الفقہ : آپ کے دینی مسائل

مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

سوال : اسلام کی فلسفہ زکوۃ کے بارے میں آگاہ فرمائیں؟

جواب : اسلام ایسا نظام معاش قائم کرتا ہے جس سے قومی سرمایہ اوپر اوپر ہی نہ گھومتا رہے۔ ارشاد رب العزت ہے کہ

كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ.

’’تاکہ (سارا مال صرف) تمہارے مالداروں کے درمیان ہی نہ گردش کرتا رہے (بلکہ معاشرے کے تمام طبقات میں گردش کرے) ‘‘۔

(الحشر، 59 : 7)

کیونکہ قومی سرمائے کی حیثیت تمام لوگوں کے لئے ایسی ہی ہے جیسے جسم کے لئے خون۔ اگر خون بعض حصوں کو پہنچے اور بعض محروم رہ جائیں تو وہ مفلوج ہو جائیں گے۔ یونہی قومی دولت اگر اوپر ہی اوپر چند طبقات میں گردش کرتی رہی تو قوم کی اکثریت عضوِ معطل ہو کر رہ جائے گی۔ جس طرح جسم کا مفلوج حصہ اچھا نہیں ہوتا اور جسم پر بوجھ بن جاتا ہے، اسی طرح جب عوام پر قومی سرمایہ خرچ نہ ہو گا تو یہ بے زبان اکثریت معاشرے کے لئے وبال جان بن جائے گی۔ لہذا معاشرے کی خیریت اسی میں ہے کہ قومی دولت کی تقسیم مساویانہ طور پر کی جائے تاکہ معاشرے کے ہر فرد کو اس کی ضروریات بہم پہنچتی رہیں اور یہ خوبصورت دنیا کسی کے لئے جنت اور کسی کے لئے جہنم زار نہ بن جائے۔

آپ دنیا کی کسی تحریک کو دیکھ لیں۔ کسی مذہب کا مطالعہ کر لیں، روٹی کا مسئلہ کسی نے نہ نظر انداز کیا، نہ کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے غریبوں، بیواؤں، یتیموں اور معذوروں کی مدد کرنے کا حکم ہر جگہ ہر ایک نے دیا اور دے رہے ہیں مگر جس انداز سے اس مسئلہ کو اسلام نے لیا ہے اور جس حکمت سے اسے حل کیا ہے وہ اسی کا خاصہ ہے۔ عام طور پر دوسروں کی مدد، ایک اخلاقی ہدایت تک محدود رکھی گئی ہے کہ کرنا چاہئے اچھی بات ہے مگر یہ اسلام کا امتیاز ہے کہ اس نے جو نظام حیات دیا اس میں نماز جیسی اہم ترین عبادت کے بعد زکوۃ کی صورت میں اس مسئلہ کو حل کر دیا۔ مال وصول کریں اور محروم طبقات کو ضروریات مہیا کریں چنانچہ حکم ہوا :

خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ.

(التوبه، 9 : 103)

’’آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجئے کہ آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرما دیں اور انہیں (ایمان و مال کی پاکیزگی سے) برکت بخش دیں اور ان کے حق میں دعا فرمائیں‘‘۔

یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم تھا۔ اب عام مسلمانوں کا فرض بھی ملاحظہ فرمایئے۔

الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ.

(الحج : 41)

’’(یہ اہلِ حق) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں (تو) وہ نماز (کا نظام) قائم کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں اور (پورے معاشرے میں نیکی اور) بھلائی کا حکم کریں اور (لوگوں کو) برائی سے روک دیں‘‘۔

اسلام کے دور اول میں جب اسلام مکمل طور پر ملکی قانون کے طور پر متمکن تھا نماز اور زکوۃ کا سسٹم بھی باقی قوانین و احکام کی طرح حکومت ہی قائم کرنے کی ضامن تھی۔

سوال : روزانہ استعمال کا سونا یا جو کبھی کبھی استعمال ہوتا ہے یا جو سیف میں پڑا ہوا ہے تمام اقسام زکوۃ یا میں شامل ہیں یا کچھ استثنی ہے؟ نیز اس بات کی بھی وضاحت فرمائیں کے کیا مال کے ہر ہر جز پر سال گزرنا ضروری ہے؟

جواب : سونا بصورت زیورات وغیرہ دو طرح کا ہوتا ہے۔

  1. استعمال میں آنے والا
  2. استعمال میں نہ آنے والا

سونا و چاندی قدیم زمانہ سے آج تک ثمن مطلق تسلیم کیا جا چکا ہے اور تمام دنیا اسی کو اصل ثمن مانتی ہے۔ بین الاقوامی لین دین میں مرکزی حیثیت آج بھی سونے کو حاصل ہے۔ گویا اس مسئلہ میں تمام دنیا نے اسلام کی دہلیز پر سرجھکایا ہوا ہے۔ فالحمدللہ کہ ثمن مطق اسے اسلام نے قرار دیا ہے۔

جب یہ بات واضح ہو گئی تو جس شخص کے پاس نصاب کے برابر سونا یا چاندی موجود ہے، خواہ ڈلی کی صورت میں، خواہ زیورات کی صورت میں خواہ برتن وغیرہ کی صورت میں، یا اس مالیت کے برابر کرنسی نوٹ یا اس کے مساوی مالی تجارت، ان سب پر سال گزرنے کے بعد مقررہ شرح کے مطابق زکوٰۃ فرض ہے۔ خواہ زیورات پہنے یا نہ پہنے۔ گھر میں رکھے یا لاکرز میں۔ ملکیت شرط ہے جب بھی مالک نصاب ہو گا، زکوٰۃ فرض ہو گی۔ اس کی تدبیر کرنا اس کا کام ہے کہ مال تجارت یا صنعت میں لگائے۔ مضاربہ یا مشارکہ کے اصول پر یا کسی اور مناسب طریق پر تاکہ پڑے پڑے مال کو زکوٰۃ ہی نہ کھاتی رہے۔ جب کاروبار میں لگائے گا تو رزق حلال بھی بڑھے گا۔ کئی دوسروں کے حصول رزق کا ذریعہ بھی بنے گا اور یوں وہ شخص ذاتی دولت کے بجائے قومی سرمائے کی صورت اختیار کر لے گا۔ جس سے صرف ایک کا نہیں کئی دوسروں کا بھلا بھی ہو گا۔ استعمال کبھی کبھی کریں یا روزانہ یا کبھی نہ کریں۔ اس میں فرق نہیں۔

آپ کے پاس گھر میں بینک میں مال تجارت کی صورت زیورات کی صورت کرنسی کی صورت جب بھی اتنا مال ہو جو ساڑھے سات تولہ سونے یا ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر یا اس سے زائد ہے۔ ضروریات زندگی سے زائد ہے قرض سے فارغ ہے اور اس پر سال گزر چکا ہے تو آپ پر ڈھائی فیصد کی شرح سے زکوٰۃ فرض ہے۔ درمیان سال جو اضافی رقم آئے گی اسے بھی اصل مال کے ساتھ جمع کر کے کل مال پر زکوٰۃ فرض ہے۔ ہر ہر جز پر سال گزرنا ضروری نہیں۔

سوال : کیا زکوۃ کی رقم اپنے چھوٹے بھائی کو دی جا سکتی ہے جو بے روزگار ہو؟

جواب : بہن، بھائی، چچا، ماموں، خالہ، پھوپھی یا ان کی اولاد، اگر غریب ہیں اور حاجت مند ہیں تو ان کو زکوٰۃ دینا دوہرا ثواب ہے۔ ایک صلہ رحمی کا دوسرے ادائیگی فرض کا۔ ہاں اپنے اصول یعنی والدین دادا، دادی، نانا، نانی اور ان سے اوپر والے اور اپنے فروع یعنی اولاد مثلاً بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، نواسہ نواسی اور ان کی اولاد، کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔ یونہی میاں بیوی ایک دوسرے کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے۔

جب آپ کے نصاب پر سال گزر جائے زکوٰۃ اسی مہینے اور تاریخ سے فرض ہے۔ زکوٰۃ ادا کرنے کا کوئی مہینہ مخصوص نہیں۔ ہاں رمضان المبارک میں ثواب زیادہ ہے اس مہینہ میں نفلی عبادت دوسرے مہینوں کے فرض کے برابر ہے اور ایک فرض دوسرے مہینوں کے ستر فرضوں کے برابر ہے۔

سوال : کیا زکوۃ کے پیسے یا صدقات کے پیسے گھر گھر جا کر اکھٹا کرنا جائز ہے؟ کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ایسا ہوا؟

جواب : زکوٰۃ، فطرانہ یا کوئی اور چندہ، مسجد میں، عید گاہ میں یا کسی اور جگہ جمع کرنا اور امت کی بھلائی کے کاموں میں صرف کرنا اسلامی حکومت کا کام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود یہ کام کیا ہے۔ البتہ پوچھنے کی بات یہ ہے کہ آج کل جس طرح ہر شعبے میں نیکی و بدی میں امتیاز مشکل ہے۔ یہ مسئلہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ لوگ اچھے کاموں کے لئے بھی چندے اکٹھے کرتے ہیں اور مخلصانہ و رضاکارانہ کام کر کے دوسروں کو فائدہ پہنچاتے ہیں اور کچھ غلط کار لوگ بھی اس میدان میں سرگرم عمل ہیں، جن کے ذاتی مقاصد، نفسانی اغراض اور منفی سوچ ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر شخص کو نہ اچھا کہا جا سکتا ہے، نہ برا۔ واقعتا جو اچھا ہے وہ اچھا ہے، جو برا ہے برا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ فطر، زکوٰۃ اور عشر ہمیشہ سرکاری طور پر جمع فرمایا اور مستحقین کی ضروریات پوری فرمائیں قرآن و حدیث میں اس کا ثبوت موجود ہے۔ اسی طرح عیدین اور دیگر مواقع پر آقا علیہ السلام نے خود غرباء کے لئے صدقہ جمع فرمایا۔ مسجد نبوی میں غرباء کے لئے نقد و ضروریات زندگی جمع کی گئیں۔ منکرین زکوٰۃ سے اسی لئے جہاد کیا گیا کہ وہ بیت المال میں سرکاری اہل کاروں کے ذریعے زکوٰۃ دینے سے انکاری تھے۔ لہذا زکوٰۃ فطرانہ یا چندہ جمع کرنا سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسلامی نظام معیشت کا لازمہ ہے۔ اس سے اصولاً اختلاف ممکن نہیں۔ اختلاف اس سے ہو سکتا ہے اور ہونا چاہئے کہ جمع کرنے والا کون ہے؟ کیا اس طرح مستحقین تک مال پہنچے گا یا غلط کار لوگ اسے اپنی عیش و عشرت پر خرچ کریں گے؟ کیا یہ لوگ دیانت دار ہیں؟ وغیرہ۔

سوال : کیا سال گزرنے سے پہلے زکوۃ دینا جائز ہے؟

جواب : ایک یا دو سال پیشگی زکوٰۃ دینا بالکل جائز ہے۔ آپ دس سال کی پیشگی زکوٰۃ بھی دے سکتے ہیں۔ بعد میں زکوٰۃ زیادہ بنتی ہو تو اضافہ کر کے پوری کر دیں۔ کم بنتی ہو تو صدقہ کر لیں یا آئندہ مدت کی مزید پیشگی ادائیگی کر دیں۔ بہر حال ایک یا کئی سالوں کی پیشگی زکوٰۃ ادا کرنا شرعاً جائز ہے۔ فقہائے کرام فرماتے ہیں :

ان قدم الزکوة علی الحول وهو مالک النصاب جاز.

(هدايه، 1 : 152، فتح القدير، 2 : 157)

’’اگر کوئی صاحب نصاب ہے اور وہ سال گزرنے سے پہلے زکوٰۃ دیتا ہے تو جائز ہے‘‘۔

سوال : کیا زکوۃ سے مفید کتابیں چھپوا کر مفت تقسیم کی جا سکتی ہیں؟۔۔۔ کیا ملازم کے معذور بچے کے علاج کے لیے زکوۃ دی جا سکتی ہے جبکہ ملازم کا والد مالدار اور صاحب نصاب آدمی ہے؟۔۔۔کیا مستحق کو زکوۃ کی رقم دیتے وقت یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ زکوۃ کی رقم ہے؟

جواب : آپ زکوٰۃ فنڈ سے کتابیں چھپوا کر مستحقین میں مفت تقسیم کر سکتے ہیں۔ زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔ بشرطیکہ کتابیں صحیح اور مفید ہوں۔

ملازم کے بچے کے علاج کے لئے زکوٰۃ دی جا سکتی ہے۔ آپ رقم دیدیں۔ علاج وہ خود کروائیں۔ اس کا والد مالدار ہے یا نہیں۔ بات ملازم کی ہے، والد کی نہیں۔ آپ زکوٰۃ دے سکتے ہیں۔

اگر لینے والا مستحق زکوٰۃ ہے تو اس کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں۔ اس کو بتانا کہ زکوٰۃ ہے، یہ ضروری نہیں۔