باطل طاقتوں کی فکری وحدت

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا خصوصی خطاب

ترتیب و تدوین : محمد یوسف منہاجین معاون : محمد طاہر معین

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

فَمَآ اٰمَنَ لِمُوْسٰی اِلاَّ ذُرِّيَّةٌ مِّنْ قَوْمِه عَلٰی خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَمَلَاْئِهِمْ اَنْ يَّفْتِنَهُمْ وَاِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاَرْضِ وَاِنَّه لَمِنَ الْمُسْرِفِيْنَ.

(يونس : 83)

’’پس موسیٰ (علیہ السلام) پر ان کی قوم کے چند جوانوں کے سوا (کوئی) ایمان نہ لایا، فرعون اور اپنے (قومی) سرداروں (وڈیروں) سے ڈرتے ہوئے کہ کہیں وہ انہیں (کسی) مصیبت میں مبتلا نہ کر دیں، اور بے شک فرعون سرزمینِ (مصر) میں بڑا جابر و سرکش تھا اور وہ یقینا (ظلم میں) حد سے بڑھ جانے والوں میں سے تھا‘‘۔

ان آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حکومت فرعون کا ذکر کیا۔ بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ 9 معجزات دیکھے۔ آپ کی سچائی اور آپ کے نبی اور رسول ہونے کے قرائن و علامتوں کو دیکھا لہذا ان کے پاس آپ کی نبوت و رسالت کو جھٹلانے کا کوئی جواز اور انکار کی وجہ نہ تھی۔ اس کے باوجود قرآن مجید بیان کررہا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم جو مصر میں آباد تھی ان میں سے چند غریب لوگ ہی موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے اور اس قوم کی بھاری اکثریت آپ پر ایمان نہ لائی۔

مشنِ موسوی

حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم و استبداد سے رہائی دلوانا چاہتے تھے۔ یہ ایک انقلابی مشن و پروگرام تھا۔ اس انقلابی پیغام کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرعون تک براہ راست پہنچانے کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام فرعون کے پاس گئے کہ

اِنَّا رَسُوْلَا رَبِّکَ فَاَرْسِلْ مَعَنَا بَنِيْ اِسْرَآءِيْلَ.

’’ہم تیرے رب کے بھیجے ہوئے (رسول) ہیں سو تو بنی اسرائیل کو (اپنی غلامی سے آزاد کرکے) ہمارے ساتھ بھیج دے ‘‘۔

(بنی اسرائيل : 47)

اس پیغام کو سن کر فرعون آگ بگولہ ہوگیا اور اپنے دربار میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات دیکھ کر بھی قوم بنی اسرائیل کی آزادی کے پیغمبرانہ پیغام کو ماننے سے انکار کردیا۔ نتیجتاً حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے درمیان بنی اسرائیل کی آزادی کے معاملے پر براہ راست ٹکرائو کا آغاز ہوگیا۔

آیئے آج کے معاشرے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کے معاشرے کا ایک پہلو سے موازنہ کرتے ہیں :

  1. ایک معاشرہ وہ ہے کہ جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر نبی و رسول خود موجود ہیں، قوم اپنی آنکھوں سے ان کے معجزات بھی دیکھ رہی ہے۔
  2. دوسرا معاشرہ آج کا ہے، جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت کے بعد اب قیامت تک کوئی نبی اور رسول نہیں آسکتا اور یہ معاشرہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان کے عقیدہ کے ساتھ قائم ہے۔ اب اس قوم کو حق کی طرف بلانے کے لئے معجزات دکھانے والا کوئی نہیں۔ بس پیغمبرانہ سنت کی صورت میں ایک جدوجہد جاری ہے۔

باطل طاقتوں کے ہتھکنڈے

سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس معاشرے میں رسول بنفس نفیس موجود ہیں اور معجزات اپنی قوم کو دکھا رہے ہیں۔ لیکن اتنی واضح صداقت اور حقانیت کے باوجود اس قوم کی اکثریت آپ پر ایمان کیوں نہ لائی؟ اس سوال کا جواب بھی قرآن مجید ہمیں عطا فرمارہا ہے :

عَلٰی خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَمَلَاْئِهِمْ اَنْ يَّفْتِنَهُمْ.

’’اور اپنے (قومی) سرداروں (وڈیروں) سے ڈرتے ہوئے کہ کہیں وہ انہیں (کسی) مصیبت میں مبتلا نہ کر دیں‘‘۔

(يونس : 83)

بنی اسرائیل کے لوگ اپنے مال و جان کے فرعون اور اس کے حواریوں کے ہاتھوں ضیاع کے خوف سے موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے۔ حکومت و سلطنت فرعون کے ہاتھ میں تھی۔ وہ بڑا آمر، جابر، ظالم اور استحصالی شخص تھا۔ اس کے ظلم و جبر کی ایک بڑی مثال قرآن مجید نے بیان فرمائی کہ اگر قوم بنی اسرائیل میں لڑکے پیدا ہوتے توان کو قتل کروادیتا اور لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتا، فرعون کے ظلم سے ڈرتے ہوئے موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کو دیکھ کر بھی اکثریت ایمان نہ لائے۔ انہیں خوف یہ تھا کہ اگر ہم موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے تو فرعون اور اس کے حواری ہمیں تباہ کردیں گے اور جان سے مار دیں گے۔ گویا وہ معجزات دیکھنے کے باوجود فرعون کے ظلم کی وجہ سے ایمان نہ لائے۔ انہیں خطرہ تھا کہ اگر انہیں معلوم ہوگیا کہ یہ موسیٰ علیہ السلام کے لشکر انقلاب میں شامل ہوگئے ہیں، تو وہ ان کو مروا دے گا، ان کے گھر مسمار کروادے گا، جھوٹے مقدمہ کروادے گا، ان کی آسائشیں چھین لے گا۔ جیسا آج کے ظالم و استحصالی حکمران اپنے مخالف کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے تمام ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ وہ کسی قیمت پر مخالف کا ابھرنا گواراہ نہیں کرتے۔

گویا اکثریت دل سے حق کو مانتی ہے مگر وہ بھی حکمرانوں کے جبر سے ڈرتے ہوئے حق کا ساتھ نہیں دیتے۔ قوم نے موسیٰ علیہ السلام کے معجزات دیکھے، مان گئے تھے کہ سچے رسول ہیں، ہماری آزادی اور بھلائی کے لئے جنگ لڑے رہے ہیں مگر کھل کر ان کا ساتھ نہیں دے رہے تھے کیوں کہ انہیں خطرہ رہتا کہ اگر موسیٰ علیہ السلام کا ساتھ دیا تو فرعون ہمیں مصیبت میں مبتلا کردے گا۔

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے فرعون کی آمرانہ اور ظالمانہ سوچ کا ذکر کیا ہے کہ کس طرح معاشرے کے ظالم و جابر لوگ اپنے مفادات پر کاری ضرب پڑنے کے خدشے کے پیش نظر کس کس طرح کے حربے استعمال کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے فرعون کی سرکشی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :

اِذْهَبَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّه طَغٰی.

’’تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ بے شک وہ سرکشی میں حد سے گزر چکا ہے‘‘۔

(بنی اسرائيل : 43)

فرعون باغی و سرکش ہوچکا ہے، ہر شے اس کی گرفت میں تھی۔ قانون، معیشت، ملازمت الغرض ہر چیز پر اس کا قبضہ تھا۔ کسی شخص کو دیکھتا کہ میری حکومت و سلطنت اور جھوٹی خدائی کے خلاف جارہا ہے تو اس کو نیست و نابود کردیتا۔

اس آیت کریمہ کے ذریعے امت مسلمہ کو سبق دیا جارہا ہے کہ

باطل کی اقتدار میں تقویٰ کی آرزو
ہے کیا حسین فریب جو کھائے ہوئے ہیں ہم

ہماری سوچ یہ ہوگئی ہے عام مذہبی طبقہ، دین دار لوگ، شریف لوگ، ان کا کام صرف وعظ و تبلیغ کرنا ہے۔ وعظ و نصیحت کے ذریعے لوگوں کے دل بدلیں گے تو خود بخود انقلاب آجائے گا۔ یہ سوچ قرآنی فکر کے خلاف ہے۔ اگر اقتدار ظالم، آمر، جابر استحصالی ٹولے کے ہاتھ میں رہے گا تو باطل کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز جو صرف وعظ و تبلیغ پر مبنی ہو، کوئی نتائج پیدا نہیں کرسکتی۔ اللہ کے پیغمبر سے معجزات دیکھنے کے باوجود قوم ایمان نہ لائی، صرف چند نوجوان جو ڈرتے نہیں تھے، جن کے اندر غیریت ایمانی تھی، موت کا ڈر نہ تھا، وہ اس بات سے خوف زدہ نہ تھے کہ فرعون سولی پر چڑھادے گا، گھر مسمار کرادے گا، جو اتنے نڈر ہوگئے تھے وہ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کھڑے تھے لیکن وہ لوگ جو ایمان نہ لاسکے وہ حق کو جانتے تھے مگر ظلم و بربریت کے ڈر سے، ملازمت و معیشت کے نقصان کے ڈر سے،کسی مقدمے کے ڈر سے، غنڈہ گردی کے ڈر سے ایمان نہ لائے۔ گویا شریف آدمی کی شرافت، بزدلی بن جاتی ہے۔ وہ حق کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتا۔۔۔ ملازم کی ملازمت بزدلی بن جاتی ہے۔۔۔ کبھی دین دار لوگوں کی تبلیغ، مسجد کے انتظامیہ کے چندوں، مدرسوں کی سرکاری گرانٹ نہ ملنے کے خوف کی وجہ سے بزدلی بن جاتی ہے۔۔۔ لہذا اس بزدلی کے رویہ کو دور کرنے کے لئے قرآنی اصول یہ ہے کہ جب تک اقتدار باطل کے پاس رہے معاشرے میں انقلاب نہیں آتا۔ ایمان کی قوت مضبوط نہیں ہوتی اور عملاً حالات نہیں بدلتے۔

طبقاتی تقسیم کی وجہ

آمروں اور ظالموں کا طریقہ کار ہوتا ہے کہ وہ اپنی کرسی کو مضبوط کرنے کے لئے اور باطل نظام کو غالب رکھنے کے لئے طاغوتی استعماری طاقتوں کا استعمال کرتے ہوئے معاشرے کے لوگوں میں طبقاتی تقسیم پیدا کردیتے ہیں۔ اس طبقہ کی اس سوچ کو بھی قرآن نے واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :

اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَهْلَهَا شِيَعًا يَّسْتَضْعِفُ طَآئِفَةً مِّنْهُمْ.

’’بے شک فرعون ز مین میں سرکش و متکبّر (یعنی آمرِ مطلق) ہوگیا تھا ‘‘۔ اور اس نے اپنے (ملک کے) باشندوں کو (مختلف) فرقوں (اور گروہوں) میں بانٹ دیا تھا اس نے ان میں سے ایک گروہ (یعنی بنی اسرائیل کے عوام) کو کمزور کردیا تھا ‘‘۔

(القصص : 4)

قرآن مجید 1400 سال پہلے نازل ہوا اور فرعون اور اس کے گماشتوں کی 3000 سال پہلے کی بات کررہا ہے۔ اس کا اطلاق آج بھی سو فیصد آج کے حالات پر ہورہا ہے۔ یہ قرآن کی حقانیت کی دلیل ہے کہ ظالم استحصالی اور طاقتور لوگ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب تر کردیتے ہیں اور متوسط درجہ کے لوگوں کو غربت تک پہنچادیتے ہیں۔ یہ ایک طبقاتی تقسیم ہے۔ امراء اور اہل اقتدار کے مفاد ایک ہوجاتے ہیں۔ قوم کے خزانے ایک دوسرے میں تقسیم کردینا، سیاسی رشوت دینا، معمول کی بات ہے۔ باطل مفادات کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں چونکہ ان کی بقاء ایک دوسرے کے ساتھ تعاون میں ہوتی ہے۔ دوسری طرف غریب طبقہ کی سوچ صرف دو وقت کی روٹی تک ہی محدود کردی گئی ہے۔ اس لئے قرآن مجید نے فرمایا کہ

ایک طبقے کو اتنا کمزور کردیا اور ان کا اتنا استحصال کردیا کہ وہ اٹھ نہ سکیں، ان میں آواز اٹھانے کی جرات نہ رہی، ان کی سوچ ہی چھوٹی چھوٹی ضروریات و خواہشات کی تکمیل تک رہ گئی۔ تین وقت کا کھانا ہی مل جائے۔۔۔ بچی کی شادی ہوجائے۔۔۔ اولاد کو پڑھالوں۔۔۔ کہیں ملازمت لگوادوں۔ چنانچہ انہی ضروریات کی تکمیل کے لئے وہ جاگیردار کے پاس جائے گا مثلاً وہ اسے دو چار سال تک چکر لگواکر اس کے بیٹے کو کہیں بھرتی کروا دے گا تاکہ یہ شخص اس کا احسان مند ہوجائے۔ وہ اس کے حقے بھی جلائے، اس کا ڈیرہ بھی صاف کرے، ڈیرے کی رکھوالی بھی کرے، اس کے لئے چٹائیاں بھی بچھائے۔ یہ سب کچھ اس لئے کیا جاتا ہے تاکہ ان کا شعور ہی مرجائے۔ ملکی سطح پر کیا ہورہا ہے ان معاملات میں کبھی وہ دلچسپی ہی نہ لے اور اس کو اپنے حق کی خبر تک نہ رہے۔ آج یہی صورت حال ہے۔ دیہاتوں میں چلے جائیں ان کے پاس سوچ ہی نہیں ہے کہ ہمارے ساتھ کیا ہورہا ہے، ان کے سوچنے کی سکت چھین لی گئی، وہ تبدیلی کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اگر وہ سوچتے ہیں تو ان کے اندر حق کی آواز اس معاشرے کے وڈیرے کے خوف سے نہیں اٹھ سکتی۔ اس لئے کہ وڈیرے ان کی جانور چوری کروائیں گے، پھر منتیں سماجتیں کرواکر چھڑوا بھی دیں گے۔۔۔ وہی ان کے خلاف جھوٹے مقدمے کروائیں گے، پھر اپنی سفارش سے بری بھی کروائیں گے تاکہ غریب اس کا احسان مند اور شکر گزار رہے۔ ان حالات میں غریب نے عمر بھرشکریہ ہی ادا کرنا ہے کہ میں جیل چلا گیا تھا تو مجھے فلاں نے چھڑوادیا۔ اس کو سمجھ ہی نہیں آئے گی کہ اسے اس مقدمہ میں پھنسایا کس نے تھا۔ اس لئے کہ اس وڈیرہ شاہی، استحصال اور جاگیردارانہ نظام نے ان کی سوچ، آزادی اور قومی سطح پر انقلاب کی سوچ ختم کردی، بالکل تباہ حال کردیا۔

جرات و حیاء کے خاتمہ کے اقدامات

قرآن مجید ان باطل قوتوں کے ان تمام مختلف ہتھکنڈوں کو بے نقاب کرتا ہے جنہیں وہ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں فرعون کے ایک اور ہتھکنڈے کو یوں بے نقاب کیا گیا کہ

يُذَبِّحُ اَبْنَآءَ هُمْ وَيَسْتَحْی نِسَآءَ هُمْ.

’’ان کے لڑکوں کو (ان کے مستقبل کی طاقت کچلنے کے لیے) ذبح کر ڈالتا اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتا (تاکہ مردوں کے بغیر ان کی تعداد بڑھے اور ان میں اخلاقی بے راہ روی کا اضافہ ہو)‘‘۔

(القصص : 4)

اس کو بتایا گیا تھا کہ تیرا تختہ الٹنے والا پیدا ہونے والا ہے لہذا اس خوف سے کہ وہ کہیں پیدا نہ ہوجائے، فرعون لڑکے مروادیتا۔ اس لئے کہ نوجوانوں میں ڈر اور خوف نہیں ہوتا، نڈر ہوتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ جوں جوں زندگی کی ذمہ داریاں بڑھتی جاتی ہیں تو یہ مجبوریاں انسان کو بزدل کردیتی ہیں۔ فرعون بچوں کو اس لئے مارتا تھا کہ جوان ہونگے اور جوان ہوکر کہیں میرا تختہ نہ الٹادیں۔ ایک انقلاب کا ماحول نہ بن جائے۔ لڑکیوں کو اس لئے زندہ رکھتا تھا کہ جس معاشرے میں لڑکیاں زیادہ ہوں گی اس معاشرے میں فحاشی اور عریانی عام ہوجائے گی۔

  1. ایک طرف وہ چاہتا تھا کہ اس معاشرے میں جرات پیدا نہ ہو۔
  2. دوسری طرف وہ اس معاشرہ کو بے حیائی کا معاشرہ بنانا چاہتا تھا کیونکہ اگر بے حیائی اور بدکاری بڑھتی چلی جائے تو غیرت مرجاتی ہے اور لوگ اٹھنے کے قابل نہیں رہتے۔

آج میڈیا کے ذریعے حکمران اور دیگر طاغوتی طاقتیں فحاشی و عریانی کو فروغ دے رہی ہیں۔ یہ سب کچھ وہ کیوں کرتے ہیں؟ کیا ان کو خبر نہیں کہ ان کے گھروں میں ان کے بچے اور بچیاں بھی دیکھتے ہیں، بے حیائی پھیل رہی ہے۔ یہ سب جاننے کے باوجود وہ اس لئے کرتے ہیں کہ انہیں علم ہے کہ جس معاشرے میں بے حیائی آجائے گی وہ معاشرہ بزدل اور بے غیرت ہوجائے گا۔ ذہنی عیاشی انسان کو بزدل کرتی ہے۔۔۔ خیالات میں عیاشی آجائے گی۔۔۔ لوگ فحاشی پرست ہوجائیں گے۔ جوں جوں یہ چیزیں بڑھتی چلی جائیں گی، قوم بے غیرت اور بزدل ہوگی اور انقلاب کے امکانات کم ہوتے چلے جائیں گے۔ حکمرانوں کے گریبان میں ہاتھ ڈالنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ جو طریقے فرعون کے تھے وہ طریقے آج بھی ہیں۔

کمزور طبقات پر الوہی احسان

پھر فرمایا :

وَنُرِيْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ.

(القصص : 5)

’’اور ہم چاہتے تھے کہ ہم ایسے لوگوں پر احسان کریں جو زمین میں (حقوق اور آزادی سے محرومی اور ظلم و استحصال کے باعث) کمزور کردیے گئے تھے ‘‘۔

اللہ رب العزت نے فرعون اور موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ بیان کیا تاکہ واقعہ کو سن کر لوگ ہر دور میں آمرانہ نظام کے پس منظر کو سمجھ جائیں۔۔۔ اس کے نظام کو سمجھ جائیں کہ فرعون صفت حکمران کس طرح طبقاتی تقسیم کرتے۔۔۔ کس طرح غریب کا استحصال کرتے۔۔۔ کس طرح غریبوں کو چکی میں پیستے۔۔۔ بے حیائی اور بدکاری کو عام کرتے۔۔۔ اور کس طرح اپنے حلقے میں پیسے بانٹ کر ان کو اپنا احسان مند و مشکور بناتے ہیں۔ یہ نظام جیسے فرعون کے دور میں تھا قیامت تک فرعون صفت لوگ اسی نظام، اسی طرزِ حکومت اور اسی طریقہ کار پر چلیں گے۔

اے غریب عوام! اے استحصال زدہ لوگو! اے پسے ہوئے لوگو سن لو! ظالم استحصالی لوگ تمہیں ظلم و جبر اور بربریت کی چکی تلے رکھنا چاہتے ہیں۔ اللہ تم پر احسان کرنا چاہتا ہے۔ اللہ پاک غریب عوام کو جھنجھوڑ رہے ہیں، انہیں غفلت کی نیند سے بیدار کررہے ہیں کہ غفلت کی نیند سے اٹھو، ہم تم پر احسان کرنا چاہتے ہیں اور تم غفلت کی نیند کو سینے سے لگائے ہوئے بیٹھے ہو۔ باری تعالیٰ کیا احسان کرنا چاہتے ہیں فرمایا :

وَنَجْعَلَهُمْ اَئِمَّةً.

(القصص : 5)

’’اور انہیں (مظلوم قوم کے) رہبر و پیشوا بنا دیں ‘‘۔

یعنی ہم چاہتے ہیں ظالموں سے اقتدار چھین کر تمہیں دے دیں۔ ان سے قیادت چھین کر غریبوں کو دے دیں۔ ہم انقلاب چاہتے ہیں۔ ہم ان لٹیروں، جاگیرداروں سے سلطنت چھین کر تمہیں دینا چاہتے ہیں، قیادت تمہیں منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ اب بتائو! تمہارا ارادہ کیا ہے؟ اللہ پاک فرمارہا ہے کہ

وَنُمَکِّنَ لَهُمْ فِی الْاَرْضِ وَنُرِیَ فِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ وَجُنُوْدَهُمَا مِنْهُمْ مَّا کَانُوْا يَحْذَرُوْنَ.

(القصص : 6)

’’اور ہم انہیں ملک میں حکومت و اقتدار بخشیں۔ اور فرعون اور ہامان اور ان دونوں کی فوجوںکو وہ (انقلاب)دکھادیں جس سے وہ ڈرا کرتے تھے‘‘۔

یعنی فرعون کو اس کے وزیروں کو انجام تک پہنچائیں تاکہ آئندہ آنے والی نسلوں کو عبرت ملے۔

صرف تبلیغ سے انقلاب ممکن نہیں

اللہ رب العزت نے اصول بیان فرمایا کہ خالی تبلیغیں کرتے رہیں اور جدوجہد نہ کریں تو یہ انبیاء کا شیوہ نہیں ہے۔ باطل طاقتوں کا منصوبہ یہ ہے کہ فرعون صفت لوگوں کو للکارا نہ جائے۔۔۔ مدرسوں میں بے شک درس و تدریس کا عمل جاری ہے، مسجدوں میں تقریریں کی جائیں، مسلمانوں کا دھیان اپنے مذہب کی طرف رہے مگر وہ انقلاب کی طرف آگے نہ بڑھیں۔ امام حسین علیہ السلام سے بہتر فہم رکھنے والا کون تھا جنہوں نے مدینہ و مکہ چھوڑ کر کربلا آباد کیا۔ خالی وعظ و تبلیغ سے اگر انقلاب آجاتا، اس سے یزیدی اور فرعونی نظام بدل جاتا تو امام حسین علیہ السلام اپنے پورے خاندان کی قربانی نہ دیتے۔ یزید یہ چاہتا تھا امام حسین علیہ السلام صرف وعظ کریں اور لوگوں کو دین کی طرف دعوت دیں، سیاست میں ان کا کوئی دخل نہ ہو۔ مگر آپ علیہ السلام نے یہ پیشکش ترک کردی۔ باوجود اس کے جب آپ امام مدینہ تھے تو ساری دنیا آپ کے ساتھ تھی مگر جب امامِ کربلا بنے تو 72 تن ساتھ تھے۔ خالی تبلیغوں سے کچھ نہیں بدلتا۔ جن کا لگائو مذہب سے ہے، وہ تبلیغیں سن کر اپنا وقت گزارتے ہیں۔ خالی وعظوں اور تبلیغوں سے انقلاب نہ آتے ہیں نہ آئیں گے۔ وہ انبیاء جن کو انقلاب کی ذمہ داری سونپی گئی انہوں نے ٹکر لی اور میدان میں آئے۔

جدوجہد ناگزیر ہے

اللہ تعالیٰ کا یہ ارادہ ہے کہ وہ ہمیں قیادت دیں، لیکن ہم اپنے حال کو بدلنے کے لئے اور اپنے آپ کو اس قیادت کا اہل بنانے کے لئے جدوجہد ہی نہیں کرنا چاہتے۔ نتیجتاً عذاب الہٰی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ارشاد فرمایا :

ذٰلِکَ بِاَنَّ اﷲَ لَمْ يَکُ مُغَيِّرًا نِّعْمَةً اَنْعَمَهَا عَلٰی قَوْمٍ حَتّٰی يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ.

(الانفال : 53)

’’یہ (عذاب) اس وجہ سے ہے کہ اللہ کسی نعمت کو ہرگز بدلنے والا نہیں جو اس نے کسی قوم پر ارزانی فرمائی ہو یہاں تک کہ وہ لوگ از خود اپنی حالتِ نعمت کو بدل دیں (یعنی کفرانِ نعمت اور معصیت و نافرمانی کے مرتکب ہوں اور پھر ان میں احساسِ زیاں بھی باقی نہ رہے تب وہ قوم ہلاکت و بربادی کی زد میں آ جاتی ہے)‘‘۔

یعنی تمہارے اوپر عذاب الہیٰ آنے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ پاک جب کسی قوم کو ایک نعمت دیتا ہے تو صرف اس وقت واپس لیتا ہے جب وہ قوم خود نعمت کی ناقدری کرتی ہے۔ جب قوم یہ ثابت کردے کہ ہم اس نعمت کے اہل نہیں۔ ہمارے اندر غیرت نہیں رہی۔ وہ قوم جب اپنے بدتر حال سے نااہل ہونا ثابت کردے، خود کو ابتر بنالے تب اللہ کا عذاب آتا ہے۔ جیسے فرعون اور ان سے پہلے لوگوں کا حال ہوا۔ یہ سارا ان کا اپنے آپ کے ساتھ ظلم کی وجہ سے ہوا۔

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جن کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

تحریک منہاج القرآن اور دین کی انقلابی خدمت

تحریک منہاج القرآن فقط وعظ و تبلیغ کا مشن نہیں یہ عالمگیر انقلاب کا مشن ہے۔ سیاست میں ہر مسلک کی بڑی بڑی مذہبی شخصیتیں رہیں مگر کسی کے خلاف یہ پروپیگنڈا نہیں کیا گیا کہ ان کو سیاست میں نہیں آنا چاہئے تھا مگر جب ہم ریاست کو بچانے کے لئے سیاست محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرز پر اس ملک میں سیاست کو رواج دینا چاہتے ہیں تو ہماری کردار کشی بھی کی جاتی ہے، الزامات بھی لگائے جاتے ہیں اور ہماری شرافت و دین کے لئے خدمات کو یادکرکے کہا جاتا ہے کہ ان کا سیاست میں کیا کام۔

یاد رکھ لیں! یہ سامراجی اور طاغوتی طاقتوں کا بہت بڑا حربہ ہے کہ جس اٹھتی ہوئی تحریک سے انہیں خطرہ محسوس ہو اس کو دبانے کے لئے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں۔ دین کی خدمت کے لحاظ سے دو قسمیں ہیں :

  1. دین کی روایتی خدمت
  2. دین کی انقلابی خدمت

روایتی خدمت میں صرف اجرو ثواب ہوتا ہے۔ انقلابی خدمت میں صرف اجرو ثواب نہیں ہوتا۔

سامراجی طاقتیں مسلمانوں کو صرف اجرو ثواب سے محروم نہیں کرنا چاہتیں، اگر ڈھیروں کے ڈھیر ثواب لے کر جنت چلے جائیں، مسجدیں قائم کریں، مدرسے قائم کریں تو اس سے باطل طاغوتی طاقتوں کو کوئی نقصان نہیں۔ دورہ حدیث ہو، ہزاروں علماء پیدا کریں، بستر اٹھا کر پوری دنیا میں تبلیغ پیدا کریں، ہر جگہ وعظ کریں۔ ایسی روایتی خدمت جو اللہ کی راہ میں مقبول ہو وہ سامراجی طاقتوں کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ وہ رکاوٹ تب بنتی ہیں جب دین پر کام صرف روایتی طرز سے نہیں بلکہ انقلابی طرز پر ہورہا ہو۔ جب دین ایک انقلابی قوت بن کر ابھر رہا ہو۔۔۔ عالم اسلام پر اس کے اثرات مرتب ہورہے ہوں۔۔۔ نئی نسل اس کی طرف راغب ہورہی ہو۔۔۔ تو وہ اس وقت جائزہ لیتے ہیں کہ یہ بڑی قوت بننے جارہے ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ ان کی طرف جوانوں کا رجحان، نظم، بڑھتی ہوئی مقبولیت، ذوق، خیالات، رجحانات روایتی ہیں یا انقلابی۔ اگر روایتی ہو تو کچھ نہیں کرتے اگر انقلابی ہو تو وہ چونک جاتے ہیں اور ابھرنے نہ دیتے۔

تحریک منہاج القرآن ہو یا پاکستان عوامی تحریک، مصطفوی انقلاب کا پورا مشن اپنی دعوت و تبلیغ میں بھی انقلابی ہے اور اپنی تحریک میں بھی انقلابی ہے۔ اس فکر کو طاغوتی طاقتوں نے جانا اور سوچا کہ اگر یہ تحریک اٹھ گئی تو اس سے عالم اسلام میں ایک انقلاب آئے گا۔۔۔ اس کے اثرات دوسرے اسلامی ملکوں میں ہونگے۔۔۔ اگر یہ آواز ایک عالمی آواز بن گئی تو مصطفوی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ لہذا اس کے خلاف پروپیگنڈا کرو۔ اس کے خلاف مذہبی لوگوں کے ذہن میں یہ بات ڈال دو کہ ان کو سیاست میں نہیں آنا چاہئے تھا۔ یہ صرف درس دیتے، صرف کتابیں لکھتے، لیکن نظام بدلنے کے لئے کچھ نہ کرتے۔ اس سوچ سے سامراجی اور طاغوتی طاقتیں لوگوں کے ذہنوں کو پراگندہ کررہی ہیں۔

الَّذِيْ یُوَسْوِسُ فِيْ صُدُوْرِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ

(الناس : 5 6)

’’جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ خواہ وہ (وسوسہ انداز شیطان) جنات میں سے ہو یا انسانوں میں سے ‘‘۔

ذہن میں وسوسہ پیدا کرتے ہیں۔ طرح طرح کی باتیں کرکے فساد پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے اگر یہ تحریک اٹھ گئی تو انقلاب آجائے گا۔ حالت بدل جائے گی۔ تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے رفقاء و کارکنان کو اس صورت حال میں معذرت خواہ نہیں چاہئے بلکہ جرات مند ہونا چاہئے۔

مکی و مدنی دور کی اتباع

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پاک مکی دور میں فقط مذہبی اور روحانی تربیت تھی۔۔۔ مدنی دور کے دس سال سیاسی انقلاب تھا۔۔۔ سیرت مصطفوی کی اتباع میں ہمارا مذہبی دعوت کا کام مکی دور کی اتباع ہے اور سیاسی جدوجہد کا کام آقا علیہ السلام کے مدنی دور کی اتباع ہے۔ تحریک منہاج القرآن بیک وقت دونوں کی جامع ہے۔ جو جماعتیں مذہبی ہیں وہ سیاسی انقلاب کے قریب نہیں جاتیں لہذا ان کی تبلیغ سے کوئی خاص نتائج پیدا نہیں ہوتے۔ جو مذہبی جماعتیں سیاسی ہوجائیں ان پر سیاسی رنگ غالب آجاتا ہے اور مذہب کا صرف نام استعمال کرتے ہیں۔ تحریک منہاج القرآن نے ثابت کردیا کہ جہاں مذہبی تبلیغ کا کام ہے ہم وہاں اول تا آخر مذہبی دعوت دیتے ہیں اور جہاں انقلاب کے لئے قوم کو تیار کرنا ہے وہاں انقلاب کی بات کرتے ہیں۔ اس مشن کے دونوں بازو ہیں اور دونوں بازو کام کرتے ہیں۔

کارکنان و رفقاء! کسی موقع پر ناامید و مایوس نہ ہوں۔۔۔ کمزوری نہ دکھائیں۔۔۔ ان کے پائے استقلال میں لغزش نہ آنے پائے۔۔۔ اگر انقلاب کے لئے جدوجہد نہ کی اور انقلاب نہ آیا تو وعظ اور تبلیغ کے چراغ بجھ جائیں گے۔۔۔ ایمان کے ٹمٹماتے ہوئے چراغ کہیں بجھ نہ جائیں، مسجدیں کہیں ویران نہ کردی جائیں۔ اس لئے کہ قرآن مجید فرما رہا ہے :

لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ.

(البقرة : 251)

’’زمین (میں انسانی زندگی بعض جابروں کے مسلسل تسلّط اور ظلم کے باعث) برباد ہو جاتی‘‘۔

انقلاب کی جدوجہد نہ کی جائے اور استحصالی طبقہ کے ذریعے اقتدار جاری رہے تو زمین میں فساد آجائے گا۔ اگر مسجدوں میں اللہ کا نام اور ایمان کا چراغ روشن رکھنا چاہتے ہیں تو انقلاب کے لئے جدوجہد کرنا ہوگی اگر غفلت کی تو جان لو اللہ تعالیٰ کا عذاب سب کو اپنی لپیٹ میں لے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَاتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِيْبَنَّ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّةً.

’’اور اس فتنہ سے ڈرو جو خاص طور پر صرف ان لوگوں ہی کو نہیں پہنچے گا جو تم میں سے ظالم ہیں (بلکہ اس ظلم کا ساتھ دینے والے اور اس پر خاموش رہنے والے بھی انہی میں شریک کر لیے جائیں گے)‘‘۔

(الانفال : 25)

اللہ کے دین کی اقامت اور مصطفوی انقلاب کے لئے ہر ایک کو اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہوگا۔