہ مقصود کیا ہے؟ اسے حضور داتا گنج بخش علی ہجویری رضی اللہ عنہ نے کشف المحجوب شریف میں ایک حدیث کے ذریعے بیان فرمایا ہے۔ نبوی ارشاد ہے :

اِذَا صُمْت فَلْيَصُمْ سَمْعُکَ وَبَصَرُکَ وَلِسَانُکَ وَيَدُکَ وَکُلُّ عُضُوٍ مِنْکَ

’’جب تو روزہ رکھے تو چاہئے کہ تیرے ہاتھ ‘ کان‘ آنکھیں اور زبان سب روزہ رکھیں بلکہ تیرا ہر عضو روزہ رکھے۔‘‘

یعنی روزے کی حالت میں تمام حواسِ خمسہ حرام کاموں سے مجتنب رہیں اور جو امور وہ انجام دے سکتے ہیں انہیں بصورت ِحلال انجام دیں اور اعمال کا ارتکاب ایسی صورت میں نہ کریں جس کی انہیں اجازت نہیں۔ چنانچہ آنکھیں نامحرم کی طرف نہ اٹھیں‘ غلط حرکات نہ دیکھیں‘ تجسس میں نہ پڑیں اورصرف ان ہی اشیاء اور مناظر کو دیکھیں جنہیں دیکھنے کی اجازت ہے اور وہ حلال کے زمرے میں آتی ہیں۔۔۔ کان بھی اسی طرح محتاط رہیں اور کوئی ناجائز و ناپسندیدہ بات سننے کی کوشش نہ کریں۔۔۔ اسی طرح ہاتھ اور دیگر اعضاء و جوارح اور حواس بھی اپنے طبعی وظائف کی ادائیگی کے دوران‘ اپنے متعین دوائر میں رہیں اور ان سے تجاوز کرنے کی کوشش نہ کریں۔ حضرت داتا گنج بخش رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی : یارسول اللہ ! او صنی کہ مجھے کوئی نصیحت فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : احبس حواسک ’’ اپنے حواس کو قابو میں رکھ۔‘‘

روزہ حواس پر کنڑول کرنے اور اعضاء کو برائیوں سے روکنے کا نام ہے۔ چنانچہ مختلف اعضاء سے جو گناہ سرزد ہوتے ہیں ’ضروری ہے کہ وہ روزے کی حالت میں اس سے سرزد نہ ہوں۔ زبان جھوٹ اور غیبت سے بچے‘ ہاتھ چوری‘ لوٹ مار‘ ملاوٹ‘ ظلم‘ زیادتی سے بچیں اور دوسرے اعضاء بھی بری حرکات کی طرف مائل نہ ہوں۔ اگر انسان روزہ رکھ کر بھی بدستور جھوٹ بولے اور جھوٹی گواہیاں دیتا پھرے یا ناشدنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو محض کھانا پینا چھوڑ دینے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اسی لئے سرکار کا ارشاد ہے :

کم من صائم ليس له من صيامه الا الجوع والعطش

’’ کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں جنہیں روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ایک اور ارشاد ہے

کهمن لم يدع قول الزور و العمل به فليس لله حاجة ان يدع طعامه وشرابه

 ’’ جو شخص جھوٹ بولنا ور اس پر عمل کرنا ترک نہیں کرتا‘ تواللہ تعالیٰ کو اس کے اس عمل کی قطعی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘

ان تفصیلات و ارشادات سے یہ روشنی ملی کہ روزہ‘ اپنے اعضا ء کو گناہوں اور برائیوں سے روک لینے کا نام ہے۔ جو روزہ دار اس شان کا روزہ رکھتا ہے اسی کا روزہ اس کے باطن میں وہ نور پیدا کرتا ہے جو روح کی غذا بنتا ہے اور انسان کو کھانے پینے سے بے نیاز کر دیتا ہے۔