اداریہ : صبر، استقامت اور فراست کا امتحان

قارئین کرام! جب تک یہ شمارہ آپ کے ہاتھوں میں جائے گا، آپ ان شاء اللہ رمضان المبارک کی رحمتوں کے سائے میں شب و روز گزار رہے ہوں گے۔ اس مرتبہ رمضان زیادہ گرم اور طویل ایام میں آ رہا ہے۔ ملک میں مہنگائی کے علاوہ توانائی کا بحران بھی موجود ہے جو اس صبر اور برداشت کی آزمائش میں مزید اضافہ کرے گا۔ قمری کیلنڈر اللہ تعالیٰ کی حکمتوں اور مصلحتوں پر مبنی نظام کائنات کا حصہ ہے۔ یہ ہر خطے میں ہر سال موسم کے تغیرات کے ساتھ تبدیل ہو کر آتا ہے۔ یوں گرمیوں اور سردیوں کے موسم اور چھوٹے اور بڑے دنوں کی بھوک پیاس انسان کو مختلف تجربات اور مجاہدہ سے ہمکنار کرتی ہے۔ انسانی طبیعت میں چونکہ سھل پرستی بھی ہے اور آرام طلبی بھی اس لئے تربیت کے جملہ گوشوں کی تکمیل اسی صورت میں ممکن تھی کہ اسے ہر موسم کی تلخی اور تجربات سے گزارا جائے۔ بات تو صرف عزم و ہمت اور مضبوط ارادے کی ہے۔ دن چھوٹے ہوں یا لمبے، موسم سردی کا ہو یا گرمی کا، روزے دار خواتین و حضرات پُرعزم ہوں اور اس روحانی پریکٹس کو روحانی بیماریوں کا علاج سمجھ کر دل و جاں سے قبول کریں تو کوئی ذہنی اور جسمانی مسئلہ آڑے نہیں آتا۔

رمضان اور قرآن کا باہمی تعلق بھی بڑا اہم ہے۔ قرآن کی تلاوت رمضان المبارک میں نماز تراویح کی صورت میں بکثرت ہوتی ہے۔ ہر شخص زیادہ سے زیادہ قرآن حکیم پڑھ کر نیکیاں حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر مسلمانوں نے اس قرآن خوانی اور اس کی سماعت کو ایک رسم کی شکل دے دی ہے۔ روح رمضان یہ ہے کہ قلب و اذہان کی تطہیر کی جائے اور اس تطہیر کے عمل کو قرآن فہمی سے مستحکم کیا جائے لہذا قرآن کی تلاوت کرنا صرف رمضان کا معمول نہیں بلکہ روزمرہ کا معمول ہونا چاہئے۔ قرآن سننا بلاشبہ ثواب ہے مگر محض سننا اور پڑھنا کافی نہیں۔ آج ہر مسلم کو قرآن کے ساتھ علمی، عقلی، فکری اور عملی تعلق کو مستحکم کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ اس وقت عالم اسلام پر جس قدر مصائب اور مشکلات کے بادل چھائے ہوئے ہیں ان میں سے بیشتر کا حل، قرآن سے شعوری، جذباتی اور عملی وابستگی کے ساتھ مشروط ہے۔ مسلمانوں نے اولاً تو قرآن کو فراموش کر دیا ہے یا پھر اسے غلاف میں لپیٹ کر الماریوں میں سجا دیا ہے اور اگر کہیں رمضان میں پڑھنے سننے کا موقع ملتا ہے تو اس پر غور و فکر کی زحمت گوارا نہیں۔ حالانکہ قرآن باقاعدہ ایک فلسفہ، ایک تعلیم، نظریہ حیات اور شعور مقصدیت دینے آیا ہے یہ سب کچھ غور وفکر اور تفہیم و تعلیم سے ممکن ہو سکتا ہے۔

رمضان میں ہر نیکی کا اجر چونکہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے اس لئے لوگ زکوٰۃ جیسے اہم مالی فریضے کی ادائیگی کو رمضان میں ہی ممکن بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بنکوں میں زکوٰۃ کی مد میں کٹوتی بھی پہلے روزے سے ہو جاتی ہے۔ یہ صرف ہمارے ملک میں حکومتی آرڈیننس کے نتیجے میں ہو رہا ہے۔ حالانکہ زکوٰۃکی رقم ہر انسان کو اپنے حقدار، جان پہچان والے قریبی حلقوں میں دینے کی ترغیب دی گئی ہے۔ مگر یہ ضیاء الحق مرحوم کے ’’نفاذِ اسلام‘‘ کی حکمت عملی ہے چاہے رقم کسی سے ادھار لے کر بنک میں رکھی گئی ہو اور اس پر مقررہ مدت کا اطلاق بھی نہ ہوا ہو، کٹوتی ہو جاتی ہے۔ اس وقت ہمارے حکمران، عوام کی بنیادی ضرورتوں سے یکسر عاری ہیں۔ ہر شعبے میں کرپشن اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ سابقہ وزیراعظم اور ان کی پوری فیملی حج کرپشن کیس میں عدالت کی پیشیاں بھگت رہی ہے، ایسے میں کیا ضمانت ہے کہ زکوٰۃ کی رقم کا استعمال درست اور جائز مدات میں ہوتا ہو گا؟ اس لئے بنکوں کو بغیر اجازت زبردستی زکوٰۃ کی رقم کی کٹوتی نہیں کرنا چاہئے تاکہ ہر شخص اپنے اپنے دائرے میں حسب ضرورت و حیثیت زکوٰۃ دے کر اللہ تعالیٰ کے سامنے سرخرو ہو سکے۔ حکومت کے باقی امور میں جب شفافیت اور امانت و دیانت کا معیار متحقق ہو جائے گا تو یہ زکوٰۃ بھی وصول کر کے تقسیم کر سکتی ہے۔ زکوٰۃ اسلام کے فلاحی نظام معیشت کا حصہ ہے۔ اس کے ذریعے امیر اور غریب کے درمیان غیر معمولی خلیج بننے سے رکاوٹ ڈالنا مقصود ہے۔ یہ ضرورت مند کو بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کا ایک قدرتی نظام ہے مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس وقت مسلمان پوری دنیا میں مجموعی طور پر زیادہ غریب اور بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ اس تصور کو سامنے رکھتے ہوئے انفرادی زکوٰۃ کی طرح حکومتی سطح پر بھی امیر ممالک غریب مسلم ممالک کو امدادی رقوم فراہم کر سکتے ہیں مگر بیشتر عرب ممالک کا سرمایہ یورپ اور امریکہ کے بنکوں میں پڑا ہوا ہے اور ایشیائی خطوں کی طرح افریقہ کے کئی ایسے ممالک آج بھی موجود ہیں جہاں خوراک اور صحت کی بنیادی ضرورتیں بھی میسر نہیں۔ مسلمانوں کو رمضان المبارک میں انفرادی، اجتماعی اور قومی سطح پر بھی گردش دولت کے نظام کو اپنانا چاہئے۔

منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن ایک بین الاقوامی فلاحی و رفاہی تنظیم ہے جو ہر شعبہ حیات میں معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کی خیر و بھلائی کے لئے مصروف عمل ہے۔ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن امداد باہمی کے اسلامی تصور کے تحت معاشرے کے خوشحال طبقے کے تعاون سے متاثرہ اور بدحالی میں مبتلا معاشرے کے افراد کی زندگی کو خوشحالی تعلیم، صحت اور فلاح عام کے لئے منصوبہ جات پر عمل پیرا ہے۔ اس وقت MWF کے زیر اہتمام سکولز، کالجز، فری ڈسپنسریاں، یتیم اور بے سہارا بچوں کا سہارا آغوش، یتیم بچیوں کی شادیاں اور دیگر عظیم فلاحی منصوبہ جات کامیابی کے ساتھ معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کر رہے ہیں۔ معاشرے کے مخیر حضرات اور وسائل رکھنے والے احباب منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے ان منصوبہ جات میں عملی طور پر شریک ہو کر اللہ اور اس کے رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی اور رضا کو سمیٹتے ہوئے دنیا و آخرت میں بھلائی کے حقدار ٹھہر سکتے ہیں۔

رمضان کا آخری عشرہ برکاتِ روحانی کا عروج ہوتا ہے اس لئے اس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعتکاف کا مبارک عمل تاحیات جاری رکھا۔ اعتکاف انفرادی بھی ہوتا ہے اور اجتماعی بھی۔ لوگ گھروں میں بھی معتکف ہوتے ہیں اور مسجدوں میں بھی اور بعض خانقاہوں پر بھی بیٹھتے ہیں۔ تاہم تحریک منہاج القرآن نے اس سلسلے میں بھی ایک تعمیری طرح ڈالی ہے۔ نیکیوں کے موسم بہار کے عروج میں ہونے والے اعتکاف کی سنت کو امت کے وسیع تر فائدے کے لئے اس میں وسعت و اجتماعیت کا رنگ غالب کر دیا گیا ہے۔ منہاج القرآن کے مرکز میں ہونے والے اعتکاف میں انفرادی اوراد و وظائف کے ساتھ ساتھ تعلیمی، دینی اور تنظیمی تربیت کا اہتمام بھی شامل ہوتا ہے یوں اعتکاف کے بعد جہاں انسان اپنے ایمان میں تازگی محسوس کرتا ہے وہاں اسے اسلام کے حوالے سے اجتماعی ذمہ داریوں کا احساس بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ تحریک کے زیر اہتمام منعقدہ شہر اعتکاف کی انفرادیت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی علمی اور روحانی صحبت ہے۔ آپ ہر سال اجتماع اعتکاف سے مخصوص اوقات میں خطاب فرماتے ہیں جو پوری دنیا میں نشر ہوتے ہیں۔ اس طرح اعتکاف کی اثر انگیزی پوری دنیا میں محسوس کی جاتی ہے۔ تحریک کے کارکنان اور عہدیداران کو ان سنہرے لمحات سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ شمولیت کی کوشش کرنی چاہئے۔

ڈاکٹر علی اکبر قادری