حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ

یقینِ محکم اور عملِ پیہم کی مجسم تصویر

عباس محمود العقاد

ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ظاہری کے بعد نفاق نے اپنی گردن اٹھائی۔ بعض قبائل عرب مرتد ہوگئے، انصار نے اپنے مراکز کو چھوڑدیا، ان حالات میں اگر مضبوط پہاڑ بھی میرے والد گرامی پر گر پڑتے تو آپ انہیں ریزہ ریزہ کردیتے۔ اگر مسلمان کسی نقطے پر اختلاف کرتے تو میرے والد گرامی اپنی فیصلہ شناس نگاہ کی بدولت اس کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ فرمادیتے۔

(کنزالعمال، فضل الصدیق، رقم:35595)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال ظاہری کے بعد جو بغاوت پھوٹ پڑی تھی اور اس کے جو متوقع نتائج سامنے آنے والے تھے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس سے بخوبی آگاہ تھے۔ خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد آپ کے سامنے تین طرح کے مسائل آئے:

  1. لشکر اسامہ بن زید کی روانگی
  2. فتنہ ارتداد کی سرکوبی
  3. اسلامی سرحدوں کی حفاظت کے لئے اقدامات

سب سے اہم مسئلہ یہ تھا کہ مختلف قسم کے پیدا ہونے والے فتنوں کو پہلے ختم کرنے کی کوشش کی جائے یا اسلامی سلطنت کی سرحدوں کی حفاظت کے لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی معیت میں جو لشکر روانہ فرمایا تھا اسے دوبارہ بھیج دیا جائے۔ واقعی یہ ایک نہایت ہی نازک وقت تھا کہ ہر طرف سروں پر خطرات منڈلا رہے تھے۔ ایسے وقت میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بہت غور و خوض کے بعد لشکر اسامہ بن زید کی روانگی کا حکم جاری فرمایا۔ یہ فیصلہ دور رس اثرات کا موجب بنا، آیئے اس لشکر کی روانگی اور آپ رضی اللہ عنہ کو اپنے دورِ خلافت میں پیش آمدہ دیگر مسائل کا ایک ایک کرکے جائزہ لیتے ہیں۔

1۔ لشکر اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی روانگی

’’بلقآئ‘‘ کے قریب ملک شام میں واقع ’’اُبنی‘‘ میں مقیم لوگوں کی جانب حضرت سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں لشکر تیار کیا گیا۔ یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات مبارکہ کا سب سے آخری سریہ تھا۔ 26 صفرالمظفر ہفتہ کے روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ملک شام پر قابض رومیوں کے مقابلہ کے لئے جنگ کی تیاری کا حکم فرمایا اور حضرت سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ کل یعنی 27 صفرالمظفر بروز اتوار اس مہم پر روانہ ہوجائیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود انہیں رخصت فرمایا۔

حضرت سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ سے ایک فرسخ (تین میل) کے فاصلے پر مقام جرف میں پڑائو ڈالا تاکہ لشکر وہاں اکٹھا ہوسکے۔ اس لشکر میں کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی شامل تھے۔ اس دوران مدینہ منورہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعت مقدسہ زیادہ خراب ہوگئی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شدت مرض کے بارے میں سنا تو حضرت سیدنا ابوبکر صدیق، حضرت سیدنا عمر فاروق، حضرت سیدنا عثمان غنی، حضرت سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور دیگر چند صحابہ کرام علیہم الرضوان مدینہ منورہ واپس لوٹ آئے۔

12 ربیع الاول پیر کے دن حضرت سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ مہم پر روانگی کی تیاری فرمارہے تھے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کی خبر پہنچی اس پر آپ رضی اللہ عنہ اپنے لشکر سمیت مدینہ طیبہ واپس آگئے۔

جب حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ رسول منتخب ہوئے تو امور خلافت سنبھالنے کے بعد پہلا حکم آپ رضی اللہ عنہ نے لشکر اسامہ کی روانگی کا دیا کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ظاہری حیات طیبہ میں اس کا بڑا اہتمام فرمایا تھا۔ چنانچہ حضرت سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ یکم ربیع الثانی کو جرف کے مقام سے اپنے لشکر کو لے کر روانہ ہوئے۔

لشکر ’’ابنیٰ‘‘ کے مقام پر پہنچا اور مشرکین سے زبردست جنگ کے بعد کامیاب و کامران ہوا۔ اہم بات یہ ہے کہ اس مہم میں مسلمانوں کا کوئی بھی جانی نقصان نہ ہوا، سارا لشکر صحیح سلامت مال غنیمت سمیت واپس مدینہ منورہ آگیا۔اس جنگ کے وقت حضرت سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی عمر صرف اٹھارہ سال تھی۔

حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی مہم کو بعض جدید مؤرخین زیادہ اہمیت نہیں دیتے اور اس کو تاریخ کا ایک معمولی واقعہ شمار کرتے ہیں جس کا کوئی خاص اور نمایاں فائدہ اسلام اور مسلمانوں کو نہیں پہنچا۔ مگر ان لوگوں کا یہ خیال ایک فاش تاریخی غلطی ہے۔

درحقیقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا یہ اقدام بڑے گہرے اور دور رس نتائج کا حامل تھا اور اس کے اندر نفع اور اصلاح کے بے شمار پہلو مضمر تھے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ یہ مہم دولت اسلامیہ کی سیاست عامہ کا عنوان و دیباچہ ہے اور اس کو اس دور کی سیاسیات میں اتنا ہی بلند مقام حاصل ہے جتنا اونچا مرتبہ کسی بھی دور کی سیاسی پالیسی کو حاصل ہوسکتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کلی اطاعت اس مہم کا بنیادی راز ہے۔ جب تمرد و عصیان وباء کی طرح پھوٹ پڑے تو ایسی صورت میں اطاعت کامل کروالینا ہی سب سے بڑا کارنامہ ہوتا ہے۔

اس وقت بغاوت و سرکشی ایک عظیم خطرہ بن چکی تھی۔ مکہ اور مدینہ میں نفاق کا فتنہ سر اٹھا رہا تھا۔ بدوی قبائل ایک ایک کرکے مرتد ہورہے تھے۔ حتی کہ خود حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو بھی فوج کی اطاعت پر اعتماد نہ رہا تھا اور وہ اس بات کے منتظر تھے کہ ان کی جگہ کوئی اور امیر لشکر مقرر کیا جائے۔ غرض بغاوت و سرکشی نے وباء کی صورت اختیار کرلی تھی اور کامل اطاعت کروانے کے سوا سلامتی کا کوئی راستہ نہ تھا۔

اس نازک موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا بالغ مزاج اپنا کام کرگیا اور ان کے عبقری دل و دماغ نے بڑی خوش اسلوبی سے اپنے ہیرو کے اتباع و اقتداء کا حق ادا کیا۔ لوگوں نے آپ کی توجہ اس طرف مبذول کرائی کہ اگر یہ لشکر مدینہ سے باہر بھیج دیا گیا تو اس کی سالمیت خطرہ میں پڑ جائے گی مگر اس بطل جلیل نے اس خطرہ کی پروا نہ کی اور فرمایا:

’’خدا کی قسم! میں اس علَم کو نہیں کھول سکتا جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھوں نے باندھا ہو۔ خواہ ہمیں پرندے اچک لے جائیں۔ جیش اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی کسی حال بھی ملتوی نہیں کی جاسکتی‘‘۔

مہاجرین و انصار کی ایک بھاری تعداد ایسے لوگوں پر مشتمل تھی جو یہ رائے رکھتی تھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کی وجہ سے فی الحال اس مہم کو ملتوی کردیا جائے۔ اس رائے میں پیش پیش خود حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ بعض لوگ یہ متبادل تجویز پیش کرتے تھے کہ اگر مہم بھیجنی ہی ہے تو فوج کی قیادت کسی سن رسیدہ اور ماہر جنگ کمانڈر کے سپرد کی جائے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی اسی رائے کے حامی تھے۔ لیکن تمام لوگوں کی آراء کے برعکس حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نظر میں اطاعت اور قانون کا مسئلہ ہر چیز پر مقدم اور ہر چیز سے اہم تھا۔ اگر تمرد نے وباء کی صورت نہ اختیارکرلی ہوتی تو اس راستہ کے سوا دوسرے راستے بھی مفید اور درست ہوسکتے تھے۔ مگر یہاں سابقہ ایسی خطرناک آفت سے تھا جس سے بچائو کی صورت نہ کرنے میں دولت اسلامیہ کی اینٹ سے اینٹ بج جاتی۔

جو اطاعت مقصود تھی اس کی مثال سب سے پہلے خود حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قائم کی۔ مہم کو روانہ کرتے وقت پیدل چلتے رہے۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ آپ کی سواری کی مہار تھامے ساتھ ساتھ تھے۔

حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے کہا، ’’اے جانشین رسول( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )! آپ بھی سوار ہوجائیں، ورنہ میں خود سواری سے اترتا ہوں‘‘۔

آپ نے فرمایا، نہیں! نہ تم اترو، نہ میں سوار ہوں گا۔ تھوڑی دیر کے لئے تو مجھے بھی قدم خدا کی راہ میں غبار آلود کرلینے دو‘‘۔

رخصت ہونے سے پہلے آپ نے امیر لشکر (اسامہ رضی اللہ عنہ ) سے درخواست کی کہ اگر تم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو میرے پاس رہنے دو تو میرے حق میں بہتر ہوگا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ امیر لشکر کے حکم سے واپس چلے آئے۔ یعنی محمود کو بھی ایاز سے اجازت لینی پڑی۔ اس لئے کہ وہی اس وقت صاحب امر تھا۔

چلتے چلتے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو یہ نصیحت فرمائی۔ دیکھو! وہی کچھ کرنا جس کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمودات سے سرمو انحراف نہ ہونے پائے۔

لشکرِ اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی کے اثرات

اگر یہ مہم اس وقت روانہ نہ کی جاتی تو قبائل غسان و قضاعہ جو عرب اور روم کے نقطہ اتصال پر آباد تھے مسلمانوں سے بے خوف ہوجاتے اور ان کے دلوں سے اسلامی حکومت کا وقار جاتا رہتا۔ اس بات کا محض امکان نہ تھا بلکہ ہونا یہی تھا۔ رومی مسلمانوں کی اس کمزوری کو محسوس کرکے حملہ کردیتے اور غسان و قضاعہ کی مدد سے جو جی میں آتا کر گزرتے۔ اور مزید یہ کہ کیا وہ لوگ بھی سر نہ اٹھالیتے جو کسی ڈر یا خوف کی وجہ سے اب تک خاموش بیٹھے تھے۔۔۔؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب ہوکر رہتا۔

اس مہم کا نمایاں اور اہم پہلو یہ ہے کہ جب اس روانگی کی خبر جزیرہ نمائے عرب میں پھیلی تو اس دور کے مؤرخین کے بیان کے مطابق جو قبائل ارتداد کے لئے پر تول رہے تھے وہ خاموش ہوکر بیٹھ گئے اور ان کے ذہنوں پر یہ اثر ہوا کہ اگر مسلمانوں میں اس وقت غیر معمولی طاقت نہ ہوتی تو وہ طاقتور سلطنتوں پر دھاوا نہ بولتے۔ پس اگر لشکر اسامہ کو کسی خطرہ کے پیش نظر روک رکھنے کی کوئی وجہ موجود تھی تو اس کا بھیج دینا اس سے بھی بڑے خطرے کی مدافعت کے لئے ضروری تھا۔ اطاعت و فرمانبرداری کا درس دینا اس وقت کی سب سے اہم ضرورت تھی۔

2۔ فتنہ ارتداد

وہ واقعات و حادثات جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہری وصال کے بعد پیش آئے وہ خود اس بات کے شاہد ہیں کہ اسلام کا ارتقاء و عروج طبعی اور فطری تھا۔ انہی میں سے ایک اہم واقعہ فتنہ ارتداد بھی ہے۔

مرتدین کے خلاف جنگ کرنا بظاہر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی حلیم الطبعی اور نرم مزاجی کے خلاف نظر آتا ہے اور بادی النظر میں آپ کا یہ مؤقف کچھ حیران کن ہے۔ آدمی سوچنے لگتا ہے کہ ایک حلیم و بردبار شخص کا اس موقع پر سخت رویہ اختیار کرنا اس کے مزاج کے منافی ہے۔ لیکن اگر ذرا غور سے کام لیا جائے تو بڑی آسانی سے یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ آپ کے اس مؤقف میں چنداں حیرت کا پہلو نہیں۔ آپ نے اس وقت جس سختی و شدت کا مظاہرہ کیا اس وقت وہی آپ کے مزاج کا عین اقتضا تھا اور اگر آپ ایسا نہ کرتے تو آپ کے متعلق یہ کہنا پڑتا کہ آپ قوت غضب سے محروم تھے جو بہر حال ناقابل تصور ہے۔ مرتدین کے ارتداد نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو برا فروختہ کردیا۔

ارتداد کی وجوہات

1۔ ارتداد عرب جس صورت میں پیش آیا اس کا اس صورت میں پیش آنا طبعی اور فطری قانون کے مطابق تھا۔ دعوتِ اسلام کے عروج پر پہنچنے اور عوام و خاص کے اس دین میں داخل ہوجانے کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مرکز و محور کا کام دیتی تھی یا بقول شاعر

فانک موضع القسطاس منها
فتمنع جانبيها ان يميلا

’’آپ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اس ملت کی میزان کا مرکز توازن ہیں۔ آپ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہی کی بدولت اس کے دونوں پلڑوں میں توازن قائم ہے‘‘۔

جب مرکز توازن ہی نہ رہا تو اس کے برعکس صورت حال کا پیش آنا اور اضطراب و انتشار کا اس وقت تک کے لئے سر اٹھالینا فطری امر تھا جب تک اس کا مخصوص اثر زائل نہیں ہوجاتا اور حالات دوبارہ معمول پر نہیں آجاتے۔

اسی فطری تقاضے کے مطابق ہر گروہ کے اندر اس کے اپنے حالات و ظروف کی مناسبت سے انتشار و اضطراب رونما ہوا۔

2۔ ان مختلف گروہوں کے علاوہ متعدد قبائل بھی ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے تھے۔ کوئی مرکز حکومت سے قریب تھا اور کوئی دور۔ کوئی اسلام سے زیادہ وابستگی رکھتا تھا اور کوئی کم۔ اسی تناسب سے ان کے اندر بھی انتشار و اضطراب رونما ہوا۔

جو قبائل گہوارہ اسلام سے قریب تھے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تو پوری عقیدت و وابستگی رکھتے تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین صاحب امر کی اطاعت اور فرمانبرداری پر رضا مند نہ تھے۔

3۔ انہی قبائل میں کچھ ایسے بھی تھے جو زکوٰۃ دینی فریضہ تو سمجھتے تھے مگر وصول کرنے والے کے بارے میں ان کا نقطہ نظر مختلف تھا۔ وہ قرآن کریم کی مذکورہ ذیل آیت کی من گھڑت تاویل اپنے موقف کی حمایت میں پیش کرتے تھے۔

خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَکِّيْهِمْ بِهَا َوصَلِّ عَلَيْهِمْ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّهُمْ.

(التوبة:103)

’’آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجیے کہ آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرمادیں اور انہیں (ایمان و مال کی پاکیزگی سے) برکت بخش دیں اور ان کے حق میں دعا فرمائیں، بے شک آپ کی دعا ان کے لیے (باعثِ) تسکین ہے‘‘۔

یہ لوگ اسی آیت کی آڑ لے کر یہ کہنے لگے کہ ہم زکوٰۃ اسی کو دے سکتے ہیں جس کی نماز و دعا میں ہمیں سکون ملے۔ اس کج فہمی کی بنا پر انہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا۔

4۔ جو قبائل دور دراز علاقوں میں آباد تھے ان کے انتشار و اضطراب کی وہی نوعیت تھی جو اتنے دور دراز علاقوں میں عام طور پر پایا جاتا ہے۔

یمن کے لوگ جو مرکز سے کافی دور تھے ان کی حالت یہ تھی کہ وہ قدیم زمانہ سے تخت و تاج کے مالک چلے آرہے تھے۔ چند خاندان مدت ہائے دراز سے کبھی حبشیوں کا سہارا لے کر، کبھی ایرانیوں کی مدد سے اور کبھی خود اپنے ملک کے باشندوں کی مرضی سے اس علاقہ پر حکمرانی کرتے رہے تھے۔ اس علاقہ میں قدیم زمانہ سے کہانت کا بھی زور تھا جو کچھ کتابی اور کچھ غیر کتابی عقائد کا مجموعہ تھا۔ جب حالات نے ذرا رخ بدلا تو ان سارے اسباب و عوامل نے مل کر اپنا کام کیا اور اضطراب و انتشار کی صورت اختیار کرگئے۔

انہیں حالات میں مدعی نبوت اسود عنسی بھی کچھ دیر کے لئے کامیاب ہوگیا۔ اسود عنسی اور اس جیسے دوسروں شعبدہ بازوں نے اپنی مطلب بر آری کا یہ راستہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد سعید ہی میں عرب کے مختلف علاقوں میں اختیار کرنا شروع کردیا تھا۔ انہوں نے اسلام کو سمجھا ہی نہیں تھا اور نہ یہ جان سکتے تھے کہ یہ ایک اصلاحی اور انقلابی دعوت ہے جس کا مقصد خیرو فلاح قائم کرنا ہے۔ ان کی عقل کی تنگ دامانی اور کوتاہ نظری نے اس کو زیادہ سے زیادہ جو اہمیت دی وہ یہ کہ یہ محض انہی جیسے ایک کاہن کی جعلسازی ہے جو خوش قسمتی اور اتفاق سے کامیاب ہوگئی۔ اس لئے ان کو بھی حق پہنچتا ہے کہ وہ بھی اپنی نفع اندوزی کے لئے جدوجہد کر کے دیکھیں کیونکہ ان کے پاس بھی سحر و فسوں اور مکرو فریب کے ہزار دام ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں اس قسم کے فتنوں نے کہیں کہیں سے سر اٹھانا تو شروع کردیا تھا مگر ان کو اس وقت زور پکڑنے یا فروغ پانے کا موقع نہ مل سکا۔

یہ سارے فتنے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس دار فانی سے رخصت کا انتظار کررہے تھے۔ اور جب یہ حادثہ عظیم ہوگیا تو پورے جزیرہ نمائے عرب میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک ایک قیامت صغریٰ برپا ہوگئی اور تمام مخالف عناصر کھولتے ہوئے لاوے کی طرح ابل پڑے۔ ان میں اہل حرص و ہوا بھی تھے اور جاہل و بدوی قبائل بھی۔

فتنہ ارتداد۔۔ ایک آزمائش

اسی تاریخی حقیقت کو سامنے رکھ کر ہم اس نتیجہ تک بھی پہنچتے ہیں کہ یہ فتنہ دعوت اسلام کے لئے ایک بھٹی ثابت ہوا جو اسے تپا کر ایک طرف زیغ و نفاق اور شک و ریب کا جھاگ اوپر لے آیا اور دوسری طرف ایمان محکم، قربانی کے بے لوث جذبہ اور غیر متزلزل یقین جیسے اوصاف کو نکھار کر علیحدہ کردیا۔ جس نے فکرو تدبر، شجاعت و بہادری اور ایثار و حمیت کے ایسے غیر فانی نمونے لوگوں کے سامنے پیش کردیئے جن سے تاریخ ادیان کے صفحات ہمیشہ روشن رہے ہیں۔

اس کی ایک شہادت طلیحہ کذاب کے ایک آدمی کی زبانی سنئے۔ جس سے خود طلیحہ نے یہ سوال کیا تھا کہ ’’تم کیوں شکست کھا جاتے ہو؟‘‘ اس نے جواب میں کہا، میں اس ہزیمت و ناکامی کا راز بتاتا ہوں۔ ہمارا ہر آدمی یہ چاہتا ہے کہ ا س کا ساتھی اس سے پہلے موت کے گھاٹ اتر جائے اور جن لوگوں سے ہمارا مقابلہ ہے ان کا ہر آدمی اپنے ساتھی سے پہلے مرنا چاہتا ہے۔

یہ مرحلہ اسلامی دعوت کے لئے بھی بڑی آزمائش و امتحان کا تھا اور ان ہنگاموں اور شورشوں کے لئے بھی جن کے پیچھے فوجی طاقت، قبائلی عصبیت اور مکرو فریب کام کررہے تھے۔ اگر اسلامی دعوت کی پشت پر بھی صرف فوجی طاقت، قبائلی عصبیت اور مکرو فریب ہی کا اثاثہ ہوتا تو فتنہ ارتداد کا چھوٹے سے چھوٹا مدعی نبوت بھی اسلام کے مقابلہ میں کامیاب ہوجاتا کیونکہ ہر دعویدار نبوت کے پیچھے عصبیت کے نشہ میں سر مست قبائل کا انبوہ کا انبوہ تھا۔ ان کی اس سرمستی کا اندازہ ان کے اس نعرہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ ’’ہمارا جھوٹا نبی، مضر اور قریش کے سچے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہتر ہے‘‘۔

اسلامی دعوت کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ وہ امتحان سے اپنا دامن صاف بچا کر نکل گئی اور اپنے بے لاگ اٹل اور دائمی اصولوں پر کوئی آنچ نہ آنے دی خطرات بھی خود ہی پیدا ہوئے اور سلامتی کے اسباب بھی خود ہی مہیا ہوگئے۔

مرتدین تتر بتر اور منتشر تھے اور کسی دینی یا سیاسی رشتہ وحدت میںمنسلک نہ تھے۔ اس کے برعکس ان کے اس جارحانہ اقدام نے اہل مدینہ کی مدافعانہ اسپرٹ پوری طرح بیدار کردی تھی اور وہ ایک مضبوط رشتہ وحدت میں منسلک ہوگئے تھے۔ یہی حال اہل مکہ کا بھی تھا۔چنانچہ یہ سارے لوگ اتحاد و اتفاق کی ایک مضبوط چٹان بن کر اٹھ کھڑے ہوئے۔

مسلمانوں کے عزم و یقین کو اس بات سے مزید تقویت پہنچی کہ جیش اسامہ رضی اللہ عنہ بہت قلیل مدت میں کامیاب واپس آگیا۔ راسخ ترین روایت کے مطابق یہ مہم دو ماہ سے بھی کم مدت میں سر کر لی گئی اور مجاہدین اپنے ہمراہ بہت سا مال غنیمت بھی لائے۔ نیز نہ ان کا کوئی جانی نقصان ہوا اور نہ ان کے عزم و حوصلہ میں کوئی فرق آیا۔

قبائل نے جب یہ دیکھا کہ مسلمانوں نے رومیوں جیسی صاحب سطوت و جبروت حکومت پر حملہ کردیا اور کامران و کامیاب مع بے شمار اموال غنائم واپس بھی آگئے تو ان کے دل دہل گئے اور انہوں نے ہتھیار ڈال دینے کے سوا چارہ نہ دیکھا۔ صحرا کی خاک چھاننے والے اور اس کے طول و عرض میں بے خانماں پھرنے والے غیر منظم قبائل آخر اس سے آگے کر ہی کیا سکتے تھے، جب کہ وہ یہ محسوس کرچکے تھے کہ ان کا مقابلہ ایک بنیان مرصوص سے ہے۔ ان کے اندر ایسے لوگوں کا فقدان نہ تھا جو مطلع دیکھ کر آئندہ حالات کا اندازہ کرلیتے تھے۔

جیش اسامہ رضی اللہ عنہ جزیرہ نمائے عرب میں خود ایک بہت بڑی طاقت تھا لیکن اس کی شہرت و دبدبہ نے اس کی اپنی اصلی قوت و طاقت سے بھی زیادہ کام کیا۔ چنانچہ جو مرتدین پیش قدمی کررہے تھے وہ اپنی جگہ پر رک گئے اور ان کو مزید آگے بڑھنے کی جرات نہ ہوئی۔ جو مجتمع ہورہے تھے وہ بکھر گئے۔ جو بغاوت کے لئے پر تول چکے تھے انہوں نے صلح کرلی اور اس موقع پر صرف ہیبت و دبدبہ نے وہ کام کیا جو اسلحہ اور فوج سے بھی زیادہ کارگر اور موثر ثابت ہوا۔ یہ ہے فتنہ ارتداد کا پورا پس منظر مع اپنے جملہ پہلوئوں کے جن میں خطرات بھی موجود تھے اور سلامتی کے قوی اسباب بھی۔

فتنہ ارتداد کی سرکوبی

اس فتنہ کا مقابلہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے شروع سے آخر تک بڑے حسن و خوبی کے ساتھ کیا اور اس کا کوئی گوشہ ایسا نہیں چھوڑا جو تشنہ علاج رہ گیا ہو۔ آپ نے فتنے کی پہلی آواز اٹھتے ہی بڑے حزم و احتیاط سے قدم بڑھایا اور اس وقت تک پورے تدبر کے ساتھ آگے ہی بڑھتے رہے جب تک فتنہ نے ہتھیار نہیں ڈال دیئے اور حالات حسب سابق معمول پر نہیں آگئے۔

اس فتنہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف سے جو سب سے بڑا تدبر بروئے کار آیا وہ یہ تھا کہ آپ نے مرتدین کو قرار واقعی سزا دی۔ یہ لوگ تمرد و سرکشی پر تل گئے تھے۔ خیر خواہانہ مشوروں اور دھمکیوں سے بھی بے نیاز ہوچکے تھے اور انہوں نے جرم کیشی کو اپنا شیوہ بنالیا تھا۔ اس لئے اس بات کے مستحق تھے کہ ان کو ان کے جرم کے مطابق ہی سزا دی جائے۔ یہ لوگ عظمت دین کو پائے حقارت سے ٹھکرا چکے تھے اور مال و دولت کی محبت میں اس حد تک دیوانے ہوگئے تھے کہ دین کے حقوق سے بھی انکار کر بیٹھے۔ اس لئے وہ ایسی ہی سزا کے مستحق تھے جس سے عبرت حاصل کریں اور جسے مدت العمر تک یاد رکھیں۔ وہ اس بات کے مستحق تھے کہ جس مال کی محبت میں یہ فتنہ انہوں نے کھڑا کیا اور شورش و نقص امن تک پہنچ گئے وہ مال بھی ان سے چھین لیا جائے۔

چنانچہ ان کی جائیدادیں، ان کے گھر بار، ان کے مویشی، ان کی چراگاہیں اور پانی کے گھاٹ سب کچھ فوج کی تحویل میں دے دیا گیا۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے بعض مواقع پر نرم پالیسی اختیار کرنی چاہی مگر پیکر رحمت و رافت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نرم پالیسی کو بروئے عمل نہیں آنے دیا۔ بلکہ پورا قصاص لینے کی ہدایت کی۔ مسلمانوں کا قتل عام کرنے، لوٹ اور غارت گری کا بازار گرم کرنے اور پھر نصیحت اور دھمکی پر کان نہ دھرنے کے بعد نرمی اور رواداری کا سوال آخر کہاں باقی رہ گیا تھا؟ ایک عمل کا بدلہ دوسرے جوابی عمل سے ہی دیا جانا چاہئے۔

اگر ایک طرف سے تحقیر و توہین ہو تو دوسری طرف سے سخت گیری مطلوب و درکار ہے۔ اگر ایک طرف مال و دولت کی گھنائونی ہوس ہو تو دوسری طرف سے جواب میں اموال کی ضبطی ہی ہونی چاہئے۔ اگر ایک طرف انسانی جان کی عظمت و احترام دل سے اٹھ گیا ہو تو اس ناپاک عمل کا جواب تلوار ہی سے دیا جانا چاہئے۔ اگر ایک طرف کچھ نافرمان اور غدار لوگ ہوں جو مال و متاع کو اپنے ایمان پر بھی ترجیح دیتے ہوں تو دوسری طرف مجاہد صفت، اخلاص پیشہ اور دین و ایمان کو عزیز ترین متاع سمجھنے والے لوگ ہی ہونے چاہئیں۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا خراج تحسین

ابو رجاء بصری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب میں مدینہ میں داخل ہوا تو میں نے لوگوں کا ایک جم غفیر دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک آدمی ایک دوسرے آدمی کا سرچوم رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ میں آپ پر قربان جائوں۔ اگر آپ نہ ہوتے تو ہم ہلاک ہوجاتے۔ میں نے پوچھا کہ یہ دونوں بزرگ کون ہیں؟

لوگوں نے بتایا کہ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا سر اس خوشی میں چوم رہے ہیں کہ مرتدین آپ ہی کی بدولت زیر نگیں ہوئے اور زکوٰۃ روک لینے کے بعد دوبارہ دینے پر مجبور ہوئے۔

ابورجاء ایک معتبر اور ثقہ راوی ہیں اور انہوں نے ان دونوں عظیم انسانوں کی محبت اور تعظیم کا جو آنکھوں دیکھا حال بیان کیا ہے وہ انوکھا نہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اسی بات کے سزاوار تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کی عظمت کا اعتراف اسی انداز میں کریں۔

3۔ سرحدوں کی حفاظت کیلئے اقدامات

فتنہ ارتداد ابھی ختم نہ ہونے پایا تھا کہ تاریخ اسلام میں ایک نئے مرحلے کا آغاز ہوگیا جو پہلے مرحلے سے بھی زیادہ اہم اور عظیم تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس مرحلہ سے بھی اسی عزم و ارادہ کے ساتھ عہدہ بر آ ہوئے جس عزم و ارادہ کے ساتھ ہر کام کو نبھانا آپ کا طبعی خاصہ تھا۔

پہلا مرحلہ تو اسلام کو اس کے اپنے گھر میں زندہ و باقی رکھنے کا تھا۔

دوسرا مرحلہ یہ تھا کہ اسلام کی سرحدوں کو محفوظ ومستحکم کردیا جائے تاکہ بیرونی حملوں کا اندیشہ باقی نہ رہے۔

ہم نے سرحدوں کی حفاظت کی تعبیر قصداً اختیار کی ہے اور اس لئے کی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جو فوجی دستے عراق و شام کی سرحدوں کی طرف روانہ فرمائے۔ وہ محض حفاظت کی غرض سے تھے، غلبہ و تسلط کے ارادے سے نہیں۔ آپ نے اپنی خارجہ پالیسی اسی پالیسی سے ہم آہنگ رکھی جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اختیار کررکھی تھی۔

اس پالیسی کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ جارحانہ نہ تھی بلکہ اس کی غرض و غایت صرف یہ تھی کہ دشمنوں کی جارحانہ کاروائیوں کی مدافعت کی جائے۔ قافلوں کی گذرگاہوں میں امن و امان برقرار رکھا جائے اور دلیل و برہان سے باحسن طریق دین کی ترویج و اشاعت کے لئے راستہ ہموار کیا جائے اور اگر امن پسندانہ تبلیغ کی راہ میں کوئی ظالم و جابر طاقت روڑے اٹکائے تو اس کی ذمہ داری خود اس پر ہو۔

جس طرح غزوہ تبوک میں اسلامی لشکر کو جب یہ یقین ہوگیا کہ رومی واپس چلے گئے اور اب وہ اس سال جنگ نہیں کرسکتے تو اسلامی لشکر خود بھی واپس لوٹ آیا اور ان پر چڑھائی نہ کی۔ اس غزوہ کا پس منظر یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ اطلاع پہنچی کہ رومی فوجیں عربی سرحدوں پر جمع ہوکر حملے کی تیاری کررہی ہیں۔ یہ خبر ملتے ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اپنی فوج ترتیب دی اور مقابلے کے لئے پیش قدمی فرماتے ہوئے مقام تبوک تک پہنچ گئے۔ وہاں پہنچ کر یہ معلوم ہوا کہ رومیوں نے جنگ کا ارادہ اب ترک کردیا ہے۔ چنانچہ اسلامی فوج بھی باوجود طول طویل سفر کی مشقتیں برداشت کرنے اور زبردست مالی اخراجات کا بار اٹھانے کے مقام تبوک ہی سے واپس چلی آئی۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے منصب خلافت سنبھالتے ہی بلاتاخیر جیش اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی کا انتظام کیا تاکہ ان قبائل کو قابو میں رکھا جائے جنہوں نے حجاز و شام کی گذر گاہوں میں لوٹ مار اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کررکھا تھا۔ اور اس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ ان کے دلوں پر اسلام کی ہیبت و دبدبہ کا سکہ جم جائے۔ اس لشکر کی حیثیت موجودہ دور کی اصطلاح کے مطابق تادیبی مہم یا کارروائی کی سی تھی۔ چنانچہ اس نے اپنے اس دائرے سے ایک انچ بھی تجاوز نہ کیا اور بعض مؤرخین کے بیان کے مطابق چالیس دن میں اور بعض دوسرے مؤرخین کی روایت کے مطابق ستر دن کے اندر اندر اپنا کام ختم کرکے مدینہ منورہ واپس آگیا۔

ایران کی سرحدوں پر جو لڑائیاں بحرین وغیرہ کے علاقہ میں ہوئیں وہ فتنہ ارتداد کے جنگی سلسلہ کی ایک کڑی تھیں۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جو قبائل ایران کے زیر تسلط تھے، مسلمانوں کے علاقوں میں گھس آیا کرتے اور قتل و غارت کا بازار گرم کرنے کے بعد واپس چلے جاتے۔ مسلمان ان کی مدافعت کرتے، ان سے بدلہ لیتے اور ان کی سرحدوں تک ان کا پیچھا کرتے۔

یوں آغاز ہوا اس جنگ کا جو عرب مسلمانوں اور ایرانیوں اور ان کے زیر اثر بحرین و سواد کے قبائل کے مابین ہوئی اور اس کا اختتام عرب و ایران کی مشہور عالم جنگ پر ہوا۔

ایرانیوں کے چھاپہ مار دستوں کے مطالعہ سے ایک مؤرخ اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ حالات نے خلیفہ اوّل کو ایرانیوں سے جنگ کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ مگر اس کے باوجود آپ نے یہ بات فراموش نہ کی کہ ان علاقوں میں آباد قوموں کے ساتھ نرم سلوک کیا جائے۔ امراء اور رئوساء کے ساتھ صلح کا رویہ اختیار کیا جائے اور ان کو سلامتی اور اسلام کی دعوت دی جائے۔ اگر وہ اس دین کو قبول کرلیں تو نہ ان سے کوئی جنگ ہے اور نہ دشمنی بلکہ وہ دینی بھائی ہیں اور اگر تلوار لے کر سامنے آئیں تو ان کے جواب میں بھی تلوار ہے۔

اس طرح گویا خلیفہ اوّل کے حق میں یہ مقدر ہوچکا تھا کہ آپ کے ہاتھوں اسلام کی نوزائیدہ مملکت اپنی داخلہ اور خارجہ سیاست میںمستحکم و استوار ہوجائے آپ نے جو کچھ بھی کیا اس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پالیسی کی حرف بحرف پیروی کی۔ بعد میں آنے والوں نے جو کچھ کیا وہ اسی مبارک آغاز کی ارتقائی کڑی تھی۔

خدا کو یہ بھی منظور تھا کہ آپ اپنی رائے کے صحیح نتائج بچشم خود مشاہدہ کرلیں۔ یہ وہ شرف ہے جو عظیم الشان سلطنتوں کے بانیوں اور فاتحوں میں سے کم ہی کو نصیب ہوتا ہے۔ بالخصوص ان کو جو عمر رسیدہ ہوچکے ہوں۔ آپ نے اپنی رائے کا صائب ہونا ان واقعات میں بھی دیکھ لیا جو پایہ تکمیل کو پہنچ چکے تھے اور ان واقعات میں بھی جو ابھی تکمیلی مراحل طے کررہے تھے۔ آپ اس دار فانی سے رخصت ہوئے تو یہ یقین ساتھ لئے ہوئے کہ جس طرح جنگ ارتداد کامیابی سے ہمکنار ہوچکی ہے اسی طرح جنگ ایران بھی کامیابی ہی پر اختتام پذیر ہوگی۔ ان دونوں جنگوں میں اقدامی صلاحیت اور قوت ایمان دونوں چیزیں ابھری نظر آتی ہیں۔

سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی قوتِ ایمانی کا سرچشمہ

جو شخص حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مناقب ومحاسن صفحات تاریخ پر منتقل کررہا ہو اور آپ کی زندگی میں پیش آنے والے حالات کا تجزیہ کررہا ہو۔ اس کے ذہن میں یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ آپ کی اس ایمانی قوت کا منبع و سرچشمہ کیا تھا؟

آپ نے عرب کے سرکش اور باغی قبائل کو مطیع فرمان بنانے کے لئے فوجی دستے روانہ فرمائے۔ حالانکہ آپ کے پاس جو فوج تھی وہ باغی قبائل کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر تھی۔ آپ نے روم و ایران کی سرحدوں پر بھی فوجیں بھیجیں۔ حالانکہ آپ کے پاس عرب مسلمانوں کے علاوہ کوئی طاقت نہ تھی اور ان میں بھی وہ مسلمان مستثنیٰ تھے جنہوں نے ارتداد کے بعد دوبارہ اسلام قبول کیا۔ کیا یہ محض اتفاقی امر تھا؟ کیا یہ محض اندھا بہرا ایمان تھا جو فکر و تدبر سے خالی تھا؟ حالانکہ اسلام میں جہاں ایمان مطلوب ہے وہیں تدبر و تفکر بھی ناگزیر ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ قوتِ یقین سے معمور تو تھے ہی مگر اس کے ساتھ ساتھ کمال حکمت و تدبر بھی آپ کو فیض مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں میسر تھا۔

اس میں شک نہیں کہ یقین ہی وہ بڑا سرمایہ تھا جس کے سہارے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فتنہ ارتداد اور روم و ایران کی مہمات سرانجام دیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اسلام کے غلبہ کا اتنا ہی یقین تھا جتنا قوی اور مضبوط یقین کسی دل میں جاگزیں ہوسکتا ہے۔ قرآن کا ہر وعدہ آپ کی نگاہ میں عینی حقیقت سے بھی زیادہ قابل یقین تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے سنی ہوئی ہر پیشین گوئی آپ کی نگاہ میں محسوس حقیقت سے بھی زیادہ اونچا مقام رکھتی تھی۔ اسلام تمام ادیان پر غالب ہوگا یہ بات آپ کی نگاہ میں عینی اور چشم دید حقیقت تھی بلکہ اس سے بھی زیادہ قابل یقین۔ اس یقین کی بدولت آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں اٹھنے والے ہر فتنہ کا کماحقہ سدِّباب کیا۔

٭ مصر کے نامور مصنف مرحوم عباس محمود العقاد کی تصنیف ’’عبقریت الصدیق‘‘ سے ماخوذ