عصرِ حاضر میں فیضِ نبوت کے امین

ڈاکٹر حسن محی الدین قادری

اللہ رب العزت کی یہ سنت رہی ہے کہ وہ ہر دور اور ہر صدی میں امت کی خستہ حالی اور اس کی تباہ شدہ شکستہ عمارت کی تشکیل نو، تقویت اور استحکام کے لئے ایک مجدد بھیجتا ہے۔ امت کی وہ عمارت جو آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی دی ہوئی شریعت، سنت وسیرت، قرآن اور صاحب قرآن کی تعلیمات کے ساتھ تعمیر کی گئی ہے، جب اس عمارت کے نقوش پھیکے پڑ جاتے ہیں، بنیاد کمزور ہوتی چلی جاتی ہے، تزئین و آرائش میں علمی، فکری، روحانی، سیاسی الغرض کسی بھی زاویہ سے کمی پیدا ہونے لگتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے ایک معمار پیدا کردیتا ہے۔ یہ معمار صبغت اللہ کا فیض لے کر اللہ تعالیٰ کی عنایات کے ساتھ مختلف جہات سے دین کی تجدید و احیاء کرتا ہے۔

دین و ملت کے یہ معمار اللہ رب العزت کی صفات کے مختلف رنگ اپنے اندر لئے ہوئے ہوتے ہیں۔ کسی میں ملکوتی رنگ ہوتا ہے۔۔۔ کسی میں جبروتی رنگ ہوتا ہے۔۔۔ کسی میں انبیاء علیہم السلام کے فیوضات میں سے کسی فیض کا رنگ ہوتا ہے۔۔۔ کسی میں اولیاء کی ولایت کا رنگ ہوتا ہے۔۔۔ کسی میں صالحین کی صالحیت کا رنگ ہوتا ہے۔۔۔ کسی میں اقطاب کی قطبیت کا رنگ ہوتا ہے۔۔۔ کسی میں نجباء کا فیض ہوتا ہے۔۔۔ کسی میں اوتاد کی اوتادیت کا رنگ ہوتا ہے۔۔۔ کسی میں مجددیت کا رنگ ہوتا ہے۔۔۔ کسی میں حکماء کی حکمت کا رنگ ہوتا ہے۔۔۔ کسی میں عرفاء کے عرفان کا رنگ ہوتا ہے۔۔۔ اور کسی میں ائمہ و علماء کے علم کا رنگ ہوتا ہے۔

انبیاء علیہم السلام کے فیوضات اور اوصاف کے رنگ لئے ہوئے یہ اولیاء اللہ مختلف القابات کے ساتھ دنیا میں فیض و روحانیت کو تقسیم کرتے ہیں۔

عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ رضی الله عنه قَالَ : اَلْاَبْدَالُ بِالشَّامِ وَهُمْ ثَـلَاثُوْنَ رَجُـلًا عَلَی مِنْهَاجِ إِبْرَاهِيْمَ عليه السلام کُلَّمَا مَاتَ رَجُلٌ أَبْدَلَ اﷲُ مَکَانَهُ آخَرَ فَالْعُصَبُ بِالْعَرَاقِ أَرْبَعُوْنَ رَجُـلًا کُلَّمَا مَاتَ رَجُلٌ أَبْدَلَ اﷲُ مَکَانَهُ آخَرَ عِشْرُوْنَ مِنْهُمْ عَلَی اجْتِهَادِ عِيْسَی بْنِ مَرْيَمَ عليها السلام وَعِشْرُوْنَ مِنْهُمْ قَدْ أُوْتُوْا مَزَامِيْرَ آلِ دَاوُدَ وَالْعُصَبُ رِجَالٌ تُشْبِهُ الْاَبْدَالُ.

(نوادرالاصول، ترمذی،1 : 262)

’’حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابدال اہلِ شام میں سے ہیں۔ وہ تیس مرد ہیں اور وہ حضرت ابراہیم ں کے طریقہ پر ہیں ان میں سے جب کبھی کوئی شخص فوت ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ کسی اور کو بدل دیتا ہے اور عصب عراق میں چالیس مرد ہیں۔ ان میں سے جب کوئی فوت ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ کسی اور کو بدل دیتا ہے۔ ان میں سے بیس حضرت عیسٰی بن مریم علیہما السلام کے اجتہاد پر ہیں اور ان میں سے بیس کو آلِ داود ں کے مزامیر عطا ہوئے ہیں اور عصب ایسے لوگ ہیں جو ابدال کے مشابہ ہیں۔‘‘

اسی طرح کچھ اولیاء ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صداقت کا رنگ ہوتا ہے۔۔۔ کسی میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عدالت کا رنگ ہوتا ہے۔۔۔ کسی میں سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی غناء کا رنگ ہوتا ہے۔۔۔ کسی میں سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی شجاعت کا رنگ ہوتا ہے۔۔۔ کسی میں حسنین کریمین کے حلم و شجاعت کا رنگ نظر آتا ہے۔۔۔ کسی میں اویس قرنی رضی اللہ عنہ کے عشق کا رنگ نظر آتا ہے۔ یہ سارے رنگ جب بکھر جائیں تو اولیاء اپنے اپنے مقام پر فائز نظر آتے ہیں۔

اصل رنگ تو خدا کا ہے یعنی صبغت اللہ، مگر اسی نے اپنے صفاتی رنگ لوگوں کو دکھانے کے لئے انبیاء و صلحاء کے ذریعے مختلف شخصیات کو عطا کئے مثلاً کسی کو موسوی رنگ عطا ہوتا ہے، جس کے سبب اس شخصیت میں انقلابیت و شجاعت جھلکتی ہے۔ ظلم و بربریت کے خلاف ٹکڑا جانا اس کی علامت و پہچان بنتا ہے۔۔۔۔ کسی میں ابراہیمی رنگ نظر آتا ہے، جس کے سبب شجاعت، کرامت، انقلاب، بزرگی اور خدا کی ذات پر اعتماد و توکل اس کی شخصیت سے جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔۔۔ کسی میں دائودی رنگ نظر آتا ہے اور لوگ جوق درجوق اس کی صدا پر لبیک کہتے ہوئے اس کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی ان چنیدہ شخصیات میں سے کوئی شخصیت ایسی بھی ہوتی ہے جس کو ان تمام رنگوں اور فیوضات میں سے عطا ہوتا ہے۔ اس کو حاصل یہ رنگ و فیض درحقیقت محمدی فیض ہوتا ہے جس کو یہ سب نصیب ہوجائے، وہ محمدیت کے فیض کا حامل بن جاتا ہے۔

تحریک منہاج القرآن اور اس کے قائد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ہمہ جہتی خدمات پر اگر طائرانہ نگاہ دوڑائی جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ شیخ الاسلام، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے ملنے والے انہی رنگوں اور فیوضات میں سے بیک وقت کئی رنگوں اور فیوضات کو سمیٹے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ الاسلام میں ایک طرف ذاتی حوالے سے اخلاق حسنہ کا رنگ جھلکتا دکھائی دیتا ہے تو دوسری طرف ہمہ گیریت، عرفانیت، علمیت، فقہیت، ادراک اور انقلاب کا رنگ بھی جھلکتا ہوا نظر آتا ہے۔

درحقیقت شیخ الاسلام کی شخصیت محمدیت کا فیض اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ محمدیت کا یہ فیض انہیں گنبد خضرا سے مل رہا ہے اور اس فیض کو آگے تقسیم کرنے کے لئے منہاج القرآن بنا ہے جو قرآن کا راستہ ہے اور یہی قرآن، عرفان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عطا کرتا ہے۔ ہماری ابتداء بھی گنبد خضریٰ سے ہے، ہماری انتہاء بھی گنبد خضریٰ پر ہے۔ ہمارا جینا بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناموس کی خاطر ہے، ہمارا مرنا بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناموس کی خاطر ہے۔

ہمیں وہ قائد اللہ رب العزت نے عطا کئے کہ جب وہ عرب میں جائیں تو عرب والے ان کی علمیت و فکر کے سامنے جھک جاتے ہیں، عجم میں جائیں تو عجم والے جھک جاتے ہیں، یورپ میں جائیں تو یورپ والے جھک جاتے ہیں۔ گھر والے کسی کی تعریف کریں تو وہ تعریف نہیں۔ تعریف تو وہ ہوتی ہے جو دشمن بھی کریں، باہر والے بھی کریں، غیر بھی کریں، اپنے بھی کریں۔ جو مانیں وہ بھی اعتراف کریں جو نہ مانیں وہ بھی اعتراف کریں۔ پس جس کو یہ اعزاز مل جائے، وہ فیض محمدی کا حامل ہوتا ہے۔

شیخ الاسلام کو حاصل یہ مقام بحمداللہ آج ہم دیکھ رہے ہیں۔ آپ کو مستقبل میں ملنے والے اسی مقام و مرتبہ کو دیکھ کر آپ کے بچپن میں ہی ایک ولی کامل پیشین گوئی بھی فرماچکے تھے۔ ان ولی کامل کا نام حضرت خواجہ قمرالدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ ہے۔ ایک پروگرام میں میرے دادا جان قبلہ فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین رحمۃ اللہ علیہ کا خطاب تھا۔ بڑے بڑے مشائخ، اولیائ، علماء موجود تھے۔ اس پروگرام میں حضرت خواجہ قمرالدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ان کے گیارہ سال کے بیٹے محمد طاہر کو دیکھا تو قبلہ دادا جان سے فرمایا : ڈاکٹر صاحب سنا ہے کہ آپ کے صاحبزادے بڑا اچھا خطاب کرتے ہیں۔ آج آپ کے خطاب سے پہلے ان کا خطاب بھی سننا ہے۔ خطاب کے لئے محمد طاہر کو دعوت دی گئی۔ آپ نے 15 منٹ خطاب کیا۔ حضرت خواجہ قمرالدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ جو عارف تھے، صاحب بصیرت و ولی کامل تھے، وہ محمد طاہر کو مستقبل میں حاصل ہونے والے مقام و مرتبہ کو جان گئے۔ ولایت وہ اعزاز ہے جس کو ملا ہو، وہ ہی دوسرے کو پہچان سکتا ہے۔۔۔ جو اس سمندر میں غوطہ زن ہے، جس نے اس جیسے کوئی اور موتی دیکھے ہوں وہی پہچان سکتا ہے۔۔۔ اللہ کے اولیاء کے چہرے بتادیتے ہیں کہ یہ کس مقام پر فائز ہوں گے۔۔۔ جو مجدد وقت ہوتے ہیں ان کے چہرے بتادیتے ہیں۔۔۔ جو قطب الاقطاب ہوتے ہیں ان کے چہرے بتادیتے ہیں۔۔۔ پس حضرت سیالوی رحمۃ اللہ علیہ پہچان گئے اور اسی نشست میں تمام لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمانے لگے:

’’میرے دوستو! میں ایک بات آپ کو بتانا چاہتا ہوں، اسے نظر انداز نہ کر دینا، میری نگاہ دیکھ رہی ہے کہ یہ محمد طاہر نام کا جو بچہ آج آپ کو دکھائی دے رہا ہے یہ بہت اعلیٰ مقام پر فائز ہوگا۔ کچھ لوگ ایسے جو آج کی مجلس میں موجود ہیں اس دور میں بھی ہوں گے۔ ان کی نگاہیں اس کا نظارہ خود کررہی ہوں گی۔ یہ محمد طاہر علم کے افق کا وہ عظیم ستارہ ہوگا کہ پورا عالم اس کے علم سے مستفید ہورہا ہوگا‘‘۔

حضرت خواجہ قمرالدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس موقع پر صرف پاکستان کا ذکر نہیں کیا، ایک علاقے کا ذکر نہیں کیا بلکہ کہا کہ پورا عالم ان کے علم سے مستفید ہوگا۔ آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ کس طرح اس وقت کا محمد طاہر آج شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے نام سے اسلام کی حقیقی تعلیمات کے فروغ میں عالمی سطح پر ایک اتھارٹی سمجھا جاتا ہے۔

ابن ماجہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ

طُوْبٰی لِعَبْدٍ جَعَلَهُ اللّٰهُ مِفْتَاحًا لِلْخَيْر.

’’مبارک ہے وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے خیر کے لئے چابی بنا دیا‘‘۔

اس ارشاد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معلوم ہوا کہ اللہ کے بندوں میں سے کچھ ایسے ہوتے ہیں جنہیں خیرو بھلائی کے دروازوں کی کنجی بنادیا جاتا ہے مثلاً کسی کو علم کی چابی بنادیا جاتا ہے۔۔۔ کسی کو عرفان کی چابی بنادیا جاتا ہے۔۔۔ کسی کو تقویٰ کی چابی بنادیا جاتا ہے۔۔۔

چابی بنادینے کا مفہوم یہ ہے کہ جس خیر کے دروازے پر وہ جائے گا اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ قوت سے اسے کھول لے گا۔ لہذا خیر و فلاح کے بند دروازے کھولنے ہوں تو ایسے ہی مفتاح صفت لوگوں سے تعلق جوڑنا پڑتا ہے۔

آج کے دور میں علم وعرفان کی ایک چابی شیخ الاسلام بھی ہیں۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ خلق خدا کی خیر وفلاح کے جس دروازے پر بھی وہ گئے ہیں، بے پناہ خداداد صلاحیتوں اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے وہ دَر کھلتا چلا گیا ہے۔ لہذا آج اسلام کی حقیقی تعلیمات تک رسائی، دور حاضر کے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے اور مسلمانان عالم کو اقوام عالم میں عروج و بلندی سے ہمکنار کرنے کے لئے شیخ الاسلام کی قرآن و سنت سے ماخوذ تعلیمات اور اُن کی صدائے انقلاب کی طرف متوجہ ہونا ہوگا۔

آج دنیا حضرت خواجہ قمرالدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ کے کلمات اور ان کی بصیرت و فراست کا نظارہ دیکھ رہی ہے۔ جو الفاظ ان کی زبان سے نکلے آج خدا کی عزت کی قسم پورے ہوتے نظر آرہے ہیں۔ ملک شام کے نامور محدث اور فقہ حنفی پر اتھارٹی شیخ اسعد الصاغرجی جب پاکستان تشریف لائے تو ان کی شیخ الاسلام کے ساتھ محبت و عقیدت کا عجب ہی رنگ تھا۔ یہاں سے جانے کے بعد بھی وہ شیخ الاسلام سے ملاقات کے لئے بے تاب رہتے۔ ان کی کیفیت یہ تھی کہ وہ جب پاکستان تشریف لائے تو میری اور دیگر لوگوں کی موجودگی میں ہی شیخ الاسلام کے قدموں میں گرگئے اور کہنے لگے کہ میرے شیخ حضرت حسن حبل نقی تھے، ان کے لئے میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی تھی کہ میں ان کے قدموں کو چوم لوں اس کے بعد کسی اور کے لئے یہ خواہش پیدا نہیں ہوئی، آج آپ کو دیکھ کر دل گواہی دے رہا ہے کہ آپ کے قدم چومے جانے کے قابل ہیں۔ شیخ الاسلام ان کو روکتے رہے مگر وہ بے تاب تھے دونوں کے مابین کشمکش جاری تھی اور میرے آنسو رواں تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ کوئی عالم ہو تو وہ سوچتا ہے کہ کسی کے سامنے میں یہ حرکت نہ کروں، مگر اہل نظر جانتے ہیں کہ اہل اللہ وہی ہیں جن کو دیکھ کر اللہ یاد آجائے۔۔۔ جن کی قربت میں خدا کی قربت نصیب ہوجائے۔۔۔ جن کو تکنے سے خدا کے جمال کی کوئی جھلک نصیب ہوجائے۔۔۔ شیخ الصاغرجی شام کے کبار مشائخ میں سے ہیں اور خود سلسلہ شاذلیہ کے شیخ ہیں، ان کے ہزاروں مرید و طلباء ہیں۔ میرے بھی قابل صد احترام استاد ہیں، انہیں معلوم ہے کہ شاگرد بھی سامنے ہے، دیگر افراد بھی کھڑے ہیں مگر وہ ان تمام سے بے نیاز عقیدت و محبت کی مجسم تصویر بنے ہوئے تھے۔ جن کے دلوں میں دنیا بستی رہے وہ دنیا کی بات کرتے ہیں۔ مسلکی قیادت کے خواہش مند مسلک کے جھگڑوں میں رہتے ہیں۔۔۔ کئی مقام و مرتبہ کے جھگڑوں میں پڑے رہتے ہیں۔۔۔ کرسیوں اور گدیوں کے جھگڑوں میں لگے رہتے ہیں۔۔۔ مگر جن کو خدا کا نور نظر آرہا ہو وہ اپنا مقام و مرتبہ بھول کر قدموں میں گر جاتے ہیں۔

جب گھر پہنچے تو شیخ الاسلام نے مجھے فرمایا کہ

بیٹے! آپ کے استاد نے مجھے بہت گنہگار کردیا۔ جب میں نے محترم الشیخ الصاغرجی سے عرض کی کہ شیخ الاسلام یہ فرمارہے تھے کہ آپ کے شیخ نے مجھے بہت گنہگار کردیا تو شیخ محترم نے فرمایا : شیخ الاسلام کی امت مسلمہ کے علمی و فکری سرمایہ کے طور پر خدمات کے تناظر میں جو کچھ شیخ الاسلام کے لئے ہم پر واجب ہے، یہ تو اس کا ایک ادنیٰ سا اظہار ہے۔ انہوں نے امت پر کئی صدیوں کے علمی قرض کو چکادیا ہے۔ ان کی علمی و فکری خدمات آئندہ آنے والی کئی صدیوں تک مینارہ نور کی حیثیت سے قائم رہیں گی۔

میں نے خود الشیخ الصاغرجی کو شیخ الاسلام کا ہاتھ پکڑ کر اور اپنے سینے پر رکھ کر یہ کہتے سنا ہے کہ ایک عرض تو یہ ہے کہ اسے بھی جاری کردیں اور دوسری عرض یہ ہے کہ مجھ سے وعدہ کریں قیامت کے روز جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں جارہے ہوں گے تو مجھے بھی ساتھ لے جائیں گے۔

میں نے شیخ الاسلام کے ساتھ یمن، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر عرب ممالک کا دورہ کیا۔ میں نے خود مشاہدہ کیا کہ وہاں پر موجود محدثین، علماء اور مشائخ شیخ الاسلام کی گفتگو اور ان کی علمی و فکری خدمات کے پیش نظر آپ کے ہاتھ چومتے اور محبت وعقیدت کا والہانہ اعتراف کرتے۔ اکثر شیوخ اس امر کا برملا اظہار کرتے کہ آج کے دور میں شیخ الاسلام، دینِ اسلام کے حقیقی محافظ کے طور پر سامنے آئے ہیں اور بلاشبہ ان کا وجود امت مسلمہ کے لئے اللہ تعالیٰ کی نعمت غیر مترقبہ ہے۔

جس طرح روحانی دنیا میں اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے درجات میں تفاوت ہوتا ہے۔ کوئی ابدال ہوتے ہیں، کوئی نجبائ، کوئی قطب، کوئی غوث، اسی طرح مجددین میں بھی درجے ہیں۔ اللہ کی بارگاہ سے انہیں کچھ ایسے خصائص عطا ہوتے ہیں جس کی بنا پر انہیں بعض دیگر مجددین پر جزوی فضیلت نصیب ہوتی ہے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے بعد خلفاء آئیں گے، پوچھا گیا :

من خلفائک يارسول الله؟

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے خلفاء کون ہوں گے؟

فرمایا : ’’میرے خلفاء وہ ہوں گے جو ہر دور میں میری سنت کو زندہ کریں گے‘‘۔

جس قدر دور آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اسی قدر زمانہ کے تقاضے بھی بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ اسی طرح مجدد بھی اپنی ذمہ داریوں اور زمانے کے تقاضوں کے مطابق بھیجے جاتے ہیں۔ جس طرح ٹیکنالوجی کی اشیاء کے نت نئے ماڈل سامنے آتے ہیں اور ہر آنے والا نیا ماڈل نئے دور کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے، اسی طرح ہزار سال پیچھے چلے جائیں تو جو اس دور کے مجدد تھے ان کی ذمہ داریاں اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق کچھ اور تھیں اور آج کے مجدد کی ذمہ داریاں اور تقاضے مختلف نوعیت کے ہیں۔ آج دنیا کو علمِ دنیا بھی چاہئے، علمِ لدنی بھی چاہئے، انقلابیت بھی چاہئے، ہمہ گیریت بھی چاہئے۔

الحمدللہ! شیخ الاسلام آج کے زمانے کے تقاضوں کے مطابق دین کی تجدیدی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور ان میں ہر رنگ کا فیض جھلکتا ہوا نظر آتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ شیخ الاسلام نے ہمیں جس مصطفوی مشن کی دعوت دی ہے ہم شیخ الاسلام کی جسمانی موجودگی اور عدم موجودگی سے قطع نظر مصطفوی مشن کی ذمہ داریوں اور تقاضوں کو کماحقہ مکمل کریں۔ مشن اور قائد کے ساتھ مضبوط و مستحکم تعلق ہی ’’قائد ڈے‘‘ کا اصل پیغام ہے۔ یہ نسبت ایسی مضبوط ہونی چاہئے کہ زمانہ بدل بھی جائے مگر نسبت نہ بدلے۔ عشق مضبوط ہوجائے، ربط قائم رہے، ایسی نسبت قائم ہوجائے کہ اسی نسبت سے وابستگی کو جنم دے۔ قائد نظر آئے تب بھی عشق کی آگ جل رہی ہو، قائد نظر نہ آئے تب بھی عشق کی آگ جل رہی ہو۔ یہ نہ ہو کہ اُن کے سامنے تو ہم مشن کے امور میں صبح و شام مصروف عمل ہوں مگر ان کی عدم موجودگی میں لاپرواہی و کوتاہی کے مرتکب ہوں۔ اگر یہ کیفیت ہو تو اس کو میں اپنی زبان میں تحریکی منافقت کہوں گا۔

اگر ہم تحریکی ہیں، شیخ الاسلام سے محبت رکھتے ہیں تو اس کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ ہم آج اُن کی سالگرہ مناتے ہوئے یہ تجدید عہد بھی کریں کہ ہم اپنی زندگیوں کو بدل دیں، معاملات کو بدل دیں، رویہ کو بدل دیں اور اسلام کے حقیقی پیروکار بنیں، امن و سکون اور سلامتی کے پیامبر بنیں۔

شیخ الاسلام کے ساتھ ہمارے تعلق کی بنیاد عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ ہم ان کے ساتھ اپنے تعلق و نسبت کو اس لئے مضبوط و مستحکم کرنا چاہتے ہیں کہ ہمیں ان کے علم، معرفت، فکر، تصانیف، خطبات کے ذریعے اسلام کی حقانیت، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت نصیب ہوئی۔ اگر ہم علم و معرفت کے اس خزینہ کے ساتھ وابستہ نہ ہوئے ہوتے تو شاید ہی ہماری آنکھیں کبھی محبت الہٰی و عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں برسنا سیکھ پاتیں اور شاید ہی قرآن و حدیث کی معرفت ہمارے نصیب میں ہوتی۔ لہذا تعلق قائد کے ساتھ بھی ہو اور قائد کے مشن کے ساتھ بھی ہو۔ جس قدر مشن کے ساتھ سچے ہوجائیں گے تو شیخ الاسلام کا علمی و فکری اور روحانی فیض بھی نصیب ہوتا رہے گا۔ یہ فیض اور رنگ اصل میں شیخ الاسلام کو حاصل محمدی رنگ و فیض کا تسلسل ہے جو بذریعہ شیخ الاسلام منہاج القرآن کے ہر مرکز اور کارکن کو نصیب ہوگا۔ یہ محمدی رنگ ہمیں تعلق و سنگت کے بغیر نہیں مل سکتا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سنگت، قربت، معیت میں استقامت کے ساتھ چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک کے تصدق سے شیخ الاسلام کا سایہ ہم پر قائم و دائم رکھے تاکہ امتِ مسلمہ آپ کے علمی و فکری سرمایہ سے روشنی حاصل کرتی ہوئی اوجِ ثریا کی بلندیوں پر دوبارہ متمکن ہوسکے۔