اسلام مخالف توہین آمیز فلم کی مذمت

شیخ الاسلام کا دنیا بھر کے سربراہانِ مملکت کے نام مراسلہ

ستمبر 2012ء میں امریکہ میں نکولاباسلے نکولا (Nakoula Bassely Nakoula) نے پیغمبر امن و سلامتی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کرتے ہوئے توہین آمیز فلم بنائی۔ اس فلم کی تشہیر پادری ٹیری جونز (Terry Jones) نے کی۔ جس سے ایک طرف دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے اور دوسری طرف دنیا کا امن و سکون تباہ کرنے کی گھناؤنی سازش کی گئی۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس ناپاک سازش پر اپنا ایمانی فریضہ اور بطور سفیر امن اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے اس قسم کے مکروہ اقدامات کی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بیخ کنی کرنے کے لئے عالمی سطح پر ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ آپ نے ہنگامی بنیادوں پر پریس کانفرنسز، امن کانفرنسز اور بین الاقوامی مفکرین سے خطاب کیا اور ملک پاکستان اور انٹرنیشنل فورمز پر اہمیت کے حامل اس اہم ایشو پر حقیقت پر مبنی تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ توہین آمیز فلم بنانے والے درحقیقت امن اور انسانیت کے دشمن ہیں۔ دنیاکے تینوں اِلہامی مذاہب - اِسلام، مسیحیت اور یہودیت - کا انحصار حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی ذوات مقدسہ پر ہے اور بائبل اور قرآن دونوں ایسے اقدامات کی نہ صرف مذمت کرتے ہیں بلکہ اسے انسانی کائنات کا سب سے بڑا جرم قرار دیتے ہیں۔ آزادی رائے کی چھتری تلے ایسے گھناؤنے جرائم کی اجازت کسی کو نہیں دی جا سکتی۔ انبیاء کرام علیہم السلام، مقدس ہستیوں او ر مذاہب کا احترام عالمی ضابطہ ہے جسے یقینی بنانا ہر ملک کی ذمہ داری ہے۔ کسی فرد، ادارے یا ملک کو اس بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اربوں انسانوں کی دل آزاری کا باعث بنے۔ مغربی دنیا انتہا پسندی کے خاتمے میں مخلص ہے اُسے ایسے اقدامات کا راستہ ہمیشہ کیلئے بند کرنا ہو گا۔ اس حوالے سے عالمی سطح پر پہلے سے موجود قوانین پر عمل درآمد کرانا ہی دنیا میں شدت پسندی کے رجحان میں کمی لا سکتا ہے۔ ایسی فلمیں اور مواد ریلیز اور شائع کرنے کے حوالے سے مزید سخت قوانین بنانے کی بھی شدید ضرورت ہے تا کہ اظہار رائے کے نام پر ایسے مذموم اقدامات کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو سکے۔

پوری دنیا کے آئین اور قوانین تسلیم کرتے ہیں کہ کوئی بھی توہین عدالت، توہین پارلیمنٹ اور توہین آئین نہیں کرسکتا۔ اس کے لئے باقاعدہ سزائیں مقرر ہیں۔ یہاں تک کہ آسٹریا، فن لینڈ، جرمنی، نیدر لینڈ، سپین، آئرلینڈ، کینیڈا اور نیوزی لینڈ میں مذہب اور مذہبی رہنماؤں کی توہین اور تنقیص کو قانوناً ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ مغربی جمہوری دنیا اپنے آئینوں میں یہ بات تسلیم کرتی ہے۔ پس جب مغربی دنیا کے تمام جمہوری ممالک اپنے constitutions میں یہ تسلیم کرتے ہیں تو اْمتِ مسلمہ کا آئینی و جمہوری اور انسانی حق ہے (جسے اقوام متحدہ کے Charter of Human Rights میں بھی تسلیم کیا گیا ہے) کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین پر احتجاج کریں اور اپنا غم و غصہ ریکارڈ کرائیں؛ اور اقوام عالم کو یہ باور کرائیں کہ یہ اِقدام صریحاً دہشت گردی کو support کرنے کے مترادف ہے۔ اس سے درحقیقت دہشت گردوں کے ہاتھ مضبوط ہورہے ہیں۔ ایسی گستاخانہ فلمیں بنا کر پُراَمن اِنسانیت اور پُرامن اْمت مسلمہ کو انتہا پسندی کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ اِس طرح کے اقدام آئندہ نسل کے لیے بھی ایک بھیانک مثال بنیں گے۔ امریکہ جیسے ذمہ دار ملک - جہاں یہ سب ہوا - کی طرف سے صرف ایک آدھ جملہ کہہ دینا کافی نہیں بلکہ اس شرانگیزی کے پیچھے کار فرما تمام عوامل سے اسے disconnect ہونا چاہیے کیونکہ اس سے عالمی اَمن کو خطرہ لاحق ہے۔

اس فلم کے پروموٹر، ڈسٹری بیوٹر، سپورٹر اور تمام ذمہ داران کو terrorism اورpromotion of global terrorism کے جرم میں گرفتار کیا جانا چاہیے۔ یہ مسئلہ پوری دنیا کی national security کا مسئلہ ہے کیونکہ امن عالم تباہ ہورہا ہے۔ مذاہب اور اقوام کے مابین نفرتیں فروغ پارہی ہیں۔ اس بنیاد پر امریکہ کو چاہیے کہ اِس فلم کے ذمہ داران کی nationality ختم کرے اور terrorism کو فروغ دینے کے جرم میں انہیں ڈی پورٹ کرکے ان کے اپنے ملک میں واپس بھیجے جہاں اُس ملک کے قانون کے مطابق ان افراد پر مقدمہ چلایا جائے۔

اِس وقت اِس حوالے سے بین الاقوامی قوانین میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اگر پاکستانی حکومت اور دیگر مسلمان حکومتیں مؤثر اقدام نہیںکریں گی، ان شرانگیز اقدامات کو آئندہ رکوانے کے لئے مؤثر قانون سازی اور چند بنیادی اصولوں کی تعریفِ نو نہیں کروائیں گی اور ان اقدامات کو قابلِ سزا نہیں بنوائیںگی تو محض تلقین کے ذریعے عامۃ الناس کو پرتشدد احتجاج سے نہیں روک سکتے، لیکن پرتشدد احتجاج بھی کوئی مستحسن اِقدام نہیں ہے۔

اَمن عالم کو تباہ کرنے کی اِس گھناؤنی سازش کے خلاف مسلمانوں کو اپنے دین و مذہب اور حضور نبی اکرم علیہ السلام کی ناموس کے تحفظ کے لیے پْراَمن احتجاج کرنا چاہیے۔ اس کے ردّ عمل میں گھیراؤ، جلاؤ اور قتل و غارت گری کا کوئی جواز نہیں ہے۔ Violence اچھا عمل نہیں ہے۔ دہشت گردی کا جواب دہشت گردی نہیں۔ صرف پُراَمن احتجاج کریں کیونکہ پُراَمن احتجاج ہر ایک کا بنیادی حق ہے۔

عالم اِسلام کے مسلمانوں کی نمائندہ مسلمان حکومتوں کا بھی فرض ہے کہ وہ اَقوامِ متحدہ میں جائیں۔ اَقوامِ متحدہ کے چارٹر میں آرٹیکل نمبر 1 کی شق نمبر 3 میں درج ہے کہ تمام انسانی حقوق کی عزت و تکریم ہوگی اور بنیادی آزادی کی تکریم ہوگی جس میں کوئی مذہبی امتیاز نہیں برتا جائے گا۔ لیکن آرٹیکل نمبر 1 کی تیسری شق مبہم ہے۔ لہٰذا OIC کی جانب سے اَقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرار داد پیش کی جائے کہ اِس شق میں اِحترامِ مذہب بھی واضح انداز میں شامل کیا جائے۔ نیز یہ بھی واضح کیا جائے کہ ایسے گستاخانہ اقدامات کسی بھی لحاظ سے freedom of speech یا freedom of expression کے زُمرے میں ہرگز نہیں آتے۔ لہٰذا جب تک ان شرانگیز اقدامات کو روکنے کے لیے مؤثر قانون سازی نہیں کی جائے گی اور redefining of basic principles کا عمل نہیں ہوگا اُس وقت تک دہشت گردی کا قلع قمع اور پائیدار اَمنِ عالم کا خواب شرمندہءِ تعبیر نہیں ہوسکتا۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے نہ صرف اس موضوع پر عالمی قوانین کی روشنی میں انٹرنیشنل فورمز پر تجزیہ پیش کیا بلکہ حکومت پاکستان سے بھی مطالبہ کیا کہ

توہین آمیز فلم کے خلاف قانونی چارہ جوئی کیلئے عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرے اور باقاعدہ اپنا کیس پیش کرے۔ اگر حکومت پاکستان ایسا کرتی ہے تو عالمی قوانین، انسانی حقوق کے چارٹر اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق وہ حکومت پاکستان کی طرف سے عالمی عدالت انصاف میں پاکستانی قوم اور ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے وکیل کے طور پر پیش ہونے اور باقاعدہ مقدمہ لڑنے کیلئے تیار ہیں۔

شیخ الاسلام نے اس حوالے سے اسلامی ممالک کو بھی متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ OIC کا ہنگامی اجلاس بلا کر متفقہ قرارداد کے ذریعے UN اور مؤثر ممالک پر دباؤ بڑھائیں کہ احترام مذاہب کیلئے قانون سازی کی جائے تا کہ اظہار رائے کی چھتری تلے توہین انبیاء کا مذموم عمل ہمیشہ کیلئے دم توڑ جائے۔

بعد ازاں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اِحترامِ مذاہب کے حوالے سے امریکی صدر، UN اور OIC سمیت پوری دنیا کے ممالک کے سربراہان کو تاریخی مراسلہ لکھا جس میں اْنہوں نے باور کرایا کہ کسی بھی مذہب کی ذواتِ مقدسہ کے خلاف توہین آمیز اِقدامات سے نہ صرف اَمنِ عالم تباہ ہوگا بلکہ دہشت گردی و اِنتہاء پسندی کے خلاف کی جانے والی کاوشوں کو بھی شدید دھچکا پہنچے گا۔

اس تاریخی مراسلہ میں شیخ الاسلام نے اہانت انبیاء کے تناظر میں آزادی اظہار رائے کے حوالے سے مغرب کے موقف کی بائبل کے حوالے جات کے ساتھ تردید کرتے ہوئے کہا کہ

مسلمانوں کے نزدیک رسول اکرم ا اور قرآن حکیم کے ساتھ ساتھ تمام صحائفِ آسمانی اور تمام انبیاء کرام بشمول حضرت موسی و حضرت عیسی علیہما السلام قابلِ صد اِحترام ہستیاں ہیں جن کے لیے تمام اہلِ ایمان کے دل میں محبت اور احترام کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ یہ ہستیاں اہلِ ایمان کے ایمان کا مرکز و محور اور ان کے اجتماعی و انفرادی وجود کی اساس ہیں جن کی کسی بھی نوع کی اہانت سنگین ترین عمل ہے۔ یہ حقیقت صرف مسلم اُمہ کے ساتھ ہی مخصوص نہیں بلکہ تمام مذاہب کے پیروکاروں کے لیے یکساں ہے۔ وہ حملہ جو اس شرم ناک فلم کے ذریعے کیا گیا ہے۔ اس کے اثرات اَمن عالم کے لیے انتہائی مہلک اور خطرناک ہیں۔

بظاہر آزادیِ اِظہارِ رائے کے حق کا بہت غلغلہ ہے لیکن دنیا کا کوئی مذہب بھی مقدس ہستیوں، رسولوں، پیغمبروں اور اﷲ کے کلام کی اہانت کی اجازت نہیں دیتا؛ حتیٰ کہ ’کتابِ مقدس (The Bible)‘ کا ’عہد نامہ عتیق (Old Testament)‘ اور ’عہد نامہ جدید (New Testament)‘ دونوں حضرت موسیٰ ں اور حضرت عیسیٰ ں کی توہین سے منع کرتے ہیں۔ اِسلام - جو قدیم آسمانی مذاہب ہی کا تسلسل ہے - نے بھی تمام رسولوں اور پیغمبروں خصوصاً حضرت موسی ں، حضرت عیسیٰ ں اور حضرت محمد مصطفی ا کے اِحترام کو ایمان کا حصہ قرار دیا ہے۔ دنیا کے تمام براہیمی اَدیان نے پیغمبروں کی توہین کی ممانعت کی ہے لیکن ’عہد نامہ عتیق (Old Testament)‘، ’عہد نامہ جدید (New Testament)‘ اور قرآنِ مجید میں پیغمبروں کے اِحترام کی تعلیمات نے کسی بھی شخص کو اظہارِ رائے کی آزادی کے حق سے محروم نہیںکیا۔

بائبل سے حوالہ جات دینے کے بعد شیخ الاسلام نے عالمی رہنماؤں کی توجہ اقوام عالم کے قوانین کی روشنی میں آزادی اظہار رائے کے اس پہلو کی طرف بھی دلوائی کہ یہ آزادی مطلقاً نہیں ہوتی بلکہ دنیا کے تمام قوانین میں اس کو کسی نہ کسی سطح پر مقید کیا جاتا ہے۔

اس مراسلہ میں آپ نے اقوام عالم کے قوانین و دساتیر میں موجود ’’مذہب کی توہین کے امتناعی قوانین‘‘ اور ’’نفرت انگیز تقریر کے امتناع کے قوانین‘‘ کو بھی تفصیلاً بیان کیا۔ (اس مکمل مراسلہ کے مطالعہ کے لئے ماہنامہ منہاج القرآن دسمبر2012ء کا شمارہ اور www.minhaj.org ملاحظہ فرمائیں)

عظمتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ریلیز کا انعقاد

تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام توہین آمیز فلم کی مذمت میں ملک بھر میں عظمت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ریلیز کا انعقاد کیا گیا۔ جن میں لاکھوں عشاقان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھرپور شرکت کی۔ ان پرامن ریلیز نے ایک طرف توہین آمیز فلم کی شدت سے مذمت کی تو دوسری طرف لاکھوں پرامن افراد کی شرکت نے پاکستانی قوم کا حقیقی امیج دنیا کے سامنے ظاہر کیا جس کا نہ صرف قومی میڈیا بلکہ عالمی میڈیا نے بھی اعتراف کیا کیونکہ اسی تناظر میں ملک میں موجود دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں و تنظیمات کا پرتشدد مظاہرہ دنیا دیکھ چکی تھی جب حکومت پاکستان کی طرف سے اعلان کردہ ’’یوم عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ پر بدترین توڑ پھوڑ، گھیراؤ، جلاؤاور قتل و غارت کے واقعات ہوئے، اس سے ایک طرف اپنی املاک اور اپنے افراد کو نقصان پہنچا اور دوسری طرف پاکستانی قوم کی جگ ہنسائی بھی ہوئی۔

تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام لاہور، اسلام آباد، فیصل آباد میں پرامن ہونے والی عظیم الشان عظمت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ریلیز سے شیخ الاسلام نے بھی ٹیلی فونک خطاب کیا۔

(عظمت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ریلیز کی تفصیلی رپورٹ کے لئے www.minhaj.org ملاحظہ فرمائیں)