الفقہ: آپ کے دینی مسائل

جاگیرداریت کی مذمت اور زمین کو مزارعت، بٹائی یا ٹھیکہ پر دینا

مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

وَبٰـرَکَ فِيْهَا وَقَدَّرَ فِيْهَآ اَقْوَاتَهَا فِيْ اَرْبَعَةِ اَيَّامٍ سَوَآءً لِّلسَّآئِلِيْنَo

(حٰم السجده، 41: 10)

’’اور اس کے اندر (معدنیات، آبی ذخائر، قدرتی وسائل اور دیگر قوتوں کی) برکت رکھی، اور اس میں (جملہ مخلوق کے لیے) غذائیں (اور سامانِ معیشت) مقرر فرمائے (یہ سب کچھ اس نے) چار دنوں (یعنی چار ارتقائی زمانوں) میں مکمل کیا، (یہ سارا رِزق اصلًا) تمام طلب گاروں (اور حاجت مندوں) کے لیے برابر ہے‘‘۔

مفسرین کرام نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ

خلق الارض وما فيها لمن سأل ولمن يسأل

’’اﷲنے زمین اور اس میں پیدا ہونے والی ہر چیز جو مانگیں اور جو نہ مانگیں سب کے لئے یکساں پیدا کی‘‘۔

(قرطبي، الجامع لأحکام القراٰن، 15: 224، طبع مصر)

گویا زمین اور باقی کائنات کا خالق و مالک اﷲ تعالیٰ ہے ۔ اس کی دی ہوئی نعمتیں اور پاکیزہ رزق سب کے لئے ہے ۔ کسی کا حق نہیں کہ وہ ان پر قابض ہو کر اپنے اور اپنوں کیلئے مخصوص کر لے اور باقی مخلوق خداکو ان سے محروم کر دے۔ ہوا، روشنی، توانائی کے دیگر ذرائع اور زمین سے پیدا ہو نے والا رزق سب کے لئے ہے ۔ ہر ایسا نظام ظالمانہ و کافرانہ ہے جس سے اﷲ کی نعمتیں بعض افراد و طبقات کے قبضہ میں رہیں۔ ہر شخص کا حق ہے کہ زمین سے پیداوار میں سے بلامعاوضہ اپنا رزق پائے۔

لہذا اب یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک شخص تو ہزاروں ایکڑ پر قبضہ جما لے اور دوسرے ڈیڑھ مرلے کے مکان سے بھی محروم ہوں۔ معاشرے کے جاگیردار طبقہ اور حکمرانوں نے بے حد و حساب زمین پر قبضے جما رکھے ہیں اور شہروں میں ڈیڑھ ڈیڑھ مرلے، دو دو مرلے یا ڈھائی ڈھائی مرلے کے مکان (جن کو ڈربے کہنا زیادہ مناسب ہو گا) لاکھوں روپوں میں قسطوں میں مرحلہ وار، قرعہ اندازی سے دے رہے ہیں۔ تنگ و تاریک گلیاں جہاں پیدل چلنا بھی با ہمت لوگوں کا کام ہے۔

اُف یہ تفاوت۔۔۔ قارون، فرعون، شداد اور نمرود نے تو خواب میں بھی یہ سینکڑوں ایکڑ پر پھیلے محلات نہیں دیکھے ہو نگے۔ جہاں کھیل کے میدان، باغات، سوئمنگ پول، جھیلیں، مرغی فارم، مچھلی فارم، لہلہاتے کھیت، سیر گاہیں، شکار گاہیں، بادشاہوں سے بڑھ کر سیکیورٹی، شراب خانے، جوا خانے، عیاشی کے لئے عیش گاہیں، نہ جانے والی لائٹ ۔۔۔ جبکہ دوسری طرف گندگی کے ڈھیروں میں بے در و دیوار راہوں میں کیڑے مکوڑوں کی زندگی بسر کرنے والی مخلوق۔۔۔ ایک طرف قدرت کی ہر نعمت پر سانپ بن کے بیٹھنے والے قارون اور دوسری طرف بھوکے، ننگے، گندے، بیمار، جن کے بچوں کے لئے دودھ نہیں، تن ڈھانپنے کے لئے کپڑا نہیں، بیمار پڑے تو علاج نہیں۔ جن کے بچے تعلیم، خوراک، پوشاک اور ہر بنیادی ضرورت سے محروم۔۔۔ نہ ماضی نہ حال نہ مستقبل۔۔۔ قسمت میں وہی غریبوں کی نالہ و فریا د ہے کہ کیا یہ خدا کی مخلوق نہیں، کیا پالنے والا رب العالمین نہیں۔۔۔؟ کیا کہیں اس نے اپنا تعارف رب الامراء و الاغنیاء سے کرایا ہے۔۔۔؟ یہی ظالمانہ رویہ ان لوگوں کے جہنم میں جانے کا ذریعہ ہے۔

اِلَّآ اَصْحٰبَ الْيَمِيْنِ فِيْ جَنّٰتٍ يَتَسَآءَلُوْنَ عَنِ الْمُجْرِمِيْنَ مَا سَلَکَکُمْ فِيْ سَقَرَ قَالُوْا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّيْنََ وَلَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِيْنَ وَکُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَآئِضِيْنَ.

(المدثر، 74: 39 تا 45)

’’سوائے دائیں جانب والوں کے (وہ) باغات میں ہوں گے، اور آپس میں پوچھتے ہوں گے مجرموں کے بارے میں (اور کہیں گے:) تمہیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی وہ کہیں گے: ہم نماز پڑھنے والوں میں نہ تھے اور ہم محتاجوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے اور بیہودہ مشاغل والوں کے ساتھ (مل کر) ہم بھی بیہودہ مشغلوں میں پڑے رہتے تھے‘‘۔

دیکھا دوزخیوں نے دوزخ جانے کا سبب کیا بتایا:

  1. ہم نماز کے تارک تھے۔
  2. مسکین اور غریب کے کھانے پینے، رہنے سہنے، تعلیم، صحت اور بنیادی ضروریات کو پورا نہ کرتے تھے۔

یعنی ہم گھر، باہر، بازار اور تعلیمی و سیاسی اداروں، جرگہ، اسمبلی، پارلیمنٹ ہاؤس، ایوان عدل، فوجی ہیڈکوارٹرز، سینٹ، بینکوں، کارخانوں اور جاگیروں میں بیہودہ باتیں سوچتے، لوٹ مار کے نئے نئے طریقے ایجاد کرتے۔ قومی دولت کو بلکہ باہر سے مانگی ہوئی بھیک کی اپنے ذاتی و گروہی مفاد کیلئے بندر بانٹ کرتے تھے۔

کیا اس کا نام ہے ملک سے غربت، جہالت مٹانا اور امن و امان قائم کرنا۔۔۔؟ کیا یہی ہے جمہوریت کی مضبوطی۔۔۔؟ عوام بیچارے کدھر جائیں۔۔۔؟

خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سُلا دیتی ہے اُس کو حکمراں کی ساحری

دیوِ استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تُو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

زمین اور اس کی پیداوار کس کی؟

ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

اَفَرَءَيْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَo ءَ اَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَـهُ اَمْ نَحْنُ الزَّارِعُوْنَo لَوْنَشَآءُ لَجَعَلْنٰهُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَکَّهُوْنَo اِنَّا لَمُغْرَمُوْنَo بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَo اَفَرَءَ يْتُمُ الْمَآءَ الَّذِيْ تَشْرَبُوْنَo ءَ اَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْهُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَo لَوْنَشَآءُ جَعَلْنٰهُ اُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْکُرُوْنَo اَفَرَءَ يْتُمُ النَّارَ الَّتِيْ تُوْرُوْنَo ءَ اَنْتُمْ اَنْشَاْتُمْ شَجَرَتَهَآ اَمْ نَحْنُ الْمُنْشِئُوْنَo نَحْنُ جَعَلْنٰهَا تَذْکِرَةً وَّمَتَاعًا لِّلْمُقْوِيْنَo

(الواقعة، 56 : 63 تا 73)

’’بھلا یہ بتاؤ جو (بیج) تم کاشت کرتے ہو تو کیا اُس (سے کھیتی) کو تم اُگاتے ہو یا ہم اُگانے والے ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو اسے ریزہ ریزہ کر دیں پھر تم تعجب اور ندامت ہی کرتے رہ جاؤ (اور کہنے لگو): ہم پر تاوان پڑ گیا بلکہ ہم بے نصیب ہوگئے بھلا یہ بتاؤ جو پانی تم پیتے ہو کیا اسے تم نے بادل سے اتارا ہے یا ہم اتارنے والے ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو اسے کھاری بنا دیں، پھر تم شکر ادا کیوں نہیں کرتے؟ بھلا یہ بتاؤ جو آگ تم سُلگاتے ہو کیا اِس کے درخت کو تم نے پیدا کیا ہے یا ہم (اسے) پیدا فرمانے والے ہیں؟ ہم ہی نے اِس (درخت کی آگ) کو (آتشِ جہنّم کی) یاد دلانے والی (نصیحت و عبرت) اور جنگلوں کے مسافروں کے لیے باعثِ منفعت بنایا ہے‘‘۔

ان آیات کا حاصل یہ ہے کہ زمین سمیت کائنات اور اسکی نعمتیں اﷲ تعالیٰ نے بالعموم سب مخلوق اور بالخصوص انسانوں کے لئے پیدا کی ہیں ۔ بلکہ انسانوں پر ہی کیا منحصر ہے چرند، پرند، درند، کیڑے مکوڑے، تمام حیوانات، نباتات اس کے دئیے ہوئے رزق پر چل رہے ہیں۔ ایک بڑی نعمت زمین ہے ۔ مخلوق کی زندگی کا کل دارومدار اسی پر ہے ۔ اسی سے روزی، اسی پر رہائش، اسی سے غلہ، جنگل، دریا، چشمے اسی پر ابھرے ہوئے حسین پہاڑ اور انہیں پر نظر افروز درخت، جڑی بوٹیاں، پھول اور پھل۔

نیز یہ حقیقت بھی نکھر کر سامنے آگئی کہ زمین، پانی، ہوا اور ان سے پیدا ہونے والا سامان معاش سب کے لئے ہے۔ صرف انسان کا ہی نہیں، سب مخلوق کو اس سے پیدا ہونے والی روزی پر برابر حق ہے ۔ ہر ایک کو سکونت کیلئے آرام دہ مکان بنانے کا پورا حق ہے ۔ زراعت، باغبانی، صنعت، تجارت، خواراک، پوشاک، علاج، تعلیم، صحت وغیرہ جیسی ضروریات کے لئے زمین رکھنے کا مکمل حق ہے۔ اس بنیادی حق سے کوئی قانون، کوئی دستور، کوئی رواج اور کوئی فیصلہ پرکاہ کے برابر حیثیت نہیں رکھتا۔ ہر وہ نظام جس کے نتیجہ میں ایک حقیر و ذلیل اقلیت زمین اور اس پر موجود نعمتوں پر قبضہ کر لے اور عوام کی اکثریت بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہو، وہ ظلم، استبداد اور درندگی ہے۔ غریب وامیر، ظالم ومظلوم، محروم و مقسوم و مرزوق کی تقسیم مٹنی لازم ہے ۔ زرعی زمینوں اور شہری پلاٹوں پر غاصبانہ قبضہ ختم کر ا کے ہر انسان میں برابری ضروری ہے۔ یہی رب العالمین کا حکم ہے اور یہی رحمۃ للعالمین کی رحمت کا تقاضا ہے۔

کاشتکاری و باغبانی کی فضیلت

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا فَيَأْکُلُ مِنْهُ طَيْرٌ أَوْ إِنْسَانٌ أَوْ بَهِيمَةٌ إِلَّا کَانَ لَهُ بِهِ صَدَقَةٌ.

’’جو مسلمان بھی کوئی پودا لگاتاہے یا کسی قسم کی فصل کاشت کرتا ہے۔پھر اس میں سے پرندہ، انسان یا چوپایا مویشی کھائے، محنت کش کو اس صدقہ کا ثواب ملے گا‘‘۔

(بخاري، الصحيح، 2: 817، رقم: 2195 )

حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا إِلَّا کَانَ مَا أُکِلَ مِنْهُ لَهُ صَدَقَةً وَمَا سُرِقَ مِنْهُ لَهُ صَدَقَةٌ وَمَا أَکَلَ السَّبُعُ مِنْهُ فَهُوَ لَهُ صَدَقَةٌ وَمَا أَکَلَتِ الطَّيْرُ فَهُوَ لَهُ صَدَقَةٌ وَلَا يَرْزَؤهُ أَحَدٌ إِلَّا کَانَ لَهُ صَدَقَةٌ.

’’جو مسلمان کوئی پودا اُگاتا ہے تو اس درخت میں سے جو کچھ کھایا جائے وہ اس کا صدقہ ہوجاتا ہے، جو کچھ اس سے چوری ہو وہ اس کا صدقہ ہوجاتا ہے، اور جو درندے کھالیں وہ اس کا صدقہ ہوجاتا ہے اور جو پرندے کھائیں وہ اس کا صدقہ ہوجاتا ہے اور جو شخص اس میں سے کم کرے گا وہ اس کا صدقہ ہوجائے گا‘‘۔

(مسلم، الصحيح، 3: 1188، رقم: 1552)

ایک شبہ کا ازالہ

حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لَا تَتَّخِذُوا الضَّيْعَةَ فَتَرْغَبُوا فِي الدُّنْيَا.

’’باغات اور کھیتیاں وغیرہ حاصل نہ کرو، دنیا کی طرف راغب ہوجاؤگے‘‘۔

(أحمد بن حنبل، المسند، 1: 443، رقم: 4234)

اس کا جواب یہ ہے کہ اس زمینداری و باغبانی سے منع کیا گیا ہے جس میں منہمک ہو کر مسلمان نماز، روزہ اور دوسرے فرائض سے غافل ہو جائے یا جس میں ظلم و زیادتی پائی جائے۔

اگر یہ خرابیاں آجائیں تو زمینداری و باغبانی کی کیا تخصیص، تجارت، صنعت، تعلیم اور دیگر بے شمار شعبے بھی منع ہیں۔ رات بھر جاگنے، نوافل میں رات گذارنے، صوم وصال اور دیگر ریاضات شاقہ حد سے گزر جانے سے اگر فرائض رہ جائیں تو ایسی عبادات بھی منع ہیں۔

عمدۃ القاری میں علامہ عینی بیان کرتے ہیں کہ

هٰذا النهی محمول علی الاستکثار من الضياع والانصراف اليها بالقلب الذي يفضي بصاحبه الی الرکون الی الدنيا وأما اذا اتّخذها غير مستکثر وقلّل منها وکانت له کفافاً وعفافاً فهي مباحة غير قادحة في الزهد وسبيلها کسبيل المال الذي استثناه النبی بقوله (الا من أخذه بحقه ووضعه في حقه).

’’یہ ممانعت اس زمینداری/ زراعت کی ہے جس کو بہت بڑھا لیا اور تمام تر توجہ اسی کی طرف مبذول ہو گئی جو آدمی کو مکمل طور پر دنیا کی طرف جھکا دیتی ہے۔ ہاں صرف دولت سمیٹنے کیلئے اسے اختیا نہ کیا جائے اور کم مقدار میں زراعت کی جائے جس سے باعزت روزی بقدر ضرورت ملتی ہے تو یہ جائز ہے اس سے زہد میں فرق نہیں پڑتا ۔ اس کا حکم اس مال جیساہے جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فرماکر ناجائز ہونے سے مستثنیٰ فرما دیا، کہ ہا ں جس نے حق کے ساتھ مال لیا اور حق میں صرف کیا (اسکی اجازت ہے)۔

والحديث الذي ورد فيه المنع ضعيف.

’’جس حدیث میں مزارعت کی ممانعت ہے وہ ضعیف ہے‘‘۔

(عيني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 12:156)

جاگیرداروں کا مذموم کردار

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہاں کاشتکاری، باغبانی کے فضائل بیان کرتے ہوئے زراعت کی مصروفیات کو حد سے زیادہ بڑھانے سے منع فرمایا وہاں جاگیرداروں کے کردار کی طرف بھی اشارہ فرمایا کہ وہ اپنے مزارعین سے ذلت آمیز سلوک کرتے ہیں۔

عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ قَالَ وَرَأَی سِکَّةً وَشَيْئًا مِنْ آلَةِ الْحَرْثِ فَقَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ لَا يَدْخُلُ هَذَا بَيْتَ قَوْمٍ إِلَّا أَدْخَلَهُ اﷲُ الذُّلَّ.

’’ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ نے جب ہل اور کھیتی باڑی کے دوسرے آلات دیکھے تو فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ کسی گھر میں داخل نہیں ہوتے مگر اس میں ذلت داخل ہو جاتی ہے‘‘۔

بخاري، الصحيح، 2: 817، رقم: 2196

ذلت کی وجہ کو علامہ عینی نے بیان کیا کہ

فان اصحاب الاقطاعات يتسلطون عليهم و ياخذون منهم فوق ما عليهم بضرب و حبس و تهديد بالغ و يجعلونهم کالعبيدالمشترين فلا يتخلصومنهم فاذا مات واحد منهم يقيمون ولده عوضه بالغضب و الظلم و ياخذون غالب ما ترکه و يحرمون ورثته.

’’جاگیردار ان (کسانوں/مزارعین) پر مسلط ہے۔ مارپیٹ کر، قید کر کے اور آخری حد تک ڈرا دھمکا کر ان پر جو واجبات ہیں، ان سے بھی زیادہ لیتے ہیں۔ ان مزارعوں، کسانوں کو زر خرید غلام بنا کر رکھتے ہیں جو ان ظالم جاگیرداروں، زمینداروں سے خلاصی نہیں پا سکتے۔پھر جب کوئی کسان مزارع مر جائے تو اس کے بیٹے کو مرحوم کاشتکار کے عوض غضب و ظلم سے اس کا قائم مقام کر لیتے ہیں ۔ مرحوم مزارع کا چھوڑا ہو ا ترکہ زیادہ تر (جاگیردار) خود لے لیتے ہیں اور اس کے وارثو ں کو محروم کر دیتے ہیں۔‘‘

(عیني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 12: 157)

مزارعت/ بٹائی پر زمین دینے کی حقیقت

مزارعت/ بٹائی پر زمین دینے کے حوالے سے احادیث مبارکہ اور اقوال صحابہ میں سے کچھ ایسے اقوال بھی ملتے ہیں جو کہ مزارعت/ بٹائی کی ممانعت سے متعلقہ ہیں۔ آیئے پہلے ان احادیث و اقوال کا مطالعہ کرتے ہیں اور پھر اس حوالے سے فقہاء کے اقوال و فتاویٰ کو زیر بحث لائیں گے۔

٭ حضرت حنظلہ بن قیس انصاری نے سنا کہ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

کُنَّا أَکْثَرَ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مُزْدَرَعًا کُنَّا نُکْرِي الْأَرْضَ بِالنَّاحِيَةِ مِنْهَا مُسَمًّی لِسَيِّدِ الْأَرْضِ قَالَ فَمِمَّا يُصَابُ ذَلِکَ وَتَسْلَمُ الْأَرْضُ وَمِمَّا يُصَابُ الْأَرْضُ وَيَسْلَمُ ذَلِکَ فَنُهِينَا وَأَمَّا الذَّهَبُ وَالْوَرِقُ فَلَمْ يَکُنْ يَوْمَئِذٍ.

’’اہل مدینہ میں ہماری زرعی زمین سب سے زیادہ تھی اور ہم اسے بٹائی پر دیا کرتے تھے، یوں کہ پیداوار کا ایک حصہ مالک زمین کا ہو گا اور ایک محنت کرنے والے کا، کبھی اِس حصے پر آفت آ جاتی اور وہ سلامت رہتا اور کبھی اُس زمین پر آفت آتی اور یہ سلامت رہتی، لہٰذا اس سے ہمیں منع کر دیا گیا اور اُن دنوں (زمین) سونے چاندی سے ٹھیکے پر نہیں دی جاتی تھی‘‘۔

(بخاري، الصحيح، 2: 819، رقم: 2202)

٭ حضرت رافع بن خدیج بن رافع نے اپنے چچا حضرت ظہیر بن رافع سے روایت کی ہے کہ حضرت ظہیرص نے فرمایا:

لَقَدْ نَهَانَا رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَنْ أَمْرٍ کَانَ بِنَا رَافِقًا قُلْتُ مَا قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَهُوَ حَقٌّ قَالَ دَعَانِي رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ مَا تَصْنَعُونَ بِمَحَاقِلِکُمْ قُلْتُ نُؤاجِرُهَا عَلَی الرُّبُعِ وَعَلَی الْأَوْسُقِ مِنَ التَّمْرِ وَالشَّعِيرِ قَالَ لَا تَفْعَلُوا ازْرَعُوهَا أَوْ أَزْرِعُوهَا أَوْ أَمْسِکُوهَا قَالَ رَافِعٌ قُلْتُ سَمْعًا وَطَاعَةً.

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں اس کام سے منع کیا ہے جو ہمارے لیے نفع بخش تھا۔ میں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو فرمایا وہ درست ہے۔ راوی کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بلا کر فرمایا کہ تم اپنے کھیتوں کا کیا کرتے ہو؟ میں عرض گزار ہوا کہ ہم انہیں چوتھائی بٹائی پر دیتے ہیں، چند کھجوروں یا جو کے چند وسق پر۔ فرمایا کہ یوں نہ کرو بلکہ خود کھیتی کرو یا کھیتی کرائو یا پڑی رہنے دو۔ رافع عرض گزار ہوئے کہ میںنے سنا اور مانا‘‘۔

(بخاري، الصحيح، 2: 824، رقم: 2214)

٭عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه قَالَ کَانُوا يَزْرَعُونَهَا بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ وَالنِّصْفِ فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم مَنْ کَانَتْ لَهُ أَرْضٌ فَلْيَزْرَعْهَا أَوْ لِيَمْنَحْهَا فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ فَلْيُمْسِکْ أَرْضَهُ.

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگ تہائی، چوتھائی اور نصف حصے پر کاشتکاری کیا کرتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے پاس زمین ہو وہ خود کاشت کرے یا دوسرے کو مفت دے۔ اگر ایسا نہ کر سکے تو اپنی زمین کو پڑی رہنے دے‘‘۔

(بخاري، الصحيح، 2: 824، رقم: 2215)

فقہائے کرام اور مزارعت

مزارعت، بٹائی، ٹھیکہ پر زمین دینے کے جواز پر دلیل یہ دی جاتی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح خیبر کے بعد، خیبر کے یہودیوں سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ وہ زمینوں اور باغات پر کام کرتے رہیں اور پیداوار آدھی ان کی آدھی مسلما ن حکومت کی اور مزارعت اسی کا نام ہے۔

امام محمد نے اس روایت مرسل کو دلیل بناتے ہوئے مزارعت یعنی بٹائی پر زمین دینے کو جائز قرار دیا یعنی زمین نصف پیداوار پر دوسرے کو دینا کہ یہ فعل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے۔

امام اعظم رضی اللہ عنہ کے نزدیک بٹائی پر زمین دینا جائز نہیں ۔ امام اعظم فرماتے ہیں کہ خیبر کامعاملہ بٹائی یا مزارعت نہیں۔ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے اس مسئلہ کی دو وجہیں بیان کی ہیں۔

پہلی وجہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیبر بزور شمشیر فتح کیا تھا۔

استرقهم و تملک أراضيهم و نخيلهم ثم جعلها في أيديهم يعملون فيها للمسلمين بمنزلة العبيد في نخيل مواليهم وکان في ذلک منفعة للمسلمين ليتفرغوا للجهاد بأنفسهم ولأنهم کانوا أبصر بذلک العمل من المسلمين.

’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان (یہود) کو غلام بنا لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی زمینوں اور کھجوروں کے مالک ہو گئے ۔ پھر انہی کے ہاتھوں میں یہ اراضی رہنے دی کہ وہ مسلمانوں کے غلاموں کی حیثیت سے ان زمینوں پر اپنے مالکوں کے لئے کام کرتے رہیں۔ اس میں مسلمانوں کو فائدہ تھا کہ وہ جہاد کے لئے فارغ ہو جائیں‘‘۔

دوسری بات یہ بھی کہ یہود ان زمینوں کو مسلمانوں سے بہترجانتے تھے اور جو کچھ ان کا پیداوار میں حصہ مقرر فرمایا یہ ان کا نفقہ تھا کیونکہ مسلمانوں کے غلام تھے اور باغوں میں مسلمانوں کے لئے کام کرتے تھے۔ لہٰذا وہ اخراجات لینے کے مستحق تھے ۔ لہٰذا آپ نے ان کا خرچہ ان کی کمائی میں مقرر فرمادیا اور نصف پیداوار ان کیلئے مقررفرمائی۔ جیسے آقا اپنے غلام پر ٹیکس لگاتاہے۔

2۔ دوسری وجہ امام اعظم رضی اللہ عنہ نے بتائی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی گردنوں اور زمین و باغوں پر بھی احسان فرمایا۔ آدھی پیداوار کو ان پر اسلامی حکومت کو ادا کرنا لازم کر دیا۔ یہ ’’خراج مقاسمہ‘‘ کہلاتاہے۔

خراج کی دو قسمیں ہیں۔

  1. خراج مقاسمہ
  2. خراج مؤظّف (خراج وظیفہ)

خراج وظیفہ

اس سے مراد جب امام مفتوحہ علاقہ کے لوگوں پر مالی ٹیکس لگادے۔ جیسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں پر ٹیکس لگایا تھا کہ وہ ہر سال بارہ سو (1200) حُلے اسلامی مرکز کو دیںگے۔ چھ سو (600) محرم ابتدائے سال میں اور چھ سو رجب میں۔

خراج مقاسمہ

اس سے مراد زمین کی پیداوار پر دیا جانے والا خراج ہے۔ جیسے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود خیبر سے صلح کامعاہدہ کیا تھاکہ ان کی زمین سے جو پیداوار ہو گی، اس میں سے آدھی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اور نصف وہا ں کے باشندوں کی، اس میں مزارعت ہوگی۔

امام کو اختیار ہے کہ مفتوحہ اراضی کو وہاں کے باشندوں پر احسان کرتے ہوئے ان پر خراج وظیفہ مقرر کرے اور چاہے تو ان پر خراج مقاسمہ لگا کر انہی زمینوں پر ٹھہرا دے۔ یہ بہترین فیصلہ تھا۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ فیصلہ ان کی اور ان کی اولادوں کی گردنوں پر تصرف ہے۔ جیسے عموماً غلاموں اور لونڈیوں میں ہوتاہے۔ حضرت عمرص نے ان کو جلا وطن کیا، اگر یہ لوگ مسلمانوں کے مملوک و غلام ہوتے تو انہیں جلا وطن نہ کیا جاتا کیونکہ غلام کو مالک ہمیشہ اپنی ملکیت میں رکھ سکتا ہے۔

معلوم ہوا کہ دوسری وجہ ہی درست ہے ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود پر یہ بات واضح فرمادی کہ ان پر ان کی کھجوروں اور اراضی کے معاملہ میں جو احسان کیا گیا ہے، یہ ہمیشہ کیلئے غیر مشروط نہیں۔فرمایا :

أقرّکم ما أقرّکم اﷲ.

’’میں تم کو اس وقت تک یہاں ٹھہراؤں گا جب تک اﷲ ٹھہرائے گا‘‘۔

یہ فرمان استثناء کا سا ہے اور اشارہ اس طرف ہے کہ ان کو خیبر میں ٹھہرنے کی اجازت دائمی نہیں ۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وحی کے ذریعہ معلوم تھا کہ ایک وقت آئے گا جب آپ ان کو خیبر سے جلا وطن کر دیں گے۔ اس کلمہ سے آپ نے اپنے قول کو وعدہ خلافی کے عیب سے بچا لیا، اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب لوگوں سے بڑھ کر وعدہ خلافی اور دھوکہ دہی کے عیب سے دور تھے۔

(سرخسي، المبسوط، 23:2، دار المعرفة بيروت)

امام اعظم رضی اللہ عنہ کے نزدیک مزارعت جائز نہیں

امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایامزارعت/ بٹائی پر زمین، خواہ نصف پیداوار پر خواہ تیسرے حصہ پر جائز نہیں۔

امام صاحب کے دلائل

عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ کَانَ يُکْرِي مَزَارِعَهُ عَلَی عَهْدِ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَفِي إِمَارَةِ أَبِي بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَصَدْرًا مِنْ خِلَافَةِ مُعَاوِيَةَ حَتَّی بَلَغَهُ فِي آخِرِ خِلَافَةِ مُعَاوِيَةَ أَنَّ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ يُحَدِّثُ فِيهَا بِنَهْیٍ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَدَخَلَ عَلَيْهِ وَأَنَا مَعَهُ فَسَأَلَهُ فَقَالَ کَانَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَنْهَی عَنْ کِرَاءِ الْمَزَارِعِ فَتَرَکَهَا ابْنُ عُمَرَ بَعْدُ وَکَانَ إِذَا سُئِلَ عَنْهَا بَعْدُ قَالَ زَعَمَ رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم نَهَی عَنْهَا.

’’مجاہد بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد، حضرت ابوبکر، حضرت عمر، اور حضرت عثمان ث کے زمانہ خلافت اور حضرت معاویہ کی خلافت کے ابتدائی دور میں اپنی زمینوں کو بٹائی پر دیا کرتے تھے حتی کہ حضرت معاویہ کی خلافت کے آخر میں انہیں حضرت رافع بن خدیج کی یہ حدیث پہنچی کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ (مجاہد کہتے ہیں) پھر حضرت ابن عمر، حضرت رافع کے پاس گئے اور میں بھی ان کے ساتھ تھا اور ان سے اس بارے میں سوال کیا: انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زمینوں کو کرائے پر دینے سے منع فرمایا، سو اس کے بعد حضرت ابن عمر نے زمین کو کرائے پر دینا چھوڑ دیا، پھر جب ان سے اس بارے میں سوال کیا جاتا تو کہتے ابن خدیج رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے‘‘۔

(مسلم، الصحيح، 3: 1180، رقم: 1547)

٭ قَالَ عَمْرٌو قُلْتُ لِطَاوُسٍ لَوْ تَرَکْتَ الْمُخَابَرَةَ فَإِنَّهُمْ يَزْعُمُونَ أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم نَهَی عَنْهُ قَالَ أَيْ عَمْرُو إِنِّي أُعْطِيهِمْ وَأُغْنِيهِمْ وَإِنَّ أَعْلَمَهُمْ أَخْبَرَنِي يَعْنِي ابْنَ عَبَّاسٍ رضی اﷲ عنهما أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم لَمْ يَنْهَ عَنْهُ وَلَکِنْ قَالَ أَنْ يَمْنَحَ أَحَدُکُمْ أَخَاهُ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَأْخُذَ عَلَيْهِ خَرْجًا مَعْلُومًا.

’’عمرو کا بیان ہے کہ میں نے طائوس سے کہا کہ کاش! آپ بٹائی پر زمین دینا چھوڑ دیتے، کیونکہ لوگوں کا خیال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ فرمایا کہ اے عمرو، میں انہیں دیتا ہوں اور انہیں بے نیاز کر دیتا ہوں جب کہ اُن میں سب سے بڑے عالم یعنی حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما نے مجھے بتایا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے منع نہیں فرمایا بلکہ فرمایا ہے کہ تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو مفت دے یہ اُس کے بدلے کچھ مقرر کر کے لینے سے بہتر ہے۔‘‘

(بخاري، الصحيح، 2: 821، رقم: 2205)

خلاصہ کلام

سطور بالا میں قرآن و سنت و اقوال صحابہ و فقہاء کرام سے یہ حقیقت ثابت ہو چکی ہے کہ جاگیردار ی اور بٹائی پر زمین دینا درست نہیں۔ دیہات کی اکثر آبادی جو زمینوں پر کام کرتی ہے وہ بنیادی انسانی ضرورتوں سے بھی محروم ہے۔ محنت کش کی ساری کمائی جاگیردار و زمیندار لے جاتے ہیںاور محنت کش کی آنیوالی نسلیںان ظالموں کے ہاتھوں گروی رہتی ہے۔ جاگیردار، وڈیرہ شاہی کے خونیں پنجوں میں عوام صدیوں سے جکڑے ہوئے ہیں ۔ جاگیردار اپنے علاقے میں ہسپتال نہیں بنوانے دیتا کہ کسی غریب کا علاج ہو سکے۔۔۔ سکول، کالج اور صنعتی ٹریننگ ادارے نہیں بننے دیتا کہ عوام زیور علم سے آراستہ ہو کر اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں۔۔۔ اپنی نکمی، نالائق اولاد کو شہروں میں بلکہ بیرون ملک تعلیم دلاتا ہے اور عوام کے لئے سکول، کالج اور ہسپتال پبلک بہبود کے ادارے بننے نہیں دیتا کہ تعلیم عام ہو گئی تو ہمارے غلام ہمارے ہاتھوں سے نکل جائیں گے۔۔۔ سڑکیں نہیں بننے دیتے کہ ان مظلوموں کو باہر کی دنیا نظر آجائے گی۔ نیز شہروں کے باخبر لوگ ان یا جوج ماجوج کی ان بستیوں کی حالت زار سے بے خبر ہی رہیں اور کوئی ان کی حمایت میں آواز نہ اٹھائے۔

لہذا اس صورت میں کسی جاگیردار اور وڈیرے کے ظلم و ستم سے خود کو محفوظ رکھنے کے لئے کہ کہیں اُن کی زمینوں کو آباد کرتے کرتے غریب مزارع ان کا غلام نہ بن جائے، مزارعت/ بٹائی جائز نہیں۔

کبھی انسان مجبور ہو جاتا ہے اور زندگی گزارنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ حالات کے ہا تھوں مجبور ہو کر اسے وہ کچھ کرنا پڑ جاتا ہے جو اسے سخت نا پسند ہے۔ یہ حالت اضطرار کہلاتی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :

اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْکُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اﷲِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلاَ عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْهِ اِنَّ اﷲَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌo

’’پھر جو شخص بے بس و لاچار ہو جائے، نہ خواہشمند ہو اور نہ ضرورت مند آگے بڑھنے والا ہو تو اس پر ( حرام کھانا بقدر ضرورت میں) کچھ گناہ نہیں، بیشک اﷲ بخشنے والا مہربان ہے ‘‘۔

(البقرة، 2: 173)

مثلاً وراثت میں زمین ملی، چھوٹے چھوٹے بچے، بیوی اور بوڑھے والدین کیا کرے۔۔۔؟ یا قومی و ملی فوجی خدمات کے صلہ میں سرکاری زمین ملی، کیا کرے۔۔۔؟ بعض رفاہی اداروں کو ان کی رفاہی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے عوام یا حکومت جاگیر دیتی ہے، اُسے کیسے آباد کیا جائے اور کس طرح پیداوار حاصل کی جائے۔۔۔؟ اس صورت میں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ حکومت غریب مزارعین کو مفت اعانت نہیں کرتی تو کم سے کم قرض حسن دے۔ ٹریکٹر، کھاد اور زرعی قرضے بڑے جاگیرداروں اور زمینداروں وڈیروں کو ہی کیوں دیئے جاتے ہیں؟ محنت کرنے والے مزدوروں اور ہاریوں کو دیں ۔ جاگیردار بڑے شہروں میں پر تعیش زندگی محلات میں گزار رہا ہے ۔ اس کے پاس محدود رقبہ رہنے دیں باقی ہاریوں میں تقسیم کر یں ۔ فرعونیت کا خاتمہ کریں ۔ کسانوں کی روٹی و عزت کو بحال کریں۔ بقول علامہ اقبال۔

خواجہ نان بندہِ مزدور خورد
آبروئے دختر مزدور دُرد

جاگیردار، زمیندار، ملک، وڈیرہ، نواب مزدور کی روٹی کھا گیا اور مزدور کی بیٹی کی عزت بھی پامال کر گیا۔

لہٰذا خاص حالا ت میں شرائط کے ساتھ بعض ائمہ نے اس مزارعت کو جائز قرار دیا ہے ۔ جیسے احناف میں صاحبین اور دیگر متعدد آئمہ کرام نے۔

’’فهي فاسدة عند أبي حنيفة رحمه اﷲ وعندهما جائزة والفتوی علی قولهما لحاجة الناس ‘‘.

’’بٹائی پر زمین دینا امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کے نزدیک ناجائز ہے اور صاحبین (امام ابو یوسف اور امام محمد) رحمھما اﷲ کے نزدیک مشروط طور پر جائز ہے اور فتویٰ لوگوں کی حاجت کی پیش نظر صاحبین کے قول پر ہی ہے‘‘۔

(الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوی الهندية، 5: 235، دار الفکر)

جواز کی نمایا ں شرطیں یہ ہیں :

  1. زمین زراعت کے قابل ہو۔
  2. مالک زمین اور بٹائی پر لینے والا، دونوں اہل عقد ہوں۔
  3. معاہدہ کی مدت بیان کر دی جائے ۔
  4. بیج کس کے ذمہ ہو گا ؟ اس امر کو واضح کیاجائے۔
  5. جنس متعین ہو۔
  6. دوسرے فریق کاحصہ (نصف، ثلث، ربع) وغیرہ بھی متعین ہو۔
  7. زمین کام کرنے والے کے حوالے کر دی جائے۔

(ابن نجيم، البحر الرائق، 8: 181، دار المعرفة بيروت)

پس شریعت مطہرہ نے کمال حکمت سے مشروط اجازت بھی دی اور عام حالات میں اسکی حوصلہ شکنی بھی کر دی۔