حُسنِ سماعت آداب و تقاضے

شفاقت علی شیخ

لکھنا، پڑھنا، بولنا اور سننا یہ چاروں ا بلاغ کی بنیادی قسمیں ہیں جن کے ذریعے سے ماحول اور معاشرے سے ہمارا رابطہ ہوتا ہے۔ان ہی کے ذریعے ہم دوسروں تک اپنی آراء پہنچاتے ہیں اور اُن سے اطلاعات و معلومات وصول کرتے ہیں ۔ گویا دوسروں کے ساتھ ہمارے تعلقات اور دوسروں کو اپنی بات سمجھانے اور اُن کی بات سمجھنے کیلئے یہ چاروں چیزیں بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہیں اور ہم اپنے وقت کا بیشتر حصہ انہی میں خرچ کرتے ہیں ۔ کامیاب اور مؤثر زندگی گزارنے نیز دوسروں کے ساتھ خوشگوار تعلقات استوار کرنے کیلئے بہت ضروری ہے کہ ہم ان چاروں میں ماہر ہوں اور ان کو بہترین انداز میں استعمال کرنا جانتے ہوں۔ مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم لکھنے اور پڑھنے میں مہارت حاصل کرنے کیلئے تو اپنی زندگی کے بہت سارے قیمتی سال صرف کرتے ہیں لیکن سننے اور بولنے کا فن سیکھنے کیلئے کوئی خاص جدوجہد نہیں کرتے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم ان دونوں میں کمزور رہ جاتے ہیں ۔نہ دوسرے لوگوں کی بات اچھے طریقے سے سننے کا فن ہمیں آتا ہے اور نہ ہی اپنی بات مؤثر طریقے سے سمجھانے سے آشنا ہوتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ہماری اثریت محدود ہوتی ہے، ہماری کامیابی کی راہ میں رکاوٹیں آتی ہیں اور دوسرے لوگوں کے ساتھ ہمارے تعلقات قدم قدم پر متاثر ہوتے ہیں حتی کہ یہ تعلقات بعض اوقات تو بالکل ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ معاشرتی تعلقات کی مضبوطی اور فروغ کے لئے پہلے ہمیں دوسروں کی بات صحیح معنوں میں سمجھنا ہو گی تاکہ بعد ازاں ہم اُنہیں اپنی بات کماحقہ سمجھا سکیں۔ جب تک ہم ایک اچھے سامع (Listener ) نہیں بن جاتے تب تک ہم ایک اچھے مقرر (Speaker) بھی نہیں بن سکتے۔

اول سماعت بعد کلام

لوگ عموماً دوسرے کی پوری بات سنے بغیر اور اس بات کوجانے بغیرکہ وہ اصل میں کہناکیا چاہتا ہے فوراً ہی اپنے نکتہ نظرسے معاملے کو دیکھتے ہوئے کوئی حل تجویز کر دیتے ہیں۔ دراصل ہم میں چیزوں پر جھپٹ پڑنے کی اور اُنہیں نصیحت سے درست کر دینے کی بہت تیزی ہوتی ہے۔ چنانچہ اکثر ہم تشخیص کے لئے درکار وقت صرف نہیں کرتے اور مسئلے کو پہلے گہرائی کے ساتھ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ محض سرسری انداز میں بات کو سنتے ہوئے یا کسی مسئلے کا سطحی ساجائزہ لیتے ہوئے بغیر غوروفکر کے فوری طور پر اپنی رائے کا اظہار کر دیتے ہیں۔ یہ چیز ہماری اثر انگیزی کو بہت محدود کر دیتی ہے اور دوسروں کے ساتھ خوشگوار تعلقات کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔

دوسروں کے مسائل کے حقیقی ادراک کے لئے ضروری ہے کہ انہیں غور سے اور ہمہ تن گوش ہو کر سنا جائے، یہ سننا انہیں محض جواب دینے، قائل کرنے، اپنی بات منوانے یا اُن سے اپنا مقصد حاصل کرنے کی غرض سے نہ ہو بلکہ محض اُنہیں سمجھنے کے لئے سنیں۔یہ دیکھنے کے لئے کہ دوسرا شخص معاملات کو کس طرح سے دیکھتا ہے اور وہ حقیقت میں کہنا کیا چاہتا ہے ۔ ایک مرتبہ جب اُس کے اصل نکتہ نظر سے آگاہی حاصل ہو جائے تو پھر اُس کے بعد اپنا نکتہ نظر اُس کے سامنے پیش کیا جائے۔

’’بالغ نظری ‘‘ کی تعریف ہی یہ ہے کہ یہ ’’حوصلے‘‘ اور ’’دوسروں کا خیال رکھنے‘‘ میں توازن کا نام ہے ۔ دوسروں کو ’’ سمجھنے‘‘ کی خواہش تقاضا کرتی ہے کہ انسان کے اندراتنی مروت ہونی چاہیے جو دوسروں کے جذبات و احساسات کی قدر کر سکے اور اُن کی باتوں کو غور سے سنتے ہوئے اُن کے اصل مفہوم کو اخذکر سکے۔ دوسروں کو سمجھانے کی خواہش ’’حوصلے‘‘ کا تقاضا کرتی ہے کہ انسان کے اندر اتنی جرات ہونی چاہئے کہ انسان جو کچھ بتانا چاہتا ہے اُسے اِس انداز میں دوسروں کے سامنے رکھ سکے کہ لوگ اُس کی باتوں کو مکمل طور پر سمجھ سکیں اور اُس کے اصل نکتہ نظر سے آگاہ ہو سکیں۔ اگر ہم دوسرے کے جذبات و احساسات کا خیال رکھنے اور انہیں ان کے مسئلہ کے مطابق صحیح سمجھانے کے معاملے میں کمزوری دکھائیں گے تو نتیجتاً ہمارے اور ان کے درمیان خوشگوار معاشرتی تعلقات فروغ نہ پاسکیں گے۔

سمجھ اور ادراک

جب بھی کوئی شخص یا معاملہ ہمارے سامنے آتا ہے اور ہم اُسے ایک نظر دیکھتے ہیں تو اُس کے بارے میں ہمارا پہلا تاثر ’’ادراک‘‘ (perception) کہلاتا ہے ۔ ادراک گویا سمجھ کی پہلی منزل ہے ۔ ادراک کی بنیاد ہمارے ذاتی تجربے، مطالعے، تصورات، تخیلات اور عقائد پر ہوتی ہے۔ گویا دوسرے لفظوں میں ہم ہر نئی چیز، نئے مسئلے یا انسان کو اپنی ذاتی عینک (تعصبات) سے دیکھتے ہیں۔ سمجھ اُس وقت شروع ہوتی ہے جب ہم چیزوں، مسائل اور انسانوں کو اپنے تعصبات کی عینک اُتار کر دیکھتے ہیں اور محض حواس خمسہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اُسے سطحی نظر سے دیکھ کر کوئی رائے قائم کر نے کی بجائے غوروفکر کو اعلیٰ درجے میں استعمال کرتے ہوئے اُس کی تہہ تک پہنچتے ہیں ۔مثلاً جب آسمان کے دور والے کنارے کو دیکھتے ہیں تو ہمارا ادراک ہمیں بتاتا ہے کہ وہاں آسمان اور زمین آپس میں ملے ہوئے ہیں مگر ہماری سمجھ ہمیں بتاتی ہے کہ ایسا نہیں ہے بلکہ اُن کے درمیان یکساں فاصلہ موجود ہے۔ گویا یہاں ہماری بصارت ہمیں دھوکہ دے گئی لیکن عقل اور غوروفکر نے اس فریبِ نظر کا پردہ چاک کر دیا۔ اسی طرح تمام معاملات میں کہیں حواسِ خمسہ اور کہیں اندرونی تعصبات کی وجہ سے ہم فریبِ نظر کا شکار ہو سکتے ہیں اور چیزوں کو غلط رُخ سے دیکھتے ہوئے غلط نتائج اخذ کر سکتے ہیں لیکن اگر ہمارے اندر فہم و بصیرت اور دور اندیشی موجود ہوں تو ہم حقائق کی تہہ تک پہنچ سکتے ہیں اور درست نتائج اخذ کر سکتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعاؤں میں سے ایک دعایوں تھی :

الهی ارنا الا شياء کماهی وارنا الباطل باطلا وارزُقنا اجتنابه وارنا الحق حقا و ارزُقنا اتباعه.

(مرقاة المفاتيح، ج۱۰، ص۱۱۰)

’’اے اللہ ہمیں چیزوں کو اُسی طرح دیکھنے کی توفیق عطا فرما، جیسی وہ ہیں ــاور باطل کو باطل کے روپ میں دیکھنے اور پھر اس سے اجتناب کرنے کی توفیق عطا فرما۔ ہمیں حق کو حق کی صورت میں دیکھنے اور پھر اُس کی پیروی کی توفیق عطا فرما ‘‘۔

حق و باطل کو اُن کی اصلی صورت میں دیکھنے کیلئے حواس خمسہ کی محدودیت سے باہر نکلنے اور اندرونی تعصبا ت سے اُوپر اُٹھ کر کھلے د ل و دماغ سے حالات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہوتی ہے اور پھر اُس کے مطابق اپنے طرزِ عمل کو متعین کرنے کیلئے جُرات اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ورنہ بہت مرتبہ توایسا ہوتا ہے کہ انسان حق و باطل کو پہچاننے میں ہی غلطی کر جاتا ہے۔ اورکبھی حق و باطل کو پہچاننے کے باوجود بزدلی، پست ہمتی، انانیت یا کسی مصلحت کی بناء پر صحیح طرزِ عمل کو اپنانے کا حوصلہ اور جرات نہیں کر پاتا۔

سماعت کے ناقص انداز

جب کوئی دوسرا شخص بات کر رہا ہو تو عام طور پراُس کی بات کو ہم مندرجہ ذیل میں سے کسی ایک انداز سے سنتے ہیں :

بے دھیانی سے سننا

سننے کا یہ سب سے ناقص انداز ہے۔ ہم اپنے ہی خیالات میں کھوئے ہوتے ہیں اور دوسرے شخص کی بات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ہمارے ذہن میں کوئی اورکہانی چل رہی ہوتی ہے اور اُس میںمنہمک ہونے کی بناء پر ہم مخاطب کی بات پر توجہ نہیں دے پاتے اور یوں ہمارا سننا اور نہ سننا برابر ہو جاتا ہے۔ ہر انسان پر ایسا وقت کبھی نہ کبھی آتا ہے کہ جب وہ اُس کیفیت کا مظاہرہ کرتا ہے مگر جو شخص اکثرو بیشتر ایسا کرے اور بے دھیانی سے باتیں سننے کو اپنی عادت ہی بنا لے تو دوسروں کی نظر میں اُس کی قدروقیمت کم ہو جاتی ہے۔

سننے کی اداکاری کرنا

سماعت کے انداز میں سننے کی اداکاری کرنے کا انداز بہت عام ہے۔ اکثر لوگوں میں یہ عادت پائی جاتی ہے کہ وہ دوسروں کی باتوں کو توجہ سے سن نہیں رہے ہوتے بلکہ محض سننے کی اداکاری کر رہے ہوتے ہیں ۔ جس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ دوسرے کی گفتگو کے دوران اُن کا ذہن تو کہیں اور کھویا ہوتا ہے تاہم دوسرے کو یہ احساس دلانے کیلئے کہ وہ اُس کی باتوں کو سن رہے ہیں وقتاً فوقتاً ’’ہاں ‘‘، ’’ ٹھیک ہے‘‘ اور’’ ہوں ہوں‘‘و غیرہ جیسے الفاظ بول دیتے ہیں لیکن بولنے والے کو جلدیا بدیر اس کا احساس ہو جاتا ہے کہ اُس کی باتوں کو توجہ سے نہیں سنا جا رہا اور اُسے نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔ظاہر ہے کہ اِس کا اُس پر کوئی اچھا اثر نہیں پڑتا۔یوں ہم اُس کی نظروں میں اپنا تاثر خراب کرنے کے ساتھ ساتھ اُس کی باتوں کو گہرے انداز میں سمجھنے سے بھی محروم رہ جاتے ہیں ۔

مخصوص باتیں سننا

اس انداز میں ہم مخاطب کی گفتگو کے صرف ان حصوں پر توجہ دیتے ہیں جن میں ہماری دلچسپی کا کوئی پہلو موجود ہوتا ہے اور اُن تمام باتوں کو نظرانداز کرتے چلے جاتے ہیں جو ہمارے لئے کوئی کشش کاپہلو نہ رکھتی ہوں۔ خواہ وہ حقیقتاً کتنی ہی اہم کیوں نہ ہوں یا ہمارے مخاطب کی نظروں میں بہت زیادہ وزنی ہوں ۔ مثلاً ہمارا کوئی دوست ہمیں اپنے بھائی کے متعلق بتانا چاہ رہا ہے جو کسی سکول یا کالج میں پڑھتا ہے یا کسی شعبہ میں کام کرتا ہے۔ ہم اُس کی بقیہ بات کو نظر انداز کرتے ہوئے اُس سکول، کالج یا شعبہ پر تبصرہ شروع کر دیتے ہیں اور اپنی ہی کہے چلے جاتے ہیں جبکہ وہ شخص تو بنیای طور پر ہمیں اپنے بھائی کے متعلق کچھ بتانا چاہتا تھا مگر ہم نے اُس کی بات کے اہم نکتے کو نظر انداز کر تے ہوئے اپنی توجہ کو اپنی مرضی کے موضوع پر مرکوز کرلیا۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ اُس کی نظروں میں ہمارا پہلے جیسا تاثر قائم نہیں رہ سکے گا۔

۴۔صرف الفاظ سننا

سننے کے اس انداز میں ہم مخاطب کے الفاظ پر تو غور کر تے ہیں لیکن اُن کا مفہوم سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور یہ نہیں جان پاتے کہ وہ اصل میں کیا کہنا چاہ رہا ہے۔ نتیجتاًہم اہم بات تک رسائی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ الفاظ ابلاغ کا بہت بڑا ذریعہ ہیں مگر کبھی الفاظ ہی ابلاغ کے راستے کی بہت بڑی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کے نزدیک ہمارے ابلاغ (Communication ) میں الفاظ کا حصہ صرف سات فیصد ہوتا ہے۔ 38 فیصد لہجے (آواز کے اُتار چڑھاؤو غیرہ) اور 55 فیصد جسمانی حرکات و سکنات(Body language / physiology) کا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر مندرجہ ذیل فقرے پر غور کیجیے:

میں نے یہ نہیں کہا کہ ’’ تمہارے ‘‘رویے میں کوئی مسئلہ ہے۔

میںنے یہ نہیں کہا کہ تمہارے ’’رویے‘‘ میں کوئی مسئلہ ہے۔

مندرجہ بالا فقروں میں دونوں جگہوں پر الفاظ یکساں ہیں مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ دو مختلف الفاظ پر زور دینے کی صورت میں دونوں جگہوں پر اُس کا مفہوم یکسر بدل جاتا ہے۔ لہذا کسی بات کے صحیح مفہوم تک پہنچنے کیلئے مخاطب کے دل میں جھانک کر دیکھنا ہوتا ہے ۔صرف الفاظ کے سن لینے سے ہم کسی کے دل کی کیفیت کا اندازہ نہیںلگا سکتے ۔

ذاتی نقطہ نظر سے سننا

یہ بھی سننے کا ایک اور ناقص انداز ہے جس میں لوگوں کی اکثریت مبتلا ہوتی ہے۔ اس کا طریقہ کا ر یہ ہے کہ سننے والا اپنے ذاتی نقطہ نظر سے سن رہا ہوتا ہے۔ وہ دوسرے شخص کو اپنے اُوپر قیاس کرتے ہوئے یہ فرض کر لیتا ہے کہ دوسرا شخص بھی اُسی انداز میں سوچ رہا ہے جس میں وہ خود سوچ رہا ہے۔ چنانچہ بعض اوقات دوسرے شخص کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی کہہ دیا جاتا ہے کہ’’ میں سمجھ گیا ہوں کہ آپ کیاکہنا چاہتے ہیں‘‘ حالانکہ یہ قطعاًضروری نہیں ہے کہ دوسرے کی بات کو واقعتاً اور حقیقتاً سمجھ لیاگیا ہو ۔ دراصل اس اندازِ سماعت میں یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ جس رنگ کی عینک میں نے لگا رکھی ہے، اُسی رنگ کی ہر ایک نے لگا رکھی ہے لہذا معاملات کو جس انداز سے میں دیکھ رہا ہوں اُسی انداز سے سب لوگ دیکھ رہے ہیں ۔ یہ سوچ حقائق تک پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دوسرا شخص خاموش ہو جاتا ہے اور وہ اپنا حال دل بیان کرنے کا ارادہ ترک کر دیتا ہے ۔

سماعت کے اس انداز میں عموماً مندرجہ ذیل تین طرح کی خامیاں ظاہر ہوتی ہیں ۔

i۔ تحقیق کرنا

اس کیفیت میں دوسروں کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی تحقیق و تفتیش شروع کردی جاتی ہے۔ والدین عموماً بچوں کے معاملے میں یہ غلطی کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ ہمارے سامنے اپنا حال دل سنانے اوراندرونی جذبات کو بیان کرنے سے گریز کرتا ہے ۔ نیز وہ ہمارے پاس بیٹھنے میں تنگی اور گھٹن محسوس کرتا ہے۔ بہت سے بچوں کے والدین سے دور رہنے کی ایک بڑی وجہ والدین کی یہی تفتیش و تحقیق اور مستقل کرید ہوتی ہے۔

ii۔ نتائج اخذ کرنا

ذاتی نقطہ نظر کے مطابق سننے کے نتیجے میں بات کے مکمل ہونے سے پہلے ہی نتیجہ اخذ کرلیا جاتا ہے۔ اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جب ہم دوسرے کی بات سنتے ہیں تو ذہن میں کوئی نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں کہ وہ کہناکیا چاہ رہا ہے اور جب ہم نتیجہ اخذ کرنے میں مصروف ہوں تو ظاہر ہے کہ اُس وقت دوسرے کی بات پورے دھیان سے نہیں سن سکتے۔ یہ چیز بھی سماعت کے راستے کی رکاوٹ بن جاتی ہے اور دوسروں کے ذہنوں میں ہمارے بارے میں تاثر کو متاثر کرتی ہے۔

iii۔ نصیحت کرنا

ذاتی نقطہ نظر سے سننے کی تیسری بڑی خامی یہ ہے کہ دوران گفتگو ہی پوری بات کو سنے بغیر نصیحت کرنا شروع کردی جاتی ہے ۔ کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ دوسرا شخص بات کر رہا ہوتا ہے تو اُس کی بات کے مکمل ہونے سے پہلے ہی اپنے تجربات کی روشنی میں اُسے کوئی نہ کوئی مشورہ دینا شروع کردیا جاتا ہے ۔ یہ گویا اپنی عینک اُتار کر دوسرے کو تھما دینے کے مترادف ہے ۔ یہ کام ہم کتنے ہی خلوص سے کریں لیکن دوسرے کے اُوپر کوئی خوشگوار اثرات مرتب نہیں کرے گا۔ وہ یہ سمجھنے پر مجبور ہو گا کہ ہمیں سننے کی بجائے سنانے سے دلچسپی ہے ۔ لوگوں کی نظروں میںہماری طرف سے آنے والے مشوروں اور نصیحتوں سے کہیں زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اُنہیں سنا جائے اور سمجھاجائے کہ وہ حقیقتاً کہنا کیا چاہتے ہیں ۔

روزمرہ کی زندگی میں دوسروں کو سننے کے معاملے میں مندرجہ بالا قسم کی غلطیاں عموماً ہم سے سرزدہوتی رہتی ہیں اور ہم ہروقت اُن کے گرد گھومتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے دوسروں کو حقیقی معنوں میں سمجھنے کی ہمارے اندر موجود صلاحیت متاثر ہوتی رہتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک طرف تو ہماری اثریت کا دائرہ سکڑتاچلا جاتا ہے اور دوسری طرف دوسروں کے ساتھ تعلقات متاثر ہوتے رہتے ہیں ۔

حقیقی سماعت

سننے کے مندرجہ بالا پانچوں انداز ناقص ہیں جن میں سے ہر ایک میں کوئی نہ کوئی خامی پائی جاتی ہے۔ سننے کا بہترین اور اعلیٰ ترین انداز جسے حقیقی سماعت کہا جا سکے وہ ’’ ہم نفس سماعت ‘‘ ہے۔

’’ ہم نفس سماعت ‘‘ کا مطلب ہے کہ دوسروں کی سطح پرآکر سننا ۔اس سے مراد ایسا سننا ہے کہ جس میں نیت سمجھنے کی ہو۔ بالفاظ دیگر دوسروں کو سننے کے دوران ہماری شدید خواہش اور بھر پور کوشش ہو کہ ہم نے دوسرے شخص کے خیالات، جذبات اور احساسات کو سمجھنا ہے کہ وہ کیا سوچ رہا ہے اور کیا محسوس کر رہا ہے۔ اُس کے نقطہ نظر کو جاننا ہے کہ زیربحث معاملہ میں اُس کی حقیقی رائے کیا ہے اور اُس کی سوچ اور فکر کا انداز کیا ہے؟

یہ گویا دوسرے شخص کے تناظر اور خیالات کے اندر داخل ہو جانے کے مترادف ہے۔ اس کے ذریعے سے ہم زندگی کو یوں دیکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں جس طرح کہ دوسرا دیکھتا ہے ہم اُس کے زاویہ نظر کو سمجھنے لگتے ہیں اور اُس کے احساسات کو محسوس کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم دوسرے شخص کے ہم خیال بن جائیں، بلکہ اس کا مطلب تو فقط یہ ہے کہ ہم دوسرے شخص کو ذہنی اور جذباتی لحاظ سے مکمل طور پر سمجھ جائیں اور ہمیں معلوم ہو جائے کہ وہ اصل میںکہنا کیا چاہتا ہے ۔ اس کیفیت میں ’’سننا‘‘ ایک طرف ہمیں حقائق کی تہہ تک پہنچا دیتا ہے اور ہم صحیح نتائج اخذ کرنے اور پھر بہترلائحہ عمل طے کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں اور دوسری طرف دوسروں پر اس کا بہت زبردست خوشگوار اثر پڑتا ہے اور اُن کے ساتھ ہمارے معاشرتی تعلقات میں مضبوطی آتی ہے۔ وہ ہمارے اُوپر زیادہ اعتماد کرنے لگتے ہیں اور زیادہ آزادانہ طریقے سے ہمارے ساتھ اپنے خیالات، جذبات اور احساسات وغیرہ کا تبادلہ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ہماری بات کو زیادہ بہتر طریقے سے سننے اور ہماری طرف سے آنے والے مشوروں اور نصیحتوں کو قبول کرنے کیلئے ذہنی و قلبی طور پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔

حقیقی سماعت قرآن و حدیث کی روشنی میں

آئیے اب دیکھتے ہیں کہ قرآن و حدیث کی تعلیمات اس حوالے سے کیا ہیں ؟

قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤادَ کُلُّ اُولٰئِکَ کَانَ عَنْهُ مَسْؤلًا.

(بنی اسرائيل:۳۶)

’’بے شک کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے باز پرس ہو گی‘‘۔

یہاں سماعت اور بصارت جو کہ حصول علم کے ذرائع ہیں اور دل جو کہ غوروفکر اور نتائج اخذ کرنے کا آلہ ہے ان تینوں کو اللہ ر ب ا لعزت کی نعمتیں قرار دیتے ہوئے بتایا جا رہا ہے کہ قیامت والے د ن ان کے استعمال کے حوالے سے لازماً سوال پوچھا جائے گا کہ ان کا استعمال درست کیا تھا یا غلط؟ گویا جس خالق و مالک نے یہ عظیم الشان نعمتیں انسان کو بغیر کسی استحقاق اور مطالبے کے عطا فرمائی ہیں وہ چاہتا ہے کہ انسان اِن کی قدروقیمت کا احساس کرتے ہوئے انہیںبھرپور طریقے سے استعمال میں لائے اور اُن کے ذریعے سے حقائق کو سمجھے اور اگر وہ اس حوالے سے کوتاہی کا مرتکب ہوتا ہے یا ان کا غلط استعمال (Misuse ) کرتا ہے تو یہ جرم قیامت والے دن قابل مواخذہ ہے۔

جو لوگ ان نعمتوں کا صحیح استعمال نہیں کرتے ہیں اُن کے متعلق ارشاد فرمایا:

صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ.

(البقرة:۱۸)

’’یہ بہرے، گونگے (اور) اندھے ہیں پس وہ (راہِ راست کی طرف) نہیں لوٹیں گے‘‘۔

یہ آیت کافروں اور منافقوں کے حوالے سے ہے جس میں اُن کو بہرے، گونگے اور اندھے قرار دیا گیا ہے ۔ اب ظاہر ہے کہ وہاں کے سارے منافق اور کافر گونگے، بہرے اور اندھے نہیں تھے ۔ پھر اُن کیلئے کیوں یہ الفاظ استعمال کئے گئے؟ اس کی وجہ دوسری آیت میں یوں بیان کی گئی۔

لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ بِهَاز وَلَهُمْ اَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ بِهَاز وَلَهُمْ اٰذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِهَا.

’’وہ دل (و دماغ) رکھتے ہیں (مگر) وہ ان سے (حق کو) سمجھ نہیں سکتے اور وہ آنکھیں رکھتے ہیں (مگر) وہ ان سے (حق کو) دیکھ نہیں سکتے اور وہ کان (بھی) رکھتے ہیں (مگر) وہ ان سے (حق کو) سن نہیں سکتے‘‘۔

(الاعراف:۱۷۹)

مطلب یہ کہ جو آنکھیں حق کو دیکھ نہیں سکتیں اور جو کان حق کی آوازکو سن نہیں سکتے اور جو دل حق کے پیغام کو سمجھ نہیں سکتے اُن کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہی ہوتا ہے کیونکہ کسی بھی چیز کی قدروقیمت کا دارومدار اُس کی افادیت پر ہوتا ہے ورنہ وہ بے کار ہوتی ہے ۔

٭ حواس خمسہ کا انحصار غوروفکر پر ہے ۔ چنانچہ قرآن مجید نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :

فَاِنَّهَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰـکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ.

(الحج:۴۶)

’’تو حقیقت یہ ہے کہ (ایسوں کی) آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں لیکن دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں ‘‘

اور جب دل اندھے ہو جائیں تو پھر آنکھوں کی بصارت بھی انسان کو کوئی خاص فائدہ نہیں دے پاتی۔بقول اقبال

دل بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں ہے

چنانچہ سماعت اور بصارت سے بھر پور استفادہ کرنے کیلئے دل کی بصیرت کا ساتھ ملنا ضروری ہے جس کا بہت بڑا ذریعہ غوروفکر ہے ۔ لہذا انسان کو چاہئے کہ وہ ہر بات کو دھیان سے سنے اور ہر منظر کو بھر پور توجہ سے دیکھے اور پھر اُن پر غوروفکر کرتے ہوئے حقائق کی تہہ تک پہنچے اور صحیح نتائج اخذ کر کے صحیح روش کو اختیار کرے ۔ گویا صحیح طرز عمل اپنانے کیلئے صحیح طرزفکر کا ہونا ضروری ہے ا ور صحیح طرز فکر تک پہنچنے کیلئے حواس خمسہ کا درست اور بھر پور استعمال ضروری ہے ۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے صحابہ کرام کوجب کبھی کوئی بات سمجھ نہ آتی تو وہ دہرانے کی فرمائش کرتے ہوئے کہتے :

يَا رَسُوْلَ اللّٰه ! رَاعِنَا.

’’ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ہماری رعایت کیجیے ‘ ‘

کافروں اور منافقوں نے اس لفظ کو بگاڑ کر اس کو غلط مفہوم میں استعمال کرنا شروع کر دیا۔ چنانچہ اللہ رب العزت کی طرف سے یہ پیغام آیا :

ياَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَاتَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْا.

(البقرة:۱۰۴)

’’اے ایمان والو! (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے) رَاعِنَا مت کہا کرو بلکہ (ادب سے) اُنْظُرْنَا (ہماری طرف نظر کرم فرمائیے) کہا کرو اور (ان کا ارشاد) بغور سنتے رہا کرو‘‘۔

یہ آیت اگرچہ بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آداب کے ضمن میں نازل ہوئی، تاہم اس میں ’’ توجہ سے سننے‘‘ کا جو حکم دیا گیا ہے و ہ عمومی زندگی میں بھی پسندیدہ اور مطلوب ہے۔

سماعت کے آداب و تقاضوں کے ضمن میں جب ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت مبارکہ کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مبارکہ میں اتنے خوبصورت انداز میں یہ عادت چھلکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے کہ جس کی مثال نہیں مل سکتی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسن سماعت کا شاندار نمونہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مخاطب کی بات کو اچھی طرح سننے کیلئے ہمہ تن گوش ہو جایا کرتے تھے اور دوسرے کی بات کو اتنے صبرو تحمل اور توجہ سے سنا کرتے تھے کہ ساری زندگی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی کسی بات کرنے والے کی بات کو نہیں ٹوکا۔ یعنی کسی کی گفتگو کو درمیان میں روک کر اپنی سنانے کی کوشش کبھی آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ کی بلکہ ہمیشہ پہلے دوسرے کو اطمینان اور سکو ن کے ساتھ اپنی بات مکمل کرنے دی، اُس کو پورے انہماک سے سنا اور پھر اپنی بات سنائی۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ میں دوسرے کی بات کو توجہ سے سننے کی کئی مثالیں ہیں ۔ مندرجہ ذیل تین مثالیں بطور خاص قابل ذکر ہیں :

  • حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اسلام کی دعوت علی الاعلان دی تو قریش حیران و پریشان ہو گئے ۔ اُنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رد کرنے کیلئے عقبہ بن ربیعہ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مذاکرات کرنے کیلئے بھیجا، تاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُن کی بات قبول کرنے پر آمادہ کرے ۔اُس نے آ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کی کہ ’’ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غور سے سنیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُن میں سے کچھ اچھی لگیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مان لیں ‘‘۔

اس پر حضو ر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’ ابو ولید ! تمہیں جو کچھ کہنا ہے کہو، میں سنوں گا‘‘۔ چنانچہ عقبہ کو جو کچھ کہنا تھا اُس نے وہ دل کھول کر کہا۔ جب وہ اپنی بات ختم کر چکا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’ ابو الولید تمہیں جو کچھ کہنا تھا کہہ چکے ہو؟ـــ‘‘ اُس نے کہا ’’ جی ہاں ‘‘ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’ تو اب میری بات سنو ‘‘۔ اُس نے کہا ’’ ضرورسنوں گا ‘‘ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورہ فصلت ( حم السجدہ ) کی تلاوت کی۔

  • حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک نوجوان حاضر ہو کر زنا کرنے کی اجازت مانگتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی قسم کی ناگواری کو چہرے پر لائے بغیر اُس سے سوال پوچھتے ہیں کہ کیا وہ یہ کام اپنی ماں سے کرنا چاہتا ہے؟ وہ اس کا جواب نفی میں دیتا ہے۔۔۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باری باری بیٹی، بہن، پھوپھی، خالہ کا نام لیکر پوچھتے ہیں کہ ان میں سے کسی سے کرنا چاہتا ہے؟ وہ ہر بار جواب نفی میں دیتا ہے۔ تب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ ’’ جس کے ساتھ بھی کرو گے وہ کسی کی ماں، بیٹی، پھوپھی یا خالہ ہو گی ‘‘۔

اس انتہائی پر حکمت انداز میں سمجھانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کے سر پر ہاتھ مبارک رکھ کر اللہ تعالیٰ سے اس کے سابقہ گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں اور آئندہ زنا سے محفوظ رہنے کی دعا مانگتے ہیں چنانچہ پھر اُس شخص نے ساری زندگی یہ کام نہ کیا ۔

  • فتح مکہ کے موقع پر ابو سفیان کی بیوی ہندہ آتی ہے جو اسلام دشمنی میں پیش پیش رہی تھی، اسی کے کہنے پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتہائی پیارے چچا حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کو بڑی بے دردی سے شہید کیا گیا ۔ اس خاتون کے جرائم کی فہرست اتنی طویل تھی کہ اُسے کسی بھی درجے میں یہ توقع نہیں تھی کہ اُسے بھی معافی مل سکتی ہے ۔ چنانچہ زندگی سے مایوسی کی کیفیت میں وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئی تو اُس نے طرح طرح کی تلخ و ترش باتیں شروع کر دیں اور انتہائی سیدھے سادھے سوالوں کے جواب بھی بہت منفی انداز میں دئیے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت تحمل کے ساتھ اُس کی ساری باتوں کو سنتے رہے ۔جب اُس نے اپنے اندر کا سار غبار نکال لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فقط اتنا فرمایا ’’ ہندہ! جاؤ ہم تمہیں بھی معاف کرتے ہیں‘‘۔ اتنی بات سننے کے بعد بے اختیار اُس کی زبان سے یہ جملہ نکلتا ہے ’’ آج سے پہلے روئے زمین پر میرے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بُرا کوئی شخص نہیں تھا لیکن آج کے بعدرؤے زمین پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیار ا کوئی نہیں ہے ‘‘ چنانچہ وہ مسلمان ہو گئی۔

مندرجہ بالاتینوں مثالوں میں واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے مخاطب کی با ت کو بھرپور توجہ سے سن رہے ہیں اور وہ جو کہنا چاہتا ہے اُسے پوری آزادی سے اور بغیر کسی مداخلت یا روک ٹوک کے کہنے دیتے ہیں ۔ جب وہ اپنی بات مکمل کر لیتا ہے تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی بات سناتے ہیں۔ یہی کامیاب زندگی کا راز ہے۔

دوسروں کا اعتماد کیسے حاصل کیا جائے؟

انسانی دل کی اہم ترین خواہش یہ ہوتی ہے کہ کوئی اُس کو سمجھے۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ اُس کی عزت اور قدر کی جائے۔ لوگ اُس وقت تک اپنا راز کسی کے سامنے نہیں کھولتے جب تک اُنہیں حقیقی توجہ اور پیار نہ ملے۔ اگر اُنہیں یہ چیزیں مل جائیں تو وہ توقع سے زیادہ باتیں بتانے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ اگر کوئی شخص ہماری بات سننے یا سمجھنے کی بالکل کوشش نہیں کرتا تو ہم اُ س پر کبھی اپناراز نہیں کھولیں گے ۔

لیکن دوسری طرف لوگوں کی اکثریت کا حال یہ ہے کہ ا ُن کو سننے سے زیادہ سنانے میں دلچسپی ہوتی ہے۔ چنانچہ زیادہ تر لوگ اس نیت سے نہیں سنتے کہ اگلے کی بات کو سمجھیں بلکہ وہ اس لئے سنتے ہیں کہ اُنہیں جواب دینا ہوتا ہے ۔ بیشتر لوگ یا تو بول رہے ہوتے ہیں اور یا پھر بولنے کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں کاموں کو کرتے ہوئے دوسرے کی بات کو بھر پور توجہ سے سننا اور اُس کو صیح معنوں میں سمجھنا ممکن نہیں رہتا ۔

دوسری طرف جب ہم روایتی اندازِ سماعت اختیار کرنے کے بجائے حقیقی سماعت کے تحت سنتے ہیں تو یہ ایک زبردست طاقتور عمل ہوتا ہے جو ہمیں دوسروں کے خیالات، جذبات اور احساسات سے حقیقی معنوں میں آشنا ہونے میں مدد دیتا ہے ۔ اس طرح سننا ایک طرف تو ہمیں وہ تمام ضروری معلومات Data)) فراہم کرتا ہے کہ جس کی روشنی میں ہم کسی بہتر حل تک پہنچ سکتے ہیں۔ دوسری طرف دوسرے بندے کو نفسیاتی تسکین فراہم کرتا ہے کہ اُسے بہتر طور پر سمجھ لیا گیا ہے۔ چنانچہ وہ بھی پھر د ل و دماغ کی آمادگی کے ساتھ ہماری بات سننے اور سمجھنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ (جاری ہے)