ہم دوسروں کو کیا دے سکتے ہیں۔۔؟

عظیم جمال

دنیا میں ہر شخص کسی نہ کسی غم، تکلیف، مصیبت یا مشکل کا شکار ضرور ہے۔ لازمی نہیں کہ اس کی یہ مشکل یا تکلیف کا حل صرف اور صرف مالی امداد ہی ہو۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس بات کا کھوج لگائیں کہ ہم دوسروں کے لئے کیا کر سکتے ہیں اور کس زاویہ سے اس کی مدد کر سکتے ہیں؟ آیئے اُن مثبت رویوں، اخلاقی اقدار اور صلاحیتوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں جس سے ہم کسی ضرورت مند کی زندگی میں مثبت تبدیلی پیدا کر سکتے ہیں۔ دیکھنے کو یہ معمولی چیزیں ہیں مگر یہ کسی شخصیت پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہیں اس کا اندازہ ہمیں ان رویوں کو اپنانے کے بعد ہی ہو سکتا ہے۔

1۔ مسکراہٹ

آج دنیا معاشی بحران میں مبتلا ہے۔ جنگوں کے خطرات سر پر منڈلا رہے ہیں اور پوری دنیا میں صحت کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں اس لئے ہر کسی کو اپنا ذہنی تناؤ کم کرنے کے لئے مسکراہٹوں کی ضرورت ہے۔ مسکراہٹ زندگی کی علامت ہے۔ یہ خوشیاں تخلیق کرتی اور غم زدہ لوگوں کی مدد کرتی ہے، یہ حدوں کو ختم کر کے مشکل چیزوں کو آسان کر دیتی ہے۔ جب ہم مسکراہٹ کے ساتھ کسی کی خوشی میں شامل ہوتے ہیں تو نہ صرف اس کی بلکہ اپنی خوشی بھی دوبالا ہو جاتی ہے۔ مسکراہٹیں صحت کے لئے دوائی سے زیادہ مفید ہیں کیونکہ مسکراہٹ میں سچائی ہوتی ہے جو کہ ایک طاقتور ٹانک ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ جب آپ مسکراتے ہیں تو آپ کے دماغ میں ایک طاقتور کیمیکل انڈور فنز پیدا ہوتا ہے۔ انڈورفنز (Endorphins) تکلیف کم کرتا ہے اور آپ کی روح اور جسم کو طاقتور کرتا ہے۔

عام لوگوں کو اپنے غموں اور مایوسیوں کی وجہ سے مسکرانے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ ہمیں ایسے لوگوں کو مسکراہٹیں دے کر زندگی کی امید دلانی چاہئے۔

المیے اور مسکراہٹ کے درمیان بہت ہی کم فاصلہ ہے۔ ہم چھوٹی سی بات پر غم زدہ ہو جاتے ہیں لیکن اگر ہم بڑے سے بڑے نقصان پر بھی مسکرانا سیکھ لیں تو اس سے ہمیں زندہ رہنے میں زیادہ مدد ملے گی۔ دوسروں کے ساتھ اپنے دکھ درد بانٹنے، مسکراہٹوں کا تبادلہ کرنے سے حوصلے بڑھتے اور غم دور ہوتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’تیرا اپنے بھائی کے ساتھ مسکرانے والے چہرہ کے ساتھ ملنا بھی صدقہ ہے‘‘۔

ہمیں چاہئے کہ دوسروں کو اپنی مسکراہٹ کا تحفہ دیں۔ ہر جگہ، ہر قسم حالات میں لوگ کسی نہ کسی طرح کے مسائل میں مبتلا ہیں۔ مشکلات کم کرنے کے لئے ہم مسکراہٹ دے کر ان کے اندر امید کی روشنی پیدا کر سکتے ہیں۔ حتی کہ مسکراہٹ خوف اور پریشانی کو بھی کم کر دیتی ہے۔ مسکرانے سے غصے کے جذبات اور ذہنی تناؤ ختم ہو جاتا ہے جو کہ انسان کو امید کی روشنی دکھاتا ہے اور مشکل حالات کو آسانی میں تبدیل کر دیتا ہے۔

2۔ علم

ہر کسی کے پاس کوئی نہ کوئی کہانی سنانے کو ہوتی ہے۔ ایسی کہانیاں دوسروں کی مدد کر سکتی ہیں۔ جب ہم دل و جان سے کسی کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو سب سے بڑی چیز جو ہم دوسروں کو دے سکتے ہیں، وہ علم ہے۔ تجربات پر مبنی ایسے علم سے دوسروں کی کئی رکاوٹیں دور ہو سکتی ہیں۔ اس لئے جب بھی ہم کسی کے ساتھ علم کے حوالے سے گفتگو کریں تو اس میں سچائی اور تجربے کا ہونا ضروری ہے۔ اس وجہ سے ہم پر دوسرے لوگ زیادہ اعتماد کرنے لگیں گے۔ علم کی سچائی بہت طاقتور سچائی ہے اس لئے یہ عملی طور پر بھی بہترین نتائج دیتی ہے۔

ہمیں اخبار، ٹیلی ویژن، ریڈیو اور دوسرے ذرائع سے کئی طرح کی معلومات ملتی ہیں لیکن بہترین علم صرف کتاب سے سیکھا جا سکتا ہے۔ اسلئے ہم دوسروں کو تحفے میں کتابیں دے کر ان کے علم میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ کتاب کا انتخاب کافی مشکل کام ہوتا ہے، ہر آدمی اپنے ذوق کے مطابق پڑھنا چاہتا ہے۔ اس لئے جس کو کتاب دی جائے اس کے ذوق کو بھی ملحوظ رکھا جائے کہ اس کا مزاج کیا ہے۔

کتابیں ہمیشہ سے معاشروں کو بدلتی آئی ہیں۔ جس قدر کتاب معاشرے کو بدل سکتی ہے کوئی اور چیز نہیں بدل سکتی۔ اچھی سی کتاب کسی کو تحفے میں دے کر اسے کامیابی سے ہمکنار کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ سی ڈیز، معلوماتی کتابچہ یا اہم نکات کی نشان دہی کر کے بھی دوسروں کی مدد کی جا سکتی ہے۔ دوستوں کو لائبریری کا ممبر بننے کی ترغیب دینا بھی درحقیقت اس کی مدد کرنا ہی ہے۔ ہر شخص کو چاہئے کہ دوسروں کے ساتھ علمی گفتگو کر کے نہ صرف اپنے دل و دماغ کو روشن کرے بلکہ اپنی زندگی کے راستے بھی خود تلاش کرے۔

یاد رکھیں! حالات کیسے بھی ہوں کتاب ضرور پڑھئے۔ اس لئے کہ کتابوں سے آئیڈیاز ملتے ہیں، عقل و فہم اور ادراک میں اضافہ ہوتا ہے۔ کتابیں علم دیتی ہیں، اقدار سکھاتی ہیں اور شخصیت کو اہم بناتی ہیں۔ تعلیم کا اصل مقصد زندگی کے مقاصد کو سمجھنے میں مدد دینا ہے۔ تعلیم لیکچر سننا یا کالج میں جانا ہی نہیں ہے بلکہ تعلیم ہر روز کے تجربات اور مشاہدات کے نچوڑ کا نام ہے۔ تعلیم ڈگری اور ڈپلومے حاصل کرنے کے بعد بھی جاری رہتی ہے۔ کچھ لوگ تو ساری زندگی تعلیم حاصل کرتے رہتے ہیں اس طرح وہ اپنی علمی، عصبی نظام کو مزید مضبوط کرتے رہتے ہیں، اس سے عقل مزید پختہ ہوتی ہے۔ اس تیزی سے تبدیل ہوتی دنیا میں مسلسل اپنے ہنر اور فن کو مزید بہتر کرنا پڑتا ہے۔ کامیابیاں اسی وقت حاصل ہونگی جب اپنی صلاحیتوں کو مسلسل بہتر کرتے جائیں گے۔ رسمی تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ ہر کسی کو ایسی تعلیم بھی حاصل کرنی چاہئے جس سے کردار کی تعمیر ہو، وسیع القلبی، تحمل مزاجی اور دوسروں کی عزت کرنا بھی ہمیں تعلیم ہی سکھاتی ہے۔

اقراء کے لفظ سے شروع ہونے والی پہلی وحی بھی علم ہی کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔۔۔

رِبِّيْ زِدْنِيْ عِلْمًا

 کے الفاظ بھی علم کی افادیت کی طرف صریحاً اشارہ ہے۔۔۔ علاوہ ازیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان کہ ’’ماں کی گود سے لے کر لحد تک علم حاصل کرو‘‘ ہماری توجہ اس جانب مبذول کرتا ہے کہ بقاء کا راز بھی علم ہی میں مضمر ہے۔۔۔ کسی کو مثبت اور علم دینا کسی کو زندگی کے حقیقی معنوں سے روشناس کرنا ہے۔

جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے تعلیم اور علم دیا ہے ان پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی تعلیم اور علم دوسروں تک بھی پہنچائیں۔ خدا کی طرف سے جو تحفے ہمیں عطا کئے گئے ہیں اگر ہم ان کا صحیح استعمال نہ کریں گے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم ان تحفوں کو ضائع کر دیں گے۔ اگر ہم اپنی تعلیم اور علم کو دوسروں کے لئے استعمال کریں گے تو اس سے ان کی زندگیوں میں بہترین پیدا ہوگی اور خود ہمارے علم میں بھی اضافہ ہوگا۔

طب، صحت اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اوروں کی دن رات کی محنت اور تعلیم سے پوری دنیا کے انسان مستفید ہو رہے ہیں۔ اس طرح ہمیں بھی اپنا علم اور تعلیم آنے والی نسلوں تک منتقل کر کے اپنا فرض پورا کرنا چاہئے۔ دانشور طبقے پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ عقل کے عظیم تحفہ کو دوسرے لوگوں میں بانٹیں۔ عقل ایک چیز کا نام نہیں ہے بلکہ یہ علم، تجربے اور سخاوت کے مجموعہ کا نام ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ عقل اور طاقت ہم معنی ہیں جب ہم اپنی عقل استعمال کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے ہم دوسروں کی مدد کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ محدود تعلیم رکھتے ہیں لیکن عقل و فہم میں کئی تعلیم یافتہ لوگوں سے آگے ہوتے ہیں کیونکہ ایسے لوگ زندگی کے بہت سے پہلوؤں کے بارے میں اچھی طرح جانتے ہیں۔

3۔ راہنمائی

ہم دوسرے لوگوں کی راہنمائی کر کے بھی انہیں بہت کچھ دے سکتے ہیں۔ عام لوگ ان لیڈروں کی عزت کرتے ہیں جو عظیم کامیابیاں حاصل کرتے ہیں، ان کی ذاتی زندگیاں بھی دوسروں کے لئے احترام کا باعث ہوتی ہیں۔ حقیقی لیڈر شپ میں حقیقی لیڈر ذاتی طور پر اور اجتماعی طور بہت ہی مثبت تبدیلیاں پیدا کرتے ہیں۔

آج جو لوگ سخت محنت کر کے اپنے خاندان کے حالات کو تیزی سے تبدیل کر رہے ہیں وہ بھی لیڈر ہیں۔ سب سے پہلے لیڈر کو خود ذمہ داریوں کو قبول کرنا ہوتا ہے، اپنے آپ کو تمام پہلوؤں سے کامیاب انسان بنانا ہوتا ہے، اقدار کا پاس کرنا ہوتا ہے اور ذاتی مقبولیت کی خواہش نہیں کرنا ہوتی۔ اصل چیز کردار ہوتا ہے جو مخلص لیڈر شپ سے ہی پیدا ہوتا ہے۔ ہر شخص میں عظیم بننے کی صلاحیت ہوتی ہے اگر ہر شخص صرف دو کام کر لے تو وہ لیڈر بن سکتا ہے:

  1. وہ ضروری ہنر سیکھ لے جس کی موجودہ زمانے میں ضرورت ہے۔
  2. اپنے ذہن پر چھائے خوف کو دور کر لے۔

زیادہ تر لوگ آگے بڑھنے سے خوف زدہ ہوتے ہیں انہیں خوف ہوتا ہے کہ لوگ ان پر تنقید کریں گے یا انہیں بے وقوف خیال کریں گے۔ یہی چیز عام لوگوں کے لئے لیڈر بننے میں رکاوٹ بنتی ہے لیکن جب لیڈروں کے چاہنے والے بڑی تعداد میں ان کے ساتھ ہوتے ہیں تو وہ اپنے آپ پر بہت فخر کرتے ہیں۔ لیڈروں کے چاہنے والے جس قدر بڑھتے جاتے ہیں ان کا خوف بھی کم سے کم ہوتا جاتا ہے اور پھر انہیں اس کا صلہ بھی ملتا ہے۔

ہم میں سے ہر ایک اپنی ذات کا لیڈر بن سکتا ہے۔ اس کے لئے محلے کی فلاحی کمیٹی میں شامل ہو سکتے ہیں۔ تحریک کے لئے کام کر سکتے ہیں۔ اس طرح کام کے دوران ہمیں کچھ چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا جس سے ہماری اخلاقی کمزوریاں دور ہوں گی۔ ہم کسی بھی شعبہ میں کام کریں لیکن اپنے اخلاق اور کردار کو ہمیشہ بہترین رکھیں۔ اس کے بہت ہی مثبت نتائج پیدا ہوں گے اور ہمارے کردار اور اخلاق سے لوگ ضرور متاثر ہوں گے۔

حقیقی لیڈر خود اپنے اندر اور دوسرے لوگوں کی زندگیوں میں کئی طرح کی مثبت تبدیلیاں پیدا کر سکتے ہیں۔ لیڈر اپنی ٹیم میں اپنی بصیرت سے کامیابی تخلیق کر سکتے ہیں۔ ایک کمزور لیڈر لوگوں کو صرف بتاتا ہے، ایک اچھا لیڈر تشریح کرتا ہے اور ایک بہترین لیڈر کر کے دکھاتا ہے جبکہ عظیم ترین لیڈر دوسروں کو ہر لحاظ سے متاثر کرتا ہے۔ بااثر لیڈر خراب حالات میں بھی اپنے کردار اور صلاحیتوں سے کامیابی حاصل کر لیتا ہے ایسے لیڈروں میں درج ذیل خوبیاں اور صلاحیتیں ہوتی ہیں:

  1. لیڈر ہر طرح کے حالات میں مسائل کا حل نکال لیتے ہیں۔ وہ مسائل کے بجائے ان کے حل پر نظر رکھتے ہیں۔
  2. لیڈر اہم ترین معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں نہ کہ فوری معاملات پر، وہ دوسروں سے بھی کہتے ہیں کہ اہم ترین معاملات پر نظر رکھو۔
  3. لیڈر جذباتی نہیں ہوتے بلکہ معاملات کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرتے ہیں۔
  4. لیڈر اپنے تعلقات مضبوط کرنے میں زیادہ وقت صرف کرتے ہیں۔ وہ سچائی اور احترام کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
  5. لیڈروں کی چھٹی حِس بہت زیادہ کام کرتی ہے۔ اس لئے وہ محبت کے ساتھ دوسروں کی خدمت کرتے ہیں۔
  6. لیڈر دوسروں کو مواقع دیتے ہیں کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بہتر سے بہتر کر سکیں۔

4۔ امید

جن لوگوں نے غربت دیکھی ہے وہ جانتے ہیں کہ بے کسی اور لاچاری کیا ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کو اگر امید کی کرن دکھا دی جائے تو وہ اپنے آپ کو بہت زیادہ بہتر کر سکتے ہیں۔ ایسے لوگ روح کی گہرائی سے اپنے اندر تبدیلی محسوس کرتے ہیں جبکہ امید دلانے والے کے بھی بہت زیادہ شکر گزار ہوتے ہیں۔

جو لوگ مایوس لوگوں کو امید کی روشنی دے کر مایوسی سے نکالتے ہیں ایسے لوگ بہت ہی خوش قسمت ہوتے ہیں کیونکہ خود ان کی روح بھی خوشی سے سرشار ہو جاتی ہے۔ ہر شخص کو اپنی زندگی میں امید کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ہر شخص چاہتا ہے کہ کوئی نہ کوئی شخص تو ایسا ہو جو اس پر بھروسہ کرے اور ہر شخص یہ بھی چاہتا ہے کہ کوئی نہ کوئی اس کا قریبی دوست ہو جو اس کا راز دار بھی ہو۔

کسی کو امید دلانا اس کے لئے بہت بڑا تحفہ ہے۔ امید کی روشنی بہت طاقتور ہوتی ہے ماضی کو فراموش کرنے اور کئی دنیائیں تلاش کرنے میں مددگار ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں میں امید دلانے سے تمام صلاحیتیں جاگ اٹھتی ہیں۔ اس لئے دوسروں کو امید دلانا بھی ایک بہت بڑا کام ہے۔ یہ امید کی طاقت پہلے ہمیں اپنی ذات کو دینا ہوگی اس سے خونی رشتے زیادہ مضبوط ہوں گے۔ مستقبل زیادہ روشن ہوگا اور ہماری صلاحیتیں بڑھ جائیں گی۔

اگر ہم مصائب پر دھیان دینے کی بجائے مواقع کی تلاش میں رہیں تو ماضی کی تلخیوں کو بھول جائیں گے اور مستقبل کی جانب نئی امید اور توقعات سے بڑھیں گے۔ جذبہ ہمدردی، دوسروں کی بات غور سے سننا، ایسے عناصر ہیں جن سے ان لوگوں کو امید ملتی ہے جو امید سے مایوس ہو چکے ہوتے ہیں۔

5۔ وقت

وقت ایک بہت ہی قیمتی چیز ہے اگر ہم اپنا وقت ضائع کریں گے تو بھرپور طریقے سے اپنی صلاحیتوں کا اظہار نہ کر سکیں گے۔ وقت کے ضیاع سے خاندانی مسائل پیش آئیں گے۔ کیرئیر خطرے میں پڑ جائے گا اور روح کی طاقت بھی کم ہو جائے گی۔ زندگی دراصل مخصوص وقت کا نام ہے اس وقت میں سے ہم دوسروں کو وقت دے کر ان کی زندگیوں میں تبدیلی پیدا کر سکتے ہیں۔ جب آپ کسی کو اپنا وقت دیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم اپنی زندگی کا کچھ حصہ اسے دیتے ہیں۔ حتی کہ دوسروں کی فلاح و بہبود کے لئے وقت دینا انسان کے برے اعمال کا کفارہ بن جاتا ہے اور انسان سکون محسوس کرتا ہے۔ کسی کو وقت دینا روح کو روحانی طاقت دیتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم بھی اپنے وقت کا مفید اور بہترین استعمال کریں اور اپنے وقت میں سے کچھ وقت نکال کر دوسروں کو دیں۔ صبح اپنے وقت کے استعمال کا ٹائم ٹیبل بنائیں اور طے کریں کہ کون کون سا کام کرنا ہے اور ہر کام کو کتنا وقت دینا ہے۔ یہ فیصلہ بھی کریں کہ فارغ وقت ہم نے کس کے ساتھ شیئر کرنا ہے۔ دراصل ہمیں زندگی اور موت کے درمیان جو وقت ملا ہے ہم نے اس کا ایک ایک لمحہ استعمال کر کے اپنی اور دوسروں کی زندگی بہتر بنانی ہے۔ عظیم اور کامیاب لوگوں کی عادت ہے کہ وہ ایک ہفتے کے وقت کا بجٹ بناتے ہیں۔ وقت کے بجٹ کے تین حصے ہوتے ہیں:

  1. وہ وقت جس میں روزی کمانی ہے۔
  2. وہ وقت جو اپنے خاندان کے ساتھ گذارنا ہے۔
  3. وہ وقت جو دوسرے کے ساتھ گذارنا ہے۔

اس طرح تقسیم سے ہمارا وقت ضائع نہیں ہوگا۔ بہتر طریقے سے روزی کما سکیں گے، اپنے خاندان کو خوش رکھ سکیں گے۔ لہذا وقت کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی پہلی فرصت میں ایک ہفتے کا بجٹ بنائیں اور اس پر عمل کریں۔

6۔ دولت

جس طرح ہمیں اختیار ہے کہ ہم نے اپنا وقت کیسے گذارنا ہے ایسے ہی ہمیں یہ اختیار بھی ہے کہ ہم نے اپنی دولت کیسے خرچ کرنی ہے۔

ہم لوگ زیادہ تر اپنی خواہش اور ضرورت کے درمیان بہت زیادہ پریشان ہیں۔ اگر ہم نئی کار چاہتے ہیں، نئے کپڑے چاہتے ہیں یا کوئی نیا ٹی وی چاہتے ہیں تو پہلے خود سے پوچھیں کہ کیا یہ چیزیں میرے لئے ضروری ہیں۔۔۔؟ دوسرا سوال خود سے پوچھیں کہ اگر میں یہ چیزیں نہ خریدوں تو کیا میرا گزارا ہو سکتا ہے۔۔۔؟

ہم لوگوں نے خواہش اور ضرورت کے درمیان کوئی فرق روا نہیں رکھا جس بناء پر ہر خواہش کے حصول کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں لوگوں کے مقروض ہونے کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ بہت سے لوگ دیوالیہ ہیں اور اکثر لوگ دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں۔ کریڈٹ کارڈ نے بھی لوگوں کو قرض کے بوجھ تلے دبا رکھا ہے۔ دن بدن سود بڑھتا جا رہا ہے۔ ایسے مقروض لوگوں کی حالت بہت بری ہے۔ وہ روحانی کرب اور پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔ قرض سے ان لوگوں نے صرف اپنی خواہشات کے لئے غیر ضروری اخراجات کئے ہیں یہ چیز ان کے لئے اب بہت تکلیف دہ ہے۔ ایسے لوگ اپنے آپ کو اعلیٰ سوسائٹی میں نمایاں کرنا چاہتے تھے لیکن قرض کی فہرست انہیں سب سے اوپر لے گئی۔ اب یہ لوگ اپنا قرض اتارنے کے لئے مشکل سے مشکل کام کرتے ہیں، نہ چاہتے ہوئے بھی اوور ٹائم لگاتے ہیں۔ اب وہ زیادہ سے زیادہ پیسہ حاصل کر کے قرض سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں۔

اگر ہمارے پاس بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے رقم ہے تو اس سے ہماری زندگی بہتر اور آسانی سے گزرے گی۔ ذہن پر کوئی دباؤ نہیں ہوگا، مقررہ اہداف بھی بآسانی حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے اپنی زندگی کا مقصد صرف دولت اور جائیداد بنانا ہی رکھا ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کچھ لوگ بہت ہی زیادہ دولت مند ہونے کے باوجود گھریلو پریشانیوں میں گھِرے ہوتے ہیں۔ کروڑ پتی لوگ بھی قرض کی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے پاس وافر دولت ہوتی ہے لیکن وہ ایک ایک منٹ کے لئے سچی محبت کو ترستے ہیں۔۔۔ وہ بچوں کی محبت کو ترستے ہیں۔۔۔ اچھی صحت کے لئے ترستے ہیں۔۔۔ ذہنی سکون کے لئے ترستے ہیں۔۔۔ ایسے لوگ جب دیانت داری سے اپنی دولت اور جائیداد کے بارے میں سوچتے ہیں تو عموماً انہیں مایوسی ہوتی ہے کیونکہ وہ اعلیٰ ترین انسانوں کی فہرست میں نہیں آتے۔

یاد رکھیں کہ جب ایک شخص معاشی آسودگی حاصل کر لے تو پھر دولت کو اپنی ترجیحات سے نکال دے، یہی عمل اسے اطمینان کی نعمت سے بہرہ یاب کرے گا۔

کیا دولت بری چیز ہے؟

نہیں! دولت نہ ہی بری چیز ہے اور نہ ہی اچھی چیز ہے۔ پانی اور آگ کی طرح دولت غیر جانبدار ہے۔ ہمیں زندہ رہنے کے لئے پانی کی ضرورت ہے لیکن پانی ہمیں ڈبو کر ہلاک بھی کر سکتا ہے۔۔۔ آگ ہمیں گرمی دیتی ہے لیکن آگ ہمیں جلا بھی سکتی ہے۔۔۔ ایسے ہی دولت بھی ہے۔ جب دولت کو اپنی بنیادی ضروریات، خاندان کے تحفظ اور دوسرے لوگوں کے تحفظ کے لئے استعمال کرتے ہیں تو یہ اچھی ہے، اگر دولت کو غیر صحت مندانہ مقاصد اور غیر ضروری کاموں کے لئے استعمال کیا جائے تو یہ بری ہے۔

دولت توانائی کی ہی ایک شکل ہے جب ہم دولت کی توانائی کو دوسروں کے لئے استعمال کرتے ہیں تو یہ توانائی ہماری جانب لوٹتی ہے۔ تب اس کی شکل مختلف ہوتی ہے۔ جب ہم اس کو دوسروں کی مدد کے لئے استعمال نہیں کرتے تو اس میں ایک جمود پیدا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے مسائل جنم لیتے ہیں۔ اب یہ خود ہماری مرضی ہے کہ ہمیں اس کا استعمال کیسے کرنا ہے۔ اس لئے جب ہمیں ضرورت اور خواہش میں فرق معلوم ہو جائے گا تو اس فرق کا جاننا ہمارے اندر مخلوق خدا کی بھلائی کے لئے خرچ کرنے کے جذبات میں اضافہ کا باعث بنے گا۔

7۔ ہنر و فن

ہنر مند اور فنکار لوگ عام لوگوں کی نسبت بہتر طریقے سے دوسرے لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں۔ ہنر مند اور کاریگر لوگ عام لوگوں کی نسبت زیادہ حساس اور نفیس ہوتے ہیں اسی لئے یہ اپنے ہنر اور فن میں درجہ کمال کو پہنچ جاتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس کوئی فن ہے اور آپ یہ ہنر یا فن کسی کو انفرادی یا اجتماعی طور پر سکھا سکتے ہیں تو اس طرح آپ غیر ہنر مند لوگوں کو فنکار اور کاریگر بنا سکتے ہیں۔

ہنر اور فن ایک بہت بڑا تحفہ ہے جو ہم کسی کو سکھا کر کسی کی زندگی کو آسان بنا سکتے ہیں۔ یہ بھی قانون فطرت ہے کہ جو ہنر ہم دوسروں کو سکھاتے ہیں اس کا انعام ہمیں ضرور ملتا ہے۔ ہم جس قدر اپنا ہنر اور فن دوسروں کو سکھائیں گے اسی قدر زیادہ عزت و احترام اور معاشرے میں مقام ملے گا۔ ہنر اور فن جدید تقاضوں کے مطابق ہونا چاہئے اور جدید تقاضوں کے مطابق ہر کسی کو ہنر اور فن حاصل کرنا چاہئے۔

ہم شاید سوچتے ہوں کہ ہمارے پاس کوئی ہنر اور فن نہیں ہے جبکہ ایسی بات نہیں ہے کیونکہ ہر شخص کچھ نہ کچھ ضرور کرتا ہے جس سے وہ اپنی روزی کماتا ہے۔

مثلاً اگر آپ کوئی اکاؤنٹ کا کام جانتے ہیں تو آپ کسی فلاحی ادارے وغیرہ کو اپنی خدمات ہفتے میں ایک دو گھنٹے پیش کر سکتے ہیں۔

آ پ اپنے محلے میں دوسروں کے درمیان اچھے تعلقات قائم کرانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

اگر آپ میں لیڈر شپ کی صلاحیتیں ہیں تو آپ کسی فلاحی ادارے کا ممبر بن سکتے ہیں۔

آپ کسی بھی حوالے سے کوئی ہنر رکھتے ہوں تو آپ کے پاس زندگی میں بے شمار مواقع ہیں کہ آپ رضا کارانہ طور پر لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں۔

دراصل جب ہم کسی کے لئے کچھ کرتے ہیں تو فطرت کے قانون حرکت میں آ جاتے ہیں اور ہمارے فائدے کے لئے خودبخود کچھ ہونے لگتا ہے۔

ہم مندرجہ ذیل ہنر و فن سیکھ سکتے ہیں یا سیکھے ہوئے میں بہتری پیدا کر سکتے ہیں۔

  • ہم اپنی کمیونٹی میں اپنے تعلقات کو زیادہ مضبوط بنا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ لکھنا، بولنا یا تقریر کرنا سیکھ کر اپنے ما فی الضمیر کو بہتر طور پر بیان کر سکتے ہیں اور اسی ہنر کو ہم دوسروں کو بھی سکھا سکتے ہیں۔
  • ہم اپنے اندر احساس ذمہ داری کو بڑھا سکتے ہیں، اپنے رویے کو زیادہ مثبت کر سکتے ہیں۔
  • ہم اپنے حاصل مطالعہ اور جو کچھ ہم نے سیکھا ہوتا ہے کو اپنی زندگی پر لاگو کر سکتے ہیں۔
  • ہم رقم اور پیسے کو استعمال کرنے کا ہنر سیکھ سکتے ہیں۔
  • ہم اپنی زندگی میں نظم و ضبط قائم کر کے بہت سا وقت بچا سکتے ہیں اور اس وقت کو فلاحی کاموں کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ دوسروں سے بہتر اور مختلف ہوں تو پھر ہمیں اپنی صلاحیتوں کو مثبت انداز میں استعمال کرنا ہوگا۔ اپنے ہنر اور جسمانی صلاحیتوں کو عظیم کاموں کے لئے استعمال کرنا ہوگا۔ ہم جس قدر سیکھیں گے اور دوسروں کو سکھائیں گے اسی قدر ہماری ذات کی نشوونما زیادہ ہوگی۔

8۔ توازن

اکیسویں صدی کے انسانوں کو ماضی کی نسبت بہت بڑے بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ان میں سب سے بڑا چیلنج اپنے جسم، ذہن اور روح میں توازن پیدا کرنا ہے۔ یہ ہمیں معلوم ہے اور ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ انسان کی زندگی میں جس قدر توازن زیادہ ہوگا اس کے تمام کام اور اس کی صحت زیادہ بہتر ہوگی اس لئے توازن کی حقیقت کو سمجھ کر اس کے لئے کوشش کرنی چاہئے تاکہ ہم زندگی کی نعمتوں سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں۔

اگر ہم نے ایک ہی دفعہ سب کچھ دے دیا تو پھر مستقبل میں ہمارے پاس دوسروں کی مدد کرنے کی صلاحیت کم ہو جائے گی۔ اس لئے کوئی کام بھی جذباتی ہو کر نہیں کرنا چاہئے۔ دوسروں کی مدد کرنے میں بھی ایک توازن کا ہونا ضروری ہے تاکہ تسلسل کے ساتھ دوسروں کی زندگیوں میں تبدیلی پیدا کر سکیں۔ اس توازن کا انحصار حالات کے مطابق ہونا چاہئے۔ اگر ہماری زندگی ہی غیر متوازن ہوگی تو پھر صحت کی خرابی کے علاوہ کئی اور خدشات کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔

زندگی کے ہر شعبہ میں توازن اس لئے بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے مستقبل کے منصوبوں کو کامیاب کر سکیں۔ اگر ہم زندگی کے کسی شعبے میں مکمل طور پر توازن پیدا نہیں کر سکتے ہیں تو کچھ نہ کچھ توازن ضرور قائم کریں۔ اس کے لئے اپنی بچت کو سامنے رکھیں اور دیگر ضروریات کو پورا کرنے کے بعد دوسروں کی دل کھول کر مدد کریں۔ اپنے ذہن میں یہ بھی رکھیں کہ آپ زندگی میں کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ آپ زندگی کے اس مقصد کی طرف بھی دھیرے دھیرے بڑھتے جائیں۔ اگر آپ اپنے کام کو بہت زیادہ وقت دیں گے لیکن خاندان کو کم وقت دیں گے تو اس سے آپ کے خاندانی تعلقات، صحت اور روحانی نشوونما پر فرق پڑے گا۔ زندگی کے ہر شعبہ میں توازن آپ کو زیادہ کامیاب اور بہتر انسان بننے میں مدد دے گا۔ اس طرح آپ دوسروں کی مدد بھی ایک خاص توازن سے مسلسل کر سکیں گے۔

کلیدی نکات

ہر شخص کچھ نہ کچھ دے سکتا ہے اگر آپ پیسہ نہیں دے سکتے تو آپ دوسروں کو وقت، علم، مشورہ، توجہ، امید، مسکراہٹ اور محبت دے سکتے ہیں۔ ان چیزوں کی ہر کسی کو ضرورت ہوتی ہے یہ چیزیں بلاامتیاز مذہب اور رنگ و نسل کسی کو بھی دے سکتے ہیں۔

  • جن لوگوں کو اللہ نے علم اور فہم دے رکھی ہے ان پر ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے علم اور فہم میں دوسروں کو بھی شامل کریں۔
  • وقت اور دولت دونوں ہی قابل قدر چیزیں ہیں، جس قدر بھی ہو سکے یہ دوسروں کو دینی چاہئیں۔
  • اگر آپ کسی کو ہنر سکھائیں گے تو آپ اس شخص کو روزگار دینے میں مدد گار ہوں گے۔
  • انسانی تعلقات ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔ آپ تعلقات سے دوسروں کو فائدہ دیں گے تو یہی تعلقات آپ کو بھی فائدہ پہنچائیں گے۔
  • جب آپ توجہ سے کسی کی بات سنیں گے تو آپ کے عزت و احترام میں اضافہ ہوگا۔
  • آپ کا تجربہ حقیقت میں آپ کو بتائے گا کہ دوسروں کو مدد دینے میں آپ کس قدر طاقتور ہو جائیں گے۔
  • زندگی کے ہر شعبہ میں توازن پیدا کریں۔