احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر شیخ الاسلام کی ایک جامع اور بے مثال کتاب

پروفیسر محمد نصراللہ معینی

سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہمیت

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

تَرَکْتُ فِيکُمْ اَمْرَيْنِ لَن تَضِلُّوا مَا تَمَسَّکْتُم بِهِمَا: کِتَابَ اﷲِ وَ سُنَّةَ نَبِيِّهِ.

(امام مالک، الموطا، 2/ 899، الرقم: 1594)

’’میں تم میں دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں جب تک انہیں مضبوطی سے تھامے رہوگے گمراہ نہ ہوگے، (وہ) اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت ہے۔‘‘

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

يَااَيُّهَاالنَّاسُ! اِنِّیْ قَدْتَرَکْتُ فِيْکُمْ الثَّقَلَيْنِ، کِتَابُ اﷲِ وَسُنَّتِيْ، فَاسْتَنْطِقُوْاالْقُرْآنَ بِسُنَّتِيْ، وَلَا تَعْسَفُوْهُ، فَاِنَّهُ لَنْ تَعْمَیْ اَبْصَارُکُمْ، وَلَنْ تَزِلَّ اَقْدَامُکُمْ وَلَنْ تُقَصِّرَ اَيْدِيْکُمْ مَااَخَذْتُمْ بِهِمَا.

(الخطيب البغدادی،الفقيه والمتفقه1/275،حدیث رقم276)

’’اے لوگو! میں تم میں دو بڑی قیمتی چیزیں چھوڑ رہاہوں۔ (وہ) اللہ کی کتاب او رمیری سنت ہے، تم قرآن مجیہد کے مطالب میری سنت کے ذریعے سمجھو، اور قرآن فہمی میں تکلف نہ برتو (یعنی گھما پھرا کر اپنی مرضی کا مطلب نہ نکالو) (اگر تم نے قرآن وسنت کو تھام لیا تو) تمہاری نگاہیں (حق کو پہچاننے سے) قاصر نہیں رہیں گی، اور تمہارے قدم (راہِ حق سے) نہیں پھسلیں گے اور تمہارے ہاتھ(کارخیر کی انجام دہی میں) ہرگز کوتاہی نہیں کریں گے‘‘۔

ان ارشادات سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ قرآن مجید اگرچہ کتاب ہدایت ہے لیکن سنت اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر قرآنی ہدایات اور احکامات کو سمجھنا اور ان پر عمل پیرا ہونا بڑا دشوار بلکہ ناممکن ہے۔ قرآن مجید میں دین کی اساسی تعلیمات اور کلیات بیان ہوئی ہیں، ان کی تفصیلات ہمیں احادیث مبارکہ میں اور اس کی عملی تشکیل سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ملتی ہے۔ کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محض پیغام رساں نہ تھے بلکہ آپ امت کے معلم و مربی بھی تھے اور احکامات الہٰی کی قولاً و عملاً توضیح و تشریح پر بھی آپ مامور من اللہ تھے۔ آپ کا ہر ہر عمل قرآن مجید کے احکامات کی عملی تفسیر اور تشریح تھا۔

مثلا قرآن مجید میں اقیمو الصلوۃ کہہ کر نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن نماز کو ادا کیسے کرنا ہے؟ ہر نماز کی رکعات کتنی ہیں’ نماز میں قیام، رکوع اور سجود کیسے کرنا ہے؟ اس کی تفصیلات ہمیں قرآن مجید میں نہیںملتیں۔ قرآن مجید نے ان تفصیلات کو معلوم کرنے اور سمجھنے کے لئے حتمی راستہ بھی دکھادیا، فرمایا:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ

(الاحزاب، 33:21)

’’فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اﷲ (a کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونہِ (حیات) ہے۔‘‘

سورۃ آل عمران کی آیت 31میں فرمایا:

اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ ﷲَ فَاتَّبِعُوْنِیْ يُحْبِبْکُمُ ﷲُ.

’’اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا ‘‘۔

اسی لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

صَلُّوا کَمَا رَأيْتُمُوْنِی أصَلِّی

’’تم بھی ویسے ہی نماز ادا کرو جیسے مجھے ادا کرتے ہوئے دیکھتے ہو۔‘‘

معلوم ہوا کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن مجید کے احکامات کی عملی تشریح کرتی ہے۔ لہذا قرآن مجید کا صحیح فہم اور اس کے احکامات پر عمل کرنا سنت اور ارشادات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ چنانچہ یہ مسلّم حقیقت ہے کہ قرآن مجید کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ اور ارشادات عالیہ شریعت اسلامیہ اور اسلامی قانون سازی کا بنیادی ماخذ ہیں۔ اس پر قرآن مجید کئی آیات میں وضاحت سے فرمادیا گیا۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ کو امت مسلمہ کے لیے اسوہِ حسنہ قرار دے دیا گیا۔ لہٰذا فہم قرآن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں رجوع کیئے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ قرآن فہمی کے لیئے امت مسلمہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توضیحات و تشریحات کی محتاج ہے۔

سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن مجید سے مل کر اللہ تعالیٰ کے عطاکردہ قوانین اور ہدایات کی عملی تشکیل کرتی ہے۔ اور یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں انہیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔

سنت اور حدیث سے صحابہ کی محبت

ایک طرف خیر کم من تعلم القرآن وعلمہ فرماکر قرآن مجید کی تعلیم اور حفاظت کا انتظام فرمایا تو دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کو احادیث مبارکہ کے حفظ و ضبط اور اسے دوسروں تک پہنچانے کی تلقین کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

نَضَّرَ ﷲُ اِمْراً سَمِعَ مَقَالَتِی فَحَفِظَهَا وَ وَعَهَا وَ اَدَّاها کَما سَمِعَ

’’اللہ تعالیٰ اس شخص کے چہرے کو شاداب اور تروتازہ رکھے جس نے میری بات سنی، اسے یاد رکھا اور محفوظ کرلیا اور جیسا سنا تھا ویسا ہی آگے پہنچا دیا‘‘۔

اسی تلقین اور تشویق کا اثر تھا کہ صحابہ کرام آپ کی گفتگو بڑی توجہ سے سنتے۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات اور معمولات سے آگاہی حاصل کرنے کے اتنے مشتاق تھے کہ اگر کسی دن سفر یا کسی اور مجبوری کی وجہ سے کوئی صحابی بارگاہ رسالت میں حاضر نہ ہوسکتے، تو شرفِ باریابی پانے والے کسی دوسرے صحابی سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس دن کی مصروفیات اور ارشادات کے بارے میں سن کر اپنی معلومات update رکھتے، تاکہ حضور کے کسی حکم کی تعمیل میں کہیں کوئی تاخیر یا کوتاہی سرزد نہ ہوجائے۔ اس کے علاوہ کتابت سے آشنا صحابہ کرام احادیث مبارکہ اور آپ کی مجلس میں پیش آمدہ حالات وواقعات کو لکھنے کا اہتمام بھی کرتے تھے کیونکہ وہ اپنی یہ ذمہ داری سمجھتے تھے کہ بعد میں آنے والوں کو رحمۃ للعالمین کے حالات مبارکہ اور آپ کی ہدایات وتعلیمات پہنچ جائیں۔ چنانچہ ڈاکٹر حمیداللہ مرحوم کی تحقیق کے مطابق احادیث مبارکہ لکھنے والے صحابہ کرام کی تعداد 1580 سے متجاوز تھی۔

مدینہ منورہ سے دور دراز کے قبائل بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں وفود بھیجتے رہتے تھے تاکہ وہ حضور سے دین سیکھ کر واپس آئیں اور قبیلہ والوں کیلئے معلم و مربی ہونے کا فریضہ سر انجام دیں۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد وہ صحابہ کرام جو کم عمر تھے اور صحبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ مستفید نہ ہوسکے تھے، عمر رسیدہ صحابہ کرام کی خدمت میں حاضر ہوکر ان سے حضور کی باتیں سن کر لکھ لیتے۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں۔ حضور کے وصال کے وقت ان کی عمر تیرہ سال تھی، چونکہ حضور کی صحبت میں کم وقت گزرا تھا، اس لیئے وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث مبارکہ سننے بزرگ صحابہ کے ہاں جایا کرتے، اگر کوئی بزرگ صحابی سو رہے ہوتے، تو انہیں جگانے کی بجائے ان کی چوکھٹ پر بیٹھ جاتے۔ بسا اوقات دھوپ کی شدت برداشت کرتے، سرِ راہ بیٹھنے کی وجہ سے گرد و غبار سے جسم اَٹ بھی جاتا، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور شوقِ حدیث میں سب برداشت کرتے، اور جب وہ صحابی بیدار ہوتے تو ان سے حدیث سن کر ہی واپس آتے۔ بزرگ صحابہ ان سے کہا کرتے کہ آپ محبوبِ خدا کے چچا زاد بھائی ہیں، ہمیں یاد کیا ہوتا آپ نے خود کیوں زحمت اٹھائی۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے میرا آنا ہی بنتا ہے کہ میں طالبِ علم ہوں۔

صرف حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ہی نہیں، حدیث مبارکہ سننے کا ایسا اشتیاق کئی دیگر صحابہ کو بھی سرگرداں رکھتا تھا۔ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا کہ شام میں مقیم ایک صحابی حضرت عبداللہ بن انیس انصاری رضی اللہ عنہ کو حقوق العباد کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ یاد ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ چونکہ وہ حدیث مبارکہ سن نہ سکے تھے۔ اس لئے ایک اونٹ خریدا، زاد راہ ساتھ لیا، صحرا، جنگل پہاڑ عبور کرتے ہوئے پورے مہینے کا سفر طے کر کے شام پہنچے اور حضرت عبداللہ بن انیس انصاری رضی اللہ عنہ سے حدیث مبارک سن کر واپس آئے۔ انہیں ڈر تھا کہ کہیں وہ حدیث سنے بغیر اور دوسرے صحابی انہیں حدیث سنائے بغیر دنیا سے رخصت نہ ہوجائیں۔

سیدنا حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ صرف ایک حدیثِ رسول کی خاطر مدینہ منورہ سے عازم مصر ہوئے اور طویل مسافت طے کر کے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں مصر پہنچے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے براہِ راست اس حدیث شریف کے سننے والوں میں صرف عقبہ بن عامر ہی بقید حیات تھے، لہذا مصر میں ان سے حدیث شریف سن کر فوراً واپس مدینہ منورہ پلٹ آئے، نہ تو وہاں رکے اور نہ ہی حکومت میں موجود اپنے دوستوں سے ملاقات کی۔

حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحابہ کرام کے اس شغف کو بعد کے ادوار میں مزید فروغ ملا اور محدثین نے اس روایت کو بام عروج تک پہنچا دیا، جس کے نتیجے میں امت کو صحاح ستہ یعنی صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابو داود، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ کے علاوہ موطا امام مالک ، مسند امام احمد اور کئی دیگر گرانقدر احادیث کے مجموعے نصیب ہوئے، جن سے مزید کئی علوم کے سوتے پھوٹتے رہے، اور ملت اسلامیہ کی راہیں روشن سے روشن تر ہوتی چلی گئیں۔

جلیل القدر محدثین نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال و احوال پر مشتمل روایات کو جمع کرنے کے سلسلے میں بڑی صعوبتیں برداشت کیں، سینکڑوں اور ہزاروں میلوں کے سفر کر کے بے شمار اساتذہِ حدیث سے اکتساب علم کیا، ہزاروں لاکھوں صفحات پر مشتمل احادیث کے انمول ذخیرے جمع کیئے، اور ان کی تحقیق و تدوین کے بعد کتابیں مرتب کیں۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور اتباع میں بلا شبہ دنیا و آخرت کی فلاح کا راز مضمر ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی پیروی مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کے قرب اور محبوبیت سے سرفراز کرتی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا گیا۔

قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ ﷲَ فَاتَّبِعُوْنِیْ يُحْبِبْکُمُ ﷲُ

(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ھادی کامل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے دنیا و عقبیٰ کی سرفرازیاں پاگئے۔ ان کے اتباع رسول کا ہی نتیجہ تھا کہ چودہ سو سال پہلے سر زمین عرب پر ایسا صالح معاشرہ قائم ہوگیا جو آسمان کے نیچے سب سے بہترین اور پسندیدہ معاشرہ تھا اسی لئے انہیں قرآن مجید میں رضی اللہ عنہم سے ملقب فرماکر اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوشنودی کی سند عطاکردی گئی۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے روز وشب کا بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ پاکباز لوگ عبادات اور معاملات میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع تو کرتے ہی تھے اتفاقی امور میں بھی وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کو اپنے لئے سرمایہِ حیات اور ذریعہ نجات سمجھتے تھے۔ اس حوالے سے کتب حدیث میں بے شمار مثالیں ہیں، یہاں صرف ایک پر اکتفا کیا جاتا۔

ایک مرتبہ لوگوں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ اونٹنی کی نکیل پکڑے اسے ایک ویران مکان کے گرد گھما رہے ہیں۔ لوگوں نے حیران ہو کر اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا: میں نے ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اس جگہ ایسا کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ سبحان اللہ! یہ تھا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حقیقی دلبستگی کا نتیجہ۔ دراصل صحابہ کرام نے آفتاب نبوت کی ایک ایک کرن کو اپنے قلب و نظر میں بسا لیا تھا۔ یہ کرنیں برق تپاں بن کر انہیں ہر سنت پر ہمہ وقت آمادہ عمل رکھتی تھیں۔

آج بے شمار لوگ سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کا اہتمام کرتے دکھائی دیتے ہیں، لیکن یہ اہتمام عموماً داڑھی، لباس، خورد و نوش اور دیگر چند اعمال تک محدود رہتا ہے۔ ان کے علاوہ زندگی کے دیگر پہلووں سے تعلق رکھنے والی حضور کی بے شمار سنتیں شعوری یا غیر شعوری طور پر ہمارے دائرہ عمل سے باہر ہی رہتی ہیں۔

ہم مسواک کے ذریعے دانتوں کی صفائی کو تو سنت سمجھتے ہیں اور ہمیں یاد رہتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی بڑی تاکید فرمائی ہے۔ لیکن دانتوں کے پاس ہی موجود زبان کی طہارت کا ہمیں خیال نہیں آتا اور زبان کے استعمال کے حوالے سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور آپ کے ارشادات ہمارے پیش نظر نہیں رہتے۔ ہم اپنے دسترخوانوں کو ان کھانوں سے سجانا سنت رسول کی پیروی سمجھتے ہیں، جنہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تناول فرمایا اور پسند فرمایا، لیکن اپنے دسترخوانوں پر اپنے ساتھ ملازموں اور محروموں کو شریک کرنا ہمارے تصورِ سنت کے دائرے میں نہیں آتا۔

معارج السنن کی تدوین

حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہماری سچی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام سنتوں سے پیار ہو اور انہیں اپنانے کی کوشش کریں اور آپ کے تمام ارشادات کو اپنے لیئے مشعل راہ بنائیں کہ آپ کے ارشاد گرامی کے مطابق گمراہی اور فتنوں سے نجات کا یہی واحد راستہ ہے۔ اعمال کی قبولیت کی دو بنیادی اور اہم شرائط ہیں، ایک اخلاص نیت اور دوسرا اعمال کا سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے ارشاد کے مطابق ہونا۔

قرآن مجید کے بعد سیرت اور اسوہِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اہم ترین ماخذ کتب حدیث و سیرت ہیں۔ ان کے مطالعہ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت، سیرت اور تعلیمات سے آگاہی ملتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا دم بھرنے اور آپ کی اطاعت اور پیروی کا عزم صمیم رکھنے والوں کیلئے ان کتب حدیث سے استفادہ نہایت ضروری ہے۔ عربی علوم میں مہارت رکھنے والے ارباب علم ان کتب سے ہمیشہ مستفید ہوتے رہتے ہیں، البتہ عام پڑھے لکھے آدمی کا معاملہ ذرا مختلف ہوتا ہے۔ اسے مطالعہ حدیث کے سلسلے میں دو طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

  1. عربی زبان و ادب سے نا واقفیت کی وجہ سے اسے کتب حدیث کے ان تراجم پر انحصار کرنا پڑتا ہے جن میں سے اکثر کافی عرصہ پہلے لکھے گئے تھے۔ ان تراجم میں زبان و بیان کے اسلوب کی قدامت اور عدم سلاست کی بنا پر فہم حدیث کا عمل عام قاری کے لئے دشوار ہوتا ہے۔
  2. موجودہ لاکھوں صفحات پر مشتمل درجنوں کتب حدیث سے عام آدمی کا استفادہ کرنا اس کے محدود وسائل، محدود علمی صلاحیت اورتلاش رزق کی بھاگ دوڑ میں مطالعہ کی فرصت نہ ملنے کی وجہ سے مشکل بلکہ ناممکن ہوجاتا ہے۔

اس صورت حال میں مدت سے ایسے مجموعہ احادیث کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی تھی جو موجودہ تمام ذخیرہ احادیث کو سامنے رکھ کر مرتب کیا جائے اور جن میں حیات انسانی کے تمام پہلوؤں اور دور حاضر میں پیش آمدہ تمام مسائل پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات اور سنت مبارکہ کی رہنمائی میسر آسکے۔ جس میں جدید اور قابل فہم عنوانات کے تحت احادیث مبارکہ کا ترجمہ آسان اور سلیس ہو اور فہم حدیث کے سلسلے میں کسی الجھاؤ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ نیز شروحات کی طرف رجوع کیئے بغیر قاری زیر مطالعہ حدیث کا بنیادی مفہوم سمجھ سکے۔

احادیث مبارکہ کی درجنوں کتابوں پر مشتمل عظیم ذخیرہ کا مطالعہ کرکے اس سے انتخاب کرناگویا علم و معرفت کے سمندر میں غواصی کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے آج تک جس نے بھی اس سمندر کی غواصی کی، وہ اپنا دامن موتیوں سے بھر کر ہی نکلا؛ ’’معارج السنن للنّجاۃ من الضلال والفتن‘‘ (گمراہی اور فتنوں سے نجات کے لئے سنتوں کے زینے) کے نام سے مرتب کردہ مجموعہ احادیث کی صورت میں خدمتِ حدیث، اور خدمتِ دین وملت کی یہ عظیم سعادت عالم اسلام کی مایہ ناز علمی و روحانی شخصیت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری دامت فیوضہم کے حصہ میں آئی۔ ان کی اسلام اور ملت اسلامیہ کے لئے یہ شاندار اور جلیل القدر خدمت قابل صد تحسین ہے۔

اسلامی تاریخ کے گذشتہ ادوار میں محدثین کرام اور علم حدیث سے شغف رکھنے والے بعض اہل علم نے اگرچہ کسی خاص نقطہ نظر سے منتخبات حدیث کے مجموعے مرتب کرکے علم حدیث کی اشاعت اور فروغ میں قابلِ قدر خدمات انجام دیں۔ تاہم دورِ حاضر میں اللہ تعالیٰ کی توفیق اور حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ کرم کے طفیل شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو احادیث مبارکہ کی ایسی جامع اور منفرد اسلوب کی کتاب تالیف کرنے کی سعادت نصیب ہوئی ہے جس کی نظیر ہمارے علم و مطالعے کے مطابق گذشتہ کئی صدیوں میں نہیں ملتی۔ ’’مشک آں است کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوئید‘‘ کے مصداق اس کتاب کا حسن ظاہری و معنوی اور افادیت اہل علم سے پوشیدہ نہیں رہے گی۔ تاہم عام قارئین کی توجہ اور معلومات کے لئے اس عظیم کتاب کی چند خصوصیات ذیل میں درج کی جاتی ہیں۔

معارج السنن کی خصوصیات

  • معارج السنن کے ابواب اور فصول میں احادیث سے پہلے ان کے موضوعات سے مناسبت رکھنے والی قرآن مجید کی آیات شامل کی گئی ہیں۔
  • ہر باب اور فصل کے عنوانات اور ذیلی سرخیاں اردو سے پہلے آفاقی زبان عربی میں دی گئی ہیں تاکہ کتاب کی افادیت آفاقی ہوجائے۔
  • معارج السنن کی تدوین میں کتب صحاح ستہ کے علاوہ احادیث مبارکہ کے دیگر تمام مستند مجموعوں سے بھی استفادہ کیا گیا ہے، تاکہ حضور رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور سنن کا کوئی پہلو مخفی نہ رہ جائے۔ چنانچہ معارج السنن احادیث مبارکہ کا ایسا گلدستہ ہے جس میں گلستان حدیث کے ہر شجر مبارک سے گلہائے رنگا رنگ شامل کر کے طالب فلاح کے لیے جاذب نظر اور اہل محبت کے مشامِ جاں کو معطر کرنے کا سامان کیا گیا ہے۔
  • معارج السنن کی تدوین میں ترتیب احادیث کے حوالے سے بخاری و مسلم کی متفق علیہ احادیث کو اولیت دی گئی ہے۔ پھر وہ احادیث شامل کی گئی ہیں جنہیں صرف امام بخاری یا صرف امام مسلم نے روایت کیا۔ پھر صحاح ستہ سے منتخب روایات کو شامل کیا گیا ہے بعد ازاں احادیث مبارکہ کے دیگر مجموعوں سے منتخب احادیث درج کی گئی ہیں۔ نیز احادیث کے بعد موضوع سے متعلق آثار صحابہ و تابعین کو شامل کیا گیا ہے۔
  • معارج السنن میں ہر حدیث میں حاشیہ پر وافر حوالہ جات کا التزام کیا گیا ہے، جس سے ان روایات کی دیگر مولفین کتب حدیث کے ہاں تلقی بالقبول ثابت ہوتی ہے۔
  • معارج السنن کی تدوین میں احادیث منتخب کرتے وقت عصر حاضر کے تقاضوں، امت اور انسانی معاشرہ کو درپیش مسائل کو مدنظر رکھا گیا ہے۔
  • معارج السنن کے بعض ابواب میں اہم مسائل کے حوالے سے بیان کردہ احادیث کے ساتھ جلیل المرتبت ائمہ فقہاء کی تصریحات و توضیحات بھی شامل کردی گئی ہیں جس سے زیر مطالعہ احادیث اور متعلقہ مسئلہ کی تفہیم آسان ہونے کے علاوہ قاری کی معلومات میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔
  • بعض ابواب اور فصول کے آخر میں موضوع سے متعلق صوفیاء متقدمین کے اقوال کی تعلیقات بھی شامل کی گئی ہیں جس سے موضوع کے فہم میں بڑی مدد ملتی ہے اور قاری ایک روحانی کیف محسوس کرتا ہے۔
  • معارج السنن کی ہر جلد اپنے موضوع پر مکمل اور جامع ہے۔ اسی جامعیت اور کاملیت کی تشکیل کے لیئے ہر باب میں حدیث صحیح کی تمام اصناف سے استفادہ کیا گیا ہے کہ یہی اسلوب محدثین و فقہاء کا بھی رہا ہے، جن کے ہاں حدیث ضعیف پر بھی عمل کرنا فضائل اور ترغیب و ترھیب میں نہ صرف جائز ہے بلکہ مستحب بھی ہے۔

اس سلسلے میں مولانا احمد رضا خاں محدث بریلی رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ ایک سبق آموز روایت کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں کہ ایک حدیث ضعیف میں بدھ اور ہفتہ کے روز پچھنے لگوانے کے بارے میں فرمایا گیا:

مَنْ اِحْتَجَمَ يَومَ الْاَرْبِعاء وَيَوْمَ السَّبْتِ فَاَصَابَهُ بَرْصٌ فَلَا يَلُوْمَنَّ اِلَّا نَفْسَهُ.

(الکامل لابن عدی، 4/1446)

’’جو شخص بدھ اور ہفتہ کے روز پچھنے لگوائے پھر اسے برص کی بیماری لاحق ہوجائے تو وہ کسی اور کی بجائے خود کو ملامت کرے‘‘۔

محمد بن جعفر بن مطر نیشا پوری کو فصد (پچھنے لگوانے) کی ضرورت تھی۔ بدھ کا دن تھا انہوں نے حدیث کو ضعیف سمجھ کر فصد کرالیا، جس پر انہیں برص کی بیماری لاحق ہوگئی، خواب میں سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوئے، آپ سے فریاد کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اِيَاکَ وَالْاِسْتِهَانةَ بِحَدِيْثِی.

خبردار میری حدیث کی اہانت نہ کرنا۔

اس تنبیہ پر محمد بن جعفر نے خواب میں ہی توبہ کرلی، آنکھ کھلی تو تندرست تھے۔

(مولانا احمد رضا خاں، جامع الاحادیث 2/424)

ہمارے ہاں علماء سند حدیث کو متن حدیث پر اولیت اور اہمیت دیتے ہیں، یعنی متن حدیث کی قبولیت کا انحصار صرف سند حدیث پر ہوتا ہے جبکہ علما ربانیین کے ہاں قبولیت حدیث میں یہ پہلو بطور خاص پیش نظر ہوتا ہے کہ اگر حدیث شریف قرآن مجید سے متعارض نہیں اور اس میں فضیلت یا تذکیر اور نصیحت کا پہلو موجود ہے جو مطلوب شریعت بھی ہے تو اس روایت کو قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے خواہ اس کی سند میں کوئی ضعف بھی پایا جاتا ہو۔

  • معارج السنن میں احادیث کے ترجمہ کے دوران وضاحتی الفاظ اور جملے قوسین میں درج کئے گئے ہیں، ترجمہ آسان، عام فہم اور سلیس ہے اور علمی اسلوب کو ملحوظ رکھ کر کیا گیاہے۔

الغرض گیارہ جلدوں پر مشتمل معارج السنن ظاہری ومعنوی خوبیوں سے آراستہ ہے اعلیٰ کاغذ، معیاری طباعت اور مضبوط جلد نے اس کے حسن اور افادیت کو دوبالا کردیاہے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ مبارک اور آپ کے ارشادات ابدی و آفاقی معنویت اور افادیت کے حامل ہیں، ان کی تشریعی حیثیت صرف دور نبوی یا دور صحابہ کے لئے ہی نہیں تھی، بلکہ آج بھی اس کی وہی حیثیت اور افادیت ہے جو دور نبوی میں تھی، قرآن مجید کی ہدایت اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکات کا شیریںچشمہ آج بھی جاری ہے۔ ملت کی خیر وفلاح اور انفرادی واجتماعی اصلاح کا راز قرآن وسنت کا دامن مضبوطی سے تھامنے میں ہی ہے۔

ذیل میں معارج السنن کے موضوعات کی اختصار کے ساتھ جلد وار فہرست دی جارہی ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس عظیم ذخیرہ احادیث میں اسلامی معاشرے کے ہرفرد کے لئے خواہ اس کا تعلق تعلیم وتعلَّم سے ہو یا دعوت و ارشاد سے، ایوان عدل سے ہو یا ایوان حکومت سے، معاشرے کے کسی طبقہ سے ہو یا ریاست کے کسی ادارے سے، اس کتاب میں ان سب کی فوز وفلاح کے لئے کامل رہنمائی ہے اور دنیا میں پھیلی گمراہی اور فتنوں سے نجات کا مکمل سامان موجود ہے۔

معارج السنن کے چند موضوعات کا تذکرہ

  • اللہ تعالیٰ پر ایمان، اسماء اور صفات باری تعالیٰ
  • توحیدی و شرک، اللہ کی محبت، عبادت، توکل و استعانت، صدق نیت، اخلاص، استقامت، تقوی، ورع اور اللہ کی اطاعت
  • خشیت الہی، ذکر الہی اور آداب ذکر
  • اللہ پر بندوں کے حقوق
  • مقام رسالت، شرف رسالت اور ایمان بالنبی
  • حضور کے خصائص، شمائل اور فضائل
  • حضور نبی اکرم کے معجزات و کمالات
  • محبت و تعظیم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اطاعت رسول و اتباع سنت
  • نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اولیاء امت سے توسل وتبرک
  • حضور کی مدح گوئی شرف الرسل والانبیاء
  • فضائل خلفاء راشدین، فضائل عشرہ مبشرہ، فضائل اہل بدر و مدینہ، فضائل مہاجرین و انصار، فضائل و تعظیم صحابہ، فضائل صحابیات، فضائل اہل بیت، فضائل ازواج رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، فضائل فاطمۃ الزھرائ، فضائل و محبت حسنین کریمین، فضائل امام محمد المھدی۔
  • کرامات صحابہ و اہل بیت، کرامات تابعین و اتباع تابعین، کرامات اولیاے و صلحاء
  • امت کے بارے میں ائمہ فقہاء اور محدثین کے اقوال
  • کتاب و سنت سے تمسک کی فضیلت
  • بدعت اور اس کی اقسام
  • طہارت اور اسکی فضیلت
  • فرضیت صلوٰۃ، اذان اقامت اور نماز با جماعت کی فضیلت، مساجد کی فضیلت، نماز کے بعد دعا اور اذکار کی فضیلت، سنتوں اور نوافل کی فضیلت، جمعہ اور عیدین کی فضیلت، صوم رمضان، صلاۃ تراویح اور اعتکاف کی فضیلت، شب قدر اور نفلی روزوں کی فضیلت، زکوٰۃ اور انفاق فی سبیل اللہ اور صدقہ کی فضیلت، بخل کی مذمت۔
  • حج و عمرہ کی فضیلت، زیارت روضہ اطہر کی فضیلت، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے فضائل
  • تعلیم و تعلم کی فضیلت اور آداب، قرآن مجید اور اس کی سورتوںکے فضائل، تلاوت قرآن، تعلیم قرآن اور عمل بالقرآن کی فضیلت
  • نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام کی فضیلت
  • شب و روز کے اذکار اور دعائوں کی فضیلت، خاص ایام اور مہینوں کی فضیلت
  • امر بالمعروف، نہی عن المنکر، تعاون علی البر کی فضیلت
  • جہاد بالنفس و العلم والمال، ظلم کے خلاف جنگ
  • حقوق والدین و اقارب، حقوق الزوجین، حقوق الاولاد، حقوق عامۃ المسلمین اور ان کے باہمی تعلقات
  • غیر مسلم کے حقوق اور ان سے تعلقات
  • ضعیفوں اور مساکین کے حقوق
  • حکمرانوں کے فرائض، رعایا کے فرائض
  • حقوق الاموات، وزیارۃ القبور، ایصال ثواب، احوال الموتی والقبور
  • حقوق حیوانات والطیور والنباتات والجمادات
  • اخلاق حسنہ ان کی فضیلت اور تفصیلات
  • بداخلاقی اور اس کی مذمت برے اخلاق کی تفصیلات
  • آداب معاشرت، تجارت، حکومت
  • قیامت کی علامات اور فتنوں کا ظہور۔ احوال قیامت اہل جنت اور اہل دوزخ کے احوال