الحدیث: اہل ایمان کے درجات میں فرق

علامہ محمد معراج الاسلام

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

يَدْخُلُ اَهْلُ الْجَنَّةِ اَلْجَنَّةَ، وَاَهْلُ النَّارِ النَّارَ، ثُمَّ يَقُوْلُ اللّٰهُ تَعَالیٰ: اَخْرِجُوْا مَنْ کَانَ فِيْ قَلْبِه مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ اِيْمَانٍ فَيُخْرَجُوْنَ مِنْهَا قَدِ اسْوَدُّوْا. فَيُلْقَوْنَ فِيْ نَهْرِ الْحَيَاةِ فَيَنْبُتُوْنَ کَمَا تَنْبُتُ الْحِبَّةُ فِی جَانِبِ السَيْلِ اَلَمْ تَرَاَنَّهَا تَخْرُجُ صَفْرَاءَ مُلْتَوِيَةً.

(بخاری، الصحيح، کتاب الايمان، باب تفاضل اهل الايمان فی الاعمال)

’’جنتی، جنت میں اور دوزخی دوزخ میں چلے جائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ حکم دیں گے کہ جس بندے کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہے اسے دوزخ سے نکالو! چنانچہ وہ آگ سے نکالے جائیں گے۔ جل کر کوئلے کی طرح سیاہ ہوچکے ہوں گے چنانچہ وہ ’’نہر حیات‘‘ میں ڈالے جائیں گے، پس وہ اس طرح اُگ آئیں گے جس طرح سیلاب کے قریب نیاز بو اُگتی ہے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ وہ کیسی خوبصورت رنگت میں زرد اور گھنی ہوتی ہے جس کی پھول پتیاں خمدار ہوتی ہیں‘‘۔

شرح و تفصیل

اللہ تعالیٰ کی، اللہ والوں اور ایمان کی محبت اور کفر سے نفرت، انسان، من کی پاکیزگی، روح کی بالیدگی اور ایمان کی تازگی عطا کرتی ہے۔ یہ تینوں خصائص اپنی جگہ بھرپور اہمیت کے حامل، انسانیت ساز اور بلندی درجات کا سبب ہیں اور انسان کو پستیوں سے اٹھاکر رفعتوں پہ فائز کردیتے ہیں۔ یہ تینوں خصائص یکساں شکل میں نہیں ہوتے بلکہ طبع و مزاج کے مطابق کسی میں کم اور کسی میں زیادہ ہوتے ہیں۔ کسی میں ان میں سے ایک وصف پایا جاتا ہے۔ کسی میں دو پائے جاتے ہیں اور کوئی تینوں اوصاف کا حامل ہوتا ہے۔ اس سے یہ مسئلہ از خود حل ہوگیا کہ جس میں یہ اوصاف زیادہ مقدار اور زیادہ تعداد میں ہوں گے، وہ اس شخص سے افضل ہوگا جس میں وہ اس شکل اور تعداد میں نہیں ہوں گے۔ اس سے ثابت ہوگیا کہ اہل ایمان درجات میں متفاوت اور ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں، سب کا یکساں درجہ نہیں ہوتا۔

اس حدیث پاک میں اس حقیقت سے آگاہ کیا گیا ہے کہ مومن خواہ کتنا ہی گناہگار ہو، وہ دوزخ میں ہمیشہ نہیں رہے گا۔ اسے بڑی ہی بری اور انتہائی خستہ حالت میں آگ سے نکالا جائے گا۔ اس وقت ہڈیوں سمیت اس کا گوشت پوست جل کر کوئلے کی طرح سیاہ ہوچکا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوگا کہ اسے آب حیات میں غسل دیا جائے۔ غسل کے ساتھ ہی یکا یک اس کے جسم کی کایا پلٹ جائے گی۔ جلی ہوئی سیاہ ہڈیاں سفید ہوجائیں گی۔ ان پر ترو تازہ، خوبصورت اور صحت مند گوشت اُگ آئے گا اور سرخ و سپید شفاف رنگت کے پیچھے تازہ خون گردش کرنے لگے گا اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے حسن و جمال کا ایک مثالی پیکر بن جائے گا، جیسے کبھی آگ میں بھسم ہوا ہی نہیں تھا۔

جب انسان کلمہ طیبہ پڑھ لیتا ہے تو اس کے دل میں ایمان کا پودا لگ جاتا ہے۔ پھر اعمال صالحہ اس کی نشوونما اور آبیاری کرتے ہیں اور اسے رفتہ رفتہ تناور درخت بنادیتے ہیں۔ وہ ایمان ذرے سے پہاڑ، قطرے سے سمندر، کرن سے آفتاب اور رائی سے چٹان بن جاتا ہے لیکن اگر اسے اعمال صالحہ کی نگہداشت نصیب نہ ہو، تو پھر وہ رائی کا رائی ہی رہتا ہے اور بڑھنے پھولنے کی بجائے، بے سدھ، کمزور اور خفیف ہوجاتا ہے۔ اس میں وزن پیدا نہیں ہوتا اور پھیلائو نہیں آتا۔ اسی قسم کے شخص کے ایمان کو رائی کے دانے کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ اسے دوزخ میں ڈال کر سزا دی جائے گی پھر اس سے نکالا جائے گا۔ جس سے از خود یہ واضح ہوگیا کہ ایسے اشخاص بھی ہوں گے، جنہوں نے بے عمل رہنے کی بجائے، اعمال صالحہ بھی کئے ہوں گے اور اپنی فرمانبرداری کا ثبوت فراہم کرنے کے لئے احکام کی تعمیل کی ہوگی۔ ایسے لوگوں کا ایمان مضبوط ہوگا اور وہ مراتب میں بے عمل لوگوں سے بڑھ جائیں گے اور دوزخ میں جانے کی بجائے، سرزمین رنگ و بو میں پہنچ جائیں گے، اس سے یہ ثابت ہوا کہ ایمان داروں کے درجات متفاوت ہوتے ہیں، یعنی گناہگار اور فرمانبردار کا مرتبہ یکساں نہیں۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

بَيْنَا اَنَا نَائِمٌ رَاَيْتُ النَّاسَ يُعَرَضُوْنَ عَلَيَ وَعَلَيْهِمْ قُمُصٌ مِنْهَا مَايَبْلُغُ الثُّدِيَ وَمِنْهَا مَادُوْنَ ذَالِکَ وَعُرِضَ عَلَيَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَعَلَيْهِ قَمِيْصٌ يَجُرُّ. قَالُوْا فَمَا اَوَّلْتَ ذَالِکَ يَارَسُوْلَ اللّٰه قال: اَلدِّيْنُ.

(بخاری، الصحيح، کتاب الايمان، باب تفاضل اهل الايمان فی الاعمال)

’’ہم سوئے ہوئے تھے۔ نیند کے دوران دیکھا کہ لوگ ہمارے سامنے پیش کئے جارہے ہیں۔ ان کے جسموں پر قمیصیں ہیں، کچھ قمیصیں سینوں تک پہنچ رہی ہیں اور کچھ اس سے بھی چھوٹی ہیں۔ ہمارے سامنے عمر بن خطاب پیش کئے گئے۔ ان کے جسم پر اتنی لمبی قمیص تھی کہ وہ اسے گھسیٹ رہے تھے۔ لوگوں نے عرض کی: یارسول اللہ! آپ نے اس کی کیا تاویل فرمائی ہے؟ بتایا: دین‘‘۔

اس حدیث پاک سے بھی اہل ایمان کے مراتب کا متفاوت ہونا ثابت ہورہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو دیکھا کہ ان کے جسموں پر چھوٹی بڑی قمیصیں ہیں، کسی کی سینے تک پہنچ رہی ہے۔ کسی کی اس سے بھی چھوٹی ہے۔ لیکن فاروق اعظم کی قمیص کو بہت ہی لمبا پایا اور تعبیر یہ بیان فرمائی کہ اس سے دین مراد ہے اور دین، ایمان ہی کو کہتے ہیں۔ جس سے ثابت ہوا کہ لوگوں کا ایمان کم و بیش اور متفاوت ہوتا ہے۔ یعنی اہل ایمان میں ایمان کے حوالے سے فرق، مراتب پایا جاتا ہے۔ کسی کا ایمان قوی، زیادہ اور مضبوط ہوتا ہے اور کسی کا نسبتاً کمزور، ہلکا اور کم ہوتا ہے۔

اعمال کے ساتھ ایمان میں کمی و بیشی ہوتی ہے اور اسے ایمان کامل کہتے ہیں۔ جتنا انسان، متقی، عبادت گزار، صالح و ذاکر، نیک اور اطاعت شعار ہو، اتنا ہی اس کا ایمان کامل ہوتا ہے اور جتنا بدعمل، فاسق و فاجر، نافرمان و خود سر اور غافل و جاہل ہو، اتنا ہی اس کا ایمان ناقص ہوتا ہے۔ البتہ نفس ایمان ایک ہی حال پر قائم رہتا ہے۔ اس میں کمی بیشی نہیں ہوتی۔

ایمان کی اقسام

مومن، خواہ گناہ گار ہو، یا نیکو کار، وہ مومن ہی ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ گناہوں کی دلدل میں پھنس کر، وہ گندا، کمزور، گھٹیا اور ناقص ہوجاتا ہے۔ فرشتوں کا منظور نظر نہیں رہتا اور بہت سی روحانی و نورانی برکات سے محروم ہوجاتا ہے لیکن رہتا مومن ہی ہے۔ قرآن پاک نے مومنوں کی اقسام بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْکِتٰبَ الَّذِيْنَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِه وَمِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرٰتِ بِاِذْنِ اﷲ.

(فاطر:32)

’’پھر ہم نے اس کتاب (قرآن) کا وارث ایسے لوگوں کو بنایا جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں سے چُن لیا (یعنی امّتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو)، سو ان میں سے اپنی جان پر ظلم کرنے والے بھی ہیں، اور ان میں سے درمیان میں رہنے والے بھی ہیں، اور ان میں سے اﷲ کے حکم سے نیکیوں میں آگے بڑھ جانے والے بھی ہیں‘‘۔

اس آیت کریمہ میں گناہگاروں کو بھی کتاب کا وارث بتایا گیا ہے۔ جو ظاہر ہے ایمان کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ ایسا شخص بھی مومن ہوتا ہے اور اس سے ایمان کی نفی نہیں کی جاسکتی۔

لیکن یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ نیک اور بد، نیکو کار اور گناہ گار، یکساں مقام و مرتبے کے مالک نہیں ہوتے۔ خود قرآن پاک نے فرمایا ہے:

وَ مَا يَسْتَوِی الْاَعْمٰی وَالْبَصِيْرُ وَ لَا الظُّلُمٰتُ وَلَا النُّوْرُ. وَ لَا الظِّلُّ وَلَا الْحَرُوْرُ.

(فاطر:19 21)

’’اور اندھا اور بینا برابر نہیں ہو سکتے۔ اور نہ تاریکیاں اور نہ نور (برابر ہو سکتے ہیں)۔ اور نہ سایہ اور نہ دھوپ‘‘۔

ایک دوسری آیت میں اسی بات کو دوسرے انداز میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:

وَ مَا يَسْتَوِی الْاَعْمٰی وَالْبَصِيْرُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَلَا الْمُسِيْئُ

(المومن:58)

’’اور اندھا اور بینا برابر نہیں ہو سکتے سو (اسی طرح) جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کیے (وہ) اور بدکار بھی (برابر) نہیں ہیں ‘‘۔

ان قرآنی ہدایات کی روشنی میں، جب فاسق اور متقی، گناہ گار اور فرمانبردار مومن ہونے کے باوجود برابر نہیں ہوسکتے۔ تو ظاہر ہے ان کا ایمان بھی برابر نہیں ہوسکتا۔ اس لئے ان دونوں کے ایمان میں جو باریک فرق ہے، اہل نظر نے قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کا جائزہ لیا ہے اور اسے فوائد و خطرات اور نتائج سمیت بہت اچھی طرح واضح کیا ہے۔

یہ مسئلہ بہت ہی نازک ہے۔ اس لئے کہ ایمان و کفر کے درمیان کوئی اور درجہ نہیں۔ ’’انسان یا کافر ہوتا ہے، یا مومن‘‘۔ تیسری قسم کوئی نہیں کہ وہ آدھا مومن اور آدھا کافر ہو۔ اسی لئے گناہ گار کے ایمان کو بھی ناقص نہیں کہہ سکتے۔ کیونکہ ایمان تجزی کو قبول نہیں کرتا۔ نقصان ثابت کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ اسے کافر بنادیا جائے۔ حالانکہ وہ کافر نہیں۔ اسی لئے فاسق و متقی کے مقام کے فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے، بڑی احتیاط سے قرآن و حدیث کے وزنی دلائل کی روشنی میں ایمان کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں:

  1. نفس ایمان
  2. ایمان کامل

1۔ نفس ایمان

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:

اَلْاِيْمَانُ اَنْ تُوْمِنَ بِاللّٰهِ وَمَلَائِکَتِه وَکُتُبِه وَبِلِقَائِه وَرُسُلِه وَتُوْمِنَ بِالْبَعْثِ.

(عمدة القاری، 1:104)

’’ایمان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ اور اس کی بارگاہ میں حاضری پر، اس کے رسولوں، فرشتوں اور کتابوں پر اور قیامت کے دن پر ایمان لائے‘‘۔

ان حقائق ثابتہ پر ایمان لانے سے انسان کے دل میں یقین کی ایک کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ اسے تصدیق قلبی کہتے ہیں۔ اسی کا نام ایمان ہے۔ اسے اصل ایمان یا نفس ایمان بھی کہتے ہیں۔ یہ جب دل میں پیدا ہوجائے اور اچھی طرح گڑ جائے تو پھر زائل نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ اگر کوئی دشمن تلوار لے کر سر پر کھڑا ہوجائے اور حکم دے کہ زبان سے کہو کہ تمہارا خدا، رسول اور فرشتوں، کتابوں اور قیامت پر ایمان نہیں ہے اور وہ انسان اوپر سے زبان سے کہہ بھی دے تو پھر بھی تصدیق قلبی زائل نہیں ہوتی کیونکہ وہ دل کی کیفیت کا نام ہے اور دشمن کا اس پر کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ قرآن پاک نے واضح فرمادیا ہے:

اِلَّا مَنْ اُکْرِهَ وَقَلْبُه مُطْمَئِنٌّم بِالْاِيْمَانِ.

’’سوائے اس کے جسے انتہائی مجبور کر دیا گیا مگر اس کا دل (بدستور) ایمان سے مطمئن ہے‘‘۔

(النحل:106)

اسی طرح گناہ کرنے سے بھی، وہ تصدیق قلبی زائل نہیں ہوتی کیونکہ جب کوئی گناہگار، گناہ اور نافرمانی میں مصروف ہوتا ہے۔ اس وقت وہ تصدیق قلبی اس کے اندر موجود ہوتی ہے۔ جسے وہ ذہنی طور پر محسوس کرتا ہے۔ اس بری حالت میں بھی اس کے دل میں یہ کبھی خیال نہیں آتا کہ خدا نہیں یا قرآن پاک اس کا کلام نہیں ہے۔ فرشتوں کا کوئی وجود نہیں اور قیامت کا آنا محض ایک تصور ہے۔ بلکہ اس کے برعکس اگر اس سے پوچھ لیا جائے تو وہ فوراً اقرار کرتا ہے کہ خدا ہے۔ میں جو اس کے احکام پر عمل نہیں کرتا تو یہ میری بدبختی اور کوتاہی ہے۔ ایک روز اس کی بارگاہ میں جانا ہے۔ ڈر بھی لگتا ہے۔ چلو، وہ غفور رحیم ہے۔ اس کی رحمت سے امید ہے کہ وہ اپنے فضل و کرم سے بخش دے گا۔ میں اپنی اصلاح کی کوشش کروں گا۔ اللہ تعالیٰ مجھے توبہ کی توفیق عطا فرمائے۔

غرضیکہ گناہ گار انسان اس قسم کے جذبات کا اظہار کرتا ہے اور یہ بالکل مشاہدے کی بلکہ تجربے کی چیز ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ تصدیق قلبی جبر و گناہ سے زائل نہیں ہوتی۔ اس کے زائل ہونے کی ایک ہی صورت ہے کہ اس نے جس طرح دل سے ایمان قبول کیا ہوا ہے۔ اسی طرح دل کہ گہرائی سے کلمہ کفر منہ سے نکالے، یا کوئی خلاف ایمان حرکت کرے۔

2۔ ایمان کامل

توحید و رسالت، روز حشر، جزا و سزا، انبیاء و ملائکہ، سماوی کتب و صحائف اور دیگر امور دین کی حقانیت و صداقت تسلیم کرنے کا نام ایمان ہے۔ اسے صرف ایمان یا نفس ایمان کہتے ہیں۔ اس سے انسان کسی شک و شبہ کے بغیر مومن بن جاتا ہے اور کسی بڑے سے بڑے متقی اور پرہیزگار کے لئے بھی جائز نہیں رہتا کہ اسے مومن اور ایمان دار تسلیم نہ کرے۔

لیکن یہی ایمان، ایمان کامل اس وقت بنتا ہے، جب مومن اپنے دامن کو گناہوں کی گندگی سے بچانے کی شعوری کوشش کرنے لگ جاتا ہے۔ اس کے دل میں عبادات کے لئے محبت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ اطاعت و اتباع میں وہ لذت و حلاوت محسو س کرتا ہے جو اسے دنیا کے کسی کام میں نہیں آتی۔ نافرمانی، سرکشی، ظلم و عدوان، حسد و کینہ، عناد و عداوت، فسق و فجور، ہوس پرستی و فتنہ طرازی، حرص و ہوا اور دیگر ناپسندیدہ حرکتوں اور دنیا داری کے کاموں سے اسے نفرت ہوجاتی ہے اور اس کی جگہ خیر خواہی و فرمانبرداری، محبت و الفت، شائستگی و شرافت، دیانت و امانت، عفت و طہارت، پارسائی و پرہیزگاری، نیاز مندی و تواضع اور مخلوق خدا کو خوش کرنے اور اسے زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کی خواہش لے لیتی ہے۔

جب بندہ مومن، عبادت و تقویٰ کی ان حسین راہوں پر چل نکلتا ہے اور قرب و حضور کی لذتوں سے آشنا ہوتا ہے تو پھر اس کی زندگی میں ایک مرحلہ ایسا بھی آتا ہے کہ اس کے دل کی پاکیزگی آخری حدوں کو چھولیتی ہے اور وہ گناہوں سے اس طرح بچنے اور ڈرنے لگ جاتا ہے، جیسے کوئی سانپ اور موذی حشرات سے بچتا اور ڈرتا ہے۔ اس منزل پر وہ ایک عام مومن اور عام بندہ نہیں رہتا بلکہ بندہ خاص انسان مرتضیٰ اور مومن کامل بن جاتا ہے۔

مومن کامل کو یہ مرتبہ ہر قسم کے گناہوں سے دامن کشا رہنے پر حاصل ہوتا ہے۔ اگر وہ گناہوں کی وادیوں میں سرگرداں اور فسق و فجور میں مبتلا رہے اور مخلوق خدا اور امت نبی کو تکلیف دینے سے باز نہ آئے تو وہ صرف مومن رہ جاتا ہے، مومن کامل، نہیں بنتا اور اس قابل فخر لقب سے محروم ہوجاتا ہے۔

چنانچہ حدیث پاک میں آیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس کے راوی ہیں۔ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لَايَزْنِی الزَّانی حِيْنَ يَزْنِيْ وَهُوَ مُوْمِنٌ. وَلاَ يَسْرِقُ السَّارِقُ حِيْنَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُوْمِنٌ وَلَا يَشْرَبُ الْخَمَرَ حِيْنَ يَشْرَبُهَا وَهُوَ مُوْمِنٌ وَلَا يَنْتَهِبُ نُهْبَةً يَرْفَعُ النَّاسُ اِلَيْهِ فِيْهَا اَبْصَارَهُمْ وَهُوَ مُوْمِنٌ.

(بخاری، الصحيح، کتاب الحدود باب مايحذر من الحدود الزنا وشرب الخمر)

’’جب زانی، زنا کرتا ہے، چور، چوری میںمصروف ہوتا ہے اور شرابی شراب پی رہا ہوتا ہے اور ڈاکو دھڑلے کے ساتھ، لوٹ مار کررہا ہوتا ہے، اس وقت وہ مومن نہیں ہوتا‘‘۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بدکاری کے دوران اس کے مومن کامل نہ رہنے اور ایمان سے خارج ہوجانے کی مثال بیان کرتے ہوئے ایک دوسری حدیث روایت فرمائی ہے کہ حضور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اِذَا زَنٰی الْعَبْدُ خَرَجَ مِنْهُ الْاِيْمَانُ وَکَانَ کَالظُّلَّةِ فَاِذَا اِنْقَلَعَ مِنْهَا رَجع اِلَيْهِ الْاِيْمَانُ.

(المستدرک علی الصحيحين، کتاب الايمان)

’’جب بندہ زنا کرتا ہے تو ایمان اس کے جسم سے نکل جاتا ہے اور سائبان کی طرح اس کے سر پر کھڑا ہوجاتا ہے، جب وہ فارغ ہوجاتا ہے تو پھر لوٹ آتا ہے‘‘۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ایک دوسری مثال دے کر اس کے ایمان سے خارج ہونے کا نقشہ یوں کھینچا ہے۔ کسی نے پوچھا:

کَيْفُ یُنْزَعُ مِنْهُ الْاِيْمَانُ؟ قَالَ: هٰکَذَا وَشَبَّک بَيْنَ اَصاَبِعِه ثُمَّ اَخْرَجَهَا. فَاِنْ تَابَ عَادَ اِلَيْهِ هٰکَذَا وَشبَّکَ بَيْنَ اَصَابِعِه

(بخاری، الصحيح، کتاب المحاربين، باب اثم الزنا وقول الله تعالیٰ)

’’اس سے ایمان کیسے نکال لیا جاتا ہے؟ حضرت ابن عباس نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو پہلے ایک دوسرے میں پھنسایا، پھر علیحدہ کیا اور فرمایا: اس طرح اس کے بعد فرمایا: اگر وہ توبہ کرلے تو ایمان پھر اس طرح لوٹ آتا ہے۔ یہ بیان کرتے ہوئے آپ نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو پھر ایک دوسرے میں پھنسادیا‘‘۔

ان احادیث سے یہ واضح ہوتا ہے ایمان کامل کے حصول کے لئے، اعمال خیر پر کاربند ہونا بہت ضروری ہے اور ارکان اسلام اس سلسلے کے بنیادی اعمال ہیں۔ چنانچہ نماز، روزہ اور حج زکوٰۃ وغیرہ کی پابندی کے بغیر، مومن کامل ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

خلاصہ کلام

اس پوری تفصیل کا خلاصہ اور ماحصل یہ نکلا کہ انسان کا ایمان کامل اس وقت ہوتا ہے جب وہ ایمان لانے کے بعد زبان سے اس کا اقرار بھی کرتا ہے اور اعمال صالحہ کے ذریعے اپنے دعوے کی صداقت کا ثبوت بھی دیتا ہے۔ اس کے ایمان کے بے رنگ خاکے میں رنگ اس وقت بھرا جاتا ہے جب وہ اعمال صالحہ کے گلزار و گلشن بھی سجاتا ہے اور ذکر و فکر اور عبادات کی طرف بھی بطور خاص توجہ دیتا ہے۔ گویا کامل مومن بننے کے لئے فرمانبردار، اطاعت شعار اور احکام کا پابند ہونا ضروری ہے۔