سماجی تبدیلی مگر کیسے۔۔۔ ؟

پروفیسر شیخ عبدالرشید

کسی معاشرے میں تبدیلی سے مراد سماج کی ساری نظم و ترتیب بدل جانا ہے۔ جس کسی سماج میں اندرونی جدت یا بیرونی خطرے یا کسی اور دبائو کی وجہ سے نظام کا توازن تباہ ہورہا ہو اور معاشرہ باقی رہنا چاہتا ہو تو اس کے ڈھانچے میں تبدیلی کا آنا ضروری ہے۔

پاکستان اپنی تاریخ کے سنگین ترین بحران سے دوچار ہے۔ اس بحران کا تعلق ریاست سے بھی ہے اور معاشرے سے بھی۔ ریاستی سطح پر اہم ترین مسئلہ معاشی ہے، ملک کو دیوالیہ ہونے کا زبردست خطرہ موجود ہے۔ سیاسی اداروں کی ناقص کارکردگی اور کمزور جمہوری روایات کے نتیجے میں چاروں صوبوں میں باہمی اعتماد تیزی سے ختم ہورہا ہے۔ اسلحہ کے انباروں سے لیس سیاسی و مذہبی گروہوں نے جرائم اور سیاسی عمل میں تمیز مٹادی ہے۔ امن عامہ کی تباہ کن صورتحال نے شہریوں میں عدم تحفظ کا گہرا احساس پیدا کردیا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ تیزی سے بدلتی ہوئی عالمی صورتحال میں ہم روز بروز معاشی، علمی اور معاشرتی پسماندگی کی دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔

پاکستان کے موجودہ سماج کی اشد ضرورت ہے کہ معاشی اور سیاسی طاقت کی بنیاد کو وسیع سے وسیع تر کیا جائے۔ تبدیلی و ترقی کا ایک ایسا لائحہ عمل تیار ہو جو زیادہ سے زیادہ لوگوں کو فائدہ پہنچاسکے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ زندگی کا ایک ایسا انداز تشکیل دیا جائے جو ہمارے افلاس اور معاشی ترقی کی موجودہ صورتحال سے مطابقت رکھتا ہو، یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ سرمایہ دارانہ لوٹ مار اور جاگیر دارانہ فرعونیت کے حامل ایسے معاشرے میں جہاں لوگ سیاسی فیصلوں میں شرکت سے محروم ہوں اور جس سماج میں ذمہ دار اداروں کو پنپنے ہی نہ دیا گیا ہو اور جہاں معاشی اور سیاسی قوت ایک محدود اقلیت کے گرد گھومتی ہو اور ترقی کا تمام پھل ایک خاص طبقے کے لئے مخصوص ہو وہاں تبدیلی کی بات کرنا مشکل ترین امر ہے۔

یہ فرض کرلینا کہ معاشرتی تبدیلی آسانی سے کسی معاشرے میں قدم جمالیتی ہے، درست نہیں کیونکہ سماجی تغیر کو بالعموم خوش آمدید نہیں کہا جاتا بلکہ مخصوص مفادات کے حامل افراد اور گروہ سماجی تبدیلیوں کی راہ میں دشواریاں پیدا کردیتے ہیں۔ درحقیقت لوگ اپنے طرز زندگی، خیالات و عقائد اور مواقع و مفادات سے اس قدر وابستہ ہوتے ہیں کہ معاشرے میں کسی قسم کا تغیر و تبدل پسند نہیں کرتے۔ چنانچہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہر معاشرتی یا سیاسی نظام اس کے سوا کچھ نہیں کرسکتا کہ وہ بعض اقدار اور آدرشوں کو فروغ دے یا ان کی راہ میں رکاوٹ بنے۔ کسی برگشتہ معاشرے میں تو جمہوریت بھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔

ماہرین عمرانیات کا خیال ہے کہ معاشرے میں تبدیلی قوت کے بل بوتے پر نہیں ہونی چاہئے اور نہ ہی ایک مخصوص جہت کی ہونی چاہئے بلکہ معاشرتی، معاشی، سیاسی اور تہذیبی دائروں میں تبدیلی بیک وقت ہونی چاہئے۔ جو تبدیلیاں کسی ایک دائرے تک محدود رہتی ہیں وہ ہر تبدیلی کے لئے تباہ کن ثابت ہوتی ہیں جس طرح قدیم دور کا انسان فطرت کی قوتوں کے سامنے بے بس تھا اسی طرح جدید انسان ان معاشرتی و معاشی قوتوں کے آگے بے بس ہے جن کو اس نے خود تخلیق کیا ہے۔ وہ اپنی ہی بنائی ہوئی سماجی اقدار کی پوجا کرتا ہے اور سیاسی و معاشی بتوں کے آگے سجدہ ریز ہے اور ساتھ ہی اس خدا کا نام بھی لیتا ہے جس نے اسے تمام بتوں کو توڑنے کا حکم دیا ہے۔ ایسی منافقانہ دیوانگی کے مضمرات سے محفوظ رہنے کے لئے صحت مند معاشرے کی تخلیق ضروری ہے۔

اس معاشرے کو صحتمند بنانے کے لئے ہمیں نئے نصب العین، نئے نظریئے اور نئے روحانی مقاصد کی بھی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ تہذیب کے مرکز میں زیادہ تر ایک سی بصیرتیں ملتی ہیں۔ ہمیں اپنے اسلاف، بانیوں اور دینی اکابر کے خیالات تک رسائی حاصل ہے۔ ہم عظیم اور انسان دوست تعلیمات کے وارث بھی ہیں۔ ہمیں معاشرتی تبدیلی کے عمل کے لئے نظریئے کی ضرورت نہیں کہ دانائی سے کس طرح زندہ رہا جاتا ہے۔

دراصل ہمیں ضرورت اس امر کی ہے کہ جن باتوں پر ہم ایمان رکھتے ہیں، جن کی ہم تبلیغ کرتے ہیں اور جن کا درس دیتے ہیں ان کو سنجیدگی سے قبول کریں۔ معاشرتی تبدیلی یا سماجی بہتری کے لئے ہمارے دلوں کا انقلاب نئی دانش کا متقاضی نہیں بلکہ نئی سنجیدگی اور نئے عزم کا تقاضا کرتا ہے۔ ہمارے نصب العین یا ہمارے معاشرتی اصولوں یا قدروں کو لوگوں کے دل و دماغ میں بٹھانے کا فرض سب سے پہلے تعلیم نے ادا کرنا ہے اور یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام یہ فرض ادا کرنے کی اہلیت کا حامل ہی نہیں ہے لہذا اگر ہم کوئی مثبت اور پائیدار معاشرتی تبدیلی کے آرزو مند ہیں تو ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو تبدیل کرکے بہتر بنانا ہوگا۔

وقت آگیا ہے کہ روشن مستقبل کے لئے حقیقی تعلیم کا چراغ جلائیں، معلومات کا سیلاب اور ڈگریوں کا انبار معاشرتی تبدیلی کا ضامن نہیں ہوسکتا۔ تعلیم کے ذریعے تبدیلی ہی حقیقی معاشرتی تبدیلی ہوگی۔ مثبت تبدیلی کا دروازہ کھولنے کے لئے لازم ہے کہ ہم اپنے زمینی حقائق اور روح عصر سے ہم آہنگ نظام تعلیم و تدریس بنائیں جو ہمارے سماج کی ذہنی و فکری بالیدگی کا موجب ہو۔ مضبوط و مستحکم تعلیمی بنیادوں کے ذریعے ہی ہم ایسے فکری اور تخلیقی رجحانات کو جنم دے سکتے ہیں جو معاشرے کے منفی عمل کو مثبت قوت میں بدل دیں۔ ہمیں تحمل، برداشت، رواداری کا حامل معاشرہ تشکیل دینا ہوگا جس میں تہذیبی، ادبی اور معاشی و جمہوری ادارے مستحکم ہوں۔ ہمیں دلیل کو عادت اور منطق کو ذہنی قوت بنانا ہوگا۔ جمہوریت صرف سیاست میں ہی نہیں، اپنے رویوں میں بھی لانی ہوگی۔

مختصر یہ کہ معاشرے میں بڑی تبدیلی کو سماج کی صلاحیتوں اور اجتماعی دانش کا عکاس بنانے کے لئے لازم ہے کہ کھلے دماغ اور بڑے دل کے ساتھ قومی مباحثہ شروع کیا جائے کہ ہمارے معاشرے میں تبدیلی کی خواہش اور اس کے لئے ضروری صلاحیت موجود ہے کہ نہیں؟ اور پھر متوقع تبدیلی کس طرح اور کس رفتار سے ہونی چاہئے؟ سماج میں موجود تحرک کی سمت کیا ہے اور کیا یہ مثبت ہے؟ اس عمل میں ہمارے دانشوروں، سیاسی رہنماؤں، مذہبی پیشوائوں اور ترقی کے علمبرداروں سب کو شریک ہونا چاہئے اورہم اپنے سماج کے لئے تبدیلی کا تعین اجتماعی دانش کو بروئے کار لاکر کریں تاکہ یہ تبدیلی خارج سے ایک اور نفاذ ثابت نہ ہو۔ عالمگیریت کے عہد میں تبدیلی آنے سے زیادہ تبدیلی مسلط ہونے کا خطرہ زیادہ بڑھ گیا ہے۔ سماجی تبدیلی تاریخ کی حرکت کا نام ہے اسے برپا ہونا ہے مگر اسے اپنے دائرہ اثر میں رکھنا ہے یا اس کے زیر اثر آجانا ہے، اس کا بروقت اور مدبرانہ فیصلہ بہت ضروری ہے۔