القرآن: سیاسی انقلاب کی ناگزیریت

قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَo

(النور:55)

’’اللہ نے ایسے لوگوں سے وعدہ فرمایا ہے (جس کا ایفا اور تعمیل اُمت پر لازم ہے) جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہ ضرور انہی کو زمین میں خلافت (یعنی اَمانتِ اِقتدار کا حق) عطا فرمائے گا جیسا کہ اس نے ان لوگوں کو (حقِ) حکومت بخشا تھا جو ان سے پہلے تھے اور ان کے لیے ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لیے پسند فرمایا ہے (غلبہ و اقتدار کے ذریعہ) مضبوط و مستحکم فرما دے گا اور وہ ضرور (اس تمکّن کے باعث) ان کے پچھلے خوف کو (جو ان کی سیاسی، معاشی اور سماجی کمزوری کی وجہ سے تھا) ان کے لیے امن و حفاظت کی حالت سے بدل دے گا، وہ (بے خوف ہو کر) میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے (یعنی صرف میرے حکم اور نظام کے تابع رہیں گے)، اور جس نے اس کے بعد ناشکری (یعنی میرے احکام سے انحراف و انکار) کو اختیار کیا تو وہی لوگ فاسق (و نافرمان) ہوں گے‘‘۔

انقلاب کے مقاصد میں سب سے بنیادی چیز سیاسی غلبہ ہے کیونکہ اسکے بغیر معاشی استحکام پیدا نہیں ہوسکتا لہذا معاشی استحکام کے حصول کے لئے سیاسی غلبہ کا ہونا ضروری ہے۔ سیاسی غلبے کے نتیجے میں معاشی استحکام پیدا ہوتا ہے اور جب یہ دونوں چیزیں حاصل ہوجائیں تب سماجی تحفظ وجود میں آتا ہے۔ اہل حق کو غلبہ حاصل نہ ہو تو وہاں مذہبی تمکن کا حصول ناممکن ہے۔

باطل کے اقتدار میں تقویٰ کی آرزو
ہے کیا حسیں فریب جو کھائے ہوئے ہیں ہم

یہی وجہ ہے کہ اسلام نے انقلاب بپا کرنے کے لئے اس کے مختلف مراحل میں فطری ترتیب کو برقرار رکھا ہے۔ چنانچہ مذکورہ آیت میں سب سے پہلے سیاسی غلبہ (Political Power) کا ذکر فرمایا اور پھر معاشی استحکام (Eco. Stability) کو بیان کیا۔ اس چیز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

کاد الفقر ان يکون کفرا.

’’ممکن ہے کہ (اضطراری) فقر و افلاس کفر کی حد تک پہنچادے‘‘۔

مذکورہ بالا آیت کے اندر بیان کردہ حقیقت سے یہ بات مترشح ہورہی ہے کہ جب تک اسلامی زندگی کے راستے میں موجود رکاوٹوں اور موانعات کو دور نہ کیا جائے اس وقت تک معاشرے میں اسلام آہی نہیں سکتا۔ اب اگر یہ رکاوٹیں دور ہوجائیں اور سماجی تحفظ نصیب ہوجائے تو پھر اسلامی زندگی اختیار نہ کرنے والا شخص معافی کے قابل نہ ہوگا۔ اس لیے آیت کے آخر میں فرمایا گیا:

وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰـئِکَ هُمُ الْفٰـسِقُوْنَ.

’’اور جس نے اس کے بعد ناشکری (یعنی میرے احکام سے انحراف و انکار) کو اختیار کیا تو وہی لوگ فاسق (و نافرمان) ہوں گے‘‘۔

اس آیت میں ذالک کے الفاظ قابل غور ہیں یعنی ان مذکورہ تقاضوں کے پورا کرنے کے بعد بھی اگر کوئی شخص ناشکری کرے گا اور اسلامی زندگی کو اختیار نہ کرے گا تو پھر وہ فاسق ہوگا۔

سابقہ آیات سے یہ امر پایہ ثبوت کو پہنچ جاتا ہے کہ مصطفوی انقلاب کا بنیادی مقصد اقامت دین یعنی ادیان عالم اور نظام ہائے باطل پر دین حق کا سیاسی غلبہ ہے جس کے نتیجے میں معاشی استحکام اور سماجی تحفظ ملتا ہے اور معاشی استحکام و سماجی تحفظ کی بنیادوں پر تعمیر ہونے والے معاشرے میں جب دینی تمکن اور مذہبی احکامات کی تنفیذ ہوگی تو وہ دیرپا اور اثر انگیز ہوگا بصورت دیگر سیاسی و سماجی اور معاشی انقلاب بپا کئے بغیر کوئی مذہبی انقلاب دیرپا نہیں ہوسکتا۔

قومی زندگی میں انقلاب کا لائحہ عمل

قومی زندگی ہمیشہ تین بنیادی شعبوں میں منقسم ہوتی ہے۔

  1. سیاسی شعبہ زندگی
  2. معاشی شعبہ زندگی
  3. معاشرتی شعبہ زندگی

اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ قومی زندگی اجتماعی زندگی کے ان تین شعبوں کے باہمی ربط و تعلق سے وجود میں آتی ہے۔ لہذا قومی سطح کا نصب العین حاصل کرنے کے لئے جو لائحہ عمل مطلوب ہے۔ وہ بھی ان تین ہی پہلوؤں پر مشتمل ہوگا۔

  • لائحہ عمل کا سیاسی پہلو
  • لائحہ عمل کا معاشی پہلو
  • لائحہ عمل کا معاشرتی پہلو

انقلاب کے ذریعے ایک صالح اور فلاحی معاشرے کا قیام مقصود ہے۔ لہذا اس کا لائحہ عمل سیاسی ظلم اور جبر و استبداد کے خاتمے سے، معاشی ناانصافی اور استحصال کے خاتمے اور معاشرتی ناہمواری اور عدم استحکام کے خاتمے سے عبارت ہے۔

جب تک سیاسی انقلاب کے ذریعے حقوق کی آزادی، معاشی انقلاب کے ذریعے تخلیقی جدوجہد کی بحالی اور سماجی انقلاب کے ذریعے عدل و انصاف اور مساوات کی فراوانی میسرنہ آئے، کسی بھی نظام کے نفاذ سے صالح اور مثالی معاشرہ وجود میں نہیں لایا جاسکتا۔ یہ وہ بنیادی لائحہ عمل ہے جس کی نشاندہی قرآن مجید نے کی ہے۔ اسے اپنائے بغیر قرآن و سنت کی تعلیم ہو یا فقہ و شریعت کے اوامر و نواہی کی تبلیغ، خطیبانہ وعظ و نصیحت ہو یا صوفیانہ ارشاد و تربیت، کسی طریق پر بھی معاشرہ صالحیت سے آراستہ نہیں کیا جاسکتا۔

اگر معاشرے کو سیاسی، معاشی اور سماجی انقلاب کے بغیر محض احکام الہٰیہ اور حدود شرعیہ کی تبلیغ اور نفاذ کے ذریعے صحیح معنوں میں اسلامی، مثالی، انقلابی معاشرہ بنایا جاسکتا تو سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی ہجرت نہ فرماتے بلکہ مکہ کی غیر مسلم سیاسی اور معاشی قیادت سے تعرض کئے بغیر اپنے پیروکاروں کو اسلام پر عمل پیرا ہونے کی تلقین فرماتے رہتے۔

حقیقت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہجرت مدینہ کا حکم اسی لئے دیا گیا تھا کہ باطل کے سیاسی و معاشی اقتدار میں اجتماعی صالحیت اور ملی سطح پر مطلوبہ انقلاب کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا تھا۔ مسلمانوں کی ناگفتہ بہ سیاسی، معاشی اور سماجی حالت کے پیش نظر یہ ناممکن تھا کہ وہ اپنے قومی نصب العین کو پاسکیں۔ ان حالات کے قائم رہتے ہوئے شریعت کے اوامر و نواہی کے نفاذ سے مطلوبہ نتائج پیدا نہیں ہوسکتے تھے۔ اس لئے ہجرت کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اولین توجہ مسلمانوں کے سیاسی اور معاشی استحکام کی طرف دی۔ میثاق مدینہ اور مواخات مدینہ کے ذریعے انہیں سیاسی اور معاشی طور پر آزاد اور مستحکم کردیا۔ ہر قسم کے ظلم و استبداد اور ناانصافی و استحصال کے امکانات ختم کردیئے۔ ہر ایک کی زندگی میں تخلیقی جدوجہد کو بحال کیا۔ ہر کسی کو جینے اور ہر لحاظ سے فروغ پانے کے یکساں مواقع مہیا کئے۔ ہر شخص کو بلاامتیاز باعزت سماجی زندگی بسر کرنے کے قابل بنایا، معاشرے کی اجتماعی زندگی سے محرکاتِ جرم و معصیت کا خاتمہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان بنیادی تبدیلیوں کے ساتھ شریعت کے اوامر و نواہی کو باقاعدہ طور پر رائج کیا۔ اسلامی حدود کے نفاذ کی طرف قدم بڑھایا اور ہر شخص کو غلبہ اسلام کی خاطر عظیم عالمی انقلاب کے لئے تیار کردیا۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تیرہ (13) سالہ مکی جدوجہد کے بعد ہجرت مدینہ کے فیصلے سے بعض ذہنوں کو یہ مغالطہ لاحق ہوسکتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ میں تیرہ سال تک پیغمبرانہ دعوت و تبلیغ کے بعد یہ محسوس کیا کہ یہاں مطلوبہ نتائج پیدا نہیں ہوسکتے۔ اس لئے یہاں سے ہجرت کر جانا چاہیے۔ گویا ہجرت کا فیصلہ تیرہ سالہ تجربہ کے نتیجے میں کیا گیا تھا۔ اس خیال سے یہ تصور پختہ ہوتا ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی جدوجہد بھی (معاذ اللہ) اقدام و خطا (Trial & Error) کے انداز میں تھی۔ یہ نقطہ نظر اس لئے غلط اور گمراہ کن ہے کہ اس سے اس ہدایت ربانی کی سرپرستی اور وحی الہی کی نفی ہوتی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی جدوجہد کے دوران بحیثیت پیغمبر حق ہر وقت حاصل تھی۔ اگر اس رہنمائی کے باوجود تیرہ سال کے تجربے نے اس نتیجے تک پہنچایا تھا تو پھر (معاذ اللہ) علم الہی اور پیغمبرانہ بصیرت دونوں عام انسانی علم کی طرح ناقص قرار پاتے ہیں۔

یہاں یہ امر ذہن نشین رہنا چاہیے کہ ہجرت مدینہ کا فیصلہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی رائے اور صوابدید سے نہیں بلکہ براہ راست حکم الہی سے کیا تھا۔ اس لئے اقدام و خطا کی ذمہ داری(معاذ اللہ) نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نہیں بلکہ خود باری تعالی کی ذات پر عائد ہوتی ہے اور ایسا تصور صریح کفر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تیرہ سالہ مکی جدوجہد عین منشائے ایزدی اور حکم الہی کے مطابق انقلاب محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پہلا مرحلہ تھا۔ اس مرحلے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کفر و طاغوت کے خلاف علم حق بلند کیا۔ دعوت و تبلیغ اسلام کا آغاز کیا تو نتیجۃً سخت مخالفت و مزاحمت پیدا ہوگئی۔ جو لوگ مخالفت و مزاحمت کے اس شدید ترین ماحول میں ایمان لائے۔ ان پر مشتمل انقلابی جماعت تیار کی گئی۔ اس انقلابی جماعت کی صحیح تربیت کے لئے اس قدر مخالف اور مزاحم ماحول سے بہتر کوئی اور ماحول نہیں ہوسکتا تھا۔ جتنی سختی کفار و مشرکین کے رویے اور رد عمل میں تھی۔ اس سے کہیں زیادہ مضبوطی اور استحکام ان انقلابی اور جاں نثار صحابہ کی سیرتوں میں پیدا کرنا مقصود تھا۔ ورنہ ان کا وجود بھی باقی نہ رہ سکتا۔ اگر اس جاں گسل اور اذیت انگیز مکی ماحول میں رہ کر جماعت صحابہ طرح طرح کے مصائب و آلام برداشت نہ کرتی تو یہ عظیم عالمی انقلاب کے دشوار گزار راستوں پر عزم و ہمت کے ساتھ قائم و دائم رہنے کے قابل نہ ہوتی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس معاشرے کو اولاً انقلاب کے ذریعے بدلنا تھا اسی میں رہ کر اپنے جاں نثار رفقاء کا گروہ تیار کیا اور جب یہ محسوس فرمایا کہ اب اتنی جماعت تیار ہو چکی ہے جس کے ذریعے ایک مثالی معاشرہ تشکیل دے کر غلبہ حق کے لئے عالمی انقلاب کا آغاز کیا جاسکتا ہے تو حکم الہی سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اور وہاں پہنچتے ہی اسلامی ریاست کا سنگ بنیاد رکھا۔ انقلاب کے جملہ تقاضوں کو پورا کیا اور بالآخر حق کے غلبہ کے لئے عملی کاوشوں کا آغاز کر دیا۔

لہذا مکی دور افراد کی انقلابی تربیت کا دور تھا اور مدنی دور انقلاب کے باقاعدہ آغاز کا جس کے پہلے مرحلے کی تکمیل ’’فتح مکہ‘‘ کی صورت میں ہوئی اور دوسرے مرحلے کا آغاز اس کے بعد ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ بے لوث اور جاں نثار رفقاء پر مشتمل مضبوط انقلابی جماعت کی تشکیل ہی زیادہ دیر طلب اور محنت طلب کام ہے۔ جس کے بعد دیگر مراحل آسان ہوتے چلے جاتے ہیں۔

اقامت دین کی جدوجہد کے دو پہلو

مذکورہ بالا بحث سے یہ امر مترشح ہوتا ہے کہ دین حق کی جدوجہد کے دو پہلو ہیں ایک کا تعلق اس کے غلبہ و استعلاء سے ہے جس کی رہنمائی براہ راست قرآن و سنت سے میسر آتی ہے۔ یہ ہدایت کسی اور دینی علم یا فن سے اخذ نہیں کی جاسکتی۔ جب کہ معمول بہ دین جو شریعت، طریقت اور عقائد و مسالک کے بنیادی شعبوں میں منقسم ہے کے فہم کے لئے ان متعدد علوم و فنون کا مطالعہ ضروری ہے۔ جن کی تعلیم مدارس و مکاتب میں دی جاتی ہے۔

لہذا کسی معاشرے میں قومی سطح پر یا عالمی سطح پر براہ راست قرآن و سنت کی رہنمائی میں دین حق کے سیاسی غلبے کی بحالی کے لئے انقلابی جدوجہد کا نام معیاری دین ہے۔ جب کہ شریعت، طریقت اور عقائد پر مشتمل مذہبی تعلیمات کا نام معمول بہ دین ہے۔ معمول بہ دین یعنی شرعی احکام کا نفاذ، تعلیمات طریقت و تصوف کا فروغ اور عقائد اسلامیہ کا پرچار معاشرے میں تب ہی مطلوبہ نتائج پیدا کرسکتا ہے اگر معیاری دین یعنی دین حق کا سیاسی غلبہ و استحکام صحیح طور بحال ہو۔

عقائد انسانی زندگی کی فکری و نظریاتی اقدار کی اصلاح سے بحث کرتے ہیں۔ جب کہ شریعت و طریقت انسانی زندگی کی ظاہری و باطنی، عملی اقدار کی اصلاح سے۔ الغرض معمول بہ دین کا وظیفہ حیات انسانی کی فکری و عملی اقدار اور اخلاقی و روحانی فضائل کی حفاظت، اصلاح اور فروغ ہے۔ لیکن اس حقیقت سے صرف نظر نہیںکیا جاسکتا کہ انسانی زندگی کے فضائل اور اقدارکی حفاظت تبھی ممکن ہے کہ وہ زندگی میں فی الواقع موجود ہوں۔ اگر باطل قوتوں کے اثر و نفوذ کے باعث حیات انسانی کے فضائل رذائل میں بدل چکے ہوں اور اخلاقی اقدار مٹ کر سرے سے ختم ہو چکی ہوں تو انہیں فقہ و شریعت کی تعلیم سے دوبارہ زندہ نہیں کیا جاسکتا۔ قانون شریعت کا وظیفہ اقدار کا تحفظ ہے، احیاء نہیں۔ جب زندگی کے محرکات بدل جائیں۔ احوال زمانہ میں تغیر، فضائل کی جگہ رذائل اور روحانیت کی جگہ مادیت نے لے لی ہو اور زندگی کے تقاضے قانون و شریعت کی اطاعت کے بجائے ان کی خلاف ورزی اور انحراف سے پورے ہو رہے ہوں تو اندریں صورت نہ احکام شرعی کے محض نفاذ سے زندگی میں انقلاب بپا ہو سکتا ہے اور نہ احکام فقہی میں اجتہاد سے۔ کیونکہ فقہ و شریعت کا کام زندگی میں موجود اقدار کی حفاظت ہے، مٹی ہوئی اقدار کی بحالی نہیں۔

جب معاشرے کی حالت اس حد تک بگڑ جائے کہ فضائل حیات ہی سرے سے مٹ کر ختم ہو چکے ہوں۔ تو ان کا احیاء معمول بہ دین کے نفاذ سے نہیں بلکہ صرف معیاری دین کی بحالی سے ہوسکتا ہے۔ تاریخ اسلام شاہد ہے کہ جب تک دین حق کا سیاسی غلبہ بحال رہا اور معاشرے میں اقدار حیات بالفعل موجود رہیں۔ اس وقت تک احکام شریعت کا نفاذ، طریقت کی تعلیم اور عقائد کا پرچار صحیح نتائج پیدا کرتا رہا۔ جب سے ہمارے معاشرے میں معیاری دین مضمحل ہوا، اسلام کا سیاسی غلبہ و استعلاء باقی نہ رہا۔ معاشی آزادی اور استحکام معدوم ہوگیا اور معاشرتی وحدت اور انصاف کی بنیادیں قائم نہ رہیں تو اقدار حیات تہس نہس ہوگئیں۔ وہ دینی ادارے جن کے ذریعے شریعت، طریقت اور عقائد کی تعلیم و تربیت کا کام ہو رہا تھا، اپنی تمام ترکاوشوں کے باوجود بے اثر ہو کر رہ گئے۔ عقائد اوہام میں بدل گئے اور شریعت و طریقت مردہ رسوم میں۔ عقائد اور احکام کا کوئی اثر باقی نہ رہا۔ عملی زندگی کا علاقہ معمول بہ دین کی تعلیمات سے منقطع ہوگیا۔ چنانچہ ان کی صحت و ضرورت پر استدلال بجائے زندگی میں عملی نتائج کے حوالے سے، محض منطقی، فلسفیانہ اور متکلمانہ دلائل سے ہونے لگا۔ جس سے معاشرے کی عملی زندگی پر موت طاری ہوگئی۔ اگر اب بھی علماء و واعظین محض اسی انداز کی تبلیغ اور تعلیم سے معاشرے کے احوال بدلنا چاہیں تو یہ آرزو کیونکر اثر آور ہوسکتی ہے؟

اس لئے اس وقت قومی زندگی کو ہمہ گیر انقلاب سے بہرہ یاب کرنے کے لئے پھر سے معیاری دین کی اس جدوجہد کی ضرورت ہے۔ جس سے سیاسی قوت و اقتدار اہل حق کے ہاتھوں میں منتقل ہو اور قوم کی سیاسی زندگی مثبت انقلاب سے آشنا ہوسکے۔ معاشرے کے اندر ایسا معاشی انقلاب بپا ہو۔ جس سے ہر فرد کی زندگی معاشی تعطل سے پاک ہو تاکہ اس کی تخلیقی جدوجہد بحال ہوسکے اور پھر معاشرہ ایسے سماجی انقلاب سے ہمکنار ہو کہ ہر قسم کا ظلم و استحصال اور نا انصافی و ناہمواری کلیۃ ختم ہو جائے۔ تاکہ افراد کو اپنے فرائض بجا لانے اور دوسروں کے حقوق ادا کرنے کا محرک فراہم ہو جائے۔ اس لائحہ عمل کو اپنانے سے معاشرے کی اخلاقی اقدار بحال ہوں گی۔ اس کی زندگی میں پھر سے مطلوبہ فضائل پیدا ہوں گے اور تب معمول بہ دین کا نفاذ اپنا وظیفہ صحیح طور پر سر انجام دے سکے گا۔ اور فقہ و شریعت اور مسلک و طریقت کی تعلیمات کے صحیح نتائج سامنے آسکیں گے۔

سیاسی انقلاب مقدم ہے

قومی نصب العین کے حصول کے لئے جس لائحہ عمل کا تذکرہ ہم نے پہلے کیا ہے قرآن مجید متعدد مقامات پر اس کی شہادت مہیا کرتا ہے۔ دین حق کا سیاسی غلبہ و استحکام صحیح طور پر بحال کرائے بغیر معاشرے میں مطلوبہ اخلاقی انقلاب بپا نہیں کیا جاسکتا۔ جب تک سیاسی انقلاب کے ذریعے معیاری دین بحال نہ ہو۔ معمول بہ دین کی برکات و ثمرات سے بہرہ ور نہیں ہوا جاسکتا۔

ابتداء میں بیان کردہ سورۃ النور کی آیت 55 میں صالح مسلمانوں کو زمین میں خلافت یعنی حکومت و سلطنت اور قوت و اقتدار عطا کئے جانے کا ذکر ہے اس کا مقصد یہی بیان کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعے دین حق کو استحکام اور موثر نفاذ کا ماحول میسر آئے۔ کیونکہ سیاسی اقتدار کے بغیر دین کا استحکام اور نفاذ ممکن ہی نہیں۔ اسی طرح یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ سیاسی انقلاب کے بعد ہی معاشرے سے خوف و غم کی حالت کو بدلا جاسکتا ہے اور اس کی جگہ امن و سلامتی کا ماحول پیدا کیا جاسکتا ہے۔ دین کا تمکن اور استحکام درحقیقت اخلاقی انقلاب ہے اور معاشرے کا خوف و غم کے محرکات سے نجات پاکر امن و آشتی کے ماحول سے ہمکنار ہو جانا مطلوبہ سماجی انقلاب۔ یہ اخلاقی اور سماجی انقلاب فی الواقع سیاسی انقلاب کے بعد ہی بپا ہوسکتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن حکیم کی اس آیت سے صراحۃ ثابت ہے کہ خلافت ارضی کے حصول کے بعد ہی زمین میں دینی استحکام اور معاشرتی امن بحال ہوسکتا ہے۔

٭ قرآن مجید حضرت موسی علیہ السلام اور فرعون کے ذکر میں یوں بیان کرتا ہے کہ مصر کا سیاسی اقتدار فرعون کے پاس تھا۔ ہر سمت اس کا حکم چلتا تھا۔ اندریں صورت یہ ممکن نہ تھا کہ موسی علیہ السلام کی محض دعوت و تبلیغ سے مطلوبہ انقلاب بپا ہو۔ لوگ کھلے بندوں آپ پر ایمان لے آتے اور دین حق کو فروغ ملتا۔ اسی صورت حال کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:

 فَمَا آمَنَ لِمُوسَى إِلاَّ ذُرِّيَّةٌ مِّن قَوْمِهِ عَلَى خَوْفٍ مِّن فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِمْ أَن يَفْتِنَهُمْ وَإِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِي الْأَرْضِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الْمُسْرِفِينَo

(يونس:83)

’’پس موسیٰ (علیہ السلام) پر ان کی قوم کے چند جوانوں کے سوا (کوئی) ایمان نہ لایا، فرعون اور اپنے (قومی) سرداروں (وڈیروں) سے ڈرتے ہوئے کہ کہیں وہ انہیں (کسی) مصیبت میں مبتلا نہ کر دیں، اور بے شک فرعون سرزمینِ (مصر) میں بڑا جابر و سرکش تھا اور وہ یقینا (ظلم میں) حد سے بڑھ جانے والوں میں سے تھا‘‘۔

اس آیت کریمہ نے متذکرہ بالا حقیقت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے کہ باطل طاغوتی قوت و اقتدار کے ہوتے ہوئے حق کو قبول عام اور فروغ تام ملنا دشوار تھا لوگ صاحب اقتدار کے ظلم و تشدد کے خوف سے اسلام کے دائرے میں داخل ہونے کے لئے تیار نہ تھے۔ اندریں صورت وہاں بھی پہلے سیاسی انقلاب مطلوب تھا۔ جس سے دین حق کو قبول و استحکام نصیب ہو اور اس کے بعد ہی مطلوبہ اخلاقی انقلاب بپا ہوسکتا تھا۔ بنی اسرائیل کو فرعون کے دست تظلم سے نجات دلائے بغیر بعثت موسوی کا مقصد پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکتا تھا۔

چنانچہ آپ کو حکم دیا گیا کہ سب سے پہلے دربار فرعون میں جاکر دعوت حق دیں۔ اگر ایوان اقتدار میں انقلاب بپا ہوگیا تو پوری قوم کے لئے سیدھی راہ پر چلنا آسان ہو جائے گا۔ باری تعالی نے موسی علیہ السلام کو ارشاد فرمایا:

اذْهَبْ إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَىo

(طه: 24)

’’تم فرعون کے پاس جاؤ وہ (نافرمانی و سرکشی میں) حد سے بڑھ گیا ہے‘‘۔

جب اس کام کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی درخواست پر آپ کے بھائی ہارون علیہ السلام کو آپ کا وزیر اور شریک کار بنا دیا گیا تو پھر دونوں کو حکم ہوا:

اذْهَبَا إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَىo

(طه: 43)

’’تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ بے شک وہ سرکشی میں حد سے گزر چکا ہے‘‘۔

اس کے بعد انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ تمہیں ایوان اقتدار میں پیغام حق پہنچا کر بنی اسرائیل کی سیاسی آزادی کا مطالبہ کرنا ہے:

فَأْتِيَاهُ فَقُولَا إِنَّا رَسُولَا رَبِّكَ فَأَرْسِلْ مَعَنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا تُعَذِّبْهُمْ

(طه: 47)

’’پس تم دونوں اس کے پاس جاؤ اور کہو: ہم تیرے رب کے بھیجے ہوئے (رسول) ہیں سو تو بنی اسرائیل کو (اپنی غلامی سے آزاد کرکے) ہمارے ساتھ بھیج دے اور انہیں (مزید) اذیت نہ پہنچا‘‘۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قومی آزادی کا نہ صرف مطالبہ کیا بلکہ بالاخر بصورت ہجرت اپنی قوم کو سیاسی آزادی کی دولت سے بہرہ ور بھی کیا۔ کیونکہ اس کے بغیر ان کی جدوجہد اپنے اتمام کو نہیں پہنچ سکتی تھی۔

٭ قرآن مجید میں حضرت یوسف علیہ السلام کی نسبت مذکور ہے کہ انھوں نے فرعون مصر کے دربار میں معتمد اور معزز تسلیم ہو جانے کے بعد یہ مطالبہ کیا کہ مجھے زمین میں تصرف اور اقتدار دیا جائے تاکہ وہ ہدایت ربانی کے مطابق اصلاح احوال کی موثر اور نتیجہ خیز کوشش کرسکیں۔ ارشاد ہوتا ہے۔

قَالَ اجْعَلْنِي عَلَى خَزَآئِنِ الْأَرْضِ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌo وَكَذَلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ يَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاءُ نُصِيبُ بِرَحْمَتِنَا مَن نَّشَاءُ وَلاَ نُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَo

(يوسف: 55، 56)

’’یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا: (اگر تم نے واقعی مجھ سے کوئی خاص کام لینا ہے تو) مجھے سرزمینِ (مصر) کے خزانوں پر (وزیر اور امین) مقرر کر دو، بے شک میں (ان کی) خوب حفاظت کرنے والا (اور اقتصادی امور کا) خوب جاننے والا ہوں۔ اور اس طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو ملک (مصر) میں اقتدار بخشا (تاکہ) اس میں جہاں چاہیں رہیں۔ ہم جسے چاہتے ہیں اپنی رحمت سے سرفراز فرماتے ہیں اور نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتے‘‘۔

حضرت یوسف علیہ السلام کا پیغمبرہو کر سیاسی قوت و اقتدار کو طلب کرنا اور منصب حکومت پر فائز ہونا اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ اس ذریعے کو اپنائے بغیر ان کا مقصد بعثت پورا نہیں ہوسکتا تھا۔ ورنہ وہ کسی قسم کی جاہ و حشمت اور عہدہ و منصب کے خواہشمند نہ تھے اور نہ ہی ان کے لئے سیاسی اقتدار مقصود بالذات تھا۔

٭ خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ دعا تلقین کی گئی ہے:

وَ قُلْ رَبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطَاناً نَّصِيْراً.

(بنی اسرائيل: 80)

’’اور آپ (اپنے رب کے حضور یہ) عرض کرتے رہیں: اے میرے رب! مجھے سچائی (و خوشنودی) کے ساتھ داخل فرما (جہاں بھی داخل فرمانا ہو) اور مجھے سچائی (و خوشنودی) کے ساتھ باہر لے آ (جہاں سے بھی لانا ہو) اور مجھے اپنی جانب سے مدد گار غلبہ و قوت عطا فرمادے‘‘۔

باری تعالیٰ کی طرف سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس دعا کی تعلیم اس حقیقت کی غمازی کرتی ہے کہ غلبہ حق کا وہ عالمگیر مشن جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مقصد بعثت کے طور پر عطا کیا گیا تھا ایک ہمہ گیر سیاسی انقلاب اور اس کے نتیجے میں ایک موثر سیاسی اقتدار کی تائید و حمایت کے بغیر تکمیل پذیر نہیں ہوسکتا تھا۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس امر کی دعا فرمائی اور اسی راستے پر جدوجہد جاری رکھی۔ حتی کہ مدینہ کی اسلامی ریاست کے قیام‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سربراہی مملکت کے انعقاد اور عالم کفر کے مقابلے میں اسلام کی سیاسی فتوحات کے ذریعے وہ جدوجہد اپنے اتمام کو پہنچی۔ سیاسی انقلاب کے تقاضے کو پورا کرنے سے ہی حق کا غلبہ اور باطل کی شکست مسلم ہو سکتی تھی۔ چنانچہ مذکورہ بالا دعائیہ کلمات کے بعد یہ اعلان کیا گیا:

وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًاo

(بنی اسرائيل:81)

’’اور فرما دیجیے: حق آگیا اور باطل بھاگ گیا، بے شک باطل نے زائل و نابود ہی ہو جانا ہے‘‘۔

مذکورہ بالا تمام آیات سے اس امر پر روشنی پڑتی ہے کہ قرآنی شہادت کے مطابق یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ معیاری دین یعنی اسلام کا سیاسی غلبہ و استحکام اور انقلابی قوت و اقتدار صحیح طور پر بحال کرائے بغیر معاشرتی اور اخلاقی انقلاب بپا کرنا ناممکن ہے۔ اس امر کا بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سیاسی انقلاب ہی مقاصد اور نتائج کو محفوظ رکھ سکتا ہے۔ لہذا سیاسی اور معاشی انقلاب ہی کی راہ ایسی راہ ہے جس کے ذریعے معاشرہ اخلاقی و سماجی انقلاب سے ہمکنار ہوتا ہے اور دین اسلام کے نفاذ کو تاثیر اور نتیجہ خیزی میسر آتی ہے۔ ورنہ عبادات و معاملات شریعت کا پرچار ہو یا اخلاق و روحانیت کی تعلیم، حدود شریعت کا نفاذ ہو یا دیگر تعلیمات اسلامی کی تبلیغ، قوم اجتماعی طور پر منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتی۔ قوم کے منز ل مراد تک پہنچنے کا لائحہ عمل صرف سیاسی او رمعاشی انقلاب ہی ہے جو اپنے نتیجے کے طور پر سماجی اور اخلاقی انقلاب کو جنم دیتا ہے اور ایک ایسے مثالی معاشرے کی تشکیل وجود میں آتی ہے جو عالمی سطح پر غلبہ اسلام کی خاطر انقلاب کا ضامن ہو۔

سیاسی غلبے کی ناگزیریت

قومی زندگی تین بنیادی شعبوں پر مشتمل ہے۔ سیاسی، معاشی اور معاشرتی۔ یہ تینوں شعبے اطاعت اور انحراف کے تضاد پر مبنی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک مخصوص نوعیت کے بگاڑ سے ہمکنار ہے ۔ معاشی اور معاشرتی شعبوں کی اصلاح بھی اساسی طور پر سیاسی شعبے کی اصلاح سے وابستہ ہے۔ جب سیاسی انقلاب کا مقصد سیاسی غلبہ اور حصول اقتدار لیا جاتا ہے تو اس سے یہ مغالطہ پیدا ہونے کا امکان ہے کہ یہ انقلاب بھی تمام سیاسی انقلابات کی طرح محض حصول اقتدار کا ذریعہ ہوگا یا اہل حق کی تمام تر کوششوں کاماحصل ہی سیاسی غلبے کی صورت میں کرسی اقتدار پر قابض ہونا ہے، ایسا ہرگز نہیں ۔ بلکہ اسلام میں سیاسی غلبے کا معنی ’’صرف دین حق کے لئے قوت نافذہ کا حصول‘‘ ہے یہ انقلاب برائے اقتدار نہیں ہوگا بلکہ ’’انقلاب برائے غلبہ دین حق‘‘ ہوگا۔ ذیل میں اس کی ناگزیت کے چند گوشے زیر بحث لائے جاتے ہیں۔

1۔ مصطفوی انقلاب کی اخلاقی اساس

اللہ تعالی نے مقصد بعثت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:

هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ

(التوبة: 33)

’’وہی (اللہ) ہے جس نے اپنے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو ہر دین (والے) پر غالب کر دے‘‘۔

صاف ظاہر ہے کہ لیظھرہ کا مدعا اس وقت پورا ہوگا جب قوت نافذہ باطل سے چھن کر اہل حق کے پاس آجائے گی اور یہ اس وقت ممکن ہے جب اہل حق کا سیاسی غلبہ ہوگا۔ قوت اقتدار و قوت نافذہ دیندار صالح اور خدا رسیدہ افراد کے ہاتھوں میں ہوگی اور پورامعاشرہ صالحیت، صداقت اور شرافت و نجابت کا آئینہ دار ہوگا۔ کیونکہ جب قوت نافذہ کی موجودگی میں حق کو اوپر سے نافذ کیا جاتا ہے، ہر فتنے کو قوت بازو سے دبا دیا جاتا ہے، بے حیائی، فحاشی، عریانی اور بدکاری کے مصادر کا وجود ختم کرکے معاشرے کو تمام ناپاک عناصر سے پاک کر دیا جاتا ہے اور بے حیائی و بدی کو جڑوں سے اکھیڑ کر پھینک دیا جاتا ہے تو پوری فضا پھر خود بخود نیکی کے لئے ہموار ہو جاتی ہے۔ احوال و کیفیات زندگی میں خوشگوار تغیر رونما ہوتا ہے اور دینی و مذہبی اقدار کا تقدس بحال ہوجاتا ہے جب دینی اقدار کو پنپنے کاموقع ملتا ہے تو تہذیب و ثقافت میں بھی دینی رنگ غالب آتا ہے اس طرح پورا معاشرہ اسلامی بن جاتا ہے۔

دعوت و تربیت تو پہلے سے جاری ہوتی ہے۔ جب اوپر سے نیکی کا ماحول ملتا ہے تو یہ نیکی برق رفتاری سے معاشرے میں پھیل جاتی ہے۔ اس کے برعکس اگر اقتدار باطل کے پاس رہے، پوراماحول برائی کی لپیٹ میںہو اور صبح و شام ٹی وی، ریڈیو، اخبار ات و رسائل ، سینما، سوشل میڈیا اور اس طرح کے دیگر ذرائع ابلاغ مسلسل بے حیائی، عریانی اور فحاشی پھیلا رہے ہوں۔ اس صورت میں ہم نسل نو کونگا ہیں پاک رکھنے کے لاکھ درس دیتے رہیں وہ بے اثر رہے گا۔ شب و روز کے چوبیس گھنٹوں میں اگر دو گھنٹے بفرض محال نماز کی ادائیگی کی صورت میں نیکی میں گزرتے بھی ہوں تو بھی پوری زندگی کیونکر صالح بن سکتی ہے؟ وہاں دل و نگاہ کیسے صاف ہوں گے جہاں پاکیزہ شے دیکھنے کو نہ ملے۔ نیک بات سنائی ہی نہ دے۔ الغرض ایسے حالات میں وعظ و تبلیغ بھی غیر موثر ہو جاتی ہے۔ لہذا زندگیاں بدلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، زندگیاں تب ہی بدلتی ہیں جب بدی کو دبانے اور نیکی کو پھیلانے کے لئے پوری فضا ہموار ہو۔ ورنہ اقتدار اہل کفر کے ہاتھ میں رہے اور انسان یہ کہے کہ تقوی یا نیکی کا حصول تو ہر شخص کا انفرادی معاملہ ہے حکومت اس کے حصول میں کیا رکاوٹ ڈال سکتی ہے۔ بس مسلمانوں کو اگر نماز ادا کرنے، زکوۃ دینے، روزے رکھنے اور حج کرنے کی اجازت ہے تو سارا دین قائم ہے۔ مسلمان کا کام تو اللہ اللہ کرنا ہے اور وہ تو اقتدار کے بغیر بھی ممکن ہے۔ یہ سوچ شکست خوردہ ذہنیت کی آئینہ دار ہے، مقصد بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ناآشنا لوگوں کی سوچ ہے اور امت مسلمہ کے تشخص اور عالمی وقار سے عدم آگہی کی علامت ہے۔ یہ ان لوگوں کا موقف ہے جو صرف نماز روزہ کی پابندی کو ہی کل دین سمجھتے ہیں۔ وہ لوگ ناداں، عاقب نااندیش اور کم فہم ہیں۔

ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد

یہ کہ اگر اسلام محض مسجد میں ہے اسکا مطلب یہ نہیں کہ اسلام پورے معاشرے میں موجود ہے یا اگر مسلمانوں کو مسجد میں آنے جانے سے کوئی نہ روکے تو اس سے قیاس کر لیا جائے کہ اسلام مکمل آزاد ہے۔ نہیںاسلام اس دن آزاد ہوگا جس دن مسجد والا اسلام گلی کوچوں، گھروں اور بازاروں میں ہوگا اور یہ تب ممکن ہوگا جب اللہ تعالی اپنے بندوں کو اقتدار کے ذریعے تمکن عطا فرمائے گا اوراللہ تعالی کی طرف سے تمکن تب حاصل ہوگا جب اہل حق باطل استعماری قوتوں کے پنجے مروڑ کر ان پر سیاسی غلبہ حاصل کر لیں گے۔

2۔ مصطفوی انقلاب کی معاشی و اقتصادی اساس

انسان کسی حال میں بھی اسباب معیشت سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ تنگ دستی، بھوک اور افلاس کی موجودگی میں اس کی بندگی بھی ناقص رہتی ہے۔ ضروریات زندگی میسر ہوں تو انسان کا دل مطمئن ہوتا ہے اور دل میں اطمینان و سکون ہو تو اسے عبادت و ذکر الہی کی لذت بھی نصیب ہوتی ہے۔ نظام سیاست و معیشت اگر چند سرمایہ داروں، جاگیرداروں، وڈیروں اور بڑے بڑے زمینداروں کے قبضے میں ہو تو خوشحالی بھی انہی لوگوں کا پیدائشی حق سمجھا جاتا ہے۔ غریب، نادار اور بے سہارا لوگ زندگی کی معمولی اور بنیادی ضروریات کے لئے بھی سسک رہے ہوتے ہیں، ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک ہوتا ہے۔ اس معاشی تعطل کے شکار انسان ہزاروں آرزوئیں سینے میں دبائے قید حیات سے خلاصی پاکر موت کی دہلیز پر جا پہنچتے ہیں۔ بصورت دیگر اگر کوئی زندگی کاساتھ دینا چاہے تو اسے حرام کی کمائی سے اپنے اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنا پڑتا ہے۔ جس سے رشوت، غبن، چوری، ملاوٹ اور دھوکہ دہی جیسی ان گنت معاشرتی برائیاں انسانی معاشرے کو جہنم زار بنا دیتی ہیں۔ یہی حالت انفرادی زندگی سے لے کر قومی اور ملکی زندگی تک طاری ہوتی ہے۔ ایک فرد کی طرح جب ایک ملک معاشی بدحالی کا شکار ہوتا ہے تو اسے غیروں سے بھیک مانگنی پڑتی ہے اور یوں اس کی تمام تر خودداری اور آزادی کا سودا ہو جاتا ہے۔ یہی حالت آج پاکستان سمیت بہت سے اسلامی ممالک کی ہے۔ مغربی ممالک مالی امداد کے بہانے ہمارے معاشروں کو اپنی تہذیب و ثقافت سے آلودہ کر چکے ہیں۔ ہم معاشی میدان میں باطل کے محتاج ہو کر عملی سیاست کے میدان میں بھی اس کے ہاتھوں بک چکے ہیں۔

اندریں حالات ایسا سیاسی انقلاب ناگزیر ہے جس کے بعد فرد، معاشرہ اور ملک اسلام کے فیض رساں نظام معیشت سے اپنے قدموں پر کھڑا ہوسکے۔ پھر خود بخود اخلاقی اور سماجی انقلاب آتے ہیں۔ سیاسی انقلاب کے بعد وہ تمام اقتداری اجارہ داریاں جنہوں نے معاشرے میں غیر فطری تفاوت پیدا کر دی ہے، مواخات کی طرز پر ختم ہوجاتی ہیں۔ پھر دولت مند اور تنگ دست کے درمیان خلیجیں وسیع نہیں ہوتیں بلکہ دونوں اعتدال پر آکر ایک دوسرے کے دکھ درد بانٹتے ہیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ طبیہ میں سیاسی تمکن حاصل کرنے کے فوراً بعد نظام صلوۃ یا مذہبی اصلاح پر زور نہیں دیا بلکہ پہلے مواخات مدینہ کے ذریعے معاشی مسائل حل فرمائے۔

باطل اقتدار کے اثرات

آج اگر معاشرے میں دین کو تمکن نہیں، دیندار افراد ڈھونڈنے سے نہیں ملتے اور دینی اقدار عنقاء ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ سیاسی غلبہ اہل حق کے پاس نہیں۔ بدامنی، چوری، ڈاکے، قتل و غارت گری، اغواء عزت وناموس اور عفت و عصمت کے لٹنے کے ہزاروں واقعات جو ہمارے نام نہاد اسلامی معاشرے میں آئے دن رونما ہوتے رہتے ہیں کیا یہ باطل اقتدار کے تحائف نہیں؟ اور عبادت کا یہ حال کہ

مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے

رہ گئی رسم آذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی

اول تو غیر مومنانہ معاشرے میں نماز کوئی پڑھتا ہی نہیں اور اگر اکا دکا کسی وجہ سے مسجد میں چلا جاتا ہے تو اس کی نمازوں میں وہ اثر نہیں جو زندگی میں انقلاب بپا کریں۔ معاشرتی اور سماجی مسائل اس قدر ہیں کہ کسی وقت بھی انسان یکسوئی سے یاد الہی کا حق ادا نہیں کرسکتا۔ وہ نماز اگر پڑھتا بھی ہے تو بے سرور اوربے حضور اس کی عبادتوں کو دیکھ کر یہی کہنا پڑتا ہے کہ

ایسی نماز سے گزر ایسے امام سے گزر

ظاہر ہے کہ جب تک انسان خوف و غم سے نجات حاصل نہیں کر لیتا اور ذہن دنیا کی الجھنوں سے پاک نہیںہوتا عبادت میں خلوص کیسے پیداہوگا؟ اور اگر نماز میں بھی دل ضروریات زندگی کے حصول، جان و مال کے عدم تحفظ اور دیگر مسائل میں الجھا رہے تو سجدے تو خود بخود بے حضور ہوں گے۔ ایسے حالات میں نماز کی یہی حالت ہوسکتی ہے جو اقبال نے یوں بیان کی۔

جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمین سے آنے لگی صدا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں

معاش کا پجاری ذہن ’’يعبدوننی‘‘ کے سرور سے کیسے آشنا ہو؟ یہ مزے اسی دن ملتے ہیں کہ مسلمان ہر قسم کے فکر سے آزاد ہو کر عبادت کے مصلے پر کھڑا ہو اور یہ تب ہوگا جب سیاسی غلبہ اہل حق کے پاس ہوگا۔ خالی دعوت و تبلیغ اور اللہ اللہ کرنے سے سیاسی غلبہ نہیںملتا بلکہ قرآن تو اس بات کی بھی نشاندہی فرماتا ہے کہ سیاسی غلبہ حاصل کئے بغیر جو لوگ اللہ کو یاد کرنا چاہیں انہیں اپنے وطن سے نکال دیا جاتا ہے۔ اور انہیں غریب الوطنی کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں۔

الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ.

(الحج: 40)

’’(یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اﷲ ہے‘‘۔

اسی آیت کے اگلے الفاظ ربانی سیاست کا ایک عالمی اصول دیتے ہیں۔

وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا.

(الحج:40)

’’اور اگر اﷲ انسانی طبقات میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ (جہاد و انقلابی جدو جہد کی صورت میں) ہٹاتا نہ رہتا تو خانقاہیں اور گرجے اور کلیسے اور مسجدیں (یعنی تمام ادیان کے مذہبی مراکز اور عبادت گاہیں) مسمار اور ویران کر دی جاتیں جن میں کثرت سے اﷲ کے نام کا ذکر کیا جاتا ہے‘‘۔

مراد یہ ہے کہ حق و باطل کے درمیان ٹکراؤ و تصادم اور باطل کے خلاف غیر مصالحانہ جنگ جو آخری فتح تک جاری رہے ایک بدیہی امر اور قانون قدرت ہے۔ بفرض محال یہ نہ ہو اور اہل حق اہل باطل کے ساتھ کھلی جنگ نہ کریں تو اہل باطل کی غارت گری سے اہل حق ہمیشہ مظالم کا شکار رہیںگے۔ اس لئے فرمایا جا رہا ہے کہ اگر ہم یہ انقلابی معرکے بپا کرکے باطل کے ہاتھوں سے اقتدار چھیننے کا نظام وضع نہ کرتے اورفقط دعوت، تبلیغ و تربیت کے ذریعے قوت حاصل کرنے کی کوشش کا ہی حکم دیتے تو طاقت حاصل کرنا تو کجا تمہاری عبادت گاہیں ہی مسمار ہو جاتیں جہاں تم اللہ کی یاد اور اس کا ذکر کرتے ہو۔

آج یہ حقیقت کس قدر واضح ہے کہ ہم نے جب سے انقلابی طرز عمل ترک کیا ہے اور ملی سطح پر روحانی تبلیغ و دعوت پر ہی زور رکھا ہے ہماری مسجدیں خالی اور خانقاہیں ویران ہوگئی ہیں۔ کیا فرمان قرآن حرف بحرف درست ثابت نہیں ہو رہا؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ جب سے رسم حسینی پر عمل کرتے ہوئے معرکہ ہائے کرب و بلا میں یزیدی قوتوں کے خلاف سربکف ٹکرلینا چھوڑ دی گئی، اسوہ شبیری کی پیروی میں اپنے خون سے دین کے ناموس کو بچانے کے لئے اپنے سینے تان کر تمام باطل، سامراجی اور منافقانہ قوتوں کو للکارنا ترک کردیا اور اپنے تن من دھن کی بازی لگا کراللہ کے سچے اور آخری دین کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کے فریضے سے ہم غافل ہوگئے، ہمارا قومی اور ملی تشخص بھی گیا اور ہمارے معاشروں سے دینی اور مذہبی اقدار بھی دم توڑ گئیں۔

نتیجہ یہ کہ آج ہم جغرافیائی طور پر آزاد ہو کر بھی کافرانہ نظام کے سامنے ذہنی، فکری، سیاسی معاشی اور معاشرتی و سماجی اعتبار سے بے دست و پا اور غلامانہ زندگی گزار رہے ہیں۔ آج کونسا اسلامی ملک ایسا ہے جو یہود و نصاری اور ہندو بنئے کے دست ظلم سے آزاد ہے؟ وہ کون سا معاشرہ ہے جہاں خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقیقی غلامی رائج ہے؟ جہاں اسلامی تہذیب و ثقافت پنپ رہی ہے اورجہاں باطل کے خلاف فیصلہ کن جنگ کی تیاریاں ہو رہی ہیں؟ یہ سب کچھ کیوں نہیں ہو رہا؟ اس لئے کہ ہم منشاء قرآنی (حق کا تصادم) کو بھول چکے ہیں۔

قرآن غلبہ اقتدار اورعبادت گاہوں کی آبادی کا راز ہی حق و باطل کے درمیان تصادم میں بتا رہا ہے کہ یہ معرکے بپا ہوتے رہیں کہ انجام کار حق غالب آجائے اور باطل سے اقتدار چھن کر اہل حق کے پاس آئے۔ جب ہر سطح پر حق غالب ہوگا تو اللہ تعالی کا ذکر بھی کثرت سے ہوگا۔ عبادت میں خلوص اور خشیت بھی زیادہ ہوگی اور افراد معاشرہ خواہشات کے بتوں کی پوجا بھی نہیں کریں گے۔ قرآن اس طرف ہی متوجہ کرتا ہے کہ باطل کی زیادہ قوت اور سامان حرب و ضرب کی کثرت سے گھبرا کر یہ نظام معرکہ آرائی ترک نہیں کرنا چاہیے بلکہ اللہ کے راستے میںجہاد کرنے والوں کو یہ علم ہونا چاہیے کہ ان کے ساتھ کائنات کی وہ عظیم طاقت موجود ہے جس کے سامنے وقت کی کوئی بھی باطل طاقت رائی کے دانے سے بھی کمتر ہے۔

وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌo

(الحج: 40)

’’اور جو شخص اﷲ (کے دین) کی مدد کرتا ہے یقینًا اﷲ اس کی مدد فرماتا ہے۔ بے شک اﷲ ضرور (بڑی) قوت والا (سب پر) غالب ہے (گویا حق اور باطل کے تضاد و تصادم کے انقلابی عمل سے ہی حق کی بقا ممکن ہے)‘‘۔

قرآن مجید کے ان ارشادات کا مقصود یہ ہے کہ اہل حق باری تعالی سے سودا کر لیں اور دین حق کی خدمت کے لئے اگر سربکف ہو جائیں تو نصرت ایزدی ضرور انکی مددگار ہوگی۔ یہاں بندوں کے ساتھ اپنی مدد کے وعدے کو لام تاکیدو نون ثقیلہ کے ذریعے دوتاکیدوں کے ساتھ ارشاد فرمایا اور قسمیہ انداز سے فرمایا۔ میرے بندو تم ایک بار کمر ہمت باندھ کر میرے راستے پر نکلو تو سہی پھر دیکھو میں کن کن ذریعوں سے تمہاری مدد کرتا ہوںاور اگر تمہارے ذہن میں آئے کہ ان مشکل ترین حالات میںجب کہ باطل خطرناک ترین اسلحہ سے لیس ہے اور ہم تہی دامن ہیں تو خدا کس طرح ہماری مدد کرسکے گا؟ فرمایا: تمہیں معلوم نہیں؟ کہ سب سے بڑھ کر طاقتور اور غلبے والا صرف اللہ ہے۔

چنانچہ اس طرح مسلمانوں کو سیاسی غلبہ حاصل کرنے کیلئے باطل کے ساتھ تصادم پر ابھارنے کے بعد انہیں اس کے ثمرات سے بھی آگاہ فرمایا۔ اور نظام صلوۃ و زکوۃ اور دعوت و تبلیغ کو سیاسی غلبے کے ساتھ مشروط کرتے ہوئے فرمایا:

الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِo

(الحج:41)

’’(یہ اہلِ حق) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں (تو) وہ نماز (کا نظام) قائم کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں اور (پورے معاشرے میں نیکی اور) بھلائی کا حکم کریں اور (لوگوں کو) برائی سے روک دیں، اور سب کاموں کا انجام اﷲ ہی کے اختیار میں ہے‘‘۔

یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ ان شرطوں کے بعد چار چیزوں کا ذکر بطور جزا کیا گیا ہے کہ اگر اہل حق کو تمکن فی الارض یعنی اقتدارحاصل ہوگا تو:

  1. نظام صلوۃ قائم کیا جائے گا پھر چند لوگ ہی نہیں پورا معاشرہ نمازی ہوگا۔
  2. نظام زکوۃ نافذ العمل ہوگااور لوگوںکے معاشی مسائل حل ہوں گے۔
  3. نیکیوں کاچرچا ہوگااور سماجی و معاشرتی برائیوں کا قلع قمع کیا جائے گا۔
  4. برائی کے خلاف موثر جہاد ہوسکے گا۔

ایسا معاشرہ ہی حقیقی معنوں میں اسلامی معاشرہ کہلانے کا مستحق ہوگا جس کا قیام غایت دین حق ہے۔