حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ استحکام مملکت اسلامیہ اور طرزِ حکومت

عباس محمود العقاد

خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے یوم وصال 21 جمادی الثانی کی نسبت سے قارئین کی خدمت میں آپ رضی اللہ عنہکے دور خلافت اور طرز حکومت پر مبنی مضمون ان حالات میں پیش کیا جارہا ہے جب ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ پاکستان میں بظاہر ریاست کے معاملات چلانے کے نام پر مگر درحقیقت کرپٹ طبقات اپنی مفاداتی سیاست کے تحفظ کے لئے انتخابات میں حصہ لینے جارہے ہیں۔ کیا ان انتخابات میں قسمت آزمائی کرنے والے اور اس فرسودہ و کرپٹ سیاسی وانتخابی نظام کا حصہ بن کر ملک و قوم کی خدمت کرنے والوں کے اذہان و قلوب کے کسی کونے کھدرے میں خلافت راشدہ کے زریں اصولوں سے استفادہ و رہنمائی کا کوئی موہوم سا تصور بھی موجود ہے۔۔۔ ؟ کیا سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہکی شخصیت و کردار کو انہوں نے کبھی اپنے لئے نمونہ سمجھا اور اس طرز پر ملکی معاملات کو سدھارنے اور اپنی شخصیت کو سنوارنے کی کوشش کی۔۔۔ ؟ یہاں تو آئین پاکستان کے آرٹیکل 62، 63 اور پاکستان کے دیگر قوانین کے نام نہاد اور معمولی سے نفاذ کی کوششوں نے ہمارے آئندہ کے حکمرانوں کی دینی علوم بارے واقفیت اور امانت و دیانت کے پردے چاک کردیئے ہیں۔ استحکام پاکستان کے لئے ہمیں دور صدیقی رضی اللہ عنہسے روشنی لینا ہوگی۔ بصورت دیگر اس طرح کے سوانتخابات بھی ملک پاکستان کو استحکام نہیں دے سکتے بلکہ اس کا وجود بھی (خاکم بدہن) خطرات سے دوچار ہوسکتا ہے۔

مملکت اسلامیہ کی بنیاد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہکی خلافت کے زمانہ میں پڑی کیونکہ آپ نے نہ صرف لوگوں کے دلوں میں عقائد کو راسخ کیا بلکہ تبلیغی و جنگی وفود ملک کے مختلف حصوں میں بھی بھیجے۔ عقائد کے رسوخ و نفوذ کے لئے آپ نے جو نمایاں کارنامہ انجام دیا وہ فتنہ ارتداد کو کچلنے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ حکومت کو بیرونی خطرات سے محفوظ رکھنے کے لئے جو کارنامہ آپ نے انجام دیا وہ یہ ہے کہ سرحدوں پر فوجیں بھیج کر دشمنوں پر اپنی حکومت کے داخلی استحکام کا رعب جمادیا۔ ان دونوں کارناموں میں آپ کو دوسرے خلفاء پر اولیت اور فوقیت حاصل ہے۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہکے اسلام قبول کرنے کا جتنا گہرا اثر سرداران مکہ پر پڑا تھا اتنا ہی گہرا اثر غلاموں اور نچلے طبقوں پر بھی پڑا۔ قریش کے نامور اور ذہین لوگوں کو جب یہ معلوم ہوا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہنے اسلام کو اپنا دین بنالیا ہے تووہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ جس دین کو آپ جیسے صالح، صاحب مروت، شریف، بے غرض اور سلیم الطبع انسان نے اختیار کیا ہے اس کے اندر ضرور کچھ خوبیاں ہوں گی۔ اس لئے ان کی دعوت کو سننا اور اس پر غور و خوض کرنا چاہئے۔ کسی انسان کا اس ذہنی مرحلہ پر پہنچ جانا اس بات کی علامت تھی کہ وہ عنقریب جاہلی عقائد اور تصورات کو خیر باد کہہ دے گا۔ بالخصوص وہ لوگ جن کے دل و دماغ میں جاہلی عقائد کے لئے کوئی کشش اور جاذبیت نہ تھی اور جن کو یہ خدشہ بھی نہ تھا کہ اسلام کے فروغ سے ان کی ذاتی مصلحت یا مفاد کو ضرر پہنچے گا۔

آپ رضی اللہ عنہ کی کاوشوں سے مکہ کے نامور لوگ اسلام لائے۔ علاوہ ازیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہنے بے شمار مظلوم و بے بس غلاموں کو خرید کر آزاد کیا۔ بعض اوقات اُن غلاموں کے مالکوں نے جان بوجھ کر غلاموں کی قیمتیں بڑھادیں تاکہ آپ خریدنے سے قاصر رہیں یا اپنی کم دولت پر نادم ہوں۔ مگر آپ نے اپنے مال و دولت کی کبھی پرواہ نہ کی اور مسلسل ان مظلوموں اور بے کسوں کو ان کے سنگ دل اور بے رحم آقائوں کے پنجے سے نجات دلاتے رہے۔ کمزوروں اور مجبوروں کے دل اس سلوک سے مسخر ہوگئے۔ اس سے اسلام کی شہرت کو بھی چار چاند لگ گئے۔ اسلام کی فضیلت و برتری واضح کرنے کے لئے یہ طریقہ دلائل و براہین سے بھی زیادہ موثر اور کارگر حربہ ثابت ہوا۔ بلکہ شاید یہ کہنا بھی مبالغہ نہ ہوکہ نئی دعوت کو جتنی تقویت اس رحیمانہ و مشفقانہ برتائو سے پہنچی اتنی تقویت ان شرفاء کے قبول اسلام سے نہیں پہنچی جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وساطت سے ہی کاشانہ نبوت میں حاضر ہوکر مشرف باسلام ہوئے۔ آپ جس دن سے اسلام لائے اس دن سے منصب خلافت سنبھالنے تک اپنے ہر عمل کے ذریعہ اس عمارت کی تعمیر میں لگے رہے جس کے اولین متولی ہونے کا شرف بھی بانی حقیقی کے بعد خود آپ کو نصیب ہوا۔

سرداران قریش کی موجودگی میں خانہ کعبہ کے اندر کھلم کھلا دعوت دینا۔۔۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے ساتھ ہجرت کرنا۔۔۔ مختلف وفود اور محاذوں میں دولت لٹادینا۔۔۔ اتباع و اقتداء کا اسوہ کامل پیش کرنا۔۔۔ ماہر انساب ہونے کے باعث قریش کے عیوب منظر عام پر لانا۔۔۔ اور اپنی رائے و مشورہ اور مال و منال کے ذریعہ ان کے خلاف محاذ قائم کرنا۔۔۔ المختصر یہ کہ ہر وہ کام جو آپ نے اول روز سے منصب خلافت سنبھالنے تک انجام دیا وہ مملکتِ اسلامیہ کے لئے بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے اور آپ کو اس عمارت کا ایک معمار ہونا ثابت کرتا ہے۔

بیعت کا زمانہ آیا تو اس میں تین اہم مہمات پیش آئیں:

  1. لشکر اسامہ بن زید رضی اللہ عنہکی روانگی
  2. جنگ ارتداد
  3. عراق و شام کی سرحدوں کی حفاظت کیلئے فوجیں مامور کرنا

یہ تینوں واقعات مملکتِ اسلامیہ کے لئے تین ستونوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں سے اگر ایک ستون بھی سیدھا نہ ہو پاتا تو یہ پوری عمارت گر جاتی۔ اگر یہ تینوں واقعات تین سال کی قلیل مدت کی بجائے تیس سال میں بھی انجام پاتے جب بھی ان کا انجام دینے والا تعریف و توصیف اور تحسین و آفرین کا مستحق ہوتا۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہکے دور میں مملکت اسلامیہ کے انتظامی امور و معاملات میں کچھ اتنی بڑی تبدیلیاں اور تغیرات پیدا نہیں ہوئے کہ اُس نظم و نسق کی جگہ کوئی نیا انتظامی ڈھانچہ لانے کی ضرورت پیش آتی جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے عہد سعید میں رائج ہوچکا تھا۔ عرب کا اکثر حصہ فتنہ ارتداد کے باعث دوبارہ اسی مقام پر پہنچ گیا تھا جس مقام پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں تھا اور توبہ کے بعد اس کی حالت نومسلموں سے مختلف نہ تھی۔ اسی طرح نظم و نسق کا جو ڈھانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے عہد سے چلا آرہا تھا خلافت اولیٰ کے زمانے میں بھی وہ پوری طرح قابل عمل تھا اور اس میں کسی تبدیلی یا ترمیم کی ضرورت نہ تھی۔

یہیں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی وہ حکمت روشن ہوکر سامنے آجاتی ہے کہ آپ نے پہلی خلافت کیوں ایسے شخص کے سپرد کرنے کا فیصلہ فرمایا جو عہد نبوی( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی حرف بحرف پیروی کرنے والے تھے۔ یہاں تک کہ جب ضروریات و معاملات نے وسعت اختیار کرلی اور اجتہاد و تصرف کا وقت آگیا تو وقت نے خود ان کو منتخب کرلیا جو اس صلاحیت سے پوری طرح متصف تھے۔ گویا وہ اس وقت کے لئے چھوڑ دیئے گئے تھے جو وقت خود ان کا منتظر اور ان کی آمد کے لئے چشم براہ تھا۔ یہ شخصیت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہکے علاوہ اور کون ہوسکتی تھی؟ جیسا کہ خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے اپنے اس فرمان کے ذریعہ یہ تعین کردیا تھا کہ۔۔۔

’’مجھے خواب میں نظر آیا کہ میں ایک کنوئیں کی چرخی کے ذریعہ ڈول بھر بھر کر پانی نکال رہا ہوں۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہآئے اور بمشکل ایک یا دو ڈول کھینچ کر بس کردیا۔ خدا ان پر رحم کرے! پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہآئے اور وہ ڈول مزید کشادہ ہوگیا۔ میں نے کسی مرد کامل کو اتنی جانفشانی سے کام کرتے نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ لوگ پوری طرح سیراب ہوگئے اور اونٹ بھی اطمینان سے ڈیرہ ڈال کر بیٹھ گئے‘‘۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہکے عہد خلافت میں سابقہ نظم و نسق کی جگہ نیا انتظام و انصرام لانے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے صرف مکہ و مدینہ اور عرب کے عمومی مسائل و معاملات کے انتظام و انصرام ہی تک اپنی کوششوں کو محدود رکھا۔ محض اتنی ترمیم فرمائی کہ تقسیم عمل کے اصول پر چند بڑی ذمہ داریاں مختلف اکابر کے سپرد فرمادیں۔ کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے وصال کے بعد کوئی واحد مرجع اعلیٰ موجود نہ تھا جو سارے کاموں کو بغیر دوسروں کا سہارا لئے انجام دے سکتا۔

چنانچہ بیت المال کی ذمہ داری اس شخصیت کے سپرد کی گئی جن کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے امینِ امت کے لقب سے نوازا تھا اور وہ حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بن الجراح تھے۔۔۔ قضا کے منصب پر اس شخصیت کو مامور کیا گیا جن کے عدل اور انصاف کے سامنے کسی اور کا ستارہ شہرت چمک نہ سکا اور وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہبن خطاب تھے۔۔۔ سیکرٹری جنرل یا کتابت کا عہدہ خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کاتب خاص حضرت زید رضی اللہ عنہنے سنبھالا۔۔۔ یہ تمام عہدے اس نوعیت کے حامل نہ تھے جس نوعیت کے سرکاری عہدے آج ہوا کرتے ہیں یا خود اس دور کے بعد ہوئے۔ ان عہدیداروں کا نہ کوئی باقاعدہ دفتر تھا اور نہ متعین اوقات کار بلکہ جب ضرورت پیش آئی اپنا فرض انجام دے دیا اور پھر اپنے روزمرہ کے کاموں میں لگ گئے۔ اسلامی سپہ سالار جب نئے علاقے فتح کرتے تو وہاں وہ حکام اور قضاۃ کا نظم و نسق اسی طرز پر قائم کرتے جس کے وہ خود اپنے ملک میں عادی تھے۔ اگر کسی غیر ملک میں کوئی انتظامی مشکل پیش آتی تو اس کا نظم و نسق سابقہ اصول و طریق پر باقی رہنے دیا جاتا مگر یہ لحاظ رکھا جاتا کہ ایسا کرنے میں دین کے کسی اصول کی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے جس شخص کو جس منصب پر مامور فرمادیا تھا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہنے بھی اس کو اسی پر برقرار رکھا۔ اگر کوئی خود اپنا عہدہ چھوڑ کر علیحدہ ہوگیا تو دوبارہ اس کو اسی عہدے پر مامور کیا اور اگر کسی کو اس کے منصب سے ہٹاکر اس کے سپرد کوئی دوسری ذمہ داری کرنا چاہی تو اس سے باقاعدہ اس کی اجازت چاہی۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہنے ملکی سیاسی امور کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے کھینچے ہوئے خطوط ہی پر چلایا۔ البتہ ہر اہم معاملہ میں اصحاب رائے سے مشورہ ضرور کرتے رہے۔ اپنی رائے صرف وہیں استعمال فرمائی جہاں ذمہ داری خود آپ سے متعلق رہی اور دوسروں سے اس کا کوئی تعلق نہ رہا۔ اس کی مثال خلیفہ ثانی کا انتخاب ہے، مشاورت اور غور وخوض کے بعد آپ اس نتیجہ پر پہنچے کہ خلافت حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کے حوالہ کردی جائے۔

پس حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہکی سیاسی سوجھ بوجھ اور ریاست کے معاملات کی تفہیم کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ نے ایک مقتدر، فعال اور مقتدی انسان کا کردار ادا کیا اور ان لوگوں کے مشوروں کو بھی نظر انداز نہ فرمایا جو ابتداء و اجتہاد کو ترجیح دیتے تھے۔ آپ نے راستہ اتباع و اقتداء کا اختیار فرمایا مگر کمزوری یا بے اعتمادی کے ساتھ نہیں اور نہ دوسروں پر بھروسہ کرکے بلکہ اپنی جرات و ہمت پر اس راستہ کو اختیار فرمایا۔ آپ نے اقتداء کی تو یہ ثابت کردیا کہ آپ کے اندر دشوار، کٹھن اور بھاری ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت ان لوگوں سے زیادہ ہے جن کا مزاج اجتہاد و تصرف سے زیادہ قریب تھا۔

مہم اسامہ رضی اللہ عنہ ، مہم فتنہ و ارتداد اور مہم ایران و روم کو سر کرنے کا سہرا جہاں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہکے سربلا شرکت غیر بندھتا ہے وہیں آپ کا ایک اور کارنامہ بھی ہے جس کو اگر یہاں قلم انداز کردیا جائے تو آپ کے بلند مقام و مرتبہ کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ اس کارنامے کا اگرچہ ان مہمات سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے لیکن مملکت اسلامیہ کے حق میں یہ ان مہمات سے بھی زیادہ اہم ہے۔ اس سے ہماری مراد امت کا وہ دستور ہے جس کے بغیر امت کا نظریہ اور ضابطہ حیات ہی بے معنی ہوکر رہ جاتا یعنی جمع قرآن۔

جمع قرآن میں آپ نے وہی واضح راستہ اختیار فرمایا جس سے ذرہ بھر پیچھے ہٹنا بھی آپ کے مزاج کے خلاف تھا۔ اس سے مراد سنت اتباع و اقتداء اور مشاورت ہے۔ جنگ ہائے ارتداد میں حفاظ قرآن کی ایک اچھی خاصی تعداد شہید ہوچکی تھی اور ایران و روم کی لڑائیوں سے یہ اندیشہ لاحق ہوگیا تھا کہ باقی ماندہ حفاظ بھی کہیں ان کی نذر ہوجائیں اور اس طرح قرآن ضائع ہوجائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہنے یہ خطرہ بروقت بھانپ لیا اور خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہکو جمع قرآن کا مشورہ دیا۔ آپ نے ابتداء تردد ظاہر کرتے ہوئے فرمایا:

’’میں وہ کام کیسے کروں جو خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے نہیں کیا؟‘‘ لیکن مزید سوچ بچار کے بعد آپ کا دل حضرت عمر رضی اللہ عنہکے مشورہ پر مطمئن ہوگیا۔ چنانچہ آپ یک سو ہوکر جمع قرآن کے کام میں لگ گئے اور مشہور روایات کے مطابق دوران خلافت ہی میں قرآن کریم ٹھیک اس صورت میں جمع کردیا گیا جس صورت میں ہم آج اس کو پڑھتے ہیں۔

مملکت اسلامیہ کی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونا ایسی امانت تھی جس سے بھاری امانت کا بوجھ انسانی کندھوں نے آج تک نہیں اٹھایا۔ اس یادگار زمانہ اور لافانی عہد کے مطالعہ و تحقیق کے بعد اس کے متعلق ہر بات تو کہی جاسکتی ہے مگر ایک بات کوئی بھی صاحب عقل انسانی بقائمی ہوش و حواس نہیں کہہ سکتا اور وہ یہ کہ کوئی دوسرا انسان اس بار امانت کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہسے بہتر طریق پر نباہ سکتا یا اس کو اپنے پاس سے منتقل کرتے وقت آپ سے زیادہ دور اندیشی کا ثبوت دے سکتا تھا۔

آپ نے یہ امانت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے مبارک ہاتھوں سے لی اور اس کو حضرت عمر رضی اللہ عنہجیسے اہل تر انسان کے سپرد کردیا۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہاور طرز حکومت

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہپہلے خلیفہ تھے جنہوں نے عہد نبوت کے بعد اسلامی حکومت کی ذمہ داری سنبھالی۔ اس لئے یہ سوال یہاں قدرتی طور پر سامنے آتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہنے وہ کون سا طرز حکومت اختیار فرمایا جو ان کی حکومت اور ان کے بعد آنے والی حکومت کا خصوصی امتیاز تھا؟

یہ سوال بھی سامنے آتا ہے کہ اس حکومت اور موجودہ دور کی ان حکومتوں میں کون سی چیز مشترک ہے، جو جدید دستوری اصولوں پر چل رہی ہیں؟

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہکی حکومت یا ان کے عہد میں قائم شدہ اسلامی حکومت کو کس قسم کی حکومت کا نام دیا جاسکتا ہے؟

موجودہ دور کے دستوری ڈھانچوں میں سے کس ڈھانچہ سے اس کا دستوری ڈھانچہ قریبی مشابہت رکھتا ہے؟

ان سوالات کا جواب یہ ہے کہ جمہوری نظام حکومت، صدیقی نظام حکومت سے قریبی مشابہت رکھتا ہے لیکن ایک ہی دور کی مختلف قوموں میں اس نظام کی مختلف اشکال، مختلف دستوری قواعد و اصول اور مختلف تاریخی مقدمات پائے جاتے ہیں۔ یہ ساری اشکال و قواعد نہ تو ایسے ہیں کہ اسلامی طرز حکومت کی اشکال و قواعد سے حرف بحرف ملتے ہوں اور نہ ایسے ہیں کہ یکسر مختلف ہوں۔ یہ تحقیق شدہ امر ہے کہ اس وقت کی اسلامی حکومت مکمل طور پر اس معنی میں جمہوری حکومت نہیں تھی جو معنی ہم آج ’’جمہوریت‘‘ کا مراد لیتے ہیں۔ لیکن یہ بھی مسلمہ امر ہے کہ قرآن کریم نے جس ڈھانچہ پر اسلامی حکومت کو استوار کیا وہ ان حکومتوں کے نظاموں اور اصولوں سے دور کا تعلق بھی نہ رکھتا تھا جن کو معیوب نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا۔

اسلامی حکومت نے اگرچہ اپنا نظام موجودہ دور کے معروف جمہوری نظام کے طرز پر نہیں اٹھایا۔ مگر شخصی نظام حکومت (Autocratic Form of Govt)، کلیسائی نظام حکومت (Theocracy)، طبقاتی نظام حکومت (Qligarchy)، انار کزم اور ان تمام نظامہائے حکومت کو باطل قرار دیا جو انسان کو شخصی آزادی سے محروم کرتے ہیں اور فطری راہ سے ہٹ کر چلنے پر مجبور کرتے ہیں۔

شخصی حکومت (Autocracy) جس میں ایک فرد واحد سیاہ و سفید کا مالک بن بیٹھتا ہے اسلام میں ممنوع ہے۔ کیونکہ قرآن کریم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکو حکم دیتا ہے کہ آپ معاملات میں لوگوں سے مشورہ لیں۔

وَاَمْرُهُمْ شُوْرٰی بَيْنَهُمْ

ان کے معاملات باہمی مشوروں سے انجام پائیں۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن پر وحی الہٰی براہ راست نازل ہوئی تھی، خود سیاسی امور میں اپنے پیروکاروں سے مشورہ اور رائے لیتے تو آپ کے علاوہ جو دوسرے ذمہ داران حکومت ہوں گے ان کو مشاورت کا پابند بنانا اور اپنی رائے کو دوسروں پر مسلط کرنے کا اختیار نہ دینا تو ان کے لئے بدرجہ اولیٰ ضروری ہے۔

کلیسائی نظام حکومت (Theocracy) اس طرز حکومت کا نام ہے جس میں حکمران کو مقدس اور خدائی اوصاف کا حامل گردانا جاتا ہے اور یہ بھی اسلام میں ناجائز ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہکو خلیفۃ اللہ کہہ کر پکارا گیا تو آپ نے فرمایا: میں صرف خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمہوں اور لوگوں سے فرمایا کہ اگر میرے اندر کوئی کمزوری یا نقص نظر آئے تو اس طرف توجہ دلانا اور مجھے راهِ راست پر رکھنے کی کوشش کرنا۔

طبقاتی یا اعیانی حکومت انسانوں کی مٹھی بھر جماعت کے ہاتھوں میں ملک کی پوری باگ ڈور ہوتی ہے۔ یہ نظام حکومت بھی اسلام میں جائز نہیں۔ اسلام بیعت کے معاملہ میں خواص و عام کی تمیز نہیں کرتا اور نہ نسلی سیادت کا قائل ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ

’’سنو اور اطاعت کرو، اگرچہ تم پر کالا کلوٹا حبشی ہی امیر کیوں نہ بنادیا جائے‘‘۔

انارکی خواہ وہ چند سرغنہ قسم کے افراد کی ہو یا خواہشات کے نتیجہ میں معرض وجود میں آئی ہو، خواہ ملک کے عوام کی بے راہ روی اور ہوا پرستی کا مظہر ہو، اسلام کی نظر میں اسی طرح ناجائز ہے جس طرح مذکورہ بالا دوسرے نظامہائے حکومت ناجائز ہیں۔ اس کی نگاہ میں محکومین کی خواہشات و مرضیات اصول حق و عدل اور دستور و نظام شریعت سے بالا تر نہیں۔

قرآن مجید میں ہے کہ

بِمَآ اَنْزَلَ اﷲُ وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَآءَ هُمْ عَمَّا جَآءَ کَ مِنَ الْحَقِّ لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَةً وَّمِنْهَاجاً.

(المائدة:48)

’’ان کے درمیان اللہ کی اتاری ہوئی (ہدایت) کے مطابق فیصلہ کرو۔ تمہارے پاس جو حق ہے اس کو چھوڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے ایک قانون اور منہاج زندگی تجویز کیا ہے‘‘۔

اگر ان معیوب اصول و مبادی سے نظام حکومت پاک ہو تو وہ حکومت صالح سمجھی جائے گی۔ خواہ اس کو آپ جس عنوان سے چاہیں معنون کریں اور جس نام سے چاہیں یاد کریں۔ حکومت کی جتنی اقسام پائی جاتی ہیں ارسطو کی تعبیر کے مطابق ان کو دو جامع اقسام میں منقسم کیا جاسکتا ہے۔

  1. صالح حکومت محکوموں کی مصلحت کے لئے۔
  2. فاسد حکومت حاکموں کی مصلحت کے لئے۔

نظام حکومت کے جملہ اقسام کسی نہ کسی نوعیت سے مذکورہ بالا دونوں جامع اقسام کے دائرہ میں آجاتے ہیں۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہکی حکومت موجودہ دور کی اصطلاح کے مطابق جمہوری حکومت تو نہ تھی مگر آج کی جمہوریت کے سامنے حکومت کی جو غرض و غایت ہے وہ کسی طرح بھی اس غرض و غایت سے اعلیٰ و اشرف نہ تھی جو اسلامی حکومت میں مطلوب و مقصود تھی۔ اور نہ آج کا جمہوری نظام کچھ ایسے اصول و مبادی کا ابطال کرتا ہے جن کو اسلامی نظام نے باطل نہ قرار دیا ہو۔ اس حقیقت پر قرآن کریم، حدیث شریف اور مسلمانوں کا اجماع و اتفاق شاہد ہے۔

اب حکومت پر اس حیثیت سے بھی غور کرلیجئے کہ اس کا تعلق خلیفہ کی ذات اور اس کی عادات و اطوار سے کس نوعیت کا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہکی عادات و اطوار جو ہمیں معلوم ہیں ان میں اس تعلق کی روشن شہادت موجود ہے۔ عفت مابی، صداقت نرمی و بردباری، حزم و تدبر اور اس قسم کے دوسرے اوصاف خلیفہ اول کے ہر عمل میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ منصب خلافت پر متمکن ہونے کے بعد کا واقع ہے کہ آپ چند چادریں ہاتھ میں لئے فروخت کے لئے اپنے ہاتھ میں فرو ختنی چادریں لئے بازار جارہے تھے کہ راستے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا۔

’’کہاں کا ارادہ ہے؟‘‘

آپ نے فرمایا:

’’بازار جارہا ہوں‘‘۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’مسلمانوں کی ذمہ داری آپ کے کندھوں پر ہے۔ ایسی صورت میں یہ کاروبار کیسے کرسکتے ہیں؟‘‘

آپ نے فرمایا:

’’بال بچوں کو کہاں سے کھلاؤں گا؟‘‘

حضرت عمر رضی اللہ عنہنے مشورہ دیا کہ میں اور آپ دونوں بیت المال کے انچارج حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہکے پاس چلتے ہیں تاکہ وہ آپ کا اور آپ کے اہل و عیال کا وظیفہ مقرر فرمادیں۔ چنانچہ چھ ہزار درہم سالانہ وظیفہ مقرر کردیا گیا۔

آپ مدینہ کے ایک قریبی گائوں سخ میں رہتے تھے اور وہاں سے روزانہ آ کر غریبوں اور بے بس لوگوں کی بکریوں کا دودھ دوہتے تھے۔ بیعت خلافت ہوجانے کے بعد ایک خاتون کو کہتے سنا کہ آج ہمارے گھر کی بکریوں کو دوہنے والا کوئی نہ رہا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا: میری جان کی قسم! میں اب بھی تمہارے جانور دوہتا رہوں گا۔ چنانچہ آپ خلافت کے زمانہ میں بھی اس کے جانوروں کا دودھ دوہتے رہے۔ بلکہ بعض اوقات اس سے یہ بھی کہا کہ بیٹی! اگر تم کہو تو تمہارے جانوروں کو گھما پھرا لائوں؟ اگر اس نے اثبات میں جواب دیا تو آپ نے اس کی خواہش پوری کردی۔

جب حکومت کی گونا گوں ذمہ داریوں میں اضافہ ہوگیا تو آپ مدینہ منتقل ہوگئے اور یہاں برابر اس امر کی کوشش فرماتے رہے کہ جب تک ہوسکے نان و نفقہ تجارت کے ذریعہ خود حاصل کریں۔

جب وفات کا وقت آیا تو آپ نے حکم فرمایا کہ میں نے بیت المال سے جو کچھ اب تک لیا ہے اس کا حساب کرلیا جائے اور کل رقم میری ذاتی ملکیت سے واپس کردی جائے۔ آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:

’’جب میں وفات پاجائوں تو مسلمانوں کے برتن، ان کا غلام، ان کی اونٹنی، ان کی چکیاں اور ان کی دو چادریں جو میں اوڑھنے اور بچھانے کے لئے استعمال کرتا تھا، واپس کردی جائیں‘‘۔

روایات میں آپ کی عفت و زہد کے متعلق آتا ہے کہ آپ کی زوجہ محترمہ کو حلوہ کھانے کی خواہش پیدا ہوئی۔ انہوں نے چند دن کے روزکے خرچ میں سے کچھ رقم پس انداز کرکے حلوہ خریدا۔ جب آپ کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے بیت المال میں کچھ درہم واپس فرمائے اور اس حساب سے یومیہ خرچ میں کمی کردی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے یہ مخلص دوست اپنے لئے کوئی ایسی چیز جائز نہیں سمجھتے تھے جس کو خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے اپنے لئے پسند نہ فرمایا ہو، حالانکہ اپنے خاص مال سے ایسا کرلینے میں کوئی مضائقہ نہ تھا۔

اور رعایا کے حالات سے بھی باخبر رہتے۔ اگر کہیں ظلم و بے انصافی نظر آتی تو اپنی طبیعت و فطرت کے مطابق مظلوم کی داد رسی فرماتے اور بڑا آپ کی نگاہ میں اس وقت تک چھوٹا رہتا جب تک اس سے حق وصول نہ کرلیا جائے۔

آپ کی مہم پر کسی سپہ سالار کو روانہ کرتے ہوئے اُسے نصیحت کی کہ

’’تم اپنے اہل لشکر کی طرف سے غافل نہ رہنا کہ ان میں فساد رونما ہوجائے، ان کا اس حد تک تجسس نہ کرنا کہ وہ ذلت و رسوائی محسوس کرنے لگیں۔ لوگوں کی پردہ دری نہ کرنا بلکہ ان کے ظاہری حالات پر اکتفاء کرنا‘‘۔

آگے فرماتے ہیں:

’’ان کا ظاہر قبول کرلو اور ان کے باطن کو خود ان پر چھوڑ دو‘‘۔

پھر حکم فرماتے ہیں کہ

’’ان سب باتوں کے باوجود لوگوں کے معاملات سے پوری آگاہی رکھنا اور جہاں کہیں فساد نظر آئے اس کی اصلاح کردینا‘‘۔

آپ نے گورنروں کو جہاں یہ نصیحت فرمائی کہ وہ لوگوں کی پردہ دری نہ کیا کریں وہاں یہ نصیحت بھی فرماتے رہے کہ وعدہ و وعید کی بھی خلاف ورزی نہ کریں۔

اس کا خلاصہ آپ کی اس نصیحت میں موجود ہے جو آپ نے حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ کو فرمائی:

’’جب تم یہ کہو کہ میں یہ کروں گا تو اس کو کر گزرو۔ سزا یا درگذر کے معاملہ میں کبھی مہمل بات نہ کہو۔ جب تم کسی کو امن دو تو اس سے کوئی امید نہ وابستہ رکھو۔ جب تمہیں ڈرایا دھمکایا جائے تو اس کی پرواہ نہ کرو۔ بلکہ صرف اور صرف یہ دیکھو کہ تم کیا کہہ رہے ہو اور کیوں کہہ رہے ہو۔ کسی معصیت کی سزا میں حد سے تجاوز نہ کرو۔ اگر تم ایسا کرو گے تو گنہگار ہوگے اور اگر سزا دینا ترک کرو گے تو جھوٹ کے مرتکب ہوگے‘‘۔

آپ کا پورا دور حکمرانی حلم و بردباری، صداقت شعاری، حزم و تدبر، دانشوری اور دور بینی کی اسی سنت پر چلتا رہا۔

ہر صورت میں یہ آپ کا دورِ خلافت اپنی دو جامع خوبیوں کی وجہ سے موجودہ دور کی ترقی یافتہ حکومتوں کے لئے اسوہ و نمونہ ہے۔

پہلی خوبی تو یہ کہ اس حکومت نے ان تمام غلط اصولوں کو مٹادیا جن کی وجہ سے کسی حکومت کو کسی عنوان سے غلط حکومت کہا جاتا ہے۔

دوسری خوبی یہ کہ اس نے اپنی غرض و غایت کو اتنا بلند کردیا جس سے اوپرکسی انسانی حکومت کا تصور نہیں کیا جاسکتا اور وہ غرض و غایت فرد کی آزادی اور محکوموں کے مفاد و مصلحت سے تعبیر ہے۔

آپ میں حلم اور بردباری تو تھی ہی، حزم و تدبر سے بھی آپ کبھی غافل نہ رہے۔ چنانچہ آپ گورنروں کی کاروائیوں پر نگاہ رکھتے اور رعایا کے حالات سے بھی باخبر رہتے۔ اگر کہیں ظلم و بے انصافی نظر آتی تو اپنی طبیعت و فطرت کے مطابق مظلوم کی داد رسی فرماتے اور بڑا آپ کی نگاہ میں اس وقت تک چھوٹا رہتا جب تک اس سے حق وصول نہ کرلیا جائے۔

آپ کی مہم پر کسی سپہ سالار کو روانہ کرتے ہوئے اُسے نصیحت کی کہ

’’تم اپنے اہل لشکر کی طرف سے غافل نہ رہنا کہ ان میں فساد رونما ہوجائے، ان کا اس حد تک تجسس نہ کرنا کہ وہ ذلت و رسوائی محسوس کرنے لگیں۔ لوگوں کی پردہ دری نہ کرنا بلکہ ان کے ظاہری حالات پر اکتفاء کرنا‘‘۔

آگے فرماتے ہیں:

’’ان کا ظاہر قبول کرلو اور ان کے باطن کو خود ان پر چھوڑ دو‘‘۔

پھر حکم فرماتے ہیں کہ

’’ان سب باتوں کے باوجود لوگوں کے معاملات سے پوری آگاہی رکھنا اور جہاں کہیں فساد نظر آئے اس کی اصلاح کردینا‘‘۔

آپ نے گورنروں کو جہاں یہ نصیحت فرمائی کہ وہ لوگوں کی پردہ دری نہ کیا کریں وہاں یہ نصیحت بھی فرماتے رہے کہ وعدہ و وعید کی بھی خلاف ورزی نہ کریں۔

اس کا خلاصہ آپ کی اس نصیحت میں موجود ہے جو آپ نے حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ کو فرمائی:

’’جب تم یہ کہو کہ میں یہ کروں گا تو اس کو کر گزرو۔ سزا یا درگذر کے معاملہ میں کبھی مہمل بات نہ کہو۔ جب تم کسی کو امن دو تو اس سے کوئی امید نہ وابستہ رکھو۔ جب تمہیں ڈرایا دھمکایا جائے تو اس کی پرواہ نہ کرو۔ بلکہ صرف اور صرف یہ دیکھو کہ تم کیا کہہ رہے ہو اور کیوں کہہ رہے ہو۔ کسی معصیت کی سزا میں حد سے تجاوز نہ کرو۔ اگر تم ایسا کرو گے تو گنہگار ہوگے اور اگر سزا دینا ترک کرو گے تو جھوٹ کے مرتکب ہوگے‘‘۔

آپ کا پورا دور حکمرانی حلم و بردباری، صداقت شعاری، حزم و تدبر، دانشوری اور دور بینی کی اسی سنت پر چلتا رہا۔

ہر صورت میں یہ آپ کا دورِ خلافت اپنی دو جامع خوبیوں کی وجہ سے موجودہ دور کی ترقی یافتہ حکومتوں کے لئے اسوہ و نمونہ ہے۔

پہلی خوبی تو یہ کہ اس حکومت نے ان تمام غلط اصولوں کو مٹادیا جن کی وجہ سے کسی حکومت کو کسی عنوان سے غلط حکومت کہا جاتا ہے۔

دوسری خوبی یہ کہ اس نے اپنی غرض و غایت کو اتنا بلند کردیا جس سے اوپرکسی انسانی حکومت کا تصور نہیں کیا جاسکتا اور وہ غرض و غایت فرد کی آزادی اور محکوموں کے مفاد و مصلحت سے تعبیر ہے۔