القرآن : توبہ ہر روحانی مقام کی کنجی ہے

خطاب از شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

ترتیب و تدوین : محمد یوسف منہاجین

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :

وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ.

(الْحُجُرَات، 49 : 11)

’’اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں‘‘

اس آیت میں مذکور مضمون بڑا عجیب ہے۔ بندے نے گناہ کیا مگر اللہ تعالیٰ نے اس کو ظالم نہ کہا۔ انتظار میں رہا کہ شاید توبہ کر لے لیکن جب وقت گزر گیا اور اس نے توبہ نہ کی تو فرمایا :

اے انسان گناہ کرنے پر تجھے ظالم نہیں سمجھا تھا مگر توبہ نہ کر کے تو نے ظلم کیا۔ معلوم ہوا کہ گناہ تو ایک درجے کا ظلم اور نافرمانی ہے ہی، مگر اصل ظلم جس کو اللہ نے ظلم شمار کیا، وہ گناہ کے بعد توبہ نہ کرنا ہے یعنی اس گناہ پر اصرار و تکرار کیا۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے گناہ کے تکرار کرنے والے، اس پر اصرار کرنے والے اور اس کو جاری رکھنے والے کو ظالم کہا۔ اس لئے کہ اگر وہ توبہ کر لیتا تو گناہ کو ترک کر دیتا۔ پس توبہ نہ کر کے اس نے ظلم کا ارتکاب کیا۔

بعض اولیاء کرام نے ایک حکایت بیان کی ہے کہ ایک شخص نے گناہ کیا اور توبہ کر لی، پھر گناہ کیا اور توبہ توڑ بیٹھا۔ الغرض گناہ کرتا مگر ندامت ہوتی تو توبہ کر لیتا ارادے کا کمزور تھا، حتی کہ اس نے ستر بار توبہ کر کے توڑ ڈالی۔ 70 ویں مرتبہ توبہ توڑنے کے بعد اس کو یہ خیال آیا کہ اب میری توبہ قبول نہیں ہو گی اور میرے منہ پر مار دی جائے گی کہ تم نے مذاق بنا لیا ہے کہ ستر مرتبہ تم نے توبہ کی اور پھر گناہ کر لیا اور باز نہیں آیا۔ اس خیال سے اس نے توبہ نہ کی۔ اللہ تعالیٰ نے اس دور کے اپنے پیغمبر سے فرمایا کہ میرے اس بندے کو جا کر یہ پیغام دے کہ تو ہی میری رحمت سے مایوس ہو گیا، میں نے کب تجھے کہا تھا کہ اب توبہ قبول نہیں کروں گا۔ تو اب بھی اگر توبہ کر لیتا تو میں معاف کر دیتا۔ اس حکایت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی توبہ کی وجہ سے مزید گناہ کرتا چلا جائے کہ توبہ تو قبول ہو ہی جاتی ہے۔ جس نے یہ سوچ کر گناہ کیا اور توبہ کی، دراصل اس کی توبہ ہی نہیں ہے۔ توبہ صدقِ دل سے ترکِ گناہ کو کہتے ہیں۔ لہٰذا توبہ کی قبولیت کا خیال رکھ کر مزید گناہ کرنا توبہ ہی نہیں ہے۔

توبہ کی تعریف

امام ابوالقاسم قُشیری (حضور داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے اساتذہ میں سے ہیں) توبہ کی تعریف میں فرماتے ہیں کہ

هی أصل کل مقامٍ ومفتاح کل حالٍ

’’ہر مقام کی ابتداء توبہ ہے اور ہر حال کی کُنجی توبہ ہے‘‘۔

امام قشیری کے توبہ بارے اس قول کی کماحقہ تفہیم کے لئے کیفیت، حال اور مقام کے مابین فرق کو جانتے ہیں۔

کیفیت

کبھی کبھی نماز، تلاوت، استغفار، نعت پاک اور اللہ کا ذکر سننے سے اللہ کے انوار نصیب ہو جاتے ہیں۔ ایک کیفیت قلب و باطن پر طاری ہوتی ہے، رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ۔ ۔کبھی رونا آ جاتا ہے، آنسو چھلک پڑتے ہیں۔ ۔ ۔کبھی کانپ اُٹھتے ہیں، کبھی لرز جاتے ہیں۔ ۔ ۔کبھی تصوّر میں گم ہو جاتے ہیں اور چند لمحات کے لئے دنیا و ما فیہا کو بھول جاتے ہیں۔ ۔ ۔اس کو ’’کیفیت‘‘ کہتے ہیں۔ کسی پر یہ ایک لمحہ کے لیے آتی ہے، کسی پر چند منٹ کیلئے، کسی پر یہ کیفیت پندرہ سے بیس منٹ رہتی ہے۔ کوئی گھنٹے دو گھنٹے، تین گھنٹے اس کی کیفیت میں رہتا ہے۔ کوئی ایک دن رات یا دو تین دن اس کیفیت میں رہتا ہے مگر یہ کیفیت مستقل نہیں رہتی آتی ہے اور پھر چلی جاتی ہے۔

اسکی مثال جگنو کی چمک کی سی ہے جیسے رات کا اندھیرا ہو تو جگنو نظر نہیں آتا اور اچانک چمکتا ہے۔ چمک سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں جگنو ہے۔ پھر چمک آتی ہے اور چلی جاتی ہے۔ یہ مثال اس کیفیت کی ہے جو دل، باطن اور روح پر وارد ہوتی ہے اور پھر زائل ہو جاتی ہے۔ اس کیفیت کے لمحے انسان اپنے آپ کو اپنی بقایا پوری زندگی سے مختلف محسوس کرتا ہے۔ اس لمحے میں وہ کیفیت انسان کو ہلکا کر دیتی ہے، روشنی محسوس ہوتی ہے، اک سرور محسوس ہوتا ہے۔ اسی کو شاعر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ

یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے سب تیری نظر کا قصور ہے

مطلب یہ ہے کہ تونے توجہ کی ہے، اس وجہ سے اس وقت میری یہ کیفیت بن گئی ہے کہ میں اپنے آپ کو جُدا سمجھتا ہوں۔ اس کیفیت کے چلے جانے کے بعد انسان اصل حالت کی طرف لوٹ آتا ہے اور اپنے آپ کو وہیں پاتا ہے جہاں پہلے کھڑا تھا۔

اس کیفیت کے حصول پر کوئی محنت نہیں تھی، کوئی ریاضت نہیں تھی، نیک عمل کا تسلسل نہیں تھا، مجاہدہ نہیں تھا، کوشش نہیں تھی بلکہ ہر شخص کے اندر موجود ایمان کی وجہ سے یہ کیفیات نصیب ہوتی ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا کہ کافر لوگ بھی ان کیفتیوں سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ مومن کی طرح وہ بھی جسم، نفس اور روح کے مرکب ہیں۔ روح کافر کے جسم میں ہو یا مسلمان کے جسم میں ہو، آئی تو وہیں سے آئی ہے، وطن تو وہیں تھا، رہتی تو وہیں تھی۔ صرف یہ کہ مومن کی روح کو لبیک کہنا نصیب ہو گیا اور کافروں کی روح کو یہ کہنا نصیب نہیں ہوا۔ مگر پرورش اور آب و ہوا وہیں کی ہے۔ اُسی آب وہوا میں پلی، مدتوں مومنوں اور اللہ والوں کی روحوں کے ساتھ رہی لیکن اس کو لبیک کہنا نصیب نہیں ہوا، مگر چونکہ ایک زمانہ اس روح کا مومنین کے ساتھ گزرا ہے لہذا اگر وہ بھی صدق و اخلاص کے ساتھ محنت کرے، دھیان کرے، کسی لگن میں رہے، کسی دھن میں رہے، مراقبے کرے تو اس کو بھی یہ کیفیت ملتی ہے یعنی ہر روح کے اثرات ہوتے ہیں جو کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ مگر کفار میں یہ کیفیت ایمان کی کیفیت نہیں ہوتی جبکہ مومن کو جب یہ کیفیت ملتی ہے تو وہ نور پیدا کرتی ہے کیونکہ اس کے ساتھ ایمان ہوتا ہے۔ پس اگر اس طرح کے روحانی اثرات آئیں اور چلے جائیں تو اس کو کیفیت کہتے ہیں۔

حال

وہ کیفیت جو چند لمحات کے لئے انسان پر طاری ہوتی ہے اور پھر چلی جاتی ہے اگر قائم رہے، آئے اور پھر واپس نہ جائے بلکہ برقرار رہے تو اس کو ’’حال‘‘ کہتے ہیں۔ کیفیت جم جائے قرار پکڑ جائے تو حال کہلاتا ہے۔ اس کو امام قُشیری نے کہا : مفتاح کل حال ’’ہر حال کی چابی توبہ ہے‘‘ کہ اگر آپ چاہیں کہ ایمانی کیفیت برقرار رہے اور حال نصیب ہو جائے تو کسی بھی کیفیت کو حال میں بدلنے کی چابی توبہ ہے۔ اگر اس چابی کو استعمال نہ کیا تو کیفیت آتی اور جاتی رہے گی، برقرار نہ رہ سکے گی۔

حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ ایک دن روتے ہوئے، آہ و بکا کرتے ہوئے یہ کہتے جا رہے تھے کہ حنظلہ رضی اللہ عنہ منافق ہو گیا، حنظلہ رضی اللہ عنہ منافق ہو گیا۔ سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ راستے میں مل گئے۔ پوچھا کیا بات ہے؟ انہوں نے اپنا ماجرا سنا دیا۔ انہوں نے حوصلہ افزائی کے لئے جواب دیا کہ ایسا معاملہ تو میرے ساتھ بھی ہے، آیئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں اپنے اس حال کو بیان کرتے ہیں۔ دونوں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پہنچے اور عرض کیا، یا رسول اللہ! حنظلہ منافق ہو گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیوں؟ کیا ہوا ہے؟ عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب آپ کی بارگاہ میں بیٹھتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قرآن مجید سنتے، ذکر، نصیحت، تلقین اور دوزخ و جنت اور آخرت کا بیان سنتے ہیں تو اس مجلس میں کیفیت یہ ہو جاتی ہے کہ گویا جنت بھی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں، دوزخ بھی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ جب آپ کی مجلس سے اٹھ کر گھر جاتے ہیں، بیوی بچوں اور دنیا کے کاروبار میں مصروف ہوتے ہیں تو یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ ساری کیفیت جاتی رہتی ہے اور برقرار نہیں رہتی جو آپ کی مجلس میں ہوتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا !حنظلہ رضی اللہ عنہ تو منافق نہیں ہوا بلکہ مسلمان کی کیفیت ایسے ہی ہوتی ہے۔ کبھی ایسے کبھی ایسے۔ اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے۔ فرمایا : عام مسلمانوں کا حال یہی ہوتا ہے، اسکو منافقت نہ کہو۔ حنظلہ رضی اللہ عنہ اگر یہ کیفیت تمھارا حال بن جائے۔ باہر جا کر بھی یہی کیفیت بر قرار رہے تو اللہ کی عزّت کی قسم پھر تمھارا حال یہ ہو کہ تم گلیوں، کوچوں اور بازاروں میں چلو اور دائیں بائیں قطار دَر قطار فرشتے تمھارے دیدار اور تم سے مصافحے کے لئے راستے میں کھڑے ہو جائیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اور مجلس میں بیٹھنے والوں کو معمولی سا خسارہ بھی ہو جائے تو انہیں بہت بڑا نظر آتا ہے۔ ایک ہم ہیں کہ ساری زندگی خسارہ بن گئی ہے مگر کبھی اس کا شعور ہی نہیں ہوتا، دُکھ ہی نہیں ہوتا، رونا ہی نہیں آتا کہ ہم کتنے بڑے خسارے میں ہیں۔ قرآن اسی حقیقت کی طرف یوں اشارہ کرتا ہے :

وَالْعَصْرِ. اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ.

(العصر : 1، 2)

’’زمانہ کی قَسم (جس کی گردش انسانی حالات پر گواہ ہے) بے شک انسان خسارے میں ہے (کہ وہ عمرِ عزیز گنوا رہا ہے)‘‘۔

ہم اتنے بڑے گھاٹے میں ہیں مگر اپنے حال میں مست ہیں، جس کا کاروبار میں نقصان ہو جائے اس کو تو نیند نہیں آتی۔ مگر ہم نرے نقصان اور خسارے میں جا رہے ہیں اور خوب موج کرتے ہیں، کبھی فکر ہی نہیں۔ جنہیں اس کی بارگاہ سے کچھ نصیب ہو جاتا ہے تو انہیں تھوڑا سا نقصان بھی نظر آئے تو ان کی نیند ہی اُڑ جاتی ہے، آرام نہیں آتا اور وہ تھوڑے خسارے پر کہتے ہیں کہ منافق ہو گئے اور ہم منافقتوں کا ڈھیر بھی اپنے اندر جمع کر لیں تو سمجھتے ہیں مومن ہی مومن ہیں، مسلمان ہی مسلمان ہیں۔ ہمارے آئینہ دل پر اتنی گرد پڑ گئی ہے کہ ہمیں خسارہ، گھاٹا، نفاق نظر ہی نہیں آتا۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے ’’کیفیت‘‘ اور ’’حال‘‘ ثابت ہو رہا ہے۔ اگر صرف صاحبان کیفیت ہوتے اور صاحبان حال نہ ہوتے، یا صاحب ِ حال ہونا ممکن نہ ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فر ماتے ! حنظلہ رضی اللہ عنہ گھبرانے کی ضرورت نہیں، ایسے ہی ہوتا ہے۔ بس اس پر گفتگو ختم فرما دیتے مگر اس کے بعد فر مایا کہ اگر یہ کیفیت برقرار رہ جائے اور حال میں بدل جائے۔ اسکا مطلب ہے کہ صاحبانِ کیفیت تو ہوتے ہی ہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا کچھ لوگ صاحبانِ حال بھی ہوتے ہیں۔

کیفیت کے لمحے میں ہلکا پن، سرور، کیف، نور، طہارت، پاکیزگی محسوس ہوتی ہے۔ اپنے آپ کو گویا کسی اور ماحول اور دنیا میں انسان محسوس کرتا ہے۔ جب وہ کیفیت، حال بن جاتی ہے تو پھر صاحبانِ حال کا تَن اِس ماحول میں رہتا ہے اور مَن کسی اور ماحول میں رہتا ہے۔ جب وہ ہر وقت اسی کیفیت میں رہتے ہیں تو حال میں ہوتے ہیں۔ اس وقت ان کا قال و حال جدا جدا ہوتا ہے، وہ لوگوں سے بات چیت کرتے ہیں، دنیا کے معاملات طے کرتے ہیں، نصیحت، وعظ اور تلقین کرتے ہیں۔ دُکھ سُکھ، غمی و خوشی اور دنیا کے فرائض نبھاتے ہیں۔ اس جگہ جسم تَن میں مصروف رہتا ہے اور مَن حال میں مصروف رہتا ہے۔ لہذا یہ کیفیت ہوتی ہے کہ ان کا تَن فرشی ہوتا ہے اور مَن عرشی ہوتا ہے۔ یہ فرشی بھی ہوتے ہیں اور عرشی بھی ہوتے ہیں۔ ظاہر ان کا فرش پر ہوتا ہے اور باطن انکا عرش پر ہوتا ہے، اس کو حال کہتے ہیں۔

مقام

جب کیفیت بر قرارہے تو حال ہے مگر یہ حال مستقل نہیں ہوتا۔ اس میں تغیّر بھی آ جاتا ہے۔ پہلے کیفیت کو برقرار کر لیا تو حال ہو گیا۔ پھر حال کو برقرار رکھنے کی محنت کرنا ہو گی۔ اگر حال، حال رہے تو متغیّر رہتا ہے۔ اس میں بھی (ups and downs) آتے ہیں، تغیّر ہوتا ہے، تبدیلی آ تی ہے۔ کبھی کم کبھی زیادہ، کبھی نیچے، کبھی اونچا۔ پس متغیّر رہے تو حال ہے اور اگر حال اپنی حالت پہ دائماً برقرار ہو جائے، متغیّر نہ ہو تو اسکو ’’مقام‘‘ کہتے ہیں۔ اس میں اتنی استقامت آ جائے کہ پھر اس میں تبدیلی نہ ہو۔ حال ہر حال میں برقرار رہے اور اس کے اِرد گِرد کے موثرات اس پر اثر انداز نہ ہوں اور حال مستقل ہو جائے ناقابلِ تغیر ہو جائے تو مقام کہلاتا ہے۔

روحانی مقام کے حصول میں رکاوٹ کیوں؟

حال میں داخل ہونے کے لئے توبہ کی ضرورت ہے۔ کیفیت تو وقتاً فوقتاً ایمان کے اثر سے مل جاتی ہے مگر یہ کیفیت، حال نہیں بنتی اور حال، مقام نہیں بنتا۔ سوال یہ ہے کہ رکاوٹ کہاں ہے۔ رکاوٹ یہ ہے کہ ہم وقتاً فوقتاً ایمانی کیفیتیں بھی کھو بیٹھتے ہیں۔ بڑی بد نصیبی یہ ہے کہ قلب و باطن اتنا شقاوت زدہ ہو جاتا ہے کہ بدبختی اس پر مسلط ہو جائے، اتنا سنگ دل ہو جائے، دروازے اس پر اتنے بند ہو جائیں اور وہ جہاں بھی بیٹھے کیفیت نہ ملے۔ پس اگر کسی کا دروازہ بالکل بند ہو جائے تو کیفیت بھی نہیں ملتی اور اگر کیفیت وقتاً فوقتاً ملے تو سمجھے کہ دروازہ کھلا ہے۔ کم از کم دروازہ نہیں تو کھڑکی کھلی ہے، کھڑکی نہیں تو روشن دان کھلا ہے۔ روشن دان نہیں تو چلو چند سوراخ ہی کھلے ہیں جن سے چھن چھن کر کچھ روشنی آ رہی ہے۔ روحانی مقامات میں رکاوٹ اس وقت آتی ہے جب کیفیت مستقل نہیں ہوتی، حال میں نہیں بدلتی۔

یاد رکھیں کہ حال دعاؤں سے نہیں ملتا بلکہ حال ایک حویلی ہے، اس کے دروزے پر تالا لگا ہوا ہے۔ جو لوگ اس کے باہر گلی کوچوں اور میدانوں میں ہیں وہ اہلِ کیفیت ہیں۔ جو اس حویلی کے اِردگِرد رہتے ہیں اُنہیں کیفیت ملتی رہتی ہے۔ اگر چاہتے ہو کہ کیفیت، حال میں بدلے تو اس کے لئے اس حال کی حویلی کے اندر جانا ہو گا۔ اس حویلی کا تالا کیفیتوں کے آنے جانے سے نہیں کھلتا بلکہ اس تالے کی چابی توبہ ہے۔

امام قشیری نے، پہلے اہلِ کیفیت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اے اہلِ کیفیت، اے خوش نصیبو! جنہیں کبھی کبھی کیفیت نصیب ہوتی ہے سنو! اگر کیفیت سے اوپر اٹھ کر حال تک پہنچنا چاہتے ہو تو توبہ کی چابی لگا لواور اس کے بعد اہلِ حال کو خطاب کیا کہ اے اہلِ حال جنہیں حال نصیب ہو گیا ہے اور جن کی کیفیت ایمانی نے قرار پکڑ لیا ہے اب حال سے گزر کے مقام تک جانا چاہتے ہو تو ہر مقام میں داخل ہونے کی ابتداء توبہ ہے۔

توبہ کی اقسام

توبہ کی تین قسمیں ہیں :

  1. دل کی شقاوت، بد بختی اور سختی کو دور کر کے دل کو اتنا نرم کر لینا کہ کم سے کم اس میں کیفیت آ سکے۔ دل پتھر نہ رہے بلکہ کیفیت کو قبول کر سکے۔ اس کیفیت کی قبولیت کی راہ توبہ ہے۔ جو لوگ کیفیت سے محروم ہیں، ان کا راستہ بھی توبہ ہے۔
  2. جنہیں کیفیت نصیب ہے اور وہ حال چاہتے ہیں تو ان کی چابی بھی توبہ ہے۔
  3. جنہیں حال نصیب ہے اور وہ مقام چاہتے ہیں تو ان کی ابتداء بھی توبہ ہے۔

جن کو مقام نصیب ہے اور وہ مقام کے آگے عروج اور مزید ترقی چاہتے ہیں تو ان کے ہر قدم پر تر قی کے لئے سیڑھی توبہ ہے۔ ہر درجے اور رُتبے والے شخص کی توبہ جُدا ہے۔ گنہگار کی توبہ اور ہے۔ ۔ ۔پرہیز گار کی توبہ اور ہے۔ ۔ ۔عوام کی توبہ اور ہے۔ ۔ ۔ خواص کی توبہ اور ہے۔ ۔ ۔ اطاعت والوں کی توبہ اور ہے۔ ۔ ۔ محبت والوں کی توبہ اور ہے۔ ۔ ۔ صالحین کی توبہ اور ہے۔ ۔ ۔ اولیاء کی توبہ اور ہے۔ ۔ ۔ انبیاء علیہ السلام کی توبہ اور ہے۔ ۔ ۔

میں نے زندگی میں بہت ہستیوں کی مناجات اور ان کی التجاؤں کو اللہ کے حضور پڑھا مگر اولیاء کاملین میں ہے سیّدنا امام زین العابدین رضی اللہ عنہ جیسی توبہ میں نے کسی ولی میں نہیں دیکھی۔ ان کی مناجات کو پڑھیں تو لگتا ہے کہ ہر دن، ہر وقت حالتِ توبہ میں ہی ہیں۔ ان کی زبانِ مبارک سے مناجات کا نکلا ہوا ایک ایک لفظ توبہ سے غسل شدہ (دھلاہوا) ہے، توبہ میں غرق ہے۔

ولایت کے درجات میں ان سے اونچا کون ہو گا؟ آپ نے وہاں پرورش پائی جس گھر میں توبہ کے راز کھلتے ہیں۔ جہاں گناہ سے بھی محفوظ اور پاک ہوں اور لَقب بھی زین العابدین ہو کہ ہر وقت عبادت گزاروں کی زینت ہوں مگر مقام یہ کہ ہر وقت توبہ میں رہتے۔ معلوم ہوا کہ اس بات کی اُن سے بڑھ کر کس کو معرفت ہے کہ ہر قدم اللہ کی طرف آگے بڑھنے کی سیڑھی توبہ ہے، ہر مقام تک پہنچنے کی سیڑ ھی توبہ ہے۔ اس لیے وہ ہر وقت حالتِ توبہ میں ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ پس ہر وقت حالتِ توبہ میں رہنا انسان کے روحانی عروج اور ترقیوں کے راستے کھولتا ہے۔ ہماری آنکھیں سوکھ گئی ہیں کیونکہ ہمارے توبہ کے چشمے بند ہو گئے ہیں۔ توبہ کے چشموں سے سب کچھ ملتا ہے۔

حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ انبیاء کی توبہ کی ایک مثال ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اگر ارادہ نہ ہو اور نسیان ہو جائے تو گناہ نہیں ہوتا۔ اگر حالت روزہ میں بھول کر کچھ کھا لیا تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے جب دانہ کھا لیا تو یہ کھانا ارادہ سے نہ تھا بلکہ بھول تھی۔ ایسے کسی عمل پر جو بھول کر کیا جائے بندہ خود ہی گواہی دیتا ہے کہ میرا ارادہ نہیں تھا، بھول ہو گئی، خطا ہو گئی، نسیان ہو گیا، بندہ گواہی دیتا ہے تو اللہ معاف کر دیتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ جب آدم علیہ السلام نے وہ پھل کھا لیا تو اللہ نے خود گواہی دی کہ لَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا زمین پر اُتارنے سے پہلے وہیں اعلان کر دیا کہ کوئی بد بخت منہ نہ کھولے، سن لو آدم نے جو پھل کھایا تھا ہم نے ان کے اندر نافرمانی کا کوئی ارادہ نہیں پایا، گناہ کا کوئی ارادہ نہیں پایا، مخالفت کا کوئی ارادہ نہیں پایا۔ باری تعالیٰ اگر گناہ کا ارادہ نہیں تھا تو پھر پھل کیوں کھایا؟ اس موقع پر آدم علیہ السلام نہیں بولے بلکہ اللہ نے جواب دیا کہ نَسِيَ وہ بھول گئے تھے۔ اللہ اعلان فرما رہا ہے کہ گناہ نہیں بلکہ بھول ہے مگر اس کے باوجود آدم علیہ السلا م عرض کر رہے ہیں کہ

رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ.

(الاعراف : 23)

’’اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی۔ اور اگر تو نے ہم کو نہ بخشا اور ہم پر رحم (نہ) فرمایا تو ہم یقینا نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے‘‘۔

اہل اللہ ہر وقت توبہ میں رہتے ہیں، گناہ ہو تب بھی توبہ اور نہ ہو تب بھی توبہ کرتے ہیں۔

توبہ کا حقیقی مفہوم

توبہ سے مراد وہ توبہ نہیں جیسے ہم اپنی معمول کی زندگی میں توبہ و استغفار کرتے ہیں۔ یہ توبہ نہیں بلکہ یہ تو الفاظ ہیں۔ لوگو! لفظوں سے نکل کر معنی کی طرف جاؤ اور معنی سے نکل کر مراد کی طرف جاؤ۔ توبہ کا معنی رجوع ہے۔ یعنی کسی کی طرف رجوع کرنا، کسی طرف مائل ہونا، التفات کرنا، جُھکنا، رغبت کرنا ہے اور یہ اللہ کو اتنا پسند ہے کہ اس نے اپنا نام توّاب بھی رکھا ہے۔ جو محض توبہ کرے اس کو تائب کہتے ہیں۔ ۔ ۔ اور جو بہت زیادہ توبہ کرے اُسکو ’’توّاب‘‘ کہتے ہیں۔ ۔ ۔ اللہ نے فرمایا کہ اے بندے تائب تو ہے اور توّاب میں ہوں۔ اس سے توبہ کی عظمت کا اندازہ کریں کہ اس نے اپنے آپ کو توّاب کہا ہے۔ قرآنِ مجید میں ہے کہ هُوَا لتَّوَابُ الرَّحِيْم۔ ۔ ۔ توّاب مبالغہ کا صیغہ ہے۔ توبہ کا معنیٰ ہے رجوع۔ بندہ اللہ کی طرف رجوع کر لے تو تائب ہو گیا اور مولا بندے کی طرف رجوع فرما دے تو توّاب ہو گیا۔ ایسا کیوں ہے کہ بندہ تو تائب ہے حالانکہ اس کو توبہ کی ضرورت ہے اور اللہ توّاب ہے، بہت توبہ اس کی طرف منسوب ہو گئی۔ اس راز کو آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے کھول دیا۔

حدیثِ قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر میرا بندہ میری طرف چل کر آئے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں اور میرا بندہ اگر میری طرف ایک قدم چلے تو میں اس کی طرف 70 قدم چلتا ہوں۔ پس اُس کی طرف ایک قدم چلنے والا، رجوع کرنے والا تائب ہوا اور جو ایک قدم کے بدلے میں 70 قدم بندے کی طرف رجوع فرمائے تو وہ توّاب ہوا۔ بندہ رجوع کرتا ہے معافی مانگنے کے لئے اور مولا رجوع کرتا ہے معافی عطا کرنے کیلئے۔

سوال یہ ہے کہ کس شَے سے رجوع کرنا؟ گناہ مخالفت کو کہتے ہیں اور نیکی و تقویٰ موافقت کو کہتے ہیں۔ زندگی دو حدود میں ہے۔ اس کے حکم کی مخالفت کرو تو گناہ ہے۔ اس کی موافقت میں رہو تو تقویٰ ہے۔ تقویٰ، نیکی، اطاعت یہ سب موافقت ہیں۔ جیسے وہ چاہے ویسے کر تے جاؤ یہ موافقت میں زندگی گزارنا ہے۔ گناہ کرنا اس کے امر کی مخالفت ہے اور توبہ مخالفت سے موافقت کی طرف پلٹ جانا ہے، یہ رجوع کرنا ہے۔

اللہ کی بندگی کی طرف، اطاعت کی طرف، ترکِ گناہ کی طرف پلٹنا توبہ ہے۔ جب اس نے رجوع کر لیا تو اللہ نے خود ہی اس کے نامہ ا عمال سے مخالفت کا دھبہ اور نشان ہی مٹا دیا اور فرمایا کہ خبردار اس کو ظالم نہ کہو۔ لوگوں نے کہا باری تعالیٰ اس نے گناہ کیا تھا، اس کو ظالم کیوں نہ کہیں؟ اللہ نے فرمایا : اگر اس نے فلاں گناہ کیا تھا تو توبہ بھی تو کر لی، رجوع بھی کر لیا ہے۔ ہمارا طرزِ عمل یہ ہے کہ ہم کسی کے گناہ اور مخالفت کو پکڑ لیتے ہیں اور ساری زندگی اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے کہ اس نے فلاں گناہ کیا تھا، مخالفت کی تھی۔ اللہ نے جواب دیا کہ گناہ کیا تھا، مخالفت کی تھی مگر موافقت بھی تو کی تھی۔ گویا ہم گناہ دیکھتے رہے اور اللہ رجوع دیکھتا رہا۔ ۔ ۔ ہم اس کی مخالفت کا کرنا دیکھتے رہے اور وہ بندے کی موافقت کا کرنا دیکھتا رہا۔ ۔ ۔ ہم ظلم کرتے رہے اور وہ ہمارے ظلم کو مٹانے کا سوچتا رہا۔ ۔ ۔

توبہ کرنے والوں کا اجر

اللہ رب العزت نے سورہ آل عمران آیت 135 اور 136 میں ارشاد فرمایا : وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُواْ فَاحِشَةً. اور وہ لوگ جو تقاضاء بشریت کے تحت اعلانیہ گناہ کر بیٹھے۔ ۔ ۔ أَوْ ظَلَمُواْ أَنْفُسَهُمْ یا اللہ کے حکم کی ایسی مخالفت کر بیٹھے کہ وہ کھلا گناہ تو نہ تھا مگر وہ اپنی جانوں کا نقصان کر بیٹھے۔ اگر چھپ کر بھی گناہ کیا تو وہ اپنی جان پہ ظلم کر بیٹھے۔ وہ لوگ جو ایسا کر بیٹھیں ذَكَرُواْ اللّهَ فَاسْتَغْفَرُواْ لِذُنُوبِهِمْ پھر انہیں میری یاد آ گئی، مجرموں نے پھر مجھے یاد کر لیا، جب مجھے یاد کیا، دھیان میری طرف آ گیا، رجوع ہو گیا، جب میرا ذکر کیا تو میری یاد آ گئی اور نادم و شرمندہ ہو گئے۔ پس انہوں نے اپنے گناہوں کے لیے مجھ سے معافی مانگ لی۔ اتنا فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ کے کلام کا انداز بدل گیا، فرمایا : وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ اللّهُ۔ ۔ ۔ ’’بتاؤ ! کون ہے اللہ کے سوا جو معاف کر دے‘‘۔ اگر میں بھی معاف نہ کروں اور اس کے گناہ دیکھتا رہوں تو اور کون ہے دنیا میں معاف کرنے والا۔ پھر گناہوں کی طرف اُنگلیاں اُٹھانے والوں کے لئے فرمایا : وَلَمْ يُصِرُّواْ عَلَى مَا فَعَلُواْ دیکھتے نہیں کہ گناہ کر کے بیٹھے تھے مگر اس کے بعد تکرار نہیں کیا، اپنے گناہ پر اصرار نہیں کیا۔ وَهُمْ يَعْلَمُونَ. وہ جانتے ہیں، بضد نہیں رہے۔ اس لئے کہ جو ضد نہیں کرتا میں اس کی پچھلی خطاء کو معاف کر دیتا ہوں تو گویا فرما دیا کہ میں ناراض اس کے اڑھے رہنے پر اور تکرار کیے جانے پر ہوتا ہوں۔ خطاء ہو گئی تو معافی مانگے تو معاف کر دیتا ہوں۔ أُوْلَـئِكَ جَزَآؤُهُم مَّغْفِرَةٌ مِّن رَّبِّهِمْ۔ ۔ ۔ ’’یہ وہ لوگ ہیں جن کی جزا ان کے رب کی طرف سے بخشش ہے‘‘۔

پھر بات کو یہاں نہیں روکا، رحمت، جوش میں آ گئی، توبہ کا دروازہ کھول دیا اور عطا کا بھی دروازہ کھول دیا فرمایا : جنہوں نے ایک بارگناہ کیا اور ایک بار توبہ کی ان کو بخشش کی جزاء دیدی۔ کچھ لوگوں کو دیکھا کہ گناہ تو انہوں نے ایک بار کیا تھا مگر توبہ بار بار کئے جا رہے ہیں۔ گناہ پر اصرار نہیں کیا مگر توبہ پر اصرار کرتے رہے، پھر بھی توبہ کرتے ہیں۔ بخشش ہو گئی پھر بھی یہی صدا ان کے لبوں پر ہے کہ مولا معاف کر دے۔ فرمایا : جن کو بخش دیا وہ جزاء والے تھے، تم عطا والے ہو۔ صرف بخشش لے کر نہ جاؤ اس لئے کہ بخشش تو جزاء اور بدلہ ہے۔ گناہ کر کے جو توبہ کی تھی اس کا بدلہ و جزاء بخشش ہے۔ بندے نے توبہ کی اور میں نے اس کی توبہ کو اس کا حق بنا دیا تھا کہ اس کو بخش دیا۔ اے بندے گناہ پر اصرار و تکرار بھی نہیں اور توبہ پھر بھی کئے جا رہا ہے، تجھے بخشش تو بدلہ میں دے دی ہے اب اس کے علاوہ عطا یہ ہے کہ وَجَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا... جزاء بخشش تھی اور عطا جنت ہے۔ تمھیں جنتیں، نہریں اور عیش و آرام کی جنتوں کی زندگی دیتا ہوں۔

پھر فرمایا کچھ وہ ہیں کہ وہ پھر بھی توبہ پہ توبہ ہی کئے جا رہے ہیں کہ مولا بخش دے۔ یہ اولیا ء اللہ کی مثال ہے۔ کسی ولی اللہ سے پوچھا گیا کہ گناہ اور توبہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ مالک او رغلام کے درمیان ایک رشتہ ہے۔ میں نے ایک بار گناہ کیا تھا اور 80 سال سے توبہ کر رہا ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو پوری زندگی توبہ میں گزار دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے جزاء والے روانہ کر دئیے، پھر عطا والے رخصت کر دئیے اور پھر پوری زندگی توبہ میں گزارنے والوں کو روک لیا اور فرمایا : وہ جزاء اور عطا والے تھے، رضا والے ہو۔ فرمایا : وَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ. کئی لوگوں کو بخشش دے کر بھیج دیا۔ ۔ ۔ کئی کو جنت دے کر بھیج دیا اور پھر کئی ایسے عمل والے بھی ہیں کہ جن کا ان سب اجروں سے زیادہ اُونچا اجر ہے۔ پس کیفیت، حال، مقام، جزاء اور رضا یہ سب دروازے توبہ سے کھلتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ لوگو! تمہیں کیا خبر کہ کئی لوگوں کے گناہ انہیں جنت میں لے جائیں گے۔ اس لئے کہ گناہ ان کی غلطی ہو گی مگر اس خطاء کے بعد وہ جو توبہ کریں گے، وہ توبہ ان کے درجات میں اضافہ کا موجب ہو گی۔

توبہ صحیح کیسے ہو گی؟

توبہ سے ملنے والے مقامات و درجات کی خبر کے بعد اب مزہ تب ہے کہ زندگی ساری توبہ میں گزر جائے۔

صحیح توبہ کیسے ہو گی، امام قشیری رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ

لا تصح التوبة الا بعد معرفة الاثم.

’’جب تک گناہ کی معرفت نہ ہو تواس وقت تک توبہ درست نہیں ہوتی‘‘۔

فرمایا : گناہ کی معرفت یہ ہے کہ ندامت، شرمندگی، معافی مانگنے اور توبہ سے قبل گناہ کے اندر درج ذیل تین چیزیں دیکھے۔ یعنی اپنے گناہ پر توجہ مرکوز کرے۔

1۔ پہلی بات یہ دیکھے کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ذریعے میری حفاظت کی تھی، اس عمل سے میری حفاظت اٹھ گئی۔ اب میں اللہ کی امان اور حفاظت سے محروم ہو گیا۔ اللہ نے عصمت کی چادر اور مجھ پر تنا حفاظت کا سائبان اُٹھا لیا۔

2۔ دوسرا یہ کہ گناہ سے فرحت اور خوشی ملی یہ سوچے کہ گناہ اللہ کی مخالفت تھی اور اللہ کی مخالفت میں مجھے خوشی ہوئی۔

3۔ گناہ کے اندر تیسری چیز یہ دیکھے کہ جس گناہ کا وہ ارتکاب کر رہا ہے، اس پر اصرار سے وہ اللہ کی نگاہِ کرم سے محروم ہو گیا، اللہ کی مخالفت پر اسے خوشی ہوئی نتیجتاً اب اللہ کی نظرِ التفات بھی مجھ سے ہٹ جائے گی اور اسے یہ یقین ہو جائے کہ میں نے اللہ کی نظرالتفات کا راستہ اپنے لئے روک دیا ہے۔

گویا جب وہ گناہ اِسے اپنے آئینہ عمل میں ان تین چیزوں اور اجزاء کی شکل میں نظر آئے گا تب اسے گناہ کی معرفت نصیب ہو گی اور جب گناہ کی معرفت نصیب ہو گی تو توبہ درست ہو گی۔ اس لئے کہ ان تینوں چیزوں کے یقین کے بعد ہی وہ سوچے گا کہ مجھے تو اللہ کی موافقت، اطاعت، عبادت اور بند گی میں خوشی ملنی چاہئے تھی۔ افسوس مجھے اللہ کی مخالفت میں خوشی ملی۔ اگر میری یہی نافرمانی برقرار رہی اور توبہ نہ کی تو اللہ کی نظرِ حق، اس کی نظرِالتفات مجھ سے ہٹ جائے گی۔ اس کی نگاہِ التفات، نگاہِ بخشش، نگاہِ حق، نگاہِ عطا، نگاہِ کرم، نگاہ ِ رحمت کا دروازہ بند ہو جائے گا۔ اس کے بعد میرے لئے کوئی ٹھکانہ نہیں رہے گا۔ کوئی جائے امان نہیں رہے گی۔

اس چیز کے یقین ہو جانے کے بعد اب اس کے اندر از خود ندامت و شرمندگی پیدا ہو گی۔ جب یہ ندامت پیدا ہو گی تو اس ندامت سے توبہ کی ابتداء ہوتی ہے۔ پس بندے کو چاہئے کہ اس گناہ کے تصوّر کو سمجھ کر، گناہ کی معرفت حاصل کر کے شرمندگی و ندامت تک پہنچے۔ اس ندامت سے توبہ کا دروازہ کھلتا اور ندامت توبہ بنتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی معنوں میں توبہ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم