یہ انقلابی قافلہ رکا نہیں تھما نہیں

٭ یہ بات تو اب پرانی ہوچکی ہے کہ پاکستان کی اساس ریاست مدینہ کے تصور پر قائم ہے۔ بانیان پاکستان نے اس ریاست کو یہاں کے مسلمانوں کے لئے پرامن، خوشحال ملک کے طور پر دیکھا تھا جہاں مذہبی عبادات و اقدار کو صحیح روح کے ساتھ پروان چڑھانے کا ماحول ہو۔ خصوصاً اسلام کے نظام معاشرت و معیشت سے حقیقی معنوں میں استفادہ کیا جاسکے۔ یہی وجہ تھی کہ اس اسلامی ریاست کے قیام کی تحریک میں اہل اسلام نے عبادت سمجھ کر دن رات کام کیا، تاریخ کی ایک بڑی ہجرت عمل میں آئی اور لاکھوں مسلمان مرد، عورتیں، بوڑھے اور بچے اسلام دشمنی کی بھینٹ چڑھے۔ اسلام کی خاطر لوگوں نے اپنے ہنستے بستے گھر چھوڑ کر ارضِ پاک کی طرف ہجرت کی اور ان مہاجرین میں سے بھی بہت سے لوگ دشمنوں کی گولیوں، نیزوں اور کرپانوں سے اللہ کو پیارے ہوئے۔ آگ اور خون کے دریا عبور کرکے لوگ اس لئے اس اجڑے دیار میں آبسے تھے کہ یہاں اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب مکرمA کے دین کی بہاریں ہوں گی، علم و عمل کی پاکیزہ فضائیں ہوں گی اور تقویٰ و طہارت کا روحانی ماحول بے خانماں برباد قافلوں کو اپنے دامن عافیت میں سمیٹ لے گا۔ یہ ایک خواب تھا، ایک حسرت تھی اور ایک آرزو تھی جس کی تکمیل ابھی ہونا تھی مگر۔۔۔ انسانوں کی اس بستی میں بہت سے فرشتہ سیرت لوگوں کے ہمراہ کچھ بھیڑیئے بھی موجود تھے جنہوں نے ان لٹے پٹے قافلوں کو مزید لوٹا۔ برسوں سے بنے ہوئے خواب و خیال کے تارپور بکھیردیئے اور موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے مال و دولت اور جائیدادیں سمیٹنا شروع کردیں۔ یہی موقع تھا جب جاگیردار اور وڈیروں نے بانی جماعت مسلم لیگ پر قبضہ کیا اور نوزائدہ پاکستان کی تقدیر پر مسلط ہوگئے۔ گویا منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔

٭ ان قبضہ گروپوں کی نفسیات اور لوٹ مار سے قائداعظم کسی قدر آگاہ تھے مگر قدرت نے انہیں نئے پاکستان کی خدمت اور تعمیر کے لئے مہلتِ عمل ہی نہ دی۔ پیدائش کے ایک سال بعد ہی یہ ملک شفقتِ پدری سے محروم ہوا۔۔۔ اور پھر لٹیروں کے ہتھے چڑھ کر اپنی اساس اور شناخت سے محروم بھی ہوا اور ترقی کی منزل سے کوسوں دور چلا گیا۔ پھر سیاسی طالع آزما اور عسکری ڈکٹیٹروں کی ایک طویل کہانی ہے جو ہماری قومی تاریخ کا تلخ ترین باب ہے۔ خوابیں دیکھنے والوں کی دو تین نسلیں بھی رزقِ خاک ہوگئی ہیں۔ اب محرومیوں، مایوسیوں اور تلخیوں کا دورِ اضطراب ہے۔ جس قوم کی تاریخ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جیسے حکمران گزرے ہوں جو اینٹ پر سر رکھ کر مٹی پر سوجاتے تھے، راتوں کو گلیوں میں بھیس بدل کر ضرورت مندوں کے دروازوں پر دستک دیتے اور فرماتے اگر فرات کے کنارے کوئی بکری کا بچہ اور جانور بھی بھوکا رہے گا تو عمر رضی اللہ عنہ اس کی بھوک کا ذمہ دار ہوگا۔ آج اسی نظریاتی مملکت کے مسلمان حکمران۔۔۔ اس وطن عزیز کی لوٹ مار میں شریک ہوچکے ہیں۔ پاکستان ایک ایسے زخمی جانور کی طرح بے بس ملک بن چکا ہے جس کی بوٹیاں اپنے بھی نوچ رہے ہیں اور غیر بھی۔

1971ء میں یہ دو لخت بھی ہو چکا ہے اور بقیہ ماندہ حصے میں صوبائیت، لسانیت، مذہب اور مسلک کے تعصبات سر اٹھا چکے ہیں۔ کرپشن اور چوری نے ہر شعبہ زندگی اور قومی ادارے کو دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے۔ اس خطے کی آبادی بڑھ رہی ہے اور وسائل کم ہو رہے ہیں۔ مسائل کی بھیڑ میں چھینا جھپٹی کا ماحول ہے۔ ایسے میں طاقتور لوگ ہی کامیاب ہواکرتے ہیں اور اس وقت ان لمبے ہاتھ پاؤں والے لوگوں میں سب سے آگے وہ حکمران طبقات ہیں جو گذشتہ 60 سالوں سے باری باری حکومتی ایوانوں میں آتے رہے، تجوریاں بھرتے رہے اور اور اس ملکی دولت کو ملک سے باہر منتقل کرتے رہے۔ اس وقت ملک دیوالیہ ہو چکا ہے قوم پر قرضوں کے بوجھ لاد دیئے گئے ہیں اور ان لٹیرے حکمرانوں کے محلات، جائیدادیں اور فیکٹریاں ملک سے باہر منتقل ہوچکی ہیں۔ عوام سسکتے، بلکتے اور چیختے ہوئے بھوک، پیاس، بیماری، ڈپریشن اور بالآخر خودکشیوں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

٭ یہ تھا وہ منظر جس کو بدلنے کی قسم کھاکر تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک نے اپنے عظیم قائد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قیادت میں تبدیلی کا عزم کرتے ہوئے انقلاب کا رختِ سفر باندھا۔ اس عالمگیر، پرامن اور علم و اخوت جیسی خصوصیات کی حامل تحریک کے جانثار کارکنان نے حالیہ مہینوں میں جرات، عزیمت، تحمل، برداشت، صبر اور قربانی کی ایسی مثالیں قائم کی ہیں جن کا وجود عصرِ حاضر کی کسی تحریک، کسی تنظیم اور کسی مذہبی و سیاسی پارٹی کے ہاں ملنا مشکل ہے۔ گذشتہ سال بھی تحریک کے جانثار کارکنان نے تبدیلی کا نعرہ بلند کرتے ہوئے پورے ملک میں بیدارئ شعور کی ایک لہر پیدا کی۔ چنانچہ 23 دسمبر 2012ء مینار پاکستان کا منظر ایک عدیم النظیر منظر تھا جس میں پورے ملک سے عوام شریک ہوئے۔ اسی اجتماع میں قائد تحریک نے پہلی بار پاکستانی قوم کو آئین اور دستور سے آگاہ کیا اور باور کرایا کہ ہمارے ملک کے حکمران اس آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوکر حکومت کے ایوانوں میں براجمان ہوتے ہیں۔ چنانچہ 13 سے 17 جنوری 2013ء تک کی یخ بستہ راتوں اور بارش میں بھیگے ہوئے دنوں میں وابستگان تحریک کے عزم و حوصلے سے ایک جہاں متاثر ہوا۔ اس مارچ کے اختتام پر حکومت وقت سے جو معاہدہ ہوا اس میں موجودہ نظام انتخاب میں اصلاحات اور غیر آئینی الیکشن کمیشن کی تبدیلی کا وعدہ سرفہرست تھا۔

٭ کرپٹ نظام انتخاب ہی چونکہ سارے بدترین نظام کی خرابیوں کی جڑ ہے اور غیر آئینی الیکشن کمیشن کی تبدیلی ہی سے اس نظام میں تبدیلی کا آغاز ہوسکتا تھا۔ لہذا قائد تحریک اس معاملے کو لے کر اعلیٰ عدلیہ میں چلے گئے۔ اس وقت کے چیف جسٹس نے انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر ملک کے اس سب سے سنگین مسئلے پر تاریخی کردار ادا کرنے کی بجائے ایک سیاسی پارٹی کے وفادار کارکن کی طرح نہ صرف کیس خارج کر دیا بلکہ ان لاکھوں پاکستانیوں کے جذبات مجروح کئے جو دن رات ایک کرکے زر مبادلہ پاکستان کو بھیجتے ہیں۔ حسب پروگرام اگلا الیکشن آیا، تحریک کی جہاں دیدہ قیادت نے پورے وثوق سے انتخابات کا بائیکاٹ کیا اور الیکشن ڈے کو یوم احتجاج کے طور پر منایا۔ عمران خان جو تبدیلی کا نعرہ لے کر ہی میدان سیاست میں آئے ہیں انہوں نے الیکشن میں بھرپور حصہ لیا مگر بے پناہ دھاندلیوں کے سبب انہیں صرف ایک صوبے کی حکومت دیگر جماعتوں کے اشتراک سے حاصل ہوسکی۔ انہوں نے عدالت کے ذریعے دھاندلی بے نقاب کرنے کی کوشش کی مگر بے سود ثابت ہوئی۔ ان تلخ تجربات کے بعد انہوں نے اسمبلی کے فلور پر واشگاف الفاظ میں اعتراف کیا کہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا موقف بالکل درست ثابت ہوگیا ہے۔ وہ دن اور آج کا دن ہے تحریک انصاف بھی پاکستان عوامی تحریک کے شانہ بشانہ احتجاج میں مصروف ہے۔

٭ 14 اگست کے انقلاب مارچ سے قبل جو واقعات رونما ہوئے انہیں ہمارے ملک کی تاریخ کے بدترین حکومتی ہتھکنڈے کہنا بے جا نہیں ہوگا۔ 17 جون کو 10 گھنٹے کی مسلسل جارحیت اور پولیس گردی کے ہاتھوں تحریک کے 14 مردو خواتین کی قربانیاں، 100 کے قریب شدید زخمی لوگوں نے اپنا خون دے کر تحریک اور مشن سے وفاداری کا ثبوت دیا۔ 23 جون کو قائد تحریک نے وطن واپس آنا تھا، ان کے طیارے کو اسلام آباد اترنے ہی نہ دیا گیا اور اس کا رخ لاہور کی طرف موڑ دیا۔ اس دن بھی پنجاب پولیس نے کارکنان پر بے پناہ ظلم کیا، قیدو بند تک نوبت پہنچی۔ پھر جب قائد تحریک نے جب 10 اگست کو یوم شہداء منانے کا اعلان کیا تو پورے ملک میں کارکنان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیئے گئے۔ بعض مقامات پر پرامن کارکنان اور پولیس کے درمیان تصادم بھی ہوئے جن میں کئی لوگ شہید ہوگئے، سینکڑوں زخمی ہوئے اور ہزاروں کو قیدو بند کی صعوبتوں سے گزارا گیا۔ اس دوران تحریک کا مرکزی سیکرٹریٹ اور اس کے اردگرد کی پوری بستی (ماڈل ٹاؤن، فیصل ٹاؤن) غزہ کا نقشہ پیش کر رہی تھی۔ نہ صرف پورے شہر لاہور کو بلکہ پنجاب بھر کو بھی میدان کارزار بنا دیا گیا تاکہ تحریک کے کارکنان مرکز پر جمع نہ ہو سکیں مگر چشم فلک نے دیکھا کہ ہزاروں مرد و خواتین اور نوجوان جان پر کھیل کر مرکز میں آئے۔ شدید گرمی میں بھوک، پیاس برداشت کی۔ بے آرامی، بے گھری میں حبس کے موسم میں حکومتی ہتھکنڈوں کے سامنے ڈھال بن کر فولادی عزم کے ساتھ ڈٹے رہے۔ یہ انہی جذبوں کی سچائی ہی تھی کہ 14 اگست دن کے وقت انقلاب مارچ ہزاروں پولیس کے مسلح دستوں کی رکاوٹوں کو توڑ کر ماڈل ٹاؤن سے نکل کر اسلام آباد کی طرف روانہ ہوا۔

اس تاریخی مارچ کے طویل ترین دورانیے میں بارشیں بھی ہوتی رہیں، سورج آگ بھی برساتا رہا کارکنان بھوک و پیاس سے نڈھال بھی ہوتے رہے۔ ایک طرف یہ قدرتی آزمائشیں اور دوسری طرف حکومتی جبرو بربریت ، گولیاں، شیلنگ، گرفتاریاں، مقدمے، کریک ڈاؤنز۔۔۔ خوف کی جن فضاؤں میں ایک لمحہ گزارنا مشکل ہوتا ہے وہاں ان انقلابیوں نے پورے 70 دن گزارے۔ معاشرتی اور معاشی سطح پر انہیں حد درجہ مشکلات در پیش آئیں۔ مگر انقلابی جوانوں نے اپنے قائد کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس دوران جہاں کارکنان نے صبر و تحمل اور جرات کا مظاہرہ کیا وہاں قائد تحریک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی بے مثال استقامت، صبر اور جرات رندانہ بھی پوری دنیا نے ملاحظہ کی۔ خرابی صحت کے باوجود انہوں نے چھوٹے سے کنٹینر میں شدید موسمی اثرات کے باوجود صبر و استقامت کے جذبات سے معمور ہو کر احتجاج کیا اور احتجاج میں شامل ہزاروں خواتین و حضرات کا مسلسل ساتھ دیا۔ یہ ایک تاریخ ہے۔۔۔ عزم و ہمت اور حوصلہ مندیوں کی تاریخ۔۔۔

موجودہ حالات میں 70 روزہ تاریخی دھرنا پاکستان کی سیاسی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے۔ ان دھرنوں کی کوکھ سے بآسانی نئی پاکستانی سیاسی سوچ ابھرتی دیکھی جاسکتی ہے۔ بے باک، نڈر، جرات مند سیاسی فضا قائم ہو رہی ہے۔ جن لوگوں کو ممبران پارلیمنٹ نے گھس بیٹھئے، سیاسی یتیم اور خانہ بدوش کہا انہوں نے اپنے صبرو تحمل، عزم و ہمت، بے لوث استقامت اور جرات سے پورے ملک میں حق و انصاف کے لئے آواز اٹھانے اور ظالم کے سامنے ثابت قدم رہ کر عوام کو اپنا حق طلب کرنے کا حوصلہ دیا ہے۔ جمہوریت کا حقیقی تصور لوگوں کے ذہنوں میں جاگزیں ہوا ہے۔ ہوس پرستی اور قومی خدمت کے درمیان حد فاصل کھینچ دی گئی ہے۔

اب دھرنا تو ختم ہو چکا ہے مگر تبدیلی کا مشن جاری و ساری ہے۔ قائد انقلاب نے دھرنے کو پورے ملک میں پھیلا کر جس حکمت عملی کا مظاہرہ کیا اس کے دور رس نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ فیصل آباد، لاہور، ایبٹ آباد، ہری پور اور بھکر کے بے مثال اجتماعات میں لوگوں کا ہجوم اس حکمت عملی پر اظہار توثیق ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں انقلاب مارچ اور دھرنوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا انہیں اپنی آنکھیں کھول کر ملک کے طول و عرض میں ہونے والے بڑے بڑے عوامی اجتماعات کو غور سے دیکھنا چاہئے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لاہور سے اسلام آباد جانے والے لانگ مارچ اور پھر اسلام آباد کی شاہراہ دستور اور ڈی چوک پر ہونے والے حکومت مخالف انقلابی خطابات نے آسمان سیاست پر گھنگھور گھٹا بادلوں کی شکل اختیار کرلی ہے اور یہ بڑے بڑے عوامی اجتماعات انہی گھٹاؤں سے برسنے والی موسلا دھار بارش ہے۔ عوامی تحریک نے پورے پاکستان میں جس طرح حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے حکومت مخالف فضا قائم کر دی ہے اور عوام کے حقیقی مسائل کو اپنے منشور اور انتخابی دستور کا حصہ بناکر لوگوں کو متوجہ کرنا شروع کردیا ہے۔ موجودہ مایوسی اور ناامیدی کی فضاؤں میں قائد انقلاب امید اور تبدیلی کی علامت بن چکے ہیں۔ اب قائد انقلاب اور ان کے تربیت یافتہ بے لوث اور محب وطن ورکرز کی طاقت کو آئندہ پاکستان کی سیاسی و انتخابی جدوجہد میں کوئی بھی نظر انداز نہیں کرسکتا۔ انقلابی تحریکیں ایک سال یا کئی مہینے جاری رہ کر منزل حاصل نہیں کرپاتیں بلکہ ملک گیر تبدیلی کے لئے سالہا سال کی مسلسل جدوجہد اور کاوش کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہذا تبدیلی، انقلاب اور خوشحال پاکستان کے لئے جدوجہد کا قافلہ تھما نہیں، رواں دواں ہے اور اس وقت تک رواں دواں رہے گا جب تک منزل مل نہیں جاتی۔

کارکنان تحریک کی عظمت کو سلام

پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر شخص جب شعور کی آنکھ کھولتا ہے تو اسے دو منظر بڑے بھیانک اور ڈراؤنے دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں سے پہلا منظر اس کے اردگرد پھیلے ہوئے سماجی رویوں، معاشرتی ناہمواریوں اور معاشی تضادات سے عبارت ہے جبکہ دوسرا منظر اس سے تھوڑا سا مختلف ہے جہاں اسے بین الاقوامی تضادات ظلم اور ناانصافی کی گرد اڑتی دکھائی دیتی ہے اور یہ منظر ہے عالم اسلام کا۔ مملکت خداداد پاکستان کے پُر جوش تحریکی پسِ منظر اور گذشتہ 67 سالہ تاریخ کے مایوس کن منظر میں اتنا ہی فرق ہے جتنا دن اور رات میں۔ ابھی وہ نسل زندہ ہے اور اپنی خوابوں کی تعبیر کا انتظار کرتے کرتے بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ چکی ہے جس نے اپنے بچپن اور جوانی میں پاکستان بنانے والوں کی قربانیاں اپنی آنکھوں سے دیکھیں، آبلہ پا سرحدیں عبور کر کے پاک سرزمین پر سجدے کئے، اپنے گھر بار رشتہ دار اور کاروبار سب کچھ چھوڑ کر اس نظریاتی ملک کے دامن میں پناہ لی۔ صرف اس امید پر کہ یہاں اسلامی نظام معاشرت و معیشت اور نظام عدل کی حکمرانی ہوگی۔ ہم نہ سہی ہماری نسلیں اس میٹھے پھل سے مستفیض ہوپائیں گی۔۔۔ مگر آج جب وہی بوڑھے اپنے عزیزوں کو اس لاقانونیت اور غنڈہ گردی کی بھینٹ چڑھتا دیکھتے ہیں، انہیں بچوں کی بنیادی ضرورتوں کو ترسنے والے ماں باپ آئے روز خودکشیاں کرکے زندگی کے بوجھ سے چھٹکارہ حاصل کرتے نظر آتے ہیں، وہ عزتیں لٹتی اور پگڑیاں اچھلتی دیکھتے ہیں تو ان کے دل و دماغ میں بجلیاں کوندتی ہیں۔ وہ قدرت سے شکوہ کناں ہوتے ہیں لیکن بے بسی اور بے کسی کی تصویر یہ لوگ جگر کا خون پینے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔

کارکنان تحریک بھی اس نظریاتی ملک میں دینداری اور خوشحالی کے خواب دیکھتے ہیں لیکن وہ تلخئ حیات کے گھونٹ بھرتے بھرتے خاموش نہیں ہو جاتے۔ ان کے سامنے بھی تضادات اور معاشی تفاوت پر مبنی مشکلات کی بلند و بالا دیواریں کھڑی ہیں مگر وہ حالات سے سمجھوتا کرنے کی بجائے سماج کی ان بلند و بالا آہنی دیواروں کو گرانے کا عزم لیکر قائد انقلاب کے شانہ بشانہ جرات و استقامت کا پہاڑ بنے کھڑے ہیں۔ ظلم اور فرسودہ روایات و رسوم کے خلاف آوازِ حق بلند کرنے پر انہیںہر طرح کی ریاستی جبرو بربریت کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر یہ مردان حر راہ عزیمت پر کاربند رہتے ہیں۔ قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی محبت و قربت نے ان کارکنان کو مصطفوی انقلاب کی درست سمت عطا کردی ہے۔ اسی سمت چلتے ہوئے راہ حق کے یہ مسافرپوری قوم کے لئے ایک نمونہ، معیار اور فخر بن چکے ہیں۔ ظلم کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ظالم سماج سے ٹکرا کربظاہر زندگی اور اس کی آسائشات سے محروم کئے جا رہے ہیں لیکن ان کے جذبوں کی صداقت انہیںدائمی خوشیاں فراہم کر رہی ہے کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ ان کی ان قربانیوں سے لاکھوں مردہ دلوں کوز ندگی ملے گی۔۔۔ کمزور کو طاقت ملے گی۔۔۔ مظلوم، ظلم سے نجات پائے گا ۔۔۔ محروم کو اس کا حق ملے گا۔۔۔ پس اپنی جدوجہد کے اسی نتیجہ کا یقین انہیں ہر قربانی دینے کے لئے ہمہ وقت تیار رکھتا ہے۔ کوئی بھی راستہ ہو۔۔۔ انقلابی جدوجہد یا انتخابی معرکہ۔۔۔ یہ منزل انقلاب کی جانب اسی جوش و جذبے سے گامزن رہیں گے۔

تیز ترک گامزن منزل مادور نیست!