زمین پر میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پہلا جلوس

احسان حسن ساحر

یمن سرزمین حجاز کا وہ قریبی خطہ ہے جس میں متعدد ایسے حکمران بھی گزرے ہیں جن کا طرز حکمرانی اور انداز شاہانہ انہیں دیگر حکمرانوں سے بالکل جدا کردیتا ہے۔ آیئے ان حکمرانوں میں سے چند کا اجمالی تذکرہ کرتے ہیں:

1۔ ملکہ سبا

حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں نہایت حسین و جمیل اور ذہین و فطین خاتون بلقیس یمن کی حکمران تھی۔ اس خاتون کو ملکہ سبا بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی قوم سورج پرست تھی اور سورج کو اپنا معبود سمجھتی تھی۔ جب حضرت سلیمان علیہ السلام کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے اپنے خاص درباری پرندے ھُد ھُد کو اپنا ایک مکتوب دے کر اُسے اپنے ہاں آنے کی دعوت دی۔ ملکہ سبا بلقیس نے اس خط کی بابت اپنے مشیران خاص سے مشورہ کیا اور کچھ مصاحبین کو ساتھ لے کر یمن سے دربار سلیمانی پہنچی۔ بعد ازاں ملکہ سبا حضرت سلیمان علیہ السلام پر ایمان لے آئی۔ اس پورے واقعہ کو سورۃ النمل آیت نمبر 20 تا 44 میں تفصیلاً بیان کیا گیا ہے جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:

سلیمان ں نے پرندوں کا جائزہ لیا تو کہنے لگے: مجھے کیا ہوا ہے کہ میں ہد ہد کو نہیں دیکھ پا رہا یا وہ واقعی غائب ہوگیا ہے۔ میں اسے بغیر اجازت غائب ہونے پر ضرور سخت سزا دوں گا یا اسے ضرور ذبح کر ڈالوں گا یا وہ میرے پاس اپنے بے قصور ہونے کی واضح دلیل لائے گا۔ پس وہ تھوڑی ہی دیر باہر ٹھہرا تھا کہ اس نے حاضر ہو کر عرض کیا: مجھے ایک ایسی بات معلوم ہوئی ہے جس پر (شاید) آپ مطلع نہ تھے اور میں آپ کے پاس ملکِ سبا سے ایک یقینی خبر لایا ہوں۔ میں نے وہاں ایک ایسی عورت کو پایا ہے جو ان یعنی ملکِ سبا کے باشندوں پر حکومت کرتی ہے اور اسے ملکیت و اقتدار میں ہر ایک چیز بخشی گئی ہے اور اس کے پاس بہت بڑا تخت ہے۔ میں نے اسے اور اس کی قوم کو اللہ کے بجائے سورج کو سجدہ کرتے پایا ہے اور شیطان نے ان کے اعمالِ بد ان کے لیے خوب خوشنما بنا دیے ہیں اور انہیں توحید کی راہ سے روک دیا ہے سو وہ ہدایت نہیں پا رہے۔ سلیمان ں نے فرمایا: ہم ابھی دیکھتے ہیں کیا تو سچ کہہ رہا ہے یا توجھوٹ بولنے والوں سے ہے۔ میرا یہ خط لے جا اور اسے ان کی طرف ڈال دے پھر ان کے پاس سے ہٹ آ پھر دیکھ وہ کس بات کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

اس خط کے جواب میں ملکہ سبا نے کہا میں ان کی طرف کچھ تحفہ بھیجنے والی ہوں پھر دیکھتی ہوں قاصد کیا جواب لے کر واپس لوٹتے ہیں۔ سو جب وہ قاصد سلیمانں کے پاس آیا تو سلیمان ں نے اس سے فرمایا: کیا تم لوگ مال و دولت سے میری مدد کرنا چاہتے ہو۔ سو جو کچھ اللہ نے مجھے عطا فرمایا ہے اس دولت سے بہتر ہے جو اس نے تمہیں عطا کی ہے بلکہ تم ہی ہو جو اپنے تحفہ سے فرحاں اور نازاں ہو تو ان کے پاس تحفہ سمیت واپس پلٹ جا سو ہم ان پر ایسے لشکروں کے ساتھ حملہ کرنے آئیں گے جن سے انہیں مقابلہ کی طاقت نہیں ہو گی اور ہم انہیں وہاں سے بے عزت کرکے اس حال میں نکالیں گے کہ وہ قیدی بن کر رسوا ہوں گے۔

سلیمان ں نے فرمایا: اے دربار والو! تم میں سے کون اس ملکہ کا تخت میرے پاس لاسکتا ہے قبل اس کے کہ وہ لوگ فرمانبردار ہو کر میرے پاس آجائیں۔ ایک قوی ہیکل جِن نے عرض کیا: میں اسے آپ کے پاس لاسکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ اپنے مقام سے اٹھیں اور بے شک میں اس کے لانے پر طاقتور اور امانتدار ہوں۔ پھر ایک ایسے شخص نے عرض کیا جس کے پاس آسمانی کتاب کاکچھ علم تھا کہ میں اسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے یعنی پلک جھپکنے سے بھی پہلے، اسی اثناء میں ملکہ سبا کا تخت حضرت سلیمان ں کے دربار میں موجود تھا۔

2۔ ابرہہ بادشاہ

یمن ہی کا ایک اور حکمران تاریخ میں ابرہہ کے نام سے معروف ہے۔ ولادت رسول محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چند ماہ قبل مسیحی حکمران ابرہہ نے بیت اللہ پر لشکر کشی کا ارادہ کیا۔ اس نے یمن کے دارالخلافہ صنعاء میں ایک کنیسہ (عبادت خانہ) تعمیر کررکھا تھا، جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ لوگ مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کی طرف متوجہ ہونے کے بجائے اس عبادت گاہ میں آکر عبادت (حج) کریں۔ اہل عرب کو جب اس بات کا علم ہوا تو انہیں یہ بات گراں گزری۔ چنانچہ بنو کنانہ کے ایک شخص نے موقعہ پاکر کنیسہ میں غلاظت پھینک دی۔ اس حرکت پر ابرہہ طیش میں آگیا اور اس نے یہ ارادہ کرلیا کہ میں خانہ کعبہ کو مسمار و منہدم کردوں گا وہ ایک بڑا لشکر لے کر یمن سے مکہ کی جانب روانہ ہوا۔

اس لشکر میں سپاہیوں کے علاوہ قوی الجثہ اور قد آور ہاتھی بھی شامل تھے۔ ابرہہ نے مکہ شہر سے باہر مزدلفہ کے مقام پر پہنچ کر اہل مکہ کے جانوروں کو پکڑنا شروع کردیا۔ ان میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا حضرت عبدالمطلب بن ہاشم کے اونٹ بھی شامل تھے۔ جب حضرت عبدالمطلب کو علم ہوا تو وہ فوراً ابرھہ کے پاس پہنچے۔ ابرہہ نے ان کا بہت احترام کیا اور ان سے آنے کی وجہ پوچھی۔

حضرت عبدالمطلب نے بتایا کہ تم نے میرے جو اونٹ پکڑے ہیں وہ واپس کردو۔ وہ بولا: اے عبدالمطلب! مجھے یہ سن کر حیرانی ہوئی، میں تو خانہ کعبہ پر حملہ کرکے اسے مسمار کرنے والا ہوں مگر تم صرف اپنے اونٹوں کا مطالبہ ہی کررہے ہو اور خانہ کعبہ کی تباہی کا تمہیں کوئی فکر نہیں ہے۔ آپ نے ابرھہ کو جواب دیا کہ یہ اونٹ میری ملکیت ہیں اور کعبہ، اللہ کی ملکیت ہے۔ وہ خود اس کی حفاظت فرمائے گا، میں تو صرف اپنی چیز کا ہی مطالبہ کرتا ہوں۔ ابرھہ یہ بات سن کر حیران ہوا اور اس نے تمام اونٹ حضرت عبدالمطلب کو واپس کردیئے۔

کعبۃ اللہ کی حفاظت کا الوہی انتظام

حضرت عبدالمطلب نے واپس جاکر یہ سارا ماجرا قریش مکہ کو سنایا اور ساتھ یہ مشورہ بھی دیا کہ تم سب لوگ قریبی پہاڑوں کی چوٹیوں اور گھاٹیوں میں چلے جاؤ۔ آپ خود خانہ کعبہ جاکر بارگاہ الہٰی میں خانہ کعبہ کی حفاظت و سلامتی کی دعا کرنے لگے۔ طاقت کے نشہ میں چور ابرھہ نے جونہی خانہ کعبہ کو مسمار کرنے کا ارادہ کیا اور اپنا لشکر لے کر خانہ کعبہ کے قریب پہنچا، جلال و جبروت ربانی جوش میں آگیا۔ پھر آنکھ نے وہ ہیبت انگیز اور عبرت ناک منظر بھی دیکھا جب مزدلفہ کی وادیءِ محسر میں کھلے آسمان کی بیکراں وسعتوں میں ننھے ننھے پرندوں (ابابیل) کے غول در غول نمودار ہوئے، جنہوں نے اپنی چونچوں میں پکڑی ہوئی کنکریوں کو موسلا دھار بارش کی طرح ابرہی لشکر پر برسانا شروع کردیا۔ کنکریاں گرنے کی رفتار اور قوت اس قدر تیز تھی کہ جس ہاتھی اور سپاہی پر گرتیں، اس کے بدن سے آرپار ہوجاتیں۔ اس اچانک نازل ہونے والے آسمانی عذاب سے پورے لشکر میں بدحواسی اور کھلبلی مچ گئی۔ ہاتھی خوف سے چنگھاڑنے لگے اور جان بچانے کی کوشش میں بھاگتی ہوئی اپنی ہی فوج کو روندنے لگے۔ عذاب الہٰی سے بھلا کون راہ فرار اختیار کرسکتا ہے۔ بالآخر ابرھہ معہ اپنے لشکر تباہ و برباد ہوگیا۔ قرآن کریم کی سورۃ الفیل اسی عبرت ناک منظر کو ان الفاظ میں بیان کرتی ہے:

اَلَمْ تَرَ کَيْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِيْلِ. اَلَمْ يَجْعَلْ کَيْدَهُمْ فِيْ تَضْلِيْلٍ وَّ اَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا اَبَابِيْلَ تَرْمِيْهِمْ بِحِجَارَةٍ مِّنْ سِجِّيْلٍ. فَجَعَلَهُمْ کَعَصْفٍ مَّاْکُوْلٍ.

(الفيل:1تا 5)

’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ کیا اس نے ان کے مکر و فریب کو باطل و ناکام نہیں کر دیا؟ اور اس نے ان پر (ہر سمت سے) پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیے۔ جو ان پر کنکریلے پتھر مارتے تھے۔ پھر (اﷲ نے) ان کو کھائے ہوئے بھوسے کی طرح (پامال) کر دیا‘‘۔

(ابن هشام، السيرة النبوية، 1:50)

3۔ تبع بادشاہ

ملکہ سبا بلقیس اور ابرہہ بادشاہ کے بعد اسی سرزمین یمن کے ایک اور حکمران کا تذکرہ کرتے ہیں جو ابرہہ بادشاہ کے بالکل برعکس عقیدت و محبت کے الفاظ کے ساتھ تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوگیا۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عالمِ آب و گل میں تشریف آوری سے تقریباً ایک ہزار چالیس سال قبل یمن کے ایک بادشاہ تبع ابوکرب اسعد الحمیری نے بھی خانہ کعبہ کو مسمار کرکے اہل مکہ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا لیکن اس مذموم عمل کو سرانجام دینے سے پہلے ہی اسے اچانک ایک آسمانی مہلک بیماری نے آن گھیرا۔

اس واقعہ کا پس منظر یہ ہے کہ تبع ابوکرب الحمیری یمن سے جنگی مشن لے کر نکلا تھا کہ بیشتر علاقوں کو زیر نگین کرکے اپنی سلطنت وسیع کروں گا۔ اس سلسلہ میں اس نے اپنا پہلا ہدف مکہ معظمہ کو بنانا چاہا۔ اس کے پاس ان گنت جنگی سپاہی، ماہر نشانہ باز، تیر انداز اور ہزاروں کی تعداد میں مشیر اور وزیر تھے۔ بعد از مشاورت تبع ابوکرب الحمیری نے اپنا ارداہ بدل کر جنگی سفر کا آغاز یمن سے مصر کی جانب کرلیا اور وہاں کے کئی علاقوں کو اپنے قبضہ میں لیا۔ بعد ازاں وہ بحیرہ احمر کے ساحل کے ساتھ ساتھ سفر کرتا ہوا سرزمین حجاز کے متبرک شہر مکہ کی سنگلاخ چوٹیوں میں گھری ہوئی بے آب و گیاہ وادیوں میں داخل ہوا۔

جب وہ شہر کی حدود میں پہنچا تو یہ منظر دیکھ کر حیران و ششدر رہ گیا کہ اہل شہر پر کوئی خوف و ہراس طاری نہیں اور نہ ہی انہوں نے اس کا والہانہ استقبال کیا ہے۔ گویا وہ تمام اطمینان کی تصویر بنے اپنے حال میں مست تھے۔ اس خلافِ توقع صورتحال کی بابت اس نے اپنے مشیران سے استفسار کیا، اُسے بتایا گیا کہ اس شہر میں چونکہ بیت اللہ موجود ہے، جس کی خدمت کا فریضہ اہل مکہ خود انجام دیتے ہیں اور اس کام کو وہ بڑا اعزاز و اکرام تصور کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ کسی بڑی شخصیت یا حکمران کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اراکین سلطنت کا یہ جواب سن کر تبع الحمیری کو بہت غصہ آیا اور گرجدار آواز میں بولا: میں ایسے کعبہ کو مسمارکروں گا اور اس کے خدمت گاروں کو تہ تیغ کردوں گا۔ اس نے کعبہ پر فوری اور شدید حملہ کرنے کا حکم دیا۔

اس سے قبل کہ اس کے حکم کی تعمیل ہوتی اچانک تبع الحمیری کے پورے بدن میں شدید درد کی لہر اٹھی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کا جسم سوکھی لکڑی کی طرح اکڑنے لگا اور وہ مکمل طور پر حرکت کرنے کے قابل نہ رہا۔ شاہ یمن کی اچانک یہ بگڑتی ہوئی حالت دیکھ کر اس کی فوج نے اپنی برہنہ تلواریں میانوں میں رکھ لیں، گھوڑوں کی ہنہناہٹ آہستہ آہستہ مدہم پڑتی گئی اور ماہر تیر اندازوں نے اپنے نوکیلے تیر دوبارہ ترکشوں کے اندر رکھ لئے۔ پوری فوج پر سکتہ اور سارے ماحول پر ایک ماتمی سناٹا طاری ہوگیا۔

الحمیری کا درد میں مبتلا جسم ایک بے حس و حرکت لاش کی طرح پڑا تھا اور ہر کوئی اس سوچ و فکر میں گم تھا کہ اب کیا ہوگا؟ جوں جوں گھڑیاں گزرتی جارہی تھیں، تشویش و غم کا مہیب دائرہ پھیلتا جارہا تھا۔ کافی دنوں تک یہ حمیری لشکر شہر مکہ میں یونہی بیکار پڑا رہا۔ الحمیری کا سارا جنگی منصوبہ گویا دم توڑتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ لشکر میں طرح طرح کی چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں۔ مشیران شاہی نے یہ فیصلہ کیا کہ شاہ یمن کے علاج کے لئے کسی حاذق اور ماہر حکیم کو تلاش کیا جائے۔ چنانچہ کافی تگ و دو کے بعد کئی اطباء کو بلایا گیا مگر مریض کی حالت دیکھ کر ہر حکیم نے معذوری کا اظہار کیا۔ بے امیدی کی فضا اور گہری ہوتی گئی، جملہ اطباء کی رائے میں شاہ یمن کی بیماری عقل و فہم سے باہر تھی۔ بعض کے مطابق یہ عارضہ جسمانی نہیں بلکہ آسمانی ہے اور اس کا علاج صرف وحدہ لاشریک کے پاس ہے۔

جب ہر طرف سے ناامیدی کے بادل چھانے لگے تو اچانک ایک دن کسی صاحب بصیرت حکیم نے چپکے سے آکر تبع الحمیری کے کان میں کہا: اے شاہ یمن! میں اس بیماری کا علاج صرف اس شرط پر کروں گا کہ جو میں آپ سے پوچھوں اس کا سچ سچ جواب دینا۔ اگر ذرا بھی غلط بیانی سے کام لیا تو یاد رکھیں یہ مہلک اور خطرناک مرض جلد آپ کو موت کے منہ میں دھکیلنے والا ہے۔ بادشاہ کو طبیب کی یہ بات سن کر امید کی ایک روشن کرن دکھائی دی، چنانچہ اس نے حق کہنے کا وعدہ کرلیا۔

حکیم نے جو سوالات پوچھے، شاہ الحمیری نے ان کا صحیح جواب دیا۔ دوران گفتگو جونہی تبع الحمیری نے حکیم کو خانہ کعبہ پر حملہ اور مکہ مکرمہ کو نیست و نابود کرنے کی بات بتائی تو حکیم ایک دم اٹھ کر کھڑا ہوگیا اور بلند آواز میں کہا: بس کریں شاہ یمن، بس کریں۔۔۔ آگے مت بولیں۔۔۔ یہی وہ اصل وجہ ہے جس نے آپ کو بیماری کے اس عذاب میں گرفتار کررکھا ہے۔۔۔ اس کا علاج صرف یہی ہے کہ فوراً اس مذموم خیال اور شیطانی ارادے کو اپنے دل و دماغ سے خارج کریں اور مالک کائنات سے معافی طلب کریں۔۔۔ شاید آپ نہیں جانتے کہ اس عظیم گھر ’’بیت اللہ‘‘ کا مالک، مالکِ کُل ہے، جو حیات و ممات، صحت و علالت کا مالک ہے، وہ خود ہی اپنے اس گھر کا محافظ ہے۔ آج تک جس نے بھی اسے نقصان پہنچانے کا ارادہ کیا، وہ کسی نہ کسی عذاب میں مبتلا ہوکر تباہ ہوگیا۔

شاہ یمن یاد رکھیں! آپ بھی ایک ایسے ہی جرم اور گناہ میں مبتلاہوکر اس بیماری کا شکار بن گئے ہیں۔ حکیم کی یہ لرزہ خیز اور بصیرت افروز باتیں سن کر الحمیری کے لاغر و ساکت بدن میں جیسے برقی لہر دوڑ گئی، اس کا رگ و ریشہ کانپنے لگا، چہرہ پر ندامت و شرمندگی کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ بلاتاخیر اس نے اسی حالت میں ارحم الراحمین سے صدقِ دل سے معافی طلب کی اور اپنے ارادہ کو دل سے نکالا۔ جونہی اس نے ارادہ ترک کیا، رب ذی الجلال کی رحمت خاص سے الحمیری کو صحت نصیب ہوئی۔

کعبۃ اللہ پر پہلا غلاف

صحت یابی کے فوراً بعد اس نے خود کو پاک صاف کرکے بیت اللہ کا طواف کیا اور تمام اہل شہر کو چند دنوں کے بعد ایک عظیم الشان شاہی ضیافت میں مدعو کیا۔ ان کاموں سے فارغ ہوکر تبع الحمیری نے اپنی عجز و نیاز مندی کا اظہار کرتے ہوئے ایک نہایت قیمتی، دیدہ زیب، مرصع و منقش خوبصورت غلاف تیار کراکر کعبہ پر چڑھایا۔ اس موقع پر بیت اللہ کی عمارت کو نہایت دلکش انداز میں سجایا گیا۔ الحمیری نے اظہار تشکر کے طور پر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ عظیمہ میں ہزاروں درہم و دینار کا نذرانہ پیش کیا، انہیں غرباء میں تقسیم کیا اور کئی اونٹوں کی قربانی بھی دی۔

(ابن هشام، السيرة النبوية، (مکه پر حمله)، 1:24)

(ازرقی، اخبار مکة، 1:134)

مکمل شفاء پانے کے بعد شاہ یمن کا جارحانہ مزاج بہت حد تک معتدل ہوگیا۔ تاہم اس نے اپنے جنگی مشن کو جاری رکھا اور مکہ سے روانہ ہوکر کئی علاقوں کو زیر تسلط کیا۔ بالآخر جب شہر یثرب پہنچا تو اہل یثرب نے دفاعی حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے خود کو محفوظ پناہ گاہوں میں محصور کرلیا۔ یہ صورت حال کئی ماہ تک بدستور قائم رہی مگر کوئی خاطر خواہ اور موثر نتیجہ برآمد نہ ہوا۔

آمدِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتظار

الحمیری نے اپنے مشیروں سے اس بابت بھی رائے طلب کی، فیصلہ کیا گیا کہ اہل یثرب کے معززین سے رابطہ کیا جائے۔ چنانچہ یمنی فوج کا ایک وفد شہر کی بارسوخ اور محترم شخصیات سے ملا۔ انہوں نے بتلایا کہ ہم اہل یثرب مختلف قوموں، نسلوں اور علاقوں کے باشندے ہیں جو اپنے آبائی اوطان چھوڑ کر اس شہر میں اس لئے آکر آباد ہوئے ہیں کہ ہم کو یہ بتایا گیا کہ یثرب، سرزمین عرب کی وہ وادی ہے جہاں کائنات کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ سے ہجرت فرماکر آباد ہونگے اور پھر اسی بستی کو اپنی جائے سکونت بنالیں گے۔ چنانچہ ہم ایک عرصہ سے اس نبی برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتظار کررہے ہیں۔

یمنی وفد نے واپس جاکر جب یہ حیرت انگیز بات شاہ یمن کو بتائی تو وہ بے حد متاثر و حیران ہوا۔ رسول آخرالزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کا تذکرہ سن کر اس کا دل گداز ہوگیا اور آنکھوں میں اشکوں کی نمی چھلکنے لگی۔ وہ اس خواہش سے بے تاب ہوگیا کہ کاش وہ بھی اس برگزیدہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل کرسکے۔ اس شوقِ زیارت نے اس کے پیکر جسمانی میں اضطراب و اشتیاق دید کی ایک لہر دوڑادی۔

ایک ہزار سال قبل استقبالِ میلاد جلوس

وہ شب، شاہ یمن کی زندگی میں آنے والی سب سے انوکھی اور مضطرب شب تھی۔ اس شب کی صبح بیدار ہوکر الحمیری نے اپنے فوجیوں کے ہمراہ شہر یثرب کی گلی کوچوں اور بازاروں میں ایک بڑے جلوس کی شکل میں گھومنا شروع کیا۔ یہ جلوس اتنی شاندار طریقے اور نظم و ضبط سے شہر کے مختلف علاقوں میں گھومتا رہا کہ اہل یثرب ان لوگوں کے ذوق و شوق اور عقیدت کو دیکھ کر آبدیدہ ہوگئے۔ تبع الحمیری بہ نفس نفیس خوش الحانی اور سوز و گداز سے دل میں اتر جانے والے عقیدت و احترام سے بھرپور اشعار بلند آواز سے پڑھتے جارہے تھے۔ ذیل میں ان سے چند منتخب اشعار بطور نمونہ پیش خدمت ہیں:

شهدت علی احمد انه رسول من الله باری النسم
ولو مد عمری الی عمره لکنت وزيرا له وابن عم
وجاهدت بالسيف اعداء ه وفرجت عن صدره کل غم

’’میں گواہی دیتا ہوں کہ احمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے برحق رسول ہیں، وہ اللہ جو ارواح کو پیدا فرمانے والا ہے۔ اگر میری عمر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کے زمانہ تک باقی رہی تو میں ضرور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بیٹے کی طرح آپ کا ممدو معاون بنوں گا اور شمشیر بکف ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمنوں سے ایسا جہاد کروں گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام دلی غم دور ہوجائیں‘‘۔

(ابن هشام، السيرة النبوية (مدينه پر حمله)، 1:21، 22)

عالمی تاریخ کا یہ ایک نہایت حیرت انگیز واقعہ ہے کہ ولادت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دس صدیاں پہلے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک عظیم الشان جلوس شاہ یمن کی زیر قیادت اُسی شہر میں بڑے تزک و احتشام سے نکالا گیا جس شہر کے باسی اسی نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی آس لگائے ان کی راہ دیکھ رہے تھے۔

تاریخی شواہد اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہ جلوس اتنا وجد آفرین تھا کہ حلاوت و عقیدت میں ڈوبے ہوئے اشعارکے علاوہ اس جلوس میں شامل لوگ ’’یامحمد یامحمد( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )‘‘ کے ایمان افروز نعرے بھی لگارہے تھے جس سے اردگرد کا ماحول نہایت رقت آمیز ہوگیا تھا۔

زیارتِ مصطفی کی نیت سے مدینہ میں سکونت

مورخین رقمطراز ہیں کہ تبع الحمیری کے ہمراہ اس جلوس میں علماء و فصحاء، دانشور اور اہل قلم کی ایک کثیر تعداد بھی شریک تھی۔ ان میں سے علماء کی ایک جماعت نے شاہِ یمن سے یہ کہا کہ ان کو اسی شہر میں مستقل سکونت اختیار کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ زیارت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سرفراز و فیض یاب ہوسکیں۔ شاہ یمن نے جواب دیا کہ میں خود بھی ایک سال تک یثرب میں ہی قیام کروں گا، ممکن ہے اس دوران آمد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مژدہ جاں فزاء سن لوں مگر رب کریم کو ابھی یہ منظور نہ تھا کیونکہ جان کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت میں ابھی ایک ہزار چالیس سال باقی تھے۔ جب یہ پورا سال گزر گیا تو شاہ یمن نے اپنی روانگی سے پہلے ایک مکتوب بحضور سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تحریر کیا اور ڈبہ میں بند کرکے شامول نامی ایک عالم کو امانتاً یہ کہہ کر دیدیا کہ اگر آپ کو یہ زیارت نصیب ہو تو میرا عاجزانہ یہ مکتوب آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ بیکس پناہ میں پیش کردینا۔ اگر ایسا ممکن نہ ہوسکے تو اپنی آنے والی نسلوں کو امانتاً یہ خط منتقل کرتے رہنا یہاں تک یہ اس خوش نصیب انسان تک پہنچ جائے جسے رسول محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت و دیدار نصیب ہو۔ تبع الحمیری کے اس مکتوب کا خلاصہ درج ذیل ہے:

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام تبع الحمیری کا مکتوب

’’اے رسول آخرالزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کتاب پر ایمان لایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رب پر جو تمام جہانوں کا مالک و مولیٰ ہے میں ایمان لایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رب کی طرف سے ایمان اور اسلام کی جو فضیلتیں نازل ہوئیں میں نے ان کو قبول و تسلیم کیا۔ اگر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پایا تو میں نے گویا نعمت حاصل کرلی اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے لئے روز قیامت شفاعت فرمادیں اس لئے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولین امت میں سے ہوں، لِلّٰہ اس روز مجھے فراموش نہ کیجئے گا کیونکہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع، تشریف آوری اور اللہ کی طرف سے مبعوث بہ رسالت ہونے کی تصدیق کی ہے‘‘۔

یہ مکتوب عقیدت شاہ یمن کی ہدایت کے مطابق شامول کی نسل میں مسلسل سفر کرتا ہوا مشہور صحابی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ تک جاپہنچا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت مدینہ کے وقت صدیوں پرانا یہ راز اس وقت افشا ہوا جب ناقہءِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے گھٹنے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر کے سامنے ٹیک دیئے اور پھر یہی گھر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یثرب میں پہلی قیام گاہ بنا کیونکہ تبع الحمیری کا وہ مکتوب 21 ویں پشت سے انہی کے پاس من و عن موجود تھا۔

’’مرحبا يا الاخ الصالح‘‘

جب یہ مکتوب انہوں نے بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پیش کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اسے پڑھنے کا حکم دیا۔ اس مکتوب کو بغور سن کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف تبع الحمیری کا مسلمان ہونا قبول فرمایا بلکہ اس کی پیش کردہ شفاعت کی عرض داشت بھی منظور فرمالی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تبع الحمیری کے پیام محبت سے اتنے مسرور و شاداں اور متاثر ہوئے کہ بے ساختہ لب ہائے مبارک پر تین بار مرحبا یا الاخ الصالح کے الفاظ ادا ہوئے یعنی میں اپنے صالح بھائی تبع الحمیری کو مرحبا کہتا ہوں۔

(شامی، سبل الهدی والرشاد، 3:274)

مذکورہ مضمون کے مندرجات سے ثابت ہوا کہ بعثت نبوی سے 1040 سال پہلے شاہ یمن نے عقیدت و محبت میں ڈوب کر یثرب کی گلیوں اور بازاروں میں میلاد الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پہلا ارضی جلوس نکالا تھا۔ اسی وقت اپنے ساتھیوں سمیت وہ رسالت و نبوت پر ایمان لاکر مسلمان ہوگیا تھا۔ اس طرح یہ تمام یمنی لوگ سابقون والاولون میں شمار ہوئے۔ اللہ ان کی قبروں پر اپنی بے شمار رحمتیں نازل فرمائے۔