انتخابی اصلاحات کیلئے شیخ الاسلام کے مطالبات اور لانگ مارچ

ملک کے نامور کالم نگار اور تجزیہ نگار احباب کی نظر میں

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ کے عظیم انقلابی نعرہ کے ساتھ اپنی پاکستان آمد سے لے کر ابھی تک پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر موضوع بحث ہیں۔ انتخابی اصلاحات کے لئے ان کے پیش کردہ مطالبات اور اسلام آبادکی طرف لانگ مارچ اور اس کے دور رس اثرات و نتائج پر تجزیہ نگاروں اور کالم نویسوں نے کیا اظہار خیال کیا۔ آیئے! ان چند منتخب اقتباسات کا مطالعہ کرتے ہیں۔

1۔ روزنامہ جنگ 20 جنوری 2013ء (ڈاکٹر صفدر محمود)

میں کم علم انسان ہوں نہ میرا کوئی تعلق منہاج القرآن سے ہے اور نہ ڈاکٹر طاہرالقادری سے لیکن سیاسیات کا طالب علم ہونے کے ناطے فقط اتنا سمجھتا ہوں کہ کچھ ناکامیوں کے باوجود اس مثالی لانگ مارچ اور مثالی دھرنے نے پاکستان کی سیاست کے جسم میں تبدیلی کا ٹیکہ (انجکشن) لگادیا ہے جو بہر حال رنگ لائے گا اور انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہوگا۔ یہ میرا اندازہ ہے جو غلط بھی ثابت ہوسکتا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ ہزاروں (لاکھوں نہیں) شرکاء کا لاہور سے اسلام آباد تک کا سفر، دھرنا، ایثار، خلوص اور دعائیں ضائع نہیں جاسکتیں۔ انہوں نے پوری قوم کو ایک پیغام دے دیا ہے جسے جاگتی آنکھیں دیکھ رہی ہیں اور بیدار ذہن سمجھ رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ان شرکاء کا یہ پیغام ملک بھر میں پھیل جائے گا لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ کوئی انقلاب آجائے گا۔ مطلب یہ کہ ان کا پیغام انتخابات پر اثر انداز ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ روایتی سیاستدان، پرانی سیاسی جماعتیں اور تبدیلی کی مخالف قوتیں خوفزدہ اور پریشان دکھائی دے رہی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم ڈاکٹر صاحب کا ایجنڈا کیا تھا یا لانگ مارچ کے پیچھے کسی کا ہاتھ تھا یا نہیں لیکن ان سے قطع نظر مجھے شرکا کے ایثار اور استقامت، نظم و ضبط اور جذبے نے بہر حال متاثر کیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ تبدیلی کے یہی محرکات ہوتے ہیں اور یہی پیش خیمہ۔۔۔ کمال ہے بھائی کمال کہ ہماری بڑی بڑی سیاسی جماعتیں اور بڑے بڑے لیڈران جلسے کرتے ہیں تو ان کے کارکن جلسے کے خاتمے کا انتظار کئے بغیر کھانے کی دیگوں پر حملے کردیتے ہیں۔ بوٹیوں کی تقسیم پر چھینا جھپٹی کے مناظر راز فاش کرتے ہیں کہ لیڈران بھی اسی طرح مال و زر کی چھینا جھپٹی میں مصروف ہیں جیسی روح ویسے فرشتے۔ لیکن حیرت ہے اسلام آباد کے دھرنے پر کہ لوگ پانچ دن تک بیٹھے صبرو قناعت کا عملی نمونہ بنے رہے، نہ شکایت نہ گلہ، نہ کوئی گملا ٹوٹا نہ کسی دکان کا شیشہ۔۔۔ جس پر امن انداز سے آئے تھے اسی پر امن انداز سے واپس چلے گئے۔ مجھے علم نہیں کہ انہیں مایوسی ہوئی یا شعلہ بیانی سے پیدا کردہ توقعات چکنا چور ہوئیں، انہوں نے کیا کھویا اور کیا پایا لیکن دوستو! ان کا ایثار، استقامت اور ڈسپلن ایک ایسا نقش ثبت کرگیا جو تاریخ میں مثال بن کر زندہ رہے گا۔

میں نے ان چند ایام کے ٹریلر کے دوران نفرت کی بڑھتی اور پھیلتی ہوئی لکیریں دیکھیں تو آنے والے چند ماہ کا نقشہ ذہن میں ابھرنے لگا۔ جی چاہا کہ میں دوستوں سے اپنے مفاد میں ایک چھوٹی سی جسارت کروں اور عرض کروں کہ دوستو! کسی پر تنقید اس طرح نہ کیا کرو کہ وہ ذاتی مفاد لگے یا کردار کشی کا تاثر پیدا کرے اور نہ کسی کی تعریف اس طرح کرو کہ وہ خوشامد اور قصیدہ لگے۔ توازن کا دامن بہر حال تھامے رکھو کہ توازن مسلمان کی زندگی کا محور اور بنیاد ہے۔۔۔ اور ہاں خدارا مت سمجھو کہ میری فریاد کا رخ کچھ مخصوص افراد کی جانب ہے۔ میری یہ فریاد سارے سیاسی کارکنوں، لیڈروں، اینکروں، صحافیوں، تجزیہ نگاروں اور کالم نگاروں کی خدمت میں ہے۔ ہمارا اجتماعی فرض ہے کہ انتخابات کے ماحول میں تلخیوں اور نفرتوں کے الاؤ نہ جلائیں اور اس مقام سے امن اور چین سے گزر جائیں۔ صرف اسی سپرٹ اور جذبے سے جمہوری عمل کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے کیونکہ ’’برداشت‘‘ جمہوریت کی روح اور روح کے بغیر جسم مردہ ہوتا ہے۔

2۔ روزنامہ جنگ 20 جنوری 2013ء (مجاہد منصوری)

ڈاکٹر طاہرالقادری نے جن مطالبات کو منوانے کے لئے لانگ مارچ اور دھرنے جیسا کٹھن اقدام اٹھایا ہے، وہ کوئی نئے نہیں ہیں۔ ملک کے سینئر اور پارٹی کنکشن سے آزاد، سیاسی تجزیہ نگار ہی نہیں، خود دیانت دار اور ذمے دار قومی مزاج رکھنے والی سیاسی جماعتیں اور سیاسی کارکن بھی آئین کی روح اور صحیح تشریح کے مطابق یقینی غیر جانبدار انتخاب کے انعقاد، انتخابی امیدوار بننے کے امیدواروں کو آئین کی دفعہ 62-63 اور 218 کی چھلنی سے لازمی گزارنے، انتخابی مہم میں دولت کے بے دریغ استعمال کو کنٹرول کرنے اور مکمل آزاد اور غیر جانبدار فضاء میں انتخاب کے انعقاد کا مطالبہ تواتر سے کررہے ہیں۔ ان میں آئین کے عین مطابق الیکشن کرانے کی سکت رکھنے والے الیکشن کمیشن کے قیام کا مطالبہ سرفہرست ہے۔

فرق یہ ہے کہ یہ مطالبات منظم انداز میں اٹھاکر اپنے ورکرز کو متحرک کردیا اور قوم کے باشعور طبقے سے بھی یہ منوالیا کہ وہ جو مطالبات لے کر آئے ہیں، وہ شدید قومی ضرورت اور عوام کے سینوں میں مچلتی خواہشات کے عکاس ہیں۔

یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ علامہ طاہرالقادری نے میڈیا کے طویل ملے ہوئے وقت کا بہترین استعمال کرکے پہلی مرتبہ آئین پاکستان کے بارے میں پاکستانی عوام کی انتہائی موثر Mass Education کی ہے جو اپنی جگہ بڑی قومی خدمت ہے۔ انہوں نے دھرنے کے پہلے خطاب میں جس آسان فہم طریقے سے عوام کو سمجھایا ہے کہ آئین کی کون کون سی شق غیر جانبدار، آزاد اور شفاف انتخاب کے لئے کیا کیا تقاضا کرتی ہے، یہ عوامی بیداری کی ایک موثر اور قابل قدر کاوش ہے۔ پھر انہوں نے تجزیئے سے ثابت کیا کہ ان آئینی دفعات کا جاری انتخابی عمل میں کوئی عمل دخل نہیں اور یہ فقط کتابی ہیں۔ اس طرح علامہ طاہرالقادری کا دھرنا پاکستانی قومی سیاست میں ارتقائی فضاء پیدا کرنے میں معاون ہوگا۔ جس طرح آزاد عدلیہ، گڈگورننس، انسداد کرپشن، خاندانی جمہوریت، ٹیکس چوری، قرضہ خوری اور انتخاطی اختیارات کا غلط استعمال ہماری قومی سیاست کے اہم موضوع بن گئے ہیں، اسی طرح اب ’’آئین کے عین مطابق انتخابات کا انعقاد‘‘ بھی قومی سیاسی ابلاغ میں اہم جگہ بنائے گا اور اس میں طاہرالقادری کا منظم اور شدت سے یہ مطالبہ اٹھانا ایک اہم ریفرنس بنے گا۔ ویسے علامہ صاحب کے پاس بہترین راستہ یہ ہے کہ آئین کے حوالے سے غیر آئینی انداز کے انتخاب کے انعقاد سے متعلق جو سوالات انہوں نے اٹھائے ہیں، ان کو اگر وہ عدالت میں لے جائیں اور اپنی سرگرمیوں سے اس موضوع پر میڈیا کی زیادہ سے زیادہ کوریج لیں (جس کی سکت انہوں نے ثابت کردی ہے) تو موجودہ حالات میں دھرنے اور لانگ مارچ سے زیادہ موثر ہوسکتا ہے۔ اگر وہ یہ کر گزرے تو انتخابی مہم میں اسٹیٹس کو سے قدرے دور سیاسی جماعتیں اور کارکن ان کے ہمنوا بننے پر مجبور ہوجائیں گے جس کے خوشگوار نتائج ہونے والے انتخابات کے حوالے سے نکلیں گے۔

ڈاکٹر طاہرالقادری کے لانگ مارچ اور دھرنے نے جس طرح تقریباً شروع ہوئی انتخابی مہم کو سائیڈ لائن کردیا، اس نے سٹیٹس کو کے دائرے میں سرگرم سیاسی جماعتوں کو ایک مشترکہ فکر میں مبتلا کردیا۔

3۔ روزنامہ ایکسپریس 20 جنوری 2013ء (شیریں حیدر)

لانگ مارچ شروع ہوا اور اس کے لئے کیا کیا مشکلات کھڑی کی گئیں وہ میرے کالم کا موضوع نہیں۔۔۔ ڈاکٹر صاحب کو جانے کیا کیا کہا گیا۔۔۔ یہ بھی میرے کالم کا مواد نہیں کہ اس کی حمایت یا مخالفت کروں، میرے کالم کا اصل موضوع ہے عوام۔۔۔ عوام جو کہ اصل طاقت ہیں اور انہوں نے ثابت کردیا کہ وہ اصل طاقت ہیں۔ چار دن کے دھرنے میں جس ثابت قدمی کا انہوں نے اظہار کیا، جس صبرو برداشت کے ساتھ انہوں نے موسم کی سختیاں جھیلیں اور اپنے قائد کی اطاعت کی اس کی مثال اس ملک کی تاریخ تو کیا شاید دنیا کی تاریخ میں نہیں ملے گی۔ ہوتا جو یہ کسی سیاسی جماعت کا اجتماع تودنیا دیکھتی کہ کیا کیا کچھ نہ ہوتا، محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد جو کچھ کراچی میں ہوا ایسی مثال بھی شاید ہی دنیا میں کہیں ملتی ہو۔ ہر شریک شخص نے پاکستان کا پرچم اٹھا رکھا تھا اور علم ہورہا تھا کہ انہیں اس شناخت پر فخر ہے، نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے لوگوں کی باتیں سن سن کر اندازہ ہوا کہ اپنے قائد پر ان کا اعتقاد کس نوعیت کا ہے۔۔ وہ اس قائد کی پکار پر لٹنے، کٹنے اور مرنے کو بھی تیار تھے۔ مقولے ہیں جن پر عمل ہوتے ہوئے چشم فلک نے یہاں کبھی نہ دیکھا ہوگا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ایک گملا نہ ٹوٹے گا تو ایسا ہوا۔۔۔ اہلیان اسلام آباد نے ہمدردی کے جذبے سے مغلوب ہوکر جس مہمان نوازی کا مظاہرہ کیا وہ بھی ان کا ذاتی فعل اور اس مجمعے کے استقلال اور صبر کے اعتراف کی نشانی ہے جہاں عورتیں، مرد، بچے اور بوڑھے اپنے قائد کی پکار پر تیار کھڑے تھے۔

ٹریفک کو کنٹرول کرنے سے لے کر اس سارے پنڈال کی سیکورٹی کا نظام بھی ان کے اپنے ہاتھ میں تھا یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد کے کسی بھی ناکے پر ایک بھی پولیس والا نہ تھا (کسی بھی وجہ سے) مگر پھر بھی کسی قسم کا کوئی ناخوشگوار واقعہ نہ ہوا۔ لوگ اسے ڈاکٹر صاحب کی شعبدہ بازی کہہ رہے ہیں کیونکہ اب ان کے پاس کہنے کو اور کچھ نہیں ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ ایک لیڈر میں جو اہم صفات ہونی چاہئیں وہ یہ ہیں:

  • اس کے معتقدین کو اس پر یقین ہو کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے وہ درست ہے۔
  • وہ قائد کی پکار پر ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہوں۔
  • انہیں اپنے مفاد سے بڑھ کر اپنے قائد کا حکم عزیز ہو۔
  • ان کے قائد کے پاس علم بھی ہو اور قوت گفتار بھی۔

ہم اپنے اذہان سے اس واقعے کے اثرات کو کبھی زائل نہ کرسکیں گے۔ ہم نے باقی لیڈروں کے جلسے بھی دیکھے ہیں، اگر ان میں حلوے مانڈے نہ ہوں اور گانے بجانے والوں کے تین تین گھنٹے کے پروگرام نہ ہوں تو ان کا جلسہ دس منٹ میں ختم ہوجائے اور ان کے جلسوں میں سوائے الزام تراشیوں کے اور ہوتا ہی کیا ہے، نہ کوئی ایجنڈا نہ مطالبہ۔۔۔ سب ’’تو چل میں آیا‘‘ کے مقولے پر عمل کرتے ہوئے باریاں مقررکئے بیٹھے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے حکومت کو ہائی جیک کیا یا شہر کو یا ہم سب کو۔۔۔ کم از کم وہ ہمیں یہ بتاگئے ہیں کہ اگر مُردوں کی طاقت سے بلوچستان کی حکومت گرسکتی ہے تو زندہ انسان کہیں زیادہ طاقت رکھتے ہیں۔

اس شہر کی فضا۔۔۔ ہمیشہ اس تاریخی اجتماع کو یاد رکھے گی، جب تاریخ میں پرامن اور تبدیلی انگیز انقلابات کا ذکر آئے گا تو اس کا ذکر سر فہرست ہوگا۔ کسی کی ذاتی زندگی پر حملے کرنے کی بجائے اور الزام تراشیوں کے سلسلے دراز کرنے کی بجائے یہ جانیں کہ اس مارچ اور دھرنے سے ہمیں غفلت کی اس نیند سے جگانے کی کوشش کی گئی ہے ہم سب کسی ایسے معجزے کے منتظر کہ جو ہماری تقدیر بدل دے حالانکہ اقبال ہمیں بہت پہلے کہہ گئے تھے۔

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

4۔ روزنامہ نئی بات 20 جنوری 2013ء (حافظ شفیق الرحمن)

یہ کون لوگ تھے جو 16 جنوری کو دودمان شریفیہ کے ’’مہابلی‘‘ اور ’’سٹیٹس کو‘‘ کے محافظ اعلیٰ میاں محمد نواز شریف کی دعوت پر جاتی عمرہ کے عالی شان محل اور قصر مشید میں بدحواسی، سراسیمگی اور افراتفری کے عالم میں اکٹھے ہوئے۔ یہ تو کبھی باہم اکٹھے ہونے والے نہ تھے، ان میں بعد المشرقین تھا، انہیں یقینا کسی خوف اور نظریہ ضرورت نے ایک چھت کے نیچے لابٹھایا۔ یقینا یہ ایک ’’فقیدالمثال‘‘ اتحاد اور ’’عدیم النظیر اجتماع‘‘ تھا۔ مجھے تو اس مجموعہ اضداد کو دیکھ کر ہندی کا دوہا یاد آیا۔۔۔ بھان متی نے کنبہ جوڑا۔۔۔ کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا۔۔۔ یہ تو طاہرالقادری کے لانگ مارچ کو دعا دیں جس نے انہیں اکٹھا ہونے اور میاں نواز شریف کے قصر عالی شان میں انواع و اقسام کے کھانوں کی ڈشوں سے ذوق خوش خوراکی کی تسکین کا موقع فراہم کیا۔ طاہرالقادری دل ہی دل میں خوش ہوکر اختر شیرانی کا یہ شعر گنگنارہے ہوں گے:

انہیں اپنی صورت پہ یوں ناز کب تھا
مرے عشق رسوا کو اختر دعا دیں

پرانے شکاری 10 نکات کے ریشوں سے بنا ہوا اپنے تئیں جو نیا جال لے کر آئے ہیں، عوام اس جال کے ایک ایک حلقے کو بخوبی جانتے ہیں۔ عوام اب پرانے شکاریوں کے ہر ارادے، ہر حربے، ہر جال اور جال کے ہر حلقے کے تار و پود بکھیرنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ غیر جمہوری قوتوں کا راستہ روکنے کا دعویٰ کرنے والے یہ وہی جمہوری ڈکٹیٹر ہیں، جنہوں نے اپنے اپنے عہد اقتدار میں جمہوریت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ یہ لوگ عشروں سے سیاست، آئین اور جمہوریت کے نام پر عوام کا استحصال کرتے آئے ہیں۔ زر کی طاقت سے بنے ان شہ زوروں کے نزدیک اس اقدام کا مقصد مزید حصول زر ہے۔

5۔ روزنامہ نئی بات 20 جنوری 2013ء (کنور محمد دلشاد)

ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری کے ناقدین اور مخالفین کافی تعداد میں ہوں گے۔ لیکن زمینی حقائق کسی پسند یا ناپسند کے محتاج نہیں ہوتے۔ 17 جنوری کی رات کو تمام سیاسی تجزیہ کار اور اینکر پرسن قوم پر یہ ثابت کرنے کے لئے دلائل کے انبار لگارہے تھے کہ مرکزی حکومت کی دانشمندی اور ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری کی قابل تحسین استقامت اور لاکھوں افراد کے جم غفیر نے شفاف و غیر جانبدارانہ انتخابات کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ جو تاریخی اور بے مثال لانگ مارچ ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری نے منہاج القرآن کے بانی صدر کی حیثیت سے انتخابی اصلاحات کے ایجنڈے کے ساتھ شروع کیا تھا اس کا اختتام انہوں نے پاکستان عوامی تحریک کے چیئرمین کی حیثیت سے ایک اہم دستاویز پر وزیراعظم پاکستان کے ساتھ دستخط کرکے کیا۔ اس دستاویز کو اسلام آباد لانگ مارچ ڈیکلریشن کا نام دیا گیا اور اگر اس پر دیانتداری کے ساتھ عمل کیا گیا تو موجودہ اسمبلیوں کے 70 فیصد سے زیادہ ارکان خودبخود فارغ ہوجائیں گے۔ لیکن اہم ترین پیش رفت میرے خیال میں یہ ہوئی ہے کہ نگران وزیراعظم کے تقرر میں متحدہ اپوزیشن کا کردار کافی کم ہوگیا ہے اور نگران سیٹ اپ میں ڈاکٹر طاہرالقادری کا کردار سب سے نمایاں رہے گا اور ان کی پشت پر لانگ مارچ کے شرکاء کھڑے نظر آرہے ہیں اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی پاکستان عوامی تحریک پاکستان کی سیاست میں اولین کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں آگئی ہے اور عمران خان کو اس فیکٹر کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ ملک میں جاری بے یقینی کیفیت اور مختلف قیاس آرائیوں کے باوجود ڈاکٹر طاہرالقادری کے ملین لانگ مارچ کے نتائج کی روشنی میں ملک میں جمہوری نظام کی بقاء و استحکام کو فروغ ملے گا۔ دنیا بھر میں جمہوری نظام کی وسیع تر مقبولیت کی وجہ یہ ہے کہ عام آدمی کے خیال میں یہ نظام اس کے مفادات کا تحفظ کرسکتا ہے اور اسے انصاف فراہم کرسکتا ہے اور اس کی فلاح و بہبود پر بھرپور توجہ دے سکتا ہے۔ وطن عزیز میں کئی حلقوں کا تاثر یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کے نام پر جو نظام چلایا جارہا ہے وہ بعض گروہوں اور طبقوں کے استحصالی مفادات کے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ ہمارے انتخابی عمل اور نظام حکومت میں جس انداز سے آئینی شقوں کی کھلی خلاف ورزی کی گئی اس کی وجہ سے عوام کے اضطراب میں اضافہ ہوا۔

ضمنی الیکشن کے دوران الیکشن کمیشن آف پاکستان کی الیکشن قوانین، ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیاں روکنے میں ناکامی نے اس مایوسی میں اضافہ کیا ہے۔ جس سے عوام کے لئے ایسی تحریک پرکشش بن گئی ہے۔ جو انتخابی نظام کی تبدیلی کی آواز بلند کرتی ہو۔ ڈاکٹر طاہرالقادری انتخابی عمل حتی کہ نگران وزیراعظم کے نام کا اعلان کرنے میں مضبوط سٹیک ہولڈر بن چکے ہیں۔ انتخابی اصلاحات کے حوالہ سے ڈاکٹر طاہرالقادری نے مجھے جو قومی مفادات پر مبنی ذمہ داری سونپی تھی یہ میری ہی تیار کردہ انتخابی اصلاحات کی رپورٹ زیر بحث رہی۔ اس کے حوالے سے آئندہ انتخابات میں ٹیکس چوروں، ٹیکس نہ دینے والوں، بینک کے ڈیفالٹر، دوہری شہریت والوں، بے ایمان امیدواروں کو آئندہ انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی لگانے کے لئے آئین کے آرٹیکل (E) 63 اور (q) کے تحت اور عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی سیکشن 89,79 کے تحت الیکشن سے باہر ہوجائیں گے اس لئے عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی سیکشن 14 کے تحت جانچ پڑتال کا عمل 30 دنوں پر محیط کردیا گیا ہے۔ اسی طرح آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر عمل کرکے سیاسی عمل سے بہت سارا گند صاف کیا جاسکتا ہے۔ اور ڈاکٹر طاہرالقادری اس عمل کو یقینی بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ اب آئندہ الیکشن میں پارلیمنٹ کے موجودہ ارکان کی بھاری اکثریت جانچ پڑتال کے مرحلے پر نااہل ہوجائے گی اور عوام ان امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کے دوران ترقیاتی فنڈز کے نام پر اربوں روپے وصول کرنے والے لٹیروں، دھوکے بازوں اور چوروں کو پارلیمنٹ میں آنے سے روکنے کے لئے ریٹرننگ آفیسران کے سامنے اعتراضات کا انبار لگادیں گے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی ان امیدواروں کے بارے میں حکومتی اور غیر حکومتی اداروں سے جائزہ رپورٹ حاصل کرنے کا مجاز ہوگا۔

6۔ روزنامہ جنگ 19جنوری 2013ء (ارشاد احمد عارف)

آبرو مندانہ معاہدے طے پاگیا۔ سخت سردی، بارش اور دہشت گردی کے خطرے کے مدمقابل ڈٹے بچوں، بوڑھوں، عورتوں، نوجوانوں نے سنگدل حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ورنہ رحمن ملک تو لال مسجد کی تاریخ دہرانے پر مصر تھے۔ خدا واسطے کا بیر رکھنے والے سیاسی مخالفین اور قلمی ناقدین کے اس جھوٹ کی قلعی بھی کھل گئی کہ ڈاکٹر طاہرالقادری نادیدہ قوتوں کے آلہ کار اور الیکشن ملتوی کرانے کے خواہشمند ہیں۔ زندگی بھر اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر ناچنے اور اس کی چاکری کرنے والے اس کے سوا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اب کھسیانی بلی کی طرح کنٹینر نوچنے میںمصروف ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کو سیاسی و مذہبی قوتوں کی مخالفت مگر موجودہ جاگیردارانہ، سرمایہ دارانہ، اجارہ دارانہ، شقی القلب جمہوریت سے تنگ آئے عوام کی خوشدلانہ تائید و حمایت حاصل تھی تبھی تو گھر گھر میں دھرنے کے شرکاء کی سلامتی اور ڈاکٹر قادری کی کامیابی کی دعائیں کی جارہی تھیں۔ جرائم پیشہ اشرافیہ کے خلاف طاہرالقادری کا پیغام پوری قوم نے سنا اور اس بات پر داد دی کہ یہ مرد میدان نہ دہشت گردی سے ڈرا نہ حکمرانوں کے غیض و غضب سے، نہ میڈیا کہ منفی مہم سے متاثر ہوا اور نہ اس نے کسی مرحلے پر اپنے ایثار پیشہ، پرجوش اور پرعزم ساتھیوں کو قانون شکنی اور بدامنی پر مائل کیا۔ جذبوں نے طاقت اور وسائل کو شکست دی اور طاہرالقادری کو اہم سٹیک ہولڈر تسلیم کرلیا گیا۔

ڈاکٹر طاہرالقادری کی میڈیا مینجمنٹ نے ماہرین کو حیران کردیا اور سرکاری وسائل کے علاوہ لفافہ جرنلزم منہ چھپانے پر مجبور ہوئی۔ معاہدے کے بعد پاکستان عوامی تحریک کو انتخابی عمل میں شریک ہونے کا اخلاقی جواز ملا اور دھرنے کی وجہ سے اپوزیشن نے کرپشن، نااہلی، غیر ذمہ داری اور بے ضابطگی کی کیچڑ میں لت پت حکومت کو اپنا کندھا پیش کیا تاکہ وہ مضبوط پوزیشن کے ساتھ طاہرالقادری سے مذاکرات کرسکے۔ ملی بھگت اور مک مکا معلوم نہیں اس کے سوا کس چڑا کا نام ہے۔ بدھ کے روز مذہبی و غیر مذہبی اپوزیشن نے اپنا وزن ظلم، زیادتی، ناانصافی، جبر و استحصال، لاقانونیت، بدامنی اور دھن دھونس دھاندلی کے پلڑے میں ڈال کر اپنے آپ کو ایکسپوز کیا۔ طاہرالقادری کی مخالفت میں کسی کو یہ توفیق تک نہ ہوئی کہ دس نکاتی اعلامیہ میں ایک پیرا آئین کے آرٹیکل 63,62,218 پر عملدرآمد کے سلسلے میں ڈال دیتے گویا یہ سب کے سب جعلی ڈگری ہولڈرز، ٹیکس چوروں، قرضہ خوروں، جرائم پیشہ افراد پر مشتمل پارلیمنٹ کے حق میں نہیں اور انہیں موجودہ انتخابی نظام میں اصلاح سے اختلاف ہے کم از کم سید منور حسن، علامہ ساجد میر اور قاری زوار بہادر کو اس پر زور دینا چاہئے تھا۔ حضرت مولانا فضل الرحمن تو صادق و امین کی شرط کو ضیاء الحق کا تحفہ سمجھتے ہیں۔

بغض، حسد، تعصب اور شک انسان کو سوچنے سمجھنے اور درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے محروم کردیتا ہے مگر دانشمندی کا تقاضہ یہ ہے کہ طاہرالقادری کو ماضی کے بجائے حال کی روشنی میں دیکھا اور پرکھا جائے ’’یزیدوں سے مذاکرات‘‘، ’’لٹیروں سے معاہدہ‘‘، ’’حکومتی اتحاد کا حصہ‘‘ اور ’’چار نکاتی معاہدے میں ابہام‘‘ کی باتیں شکست خوردگی کی علامت ہیں۔

7۔ روزنامہ نوائے وقت 19جنوری 2013ء (قیوم نظامی)

لاریب ڈاکٹر طاہر القادری نے تندوتیز مخالف ہواؤں کے باوجود منظم پر امن اورکامیاب تاریخی لانگ مارچ کرکے سیاسی معجزہ کردکھایا ہے۔ 23 دسمبر مینار پاکستان کے عظیم اجتماع سے لیکر 17 جنوری اسلام آباد ڈیکلریشن تک کا سیاسی سفر ہماری تاریخ کا نیا سنہری باب بن گیا ہے جسے تنہا ڈاکٹر طاہرالقادری نے تحریر اور تخلیق کیا ہے۔ انہوں نے دنیا کے نوے ملکوں میں اسلامی مراکز قائم کرکے پاکستان کے ہرشہر میں تحریک مہناج القرآن کی شاخیں کھول کر اور تعلیمی ادارے قائم کرکے اور اسلامی تاریخ اور قرآن و سیرت پر سینکڑوں کتب تحریر کرکے اسلامی اور دینی مفکر کی حیثیت سے پہلے ہی منفرد مقام حاصل کرلیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب واحد مذہبی سکالر اور رہنما ہیں جنہوں نے اصل اسلام کی روح کے عین مطابق طالبان کے خودکش حملوں کیخلاف مفصل اور جامع فتویٰ دیا۔ اب انہوں نے تنہا نتیجہ خیز مثالی لانگ مارچ کرکے کامیاب سیاستدان کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوالیا ہے۔  کرپٹ سیاسی مافیا نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے لانگ مارچ کو ناکام بنانے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا۔ ان کیخلاف کردار کشی کی مہم چلائی گئی۔ ان کو بیرونی طاقتوں کا ایجنٹ قرار دیا گیا۔ ان کو پاکستانی اسٹیبلشمینٹ کے ساتھ جوڑا گیا مگروہ نامساعد حالات کے باوجود ثابت قدمی کیساتھ ڈٹے رہے۔  ان کو اپنے موقف اور ایجنڈے کی صداقت پر پورا یقین تھا۔ انہوں نے وقت کا درست انتخاب کیا۔ ان کی نیت نیک تھی خدا اور مخلوق خدا نے ان کو سرخرو کیا۔

ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلارہا ہے
وہ مرد درویش جس کو حق نے دئیے ہیں اندازِ خسروانہ

دلی مبارکباد کے مستحق ہیں وہ ہزاروں افتادگان خاک جو سخت سردی اور بارش کے باوجود لانگ مارچ میں شریک ہوئے اور خوف و ہراس کے باوجود اسلام آباد کی ٹھنڈی سڑکوں پر ڈٹے رہے۔ لانگ مارچ کے شرکاء نوجوان، بزرگ،  خواتین اور بچے حقیقی جمہوریت کے ہیرو ہیں جنہوں نے اشتعال کے باوجود مثالی نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا۔ قائداعظم نے قوم کو امن، ڈسپلن، تنظیم، اتحاد اور یقین محکم کا پیغام دیا تھا۔ لانگ مارچ کے شرکاء نے قائد کے اس پیغام پر عمل کرکے سیاسی جماعتوں کیلئے روشن ماڈل پیش کیا ہے۔  میڈیا بھی مبارکباد کا مستحق ہے جو عوام کے ساتھ کھڑا رہا۔ لانگ مارچ کے شرکاء نے پر امن رہ کر دنیا میں پاکستان کا امیج بہتر کیا ہے۔  رب کائنات کا یہ فرمان ایک بار پھر درست ثابت ہوا کہ عوام حرکت کریں تو خدا اس میں برکت ڈالتا ہے۔  لانگ مارچ کے شرکاء کی نیت نیک تھی اور ان کامقصد مقدس تھا لہذا خالق نے اپنی مخلوق کو شیطانی ہتھکنڈوں سے محفوظ رکھا اور شیطان عوام کی عدالت میں مردود ٹھہرا۔ دھرنے کے دوران ڈاکٹر طاہرالقادری کے انقلابی سیاسی خطبے یادگار رہیں گے۔ انکے آئینی اور جمہوری خطبات نے کروڑوں پاکستانیوں کے ذہنوں کو متاثر کیا۔ انہوں نے پاکستان اور عوام کا مقدمہ بڑی مہارت، آئین اور قوانین کے مستند حوالوں اور دلائل کے ساتھ پیش کیا۔ اس طرح وہ عوام کے کامیاب وکیل کے طور پر سیاسی منظر پر نمودار ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے سٹیٹس کو کے حامیوں،  کرپٹ سیاستدانوں کو عوام کے سامنے ایکسپوز کرکے رکھ دیا ہے۔ سیاسی ڈاکو چور لٹیرے پہلی بار عوام کی عدالت میں بے نقاب ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے انٹرنیشنل کمیونٹی، پاکستان کے عوام اور مقتدر قوتوں پر واضح کردیا ہے کہ وہ موجودہ حالات میں عوام کو بہتر قیادت فراہم کرسکتے ہیں۔ پر امن لانگ مارچ کی کامیابی کے بعد پاکستان کے سیاستدان اب انکے سامنے بونے لگنے لگے ہیں۔ افسوس عمران خان وقت پر سیاسی تدبر اور بصیرت کا مظاہرہ نہ کرسکے اور ایجنڈے پر متفق ہونے کے باوجود عوامی لانگ مارچ سے الگ تھلگ رہے۔ اب بھی اگر ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان انتخابی اتحاد کرلیں تو عوام کو کرپٹ سیاستدانوں سے نجات مل سکتی ہے۔

ڈاکٹر طاہرالقادری نے دہشت گردوں پر یہ ثابت کردیا ہے کہ اگر نیت نیک ہو اور مشن مقدس ہو تو جنگ امن کے ہتھیار سے بھی جیتی جاسکتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے پاکستان کے غریب عوام کو مکمل انقلاب کا راستہ دکھادیا ہے۔  اگر آنیوالے انتخاب میں ووٹ کے ذریعے عوام کا مقدر تبدیل نہ ہوا تو عوامی طاقت سے مکمل انقلاب برپا کرکے پاکستانی سیاست کا قبلہ درست کیا جائیگا۔ لانگ مارچ کی کامیابی کے بعد مکمل انقلاب کے امکانات اب روشن ہوگئے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کرپٹ مافیا کیخلاف جہاد کررہے ہیں۔ یہ کرپٹ مافیا ان کو سیاسی منظر سے ہٹانے کی کوشش کریگا۔ خدا ان کا حامی و ناصر ہو۔

جو افراد ڈاکٹر طاہرالقادری کا تمسخر اْڑاتے تھے وہ آخر کار عوامی طاقت کے سامنے سرینڈر کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے تنہا دس رکنی حکومتی وفد سے کامیاب مذاکرات کرکے اپنا مقدمہ جیت لیا اور مطالبات تسلیم کرالیے۔ اسلام آباد لانگ مارچ ڈیکلریشن اب تاریخی دستاویز بن گیا ہے جسے امن، جمہوریت، آئین، عوام اور بصیرت کی فتح سے منسوب کیا جائے گا۔

8۔ روزنامہ جنگ 19 جنوری 2013ء (ایاز امیر)

اس میں کوئی شک نہیں کہ عام پاکستانیوں کے لبوں پر دو الفاظ کا ورد جاری رہتا ہے۔۔۔ تبدیلی اور انقلاب۔۔۔ لیکن اب جب روایتی سیاست کے قلعے کو لرزہ براندام کرنے والوں نے تبدیلی کا مارچ شروع کیا تو ہم نے نہایت بے اعتنائی سے آنکھیں پھیر لیں۔ اب ایسا موقع شاید ہماری زندگی میں نہیں آئے گا۔۔۔ کم ازکم میری عمر کے لوگوں کی زندگی میں۔

کہا گیا ہے کہ اس لانگ مارچ نے جمہوریت کو داؤ پر لگادیا تھا اور ایک لمحے کو تو جمہوریت کے ناخدا اس کی کشتی کو گرداب میں دیکھ کر سینہ کوبی میں مصروف تھے۔ اس دوران لاہور میں ہونے والی ایک کانفرنس جس میں کئی علماء اور قوم کے نجات دہندہ موجود تھے، کی تصاویر دیکھ کر میرا دل ڈوب گیا۔ کیا ہم نے اسے کوئی تاریخی حقیقت سمجھ لیا ہے کہ جمہوریت میں ہی ہماری نجات ہے؟ اگر یہی افراد جمہوریت کے چیمپیئن ہیں تو پھر میرے جذبات کے لئے صحافتی زبان ناکافی ہے۔ اسی طرح کی ایک اور تصویر عاصمہ جہانگیر اور آئی اے رحمان کی ہے جب وہ پنجاب اسمبلی جس کی عمارت مخصوص شخصی رویوں کی علامت بن چکی ہے، کے سامنے موم بتیاں روشن کررہے تھے۔ واہ، میرے یہ دونوں دوست کتنے جذباتی ہورہے تھے اب ذرا لگے ہاتھوں یہ بھی بتادیں کہ جمہوریت کے خلاف وہ کون سی خفیہ سازش تھی جس کے تانے بانے ڈاکٹر قادری صاحب بن رہے تھے؟ خدا کی پناہ، وہ صرف جمہوری عمل کو شفاف بنانے اور بدعنوان، ٹیکس چور اور قرضہ معاف کرانے والے دولت مند افراد کا اقتدار میں راستہ روکنا چاہتے تھے۔ اسے جمہوریت کے خلاف سازش کیسے کہا جاسکتا ہے؟ لیکن پروفیسر صاحب پر تنقید کی بوچھاڑ جاری رہی کہ وہ کچھ خفیہ مقاصد رکھتے ہیں۔ بعض دانشوروں نے یہ بھی کہا کہ وہ بلٹ پروف کیبن میں کیوں ہیں جبکہ ان کے پیروکار باہر سخت سردی کا عذاب اپنی جان پر جھیل رہے ہیں۔ کچھ کو اس ساری کارروائی میں کوئی خفیہ ہاتھ بھی نظر آگیا جو جمہوریت کو پٹری سے اتارنا چاہتا تھا۔ جن کو کچھ نظر نہ آیا انہوں نے ان کی دہری شہریت اور ٹوپی پر تنقید کرتے ہوئے خود کو جمہوریت کا محافظ ثابت کرلیا۔

کیا کہنے اس قوم کے اس کی ریل گاڑیاں تو پٹری پر چل نہیں پاتیں کیونکہ اکثر اس حالت میں ہیں کہ اگر انہیں کوئی کباڑیہ بھی خریدلے تو غنیمت ہوگا لیکن اس نے جمہوریت کو پٹری پر چڑھائے رکھا ہے۔۔۔ اور ایسا کرتے ہوئے ان غریب عوام نے صاحب ثروت اور استحقاق زدہ طبقے کی شخصی حکمرانی کو ہی جمہوریت سمجھتے ہوئے پوری خلوص نیت سے اس کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ اس ’’کامیابی‘‘ پر وہ فخر کرسکتے ہیں۔

کچھ ذکر اس خفیہ ہاتھ کا بھی کرلیں جو ہمارے دانشوروں کو اس لانگ مارچ کی ڈور ہلاتا واضح نظر آرہا تھا۔ اب وہ کہاں غائب ہوگیا ہے؟ اگر کوئی خفیہ ہاتھ تھا اور کچھ کرنا چاہتا تھا تو کیا اس سے بہتر کوئی اور بھی موقع ہوسکتا ہے کہ ملکی دارالحکومت میں جناح ایونیو پر ہزاروں افراد احتجاجی دھرنا دیئے ہوئے ہوں؟ چنانچہ اب جب دیکھنے بہت آئے تھے تو تماشا کیوں نہیں ہوا؟ کیا اس سے مراد یہ لی جائے کہ قادری صاحب جیسا کہ ان کا خود کہنا ہے، کے پیچھے کوئی خفیہ ادارہ نہ تھا؟ میرا خیال ہے کہ ان کے ناقدین، جواب تک ہجو پڑھ پڑھ کر بے حال ہوچکے ہیں، کو یہ بات پسند نہیں آئے گی کیونکہ وہ اس کے سوا کچھ نہیں سوچنا چاہتے کہ اس لانگ مارچ کے در پردہ کوئی اور مقاصد تھے اور پروفیسر صاحب کی ڈور کسی اور کے ہاتھ تھی۔ اب جب کہ لانگ مارچ اختتام پذیر ہوچکا ہے، قادری صاحب کیا کریں گے؟ ایک بات ماننا پڑے گی کہ ان کے خطابات بہت جوشیلے تھے۔

ان کے نظریات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ اس وقت پاکستان میں ان کے پائے کا کوئی مقرر نہیں ہے۔ چنانچہ اب خفیہ ہاتھ کے خبط سے جان چھڑالیں کیونکہ 1970ء میں بھٹو صاحب کے آمریت کے خلاف نعرہ مستانہ کے بعد اگر قوم نے کسی کی موجودگی کو محسوس کیا ہے تو وہ ڈاکٹر طاہرالقادری ہی ہیں۔ دیکھیں سیاسی طبقہ کس طرح لرزہ براندام تھا اور اپنے اختلافات بھلاتے ہوئے سب کے سب ان کے خلاف یک جان نظر آئے۔ ان کے پیش نظر جمہوریت کو پٹری سے اتارنے سے روکنا نہیں تھا کیونکہ کوئی بھی ایسا کرنے نہیں جارہا تھا۔ پی ایم ایل (ن) کو اپنا خدشہ تھا کہ پروفیسر صاحب کو کسی نادیدہ طاقت نے اس لئے بھیجا ہے کہ ان کے اقتدار میں۔۔۔ جو ان کے خیال میں یقینی ہوچکا ہے۔۔۔ آنے کا راستہ روکا جائے جبکہ کانفرنس میں موجد بعض مولانا حضرات کو فکر لاحق تھی کہ طاہرالقادری صاحب ان سے کئی قدم آگے ہیں اور وہ ایک ایسی راہ پر چل نکلے ہیں جس پر چلنے کا وہ خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔ اب یہ بات طے ہے کہ یہ لانگ مارچ یادوں سے آسانی سے محو نہیں ہوگا اور یہ تصور بھی ذہن میں جاگزیں رہے گا کہ اس پر انجام یا نتیجہ کچھ اور بھی ہوسکتا تھا اور یہ سوچ کوئی معمولی تبدیلی نہیں ہے۔

9۔ روزنامہ جنگ 19جنوری 2013ء (سید انور محمود)

اگر جمعرات کا دن تناؤ آمیز تھا تو اس کی نسبت بہ حیثیت ایک پاکستانی کے جمعے کا دن میرے لئے اطمینان بخش ثابت ہوا۔ کوئی طاہرالقادری کا جتنا چاہے مذاق اڑائے مگر حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے میدان مارلیا ہے۔ انہوں نے کوئی انقلاب برپا نہیں کیا، وہ حکومت کا خاتمہ نہیں کرسکے اور حتی کہ انہوں نے انتخابات کے لئے حتمی تاریخ بھی حاصل نہیں کی مگر ایسا ممکن تھا اور نہ ہی یہ نتائج متوقع تھے۔ تاہم چار دن اور راتوں پر محیط بے نظیر دھرنے کے اختتام پر حکومت بات چیت اور مذاکرات پر آمادہ ہوگئی۔ کیوں؟ کیوں کہ طاہرالقادری ایک ایسی قوم کے جذبات کو چھیڑنے اور اس کے ضمیر کو بیدار کرنے میں کام یاب رہے جس نے اپنی امیدوں کا دامن جھاڑ دیا تھا اور اگر کوئی نظام کسی حد تک بچا بھی تھا تو وہ اس میں اپنا اعتماد کھوچکی تھی۔ طاہرالقادری نے کامیابی سے ان کے دلوں میں امیدوں کی جوت روشن کی اور خود ان کی اپنی ذات اور ملک کے بارے میں ان کے اعتماد کو بحال کیا۔ میرے نکتہ نظر کے مطابق یہ ہی وہ عوامل ہیں جو طاہرالقادری کے لانگ مارچ سے مملکت پاکستان کو حاصل ہوئے۔ وہ لاکھوں لوگوں کے جذبات کو آواز کا روپ دینے میں کامیاب رہے جب کہ اس دوران عمران خان سمیت دیگر اہم سیاسی کھلاڑیوں نے خاموشی اور ’’اسٹیٹس کو‘‘ کو ترجیح دی۔

اپنے مخالفین کی نظروں میں طاہرالقادری ایک ایسے رہنما کے روپ میں سامنے آئیں گے جنہوں نے شکست تسلیم کرلی اور اپنے پیروکاروں کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو پورا نہیں کرسکے۔ مگر ایک عام پاکستانی کے سامنے وہ اعتدال پسند جدت، تبدیلی، صاف و شفاف سیاست اور پرامن جمہوری اختلاف رائے کی ایک نئی اور مسرت بخش آواز بن جائیں گے۔ کسی نے بھی تشدد کی حمایت نہیں کی۔ کوئی نہیں چاہتا تھا کہ اسلام آباد کے جناح ایونیو پر خون بہے۔ کوئی بھی نہیں چاہتا تھا کہ بہادر خواتین اور ان کے بچے شدید ٹھنڈ اور بے رحم سرد ہواؤں کی نذر ہوجائیں اور کوئی بھی نہیں چاہتا تھا کہ آئین کی خلاف ورزی ہو اور طاہرالقادری اس بات سے واقف تھے۔ یہ صبرو تحمل اور دانش مندی تھی جو فتح یاب ہوئی۔ مگر اس صبرو تحمل اور عقلیت پسندی کے تلے ان ہزاروں مرد، خواتین اور بچوں کی استقامت اور عزم کے ستون کھڑے تھے جنہوں نے سرد ترین موسم کے علاوہ ہر نوعیت کی تکالیف اور بے آرامی کو خوش دلی سے جھیلا۔ طاہرالقادری کس طرح فتح یاب ہوئے؟ مضبوط اصطلاحات کے تحت آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت انتخابی امیدواروں کی اہلیت کی جانچ پڑتال کے لئے 30 دنوں کی مدت کا حصول ان کی فتح ہے۔ اس سے قبل الیکشن کمیشن آف پاکستان امیدواروں کی اہلیت کی جانچ پڑتال عموماً دو سے تین دن میں کرتا تھا جس کی وجہ سے جعلی ڈگری یافتہ، ٹیکس چور اور حتی کہ سزا یافتہ مجرم تک قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پہنچنے کے قابل ہوجاتے تھے۔ پاکستان کی جمہوری تاریخ میں سیاسی صفائی کی جانب یہ پہلا قدم ہے۔ طاہرالقادری نے سپریم کورٹ کے 8 جون 2012ء کے فیصلے کے نفاذ کی یقین دہانی بھی حاصل کی جس میں انتخابات کے لئے ضابطہ اخلاق کے سخت ترین نفاذ کا حکم دیا گیا تھا۔ طاہرالقادری کی سب سے اہم کامیابی جس پر تاحال سب سے کم توجہ دی گئی ہے وہ یہ حکومتی آمادگی ہے کہ اسمبلیوں اور بطور خاص قومی اسمبلی کو ان کی مدت سے کچھ دن پہلے تحلیل کردیا جائے گا۔ اس طرح عبوری حکومت کو 60 کے بجائے 90 دن کی آئینی مدت حاصل ہوگی جس کے دوران کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے لئے 30 دن کا عرصہ دستیاب ہوگا اور ایک محدود پیمانے پر حکومتی نظام کی صفائی بھی کی جاسکے گی۔

اسی طرح طاہرالقادری کو آئین کے تحت حکومت کی طرف سے عبوری وزیراعظم کے لئے حتمی طور پر دو ناموں کی تجویز کے سلسلے میں دی گئی یقین دہانی بھی مساوی اہمیت کی حامل ہے۔ اس طرح طاہرالقادری کے الفاظ میں ’’مک مکا‘‘ کے ذریعے عبوری وزیراعظم کی تقرری کے خدشے سے بھی قوم کا پیچھا چھوٹ گیا ہے۔ ابھی کوئی نہیں جانتا کہ اس پر پاکستان مسلم لیگ نواز کا کیا رد عمل ہوگا مگر حقیقت یہ ہے کہ طاہرالقادری نہ صرف میڈیا کی توجہ اور قومی شناخت کے حصول میں کامیاب رہے ہیں بلکہ انہوں نے محض چند ہفتوں کے اندر پاکستانی سیاست کے میدان میں اپنا واضح اور مضبوط مقام بنالیا ہے اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ کانسٹی ٹیوشن ایونیو سے طاہرالقادری کی واپسی سے کہانی کا اختتام ہوگیا تو اس کے لئے میر امشورہ ہے کہ وہ اپنی سوچ میں تھوڑی احتیاط کا مظاہرہ کرے۔

10۔ روزنامہ ایکسپریس 18 جنوری 2013ء (جاوید چودھری)

علامہ طاہرالقادری کا لانگ مارچ ٹھیک بھی ہیں اور کامیاب بھی۔ وقت نے ثابت کردیا یہ لانگ مارچ علامہ طاہرالقادری کی سولو فلائٹ تھی اس کے پیچھے فوج اور عالمی طاقتیں نہیں تھیں اگر فوج ان کے پیچھے ہوتی تو ایم کیو ایم اور پاکستان مسلم لیگ ق کبھی ان کا ساتھ نہ چھوڑتیں اور اسٹیبلشمنٹ کی چند دوسری جماعتیں بھی ان کی تحریک کو جوائن کرلیتیں، ایم کیو ایم اور پاکستان مسلم لیگ ق دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح شروع میں اس غلط فہمی کا شکار تھیں کہ فوج اور عالمی کھلاڑی علامہ کے ساتھ ہیں چنانچہ یہ دونوں جماعتیں والہانہ انداز سے ان کی طرف بڑھیں اور آخری دم تک ان کا ساتھ دینے کا وعدہ کرلیا لیکن لانگ مارچ کے قریب پہنچ کر انہیں اندازہ ہوا ملکی تاریخ کی سب سے بڑی جنگ میں علامہ اکیلے ہیں چنانچہ پاکستان مسلم لیگ ق نے مذاکراتی کوٹ پہن لیا جبکہ ایم کیو ایم دہشت گردی کا بہانہ بناکر پیچھے ہٹ گئی، تجزیہ کاروں اور حکومتی دانشوروں نے اس سیاسی تبدیلی پر بغلیں بجانا شروع کردیں، ان کا خیال تھا علامہ اب لانگ مارچ نہیں کرسیں گے، پنجاب حکومت بھی ایکٹو ہوگئی، پنجاب بھر کے ڈی سی اوز نے بسیں روک لیں، تحریک منہاج القرآن کے کارکنوں کو گرفتار کرلیا اور راستے بند کردیئے وفاقی حکومت نے دہشت گردی کے خوف کو لانگ مارچ کی رکاوٹ بنادیا لیکن اس کے باوجود ڈاکٹر طاہرالقادری لاہور سے نکلے، ان کے ساتھ لوگ بھی چلے، یہ لوگ اسلام آباد بھی پہنچے اور انہوں نے خواتین اور بچوں کے ساتھ شدید سردی میں چار دن دھرنا بھی دیا، پاکستان میں اس سے قبل ایسی مثال نہیں ملتی، ہمیں اس پر علامہ طاہرالقادری کو داد دینا ہوگی، علامہ صاحب کے دھرنے کے دوران کسی غیرملکی اور کسی عالمی تنظیم نے بھی ان کی تحریک کے حق میں بیان نہیں دیا آپ اس کے مقابلے میں تیونس، مصر، لیبیا اور شام کی تحریکوں کی مثال لے لیجئے ان ممالک میں جب عوام سڑکوں پر آئے یا انہوں نے دھرنا دیا تو یورپ اور امریکہ نے ان دھرنوں کو سراہنا شروع کردیا، حقوق انسانی کی عالمی تنظیموں نے بھی ان کے حق میں بیانات جاری کئے، یہ ستائش اور ان بیانات نے ثابت کیا ان چاروں ممالک میں ہونے والی ’’اپ رائزنگ‘‘ کو امریکہ اور یورپ کی حمایت حاصل تھی لیکن علامہ کے معاملے میں یورپی ممالک بھی خاموش رہے اور عالمی تنظیمیں بھی۔ یہ خاموشی ثابت کرتی ہے علامہ کو عالمی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل نہیں تھی، ہم اب آتے ہیں علامہ کے مطالبات کی طرف۔ علامہ طاہرالقادری کے مطالبات غلط نہیں ہیں۔

کیا یہ سچ نہیں پاکستان کے موجودہ الیکشن سسٹم سے صرف کرپٹ، طاقتور، ان پڑھ اور قبضہ گروپ پارلیمنٹ تک پہنچے ہیں، کیا یہ درست نہیں انتخابات کے دوران صرف وہ امیدوار سامنے آتے ہیں جو آئین کی دفعہ 62 اور 63 پر پورے نہیں اترتے اور جب ان کی اہلیت پر اعتراض کیا جاتا ہے تو اسمبلیوں کی مدت ختم ہوجاتی ہے لیکن ان کے خلاف فیصلہ نہیں ہوتا، حالت یہ ہے الیکشن کمیشن آج تک ان امیدواروں کے بارے میں فیصلے نہیں دے سکا جو 2002ء میں منتخب ہوئے تھے، وہ اسمبلیاں 2007ء میں مدت پوری کرکے ختم ہوگئیں، جنرل پرویز مشرف اور شوکت عزیز تاریخ کا حصہ بن گئے لیکن امیدواروں کی اہلیت کا فیصلہ آج تک نہیں ہوا، کیا یہ درست نہیں الیکشن کمیشن اور نگران حکومت دو بڑی سیاسی جماعتوں کا مک مکا ہے، پیپلز پارٹی اور ن لیگ فیصلہ کرے گی نگران وزیراعظم کون ہوگا اور الیکشن کمیشن کے چار ارکان کا فیصلہ بھی انہوں نے کیا اور کیا یہ درست نہیں حکومت اپنی رٹ کھوچکی ہے، کوئٹہ کی ہزارہ کمیونٹی کو انصاف کے لئے 86 نعشیں سڑک پر رکھ کر چار دن تک دھرنا دینا پڑتا ہے اور باڑہ میں مارے جانے والے 19 لوگوں کے لواحقین نعشیں لے کر گورنر ہاؤس کے سامنے پہنچ جاتے ہیں اور انہیں منتشر کرنے کے لئے پولیس اور ایف سی ہوائی فائرنگ بھی کرتی ہے اور آنسو گیس کی شیلنگ بھی، ملک میں بجلی، گیس، پٹرول، روزگار، امن، تحفظ اور انصاف دیکھنے کے لئے آنکھیں ترس گئی ہیں مگر حکومت بے حسی کا کمبل لپیٹ کر مزے سے سورہی ہے چنانچہ علامہ طاہرالقادری کی کون سے بات غلط تھی۔ کیا یہ حقیقت نہیں ان کا لانگ مارچ اور دھرنا دونوں پرامن تھے اور ان کی بات پورے ملک نے چار چار گھنٹے سنی، میں خود دو بار ان کے دھرنے میں گیا، میں نے لوگوں سے گفتگو بھی کی اور مجھے ماننا پڑا دھرنے میں علامہ کے مریدوں اور طالب علموں کے علاوہ وہ عام لوگ بھی شامل تھے جنہیں ان کے دکھ اس جلسہ گاہ تک لے آئے، یہ عام لوگ بھی علامہ کی حمایت میں نعرے لگارہے تھے، یہ لوگ اور ان کے نعرے ثابت کرتے ہیں لوگ موجودہ نظام سے مایوس ہوچکے ہیں اور ہم نے اگر اس نظام کو ٹھیک نہ کیا تو اس قسم کے لانگ مارچ ہوتے رہیں گے اور ہر آنے والا لانگ مارچ پہلے سے زیادہ بے لچک، ضدی اور شدت پسند لوگوں کو سامنے لائے گا، آپ تصور کیجئے کل اگر ایسے لوگ باہر آگئے جو شناختی کارڈ چیک کرکے گولی مارنا عین عبادت سمجھتے ہیں تو ملک کی کیا صورتحال ہوگی، ہم اس لانگ مارچ سے اس خطرے کا بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں، مجھے خدشہ ہے اگر وہ لوگ آئے تو عوام ان کے ساتھ بھی شامل ہوجائیں گے اور وہ لانگ مارچ علامہ طاہرالقادری کے لانگ مارچ کی طرح پرامن نہیں ہوگا۔

یہ لانگ مارچ کتنا کامیاب تھا اس کے لئے میں ذاتی زندگی سے دو مثالیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں میں بدھ اور جمعرات کی درمیان رات خود کمبل چھوڑ کر بیٹھ گیا اور خود کو مجرم سمجھنے لگا مجھے اس ایک لمحے نے لانگ مارچ میں شامل ہر بچے اور ہر خاتون کا مجرم بنادیا، میں بزدل شخص ہوں، اگر میں تھوڑا سا بہادر ہوتا تو میں اپنے دونوں کمبل لے کر اسی وقت دھرنے میں شامل ہوجاتا کیونکہ میں نے اس وقت اندازہ لگایا یہ علامہ طاہرالقادری کا دھرنا نہیں۔ یہ پاکستان کے ہر شہری کو اس دھرنے میں شریک ہونا چاہئے تھا، دوسری مثال میری بوڑھی والدہ اور والد ہیں، یہ دونوں پانچ دن تک ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھے رہے، یہ دونوں بار بار دھرنے میں شریک ہونے کی ضد کرتے تھے اور میرے خاندان نے دروازے پر تالا لگاکر انہیں روکا۔ یہ دونوں عام اور ان پڑھ لوگ ہیں، یہ علامہ طاہرالقادری سے واقف نہیں ہیں، انہوں نے کبھی علامہ صاحب کی کوئی کتاب پڑھی اور نہ ہی ان کی تقریر سنی، لیکن جب انہیں دھرنے میں شامل خواتین اور بچے نظر آتے تو یہ بے تاب ہوجاتے، یہ لوگوں کے تاثرات کو سچا اور ان کے مسائل کو حقیقی سمجھتے تھے اور یہ علامہ طاہرالقادری کے ایجنڈے سے بھی اتفاق کرتے تھے، یہ دونوں مثالیں ثابت کرتی ہیں ہمارے باہر کا موسم بدل چکا ہے اور ہم اندر بیٹھے لوگوں نے اگر اس موسم کی شدت کو محسوس نہ کیا، ہم نے اگر مسائل کا حل تلاش نہ کیا تو کوئٹہ سے لے کر اسلام آباد تک لوگ نعشیں سڑکوں پر رکھ کر بیٹھے ہوں گے اور ان میں سے کسی ایک نعش کا وارث اٹھ کر کفن کو جھنڈا بنالے گا اور اس پورے ملک میں ہمیں اس شخص کو روکنے والا نہیں ملے گا، علامہ طاہرالقادری کا لانگ مارچ اس صورتحال کا الارم تھا، ہمیں اس الارم پر آنکھ ضرور کھولنی چاہئے ورنہ دوسری صورت میں ہم دو، دو کمبلوں والے لوگ آنکھ کھولنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ یہ علامہ طاہرالقادری کا لانگ مارچ نہیں تھا، یہ عام پاکستانی کا لانگ مارچ تھا اور یہ عام پاکستان اگلے لانگ مارچ میں اپنے سارے بچے لے کر باہر آجائے گا اور اس وقت تک واپس نہیں جائے گا جب تک انہیں محروم رکھنے والے لوگ دنیا سے رخصت نہیں ہوجاتے۔

11۔ روزنامہ جنگ 17 جنوری 2013ء (ارشاد احمد عارف)

بے سروپا الزامات، گمراہ کن پروپیگنڈے، حوصلہ شکنی کی منظم مہم، دہشت گردی کے خطرات اور خون کو منجمد کرنے والی شدید سردی میں چار روز سے جاری دھرنا پامردی، استقامت اور نظم و ضبط کا ایسا مظاہرہ ہے جس کی داد اگر ہم اپنے تعصبات اور گروہی مفادات کی بناء پر نہیں دے سکتے تو کم از کم سنگ زنی سے گریز کرنا چاہئے یہ ایثار پیشہ لوگ تعریف و اعتراف کے مستحق ہیں۔ چند سو کی جلسی کے دوران ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہونے، قیمے کے نانوں پر لڑنے اور میڈیا کے کیمرے، ٹریفک کے سگنلز اور دکانوں کے شیشے توڑنے والے کارکنوں پر ناز کرنے والی جماعتوں کو غور کرنا چاہئے۔ انہوں نے برسوں تک اپنے کارکنوں اور عوام کا مزاج کس قدر بگاڑا اور ان تمام کی تنقید و کردار کشی کا ہدف بننے والے ایک ’’کینیڈین پلٹ‘‘ لیڈر نے اپنے کارکنوں، پیروکاروں اور عوام کو کیا سبق دیا۔

کم و بیش ایک لاکھ افراد کا مطالبہ کیا ہے؟ الیکشن کمیشن کو مضبوط کرنا کہ وہ امیدواروں کی جانچ پڑتال کے دوران ٹیکس چوروں، قرضہ خوروں، بدنام زمانہ لٹیروں، جھوٹوں، خائنوں اور جعلی ڈگری ہولڈرز کو انتخابی عمل سے خارج کرسکے۔ موجودہ حکومت نے ملک کی معیشت کو تباہ اور سیاسی و سماجی ڈھانچے کو برباد کردیا ہے۔ قومی سلامتی اور آزادی خطرے میں ہے رٹ آف سٹیٹ، غائب اور بری حکمرانی کی وجہ سے عام آدمی کا جینا محال ہوگیا ہے اس لئے موجودہ حکومتوں اور اسمبلیوں کو تحلیل کرکے ایک غیر جانبدار، غیر متنازعہ اور اہل نگران حکومت قائم کرکے شفاف انتخابات کرائے جائیں۔ ان میں سے کوئی مطالبہ ناجائز، غیر قانونی اور خلاف آئین نہیں۔ مگر موجودہ جعلی شقی القلب جمہوریت کے سارے ٹھیکیداروں میں کھلبلی مچ گئی اور انہوں نے صف بندی کرلی ہے۔ ہر فرعون، نمرود، قارون اور یزید پر کپکپی طاری ہے اور سب کو اپنا اقتدار ڈولتا اور حرام کی لوٹی ہوئی دولت ڈوبتی نظر آرہی ہے۔ طاہرالقادری کے عیب سب کو نظر آرہے ہیں۔ اپنے گھناؤنے قومی جرائم پر کسی کی نگاہ نہیں۔

12۔ روزنامہ نئی بات 17 جنوری 2013ء (کنور محمد دلشاد)

آئین کے مطابق انتخابات کرانے کی باتیں اس لئے پوری ہوتی نظر نہیں آرہیں کہ قوم مختلف طبقات میں تقسیم ہوچکی ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے موجودہ بوسیدہ اور بیمار سیاسی نظام کے خلاف جدوجہد شروع کی تو پاکستان کی بڑی اور درمیانی درجے کی سیاسی پارٹیوں، سول سوسائیٹیوں، وکلاء کے ایک فورم نے اپنے اپنے مفادات میں ایسے ہی تجزیئے اور فتویٰ جاری کئے جس طرح یزید نے امام حسین علیہ السلام کو قتل کرنے کے لئے ان ہی جیسے اس وقت کے مذہبی رہنماؤں کی خدمات حاصل کیں جنہوں نے قتل حسین علیہ السلام پر فتویٰ صادر کردیئے تھے کہ وہ خلافت کے خلاف خروج کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کی سالمیت شدید خطرے میں ہے اور 18ویں ترمیم کے بعد ویسے ہی ملک فیڈریشن سے کنفیڈریشن میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی پیش رفت یہی ہے کہ ملک میں آئین اور قوانین کے تحت انتخابات کرائے جائیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری تبدیلی کے نشان کے طور پر خود کو منوالیں گے۔ پاکستان میں ہر طرف کرپٹ افراد اور کرپشن کا راج ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری انتخابی اصلاحات کے حوالے سے عوام کے شعور کو اجاگر کرنے میں بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہورہے ہیں۔

13۔ روزنامہ نئی بات 16 جنوری 2013ء (حافظ شفیق الرحمن)

زرد و سیم کے پجاری اور حرص و ہوس کے بندے جن کے پیٹوں میں ہر 5 سال بعد جمہوریت کے تسلسل کے نام پر نہ ختم ہونے والے مروڑ اٹھتے ہیں اور میدان انتخابات میں نئے وعدوں اور نئے نعروں کے خوشنما جال لے کر لوٹی ہوئی قومی دولت کے بل بوتے پر اترتے اور سادہ لوح عوام کو بے وقوف بناکر ان کے ووٹوں پر شب خون مارتے اور آئیں کے آرٹیکل 62 اور 63 کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ایوان اقتدار پر قابض ہوجاتے ہیں۔۔۔ زرو سیم کے یہ پجاری۔۔۔ حرص و ہوس کے یہ بندے۔۔۔ اور۔۔۔  جعلی جمہوریت کے بت خانے کے یہ پروہت۔۔۔ ان دنوں ڈاکٹر طاہرالقادری کے خلاف متحدہ محاذ بنائے ہوئے ہیں۔ سیل ساحل شکن کے خلاف خس و خاشاک کے متحدہ محاذ کی وقعت کیا؟ وہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے حقیقی جمہوریت کی بازیابی، آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی، پاکستانی تاریخ کی سب سے بڑی عدالت انصاف کے فیصلوں پر عملدرآمد اور بنیادی انسانی حقوق کی بحالی کے مطالبے پر آتش زیرپا ہیں۔۔۔ ان کا غم و غصہ دیدنی ہے۔ ان کی زبانیں شعل اُگل رہیں، چہرے غصے سے دہک رہے، دماغ حسد میں ہنڈیا کی طرف ابل رہے اور آنکھیں انگارے برسا رہی ہیں۔ وہ سرتاپا اس شعر کی مجسم تصویر بن چکے ہیں۔

کباب سیخ ہیں ہم کروٹیں ہر سو بدلتے ہیں
جو جل اٹھتا ہے یہ پہلو تو وہ پہلو بدلتے ہیں

ڈاکٹر طاہرالقادری کی للکار سے ان کے سینوں میں ان کے دل یوں کانپ رہے ہیں جیسے گہرے کنویں میں ڈول کی رسیاں تھرتھراتی ہیں۔۔۔ حالانکہ وہ تبدیلی انقلاب اور اصلاحات چاہتے ہیں۔۔۔ تبدیلی، انقلاب اور اصلاح یہ وہ الفاظ ہیں جو بوسیدہ، گلے سڑے، استحصالی، ظالم اور دقیانوسی نظام کے محافظوں کے محلات اور کاشانوں کے لئے پیام تباہی ہیں۔

مقام حیرت ہے کہ لٹیرا سیاسی عناصر کا ایک موروثی گینگ، انتخابات کے انعقاد کے نام پر کئی مرتبہ سادہ لوح عوام کی معصومیت کا استحصال کرچکا ہے۔۔۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے نعرہ رستخیز کے بعد اس گینگ کے ایک ایک فرد کے اصل چہروں سے مکر، ریا، فریب، دغا اور خدع کے گھونگھٹ، پردے، حجاب اور نقاب الٹ چکے ہیں، عوام ان کا خونخوار بھیانک روپ دیکھ چکے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ یہ لٹیرے اس ملک کی ایک فیصد رولنگ بھی ایلیٹ بن چکے ہیں۔ ان کی اولین ترجیح قومی خزانے کو لوٹنا، مغربی ممالک میں جائیدادیں، کاروبار اور اثاثے بنانا۔۔۔ اور۔۔۔ سوئس بینکوں میں اپنے کھاتوں کی تعداد بڑھانا ہے۔ انہوں نے سیاست، پارلیمان اور ایوان ہائے اقتدار پر غاصبانہ اور غیر قانونی قبضہ کررکھا ہے۔ لٹیرا مافیا کے گاڈ فادرز 2 بڑی سیاسی جما عتوں کے سربراہ بن کر عوامی، قومی اور ملکی وسائل کو اندر خانہ مک مکا کرکے طلوع تاریخ سے قبل کی سمندری بلاؤں کی طرح ہڑپ کرچکے۔۔۔ ہضم کرچکے۔۔۔ اور۔۔۔ ڈکار چکے۔ عام آدمی غریب سے غریب تر اور لٹیرا سیاسی مافیا امیر سے امیر تر بن رہا ہے۔ 1990ء میں اگر ان کے کل اثاثوں کی مالیت 12 کروڑ تھی تو آج 22 سال بعد 12کھرب ہوچکی ہے۔ یہ خوش ہیں کہ انہیں۔۔۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔۔۔ روکنے والا اور ٹوکنے والا نہیں۔

اب کوئی پوچھے کہ کیا ڈاکٹر طاہرالقادری نے یہ مطالبہ کرکے کہ ’’انتخابات سے قبل امیدواروں کی اہلیت کی چھان بین کے لئے نظام وضع کیا جائے‘‘ کسی سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہے؟ کیا یہ غیر آئینی مطالبات ہیں؟ ڈاکٹر صاحب نے سیاست کی متعفن، ساکن، غیر متحرک اور کائی زدہ جھیل میں کنکر پھینک کر اس کنارے سے اس کنارے تک ارتعاش پیدا کردیا ہے اور جھیل کی سطح سے پاتال تک اس کی آلودگی کو نمایاں کردیا ہے۔ اس جرات و بے باکی نے سٹیٹس کو کی پیداوار اور رکیک و غلیظ،  ناکارہ و فرسودہ، لوٹو کریسی کے محافظ، جمہوریت نما موروثیت۔۔۔ بدعنوانیوں، بے قاعدگیوں اور بے ضابطگیوں کے ستونوں پر قائم نظام کے پرستاروں کے محلات کی بنیادوں پر کوہ افگن زلزلے کی ضربیں رسید کردی ہیں۔ سٹیٹس کو کی پیداوار اور دقیانوسی نظام کے پرستار جھنجھلاہٹ اور بوکھلاہٹ کے عالم میں ڈاکٹر صاحب پر بے بنیاد ہذیانی الزامات عائد کررہے ہیں۔

حکومت کے گھوڑے پر سوار زرداری اینڈ کمپنی مل کر بھی اتنا بڑا اجتماع کرسکتی ہے جو ڈاکٹر طاہرالقادری نے ایک شارٹ نوٹس پر کردکھایا۔ المیہ تو یہ ہے کہ اس ملک میں ڈکٹیٹروں کی باقیات جمہوریت کی چیمپین بنی پھرتی رہیں۔۔۔ اور۔۔۔ بنی پھرتی ہیں۔۔۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ اس وقت ڈکٹیٹر ایوب خان کے معنوی فرزند بھٹو کے داماد مملکت پاکستان کے اقتدار پر براجمان ہیں اور پیپلز پارٹی اقتدار میں ہے جبکہ حزب اختلاف کی قیادت آمر ضیاء الحق کے چہیتے میاں محمد نواز شریف کررہے ہیں۔ گویا ادھر بھی ڈکٹیٹر کی باقیات فروکش ہیں اور ادھر بھی ڈکٹیٹر کے حاشیہ بردار فرینڈلی اپوزیشن کا ناٹک رچائے ہوئے ہیں۔ جس جمہوریت کے چیمپئین ڈکٹیٹروں کی باقیات ہوں، کیا ان سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ حقیقی جمہوریت کے قیام و استحکام کے لئے کبھی سنجیدہ مساعی بروئے کار لائیں گے؟ صاحبو! اس تناظر میں ڈاکٹر طاہرالقادری کا یہ کہنا کہ دونوں سیاسی جماعتوں نے مک مکا کررکھا ہے، کوئی ایسا غلط بھی نہیں۔ بظاہر یہ دونوں بڑی جماعتیں، ان کے رہنما اور ان رہنماؤں کے ’’ہائرڈ‘‘ پیروکار ڈاکٹر طاہرالقادری کے اس نعرہ مستانہ سے سراسیمہ ہیں کہ ’’مک مکا مافیا کا دور گزر چکا اور میں حقیقی جمہوریت کی بحالی اور بازیابی کے لئے میدان عمل میں اترا ہوں‘‘۔

14۔ روزنامہ دنیا 16 جنوری 2013ء (عدنان عادل)

طاہرالقادری صاحب کے ایجنڈے کے بارے میں خدشات اپنی جگہ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہزاروں لوگوں کو گھروں سے نکال کر سڑکوں پر لانا کوئی آسان کام نہیں۔ یہ ان کی مقبولیت اور بے پناہ انتظامی صلاحیتوں کا عکاس ہے۔ طاہرالقادری کی ایک اور بڑی صلاحیت ان کی پراعتماد شخصیت اور زور خطابت ہے جس سے وہ لوگوں میں نئی روح پھونک کر انہیں میدان عمل میں کود پڑنے کے لئے تیار کردیتے ہیں۔ ایسی خطیبانہ صلاحیت پاکستان کے کسی اور رہنما میں شاید ہی موجود ہو۔ جو لوگ ان کے مالی ذرائع کے بارے میں سوالات کررہے ہیں وہ یہی سوالات آصف زرداری اور نواز شریف سے کیوں نہیں کرتے؟ اتنی کھلم کھلا تنقید ان جماعتوں اور تنظیموں پر تو نہیں ہوتی جو شہروں میں سر عام بھتے وصول کرتی ہیں۔ جو لوگ نام لے لے کر طاہرالقادری پر تندو تیز حملے کررہے ہیں انہیں معلوم ہے کہ طاہرالقادری یہ برداشت کرلیں گے کیونکہ ان کے پاس دہشت گردی کا نیٹ ورک نہیں ہے۔ کیا یہ لوگ دہشت گرد تنظیموں کا نام لے کر ایسی سر عام تنقید کرسکتے ہیں؟ ہر گز نہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ جس طرح طاہرالقادری کو مطعون کررہے ہیں انہوں نے طالبان اور ان کے رہنماؤں پر بالواسطہ طور پر بھی ایسی تنقید نہیں کی حالانکہ یہ لوگ کھل کر جمہوریت کو کفر کا نظام قرار دیتے ہیں۔ طاہرالقادری نے تو جمہوریت کی کبھی مخالفت نہیں کی وہ تو اس کی خرابیوں کی اصلاح کرکے بہتر اور زیادہ جمہوری نظام لانے کی باتیں کررہے ہیں۔

طاہرالقادری پنجاب میں واحد سیاسی رہنما کے طور پر سامنے آئے ہیں جن کا طالبان اور انتہا پسندی کے خلاف ایک واضح اور دو ٹوک موقف ہے۔ اسی دلیرانہ موقف کی وجہ سے دہشت گردوں نے ان کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں اور وہ مناسب موقع آنے تک کینیڈا میں مقیم رہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے اعتدال اور امن پسند ملکوں کی ہمدردیاں بھی ان کے ساتھ ہیں۔ اگر نئے فوجی ڈاکٹرائن کے تحت پاکستان کی مسلح افواج دہشت گردوں کے خلاف بڑی کاروائی کرتی ہیں تو طاہرالقادری اور ان کے اتحادی فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہونگے۔ پاکستان کے انتہائی تاریک اور سنگین حالات میں طاہرالقادری اعتدال پسند مسلمانوں کے لئے روشنی کی ایک کرن بن کر سامنے آئے ہیں۔

15۔ روزنامہ نئی بات 15 جنوری 2013ء (فرخ سہیل گوئندی)

لاہور سے روانہ ہونے والے پرامن مظاہرے، جس کی قیادت ڈاکٹر طاہرالقادری کررہے ہیں، کا اتنا خوف ہے کہ اسلام آباد کی مختلف شاہراہوں کو کنٹینرز لگا کر بند کردیا گیا ہے اور اس عمل نے پاکستان کے دارالحکومت کو بے آباد کرنے کے ’’شان دار عارضی اقدامات‘‘ کردیئے ہیں۔ اسلام آباد میں ان دنوں عجیب Panic ہے۔ پیٹرول ناپید، شہری ہراساں۔ دوسرے شہروں سے آئے شہری جمعہ کی شب تک واپس اپنے اپنے شہروں جانے کی دوڑ میں لگے ہوئے تھے۔ ہفتہ کی صبح تک اسلام آباد میں ایسے بیشتر شہری اسلام آباد کو خالی کرچکے تھے اور یوں اسلام آباد، ڈاکٹر طاہرالقادری کے خوف سے خالی کیا جاچکا ہے۔ جب 13 جنوری کو ڈاکٹر طاہرالقادری کا قافلہ روانہ ہوا تو لاہور اور جن راستوں سے ان کے قافلے گزر رہے ہیں، وہاں موبائل سروسز جیم کردی گئی ہیں۔

یہ کیسے غیر محفوظ حکمران ہیں جو بلاک کی گئی سڑکوں کے بعد اپنے ایوانوں میں محبوس ہونے پر مجبور ہورہے ہیں۔ ریڈزون وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں میں قائم ہیں یعنی ہمارے حکمران ’’حفاظتی حصاروں‘‘ میں رہ رہے ہیں تاکہ پرامن مظاہرین بھی ان تک نہ پہنچ سکیں۔ یہ کس قدر کمزور (Fragile) حکومتیں ہیں جو پہلے خودکش حملہ آوروں سے غیر محفوظ تھیں اور اب آئینی شقوں کے مطابق عوامی حقوق کا مطالبہ کرنے والوں سے خائف ہیں۔ قطع نظر یہ کہ مطالبہ کرنے والا کون ہے، اہم بات یہ ہے کہ وہ پرامن ہیں اور غیر مسلح تو خوف کس بات کا۔ کچھ تو ہے کہ اس احتجاج پر پاکستان کے تمام حکمران، جاگیردار، سرمایہ دار، نودولتیے اور ان کی دولت سے مستفید ہونے والے دانشور اس پرامن احتجاج کا تمسخر اڑا رہے ہیں۔ ڈر یہ ہے کہ یہ احتجاج اگر پھیل جاتا ہے تو یقینا اس آگ سے مصنوعی حکمران طبقات جھلس سکتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کا خفیہ ایجنڈا کیا ہے، اس بارے میں وہ دانشور ہی بہتر جانتے ہیں جو ان کے پیچھے کسی طاقت کی پشت پناہی کے شک میں گرفتار ہیں۔ لیکن یہ حقیقت تو عیاں ہے کہ وہ جو مطالبات کررہے ہیں وہ آئینی دائروں اور عوامی حقوق کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان کا جس طرح تمسخر اڑایا جارہا ہے، یہ رویہ بھی ہماری جاگیردارانہ اور ذات پات میں گندی ثقافت کا آئینہ دار ہے۔ کبھی کسی نے ہمارے حکمرانوں کی حقیقی زندگیوں کو گہرائی سے دیکھا؟ اگر ذرا توجہ دیں توان سے بڑے مسخرے کہیں نہیں ملیں گے۔

16۔ روزنامہ جنگ 12جنوری 2013ء (ارشاد احمد عارف)

ڈاکٹر طاہرالقادری کے اصلاحاتی ایجنڈے میں کونسا نکتہ غیر آئینی، غیر قانونی ہے آج تک کسی حکمران نے بتایا نہ کوئی آئینی و قانونی ماہر تلاش کرسکا۔ الزام تراشی اور کردار کشی البتہ سب نے کی۔ کوئی دلیل نہ سوجھے تو عموماً گالی دی جاتی ہے اور ڈاکٹر طاہرالقادری کو گالیاں بہت پڑیں۔

قومی اور صوبائی حکومتوں کو اگر واقعی عوام کی فکر ہے، طاہرالقادری کی جان عزیز اور لاہور و اسلام آباد کے شہریوں کی تکالیف کا احساس ہے تو انہیں نام نہاد جمہوری نظام کی بقاء و استحکام میں دلچسپی ہے تو تین ہفتے گزر جانے کے باوجود اب تک حکومت نے فرینڈلی اپوزیشن سے مل کر آئین کے آرٹیکل 218 کے تحت منصفانہ، آزادانہ، غیر جانبدارانہ اور دیانتدارانہ شفاف انتخابات کی یقین دہانی کیوں نہیں کرائی، دفعہ 62,63 کی رو سے بددیانت، بدنام، ٹیکس چور، قرضہ خور، عادی نادہندگان اور غنڈے بدمعاش امیدواروں کی روک تھام کے لئے الیکشن کمیشن کو بااختیار کیوں نہیں بنایا، جو ہرگز مشکل کام نہ تھا تاکہ لانگ مارچ ہو نہ کسی کی جان و مال کو خطرہ اور نہ جمہوری نظام کے ڈی ریل ہونے کا اندیشہ باقی رہے۔ مگر ٹھگ اور نو سر باز اشرافیہ کو چونکہ دھن، دھونس، دھاندلی کا یہی نظام سازگار ہے اس لئے نہ تو کسی نے طاہرالقادری سے مذاکرات کی ضرورت محسوس کی نہ از خود قدم اٹھایا اور نہ عوامی جذبات و احساسات کو اہمیت دی۔ پٹرول پمپ اور سی این جی سٹیشنز کی بندش، ٹرانسپورٹروں کو ڈرانے دھمکانے، پیشگی واپس کرانے اور عوام کو بم دھماکوں کا ڈراوا دے کر لانگ مارچ ناکام بنانے کی موجودہ سٹریٹجی سے تو حکمرانوں کی بوکھلاہٹ ظاہر ہورہی ہے۔

17۔ روزنامہ نئی بات 12 جنوری 2013ء (فرخ سہیل گوئندی)

ڈاکٹر طاہرالقادری کی آمد کے بعد پاکستان کی سیاست کو ان کے 23 دسمبر کے جلسے اور اب 14 جنوری کو ان کے اسلام آباد کی طرف مارچ کے حوالے سے دیکھا جارہا ہے۔ 23 دسمبر کا جلسہ موجودہ دنوں کی سیاست میں سنگ میل ہے۔

طاہرالقادری، پاکستان میں اپنی فلاحی تنظیموں کا ہی وسیع نیٹ ورک نہیں رکھتے بلکہ مذہبی حوالے سے ان کی وسیع Following بھی ہے۔ جب ملک کی بڑی بڑی سیاسی جماعتیں، حقیقی سیاسی نظریاتی بنیادوں سے ہٹ جائیں اور وہ شخصیات اور حقیقی سیاسی ایشوز کی بجائے سطحی قانونی آئینی حکمرانی کی بحثوں میں الجھ چکی ہوں تو ایسے میں وہ قوتیں اس خلا کو پر کردیتی ہیں جو زیادہ منظم ہوں اور ریڈیکل سیاسی و سماجی دعوے کریں۔ منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے جلسے میں شامل لوگ سیاسی بھی تھے اور اپنے قائد سے مذہبی عقیدت بھی رکھتے ہیں اور اس پلیٹ فارم پر ڈاکٹر طاہرالقادری نے جو تقریر کی وہ خاندانی اور شخصیت پرستی کی سیاست سے مبرا ہی نہیں تھی بلکہ اس تقریر میں انہوں نے حکمران طبقات اور اشرافیہ کو بھی چیلنج کیا۔ انہوں نے اس تقریر میں آئین کے آرٹیکل تین کے عمل درآمد پر بھی زور دیا جس پر پاکستان کے کسی بھی سیاست دان اور رہنما نے کبھی بات ہی نہیں کی، آئین کی یہ وہ شق ہے جس کے تحت پاکستان میں درمیانے اور محنت کش طبقات کے حقوق کو تحفظ دیا گیا ہے۔ اس شق کے تحت جاگیرداری اور سرمایہ داری کے شکنجوں کو قانونی دائروں میں رہ کر توڑا جاسکتا ہے۔ علامہ طاہرالقادری کی تقریر اور جلسے نے انتخابات کے قبل فیصلوں کو بھی متاثر کرنے کی کوشش کی ہے۔ جہاں ایک طرف سونامی برپا کرنے والے ورطہ حیرت میں ہیں اور وہ اس تقریر کی مذمت کررہے ہیں نہ ہی حمایت، اسی طرح دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ (ن) نے کھل کر ڈاکٹر طاہرالقادری کی مذمت کا سلسلہ شروع کردیا۔ 23 دسمبر کے بعد پاکستان میں ایک ایسے مذہبی رہنما کی آمد ہوئی ہے جو دہشت گردی اور خودکش حملوں کی مذمت کرتا ہے۔

میں اپنے ملک کے معروف اور سینکڑوں تجزیہ نگاروں سے بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ 23 دسمبر کے بعد انہوں نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے بارے میں جس تضحیک بھرے انداز میں مقابلے میں آکر مزاح کرنے کی دوڑ لگائی ہوئی ہے، اس سے اجتناب برتیں۔ اہل قلم پر لازم ہوتا ہے کہ معاشرے میں احترام آدمیت کی ثقافت پیدا کی جائے۔ اختلاف بنیادی حق ہے اور مزاح زندگی کی علامت لیکن مزاح جب تضحیک آدمیت کے دائروں کو چھو جائے تو تشدد جنم لیتا ہے۔ تصور کریں اگر ڈاکٹر طاہرالقادری کے لوگ خدانخواستہ بندوق اٹھالیں تو پھر یہ تجزیہ نگار یہی زبان استعمال کریں گے جو مزاح کے نام پر تحریروں میں استعمال کی جارہی ہے؟ کیا یہ تجزیہ نگار، پاکستان کے کسی مسلح گروہ کے بارے میں یہ زبان استعمال کرسکتے ہیں؟ خدارا، بکھرتے سماج کو جوڑنے کی ضرورت ہے۔ اہل قلم اور تجزیہ نگاروں کو چاہئے کہ احترام آدمیت کی ثقافت کو پروان چڑھائیں۔ ان پر سیاسی قیادت سے کہیں زیادہ ذمہ داریاں ہیں۔ اسلام آباد میں 14 جنوری کو ڈاکٹر طاہرالقادری کا مارچ ایک اہم موضوع ہے اور حساس صورت حال بھی۔ اس کے سیاسی اور سماجی پہلوؤں کا احتیاط اور ذمہ داری سے تجزیہ کیا جانا چاہئے۔

18۔ روزنامہ جنگ 12 جنوری 2013ء (ایاز امیر)

قادری صاحب کا لانگ مارچ کامیاب ہو یا ناکام، اس نے پژمردگی دور کرتے ہوئے ایک پرلطف تحریک تو پیدا کردی ہے اور اب صورت حال یہ ہے کہ وفادار چاہے زرداری صاحب کے ہوں یا پنجاب کے جوان ہوں، ان کو الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے سراسیمگی کے عالم میں بھاگ دوڑ کرتے دیکھنا کوئی معمولی تفریح نہیں ہے۔ ان کی پریشانی کی داد دینے کو دل چاہتا ہے کیونکہ ان کو اس فکر نے ہلکان کیا ہوا ہے کہ آخر ڈاکٹر قادری کے پیچھے کون ہے اور کس نے ان کو کینیڈا کے آسمانوں سے اس دھرتی پر ناگہانی نزول کے لئے کمربستہ کیا ہے۔۔۔ کیا وہ نادیدہ ہاتھ ہمارے دفاعی اداروں کا ہے، یا اس کار گزاری کے پیچھے سی آئی اے یا ایم 16، یا کوئی اور عالمی تنظیم ہے؟ کتنی پریشانیوں نے بے چاروں کو گھیرا ہوا ہے اب ہوسکتا ہے کہ مارچ کا انجام کار کچھ بھی نہ ہو۔۔۔ اگرچہ ہمیں پہلے سے ہی کوئی نتیجہ اخذ نہیں کرلینا چاہئے۔۔۔ ایک بات طے ہے کہ اس نے پاکستانی سیاست کے گدلے پانی میں کچھ ارتعاش پیدا کردیا ہے اور اس خدمت پر پاکستانی قوم قادری صاحب کی مشکور ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے قائدین قادری صاحب کی آمد کو اپنے اوپر حملہ تصور کررہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ طاہرالقادری کو اس لئے ’’کسی‘‘ نے بھیجا کہ پنجاب میں پی ایم ایل (ن) کی مقبولیت کے قلعے میں دراڑیں ڈالتے ہوئے اسے تیسری مرتبہ حکومت سازی سے روکا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ترجمان بری طرح برا فروختہ نظر آتے ہیں۔

تاسف کا اظہار بھی کیا تھا۔ بے شک اس وقت امریکی اور برطانوی میڈیا نے کوئی جان نہ دکھائی اور حکومتی موقف کو حرف بحرف تسلیم کرلیا لیکن اس جنگ کے خلاف کچھ آوازیں سنائی دیتی رہیں۔ اس وقت کی امریکی اور برطانوی قیادت پر طنز اور تنقید کے نشتر چلائے گئے لاکھوں افراد نے سڑکوں پر مارچ کیا لیکن کسی نے اس طرز عمل کو جمہوریت پر حملہ قرار نہیں دیا۔ کسی نے نہیں کہا کہ ان افراد کا ’’کالعدم کے جی بی‘‘ سے تعلق ہے اور یہ جمہوریت کو پٹری سے اتارنا چاہتے ہیں۔ یہ بحث چلتی رہی اورمسٹر بش دوسری مدت کے لئے بھی صدر منتخب ہوگئے۔ اب قادری صاحب کیا کہتے ہیں؟ یہی کہ وہ نظام میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔۔۔ ملک کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے علاوہ ہر کسی کو کوئی بھی بات کرنے کا حق ہے۔

چنانچہ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ سیاسی پنڈت کس بات سے خائف ہیں؟ ہوسکتا ہے کہ انہیں کسی ایسی بات کا علم ہوچکا ہو جس سے ہم عوام بے خبر ہیں۔ ایسی صورت میں جب کہ کوئی گمبھیر مسئلہ درپیش ہے تو انہیں قوم کو اعتماد میں لینا چاہئے یا پھر ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی نااہلیوں کی وجہ سے اتنے گھبراگئے ہوں کہ مقابلہ شروع ہونے سے پہلے ہی ڈر گئے ہیں۔ قادری صاحب کے خلاف انہوں نے سب سے پہلے جس ہتھیار کا استعمال کیا وہ طنز تھا۔ ان کو شرمندہ کرنے کے لئے ان کا ماضی یاد دلایا گیا کہ کس طرح ان کا طرز عمل تضادات کا مجموعہ رہا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ جو بلبلے وہ چھوڑ رہے ہیں وہ حقائق کی ہوا کے ایک جھونکے سے پھٹ جائیں گے۔ سچی بات یہ ہے کہ یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ ایک لمحے کے لئے پروفیسر صاحب پچھلے قدموں پرجاتے ہوئے محسوس ہوئے۔ تاہم جلد ہی انہوں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور لانگ مارچ کی تیاری شروع کردی۔ اب وہ لوگ جو سمجھ بیٹھے ہیں اس قوم کا مستقبل صرف انہی کے ہاتھ میں ہے، بوکھلاہٹ کا شکار نظر آتے ہیں۔ ان کی بوکھلاہٹ کی اس امر سے غمازی ہوتی ہے کہ ابھی تک ان کو پروفیسر صاحب کی آمد اور لانگ مارچ کا مقصد سمجھ میں نہیں آیا چنانچہ وہ رات دن سراپا احتجاج ہیں۔

یہ بات تو ماننا پڑے گی کہ انہوں نے ایک ہلچل مچادی ہے۔ حکیم الامت علامہ اقبالؒ اپنی نظم ’’چاند اور تارے‘‘ میں کہتے ہیں۔۔۔ ’’پوشیدہ قرار میں اجل ہے‘‘۔۔۔ اور ان کا خلاصہ کلام یہی ہے کہ حیات ذوق سفر کا ہی نام ہے چنانچہ جو کوئی بھی قوم کا آمادہ سفر کرتا ہے اس کی حوصلہ شکنی نہیں کرنی چاہئے۔ پروفیسر صاحب کے 23 دسمبر کے جلسے میں مجھے جو بات سب سے اچھی لگی وہ یہ تھی جب شاہی قلعے کے نزدیک مسجد سے عصر کی اذان کی آواز آئی تو اس وقت وہ خطاب کررہے تھے۔ توقف کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اگرچہ قادری صاحب ایک مولوی ہیں لیکن ان کی دین کی تشریح ہمارے روایتی مولویوں سے قدرے مختلف ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں اس طرح کے مزید افراد کی ضرورت ہے۔ یہ بات نوٹ کی جاسکتی ہے کہ ان پر سب سے سخت تنقید مولانا فضل الرحمن کی طرف سے کی گئی۔ اس کا مطلب ہے کہ مولانا کو قادری صاحب کی آمد اپنے سخت نظریات کے لئے خطرہ محسوس ہوئی۔ ان پر تنقید کرنے والوں میں سے زیادہ تر کا تعلق مشرف، یا اس سے پہلے کسی فوجی آمریت کے دور سے ہے۔ چنانچہ ان پر جمہوریت دشمنی کا الزام لگانے والوں کو اپنے ماضی پر بھی نظر ڈالنی چاہئے۔ آج پاکستانی جمہوری نظام میں سرگرم کھلاڑیوں میں سے کس کا دامن صاف ہے؟ اس بات میں دو آراء نہیں ہیں کہ انتخابات کو التوا کا شکار نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی اس نظام، چاہے پرانے روایتی حکمرانوں نے ہی دوبارہ اقتدار میں آجانا ہو، کو لپیٹنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے لیکن ایک مارچ کو جمہوریت کا دشمن کیوں قرار دیا جارہا ہے؟ اگلے انتخابات میں کم و بیش انہی سیاست دانوں نے واپس آنا ہے چنانچہ خاطر جمع رکھیں اور کچھ ہلہ گلہ ہونے دیں۔ حرف آخر گذشتہ ایک دو روز سے موسم صاف ہوگیا ہے اور سردی کی شدت ختم ہوگئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بہار کی آمد آمد ہے۔۔۔ کیا آسمانی طاقتیں بھی قادری صاحب کی معاونت پر آمادہ ہیں؟

19۔ روزنامہ جنگ 10 جنوری 2013ء (ارشاد احمد عارف)

کسی بڑے سیاستدان، دانشور اور عقل و دانش کے پہاڑ سے پوچھو قادری کیا غلط کہتا ہے۔ سب کا جواب ایک ہی ہوتا ہے جی وہ کہتا تو ٹھیک ہے، ملک کو موجودہ پستی اور زوال سے نکالنے کی تدبیر تو یہی ہے کہ اصلاحات ہوں، قانون کی حکمرانی اور گڈگورننس کا اہتمام کیا جائے مگر۔۔۔ مگر دیکھیں نہ جی ہم دودھ کے جلے ہیں کہیں پھر کوئی گڑ بڑ نہ ہوجائے۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کی سازش ہی نہ ہو۔ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ سٹیٹس کوکی حامی ہے بلکہ پشتیبان تو وہ تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں کے ساتھ کیسے مل گئی اور کیا اس قوم کو صرف جعلی ڈگری ہولڈر، ٹیکس چور، قرضہ خور، نادہندگان، ڈاکو، لٹیرے، رسہ گیر اور قاتل عوامی نمائندے ہی راس ہیں۔ ایک ایک گھر میں آٹھ آٹھ دس دس ارکان اسمبلی و سینٹ اور سائیکل سواری کے جیٹ طیاروں کے مالک بننے والے حرام خور؟ یا کبھی کسی اہل، باصلاحیت، پڑھے لکھے، خدمت کا جذبہ رکھنے والے دیانتدار، امین اور آئین و قانون کے پابند شہری کو بھی سیاست و انتخاب میں حصہ لینے اور فیصلہ ساز ایوانوں میں پہنچنے کا موقع بھی ملے گا؟

پانچ سال میں اپوزیشن و حکومت کی ملی بھگت کا نتیجہ قوم نے ذلت و رسوائی، بدامنی اور ناآسودگی کی صورت میں بھگت لیا۔ بجلی اور گیس کی جگہ موم بتیوں، کوئلے کی انگیٹھیوں اور لکڑی کے چولہوں نے لے لی۔ کیا ہمارا جی اب بھی نہیں بھرا اور ایک بار پھر ہم آزمودہ ٹھگوں، نوسربازوں، مداریوں اور قومی وسائل لوٹ کر اس ملک کو کنگال کرنے والوں کو اپنے سروں پر مسلط کرلیں تاکہ جو کسر رہ گئی وہ پوری کرسکیں؟ میرے خیال میں نہیں۔ یہ قومی خودکشی ہوگی اور اپنی آئندہ نسلوں سے بے وفائی۔

ہمارا سارا زور بیاں، زور قلم لوئر مڈل کلاس سے اٹھ کر عالمی شہرت حاصل کرنے والے ڈاکٹر طاہرالقادری کے خلاف صرف ہورہا ہے کیونکہ اس بھلے آدمی نے بھڑوں کے چھتے اور بچھوؤں کے قافلے کو چھیڑا ہے اور یہ ناقابل معافی جرم ہے۔ عمران خان کی آمد اور تبدیلی کے نعرے سے سانپ سنپولئے محض بوکھلائے تھے طاہرالقادری نے انہیں پاگل کردیا ہے کیونکہ اس کے نعرے اور انداز بیان میں دم ذرا زیادہ ہے۔ مک مکا کی واردات کو جتنا ایکسپوز طاہرالقادری نے کیا ہے اتنا مختصر سے عرصے میں وہ عمران خان نہ کرسکا۔ ہم عظیم لوگ ہیں زندگی یزید کے ساتھ مزے سے گزارنا چاہتے ہیں آخرت حسینؓ کی طلب کرتے ہیں۔

20۔ روزنامہ جنگ 10 جنوری 2013ء (حفیظ اللہ نیازی)

علامہ صاحب کا یہ مطالبہ کہ انتخابات کو کرپٹ لوگوں سے پاک کروادیں، آرٹیکل62/63 کو اس کی جسم و روح کے ساتھ نافذ کردیں، ایسا قبیح اور کریہہ کہ طاہرالقادری کا قومی میڈیا پر کڑا ٹرائل اور ان کی سر پھٹول شروع۔ اگر ان کے مطالبات پر بھی غوروخوض ہوجاتا تو شاید اخلاص کی مقدار کا تعین بھی ہوجاتا۔ ن لیگ کے ہمنوا لکھاری، حواری طے شدہ مسودے کے مطابق آدھے سچ کو بیچنے میں جت چکے ہیں۔ چشم تصور میں قادری مہم کی موت سیاسی جماعتوں کی حیات سمجھی جارہی ہے۔

طاہرالقادری کا ظہور قائدین پر قیامت کیوں ڈھارہا ہے؟ اس نے کون سی بات کہہ دی جس نے قائدین، لکھاری اور لواحقین کو لرزہ براندام کررکھا ہے۔ علامہ صاحب کے ماضی بنا ’’حی علی الفلاح‘‘ کی تضحیک کیوں۔ مافیا کو اسمبلیوں میں پہنچنے سے روکنا ماورائے آئین کیسے ہوا؟ بیوپاری، تاجر، سوداگر منہ مانگی قیمت لگاکر پیسے کے بل بوتے پر گھوڑے، گدھے، خچر اسمبلیوں کی زینت کیوں بنائیں۔ موجودہ اسمبلی ہی دیکھ لیں۔ مادر وطن کی عزت پامال اور بے حمیتی راج کررہی ہے۔ وطن عزیز آگ میں جل چکا۔ کیا اسمبلیوں کے اندر کسی نے خود سوزی کی؟ اب وقت آن پہنچا قوم کے پیسے کا حساب بھی دینا ہوگا اور جیل بھی جانا ہوگا۔ اس ملک نے رہنا ہے تو طاہرالقادری کے مطالبات کی روشنی میں منعقدہ انتخابات ہی اس کا واحد حل ہیں وگرنہ بدقسمتی کی لیل غروب آفتاب سے پہلے ہی مقدر ٹھہرے گی۔

عزت مآب چیف جسٹس سے مودبانہ گزارش ہے کہ جن قائدین نے حکومتی عہدے رکھے، مال بنایا، مال لوٹایا اثاثوں کو چار چاند لگائے، حکومتی وسائل سے کاروبار کو توسیع دی، اپنی جائیدادوں کے قرب و جوار میں اربوں، کھربوں کے ترقیاتی کام کروائے جن کے رحم و کرم پر کھربوں ڈالر کے تخمینے رہے، جنہوں نے اداروں کو اپنے گھروں کی لونڈی بنائے رکھا۔ 18 کروڑ لوگوں کو ان کی منڈیوں کا مال بنانا اور ایسوں کے نرغے سے چھڑوانا آپ کی ذمہ داری ہے۔ مجھے وکلاء برادری سے بھی شکایت ہے ’’تحفظ آئین کانفرنس‘‘، ’’تحفظ مافیا کانفرنس‘‘ کا رخ کیسے اختیار کرگئی۔ آپ نواز شریف اور پیپلز پارٹی سے جمہوریت کا درس ضرور دلوائیں لیکن کہیں چشم تصور میں یہ بھی تھا کہ عدلیہ اور اداروں کے ساتھ بے حمیتی کے ریکارڈ قائم کرنے والے کس منہ سے اصول، آئین اور قانون کی بات کررہے ہیں۔ سپریم کورٹ پر حملوں سے لے کر ڈکٹیٹر کو ملک کی زینت بنانے والے کس منہ سے آئین و قانون کی حکمرانی کا درس دے رہے تھے۔ ان کے خطبات قانون دانوں کی توہین تھی۔ جب قائدین ڈکٹیٹر کا ساتھ دینے والوں پر انگلی اٹھا رہے تھے تو یقینا یہ بھول چکے تھے کہ 4 انگلیاں قائدین کی اپنی طرف تھیں۔ امریکہ بہادر کی 2013ء کے انتخابات میں مفادات اور اسٹیکس ہماری عوام اور سیاستدانوں سے بھی کچھ زیادہ ہیں۔ 2008ء میں ’’ن لیگ‘‘ اور پی پی پی کے گٹھ جوڑ سے امریکی ایجنڈے کی تکمیل کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا اور آج ملک کی وحدت پارہ پارہ ہے۔ جنگ و جدل کا ماحول ایسا کہ امن کا فیصلہ ملک دشمن اور سماج دشمنوں کے رحم و کرم پر۔ انسان گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں۔ بلوچستان کی سب سے معصوم اور شریف النفس ہزارہ قومیت کو جب جی چاہتا ہے کاٹ کر رکھ دیا جاتا ہے۔ مہاجروں اور پٹھانوں کا خون اس لئے ارزاں کہ اسمبلی کے اندر پارٹیوں کی بارگیننگ پوزیشن مستحکم ہو۔ چار سال تک 6 جماعتیں کیسے شیروشکر اور یکجان ہوکر رہیں۔ زرداری کو صدارت کے منصب پر فائز کرنے میں یکسو قوم کے اوپر مشرف اور زرداری کی لعنت قائدین کی مرہون منت رہی۔ امریکہ 2013ء کے انتخاب کے نتاج بھی 2008ء کے نتائج کی تکرار چاہتا ہے تاکہ پاکستان کا کرپٹ ٹولہ اس کے رحم و کرم پر رہے اور پاک فوج کو کمزور کرکے ملک کی بنیادیں اکھاڑنے کا عمل تیز ہوسکے۔ نیٹو کنٹینرز کا اسلحہ ملک کے طول و عرض میں ڈال دیا گیا۔ شاطر کے ارادے اور مہرے ظاہر ہوچکے۔ شاطر کے مہروں کو اگر اقتدار ملا (وکی لیکس میں قائدین کا اصل چہرہ موجود) پاک فوج کی بیخ کنی پہلا مرحلہ اور ملکی سالمیت کی چولیں ہلنا خود کا رد عمل ہوگا۔ علامہ صاحب کے مطالبات میں ایسا کونسا تعفن ہے جس نے آپ قائدین، لواحقین اور طبلہ نوازوں کی قوت شامہ کو متاثر کیا۔ قادری کی ذات اہم نہیں اہم تو ’’حی علی الفلاح‘‘ کی آواز ہے۔ علامہ صاحب آنے والے برے وقت سے بچنے کے لئے متحدہ و مشترکہ جدوجہد کی بات کررہے ہیں اس میں کیا برائی ہے کوئی مفتی یہ بتائے کہ گناہگار سے آپ فلاح کی طرف بلانے کا حق کیسے سلب کرسکتے ہیں؟

21۔ روزنامہ جنگ 10 جنوری 2013ء (مظہر برلاس)

سیاست میں بھونچال ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی عوامی طاقت سے انکاری تمام سیاست دانوں کے اعصاب پر لانگ مارچ سوار ہے۔ کوئی فاتحہ خوانی کے لئے جاتا ہے تو گفتگو طاہرالقادری پر شروع کردیتا ہے، کوئی جلسوں میں انہیں ہدف تنقید بناتا ہے تو کوئی اخباری بیانات کے ذریعے حق مخاصمت ادا کررہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کا ترجمان میڈیا بھی کئی روز سے لانگ مارچ کی مخالفت کررہا ہے لیکن اب جیسے جیسے وقت قریب آتا جارہا ہے، اضطراب بڑھتا جارہا ہے۔ اس بے چینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نام نہاد جمہوریت پسندوں کی کوئی محفل لانگ مارچ کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ کوئی اخبار ایسا نہیں جو اس مارچ کے تذکرے کے بغیر ہو اور نہ ہی کوئی ٹی وی چینل ایسا ہے جس پر لانگ مارچ کا چرچا نہ ہو۔ اگر بھونچال نہیں تو ایسی کونسی قیامت ہے کہ چھ روز قبل ہی راستوں کو کنٹینروں کے ذریعے بند کردیا گیا ہے۔ گویا پورا ایک ہفتہ زندگی کا پہیہ جام رہے گا، سر پر لانگ مارچ سوار رہے گا۔ خبریں یہی ہوں گی اور خبروں میں یہی ہوگا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر طویل عرصے سے ملکی سیاسی بساط پر قابض پارٹیوں کو خوف نہیں تو پھر ان کی نیندیں حرام کیوں ہوگئی ہیں پھر انہیں ہر وقت الیکشن کا التوا کیوں نظر آرہا ہے۔ دلیل کوئی نہیں کہ طاہرالقادری کے سامنے دلیل لے آئیں، انہیں ڈرانے کی کوشش کی گئی مگر کار بے سود۔ کوشش کرنے والے بے نیل مرام لوٹ آئے کہ طاہرالقادری موت سے بے خوف انسان ہے۔ اگر دال میں کالا نہیں تو پھر لانگ مارچ کی مخالفت کیوں کی جارہی ہے۔

22۔ روزنامہ ایکسپریس 25 دسمبر 2012ء (اسداللہ غالب)

طاہرالقادری آئے اور چھاگئے مگر پہلے ان کارکنوں کو سلام جنہوں نے پچھلے تین ماہ میں اس لمحے کو تاریخ میں یادگار بنانے کے لئے انتھک محنت کی۔ لوگ غیر ملکی سرمایہ کی کھوج میں ہیں مگر محلے محلے سے جو چندہ جمع ہوا وہ غیر ملکی خزانوں پر بھاری ثابت ہوا، اس سرمائے نے اور کارکنوں کی شبانہ روز محنت نے سیاسی تجزیہ نگاروں اور مخالفین کو بوکھلا کر رکھ دیا، یقین جانئے، مینار پاکستان کا شاہنامہ گدڑی پوشوں نے تحریر کیا، ٹھٹھرے بدنوں، بجتے دانتوں، سکڑتی پسلیوں اور کھنکتے پھیپھڑوں نے مینار پاکستان کو باجبروت بنایا۔ ہر طرف سروں کا سمندر، میلوں دور تک، چاروں اطراف کی سڑکوں پر پھیلے ہوئے انسانی جتھے، یہ منظر لاہور نے کبھی دیکھا ہی نہ تھا۔ یہ انقلاب کا پیش خیمہ تھا یا بجائے خود انقلاب، کہ ملک کے کونے میں سیاست نہیں، ملک بچاؤ کا نعرہ زیر بحث تھا، طاہرالقادری کو دو گھنٹے سے زائد کی تقریر میں یہ نعرہ دو چار مرتبہ سے زیادہ دہرانا نہیں پڑا، یہ نعرہ ان کے پاکستان اترنے سے پہلے ہی زبان زد عام ہوچکا تھا، اس کی مخالفت میں دلائل دینے والے اپنی شکست تسلیم کرچکے تھے کیونکہ کسی کے لئے بھی ایک گلے سڑے، بوسیدہ، متعفن، استحصالی نظام کا ساتھ دینا مشکل ہے۔ نفرت چہروں سے نہیں، رویوں سے ہے، آئین اور قانون موجود ہے مگر غیر موثر، سپریم کورٹ چیخ رہی ہے، پارلیمنٹ فریاد کناں دکھائی دیتی ہے، سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ اپنی پریس ریلیزوں میں دل کا غبار نکالتی نظر آتی ہے مگر طوفان کے آگے بند کون باندھے، کون بدنامی مول لے، اس سکوت اور بے بسی کے عالم میں جکڑے ہوئے معاشرے میں طاہرالقادری نے جرات دکھائی، اس نے غلط کو غلط کہا اور جھوٹ کو جھوٹ اور اس کو درست کرنے کا مطالبہ کیا، اس نے واضح کیا کہ وہ سسٹم کو پٹڑی سے اتارنے کے لئے نہیں، اس پر چڑھانے کے لئے آیا ہے، وہ فوجی بغاوت کا راستہ ہموار کرنے کے لئے نہیں، اس کا راستہ روکنے کے لئے آیا ہے، وہ الیکشن رکوانے کے لئے نہیں، اسے آئین کے تحت بامقصد بنانے کے لئے آیا ہے، اس نے کوئی مطالبہ بھی تو آئین سے باہر نہیں کیا، اس نے کوئی بات قانون کے دائرے سے نکل کر نہیں کی، اس نے بار بار آئین کی مختلف شقیں پڑھ کر سنائیں، اس کا کہنا تھا کہ آئین کی کوئی ایک شق نہیں، ساری شقیں مقدس ہیں، آئین پر جزوی نہیں، مکمل عمل ہونا چاہئے۔

کیا طاہرالقادری تنہا ہے، ہر گز نہیں، تبدیلی کی خواہش رکھنے والا ہر پاکستان ان کا ہم نوا ہے، کرپشن اور استحصال سے عاجز آجانے والا ہر شہری ان کا دست و بازو ہے۔ دور کی کوڑی لانے والے کہہ رہے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کسی طاقت کے مہرے ہیں، کون کہتا ہے کہ وہ کسی طاقت کے مہرے نہیں، وہ پسے ہوئے، ذلتوں کے مارے ہوئے، بھوک اور فلاس سے ڈسے ہوئے، وڈیروں اور جاگیرداروں کے ہاتھوں ستائے ہوئے، عوام کے مہرے ہیں، وہ ان عوام کے مہرے ہیں جنہیں دفتروں، کچہریوں، ہسپتالوں اور اقتدار کے ایوانوں سے دھکے دے کر نکال باہر کیا جاتا ہے اور جن کی کہیں شنوائی نہیں ہوتی۔ جن کی فصلوں کو آگ لگادی جاتی ہے، جن کے گھروں پر بلڈوزر چڑھادیئے جاتے ہیں، جن کی برسوں پرانی دکانوں کو کوئی جنگلہ بس سروس نگل جاتی ہے، جن کی ریڑھیوں کو کارپوریشن کا عملہ الٹا دیتا ہے اور بچا کھچا اپنے دیو پیکر ٹرکوں میں لاد کر رفوچکر ہوجاتا ہے، جن کی بیٹیوں کے چہرے جہیز کے انتظار میں جھریوں سے اٹ جاتے ہیں اور جن کے بچے دانش اسکولوں اور ایچی سنوں کی دیواروں کے سائے میں کاغذ چن کر پیٹ پالنے پر مجبور محض بنادیئے گئے ہیں۔ جن کے پیاروں کی میتیں کفن دفن کے اخراجات نہ ہونے کے باعث مخیر حضرات کے انتظار میں گلتی سڑتی رہتی ہیں۔ کیا یہ نظام اب بھی تبدیلی نہیں مانگتا، کیا اس نظام کو تبدیل کرنے والا غیر ملکی مہرہ ہی ہوسکتا ہے، کیا اس کے خلوص، اس کی درد مندی اور اس کی انسانیت دوستی پر شک ہی کیا جائے گا۔ میں طاہرالقادری کی جگہ ہوتا تو اپنی صفائی دینے کے لئے اتنی قسمیں نہ اٹھاتا، جن لوگوں کے دلوں پر مہر ثبت ہو، ان کے سامنے کوئی چاند کو دو ٹکڑے کرکے دکھادے تو وہ یقین کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ اور ہاں طاہرالقادری ایک مولوی تھا، خطیب تھا، اتفاق مسجد سے اس نے اپنے کیرئر کا آغاز کیا تو کیا اسے آگے بڑھنے کا حق نہیں تھا، کیا دنیا کے سارے بڑے انسان، حقیر سے آغاز کے ساتھ بام عروج پر نہیں پہنچے، قادری کے چہرے پر تھوکنے والے اپنے مبلغ علم کی طرف دیکھیں، اس علم کے پہاڑ سے ان کی کیا نسبت، اس کے تو دو بیٹے عالم اسلام کی صدیوں پرانی یونیورسٹیوں سے پی ایچ ڈی سے فیض یاب ہوگئے اور آپ ابھی جملے بازی سے دل بہلا رہے ہیں۔ اس کی تحریک اب پاکستان تک محدود نہیں، وہ عالمی افق پر محیط ہے اور پاکستان کو بھی اقوام عالم میں سرخرو کرنے کے لئے کوشاں ہے اور یہ منزل اب کوئی زیادہ دور نہیں، ظلم، جبر استحصال اور حلوہ، مانڈا خوری کے لئے مہلت ختم شد، تبدیلی کا بحر بے کراں ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔ مینار پاکستان نے آنکھوں سے دیکھ لیا۔