حمد باری تعالیٰ و نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

ریاض حسین چودھری

بندگی میری مسلسل ہر قدم سجدے میں ہے
صف بہ صف سارا عرب، سارا عجم سجدے میں ہے
زرفشاں ہے قریہءِ جاں میں تہجد کی اذاں
رات کے پچھلے پہر کا کیف، کم سجدے میں ہے
آنسوؤں کی سجدہ ریزی کو قبولیت ملے
امت مظلوم کی شامِ الم سجدے میں ہے
زخم چنتا ہوں میں سب اخبار میں بکھرے ہوئے
ہر صحافی کی ابھی دستارِ غم سجدے میں ہے
آب غم میں چشم تر ڈوبی ہوئی ہے، یا خدا
زندگی تو زندگی ملکِ عدم سجدے میں ہے
نسل انسانی تلاشِ امن میں نکلے ضرور
زخم خوردہ فاختاؤں کا عَلَم سجدے میں ہے
ایک اک ذرے میں روشن ہیں عبادت کے چراغ
تیرے گھر کا تاابد بابِ حرم سجدے میں ہے
حمد کرتی ہے مرے نطق و بیاں کی چاندنی
جو ہوا اوراق ہستی پر رقم سجدے میں ہے
پھول، جگنو، تتلیاں، بادل، ہوا، شبنم، دھنک
رنگ، خوشبو، روشنی، ابرِ کرم سجدے میں ہے
ہر بیاضِ نعت کے لب پر رہی تیری ثنا
محفل میلاد کا جاہ و حشم سجدے میں ہے
شکر واجب ہے اگرچہ شکر ممکن ہی نہیں
میرا دل، میری زباں میرا قلم سجدے میں ہے
مسجد نبوی میں آقا کے ہیں سجدوں کے نشاں
گنبد خضرا نبی کا دم بہ دم سجدے میں ہے
میرے کھیتوں کی چرالی کس نے ہریالی حضور
جبرو استبداد میں آنکھوں کا نم سجدے میں ہے
انخلا در انخلا ہے ہر جزیرے سے ریاضؔ
زخم کھاکر امتِ میرِ امم سجدے میں ہے

نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

انجینئر اشفاق حسین ہمذالی

محمد مصطفی آئے بہاروں کا سماں آیا
بجھے دل کھل اٹھے ہر سو تڑپتوں نے سکوں پایا
وہ آئے جن کی خاطر لوح و کرسی نے جلا پائی
بشارت ان کی دینے بام پر خورشید لہرایا
ہوئی کافور یوں ظلمت، اندھیرے چھٹ گئے سارے
زمین و آسماں پر چھاگیا انوار کا سایا
تمہارا کون ہے حامی؟ جو پوچھا، بے نوا بولے
محمد کے سوا کوئی نہ آئے گا نہ ہے آیا
بھٹکتوں ، راہ گم کردہ ضمیروں کا چلن بدلا
گئے گزروں کو پھر سے راستہ ’’اقراء‘‘ کا دکھلایا
صنم گر، بت شکن بن کر بنے رہبر زمانے کے
نشہ توحید کا دے کر دلوں کو ایسا گرمایا
انہی کا تھام لو دامن اسی میں سرخروئی ہے
وہی سچ ہے وہی مانو انہوں نے جو ہے فرمایا
نہیں دنیا کی دولت کی ہمیں پرواہ ہمذالی
محمد کی محبت کا ہمیں کافی ہے سرمایا

زمیں پر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اترے

زمیں پر مصطفی اترے زمیں کو عرش نے چوما
خزاؤں پر بہار آئی گلستانِ جہاں جھوما
گرے بت کعبۃ اللہ کے بجھی ایران کی آتش
جہانِ کفر کانپ اٹھا، ہِلا کسریٰ،  جھکا روما
زمانے بھر کے مظلومو! تمہارا آسرا آیا
سنانے کے لئے مژدہ فرشتہ دہر میں گھوما