اداریہ : مسلم امہ کے اہم ترین مسائل اور OIC کانفرنس

رمضان المبارک کی ستائیسویں شب مکہ مکرمہ میں اسلامی ممالک کے سربراہان کی دو روزہ کانفرنس سے اہل اسلام کو بجا طور امیدیں وابستہ تھیں۔ مسلمانوں کے لئے رمضان کا مہینہ اور بالخصوص اس کے آخری عشرے کی بڑی قدر و منزلت ہے پھر یہ دونوں نسبتیں جب اللہ کے گھر کے قریب جمع ہو رہی ہوں تو اس سرگرمی کا ایک خاص تقدس ابھرتا ہے۔ وائے ناکامی کہ اس شہر مکہ اور ماہ رمضان کے ماحول کا خاطر خواہ اثر مسلمان سربراہان نے قبول نہ کیا اور یہ کانفرنس بھی حسب سابق آمدن، نشستن، خوردن اور رفتن سے آگے نہ بڑھ سکی۔ OIC کی یہ کانفرنس ایسے حالات میں منعقد ہوئی جب برما سے لے کر دمشق کے گلی کوچوں میں مسلمان خون بے دردی سے بہایا جا رہا ہے۔ اس تنظیم کی فعالیت اور افادیت کو نہ ابھی تک مظلوم مسلمانوں نے محسوس کیا ہے اور نہ اس کا کوئی وزن عالمی سیاسی فیصلوں میں دیکھا گیا ہے۔ اس کے مقابلے میں یورپی یونین ہے جس میں صرف 27 ممالک شامل ہیں اور اس تنظیم کو قائم ہوئے زیادہ وقت بھی نہیں گزار مگر اس نے اپنا وجود اس حد تک منوا لیا ہے کہ اسے آئندہ عشروں میں USA کے مقابلے میں عالمی قوت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ان کی کرنسی بھی مشترک ہے اور انہیں ایک دوسرے کے ممالک میں آنے جانے کے لئے ویزے کی پابندی بھی نہیں۔ اس کے مقابلے میں مسلمان ممالک میں جن کے درمیان دین جیسی مضبوط قدر مشترک ہے، ان کے مفادات بھی ایک ہیں مگر وہ خود ایک نہیں ہو رہے۔ OIC نے آج تک کسی مسلمان ملک کے بڑے سے بڑے اور اہم سے اہم مسئلے کو حل کرنے کی مثال قائم نہیں کی۔ کم از کم آپس میں متحد ہو جائیں تو ان کا وزن عالمی سیاسی پلڑے میں محسوس کیا جائے جہاں دنیا کی تمام تہذیبوں اور قوتوں کی نمائندگی اور احترام ہے سوائے اسلامی بلاک کے۔ حالانکہ یہی امت خیر امت تھی، یہی متوسط اور معتدل امت تھی مگر اس وقت اس پر تشدد اور انتہا پسندی کا لیبل چسپاں کر دیا گیا ہے۔

اس وقت پوری دنیا میں خیر و شر کے جو پیمانے اور معیارات مقرر ہیں ان میں دیکھا جائے تو امت مسلمہ جو خیر کی نمائندہ اور امت وسط بن کر آئی تھی عملاً شر اور فساد کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ آپ گلوبل ویلج پر تھوڑا غور کریں تو آپ کو جو افسوسناک منظر ابھرتا دکھائی دے گا اس میں ہر شعبہ زندگی میں امت مسلمہ غفلت میں اونگھتی اور پستی میں لڑکھڑاتی نظر آئے گی۔ ہمارے سامنے بدھ مت کی تہذیب کے ماننے والوں نے باعزت مقام حاصل کیا۔ یورپ کیچڑ سے نکل کر ترقی کی اوج ثریا پر جا پہنچا۔ امریکہ جو دنیا بھر کے غلاموں کا مسکن تھا آج سپر طاقت کی حیثیت سے پوری دنیا پر حکمرانی کر رہا ہے اور تو اور طبقاتی اونچ نیچ سے بھری ہندوانہ ثقافت بھی آج عالمی سطح پر اپنا لوہا منوا رہی ہے۔ یہود و نصاریٰ تو ویسے بھی پوری انسانیت کو اپنے منشور اور دستور کے مطابق ڈھالنے کے ’’مشن‘‘ پر گامزن ہیں اور انہیں ترقی یافتہ اقوام کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔

آیئے اس عالمی منظر نامے کو تھوڑا مزید قریب ہو کر دیکھتے ہیں۔ اس وقت سائنس اور ٹیکنالوجی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ یوں سمجھیں کہ گذشتہ ایک صدی سے اسی فن کی ماہر قومیں منصب امامت پر فائز ہیں۔ ان ممالک میں جاپان، چین، یورپی ممالک اور امریکہ خاص طور پر پوری دنیا کی قیادت کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے اس قطار میں آپ کو کوئی مسلمان ملک نظر نہیں آئے گا حالانکہ علم و ہنر اور سائنسی علوم کو پہلی مرتبہ دنیا میں مسلمانوں نے متعارف کرایا تھا۔ آپ مطلق علم کو ہی لیں اور دیکھیں کہ اس وقت کونسے ممالک اور کونسی ثقافت کے لوگ زیادہ پڑھے لکھے ہیں اور کہاں جہالت راج کر رہی ہے تو آپ کو تعجب ہوگا کہ مجموعی طور پر آج مسلمان ممالک ہیں جہاں شرح تعلیم سب سے کم ہے بلکہ افریقہ اور ایشیاء کے بعض ایسے مسلمان ممالک اور معاشرے بھی موجود ہیں جو ابھی تک پتھر کے دور میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ امت تو وہ تھی جس کے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہلی وحی کے پہلے لفظ میں پڑھنے کا حکم دیا گیا تھا۔

ترقی یافتہ اقوام میں آج علم کو انسان کا بنیادی خاصا تسلیم کر لیا گیا ہے۔ گویا ہمارے دور میں انسان کی تعریف انہی لوگوں پر صادق آتی ہے جو زیور تعلیم سے آراستہ ہوں۔ جاہل شخص شکل و صورت میں تو انسان ہی کہلاتا ہے مگر علم کے بغیر وہ نامکمل شخصیت کا مالک ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ انسانی معاشروں کے یہ معیارات تو آج متعین ہو رہے ہیں لیکن قرآن نے آج سے پندرہ سو سال پہلے یہ سوال اٹھا دیا تھا ’’کیا پڑھے لکھے اور ان پڑھ برابر ہو سکتے ہیں‘‘؟ جواب ہے ہرگز نہیں۔ جس مذہب کی مقدس کتاب کا یہ فیصلہ کن موقف ہو اس مذہب کے پیروکار آج کی دنیا میں بھی اگر جہالت کا طوق اپنی گردن میں لٹکائے پھر رہے ہوں تو ذلتیں اور رسوائیاں اس کا مقدر کیوں نہیں ہوں گی؟

آج کی دنیا میں کسی معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کا دوسرا پیمانہ وہاں کا طرز حکمرانی اور نظام حکومت سمجھا جاتا ہے۔ میڈیا کی وجہ سے آج بچہ بچہ جانتا ہے کہ دنیا میں حکومتیں کہاں انسانیت نواز ہیں کہاں عدل اور میرٹ کا خیال کیا جا رہا ہے اور کہاں آمریت بادشاہت اور جبر کا نظام جاری و ساری ہے۔ یورپ میں تو انقلاب فرانس کے بعد جمہوری نظام نے جڑیں پکڑیں اور پھر یکے بعد دیگرے تمام بادشاہتیں اپنی موت آپ مرتی چلی گئیں۔ ان لوگوں نے کسی خدائی ہدایت کے بغیر محض انسانی ضرورتوں کے تحت جمہوری حکومتی نظام کو رواج دے دیا ہے۔ آج وہاں آمریت اور بادشاہت کا تصور بھی موجود نہیں بلکہ آمریت اور بادشاہت کا تصور کرنے والے کو پاگل اور مجنوں سمجھا جاتا ہے۔ آپ اسی پیمانے پر مسلمان ممالک اور معاشروں کو پرکھیں تو ترقی یافتہ معاشروں کی تعریف کے مطابق آپ کو یہاں 70 فیصد مسلمان مجنوں اور پاگل ملیں گے جہاں اس دور جمہوریت میں بھی مطلق العنان آمریت موجود ہے، کہیں مکمل طور پر اور کہیں جزوی طور پر۔ بادشاہوں اور آمروں کے خاندان اور باقیات اپنی حکومت کے لئے رعایا کو چیونٹیاں سمجھ کر روندنا اپنا حق سمجھتی ہیں۔ اس کی تازہ مثال لیبیا میں دیکھی گئی اور آج کل شام کے کوچہ بزار میں بہتا ہوا مسلم خون اس تلخ حقیقت کی گواہی دے رہا ہے۔ حالانکہ ہمارے آقا پیغمبر انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلی مرتبہ شورائی جمہوریت کی بنیاد رکھی اور اس وقت کی دو سپر بادشاہتوں فارس اور روم کے مقابلے میں جمہوری معاشرہ قائم کر کے دکھایا۔

جدید ترقی یافتہ دنیا میں خوشحالی اور ترقی کا تیسرا بڑا معیار اور پیمانہ ’’بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ جس ملک میں ان بنیادی انسانی حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے وہ خوش حال اور پر امن کہلاتے ہیں (یہ الگ بات ہے کہ ایسے ہی بعض ممالک کے ہاں آزادی جیسا بنیادی حق ان کی سیاسی مصلحت کا شکار رہتا ہے) امریکہ سمیت ترقی یافتہ یورپی ممالک اس پیمانے پر خاصی حد تک پورے اترتے ہیں۔ ان حقوق میں، خوراک، صحت، تعلیم، جان و مال کا تحفظ اور آزادی اظہار رائے بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ اس پیمانے کو اگر ہم 58 مسلمان ممالک پر لاگو کریں تو ہمیں افسوسناک حقیقت تسلیم کرنا پڑے گی کہ ایک آدھ ملک کے علاوہ ہر جگہ ہمیں ان حقوق کی پامالی نظر آتی ہے۔ کسی مسلم ملک میں اگر تعلیم ہے تو صحت کی سہولت نہیں، خوراک ملتی ہے توجان و مال کا تحفظ نہیں اور اکثریت کے ہاں تو اظہار رائے کی آزادی کا فقدان ہے۔ بادشاہوں آمروں اور جابر حکمرانوں نے پوری اسلامی دنیا پر اپنا تسلط قائم کر رکھا ہے۔ عرب ممالک میں حالیہ تحریک اسی جبر کا رد عمل ہے۔ ہمارے بعض عرب ممالک تو ایسے بھی ہیں جہاں تین چار نسلیں ان کی معیشت کی بہتری کے سفر میں کھپ چکی ہیں مگر ایسے لوگوں کی اولادیں آج بھی اس خوف کے تحت وہاں زندگی گزار رہے ہیں کہ کل اگر خروج کا حکم آ جائے تو 100 سال کے بعد بھی کسی کو کوئی قانونی تحفظ حاصل نہیں۔ اس کے مقابلے میں یورپی ممالک میں محنت کرنے والوں کو چار پانچ سال کے بعد بنیادی شہری حقوق حاصل ہو جاتے ہیں۔

خوشحالی کا چوتھا اور بڑا پیمانہ معاشی ترقی اور استحکام ہے جو سیاسی استحکام اور عسکری قوت کی بنیاد بنتا ہے۔ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ اس وقت زمین کے 70% خزانے ان خطوں میں ہیں جہاں اسلامی ممالک ہیں۔ افرادی قوت کی بھی کمی نہیں، عربوں کے ہاں دولت کے انبار بھی موجود ہیں مگر ایسی دولت کس کام کی؟ جس دین نے تمام مسلمانوں کو ایک وحدت میں پرو دیا اس کے ماننے والے ایک جگہ ایک وقت کی خوراک کو ترسیں اور دوسری جگہ مسلمانوں کی دولت سے اس کے دشمن فائدہ اٹھائیں تو ایسے مذہبی تعلق اور بھائی چارے کا کیا فائدہ؟

(ایڈیٹر)